ماں کے لئے دو نظمیں ۔۔۔ عامر حمزہ

اردو روپ: اعجاز عبید

 

ایک الم نصیب بیٹے کی نظم

 

(اپنی مرحوم ماں کے نام جس کی مٹی میں شریک نہ ہو سکنے کا ملال ہمیشہ مجھے ستاتا ہے)

 

ایک شاعر جس نے دھرتی پر ہل نما قلم سے نظم لکھی

روشنی نما قلم سے چاند کو گٹار میں بدلا

سمندر کو شیر کی طرح کوڑے نما قلم سے آکاش کے پنجرے میں لا کھڑا کیا اور

سورج پر کبھی بھی کسی بھی وقت بھروسے نما قلم سے لکھ سکتا تھا وہ کوتا

اپنی رگوں میں قطرۂ خون کے دوڑنے تک کہتا تھا

ماں پر نہیں لکھ سکتا نظم!

مٹی سے راکھ میں تبدیل ہو کر دریا میں بہائے جا چکے

اپنے اس اجدادی شاعر سے کہنا چاہتا ہوں،

کہ گستاخی معاف ہو میری

زمین پر کوئی نظم نہیں لکھی میں نے چاند کو بھی گٹار میں نہیں بدلا

سمندر کو بھی شیر کی طرح آکاش کے پنجرے میں کبھی کھڑا نہیں کیا

اور سورج پر کبھی بھی نہیں لکھ سکتا میں نظم

باوجود اس کے رگوں میں اپنی قطرۂ خون کے دوڑنے تک میں بار بار

ماں پر لکھ سکتا ہوں، نظم!

تا زندگی غریب رہنے والی میری ماں

ایک مڈل کلاس کسان خاندان میں پیدا ہوئی اور

اپنے والد کی ضد کے باعث اپنی بڑی بہنوں کی طرح

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایک مزدور کم کبوتر باز زیادہ مرد سے بیاہ دی گئی

ماضی کی یادوں کے دریچے کی یہ گواہی ہے کہ

یہ وراثتوں کو نیست نابود کرنے کی نیو رکھے جانے کا وقت تھا

یہ فضا میں نعروں کے گونجنے کا وقت تھا

یہ نیم بھرے آنگن اور کھونٹی پر ٹنگے چھینکوں سے بچھڑنے کا وقت تھا

یہ اپنے اپنے گھروں کو نم آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے کا وقت تھا

یہ ہجرت کا زمانہ تھا

یہ ایک ملک کے ہزاروں ہزار لوگوں کے چہروں پر ڈر کو پڑھے جانے کا زمانہ تھا

یہ ایک ملک کے لاکھوں لاکھ لوگوں کے چہروں پر ہنسی کو پڑھے جانے کا  زمانہ تھا

یہ آنکھیں موند کر  جدیدیت سے ما بعد جدیدیت کی طرف بڑھتے چلے جانے کا زمانہ تھا

اس سب کے باوجود

گڑ مونگ پھلی دال سرکا گیہوں چاول کے ساتھ ماں جب مائکے سے اپنی سسرال آئی

تو باندھ لائی چپکے سے

اپنے پلو میں گاؤں کی بڑی بوڑھی عورتوں کے حلق سے پھوٹتا ایک وداعی گیت

جسے اپنی تنہائی میں وہ جب تب گنگناتی رہتی

گھر خالی ہو جائے گا ری لاڈو تیرے بن

تیرے بابا نے رو رو انکھیاں لال کری

ری تیری دادی کا من ہے اداس ری لاڈو تیرے بن

انگنا خالی ہو جائے گا ری لاڈو تیرے بن

تیرے باپو نے رو رو انکھیاں لال کری

ری تیرے ماں کا من ہے اداس ری لاڈو تیرے بن…۔

اور پھر ایک روز اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں

دن رات مسلسل کرۂ ارض کے اپنے محور پر مغرب سے مشرق کی سمت گھومتے رہنے کے معمول کے مطابق

مریخ پر پانی  کی تلاش کے دعوے کے ساتھ ساتھ بہت سے دنیاوی سائنس دان زمین سے دور کہیں بہت دور جب ایک نئی دنیا کی تلاش میں مشغول تھے

بیٹی کی آس میں چار بیٹے پیدا کرنے والی میری ماں

اپنی عمر کے پینتالیس سال پورے کرنے کی دہلیز پر کھڑی ایک ایک سانس کے لیے جد و جہد کرتی شہر چنڈی گڑھ کے ایک اسپتال میں تین دن وینٹی لیٹر پر رہنے کے باوجود گزرے ہوئے سال کے ماہ مئی کی ایک صبح مر گئی

یہ اطلاع مجھے فون پر میرے بھائی کے آنسوؤں سے ملی

یہ زمین پر

سیلاب اشک کا جشن تھا

اجاڑ کا موت کا جشن تھا

جہاں اب انسان کو نہیں صرف جذبات کی اہمیت تھی

اپنی یادوں کی دبیز چادر پر ذرا سا زور ڈالوں تو

ایمبولینس محض پچپن ہزار!

آکسی میٹر محض تین ہزار!

آکسیجن سلینڈر محض پندرہ ہزار!

آکسیجن بیڈ محض پانچ لاکھ!

اور انسانیت! اور انسانیت!

کہتے کہتے میری زبان لڑکھڑانے لگتی ہے

موجود نہیں!

موجود نہیں!

موجود نہیں!

ماں!

اپنے جیتے جی جس نے نہ کبھی کوئی پہاڑ دیکھا

نہ کوئی ندی اور نہ ہی کوئی سمندر

جب کہ

کتنے کتنے پہاڑ

کتنی کتنی ندیاں

کتنے کتنے سمندر سے سجی دھجی ہے یہ دنیا

ماں!

جس کی زندگی کھیت سے گھر اور گھر سے کوڑی تک

ڈھوروں کے لیے صبح و شام سر پر چارہ اور گوبر ڈھونے سے شروع ہوئی

اور بیاہ کے بعد ایک مزدور کم، کبوتر باز زیادہ مرد کے ساتھ وقت کاٹتے گزری

اس کے حصے میں اس دنیا میں صرف

سر پر بوجھ اٹھانا آیا

ماتھے پر پسینہ

ہاتھ میں چمٹا آیا

آنکھوں میں دھواں اور

مقدر میں چولھا آیا

در اصل کچھ اور تھا ہی نہیں ماں کے لیے اس دنیا کے پاس

علاوہ اس کے کہ وہ جہاں پیدا ہوئی

جس مٹی میں کھیلی کودی پلی بڑھی

مر جانے کے بعد اسی مٹی میں دفنا دی گئی

اور اگ آئی ایک روز زمین سے آسمان کی اور گھاس کی شکل میں

خون سے بھری اس نفرتی بد رنگ بے ایمان جنگی دنیا کو

کچھ ہرا کرنے کا ارادہ لیے۔

٭٭

 

 

 

گھر میں نہیں ہے ماں کی کوئی تصویر

 

(جگجیت سنگھ کی غم سے تر اس آواز کے لیے جس کے سہارے قلم اور کاغذ کی مسلسل گفتگو ہوتی رہی)

 

چارپائی بنُتی ماں سے اپنے بچپن میں اکثر میں ایک سوال پوچھتا

ماں! مر جانے کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں لوگ؟

ماں  بے دلی سے کہتی

مر جانے کے بعد چڑیاں بن جاتے ہیں لوگ

اور پھر انگلی سے اپنی

چبوترے پر کھڑے درخت شہتوت پر اچھل کود کرتی کانا باتی کرتی

کئی کئی سفید دھاری دار گردن والی چڑیوں کی اور اشارہ کرتے ہوئے

کچھ نام بدبداتی فہمیدہ انیسہ سکینہ اصغری رخسانہ وغیرہ وغیرہ

اور پھر کہتی انہیں دیکھ رہا ہے

یہ سب چڑیاں بھی تیری ماں ہیں!

جو روز صبح صبح مجھ سے ملنے آتی ہیں اور

کہتے کہتے ماں کی آنکھیں بھر آتیں

اکثر ماں یہ بھی کہتی مجھ سے

پتہ ہے تجھے اچھے لوگ دنیا سے کیوں رخصت ہو جاتے ہیں جلدی!

میں کہتا میں نہیں جانتا؟

ماں کہتی

اللہ نہیں چاہتا کہ اچھے لوگ شریک گناہ ہو بیٹھیں

اب جبکہ ماں نہیں ہے

ہے دفن دو گز زمیں کے نیچے جس پر کچھ رنگ برنگے پھول اور کچھ گھاس اگ آئی ہے

بچی ہے محض میری یادوں کے آنگن میں

مجھے یاد آتا ہے

یاد آتا ہے کہ خود کے مرنے سے چند مہینوں پہلے ہمیشہ کی طرح ایک روز ماں بازار گئی اور

وہاں سے چوڑیوں، کپڑوں، اور اپنی ضرورت کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ

خرید لائی بے جان چڑیوں کا ایک جوڑا اور

ٹانگ دیا اسے دروازے کے داہنے کونے پر

ماں کو نہ بچا پانے کی شرم سے بھرا میں ایک بدنصیب بیٹا

اب وقت تنہائی میں

جب جب ماں کے لائے بے جان چڑیوں کے اس جوڑے کو دیکھتا ہوں،

تو در اصل

ماں کو دیکھتا ہوں،

کیونکہ

میں جس مذہب میں پیدا ہوا جس گھر میں پالا بڑھا

وہاں دیواروں پر

زندہ یا مردہ انسانوں کی تصویر لگانا سخت منع ہے

میں نے پوچھی ہے اس کے پیچھے کی وجہ کئی دفعہ اپنے کبوتر باز ابو سے

کہ آخر ایسا کیوں؟

عبادت خدا کے نام پر صرف نماز جمعہ پڑھنے والے میرے کبوتر باز ابو جن کی زندگی کا ایک اہم حصہ چینی گجرا ،ہرا مکھی، دباج، کلدما ،کلسرا، چھپاوا، دیوبندی نسل کے کبوتروں کی بازی لگاتے گزرا…

اپنی لڑکھڑاتی زبان سے کہتے ہیں—

’گھر میں زندہ یا مردہ انسانوں کی تصویر لگانے سے نیکی کے فرشتے نہیں آتے‘

شاید کہتے رہے ہوں گے کچھ ایسا ہی

ابو کے ابو، اور ان کے بھی ابو، نسل در نسل ایک دوسرے سے

پوچھا ہے میں نے اپنے مذہب کے اور بھی کئی لوگوں سے کئی کئی مرتبہ

کہ آخر کیوں گھر میں زندہ یا مردہ انسانوں کی تصویر لگانا منع ہے؟

جواب میں مجھے سب فرشتوں کی ہی موافقت میں کھڑے نظر آئے

اور ماں کٹہرے میں!

ماں! جسے ہمیشہ سے تصویر کھنچوانے کا بڑا شوق تھا

سپرد خاک ہو جانے کے بعد

گھر میں اس کے حصہ گھر کی کوئی دیوار نہیں بلکہ مذہبی بیڑیاں ہی آئیں

جبکہ لگائی جا سکتی تھی کوئی ایک تصویر اس کی

گھر کی کسی ایک دیوار پر کہیں

میرے گھر کی کسی دیوار پر کہیں ماں کی کوئی تصویر نہیں ہے

میرا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے