گم شدہ خطوط ۔۔۔ ترجمہ: محمد عمر میمن

ذیل میں میلان کنڈیرا کے ناول ’’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘‘ (The Book of Laughter and Forgetting) کے چوتھے حصے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں تمینہ نامی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے ؛ تمینہ جو بیوہ ہے، بے وطنی میں اپنے دن گزار رہی ہے، جسے اپنے شوہر سے بے پناہ محبت ہے، اور جو کسی قیمت پر اس کی یاد کو زمانے کے ہاتھوں محو ہوتا ہوا دیکھنے کی روادار نہیں۔ انفرادی زندگی میں المیے کا احساس اور اس احساس کی المیہ شدت جن عوامل سے آتی ہے، وہ ہمیں تمینہ کی سرگزشت میں ملتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دو باتیں بہرحال واضح ہو جاتی ہیں : المیے کی اثر انگیزی نہ کرشن چندرانہ فصاحت کی رہینِ منت ہے اور نہ جدید ترین اردو افسانہ نگاروں کی بلند بانگ لفاظی کی۔ وہ تو اس قسم کے بے سنگار، تقریباً برہنہ جملے سے خود بخود پیدا ہو جاتی ہے : ’’میں دنیا کو تمینہ کے گرد ایک مدوّر چہار دیواری کی طرح اٹھتا ہوا تصور کرتا ہوں، اور خود تمینہ کو بہت نیچے سبزے کی ایک ننھے سے قطعے کی طرح۔ اس قطعے پر پھلنے پھولنے والا واحد گلاب اس کے شوہر کی یاد ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ زندگی کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کے لیے منطقی توازن سے مرصّع ذات کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ تناقضات سے مبرّا ذات کی۔ تمینہ کو خوب معلوم ہے کہ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اپنی مجبوریاں۔ ایک دن، چار و نا چار، اپنے جسم کی ضرورت سے مغلوب ہو کر، اسے کسی غیر مرد کے ساتھ ہم جسم ہونا ہی پڑے گا۔ اور اسے یہ بھی خوب معلوم ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ اس کے شوہر کے ساتھ بے وفائی نہ ہو گی۔ یہ سب تو خیر ہے ہی، لیکن غیر مرد کے ساتھ جب ہم بستری کا وقت آتا ہے تو — یہ آپ خود معلوم کیجیے۔ ترجمہ حاضر ہے۔ اور ہو سکے تو پوری کتاب ہی پڑھ جائیے، اور ہم سب عبقریوں کو بے نقط سنائیے، یا بلکہ کنڈیرا کے ہم زبان ہو کر، پورے خلوص اور پورے المیہ احساس کے ساتھ نعرہ لگائیے : ’’تمینہ اور گیئٹے (Goethe) میں وہی فرق ہے جو انسان اور ادیب میں ہوتا ہے۔‘‘

میلان کنڈیرا کا شمار صفِ اول کے ہمعصر مغربی ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ سن ۱۹۲۹ء میں برنو، چیکوسلوواکیہ، میں پیدا ہوا۔ ۱۹۶۸ء میں جب سوویت یونین نے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کیا تو اس کے نتیجے میں ملک کے دانشوروں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ خود کنڈیرا کو بھی: اسے پراگ کے فلمی مدرسے میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، کام کاج کے دروازے اس پر بند کر دیے گئے، اور اس کی لکھی ہوئی کتابیں کتب خانوں سے اٹھا لی گئیں۔ سن ۱۹۷۵ ء میں کنڈیرا نے فرانس میں جلاوطنی اختیار کر لی۔ کنڈیرا کی تصانیف میں ایک افسانوں کا مجموعہ، ایک ڈراما، اور سات ناول شامل ہیں۔ پہلا ناول ’’مذاق‘‘ (The Joke) اور تازہ ترین ’’لافانیت‘‘ (Immortality) ہیں۔

— مترجم

 

 

1

 

میرے حساب کتاب کے مطابق روئے زمین پر ہر سیکنڈ دو یا تین افسانوی کرداروں کا بپتسمہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ان بپتسمہ دینے والے یوحناؤں کے جم غفیر میں داخل ہونے کی نوبت آتی ہے، میرا سارا اعتماد لڑکھڑا جاتا ہے۔ لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟ مجھے اپنے کرداروں کو کوئی نہ کوئی نام تو بہرحال دینا ہی ہے — ٹھیک ہے نا؟ لیکن اس بار یہ واضح کر دینے کے لیے کہ میری ہیروئن کا واسطہ مجھ سے، اور صرف مجھ ہی سے، ہے (اور مجھے اس سے جو انس ہے وہ کبھی کسی اور سے نہیں رہا)، میں اسے جو نام دے رہا ہوں، اس نام کی عورت اس سے پہلے کوئی نہیں ہوئی: تمینہ۔ میں اسے دراز قامت، حسین، پینتیس سالہ، اور اصلاً پراگ کی باشندہ تصور کرتا ہوں۔

اس وقت میں اسے یورپ کے مغرب میں ایک صوبائی شہر کی ایک سڑک پر جاتا ہوا دیکھ سکتا ہوں۔ جی ہاں، آپ کا خیال بالکل درست ہے۔ میں پراگ کو تو، جو یہاں سے کوسوں دور ہے، اس کے نام سے پکار رہا ہوں، لیکن اِس شہر کو میں نے گمنام رہنے دیا ہے جو میری کہانی کا محلِ وقوع ہے۔ یہ بات تناظر کے تمام اصولوں کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن صاحب، یہ تو اب آپ کو برداشت کرنا ہی ہو گا۔

تمینہ ایک چھوٹے سے کیفے میں ویٹرس کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ یہ کیفے ایک شادی شدہ جوڑے کی ملکیت ہے۔ کیفے سے اتنی کم آمدنی ہوتی تھی کہ شوہر صاحب نے کہیں اور ملازمت کر لی اور ان کی جگہ تمینہ کو رکھ لیا گیا۔ اپنی نئی جگہ پر جو حقیر تنخواہ شوہر کو ملتی تھی، اور اس سے زیادہ حقیر تنخواہ جو وہ تمینہ کو دیتے تھے، تو ان کا فرق ہی بس ان کی واحد نفع بخش آمدنی تھی۔ تمینہ گاہکوں کو کافی اور کیل واڈوس1 لا لا کر پیش کرتی ہے (گاہکوں کی تعداد کبھی بھی زیادہ نہیں ہوتی، کیفے ہمیشہ ہی آدھا خالی ہوتا ہے )، اور پھر بار کے کاؤنٹر کے پیچھے واپس چلی جاتی ہے۔ کاؤنٹر کے دوسری طرف اسٹول پر ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کا منتظر بیٹھا ہوتا ہے۔ سارے گاہک اسے پسند کرتے ہیں : وہ بڑی اچھی سامع جو ہے!

لیکن کیا وہ سچ مچ ان کی لن ترانی سنتی بھی ہے؟ یا صرف خاموشی سے، اپنے خیالات میں محو، ان کی طرف دیکھے جاتی ہے؟ یہ میں وثوق سے نہیں بتا سکتا۔ پھر اس کے جان لینے سے کوئی لمبا چوڑا فرق بھی نہیں پڑتا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کی بات نہیں کاٹتی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب دو آدمیوں میں سلسلۂ کلام چل نکلتا ہے تو کس طرح پہلے ایک آدمی مسلسل بات کیے جاتا ہے اور کس طرح دوسرا یہ کہہ کر قطع کلام کرتا ہے، ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ اور پھر اپنے بارے میں رواں ہو جاتا ہے، تا آنکہ اس کے رفیق کو بھی بیچ میں کہیں ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔

یہ دونوں ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ بظاہر ایک قسم کا اتفاق ہی معلوم ہوتے ہیں، یعنی طرفین میں سے دوسرے کی بات کو ایک قدم آگے بڑھانے کا ذریعہ، لیکن ایسا سوچنا محض خام خیالی ہے۔ اصل میں یہ ایک سفاک قوت کے خلاف اتنی ہی سفاک بیزاری کا اظہار ہوتے ہیں۔ اپنے کان کو غلامی کی بندش سے چھڑانے کی کوشش؛ ایک طرح کا سامنے کا وار جس کا واحد مقصد دوسرے کی قوتِ سامعہ پر حاوی ہو جانا ہوتا ہے۔ خلق و بشر کے درمیان آدمی کی تمام تر زندگی کا مقصد ان کی سماعت پر قابض ہو جانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ تمینہ کی ہر دلعزیزی کا راز صرف اتنا ہے کہ اسے اپنے بارے میں بات چیت کرنے کی ذرا خواہش نہیں۔ اپنی سماعت پر قابض ہونے والی قوتوں کی وہ ادنیٰ سی مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتی: ’’ یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘

 

2

 

بی بی عمر میں تمینہ سے دس سال چھوٹی ہے۔ اِدھر کوئی سال بھر سے وہ تمینہ کو اپنے حالات روز کے روز آ کر بتاتی رہی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا (اور سارا کھٹ راگ اس وقت شروع ہوا) جب ایک روز بی بی نے تمینہ کو بتایا کہ وہ اور اس کا شوہر آتی گرمیوں میں پراگ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اچانک ایسا لگا گویا تمینہ برسوں کی نیند سے چونک پڑی ہو۔ بی بی نے اپنی بات جاری رکھی لیکن (خلافِ عادت) تمینہ نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا، ’’ بی بی، اگر واقعی ـپراگ جانا ہو تو کیا تم میرے والد کے گھر جا کر میرے لیے ایک چیز لا سکتی ہو؟ کوئی بہت بڑی چیز نہیں، بس ایک چھوٹا سا پیکٹ ہے۔ اتنا چھوٹا کہ بہ آسانی تمھارے سوٹ کیس کے ایک گوشے میں آ جائے گا۔‘‘

’’ہاں ہاں، ضرور، کوئی بھی چیز‘‘ بی بی نے کہا — بالکل راضی اور تیار۔

’’ تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ میں کتنی ممنون ہوں گی‘‘ تمینہ نے کہا۔

’’مجھ پر بھروسا رکھو، میں یہ کام ضرور کر دوں گی‘‘ بی بی نے کہا۔ دونوں کچھ دیر تک پراگ کے بارے میں گفتگو کرتی رہیں۔ تمینہ کے رخسار جلنے گے۔

پھر بی بی نے موضوع بدل دیا: ’’ میں — ایک کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

تمینہ نے چیکوسلوواکیہ میں پڑے ہوئے اپنے پیکٹ کے بارے میں سوچا، اور اس خیال سے کہ اس موقعے پر بی بی سے اس کی دوستی کتنی ناگزیر تھی، اس نے اپنی سماعت ایک بار پھر بی بی کے لیے وقف کر دی۔ ’’کتاب؟ کاہے کے بارے میں؟‘‘

بی بی کی یک سالہ بچی ماں کے بار اسٹول کی ٹانگوں کے آس پاس شور مچاتی ہوئی لڑکھڑا رہی تھی۔

’’شش!‘‘ بی بی نے گویا فرش کی تہدید کی اور کسی گہرے خیال میں غرق، سگریٹ کا کش لگایا۔ ’’دنیا کے بارے میں … جس طرح کہ یہ مجھے نظر آتی ہے۔‘‘

بچی اب باقاعدہ چیخنے لگی تھی۔

’’سچ مچ کتاب لکھو گی — ہمت ہے؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔

’’کیوں نہیں؟‘‘ بی بی نے جواب دیا۔ ایک بار پھر وہ محوِ خیال ہو گئی، پھر بولی، ’’ظاہر ہے یہ جاننے کے لیے کہ کتاب کیسے لکھی جاتی ہے، مجھے دوچار اشاروں کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔ تم بناکا (Banaka) کو تو نہیں جانتیں؟ یا جانتی ہو؟‘‘

’’ نہیں۔ مگر یہ ذاتِ شریف ہیں کون؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔

’’ ایک ادیب ہے‘‘ بی بی نے جواب دیا۔ ’’ یہیں آس پاس کہیں رہتا ہے۔ میرے لیے اس سے ملنا اشد ضروری ہے۔‘‘

’’ کیا لکھا ہے اس نے؟‘‘

’’ مجھے نہیں معلوم‘‘ بی بی نے کہا، پھر کچھ سوچتے ہوئے یہ اضافہ کر دیا، ’’اچھا ہو گا کہ میں پہلے اس کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھ ڈالوں۔‘‘

 

 

 

3

 

ٹیلیفون کے رسیور سے جو کچھ برآمد ہوا، وہ احساسِ مسرت سے لبریز کوئی فجائی فقرہ یا تحیّر کہ جس کی وہ توقع کر سکتی ہو، نہ تھا، بلکہ ایک سرد مہر ’’اوہ تم، اچھا۔ اتنے سالوں بعد یاد کیا۔‘‘

’’تمھیں پتا ہے کہ میری مالی حالت اچھی نہیں‘‘ تمینہ نے اعتذاراً کہا،  ’’فون کرنے میں بہت پیسے لگ جاتے ہیں۔‘‘

’’ تو خط لکھ دیا ہوتا۔ ٹکٹ پر تو اتنے پیسے خرچ نہیں ہوتے — یا ہوتے ہیں؟ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ تمھارا آخری خط کب آیا تھا۔‘‘

اس خیال سے کہ شروعات ہی غلط طرح سے ہو گئی ہے، تمینہ کچھ دب سی گئی اور اپنی ساس کی مزاج پرسی کرنے لگی۔ جب یہ تمام تکلّفات پورے ہو گئے، تب کہیں جا کر حرفِ مدعا زبان پر لائی: ’’ایک کام آن پڑا ہے۔ کر دو تو بے حد شکر گذار ہوں گی۔ جب ہم وہاں سے نکل رہے تھے تو پیچھے ایک چھوٹا سا پیکٹ چھوڑ آئے تھے۔‘‘

’’پیکٹ؟‘‘

’’ہاں۔ تم نے اور مریک (Mirek)نے مل کر اسے والد صاحب کے ڈیسک میں مقفل کر دیا تھا۔ اس کی ایک دراز مریک کے لیے وقف تھی — یاد ہے؟ اور مریک نے چابی تمھارے حوالے کر دی تھی۔‘‘

’’چابی؟ مجھے کوئی چابی وابی یاد نہیں۔‘‘

’’مگر اماں، چابی تمھارے پاس ضرور ہونی چاہیے! مریک نے تمھیں دی تھی، میرے سامنے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔‘‘

’’تم لوگوں نے مجھے کچھ نہیں دیا تھا۔‘‘

’’بہت زمانہ ہو گیا ہے۔ ممکن ہے تم بھول بھال گئی ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ ذرا ڈھونڈ ڈھانڈ کر چابی دیکھ لو۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھونڈو گی تو ضرور مل جائے گی۔‘‘

’’اور مل گئی تو پھر کیا؟‘‘

’’ذرا دراز کھول کر اطمینان کر لینا کہ وہ پیکٹ وہاں اب بھی موجود ہے۔‘‘

تو کیا تمھارے خیال میں اس کے پر لگ گئے ہوں گے؟ تم نے خود اسے وہاں رکھا تھا — نہیں؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’تو پھر مجھے دراز کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟ تمھارا کیا خیال ہے، میں تمھاری نوٹ بکس الٹ پلٹ کرتی رہی ہوں؟‘‘

تمینہ دنگ رہ گئی۔ اس کی ساس کو کیسے پتا چلا کہ دراز میں نوٹ بکس تھیں؟ اس نے انھیں حفاظت سے کاغذ میں لپیٹ کر اوپر سے گوند والی ٹیپ لگا دی تھی۔ الغرض اس نے ساس پر اپنی حیرت ذرا ظاہر نہ ہونے دی۔ ’’نہیں نہیں، میرا یہ مطلب نہیں۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم ذرا دیکھ کر اطمینان کر لو کہ یہ وہاں موجود ہیں۔ اگلی دفعہ جب فون کر لوں گی تو پھر کچھ اور بتاؤں گی۔‘‘

’’اس وقت بتانے میں کیا بگڑ جائے گا؟‘‘

’’میں زیادہ دیر فون پر بات نہیں کر سکتی امّاں، بہت پیسے لگ جائیں گے۔‘‘

’’تو پھر فون کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ بڑی بی نے دھڑ دھڑ ٹسوے بہانے شروع کر دیے۔

’’اماں، روؤ مت‘‘ تمینہ نے التجا کی۔ اپنی ساس کا رونا اسے خوب یاد تھا۔ جب کبھی بڑی بی ان دونوں سے کچھ اینٹھنا چاہتیں، ساون بھادوں کی جھڑی لگا دیتیں۔ یہ ان دونوں پر الزام تراشی کا بے حد جارحانہ حربہ تھا۔

رسیور اس کی ہچکیوں سے تھرتھرانے لگا۔ ’’خدا حافظ، امّاں‘‘ تمینہ نے کہا، ’’جلد ہی دوبارہ فون کروں گی۔‘‘

تاہم تمینہ کی ہمت نہ ہوئی کہ بڑی بی کے رونا بند کرنے اور خدا حافظ کہنے سے پہلے فون منقطع کر دے۔ لیکن آنسو مسلسل بہہ رہے تھے، اور ہر آنسو فون کی قیمت میں بھاری اضافہ کیے جا رہا تھا۔

چنانچہ تمینہ نے کھٹ سے سلسلہ منقطع کر دیا۔

’’یہ تو شیطان کی آنت جتنی لمبی کال کر ڈالی تم نے‘‘ تمینہ کے آقا کی بیوی نے وقت کا میزان رکھنے والے آلے کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی سوگوار آواز میں کہا، پھر چیکوسلوواکیہ کے ریٹ سے اس نے کال کی مدتِ وقت کو ضرب دیا، اور تمینہ کال کی قیمت دیکھ کر خاصی وحشت زدہ ہو گئی، تاہم اس نے بغیر آناکانی کیے پوری رقم چٹ پٹ ادا کر دی۔

 

4

 

تمینہ اور اس کا شوہر چیکوسلوواکیہ سے غیر قانونی طور پر نکلے تھے۔ ترکیب یہ کی کہ حکومتی ٹریول ایجنسی میں اپنا نام اس گروہ میں لکھوایا جو یوگوسلاویہ کے ساحلی علاقے کی سیر و سیاحت کو جانا چاہتا تھا۔ اور جب وہاں پہنچ گئے تو گروہ سے کٹ کر آسٹریا ہوتے ہوئے مغرب چلے آئے۔

لوگوں کو مشتبہ نظر آنے سے بچنے کے لیے دونوں نے صرف ایک بڑا سوٹ کیس ہی ساتھ لیا تھا۔ لیکن ٹھیک آخری لمحے میں ان کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے وہ پیکٹ وہیں چھوڑ دیا جس میں ان کے ایک دوسرے کے نام خطوط اور تمینہ کی نوٹ بکس تھیں۔ کسٹم کے معائنے کے دوران ان کے مقبوضہ ملک کے کسی افسر نے اگر ان کا سوٹ کیس کھول کر تلاشی لینی شروع کر دی ہوتی تو اس بنڈل کو دیکھ کراس کا ماتھا ضرور ٹھنکتا: ساحلِ سمندر پر صرف دو ہفتے کی چھٹی منانے کے لیے کون ہوش مند اپنی نجی زندگی کا سارا دفتر ساتھ اٹھائے پھرتا ہے؟ چونکہ وہ اس بنڈل کو اپنے اپارٹمنٹ میں نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، کہ انھیں خوب معلوم تھا کہ فرار ہوتے ہی حکومت ان کا اپارٹمنٹ اپنی تحویل میں لے لے گی، انھوں نے پراگ سے باہر تمینہ کی ساس کے اپارٹمنٹ میں، تمینہ کے مرحوم خسر کی قدیم اور غیر مستعمل ڈیسک میں اسے سینت کر رکھ دیا۔

بیرون ملک تمینہ کا شوہر سخت بیمار پڑ گیا۔ تمینہ صرف اتنا ہی کر سکی کہ بیٹھی موت کے ہاتھوں اسے آہستہ آہستہ فنا ہوتا دیکھتی رہے۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ لاش کو دفنایا جائے یا جلایا؟ اس نے جلانے کو کہہ دیا۔ پھر پوچھا گیا کہ وہ اس کی خاک کو خاکدان میں محفوظ رکھنے کے حق میں ہے یا منتشر کر دینے کے؟ اس خیال سے کہ اس کا ذاتی گھر تو ہے نہیں، اور وہ دستی سامان کی طرح اپنے شوہر کو ہر جگہ اٹھائے پھرنے پر مجبور ہو جائے گی، تمینہ نے اس کی خاک منتشر کرا دی۔

میں دنیا کو تمینہ کے گرد ایک مدوّر چہار دیواری کی طرح اٹھتا ہوا تصور کرتا ہوں، اور خود تمینہ کو بہت نیچے سبزے کے ایک ننھے سے قطعے کی طرح۔ اس قطعے پر پھلنے پھولنے والا واحد گلاب اس کے شوہر کی یاد ہے۔

یا پھر میں تمینہ کے حال کا (جو لوگوں کو قہوے کے پیالے پیش کرنے اور ان کی لن ترانیوں کو بہ کمال خاموشی سننے سے عبارت ہے ) اس طرح تصور کرتا ہوں جیسے لٹّھوں کا کوئی ٹھاٹھہ سطح آب پر بہا جا رہا ہو، جس پر بیٹھی وہ پیچھے کی طرف دیکھے جا رہی ہو، صرف پیچھے کی طرف۔

ان دنوں وہ بڑی حسرت سے یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ ماضی آہستہ آہستہ دھندلا کر اس کی پہنچ سے نکلا جا رہا ہے۔ اپنے شوہر کی باقیات میں اس کے پاس صرف ایک پاسپورٹ سائز کی تصویر رہ گئی ہے۔ بقیہ تمام تصاویر وہیں پراگ والے اپارٹمنٹ میں رہ گئی ہیں، جس پر اب حکومت نے قبضہ کر لیا ہو گا۔ ہر روز وہ اس میلی کچیلی تصویر کو دیکھتی ہے جس کے کونے دستبردِ زمانہ سے تڑ مڑ گئے ہیں۔ اس میں اس کے شوہر کا پورا چہرہ دکھایا گیا ہے (جس طرح کسی مجرم کی تصویر میں ہوتا ہے )۔ شباہت بھی کچھ اتنی واضح نہیں۔ وہ ہر روز تھوڑا سا وقت ایک قسم کی روحانی ریاضت میں گزارتی ہے۔ یہ یاد کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ یک رخی خاکے (profile) میں کیسا لگتا، پھر نصف، اور پھر ایک چوتھائی یک رخی خاکے میں۔ اس کی ناک اور ٹھوڑی کے خط کا معائنہ کرتی ہے۔ روز ہی نئے نئے مبہم اور غیر واضح دھبوں کو دیکھ کر، جن تک پہنچ کر اس کا حافظہ ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور طے نہیں کر پاتا کہ آگے کس سمت میں جائے، مارے دہشت کے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کی مشقوں کے درمیان وہ اس کی جلد کو مع اس کی رنگت، اس کے معمولی نقائص، مثلاً مہین مہین مسّے، گومڑیاں، رگیں، جھائیاں، تصور میں ابھارنے کی کوشش کرتی، لیکن یہ مشکل، بلکہ تقریباً ناممکن ثابت ہوتا۔ اس کا حافظہ جن رنگوں کا استعمال کرتا، تمام غیر حقیقی ہوتے اور انسانی جلد کے صحیح رنگ کے ساتھ انصاف نہ کر پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنے شوہر کی تخئیلی بازیافت کا ایک بہت ذاتی اور منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جب بھی وہ کسی مرد کے آمنے سامنے بیٹھتی تو اس کے سر کو سنگتراش کے armature کے طور پر استعمال کرتی۔ اپنی تمام تر قوتِ ارتکاز کو کام میں لا کے اس آدمی کے چہرے کو اپنے ذہن میں نئے سرے سے ڈھالتی، جلد کے رنگ کو قدرے گہرا کر دیتی، اس پر مسوں اور جھائیوں کا اضافہ کر دیتی، کانوں کی آہستہ آہستہ تراش خراش کرتی اور آنکھوں کو نیلا رنگ دیتی۔

لیکن ان تمام کوششوں سے اگر کچھ ثابت ہوتا تھا تو بس یہ کہ اس کے خاوند کا عکس ہمیشہ کے لیے محو ہو چکا ہے۔ جن دنوں انھوں نے ابھی ابھی ڈیٹنگ شروع کی تھی، اس نے تمینہ سے کہا تھا کہ وہ باقاعدہ ڈائری لکھا کرے اور اس میں دونوں کی زندگی کا حساب کتاب رکھا کرے۔ (وہ عمر میں تمینہ سے دس سال بڑا تھا اور انسانی حافظے کی کمزوری کا اسے بہرحال کچھ اندازہ ضرور تھا۔ ) اول اول تمینہ نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا، یہ تو ان کی محبت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوا۔ اسے اپنے شوہر سے اتنی شدید محبت تھی کہ وہ یہ اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ چیز جسے وہ ناقابلِ فراموش سمجھتی ہے، کبھی فراموش بھی ہو سکتی ہے۔ آخر میں، بہرحال، اس نے وہی کیا جو اس کا شوہر چاہتا تھا۔ یوں اس نے ڈائری لکھنا شروع تو کر دی، لیکن تحریر میں جوش اور ولولہ پیدا نہ کر سکی — اور یہ بات ان نوٹ بکس سے صاف ظاہر ہو جاتی تھی۔ ان میں جگہ جگہ کئی کئی صفحے خالی تھے، پھر اندراجات بھی خاصے شکستہ اور نامکمل۔

 

5

 

اس نے بوہیمیا (Bohemia) میں پورے گیارہ سال اپنے شوہر کے ساتھ گزارے تھے، اور پیچھے پوری گیارہ نوٹ بکس اس کی ساس کے قبضے میں پڑی تھیں۔ شوہر کے انتقال کے فوراً بعد اس نے ایک نوٹ بک خریدی اور اسے گیارہ حصوں میں تقسیم کیا۔ گو وہ کئی نیم فراموش کردہ واقعات اور صورت حالات کو از سر نو شکل دینے میں کامیاب ہو گئی تھی، لیکن یہ بالکل معلوم نہ ہو سکا کہ انھیں درج کرے تو کس حصے میں۔ واقعات کی زمانی ترتیب کا سارا احساس زائل ہو چکا تھا۔

چنانچہ اس نے سب سے پہلے جس کام کا بیڑا اٹھایا وہ یادوں کی بازیافت کا تھا، تاکہ وقت کے بہاؤ میں ان سے ایک ریفرنس پوائنٹ کا کام لیا جا سکے اور یوں وہ ماضی کو دوبارہ تخلیق کرنے میں ایک بنیادی ڈھانچے کی طرح ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر، وہ چھٹیاں جو انھوں نے منائی تھیں، انھیں تعداد میں گیارہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ان میں سے صرف نو ہی یاد کر سکی۔ بقیہ دو حافظے سے اس طرح گم ہو چکی تھیں کہ بازیافت ناممکن تھی۔

ان نو، از سر نو تخلیق کردہ، تعطیلات میں سے ہر ایک کو اس نے اپنی نوٹ بک کے گیارہ حصوں میں جدا جدا درج کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اسے اس پر مکمل اعتماد اسی وقت حاصل ہو سکتا تھا جب اس سال کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہو۔ 1964 میں تمینہ کی ماں کا انتقال ہوا تھا اور معمول سے ایک ماہ بعد ان دونوں نے چند سوگوار تعطیلی ہفتے تترس (Tatras) میں گزارے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے اگلے سال وہ ساحلِ آب کی تفریح کے لیے بلغاریہ گئے تھے۔ اسے 1968 اور 1969 والی تعطیلات بھی یاد تھیں کیونکہ یہ چیکوسلوواکیہ میں ان کی آخری چھٹیاں تھیں۔

(زمانی ترتیب برطرف) اگر بیشتر چھٹیوں کو از سر نو تخلیق کرنے میں اسے بہتر کامیابی ہو بھی گئی تو کرسمس اور نئے سال کے موقعے بالکل قابو میں نہ آ سکے۔ گیارہ میں سے صرف دو کرسمس اور بارہ نئے سالوں میں سے صرف پانچ ہی اسے یاد آ سکے۔

اس نے ان پیار کے ناموں کو یاد کرنے کی کوشش بھی کی جن سے اُس نے اِسے مختلف اوقات میں پکارا تھا۔ تمینہ کے اصلی نام کو اس نے صرف شادی کے بعد کے دو ایک ہفتوں ہی تک استعمال کیا تھا۔ اس کی شفقت اور نرمی اس مشین کی طرح تھی جس سے پیار کے نت نئے نام ڈھلے ڈھلائے نکلے چلے آتے تھے اور اس سے پہلے کہ ان میں کا کوئی نام پیش پا افتادہ ہو جائے، وہ بڑی پھرتی سے ایک اور نیا نام وضع کر لیا کرتا تھا۔ ان بارہ برسوں میں جو دونوں نے ساتھ گزارے تھے، اس نے بیس تیس نام تو کم از کم اسے ضرور دے ڈالے ہوں گے۔ ان سے ہر ایک کا تعلق ان کی زندگی کے ایک خاص اور معینہ دور سے تھا۔

لیکن وہ اس گمشدہ کڑی کو کیسے بحال کر سکتی تھی جو پیار کے کسی مخصوص نام اور وقت کے بہاؤ کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہو؟ یہ کامیابی تو بہت نایاب موقعوں ہی پر ہو سکی۔ مثلاً وہ اپنی ماں کی وفات کے بعد والے دن یاد کر سکتی تھی جب اس کے شوہر نے بالکل قریب آ کر، جیسے اسے کسی خواب سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہو، بڑے تعمیل طلب انداز میں اس کا نام سرگوشیوں میں لیا تھا (اس کا وہ نام جو اس نے اسے اُن دنوں دے رکھا تھا)؛ ہاں، تو یہ نام اسے خوب یاد تھا۔ وہ اسے نہایت اعتماد کے ساتھ 1964 کے تحت درج بھی کر سکتی تھی۔ لیکن بقیہ دوسرے نام چڑیا گھر سے مفرور پرندوں کی طرح، بہ کمال آزادی و جنوں، وقت کے باہر اڑتے پھر رہے تھے۔

یہی وجہ ہے جو وہ اس شدید وارفتگی سے نوٹ بکس اور خطوں کے اس بنڈل کی بازیافت کی خواہاں ہے۔

ظاہر ہے وہ خوب جانتی ہے کہ ان نوٹ بکس میں بہت سی ناخوشگوار باتیں بھی درج ہیں — نا آسودگی کے دن، ازدواجی چپقلشیں، حتیٰ کہ اکتاہٹ اور بیزاری بھی — تاہم یہ چیزیں بے حیثیت ہیں۔ اس نے کب یہ چاہا ہے کہ ماضی شعر میں بدل جائے ؛ وہ تو اس بات کی کوشاں ہے کہ ماضی کو اس کا گمشدہ جسم لوٹا دے۔ اس جذبے کا محرک خواہشِ حسن نہیں، بلکہ آرزوئے حیات ہے۔

سو دیکھیے، وہ وہاں لٹھوں کے ٹھاٹھے پر بیٹھی ہوئی پیچھے کی طرف دیکھے جا رہی ہے، صرف پیچھے کی طرف۔ اس کی زندگی کی ساری پونجی اس سے زیادہ نہیں جو اسے فاصلے میں نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں اس کا ماضی سمٹتا، غائب ہوتا اور پارہ پارہ ہوتا جاتا ہے، خود تمینہ بھی اسی تناسب سے سمٹنا اور دھندلانا شروع کر دیتی ہے۔

وہ ان نوٹ بکس کو دیکھنے کو اس لیے تڑپ رہی ہے کہ ان کی مدد سے اس نئی نوٹ بک میں واقعات کے خستہ حال ڈھانچے کو مکمل کر سکے، اس کو در و دیوار سے آراستہ کر سکے، اور یوں اس کا ایک گھر بنا دے جس میں رہ سکے۔ کیونکہ ایک بری طرح نصب کیے ہوئے خیمے کی طرح اگر اس کی یادوں کا مرتعش ڈھانچا نیچے آ رہا تو پھر تمینہ کے پاس حال کے سوا کچھ باقی نہ بچے گا— وہ حال جو ایک غیر مرئی نقطے کی طرح ہے، اور موت کی طرف آہستہ خرام کوئی لاشے۔

 

6

 

 

تو پھر کیوں اس نے اپنی ساس سے پیکٹ بھیج دینے کی درخواست کرنے میں اتنی دیر لگا دی؟

چیکوسلوواکیہ سے باہر جانے والی ساری ڈاک خفیہ پولیس کے ہاتھوں سے ہو کر ہی جاتی تھی۔ تمینہ اس بات پر کبھی راضی نہ ہو سکی کہ پولیس والے اس کے بے حد نجی معاملات میں دخیل ہوں۔ پھر یہ بھی کہ اس کے شوہر کا نام (جو ہنوز اس کا اپنا نام بھی تھا) اب بھی بلیک لسٹ پر چڑھا ہوا ہو گا، اور پولیس والے ہمیشہ ایسے شواہد اور دستاویزات کے متلاشی رہتے ہیں جن کا تعلق ان کے مخالفین کی زندگیوں سے ہو، حتیٰ کہ ایسے مخالفین سے بھی جو کب کے مر کھپ چکے ہوں۔ (تمینہ اس معاملے میں غلطی پر نہ تھی: پولیس کی مِسلوں پر ہی ہم اپنے جاوداں ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ )

بہ الفاظِ دیگر، اس کی رہی سہی امید بس اب بی بی ہی سے وابستہ ہے۔ اور بی بی سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ بی بی بناکا سے ملنا چاہتی ہے۔ چنانچہ اسے بناکا کی کتابوں میں سے کم از کم ایک کتاب کے پلاٹ سے تو ضرور واقف ہونا چاہیے، یہ تمینہ کا خیال ہے۔ کبھی دورانِ گفتگو اسے اس قسم کے خیال کا اظہار کرنا چاہیے : ’’بالکل ٹھیک۔ اس سے ملتی جلتی بات تم نے فلاں کتاب میں کہی ہے!‘‘ یا: ’’جانتے ہو، تم عین مین اپنے کرداروں کی طرح ہو!‘‘ تمینہ کو خوب معلوم ہے کہ بی بی کے اپارٹمنٹ میں کہیں ایک کتاب کا وجود نہیں۔ یہی نہیں، پڑھنا پڑ جائے تو مارے بوریت کے بی بی کے آنسو نکل آتے ہیں۔ چنانچہ تمینہ کو لازم آتا ہے کہ خود معلوم کرے کہ بناکا کن موضوعات پر لکھتا ہے، اور بی بی کو اس سے گفتگو کے واسطے باقاعدہ تیار کرے۔

ممکن ہے ہیوگو کو، جو کیفے کے باقاعدہ گاہکوں میں سے ہے، کچھ سن گن ہو۔ ’’تم بناکا کو جانتے ہو؟‘‘ تمینہ نے کافی کا پیالہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے دریافت کیا۔

ہیوگو کے منھ سے ہمیشہ بدبو آیا کرتی تھی۔ ورنہ بقیہ اعتبارات سے تمینہ اسے کافی گوارا عادت پاتی تھی: خاموش طبع، شرمیلا، عمر میں تمینہ سے پانچ سات سال چھوٹا۔ وہ ہفتے میں ایک بار کیفے آتا۔ یہاں اس کا مشغلہ باری باری ندیدی نظروں سے ان کتابوں کو جو وہ اپنے ساتھ لاتا تھا اور اتنی ہی ندیدی نظروں سے کاؤنٹر کے پیچھے ایستادہ تمینہ کو دیکھنا ہوتا تھا۔

’’ہاں، میں اسے جانتا ہوں‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’اس کی کسی کتاب کا موضوع بتا سکتے ہو؟‘‘

’’دیکھو تمینہ‘‘ ہیوگو نے کہا، ’’آج تک کسی نے — اور میں تاکیداً کہتا ہوں، کسی نے — اس کی لکھی ہوئی کوئی چیز نہیں پڑھی ہے، یا کم از کم یہ اعتراف نہیں کیا کہ پڑھی ہے۔ وہ دوسرے، تیسرے، بلکہ یوں کہو کہ دسویں درجے کا ادیب ہے۔ سب جانتے ہیں۔ اس کی شہرت صفر کے برابر ہے۔ چنانچہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے اس کے پاس سوائے حقارت کے اور کوئی چیز نہیں۔‘‘

تمینہ نے بناکا کی لکھی ہوئی کتابوں کو حاصل کرنے کی جستجو چھوڑ دی، تاہم بی بی کو اس سے ملوانے کو وہ اب بھی اپنی ذمے داری سمجھتی تھی۔ وہ گاہے بگاہے اپنے اپارٹمنٹ کو، جو سارا دن خالی پڑا رہتا تھا، یویو (Joujou) نامی ایک نوجوان، شادی شدہ، جاپانی لڑکی کو فلسفے کے ایک پروفیسر کے ساتھ، جو خیر سے خود بھی شادی شدہ تھا، اپنی خفیہ عاشقانہ ملاقات کے لیے استعمال کرنے دیتی تھی۔ یہ پروفیسر بناکا سے واقف تھا، اور تمینہ نے عاشقوں کی اس جوڑی سے وعدہ کرا کے چھوڑا کہ ایک ایسے دن جب بی بی یہاں موجود ہو، وہ بناکا کو گھیر گھار کے یہاں لے آئیں گے۔

جب بی بی کو اس بات کا پتا چلا تو اس کا ردِ عمل یہ تھا: ’’ہو سکتا ہے کہ یہ بناکا خاصا حسین آدمی نکلے، اور تمھاری جنسی خشک سالی کے دن پورے ہوں۔‘‘

 

 

 

7

 

بالکل درست۔ شوہر کی وفات کے بعد سے آج تک تمینہ کسی مرد کے ساتھ نہیں سوئی تھی۔ یہ کسی اصول کی پابندی کی بنا پر نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے اپنی یہ جنسی وفاداری، جو قبر کے ماورا بھی قائم تھی، خاصی مہمل نظر آتی، اور واقعہ یہ ہے کہ اس نے اس بارے میں کبھی ڈینگ بھی نہیں ماری تھی۔ تاہم وہ جب بھی کسی مرد کے سامنے اپنے برہنہ ہونے کا تصور کرتی (اور یہ تصور وہ اکثر کیا کرتی) تو اس کے شوہر کا پیکر یکلخت اس کی نظروں کے سامنے تیر جاتا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ ہم جسمی کے دوران وہ اسے مستقل دکھائی دیتا رہے گا۔ اسے پتا تھا کہ اسے اُس کا چہرہ نظر آتا رہے گا، اور اُس کی اپنے پر ثبت آنکھیں بھی۔

ظاہر ہے یہ بڑی بے ڈھب بات تھی، بالکل احمقانہ، اور اس سے مخفی بھی نہیں۔ اس کے شوہر کی روح مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گی، اس بات پر اس کا عقیدہ نہ تھا۔ پھر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اس نے ایک آدھ عاشق ڈھونڈ نکالا تو اس بات سے اس کے شوہر کی یاد کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ اس کے باوجود وہ اس معاملے میں بالکل بے بس تھی۔

یہ ذرا عجیب تو بے شک لگے گا، تاہم اسے یہ خیال بھی آتا کہ اگر وہ اپنے شوہر کی زندگی ہی میں کسی اور مرد کے ساتھ سو لی ہوتی تو آج کسی کے ساتھ ہم بستری کہیں آسان ثابت ہوتی۔ ا س کا شوہر ایک مطمئن، کامیاب، اور گرم جوش آدمی تھا، اور تمینہ نے مقابلتاً خود کو ہمیشہ ہی کمزور محسوس کیا تھا۔ اسے ہمیشہ یہی لگتا کہ اگر وہ چاہے تو بھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی جس سے اس کے شوہر کی دل آزاری ہو۔

لیکن اب صورتِ حال مختلف تھی۔ اب اگر کوئی ایسا قدم اٹھائے تو وہ اس سے ایک ایسے شخص کو ایذا پہنچائے گی جو پلٹ کر اس کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے، جو اَب اس کا اتنا ہی دست نگر ہے جتنا ایک بچہ ہوتا ہے۔ پوری کائنات میں اب صرف وہی اپنے مرحوم شوہر کی رہ گئی تھی — صرف وہی!

یہی وجہ تھی کہ جس لمحے کسی غیر مرد کے ساتھ جسمانی محبت کے امکان کا خیال اسے بھولے سے بھی آتا، اس کے شوہر کا پیکر اس کے سامنے آ دھمکتا، اور ساتھ ہی اس کے لیے بے پناہ خواہش، اور خواہش کے ساتھ رو دینے کی پُر زور تڑپ۔

 

8

 

بناکا بد شکل آدمی تھا — اس قسم کا آدمی نہیں جو عورت کی خوابیدہ شہوانیت کو جگا سکے۔ تمینہ نے اسے چائے پیش کی اور اس نے بڑے احترام سے شکریہ ادا کیا۔ گفتگو کا کوئی خاص مرکز نہ تھا، اور سبھی اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک بناکا مڑا اور مسکرا کر بی بی سے بولا، ’’سننے میں آ رہا ہے کہ تم کوئی کتاب وِتاب لکھنے والی ہو۔ کاہے کے بارے میں ہو گی؟‘‘

’’بس‘‘ بی بی نے کہا، ’’ایک ناول لکھنا چاہتی ہوں۔ جس طرح مجھے دنیا نظر آتی ہے، اُس کے بارے میں۔‘‘

’’ناول؟‘‘ بناکا کے استفسار میں ناپسندیدگی کا شائبہ تھا۔

’’کوئی ضروری نہیں ناول ہی ہو‘‘ بی بی نے جواباً کہا، یوں جیسے اچانک اپنے بارے میں شک میں پڑ گئی ہو۔

’’کبھی سوچا بھی ہے کہ ناول میں کیا کچھ کاٹھ کباڑ ڈالنا پڑتا ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’مثلاً اب وہ بھانت بھانت کے کردار ہی لے لو۔ تو کیا ان کرداروں کے بارے میں تم سب کچھ جانتی ہو؟ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ کیسے سوچتے ہیں؟ کس قسم کے کپڑے پہنتے ہیں؟ کس ماحول سے آئے ہیں؟ تمھیں ان باتوں سے بھلا کیا لینا دینا، کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘

’’بالکل‘‘ بی بی نے فوراً مان لیا۔ ’’مجھے ان باتوں کی مطلق پروا نہیں۔‘‘

جانتی ہو‘‘ وہ اپنی ہانکے گیا، ’’ناول اس انسانی فریبِ نظر کا ثمر ہوتے ہیں جس کی رو سے ہم اپنے بھائی بندوں کو سمجھنے کے مدعی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں!‘‘

’’کچھ بھی نہیں‘‘ بی بی نے کہا۔

’’بالکل سچ ہے‘‘ یویو نے ٹکڑا لگایا۔

فلسفے کے پروفیسر صاحب نے سر ہلا کر تائید کی۔

’’ہم صرف یہ کر سکتے ہیں‘‘ بناکا نے کہا، ’’کہ خود اپنی ذات کا کچا چٹھا پیش کر دیں۔ اس کے علاوہ ہر شے طاقت کا غلط استعمال ہی ٹھہرے گی۔ اس کے علاوہ ہر چیز جھوٹ ہے۔‘‘

’’سچ، بالکل سچ!‘‘ بی بی نے پر جوش اعتراف کیا، ’’میں ناول نہیں لکھنا چاہتی۔ لکھنے سے میرا مطلب یہ تھا بھی نہیں۔ میرا مطلب تو من و عن وہی تھا جو آپ نے ابھی ابھی بیا ن کیا ہے۔ یعنی انکشافِ ذات — اپنی زندگی کا حساب دینا۔ اور میں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کروں گی کہ میری زندگی بڑی معمولی ہے، مجھے کبھی کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔‘‘

بناکا مسکرایا۔ ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ باہر سے دیکھو تو خود مجھ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔‘‘

’’بالکل ٹھیک کہا!‘‘ بی بی نے نعرہ لگایا، ’’بالکل ٹھیک! مجھے باہر سے دیکھو، مجھ میں سرخاب کے کوئی پر نہیں لگے ہیں۔ باہر سے! کیونکہ میرے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، اندرونی طور پر، لکھنے لکھانے کے قابل تو اصل میں وہی ہے۔ اور لوگ بھی اسی کو پڑھنا چاہیں گے۔‘‘

دریں اثنا، تمینہ ان کی خالی ہوتی ہوئی پیالیوں میں مسلسل چائے ڈالتی رہی۔ وہ خوش تھی کہ یہ دونوں مرد، جو ذہن کے کوہِ اولمپس سے اس کے اپارٹمنٹ میں قدم رنجہ ہوئے تھے، اس کی سہیلی کے ساتھ اچھا سلوک کر رہے تھے۔

فلسفے کے پروفیسر نے اپنے پائپ کا لمبا سا کش لیا اور دھوئیں کے پیچھے چھپ گیا، یوں جیسے اپنے پر نادم ہو۔

’’جوائس کے آنے کے بعد سے ہم آگاہ ہوئے ہیں‘‘ اس نے کہا، ’’کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر، ہماری زندگی کا ایڈونچر سے تہی ہونا ہے۔ اوڈیسس ٹرائے میں لڑائی لڑا۔ خو د کشتی کھینچتا ہوا گھر واپس لوٹا، اور ہر جزیرے میں پیچھے ایک داشتہ چھوڑتا آیا— نہیں صاحب، یہ ہماری زندگی کا نقشہ ہرگز نہیں۔ ہومر کا ہفت خواں (Odyssey) اب انسان کے باطن میں واقع ہوتا ہے۔ آدمی نے اسے اپنے اندر اتار لیا ہے۔ جزیرے، سمندر، سائرن2 جو ہمیں پھانسنے کو تلی بیٹھی رہتی ہیں اور اِتھاکا (Ithaca) جو ہمیں اپنی طرف آنے کی ترغیب دیتا ہے —یہ سب گھٹ گھٹا کر بس اب ہمارے اندر اٹھنے والی آوازیں ہی رہ گئے ہیں۔‘‘

’’بالکل ٹھیک! میں بھی بالکل یہی محسوس کرتی ہوں!‘‘ بی بی نے ہانک لگائی۔ ’’اسی لیے، مسٹر بناکا، میں آپ سے مل کر معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آدمی ان باتوں کو کس طرح لکھے۔ اکثر مجھے لگتا ہے جیسے میرا پورا جسم اظہار کی شدید خواہش سے پھٹا جا رہا ہے۔ یہ بات کرنا چاہتا ہے، کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ میرا دماغی توازن جاتا رہے گا۔ میں اپنی اندرونی گھٹن سے پھٹ پڑوں گی۔ مسٹر بناکا، آپ تو اِس کیفیت سے خوب واقف ہوں گے۔ میں اپنی رام کہانی سنانا چاہتی ہوں۔ اپنے جذبات کی کہانی۔ سچ مچ یہ بالکل منفرد ہیں — یقین جانیے — لیکن میرے ہاتھ میں کاغذ پکڑا دیجیے اور مجال ہے جو یہ خیالات باقی رہیں۔ فوراً رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں سارا مسئلہ تکنیک کا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے جو آپ جانتے ہیں اور جو میں نہیں جانتی۔ آپ کی کتابیں — یہ کس قیامت کی ہوتی ہیں …‘‘

 

9

 

یہاں ان دونوں سقراطوں نے لکھنے لکھانے کے فن پر جو لیکچر اس عورت کو دیے، میں ان کو سنا کر آپ کی سمع خراشی نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی بجائے میں ایک بالکل مختلف چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ حال ہی میں پیرس میں میں نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی۔ میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے کو جا رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور خاصا باتونی آدمی نکلا۔ وہ رات کو نیند نہ آنے کی شکایت کرنے لگا۔ غالباً بے خوابی کے مرض میں بری طرح مبتلا تھا۔ یہ سب اس کے ساتھ جنگ کے دوران شروع ہوا تھا۔ وہ ایک ملاح تھا۔ اس کی کشتی ڈوب گئی تھی۔ وہ تین دن اور تین راتیں مسلسل تیرتا رہا، تاآنکہ اس کی جان بچا لی گئی۔ اگلے چند ماہ وہ مستقل زندگی اور موت کے درمیان معلق رہا، اور گو آخر میں اس کی صحت بحال ہو گئی، تاہم سونے کی صلاحیت جاتی رہی۔

’’میں آپ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ زندگی گزارتا ہوں‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔

’’اس زائد تہائی کا بھلا کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’لکھتا لکھاتا ہوں، اور کیا‘‘ اُس نے جواب دیا۔

میں نے پوچھا، ’’کیا لکھتے لکھاتے ہو؟‘‘

’’اپنی زندگی کی کہانی — اس آدمی کی کہانی جو مسلسل تین دن تک سمندر میں تیرتا رہا، موت کے سامنے ڈٹا رہا، سونے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھا، لیکن زندہ رہنے کی قوت کا برابر تحفظ کیے گیا۔‘‘

’’تو کیا یہ سب تم اپنے بچوں وچوں کے واسطے لکھ رہے ہو؟ خاندانی کوائف قسم کی چیز؟‘‘

’’میرے بچوں کو اس کی ذرا پروا نہیں۔‘‘ وہ تلخی سے ہنسا۔ ’’نہیں، میں ان واقعات کو جوڑ توڑ کر کتاب بنا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے اس کو پڑھ کر بہت سوں کا بہت بھلا ہو گا۔‘‘

ایک ادیب کے سروکار کی نوعیت کیا ہوتی ہے، اس کے بارے میں مجھے ایک اتفاقیہ بصیرت ٹیکسی والے سے گفتگو کرتے ہوئے ہاتھ آئی — ہم کتابیں اس لیے لکھتے ہیں کہ ہماری اولاد کو ذرا پروا نہیں ہوتی۔ ہم اس لیے ایک انجانی کائنات کی طرف رخ کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی بیوی سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتی ہے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ڈرائیور کو کہیں لکھنے لکھانے کا جنون (graphomania) تو نہیں تھا۔ چلیے پہلے اس اصطلاح کی تعریف کر لیں۔ ایک عورت جو اپنے عاشق کو یومیہ چار خط لکھتی ہے، ہرگز اِس مرض میں مبتلا نہیں ؛ وہ تو صرف ایک محبت میں غرق عورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ میرا دوست جو اپنے عشقیہ خطوط کے فوٹواسٹاٹ نکالتا ہے، صرف اس لیے کہ کسی دن ان کو شائع کر سکے، تو یقیناً  میرا دوست اس مرض کا شکار ہے۔ گرافومینیا خط، ڈائری یا خاندانی روزنامچہ (جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے لکھا جائے ) لکھنے کی خواہش کا نام نہیں، بلکہ کتاب لکھنے کی خواہش کا نام ہے (تاکہ گمنام پڑھنے والوں کا ایک پورے کا پورا غول آدمی کے ہاتھ آ لگے )۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ٹیکسی ڈرائیور اور گوئٹے (Goethe) دونوں میں لکھنے کا جنون مشترک نظر آئے گا۔ تاہم جو بات گوئٹے کو ٹیکسی ڈرائیور سے ممتاز کرتی ہے وہ اس جنون سے پیدا ہونے والا نتیجہ ہے، بذاتِ خود جنون نہیں۔

گرافومینیا (یعنی کتابیں لکھنے کا سودا) معاشرے میں اس وقت عام وبا کی شکل اختیار کر لیتا ہے جب معاشرہ اتنی ترقی کر چکا ہو کہ یہ تین بنیادی صورتیں بہم پہنچا سکے :

(1)   عام فلاح و بہبود کا وہ درجہ جہاں لوگ اپنی قوتوں کو فضولیات کے لیے وقف کرنے کے قابل ہو جائیں۔

(2)   معاشرتی ترذید (atomisation) کا خاصا بڑھا ہوا درجہ اور نتیجے میں پیدا ہونے والا فرد کا احساسِ تنہائی۔

(3)   قوم کے ارتقائے باطنی میں کسی اہم سماجی تبدیلی کا بھیانک فقدان۔ (اس ضمن میں مجھے یہ بات کسی مرض کی علامت معلوم ہوتی ہے کہ فرانس، یعنی اس ملک میں جہاں ہوتا ہوا تا کچھ نہیں، ادبا کی تعداد اسرائیل میں پائے جانے والے ادیبوں سے اکیس فیصد زیادہ ہے۔ بی بی نے بالکل ٹھیک دعویٰ کیا تھا کہ اُس نے باہر سے کسی چیز کا سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں کیا ہے۔ نفسِ مضمون (content) کا یہی نہ ہونا، یہی خالی پن ہے جو موٹر چلانے کے لیے توانائی بہم پہنچاتا ہے، اور اسے لکھنے پر اکساتا ہے۔ )

لیکن معلول کو دیکھ کر علل کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو بہرحال ہو ہی جاتا ہے۔ اگر تنہائی کا عام احساس گرافومینیا کو راہ دیتا ہے، تو خود جم غفیر کا اجتماعی گرافومینیا عام احساس تنہائی کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے سنگین کر دیتا ہے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے اصلاً تو باہمی تفہیم کو فروغ دیا تھا۔ لیکن گرافومینیا کے حوالے سے لکھنے لکھانے کا اثر بالکل الٹ ہوتا ہے : یعنی ہر کس و نا کس اپنے نوشتے کے انبار میں چاروں طرف سے گھرا بیٹھا رہتا ہے، گویا یہ آئینوں سے مرصع دیوار ہو جو باہر سے آنے والی ہر آواز کا قلع قمع کر رہی ہو۔

 

 

 

10

 

ایک روز جب کیفے میں کوئی گاہک موجود نہ تھا اور وہ بیٹھی اس سے گپ لگا رہی تھی، ہیوگو نے کہا، ’’تمینہ، مجھے خوب معلوم ہے کہ اس معاملے میں کامیابی کا ذرہ برابر امکان نہیں، چنانچہ میں بات گھما پھرا کر نہیں کہوں گا۔ یہ بتاؤ، کیا تم اتوار کو رات کے کھانے پر میرے ساتھ چل سکتی ہو؟‘‘

پیکٹ اس کی ساس کے پاس صوبائی گھر میں ہے۔ تمینہ چاہتی ہے کہ پیکٹ کسی طرح اس کے باپ کے پاس پہنچ جائے جو پراگ میں رہتا ہے، تاکہ بی بی جا کر وہاں سے لے آئے۔ یوں دیکھیے تو اب یہ کوئی ایسا بھاری کام نہیں — اِس سے زیادہ آسان بھلا اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ تاہم تمینہ کو اپنا مدعا ان دونوں بلا کے ضدی بڈھے بڑھیا کو سمجھانے کے لیے کافی وقت اور پیسہ درکار ہو گا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک فون کرنا کافی مہنگا پڑتا ہے، اور تمینہ کو جو تنخواہ ملتی ہے اس سے کرائے اور کھانے پینے کا بندوبست بھی بمشکل ہو پاتا ہے۔

’’ٹھیک ہے‘‘ تمینہ، یہ یاد کر کے کہ ہیوگو کے گھر ٹیلی فون لگا ہے، راضی ہو گئی۔ وہ اسے کار میں لینے آیا، پھر ایک مضافاتی ریستوراں میں لے گیا۔

وہ چاہتا تو تمینہ کے ساتھ فاتح کی سی زبردستی کر سکتا تھا، وہ اس کا کیا بگاڑ لیتی۔ اس ملک میں اس کی حیثیت ہی کیا تھی۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ ایک کم تنخواہ ویٹرس کے عقب میں وہ اُسے ایک پر اسرار غیر ملکی عورت اور ایک بیوہ ہی نظر آتی تھی۔ اُس کے قدم لڑکھڑانے لگتے اور شک آ گھیرتا۔ تمینہ کا لطف و کرم، زرہ بکتر کی طرح، اس کا سب سے بڑا محافظ تھا، ایک بلٹ پروف ویسٹ (bullet- proof vest)۔ وہ تو یہ چاہتا تھا کہ تمینہ کی توجہ اپنی طرف کرائے، اس کا دل موہ لے، اس کے خیالات میں جاگزیں ہو جائے۔

بہت سر مارا کہ تمینہ کی دلچسپی کی کوئی شے ہتھے چڑھ جائے اور اس طرح وہ اس کے دل تک راہ پائے۔ چنانچہ منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے وہ اسے ایک چڑیا گھر لے گیا جو ایک بے حد دلکش کنٹری شاتو (country chateau) کی اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔ گوتھک طرز کے لحیم شحیم بُرجوں کے پس منظر میں وہ بندروں اور طوطوں کے درمیان سیر کرتے رہے۔ سوائے ایک دہقان صورت، اَن گھڑ مالی کے، جو کشادہ روشوں پر منتشر پتوں کو جھاڑو دے کر صاف کر رہا تھا، وہ بالکل تنہا تھے۔ ایک بندر، ایک شیر، اور ایک بھیڑیے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایسے قطعے پر نکل آئے جس کے گرد احاطہ تھا اور اس میں شترمرغ گھومتے پھر رہے تھے۔

کل چھ شترمرغ تھے۔ جب انھوں نے تمینہ اور ہیوگو کو دیکھا تو دوڑ لگا کر فوراً ان کے پاس چلے آئے اور تار کے احاطے کے اس طرف پاس پاس ایک گروہ کی شکل میں کھڑ ے ہو گئے۔ اپنی لمبی لمبی گردنیں دراز کیں اور دونوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی چوڑی اور چپٹی چونچوں کو پھٹ پھٹ کھولنے اور بند کرنے لگے، ایک بے قراری، ایک ناقابلِ یقین تیز رفتاری کے ساتھ، جیسے کسی مباحثے میں شریک ہوں اور تیز تیز باتیں کر کے حریف پر سبقت لے جانے کے درپے ہوں۔ لیکن ان کی چونچیں بالکل گونگی تھیں۔ ان سے ذرہ برابر آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔

شترمرغ وہ پیغامبر تھے جنھوں نے اپنے نہایت اہم پیغام کو دل پر نقش کر لیا تھا، لیکن جن کی صوتی نالیوں کو دشمن نے چاک کر کے انھیں قوتِ گویائی سے محروم کر دیا تھا؛ چنانچہ اب، منزلِ مقصود کو پہنچ کر وہ اتنا ہی کر سکتے تھے کہ محض اپنے منھ ہلائے جائیں۔

تمینہ، سحرزدہ سی، انھیں تیز سے تیز تر، نہایت تعمیل طلب انداز میں اپنا منھ ہلاتے دیکھتی رہی۔ جب وہ اور ہیوگو وہاں سے ٹلے تو شترمرغ بھی ان کے پیچھے پیچھے احاطے کی دیوار سے لگے لگے چلنے لگے۔ وہ اب بھی اپنی چونچیں چلائے جا رہے تھے، گویا تمینہ کو کسی چیز سے خبردار کر رہے ہوں — لیکن کس چیز سے، وہ یہ نہ جان سکی۔

 

11

 

’’ایسا لگتا ہے گویا یہ کسی خوفزدہ کر دینے والی پریوں کی کہانی کا واقعہ ہو‘‘ تمینہ نے چھری سے اپنے پاتے 3 کو کاٹتے ہوئے کہا، ’’لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت اہم بات مجھے بتانا چاہتے ہوں لیکن کیا بات؟ وہ کیا کہنا چاہتے تھے؟‘‘

ہیوگو نے سمجھایا کہ وہ بہت نوجوان قسم کے شترمرغ تھے اور ان کا طور طریق بالکل ایسا ہی تھا جیسا تمام نوجوان شترمرغوں کا ہوتا ہے۔ جب وہ پچھلی مرتبہ چڑیا گھر آیا تھا، تو اس بار بھی یہی چھ شترمرغ دوڑ کر احاطے کی دیوار کے پاس آئے تھے اور چونچیں ہلانے لگے تھے۔

پھر بھی تمینہ کی تسلی نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح مضطرب رہی۔ ’’تمھیں پتا ہے، میں پیچھے چیکوسلوواکیہ میں ایک پیکٹ چھوڑ آئی تھی۔ اس میں کچھ ضروری کاغذات تھے۔ اگر میں اسے منگوانے کے لیے لکھتی تو پولیس والے ضرور ضبط کر لیتے۔ بی بی آتی گرمیوں میں پراگ جانے والی ہے۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ میرے لیے وہ پیکٹ وہاں سے لیتی آئے گی۔ اور اب مجھے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ وہ شترمرغ مجھے کسی بات سے خبردار کر رہے تھے، جیسے بتا رہے ہوں کہ اس پیکٹ کے ساتھ کوئی واقعہ ہو گیا ہے۔‘‘

ہیوگو کو معلوم تھا کہ تمینہ بیوہ ہے، اور یہ بھی کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر اِس کا شوہر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس نے پوچھا، ’’کاغذات سیاسی نوعیت کے تو نہیں تھے؟‘‘

اب یہ بات تمینہ کو بہت پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی کہ اگر وہ اس ملک والوں کو اپنی زندگی سے آگاہ کرنا چاہتی ہے تو اسے اس زندگی کو بہت سہل اور سادہ بنا کر پیش کرنا ہو گا۔ ذاتی خطوط اور ڈائریاں کیوں ضبط کر لی جاتی ہیں اور وہ ان کے پیچھے کیوں اس قدر دیوانی ہوئی جا رہی تھی — یہ ایسی باتیں تھیں جن کی وضاحت غیر معمولی طور پر پیچیدہ تھی۔ چنانچہ اس نے صرف اتنا ہی کہا، ’’بالکل، سیاسی نوعیت کے ہی۔‘‘

کہنے کو تو یہ کہہ دیا، مگر اب یہ خوف دامن گیر ہوا کہ ہیوگو کہیں ان کاغذات کے بارے میں مزید کچھ اور نہ پوچھ بیٹھے۔ خیر ہوئی کہ اس نے کچھ اور نہیں پوچھا۔ کب، کس نے، کس چیز کے بارے میں اس سے استفسار کیا تھا؟ بہت ہوا تو کبھی کبھار لوگ اس کے ملک کے بارے میں اپنے محسوسات کا اظہار کر دیتے۔ رہے خود اس کے ذاتی تجربات، تو کسی شخصِ واحد کو بھی ان سے دلچسپی نہیں تھی۔

’’بی بی کو نہیں معلوم کہ یہ کاغذات سیاسی نوعیت کے ہیں؟‘‘ ہیوگو نے پوچھا۔

’’نہیں‘‘ تمینہ نے جواب دیا۔

’’یہ بہت اچھا ہوا‘‘ ہیوگو نے کہا، ’’اس سے بھول کر بھی ذکر نہ کرنا کہ ان کا سیاست سے دور کا بھی تعلق ہے۔ عین وقت پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے اور وہ انھیں وہیں چھوڑ چھاڑ آئے گی۔ تمینہ، لوگوں کا کیا ہے، وہ کسی چیز سے بھی خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔ خوب اطمینان کر لینا کہ بی بی انھیں بالکل غیر اہم، معمولی سے روکھے پھیکے کاغذات ہی سمجھتی رہے، جیسے مثلاً تمھارے عشقیہ خطوط! بالکل! یہ بات اس کی پہنچ کی ہے۔ ایسی بات ہے جو اس کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔‘‘

تو گویا ہیوگو کے خیال میں عشقیہ خطوط بالکل بے حیثیت اور بے کیف چیز کا نام ہیں، تمینہ نے سوچا۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے کبھی کسی سے محبت کی تھی، کہ وہ محبت اس کے لیے بڑی پُر معنی تھی۔

’’خدا نخواستہ اگر بی بی وہاں نہ جا سکے‘‘ ہیوگو نے اپنی بات پر اضافہ کیا، ’’تو اس معاملے میں تم مجھ پر پورا اعتماد کر سکتی ہو — میں خود جا کر لے آؤں گا۔‘‘

’’شکریہ‘‘ تمینہ نے گہرے اخلاص سے جواباً کہا۔

’’وہ مجھے جیل ہی میں کیوں نہ ڈال دیں، پھر بھی میں جا کر وہ پیکٹ تمھارے لیے لے آؤں گا۔‘‘

’’بے وقوفی کی بات نہ کرو‘‘ تمینہ نے احتجاج کیا۔ ’’تمھارے جیل جانے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ پھر اس نے ہیوگو کو سمجھایا کہ غیرملکی سیاحوں کو چیکوسلوواکیہ میں کوئی خطرہ نہیں، خطرہ تو صرف چیک باشندوں کو ہے۔ اور اب تو وہ لوگ اُسے بھول بھال بھی چکے ہوں گے۔ اچانک وہ بڑی طول طویل اور نہایت جوشیلی تقریر کرنے لگ گئی تھی۔ اسے اپنے وطن کے چپے چپے کا کماحقہ‘ علم تھا، اور میں آپ سے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ہر بات بالکل سچ تھی۔

گھنٹے بھر بعد وہ ہیوگو کے فون کا رسیور اپنے کان سے لگائے بیٹھی تھی لیکن اس بار بھی اسے اپنی ساس کو رام کرنے میں اتنی ہی کامیابی ہوئی جتنی پہلی بار، یعنی صفر۔ ’’تم نے مجھے کوئی چابی وابی نہیں دی تھی! تم ہمیشہ ہر چیز مجھ سے چھپا کر رکھا کرتی تھیں! اتنی تکلیف دہ یادوں کی باز خوانی کا فائدہ؟‘‘

 

12

 

اگر تمینہ کو اپنی یادیں اتنی ہی عزیز ہیں تو خود کیوں چیکوسلوواکیہ نہیں چلی جاتی؟ ان چیک شہریوں کو جنھوں نے 1968 کے بعد غیر قانونی طور پر ملک چھوڑا تھا، عام معافی دی جا چکی ہے، اور ان سے واپس ملک لوٹنے کی درخواست بھی کی جا چکی ہے۔ تمینہ کو اب کس بات کا خوف ہے؟ ظاہر ہے وہ اتنی بے حیثیت ہے کہ اسے کسی بات کا خطرہ نہیں ہو سکتا!

صحیح، بالکل صحیح۔ وہ بلا خوف و خطر واپس جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہیں جا سکتی۔

وہاں، گھر میں، ہر فرد و بشر نے اس کے شوہر کے ساتھ دغا4 کی تھی۔ اب اگر وہ واپس جاتی ہے تو اسے بھی اپنے شوہر کے ساتھ دغا کرنے کا خطرہ لاحق رہے گا۔

جب انھوں نے رفتہ رفتہ اس کا عہدہ گھٹا کر بالآخر اسے ملازمت ہی سے برطرف کر دیا تو کوئی مائی کا لال اس کی حمایت کے لیے نہیں کھڑا ہوا تھا، حتیٰ کہ اس کے عزیز ترین دوست تک نہیں۔ اب یہ بھی نہیں کہ تمینہ حقیقت سے بالکل ہی نابلد تھی۔ اسے خوب معلوم تھا کہ اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سارے احباب اس کے حامی تھے، اور محض خوف کے مارے اس کے اظہار سے کترا رہے تھے۔ اور بعینہٖ یہ بات کہ وہ اس کے حامی تھے، انھیں اپنے یوں خوفزدہ ہونے پر خجل کر رہی تھی۔ سڑک پر کہیں نظر آتے تو یوں انجان بن جاتے جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ محل شناسی کے سبب دونوں میاں بیوی خود ہی ان سے کنّی کاٹنے لگے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دوست اپنے سے اور زیادہ نادم ہوں۔ دیکھتے دیکھتے دونوں کی یہ حالت ہو گئی گویا کوڑھیوں کی جوڑی ہوں۔ جب وہ چیکوسلوواکیہ سے نکل آئے تو پیچھے اس کے شوہر کے سابقہ ہم منصبوں نے ایک ایسے عوامی اعلان نامے پر جس میں اس کے شوہر پر کیچڑ اچھالا گیا تھا، دستخط کر دیے۔ ظاہر ہے یہ قدم انھوں نے ملازمت سے برطرف کر دیے جانے کے خوف سے اٹھایا تھا۔ کچھ بھی سہی، اٹھایا تو تھا، اور یوں انھوں نے اپنے اور ان دو بے یار و مدد گار مہاجرین کے درمیان ایک اچھا خاصا گڑھا کھود دیا تھا۔ یہ وہ گڑھا تھا جسے تمینہ کبھی عبور نہ کرنے کی آرزومند تھی۔

فرار ہونے کے بعد پہلی صبح جب وہ آلپس (Alps) پہاڑوں میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیدار ہوئے اور خیال آیا کہ اب وہ بالکل تنہا ہیں، اس پوری کائنات سے منقطع جو کل تک ان کی تمام تر زندگی رہی تھی، تو تمینہ نے خود کو بے حد آزاد محسوس کیا، اور بے حد مطمئن بھی۔ وہ پہاڑوں میں تھے، اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ تنہا بھی۔ ایک ناقابلِ یقین، بے پناہ خاموشی نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ تمینہ کو یہ ایک قطعی غیر متوقع تحفہ معلوم ہوئی۔ اچانک اس پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اگر اس کے شوہر کو جور و ستم سے بچنے کے لیے چیکوسلوواکیہ کو الوداع کہنا پڑا تھا تو خود تمینہ کو اس بے کراں سکوت کے حصول کے لیے ؛ وہ سکوت جو محض اس کے اور اس کے شوہر کے لیے تھا، محبت کے لیے۔

جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا تو تمینہ پر اچانک گھر کی یاد کا دورہ پڑا۔ اسے ایک ایسے ملک کے لیے بے پناہ ناستلجیا محسوس ہوا جہاں ان کی ازدواجی زندگی کی اولین دہائی نے جہاں تہاں اپنے بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہوئے تھے۔ جذباتیت کی ایک ناقابلِ برداشت لہر اٹھی جس کے زیر اثر اس نے اپنے شوہر کے کوئی دس رفقا کو اس کی موت کا اطلاع نامہ بھیج دیا۔ پلٹ کر ایک نے بھی رسید نہ بھیجی۔

ایک ماہ بعد اس نے کوڑی کوڑی جوڑی ہوئی ساری رقم نکالی اور ساحل سمندر کی سیر کو چل پڑی۔ اس نے اپنا پیراکی کا لباس پہنا، اعصابی ہیجان کو سکون پہنچانے والی گولیوں کی پوری شیشی نگلی، اور تیرتی ہوئی دور، بہت دور، سمندری پانیوں میں چلی گئی۔ اس کا خیال تھا کہ گولیوں کی طاقت سے نڈھال ہو جائے گی اور بکمال خاموشی غرقاب، لیکن پانی کی غیر معمولی ٹھنڈک اور اس کے پیراکی کے استادانہ، طاقتور ہاتھوں نے اسے اونگھ جانے سے باز رکھا۔ (وہ درجۂ اول کی پیراک رہی تھی — ہمیشہ ہی۔ ) گولیوں کی تاثیر غیر متوقع طور پر کمزور ثابت ہوئی۔

وہ مڑی اور تیرتی ہوئی واپس ساحل پر لوٹ آئی۔ اپنے کمرے میں گئی اور پورے بیس گھنٹے تک دنیا و مافیہا سے بے خبر مسلسل سوتی رہی۔ جب وہ بیدار ہوئی تو خود کو بے حد پرسکون اور خاموش محسوس کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خاموشی میں اور خاموشی ہی کے لیے زندہ رہے گی۔

 

13

 

بی بی کے ٹیلی وژن کی نیلگوں، چاندی ایسی روشنی تمینہ، یویو، بی بی، اور اس کے شوہر ڈے ڈے (Dede) پر (جو ایک ٹریولنگ سیلزمین تھا اور ابھی کل ہی چار روز باہر رہنے کے بعد لوٹا تھا) پڑ رہی تھی۔ کمرے میں پیشاب کی خفیف سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ ٹیلی وژن کے پردے پر ایک غیر مرئی ماسٹر آف سیرے منیز (Master of Ceremonies) ایک بڑے گول مٹول گنجے سر والے سے ایک بڑا ہی اشتعال انگیز سوال کر رہا تھا: ’’آپ کی سرگزشت (memoirs) میں بعض بڑے حیرت انگیز جنسی اعترافات ملتے ہیں۔‘‘

یہ ایک باقاعدہ ہفتہ وار پروگرام تھا جس میں ایک مشہور و معروف ماسٹر آف سیرے  منیز ان ادیبوں سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا تھا جن کی کتابیں ہفتۂ گزشتہ چھپ کر منظرِ عام پر آئی ہوں۔

بڑے سے گنجے سر والا خوش دلی سے مسکرایا۔ ’’حیرت انگیز؟ اجی جانے دیجیے، ایسی بات کہاں ہے۔ اسے باقاعدہ علمِ شماریات کہیے، بس۔ خود دیکھ لیجیے : پہلی بار جب میں نے ہم بستری کی تو اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی…‘‘ گول مٹول سر والے بڑے میاں نے بڑے فخر سے پینل کے ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف باری باری دیکھا۔ ’’جی ہاں، پندرہ سال۔ اب میں پینسٹھ برس کا ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کوئی پچاس سالہ فعال جنسی زندگی کی بات کر رہے ہیں۔ فرض کیجیے کہ میں نے ہفتے میں اوسطاً دو بار مجامعت کی — بہت واجبی سا تخمینہ ہے — تو سالانہ کوئی سو بار، یعنی کلیتاً کوئی پانچ ہزار بار۔ آگے چلیے۔ اگر جماع کی مستی (orgasm) پانچ سیکنڈ قائم رہتی ہے، تو پچّیس ہزار سیکنڈوں کی جماعی مستی میرے کھاتے میں آتی ہے۔ ان کو جمع کیجیے تو چھ گھنٹے اور چھپن منٹ بنتے ہیں۔ ایسا کوئی بڑا ریکارڈ نہیں، کیوں کیا خیال ہے؟‘‘

کمرے میں موجود سبھی نے بے حد سنجیدگی سے اپنا اپنا سر ہلا دیا، سوائے تمینہ کے، جو تصور میں اس گنجے کھوسٹ کو مسلسل آرگازم کی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ پیچ کھاتا ہوا، شدید تشنج کے عالم میں، کبھی اپنا دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ پندرہ منٹ میں ہی نقلی دانتوں کا چوکھٹا پٹ سے نیچے گر پڑتا ہے، اور پانچ منٹ میں ہی موصوف خود گر کر داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ تمینہ کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

’’یہ ہنسنے کی ایسی کون سی بات ہے؟‘‘ بی بی جھلا کر پوچھتی ہے۔ ’’یہ اعداد و شمار خاصے مرعوب کن ہیں — آرگازم کے چھ گھنٹے اور چھپن منٹ!‘‘

’’اب مجھ ہی کو لے لو۔ سالوں مجھے یہی پتا نہ چلا کہ آرگازم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ یویو نے کہا، ’’لیکن پچھلے سال سے یہ مجھے بھی باقاعدہ ہونے لگے ہیں۔‘‘

اب ہر کوئی یویو کے آرگازم کے بارے میں بات کرنے لگا۔ جلد ہی ایک اور چہرہ، برہمی اور خفگی سے لبالب بھرا، پردے پر آ دھمکا۔

’’یہ حضرت کس چیز پر اس قدر خفا نظر آ رہے ہیں؟‘‘ ڈے ڈے سوچ میں پڑ گیا۔

’’اور یہ بات بے حد اہم ہے‘‘ پردے پر ادیب صاحب فرما رہے تھے، ’’بے حد اہم — اور یہ سب بلا کم و کاست میری کتاب میں موجود ہے۔‘‘

’’کیا بے حد اہم ہے؟‘‘ بی بی نے پوچھا۔

’’کہ انھوں نے اپنا پورا بچپن رورو(Rourou) نامی گاؤں میں گزارا۔‘‘

وہ آدمی جس نے اپنا سارا بچپن رورو کے گاؤں میں گزارا تھا، اس کی ناک ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لمبی تھی اور اتنی وزنی کہ اس کے باعث اس کا پورا جسم لنگر کی طرح بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کا سر بتدریج دھنسا جا رہا تھا اور دو ایک بار ایسا لگا کہ وہ اسکرین سے لڑکھڑا کر ابھی دھڑام سے نیچے کمرے کے فرش پر آ رہے گا۔ اس کی حالت سخت تشنجی تھی۔ ’’یہ سب بلا کم و کاست میری کتاب میں موجود ہے۔ میری پوری تخلیقی ذات اس سیدھے سادے سے گاؤں میں لپٹی پڑی ہے۔ جب تک آپ یہ بات نہیں سمجھ لیتے، میرے لکھے سے غلط مطلب ہی نکالیں گے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں، بہرحال، میں نے اپنی چند اولین نظمیں کہی تھیں۔ جی ہاں، بالکل، میں اسے شدید اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔‘‘

’’بعض مردوں سے مجھے آرگازم بالکل نہیں ہوتا‘‘ بی بی نے انکشاف کیا۔

’’اور یہ مت بھولیے‘‘ ادیب صاحب کچھ اور زیادہ ہیجان میں آ کر بولے، ’’کہ یہیں میں پہلی بار سائیکل پر سوار ہوا تھا۔ جی جی، بالکل۔ اور یہ سارے کا سارا میری کتاب میں موجود ہے۔ بس اسے ایک علامت سمجھیے۔ میرے خیال میں سائیکل اس قدم کی علامت ہے جو آدمی قبیلے کی دنیا سے اٹھا کر تہذیب کی دنیا میں رکھتا ہے۔ تہذیب سے پہلی پہلی تفریح بازی (فلرٹ)۔ ایک کنواری جو پہلے بوسے سے قبل فلرٹ کر رہی ہو۔ ہنوز کنواری، تاہم شریکِ گناہ۔‘‘

’’یہ اس نے بالکل ٹھیک کہا‘‘ یویو نے پھٹ سے رائے دے ڈالی۔ ’’تناکا (Tanaka)، ایک لڑکی جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، تو اس کو اپنا پہلا آرگازم اس وقت ہوا جب وہ بائیسکل کی سواری کر رہی تھی؛ وہ اس وقت تک بالکل کنواری تھی۔‘‘

سو اب وہ تناکا کے آرگازم کی بات کرنے لگے، اور تمینہ نے بی بی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا ٹیلی فون استعمال کر سکتی ہے۔

 

14

 

برابر والے کمرے میں پیشاب کی بو مقابلتاً زیادہ تھی۔ بی بی کی بچی وہاں سو رہی تھی۔

’’مجھے پتا ہے کہ آپ کی اس سے بات چیت بند ہے‘‘ تمینہ نے سرگوشی میں کہا۔ ’’لیکن میرے پاس اسے حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ بھی تو نہیں۔ آپ کو وہاں جا کر اُس سے ملنا ہی پڑے گا۔ چابی نہ ملے تو اس سے کہیں کہ تالا توڑ کر دراز کھول لے۔ اس کے پاس میری کچھ چیزیں ہیں۔ خطوط — مجھے انھیں حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘

’’تمینہ، خدا کے واسطے مجھے اس عورت سے بات کرنے پر مجبور نہ کرو۔‘‘

’’ہمت کر کے یہ کام کر ہی دیجیے، میری خاطر۔ ڈیڈی، کر دیں گے نا؟ وہ آپ سے بہت ڈرتی ہے۔ آپ جائیں گے تو اسے منع کرتے نہ بنے گی۔‘‘

’’ایک بات سنو۔ میرے پاس ایک بہت اعلیٰ فر کوٹ ہے۔ جب تمھارے دوست مجھ سے پراگ آ کر ملیں گے تو میں یہ تمھارے لیے دے دوں گا۔ واپسی پر تمھیں پہنچا دیں گے۔ یہ پرانے خطوط کے بنڈل سے بہرحال بہتر چیز ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے فر کوٹ نہیں چاہیے۔ مجھے تو صرف وہی پیکٹ چاہیے!‘‘

’’ذرا اونچا بولو، تمھاری آواز سنائی نہیں دے رہی‘‘ تمینہ کے باپ نے کہا۔ لیکن تمینہ دانستہ سرگوشیوں میں بات کر رہی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بی بی اسے چیک زبان میں بات کرتا ہوا سن لے۔ ورنہ تاڑ جائے گی کہ لانگ ڈسٹینس کال ہو رہی ہے، اور یوں بیٹھے بٹھائے اس کی قیمت اُسے بی بی کو دینی پڑ جائے گی۔

’’مجھے صرف وہ پیکٹ ہی چاہیے۔ آپ کا فر کوٹ نہیں۔‘‘

’’تم آج تک نہیں سیکھ سکیں کہ تمھاری زندگی میں اصلاً کن چیزوں کو سبقت حاصل ہونی چاہیے۔‘‘

’’دیکھیے ڈیڈی، یہ کال مجھے بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ خدارا اس سے جا کر ملیے۔‘‘

مکالمہ جاری رکھنا محال تھا۔ تمینہ کا باپ بار بار مختلف باتوں کو اونچی آواز میں دہرانے کے لیے کہتا رہا اور نہایت ہٹ دھرمی سے بڑی بی سے جا کر ملنے سے انکار کر دیا۔

’’تم اپنے بھائی کو فون کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ اس نے آخرکار تجویز پیش کی۔ ’’اس سے کہو کہ تمھاری ساس سے جا کر ملے، وہاں سے پیکٹ لے آئے اور میرے حوالے کر دے۔‘‘

’’مگر وہ میری ساس کو جانتا تک نہیں۔‘‘

’’ساری بات تو یہی ہے‘‘ تمینہ کا باپ ہنس پڑا۔ ’’اگر جانتا ہوتا تو بھول کر بھی اس سے ملنے کا خیال نہ آتا۔‘‘

تمینہ نے جلدی جلدی غور کیا۔ اب یہ کوئی ایسی بری تجویز بھی نہیں تھی۔ اس کا بھائی بڑا مستعد اور جیالا آدمی تھا۔ اسے لوگوں سے اپنی بات منوانے کا گر بھی خوب آتا تھا۔ لیکن تمینہ خود اسے فون نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جب سے وہ ملک سے نکلی تھی، آج تک دونوں نے ایک دوسرے کو ایک بھی خط نہیں لکھا تھا۔ وہ بڑی اچھی تنخواہ پر ملازم تھا، اور اس پر ابھی تک محض اس لیے قائم تھا کہ اس نے اپنی مہاجر بہن کے سارے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

’’میں اسے فون نہیں کر سکتی، ڈیڈی۔ آپ خود بات کر کے اسے سمجھا دیں۔ سمجھا دیں گے نا؟ پلیز ڈیڈی!‘‘

 

15

 

ڈیڈی چھوٹا سا مدقوق آدمی تھا۔ جب وہ تمینہ کو لیے سڑک کے کنارے کنارے چلتا تو اتنا فخر مند نظر آتا گویا دنیا کو اُس رزمیہ رات کی یادگار پیش کر رہا ہو جس میں اس نے تمینہ کا بیج بویا تھا۔ اسے اپنا داماد کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے خلاف بر سر پیکار رہتا۔ جب اس نے تمینہ کو فر کوٹ بھیجنے کی پیشکش کی (جو اسے اپنی کسی رشتے دار سے ترکے میں ملا ہو گا)، تو اس کا محرک داماد خسر کی کہنہ رقابت تھی، نہ کہ اپنی بیٹی کی تندرستی کے بارے میں تشویش۔ وہ چاہتا تھا کہ تمینہ اپنے شوہر (خطوط کے بنڈل) پر اپنے باپ (فر کوٹ) کو ترجیح دے۔

اس خیال ہی سے تمینہ پر باقاعدہ ہیبت طاری ہو گئی کہ اس کے پیکٹ کی قسمت اس کی ساس اور اس کے باپ کے معاندانہ ہاتھوں میں تھی۔ وہ اس بارے میں جتنا سوچتی، اتنا ہی اسے محسوس ہوتا کہ اس کی نجی نوٹ بکس اغیار پڑھ رہے ہیں، اور اغیار کی آنکھیں اس برسات کی مانند ہیں جو پتھر کی دیوار پر کندہ تحریر کو مٹائے دے رہی ہو۔ یا پھر وہ روشنی ہو جو ڈویلپر (developer) میں جانے سے پہلے تصویر سازی کے کاغذ پر پڑے اور اس میں پنہاں عکس کو برباد کر دے۔

اسے خیال آیا کہ جو بات اس کی نوشتہ یادداشتوں کو قدر و قیمت اور معنی بخشتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ یادداشتیں صرف اسی کے لیے تھیں۔ جس لمحے ان کا یہ وصف جاتا رہے گا، تعلق کا وہ گہرا رشتہ بھی بکھر جائے گا جو ان یادوں سے اس کو وابستہ کرتا ہے۔ ایسا ہوا تو وہ ان نوشتوں کو اپنی آنکھوں کی بجائے ناظرین کے اس مخصوص نقطۂ نظر سے پڑھنے پر مجبور ہو جائے گی جو لاتعلقی سے کسی غیر شخصی دستاویز کی چھان پھٹک کر رہے ہوں۔ ایسا ہوا تو وہ عورت جس نے انھیں لکھا ہے، اپنی شناخت کھو بیٹھے گی۔ اور وہ نمایاں مماثلت جو اس کے باوجود اس کے اور ان یادداشتوں کو رقم کرنے والی کے درمیان رہ جائے گی، اُس کی حیثیت محض ایک مضحکہ خیز، بھونڈی نقل سے زیادہ نہ ہو گی۔ نہیں، یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ان یادداشتوں کو کسی غیر کی نظر سے گزر چکنے کے بعد خود بھی کبھی پڑھنے کے قابل رہ سکے۔

یہی بات تھی جو وہ اتنی بے صبری ہو رہی تھی اور اس آرزو میں فنا ہوئی جا رہی تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے ان نوٹ بکس، ان خطوط کو اپنی تحویل میں لے آئے، قبل اس کے کہ ان میں پنہاں ماضی کی شبیہ زائل ہو جائے۔

 

16

 

ایک روز بی بی کیفے میں آ کر بار والے حصے میں بیٹھ گئی۔ ’’ہیلو، تمینہ‘‘ اس نے کہا، ’’ذرا ایک وِسکی تو دو۔‘‘

عام طور پر بی بی کافی کا آرڈر دیا کرتی تھی۔ یا بہت ہوا تو کبھی کبھار پورٹ 5 کا۔ وِسکی کا آرڈر دے کر گویا وہ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ کوئی بات ضرور ہے۔

’’تمھارے لکھنے لکھانے کا کیا حال ہے؟ کہاں تک پہنچیں؟‘‘ تمینہ نے مشروب گلاس میں انڈیلتے ہوئے پوچھا۔

’’اگر میرا موڈ ٹھیک ہوتا تو کام بھی ٹھیک ٹھاک چلتا رہتا‘‘ بی بی نے جواب دیا، مشروب ایک ہی سانس میں حلق میں انڈیل لیا، اور دوسرے کا آرڈر دے ڈالا۔

کچھ اور گاہک کیفے میں داخل ہوئے۔ تمینہ نے ان سے پوچھا کہ کیا کھائیں پئیں گے۔ پھر وہ بار میں واپس آئی، اپنی دوست کو وِسکی کا دوسرا گلاس دیا، اور نو واردوں کی خبرگیری میں لگ گئی۔ جب دوبارہ واپس آئی تو بی بی نے بتایا: ’’میں ڈے ڈے سے عاجز آ گئی ہوں۔ جب بھی دورے سے لوٹتا ہے، مسلسل دو دن بستر میں اینڈا پڑا رہتا ہے، اور شب خوابی کا لباس تک نہیں تبدیل کرتا۔ پاگل کر دینے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، ہے نا؟ اس کے باوجود، ستم دیکھو، ساتھ سونے کے لیے بالکل چاق و چوبند۔ یہ بات سمجھ کر نہیں دیتا کہ میرے لیے ہم بستری کی کچھ اہمیت نہیں، کچھ بھی نہیں۔ اب مجھے اُس سے علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمہ وقت اپنی احمقانہ تعطیلات کے خیال میں مگن رہتا ہے۔ بستر میں پڑے پڑے سامنے ایٹلس (atlas) پھیلائے مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ پہلے پراگ جانا چاہتا تھا۔ اب یہ خیال خواب ہو گیا ہے۔ آئرلینڈ پر کوئی کتاب ہتھے چڑھ گئی ہے۔ سو وہاں جانے کے شوق میں مرا جا رہا ہے۔‘‘

’’تو کیا اب چھٹیاں گزارنے تم لوگ آئرلینڈ جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔ اسے اپنے حلق میں کوئی چیز پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔

’’ہم آئرلینڈ جا رہے ہیں؟ ہم کہیں نہیں جا رہے۔ میں یہاں سے ہلنے والی نہیں۔ بس یہیں رہوں گی اور کتاب لکھوں گی۔ مجھے اُس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسے کب میری پروا ہے۔ یہاں میں لکھنے لکھانے میں مشغول ہوں، اور تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ مجھ سے اتنا بھی پوچھتا ہے کہ لکھ کس چیز کے بارے میں رہی ہو؟ جھک مار کر اب معلوم ہو رہا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ ہمارے پاس ایک دوسرے سے کہنے کے واسطے اب کچھ نہیں رہ گیا۔‘‘

تمینہ پوچھنا چاہتی تھی، ’’تو اب پراگ جانے کا ارادہ نہیں رہا؟‘‘ لیکن حلق میں پھنسی چیز کا حجم یکبارگی بڑھ گیا اور وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ ٹھیک اسی لمحے یویو کیفے میں داخل ہوئی، بار اسٹول پر اچک کر جا سوار ہوئی، اور سوال داغا، ’’کیا تم سب کے سامنے کر سکتی ہو؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مثلاً یہاں کیفے میں، ٹھیک فرش پر، سب کے سامنے، یا پھر سنیما میں فلم کے دوران؟‘‘

’’چپ!‘‘ بی بی نے سر نیچا کر کے اسٹول کے پائے کے پاس کھڑی شور و غل مچاتی ہوئی اپنی بچی سے کہا، پھر سر اٹھایا اور کہا، ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں؟ کوئی غیر فطری بات تو ہے نہیں — یا ہو تو بتاؤ؟ جو چیز فطری ہے اسے کرنے میں مجھے کیا شرم!‘‘

تمینہ پھر تذبذب میں پڑ گئی کہ بی بی سے اس کے پراگ کے دورے کے بارے میں پھر سے پوچھے یا نہ پوچھے۔ لیکن اب یہ سوال ہی سرے سے غیر ضروری ہو گیا تھا۔ اسے خوب پتا تھا، بالکل واضح تھا کہ بی بی پراگ جانے والی نہیں تھی۔

اتنے میں باورچی خانے سے کیفے کے مالک کی بیوی نکل کر اس طرف چلی آئی اور بی بی کو دیکھ کر مسکرائی۔ ’’کیا حال ہے؟‘‘ اس نے بی بی سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا۔

’’ہمیں اگر ضرورت ہے تو بس انقلاب کی‘‘ بی بی نے اعلان کیا۔ ’’کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ یہاں ضرور ہونا چاہیے۔‘‘

اس شب تمینہ نے شترمرغوں کو خواب میں دیکھا۔ وہ اب بھی احاطے کے اندر دیوار سے لگ کر کھڑے ہوئے تھے اور مسلسل بک بک کیے جا رہے تھے۔ وہ خوفزدہ ہو گئی اور ہل جل تک نہ سکی۔ محض سحرزدہ سی انھیں اپنی چونچیں چلاتے تکتی رہی۔ پھر اس نے اپنے لب مضبوطی سے بھینچ لیے۔ اس کے منھ میں ایک طلائی انگشتری تھی اور وہ اس کی حفاظت کے بارے میں سخت خائف تھی۔

 

17

 

میں اسے منھ میں طلائی انگشتری چھپائے کیوں تصور کرتا ہوں؟

اس معاملے میں آپ مجھے قطعی معذور سمجھیے۔ کیا کروں، وہ مجھے اسی طرح نظر آتی ہے۔ ایک تحریر جسے پڑھے ہوئے زمانہ ہو گیا، اچانک ذہن میں در آتی ہے : ’’ایک ملائم، شفاف، دھاتی آواز، جیسے کوئی طلائی انگشتری نقرئی تسلے میں گر رہی ہو۔‘‘6

طامس مان (Thomas Mann) نے اپنی جوانی میں موت کے بارے میں ایک سادہ لوح اور بڑی ساحرانہ کہانی لکھی تھی۔ اس میں موت کو بے حد حسین دکھایا گیا ہے، کیونکہ ایسے تمام لوگوں کو جو کم عمری میں اس کا خواب دیکھتے ہیں، موت ہمیشہ ہی بڑی دل آویز نظر آتی ہے، کیونکہ اس زمانے میں، دورافتادہ جگہوں میں گونجنے والی نیلگوں آوازوں کی طرح، یہ ہنوز بڑی غیر حقیقی اور طلسماتی ہوتی ہے۔

ایک نوجوان جسے مرضِ موت لاحق ہے، ایک نامعلوم اسٹیشن پر ریل گاڑی سے اترتا ہے۔ شہر میں داخل ہوتا ہے — شہر کا نام اسے معلوم نہیں — اور ایک بوڑھی عورت کے گھر میں، جس کی پیشانی خارش کے دھبوں سے بھری ہے، چند کمرے کرائے پر لیتا ہے۔ جی نہیں، مجھے اس واقعے کو بیان کرنے کی کوئی خواہش نہیں جو ان کرائے پر لیے گئے کمروں میں پیش آیا۔ میں تو صرف ایک بے حد معمولی سے واقعے کی باز خوانی کرنا چاہتا ہوں : سامنے کے کمرے کے گرد چلتے ہوئے اس بیمار نوجوان کو معاً یہ احساس ہوا کہ ’’اپنے قدموں کی آواز کے درمیان اُس نے ایک اور آواز بھی سنی جو اس کے دو رویہ کمروں سے آ رہی تھی— ایک ملائم، شفاف دھاتی آواز — لیکن ممکن ہے یہ محض فریب ہی ہو۔ جیسے کوئی طلائی انگشتری نقرئی تسلے میں گر رہی ہو، اس نے سوچا…‘‘

اس ادنیٰ سے صوتی واقعے کو کہانی میں کہیں بھی سلیقے سے ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی واضح۔ محض عمل کے اعتبار ہی سے دیکھیں تو اسے بغیر کسی بڑے خسارے کے حذف کیا جا سکتا تھا۔ وہ آواز تو بس خودبخود وجود میں آ گئی۔

لیکن میرا خیال ہے کہ طامس مان نے صرف اس لیے یہ ’’ملائم، شفاف، دھاتی آواز‘‘ سنوائی ہے کہ مکمل خاموشی کا تاثر قائم ہو سکے، وہ خاموشی جس کے حسن کو سماعی بنانے کی اسے ضرورت تھی، اور وہ اِس لیے کہ جس موت کا وہ ذکر کر رہا تھا وہ موتِ حسن (beauty-death) تھی، اور حسن کو لائقِ ادراک بننے کے لیے خاموشی کی ایک مخصوص کم سے کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے (جس کا مناسب ترین پیمانہ، اتفاق سے، طلائی انگشتری کی نقرئی تسلے میں گرنے کی آواز ہے )۔

(جی ہاں، میں جانتا ہوں۔ آپ کو ذرا پتا نہیں کہ میرا مدعا کیا ہے۔ حسن کو سدھارے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ خوبصورتی کھسک کر سطح کے شور و شغب کے نیچے چلی گئی ہے — شور: لفظوں کا شور، کاروں کا شور، موسیقی کا شور، علامتوں کا شور جس میں ہم مسلسل زندگی کرتے ہیں۔ یہ اتنی ہی غرقِ آب ہو چکی ہے جتنا جزیرۂ اطلانتس (Atlantis)، اور اس کی باقیات میں صرف لفظ ہی بچ رہا ہے، جس کے معنی سال بہ سال اپنی صراحت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ )

پہلی بار جب تمینہ نے اس خاموشی کو سنا (جو اتنی ہی بیش قیمت تھی جتنا غرق شدہ اطلانتس پر پائے جانے والے مرمریں مجسّموں میں سے کسی مجسّمے کا ٹکڑا) تو یہ اس وقت تھا جب وہ چیکوسلوواکیہ سے فرار ہونے کے بعد، جنگل کے بیچوں بیچ، اس الپائن ہوٹل میں سو کر اٹھی تھی: اور دوسری بار اس وقت جب وہ سمندر میں تیرتی چلی جا رہی تھی، اس حال میں کہ پیٹ اعصابی تشنج کو کم کرنے والی گولیوں سے بھرا ہوا تھا، وہ گولیاں جو اس کے لیے موت کی بجائے غیر متوقع سکون لائیں۔ اس نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اس خاموشی کو کبھی اپنے سے علیحدہ نہیں ہونے دے گی، کہ اسے اپنے اندر اتار کر وہیں تھامے رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے اپنے خواب کی ایک دیوار کے مقابل کھڑی ہوئی نظر آتی ہے، اس حال میں کہ ایک طلائی انگشتری اس کے مضبوطی سے بند منھ میں ہے۔

وہ چھ طویل گردنوں کے سامنے کھڑی ہے، جن کے سر چھوٹے چھوٹے ہیں اور جن کی چپٹی چپٹی چونچیں بنا خفیف سی آواز پیدا کیے، دیوانہ وار کھل بند ہو رہی ہیں۔ وہ ان کی بات سمجھنے سے معذور ہے۔ وہ اسے ڈرا دھمکا  رہی ہیں یا خبردار کر رہی ہیں، استدعا کر رہی ہیں یا التجا — اسے کچھ پتا نہیں، اور چونکہ وہ ان کا مدعا سمجھنے سے قاصر ہے، اس لیے بے حد فکرمند اور مضطرب ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اس طلائی انگوٹھی (خاموشی کے سُر ٹھیک کرنے کا کانٹا) کے ساتھ کوئی دردناک واقعہ پیش آنے والا ہے، اور وہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے مضبوطی سے بند منھ میں دھرے ہوئے ہے۔

یہ تمینہ کبھی نہ جان سکے گی کہ وہ اس سے کیا کہنے آئے تھے۔ لیکن مجھے پتا ہے۔ وہ اسے متنبہ کرنے، ڈرانے دھمکانے، یا اس کی تہدید کرنے ہرگز نہیں آئے تھے۔ انھیں تمینہ سے بھلا کیا لینا دینا۔ وہ، ان میں سے ایکو ایک، صرف اسے اپنے بارے میں ہی بتانے آیا تھا۔ یہ بتانے کہ وہ کس طرح دانہ چگتے تھے، کس طرح سوتے تھے، کس دوڑ کر چاردیواری تک آتے تھے، اور دیوار پار انھیں کیا کچھ نظر آتا تھا؛ کہ کس طرح انھوں نے اپنا بے حد اہم بچپن، اتنے ہی اہم رورو کے گاؤں میں گزارا تھا، اور کس طرح ان کا نہایت اہم آرگازم پورے چھ گھنٹے تک جاری ر ہا تھا؛ کہ وہ عورت جس نے اپنا سر ایک بُنی ہوئی شال سے ڈھکا ہوا تھا، انھیں کس طرح نظر آ رہی تھی؛ کہ وہ کس طرح تیرے، بیمار پڑے، پھر رو بصحت ہوئے ؛ کہ کس طرح وہ کبھی جوان رہے تھے، بائیسکلوں کی سواری کی تھی، اور اس دن گھاس کے ایک پورے تھیلے کی جگالی کی تھی۔ لو، وہ دیکھو، وہاں کھڑے ہوئے ہیں، تمینہ کے عین مقابل، اسے اپنی کہانی سنا رہے ہیں ؛ سب کے سب ایک ساتھ، بڑے تاکیدی، محاربانہ، جارحانہ انداز میں۔ کیونکہ جو بات وہ اس سے کہنا چاہتے ہیں، اس سے زیادہ اہم کوئی اور چیز نہیں۔

 

18

 

چند دن بعد بناکا نشے میں دھت کیفے میں داخل ہوا اور ایک بار اسٹول پر براجمان ہونے کی تگ و دو میں دو بار گر پڑا، لیکن دونوں بار لڑکھڑا کر اٹھا اور کود کر اس پر چڑ ھ گیا۔ ایک عدد کیلواڈوس کا آرڈر دیا اور کاؤنٹر پر سر ڈال دیا۔ تمینہ نے دیکھا کہ وہ رو رہا ہے۔

’’کیا بات ہے مسٹر بناکا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

بناکا نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اوپر اٹھا کر اپنے سینے کی طرح اشارہ کیا، ’’میں کچھ بھی نہیں، سمجھیں؟ کچھ بھی نہیں۔ میرا سرے سے وجود ہی نہیں!‘‘

وہ اٹھا اور غسل خانے چل دیا، اور وہاں سے نکلا تو بغیر پیسے ادا کیے سیدھا باہر چلا گیا۔

جب تمینہ نے اس واقعے کا ذکر ہیوگو سے کیا تو اس نے کسی اخبار کا ایک صفحہ نکال کر دکھایا جس میں کتابوں پر تبصرے چھپے تھے۔ ان میں ایک بقدرِ اشکِ بلبل سا نوٹ بناکا کی نگارشات پر بھی تھا — کُل چار استہزائی سطریں، اور بس۔

بناکا کا اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے روتے ہوئے اپنے وجودی کرب کا اظہار کرنا مجھے بے اختیارانہ گوئٹے کے West-East Divan کے ایک مصرعے کی یاد دلاتا ہے : ’’جب ساری خلقت زندہ ہو، کیا اس وقت فردِ واحد بھی زندہ ہوتا ہے؟‘‘7 گوئٹے کے استفسار کے پیچھے ادیب کے پورے کے پورے عقیدے کا راز ملتا ہے۔ کتابیں لکھ کر فرد ایک پوری کائنات بن جاتا ہے (ہم بالزاک کی کائنات کی بات کرتے ہیں، چیخوف کی کائنات کی بات کرتے ہیں، کافکا کی کائنات کی بات کرتے ہیں — کرتے ہیں نا؟)، اور چونکہ کسی بھی کائنات کا امتیازی وصف اس کی انفرادیت ہوتی ہے، کسی دوسری کائنات کا آس پاس وجود اس کے جوہرِ ذاتی کے لیے باقاعدہ خطرہ بن جاتا ہے۔

دو موچی آپس میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں (بشرطیکہ ان کی دکانیں ایک ہی محلے میں نہ ہوں )۔ لیکن ٹھیک جس لمحے وہ موچیوں کی قسمت پر کتابیں لکھنا شروع کر دیں، ایک دوسرے کے آڑے آنے لگیں گے، انھیں فوراً یہ فکر لاحق ہو جائے گی: کیا ایک موچی کا وجود اس وقت بھی قائم رہ سکتا ہے جب بقیہ تمام موچیوں کا وجود قائم ہو؟

تمینہ محسوس کرتی ہے کہ محض ایک اجنبی آنکھ اس کی ذاتی ڈائریوں کا سارا وقار غارت کر دینے کے لیے کافی ہے، جبکہ گوئٹے کے خیال میں اگر اس کے شعر کسی شخص کی نظر میں آنے سے رہ جائیں تو اس کا — گوئٹے کا — پورا وجود کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ تمینہ اور گوئٹے کا فرق، انسان اور ادیب کا فرق ہے۔

کتاب لکھنے والا یا تو سب کچھ ہے (اپنے اور دوسروں کے لیے ایک پوری کائنات) یا کچھ بھی نہیں۔ اور چونکہ سب کچھ تو ایک آدمی کو ملنے سے رہا، ہم میں سے ہر کتاب لکھنے والا نتیجتاً کچھ بھی نہیں۔ نظرانداز کردہ، رقابت کی آگ میں سوزاں، شدید طور پر مجروح — ہم ابنِ آدم اپنے ہی بھائی کی موت کی آرزو کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں، اب خواہ یہ بناکا ہو، بی بی، گوئٹے یا میں۔

سیاست دانوں، ٹیکسی ڈرائیوروں، اسپتال میں پڑی بچے جنتی عورتوں، داشتاؤں، خونیوں، مجرموں، طوائفوں، کوتوالوں، ڈاکٹروں اور مریضوں میں گرافومینیا کی ریل پیل میرے لیے اس بات کا بڑے سے بڑا ثبوت ہے کہ بلا اِستثنیٰ ہر شخص اپنے میں ایک ادیب ہونے کا امکان مخفی رکھتا ہے۔ اور ہر کس و ناکس کو اس کا پورا حق حاصل ہے کہ بھاگتا ہوا سڑک پر نکل آئے اور ببانگِ دہل اعلان کرے : ’’ہم سب ادیب ہیں!‘‘

اس کا سبب یہ ہے کہ ہر کسی کو اس حقیقت سے نظریں چار کرنے میں خاصی دقت ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ اس سرد مہر کائنات میں، بنا دوسروں کی توجہ میں آئے، بنا کچھ کہے سنے، معدوم ہو جائے گا۔ چنانچہ ہر شخص کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وقت نکل جانے سے پہلے ہی الفاظ کی ایک پوری کائنات میں اپنی تقلیب کر لے۔

جب ہر آدمی میں مستور ادیب انگڑائی لے کر معرض وجود میں آ جائے گا (اور وہ وقت دور نہیں ) تو ہم کائناتی بہرے پن اور قلتِ تفہیم کے عہد میں پہنچ چکے ہوں گے۔

 

 

 

19

 

اب لے دے کر ہیوگو ہی اس کی واحد امید رہ گیا تھا۔ چنانچہ اس نے جب دوسری بار تمینہ کو شام کے کھانے پر چلنے کی دعوت دی تو وہ اس نے خوشی خوشی قبول کر لی۔

میز کے پار، اس کے عین مقابل بیٹھے ہوئے، ہیوگو صرف ایک ہی چیز کی بابت سوچ سکتا ہے : تمینہ کسی طرح گرفت میں آ کر نہیں دیتی۔ سامنے ہوتی ہے تو وہ شک میں پڑ جاتا ہے اور سامنے کا وار کرنے سے ہچکچانے لگتا ہے۔ وہ جتنا کسی واجب اور معیّن چیز کے حصول کی کوشش کے خوف سے اذیت اٹھاتا ہے، اتنا ہی دنیا کو — غیر معیّن اور غیر محدود کی بے کرانی کو، اور بے کرانی کے غیر معیّن کو — فتح کرنے کی خواہش اس میں کچھ اور منھ زور ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جیب سے ایک رسالہ نکالتا ہے، اسے کھولتا ہے اور تمینہ کو دیتا ہے۔ جو صفحہ اس نے کھولا ہے اس پر اس کا لکھا ہوا ایک طویل مضمون ہے۔

وہ رسالے کے بارے میں پر جوش لن ترانی شروع کر دیتا ہے اور مسلسل بولے جاتا ہے : ٹھیک ہے کہ یہ رسالہ ان کے محلے کے باہر کم ہی پڑھا جاتا ہے، لیکن نظریاتی اعتبار سے اس کا شمار با حیثیت رسالوں میں ہوتا ہے۔ اس کو شائع کرنے والوں میں اپنے اعتقادات کی مدافعت کرنے کی دلیری بھی پائی جاتی ہے، اور اس لحاظ سے یہ لوگ ضرور بہت کچھ حاصل کر کے رہیں گے۔ ہیوگو مسلسل تقریر کیے جاتا ہے، اس کے الفاظ شہوانی جارحیت کا استعارہ بننے، طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جان لیوا کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں مجرد کا وہ رجھا لینے والا جوش و خروش پایا جاتا ہے جب وہ جست بھر کے مادیت کی لا طائلی میں خود کو بدل دینے کے درپے ہو۔

تمینہ جوں جوں ہیوگو کے چہرے کو دیکھے جاتی ہے، اس کے خط و خال کو از سر نو ترتیب دینے لگتی ہے۔ پہلے جو صرف ایک روحانی ریاضت ہوا کرتی تھی، اب عادت سے زیادہ کوئی چیز بن گئی ہے۔ وہ کسی مرد کو کسی اور طرح دیکھنے سے عاجز ہے۔ اس کے لیے بڑی کاوش کی، اپنی جملہ تخلیقی صلاحیتوں کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی، بڑے اچانک طور پر، ہیوگو کی بھوری آنکھیں واقعی نیلی ہو جاتی ہیں۔ تمینہ اپنی نظریں اس کے چہرے پر جمائے رکھتی ہے۔ نیلاہٹ کو زائل ہونے سے روکنے کے لیے اسے اپنی آنکھوں کی تمام تر شدت کے ساتھ اس کے چہرے پر ارتکاز کرنا ہوتا ہے۔

تمینہ کی ٹکٹکی کو محسوس کر کے ہیوگو کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی تقریر بازی کی رفتار اور زیادہ تیز کر دیتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی نیلاہٹ بڑی دل پذیر ہے۔ اس کے بالوں کا خط کنپٹیوں کے پاس سے آہستہ آہستہ پیچھے کی سمت سمٹنے لگتا ہے تاآنکہ سامنے کے بال گھٹ کر صرف ایک تنگ سی تکون کی شکل رہ جاتے ہیں جو اس کے سر کے پیچھے، نیچے کی طرف جھکی چلی آ رہی ہو۔

’’میں نے، ہماری مغربی دنیا کو ہمیشہ اپنی تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ لیکن یہاں ہمارے درمیان جو ناانصافی ہو رہی ہے، اس سے مجبور ہو کر ہم دوسرے ممالک سے غلط طور پر مروت برتنے پر مائل ہو جاتے ہیں۔ تمھارا شکر، ہاں تمھارا شکر، تمینہ، کہ تمھاری وجہ سے میں بالآخر یہ سمجھنے کے قابل ہو گیا ہوں کہ طاقت کا مسئلہ ہر جگہ یکساں ہے۔ تمھارے ملک اور ہمارے ملک میں، مشرق میں اور مغرب میں۔ ہماری یہی کوشش ہونی چاہیے کہ کبھی ایک طاقت کو دوسری طاقت سے نہ بدلیں ؛ ہمیں چاہیے کہ طاقت کے اصول کو بنفسہٖ مسترد کر دیں اور اس کی ہر جگہ اور ہر شکل میں پر زور نفی کریں۔‘‘

’’مطلب؟‘‘ تمینہ نے بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے اور میں نے اس بارے میں سرے سے کبھی کوئی گفتگو ہی نہیں کی۔‘‘

اس وقت گھٹ کر ہیوگو کی صرف ایک نیلی آنکھ رہ گئی تھی، اور وہ بھی بتدریج بھوری ہوتی جا رہی تھی۔

’’تمھیں اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے لیے تمھارا تصور کرنا ہی کافی تھا۔‘‘

ویٹر نے جھک کر ان کے آگے ڈنر کا پہلا کورس لگا دیا۔

’’میں گھر پر اسے پڑھوں گی‘‘ تمینہ نے رسالے کو تھیلے میں ٹھونستے ہوئے کہا، پھر یہ اضافہ کیا، ’’بی بی پراگ نہیں جا رہی۔‘‘

’’مجھے پہلے سے معلوم تھا‘‘ ہیوگو نے کہا۔ ’’لیکن پریشان نہ ہو، تمینہ۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ تمھیں یاد ہے نا؟ میں تمھاری خاطر وہاں جاؤں گا۔‘‘

 

20

 

’’ایک خوش خبری سنو: میں نے تمھارے بھائی سے بات کر لی ہے اور وہ اس سنیچر تمھاری ساس سے ملنے جا رہا ہے۔‘‘

’’سچ؟ آپ نے اسے ٹھیک سے سمجھا دیا ہے نا؟ بتا دیا ہے نا کہ چابی نہ ملے تو تالا توڑ دے؟‘‘

رسیور رکھتے رکھتے تمینہ مارے خوشی کے مست ہو گئی۔

’’اچھی خبر تھی؟‘‘ ہیوگو نے پوچھا۔

’’ہاں‘‘ اس نے سر ہلا کر جواب دیا۔

وہ اس وقت بھی اپنے باپ کی بشاش اور پر جوش آواز کانوں میں سن سکتی تھی۔ وہ ناحق ہی اس سے بدگمان تھی، اس نے اپنے آپ سے کہا۔

ہیوگو اٹھ کر بار تک آیا۔ دو گلاس اٹھائے اور ان میں وِسکی ڈالی۔ ’’تمینہ، تم جب چاہو میرے گھر سے بے تکلف پراگ فون کر سکتی ہو۔ میں ایک بار پھر وہی کہتا ہوں جو پہلے کہتا آیا ہوں : تمھارے ساتھ ہوتا ہوں تو جی کو بہت بھلا لگتا ہے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ تم کبھی میرے ساتھ نہیں سوؤ گی۔‘‘

’’مجھے خوب معلوم ہے کہ تم کبھی میرے ساتھ نہیں سوؤ گی‘‘ کہنے کے لیے اسے خود کو باقاعدہ مجبور کرنا پڑا تھا۔ صرف اس لیے کہ اپنے کو باور کرا سکے کہ وہ اس پراسرار اور ناقابل حصول عورت کے مدمقابل کھڑا ہو سکتا ہے، اور اس سے بعض باتیں کہہ سکتا ہے (ہرچند کہ اسے ان باتوں کو بکمال ہوشیاری پیرایۂ نفی میں کہنا پڑا تھا)، اور خود کو تقریباً بے دھڑک محسوس کرتا ہے۔

تمینہ کھڑی ہوئی، چل کر ہیوگو کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے وِسکی کا گلاس لے لیا۔ وہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ آپس میں بات چیت بند ہونے کے باوجود وہ اب بھی ایک دوسرے کے دوست تھے، اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار۔

ہیوگو نے جام ٹوسٹ کیا: ’’سب بخوبی انجام کو پہنچے!‘‘ اور گلاس ایک گھونٹ میں چڑھا گیا۔

تمینہ نے بھی اپنی وسکی غٹا غٹ پی ڈالی اور خالی گلاس میز پر رکھ دیا۔ وہ بس لوٹ کر اپنی کرسی کی طرف جانے والی تھی کہ ہیوگو نے تیزی سے اپنا بازو اس کے گرد حمائل کر دیا۔

اس نے ہیوگو کی پیش قدمی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ صرف اپنا رخ پھیر لیا۔ اس کا منھ بگڑ گیا تھا اور اس کی پیشانی شکن آلود ہو گئی تھی۔

اس نے تمینہ کو اپنی آغوش میں بھر تو لیا تھا لیکن ہنوز حیران کھڑا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ اولین چند ثانیوں تک وہ اپنی دیدہ دلیری پر سخت خائف رہا۔ اگر تمینہ نے دھکا دے کر اسے اپنے سے جدا کر دیا ہوتا تو وہ نہایت بزدلی سے پیچھے ہٹ کر اس سے باقاعدہ معافی مانگنے لگ جاتا۔ لیکن تمینہ نے اُسے دھکا وکّا نہیں دیا۔ تمینہ کے مڑے تڑے چہرے اور اپنے سے گریزاں سر کو دیکھ کر ہیوگو کی شہوت اور بھڑک اٹھی۔ اب تک جن دوچار عورتوں سے اُس کے جنسی تعلقات رہے تھے ان میں سے کسی نے بھی آج تک اس کی ملاعبت کے خلاف کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر وہ پہلے سے ہی طے کر آئی ہوتی تھیں کہ اس کے ساتھ ہم بستری کریں گی، تو خود ہی کپڑے اُتار کر اطمینان سے اس کا انتظار کرنے لگتیں، تقریباً لاتعلقی کے ساتھ، کہ دیکھیں اب وہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ چہرے کو بل دے کر تمینہ نے اس ہم آغوشی کو وہ معنی پہنا دیے تھے جن کا وہ آج سے قبل خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ وہ دیوانہ وار اسے بھینچنے لگا اور بڑی بے تاب عجلت سے اسے برہنہ کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔

لیکن تمینہ نے اپنی مدافعت سے کیوں انکار کر دیا؟

مسلسل تین سال سے اسے خدشہ تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونے ہی والا ہے۔ مسلسل تین سال سے وہ اس واقعے کی ساحر، نگراں آنکھ کے نیچے رہتی آئی تھی۔ اور اب یہ آ پہنچا تھا، بعینہٖ اسی طرح جس طرح اس نے اس کا تصور کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی مدافعت سے انکار کر دیا اور اسے یوں قبول کر لیا جیسے کوئی ناگزیر کو قبول کرتا ہے۔

اگر وہ کچھ کر سکتی تھی تو اتنا ہی کہ اپنا سر ہیوگو کی طرف سے موڑ لے۔ لیکن اس روگردانی سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ رخ پھیرتے ہی اس کے شوہر کا پیکر تمام کمرے میں اس کا پیچھا کرتا رہا۔ یہ ایک بڑے ڈیل ڈول والے شوہر کا اتنا ہی گرانڈیل اور بے ڈھنگا پیکر تھا — وہ شوہر جو زندگی سے کہیں زیادہ بڑا تھا، لیکن عین مین اسی طرح جس طرح وہ تین سال سے تصور کرتی چلی آئی تھی۔

بالآخر جب اس کا تن کپڑوں سے جدا ہوا تو ہیوگو، جو اسے جنسی طور پر مشتعل سمجھ کر شہوت کے مارے پاگل ہوا جا رہا تھا، یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ تمینہ کے مخصوص نسوانی اعضا رطوبت سے عاری تھے۔

 

21

 

ایک بار اسے معمولی سے آپریشن سے گزرنا پڑا تھا جس میں اعضا کو سن کرنے والی دوا استعمال نہیں کی گئی تھی۔ چنانچہ درد کی شدت اور کاٹ سے توجہ بٹانے کے لیے وہ آپریشن کی پوری مدت مجبوراً انگریزی کے بے قاعدہ افعال (irregular verbs) کی گردان کرتی رہی تھی۔ اس بار بھی اس نے یہی نسخہ آزمانے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی ساری توجہ ان نوٹ بکس پر مرکوز کر دی، اس بات پر کہ عنقریب وہ بحفاظت اس کے باپ کی تحویل میں چلی آئیں گی، اور یہ کریم آدمی ہیوگو وہاں جا کر انھیں اس کے لیے لے آئے گا۔

کریم آدمی ہیوگو نہایت تیزی اور دیوانگی سے کچھ دیر تک اپنے کام میں لگا رہا، تاآنکہ تمینہ کو محسوس ہوا کہ اب وہ اپنے بازوؤں کے بل اٹھ کر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر اپنے کولھے ہر سمت میں جھاڑ پٹک رہا ہے۔ تمینہ نے اندازہ کر لیا کہ وہ اس کے جنسی ردِ عمل سے غیر مطمئن ہے، اور اس کی شہوت کو اپنے حسبِ ضرورت برانگیختہ نہ پا کر ہر ممکن زاویے سے اس میں دخول کی کوشش کر رہا ہے، کہ کسی طرح اثر پذیری کے اس مقام کو جا لے جو وہ کہیں دور اپنے جسم کی گہرائیوں میں اس سے روکے ہوئے ہے۔

تمینہ کو اس کی قیامت کی دشوار گذار کوششوں کو دیکھنے کی چنداں خواہش نہ تھی۔ چنانچہ اس نے ایک بار پھر اپنا سر ہیوگو کی طرف سے پھیر لیا۔ اپنے خیالات کو مجتمع کر کے ایک بار پھر نوٹ بکس پر مرتکز ہونے کی کوشش کی۔ خود کو مجبور کیا کہ شوہر کے ساتھ گزاری ہوئی چھٹیوں کی اس ترتیب کا جائزہ لے جو اس کی یادداشت نے، ہرچند نامکمل سہی، از سر نو منظم کی تھی: پہلی جو بوہیمیا میں ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے گزاری گئی تھیں، پھر یوگوسلاویہ والی، پھر بوہیمیا کی ایک اور جھیل والی، اس کے بعد وہ جو کسی معدنی چشمے پر گزاری گئی تھیں — لیکن ترتیب ہنوز غیر واضح تھی۔ 1964 میں دونوں تترس گئے تھے، اور اس سے اگلے سال بلغاریہ، لیکن اس کے بعد ہر چیز خلط ملط ہو جاتی تھی۔ 1968 میں انھوں نے اپنی ساری چھٹیاں پراگ ہی میں بتائی تھیں، اس سے اگلے سال وہ معدنی چشمے پر گئے تھے، اور اس کے بعد ہجرت کر کے یہاں چلے آئے تھے اور اپنی آخری تعطیلات اٹلی میں منائی تھیں۔

ہیوگو نے اپنا جسم اس سے علیحدہ کر لیا اور اس کے جسم کو پلٹانے کی کوشش کی۔ تمینہ نے اندازہ کر لیا کہ وہ چاہتا ہے تمینہ جانوروں کی طرح گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ہو جائے۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ہیوگو عمر میں اس سے چھوٹا ہے، اور وہ شرمندہ ہو گئی۔ اس کے باوجود اس نے اپنے جذبات مار کر پوری لاتعلقی سے خود کو ہیوگو کے سپرد کر دیا۔ اُس نے ہیوگو کے جسم کے ناہموار دھکوں اور رگڑوں کو اپنی پشت پر محسوس کیا۔ اسے لگا جیسے وہ اسے اپنی بے پناہ قوتِ باہ اور قوتِ برداشت سے خیرہ کرنے کے درپے ہو، گویا ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہو، اپنا امتحان لے رہا ہو، یہ ثابت کرنا چاہتا ہو کہ وہ انجام کار اسے مغلوب کرنے پر قادر ہے اور اس کے لائق ہے۔

اسے پتا نہیں تھا کہ ہیوگو اسے دیکھنے سے قاصر ہے۔ تمینہ کی پشت پر نظر ڈالتے ہی (اس کے حسین، بالغ کولھوں کی اس کھلی ہوئی آنکھ پر جو اسے ترحم سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی) اس کی شہوت اتنی بھڑک اٹھی کہ اس نے آنکھیں بند کر لیں، اپنے دھکوں کی مجنونانہ رفتار کو لگام دی، اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اب وہ بھی اپنے ذہن کو کسی اور چیز (وہی ایک چیز جو دونوں میں مشترک تھی) پر مرتکز کرنے اور جنسی فعل کو کچھ دیر اور جاری رکھنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔

اسی اثنا میں تمینہ کو ہیوگو کے کمرے کی سفید دیوار پر اپنے شوہر کا بڑا سا چہرہ نظر آیا، اور اس نے مضبوطی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک بار پھر وہ بے قاعدہ افعال کی گردان کی طرح ان چھٹیوں کو دہرانے لگی: جھیل کے کنارے گزاری گئیں پہلی چھٹیاں، پھر یوگوسلاویہ، اور جھیل؟ — پھر تترس والی، پھر بلغاریہ والی، اس کے بعد ہر چیز مبہم ہو گئی تھی، پھر پراگ، معدنی چشمہ اور آخراً اٹلی۔

ہیوگو کی گہری گہری سانسوں کی آواز اسے اپنی یادوں سے کھینچ لائی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور دیوار پر اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا۔

ٹھیک اسی لمحے ہیوگو نے بھی اپنی آنکھیں کھول دیں، اور تمینہ کی پشت میں جڑی ہوئی اس بے پناہ آنکھ کو دیکھتے ہی جنسی وجد کی ایک زبردست لہر ایک کوندے کی طرح اس کے سارے جسم میں لپک گئی۔

 

22

 

جب تمینہ کا بھائی اس کی ساس سے ملنے گیا تو اسے دراز کا تالا توڑنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ دراز پہلے سے کھلی ہوئی تھی، اور اس میں گیارہ کی گیارہ نوٹ بکس موجود تھیں۔ لیکن وہ بنڈل میں بندھی ہوئی نہ تھیں بلکہ منتشر تھیں۔ خطوط بھی اسی طرح بے ترتیب اور بکھرے ہوئے تھے — کاغذات کا ایک بے شکل انبار۔ تمینہ کے بھائی نے اس ملبے کو سوٹ کیس میں بھرا اور باپ کو دے آیا۔

تمینہ نے فون پر اپنے باپ سے کہا کہ ساری چیزوں کو قرینے سے کاغذ میں لپیٹ کر اسے احتیاط سے چاروں طرف سے باندھ دے، اور — اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ — اس نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ نہ وہ اور نہ اس کا بھائی ان کا ایک لفظ پڑھیں۔

اس نے تمینہ کو اطمینان دلایا، حالانکہ اس بات کا وہ تقریباً برا مان گیا کہ وہ کبھی اپنے خواب میں بھی تمینہ کی ساس کے نقش قدم پر چل کر ان چیزوں کو پڑھے گا جن سے اس کا کوئی سروکار نہ ہو۔ لیکن مجھے معلوم ہے (اور تمینہ کو بھی معلوم ہے ) کہ بعض چیزیں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ آدمی انھیں دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا — مثلاً جیسے کار کا حادثہ یا دوسروں کے عشقیہ خطوط۔

چنانچہ، انتہائے کار، تمینہ کی بہت ہی بے تکلفانہ اور نجی تحریریں اب اس کے باپ کی حفاظت میں تھیں۔ لیکن کیا اس کے لیے ان کی اب بھی وہی قدر و قیمت تھی؟ کیا وہ پہلے ہی سینکڑوں بار یہ نہ کہہ چکی تھی کہ اغیار کی نگاہ اس بارش کی طرح ہوتی ہے جو لکھے کو دھو ڈالتی ہے؟

بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ غلطی پر تھی۔ وہ تو انھیں دیکھنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تڑپ رہی تھی۔ ان کی اہمیت اس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہ پامال اور بے حرمت کی جا چکی تھیں۔ وہ اور اس کی یادیں ایک مشترکہ قسمت میں ایک دوسرے کی بہنیں تھیں۔ ان سے اس کی محبت اور بھی بڑھ گئی۔

لیکن اس کے باوجود وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی کہ اسے باقاعدہ ذلیل، باقاعدہ سبک سر کیا گیا ہے۔

ایک بار بہت پہلے — جب اس کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی — اس کا چچا اس کے کمرے میں ٹھیک اس وقت در آیا تھا جب وہ برہنہ تھی۔ اسے بے حد شرم آئی۔ پھر یہی ندامت سرکشی میں تبدیل ہو گئی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے خود سے طفلانہ لیکن باضابطہ عہد کر ڈالا کہ اپنی مدت العمر کبھی اس چچا کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گی۔ وہ جب بھی ان کے یہاں آتا، وہ اسے دیکھنے سے انکار کر دیتی، اور اس کے لیے اسے ہر جور و ستم منظور تھا: گھر والوں کی تہدید، ڈانٹ پھٹکار، چیخنا چلانا، طنز، استہزائی ہنسی — سب کچھ۔

اور اب یہاں ایک ملتی جلتی صورت حال سے سامنا تھا۔ وہ اپنے والد اور بھائی کی شکر گذار تھی لیکن وہ اب دوبارہ کبھی ان کا منھ تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ آج یہ بات اس پر پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی تھی: وہ کبھی لوٹ کر ان کے پاس نہیں جائے گی۔

 

23

 

ہیوگو کی غیر متوقع کامیابی اپنے ساتھ اتنی ہی پسپائی بھی لیتی آئی تھی۔ ہرچند وہ اب جب چاہتا اس کے ساتھ ہم بستری کر سکتا تھا (پہلی دفعہ سپرد کر دینے کے بعد اب وہ شاید ہی انکار کر سکتی تھی)، لیکن اسے خوب احساس تھا کہ وہ اسے اپنا بنانے، اسے خیرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ ایک برہنہ جسم اس کے جسم کے نیچے اس قدر لاتعلق، اتنا سرد مہر، اتنا نارسا، اتنا اجنبی کیسے ہو سکتا ہے؟ اور وہ بھی اس وقت جب وہ اسے اپنی اندرونی زندگی کا حصہ بنانے کا شیدائی تھا! اس پر شکوہ کائنات کا حصہ جس کی تجسیم اس کے گرم لہو اور خیالات سے ہوئی تھی!

’’تمینہ، میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں‘‘ ریستوراں میں اس کے مقابل بیٹھے ہوئے اس نے کہا۔ ’’محبت کے بارے میں کتاب۔ ہاں، ہاں، تمھارے بارے میں، اپنے بارے میں، ہمارے بارے میں، ہمارے نجی ترین جذبوں کے بارے میں۔ ڈائری کی صورت، ہمارے دو جسموں کی ڈائری۔ ہاں، ہاں، میں تمام پابندیوں کو جھاڑ کر بالکل بے لاگ طور پر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور کیا چاہتا ہوں۔ یہ کتاب سیاسی بھی ہو گی۔ محبت کے بارے میں ایک سیاسی کہانی اور سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی…‘‘

تمینہ وہیں بیٹھی اسے دیکھے جاتی ہے۔ اچانک اس کے چہرے کی کیفیت ہیوگو سے اور برداشت نہیں کی جاتی اور وہ اپنی گفتگو کا سلسلہ کھو بیٹھتا ہے۔ وہ تو اسے اپنے لہو اور خیالات کی کائنات میں اٹھا کر لے جانا چاہتا تھا، اور وہ یہاں اپنی ہی دنیا میں سراسر اور یوں مکملاً محو بیٹھی تھی۔ اس کے الفاظ بہرے کانوں میں پڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی روانی کھو کر بوجھل ہوتے جا رہے تھے : ’’…سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی۔ بالکل — کیونکہ ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانی پیمانے پر ایک دنیا تخلیق کر سکیں، اپنے پیمانے پر، اپنے جسموں کے پیمانے پر۔ تمھارا جسم، تمینہ، اور میرا جسم، بالکل۔ تاکہ آدمی بوس و کنار کا ایک نیا طریقہ دریافت کر سکے، محبت کرنے کا ایک نیا ڈھنگ…‘‘

الفاظ اور زیادہ بوجھل اور بے ڈھب ہوتے جا رہے ہیں، وہ کٹّر گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہیں۔ ہیوگو کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ تمینہ حسین ہے، اور وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اپنے بے وطن بیوہ کے ماضی کو استعمال کر رہی ہے، اور اپنی جھوٹی انا کی فلک بوس عمارت کی بلندی سے نیچے ہر ایک کو حقارت سے دیکھ رہی ہے۔ ہیوگو رشک کے ساتھ خود اپنی لاٹ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ لاٹ جو وہ تمینہ کی فلک بوس عمارت کے درمیانی فاصلے کو پاٹنے کے لیے کھڑی کرنا چاہتا ہے، وہ لاٹ جس پر تمینہ ذرا سی توجہ دینے کے لیے بھی آمادہ نہیں — وہ لاٹ جو محض ایک مطبوعہ مضمون اور اپنی اور اس کی محبت کے بارے میں ایک مجوزہ کتاب سے مل کر بنی ہے۔

’’تم پراگ کب جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ پوچھتی ہے۔  ژ میں چلی آ رہی تھیں۔ وہ ٹائلٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور قے کر دی۔ اس کا پورا جسم یوں تڑپ اور لرز رہا تھا گویا سسکیاں بھر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے اس لونڈے کے خصیوں، عضوِ تناسل اور زیرِ ناف کے بالوں کی تصویر تھی۔ وہ اس کے منھ سے نکلتی ہوئی سانسوں کی کھٹی بساند سونگھ سکتی تھی، اور اپنے کولھوں پر اس کی رانوں کے دباؤ کو محسوس کر سکتی تھی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اب اسے مطلق یاد نہیں رہا کہ اس کے شوہر کے اعضائے تولید کی کیا شکل و صورت تھی — دوسرے لفظوں میں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ثابت ہو رہی تھی (خدایا، ہاں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ہے ) — اور وہ دن دور نہیں جب اس کے حافظے میں صرف یہ لڑکا اور اس کے منھ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکے ہی رہ جائیں گے۔ اور اس نے پھر قے کر دی۔ شاخِ بید کی طرح لرزی، تڑپی، اور ایک اور قے کر دی۔

جب وہ غسل خانے سے برآمد ہوئی تو اس کے منھ پر (جو ہنوز اس کھٹی بو سے لبریز تھا) ہمیشہ کے لیے خاموشی کی مہر ثبت ہو چکی تھی۔ ہیوگو مضطرب و خجل تھا۔ چاہتا تھا کہ ساتھ چل کر اسے گھر تک چھوڑ آئے، لیکن وہ ایک لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے ہونٹ سل چکے تھے (جس طرح خواب میں ہوا تھا، جب اس کے منھ میں طلائی انگشتری تھی)۔

جب وہ اس سے بولا تو اس کا تنہا ردِ عمل یہ تھا کہ وہ اور زیادہ تیز چلنے لگی۔ جلد ہی اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ رہ گیا، اور کچھ دیر تک وہ اس کے ساتھ ساتھ خاموش چلتا گیا۔ بالآخر وہ ایک جگہ رک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ سیدھی آگے چلتی گئی، بغیر اِدھر یا اُدھر دیکھے ہوئے۔

وہ اپنی مدتِ عمر گاہکوں کو کافی پیش کرتی رہی اور بھول کر بھی دوبارہ چیکوسلوواکیہ فون نہ کیا۔

٭٭

 

حواشی:

1 Calvados: بھوری رنگت کی خشک برانڈی جو سیب کے عرق سے کشید کی جاتی ہے۔

2 siren: یونانی دیومالا کی وہ مخلوق جو آدھی عورت اور آدھی پرند ہوتی ہے، سمندر کے بیچ کسی چٹان پر رہتی ہے، اور ساحرانہ موسیقی سے غفلت میں آئے مسافروں کو پھانس لیتی ہے۔

3 pate: یہ وہی شے ہے جسے پاکستان کے بہائی ریستورانوں میں خلقت ’’پے ٹِس‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔

4 اصل لفظ جو انگریزی میں استعمال ہوا ہے وہ betray ہے۔ کوئی مناسب اور مترادف لفظ نہیں مل رہا، اور ’’دغا‘‘ سے بھی کام نہیں چل رہا۔ سو دونوں حاضر ہیں۔

5 port: گہرے سرخ رنگ کی ایک تیز، میٹھی شراب۔

6 A soft clear metallic tone, like a golden ring falling into a silver basin.

7 "Is one man alive when others are alive”

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے