چند چتکبرے خواب عرف لوٹنا ایک بوڑھے ہوتے ہوئے چوک کا بچپنا ۔۔۔ گوتم راج رشی

 

(یہ کہانی جس پر شائع ہوتے ہی وسیع پیمانے پر خیالات کا اظہار کیا جا چکا ہے،  ماہنامہ ’ہنس ‘کے اگست 2017 کے شمارے  میں شائع ہوئی ہے۔  ترجمہ: اعجاز عبید)

 

“کیا ہوا آج؟ ہلا تھا ہاتھ کیا؟” پھسپھساتے ہوئے پوچھا دیپو نے۔ ویسے تو چاروں ہمیشہ ساتھ ہی آتے تھے، لیکن دیپو لیٹ ہو گیا تھا آج۔۔ ۔  جب تک کلاس میں گھسا، پنڈت جی بھی رول کال رجسٹر لئے کلاس روم کی چوکھٹ تک آ گئے تھے۔ ببلو اور منٹو کے بیچ میں اونہہ آہ کر کے پیٹھتا ہوا، پنڈت جی کے اپنی کرسی پر ٹھیک سے بیٹھنے تک موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ہانپتی بے چینی کو چپ کرنا چاہا تھا دیپو نے۔ منٹو نے زور کی کہنی مار کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا، جسے دیکھ کر بغل میں بیٹھا بینی ہنس پڑا۔ پنڈت جی کی دائیں بھوں ایک دم سے تکونی ہو کر اٹھی اور کلاس روم کی سہمی سی خاموشی کچھ اور سہم گئی۔ پل بھر بعد ہی گونجنے لگی پنڈت جی کی بلند آواز رجسٹر سے ایک ایک نام کو پکارتے ہوئے، جس کے جواب میں پریزینٹ سرپریزینٹ سر کا شور کلاس روم کے ہر کونے سے ٹپکنے لگا۔

وہ پندرہ بٹے بیس کا کلاس روم ضلعہ  سکول کی دسویں کلاس کا سیکشن ‘اے ’ تھا، جس میں پانچ پانچ کی دو قطار میں ساڑھے چار ساڑھے چار فٹ لمبے کل دس بینچ۔ ڈیسک کی جوڑیاں تھیں۔ ایک بینچ۔  ڈیسک پر چار طلبا بیٹھتے تھے اور پنڈت جی۔۔ ۔ منیندر مشرا دسویں ‘اے ’ کے کلاس ٹیچر تھے، جن کے ظلم و ستم سے ان کی کلاس کے سارے کے سارے اڑتیس طلباء خوفزدہ رہتے تھے۔ ہر روز چالیس منٹ والا پہلا پیریڈ سنسکرت کا ہی ہوتا تھا، جس میں پہلے سات سے دس منٹ تو رول کال اور ضیر حاضر طلبا کی کھوج خبر میں نکل جاتا اور اگلے دس منٹ پند و نصائح  میں، جنہیں پنڈت منیندر مشر جی نے بڑے جتن سے اپنی بیالیس سال کی زندگی میں جمع کئے تھے۔ اس روز بھی وہی سب ہو رہا تھا، لیکن دیپو کی نظر بس پنڈت جی کے پیچھے ٹنگی دیوار گھڑی پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔ اس کی بے صبری چالیس منٹ والے پیریڈ کو طویل زمانے جیسا لمبا بنا رہی تھی۔ خیر خیر مناتے باہر برامدے سے ٹن ٹن کی آواز دوسرے پیریڈ کے شروع ہونے کا اعلان کرتے ہوئے آئی۔

“ارے چوٹاّ سب ! کچھ بتائے گا کہ نہیں تم لوگ رے ؟ کیا ہوا آج؟ ہاتھ پھر ہلا تھا؟” پنڈت جی کی چپلوں کی پھٹکار کلاس روم سے دور جاتے ہی دیپو اچھل کر ڈیسک پر بیٹھتا ہوا لگ بھگ چلاتے ہوئے پوچھ پڑا۔

“تم کھسک کہاں گیا تھا رے ؟ ہم لوگ چوک پر رکے تھے بڑی دیر تمہارے لئے۔۔ ۔، آج پھر سے ہاتھ ہلا تھا۔ خوش؟” ببلو نے جواب دیا۔

“بابوجی کا موٹرسایکل کا پیٹرول ختم ہو گیا تھا۔ وہی بھروانے میں لیٹ ہو گئے ہم۔ ”

“اب نیچے بیٹھے گا تم۔۔ ۔ بابو آتے ہی ہوں گے۔ ” منٹو نے کہا۔

“تم مینو سے پتہ کرنے کا کوشش کیا رے ؟” بینی نے دیپو سے پوچھا۔

“ہمتے نہیں ہوتا ہے۔ وہ پھٹ سے جا کر بتا دے گی بابوجی کو کہ بھیا گرلس سکول کے بارے میں پوچھ رہے ہیں اور بابوجی کیا حال کریں گے ہمارا، جانتا تو ہے تم لوگ۔ ” دیپو کی مجبوری با قاعدہ اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔

بات چیت کا سلسلہ وہیں تھم گیا کہ امریندر بابو کی آمد ہو گئی تھی کلاس میں فزکس پڑھانے کے لیے۔ دیپو کی بے کلی تھی کہ ہلورے مارے جا رہی تھی۔۔ ۔ بلیک بورڈ پر نیومیرکلس سمجھا رہے امریندر بابو کے کانوں تک پہنچ ہی گئی اور گھور کر دیکھا انہوں نے بائیں  والی قطار کے تیسرے بینچ کی طرف۔۔ ۔

“تم چاروں پھر ساتھ بیٹھا ہوا ہے ؟ تم لوگ کا دماغ میں ایک بار میں بات نہیں گھستا؟ اٹھو! اٹھو وہاں سے تم چاروں اور الگ الگ کونے میں بیٹھو ترنت۔ اگلی بار پھر سے دیکھ لئے ساتھ بیٹھے تم لوگ کو تو مار مار کے حلیہ ٹائٹ کر دیں گے۔”

سکپکائے سے چاروں اٹھ کر الگ الگ بینچوں پر جا بیٹھے ۔اتھاہ وکھ کا مکھوٹا اوڑھے ہوئے اپنے اپنے چہروں پر۔۔ کلاس  کے باقی طلبا کی دبی دبی ہنسی پر آنکھوں سے آتشی اسلحے برساتے ہوئے۔ یہ لگ بھگ روز کا معمول تھا۔ چاروں کا کلاس کی بائیں قطار والے تیسرے بینچ ڈیسک پر بیٹھنا ریزرو رہتا تھا ہر روز۔۔ ایک دوسرے کے بغیر ان کی سانس نہیں نکلتی تھی۔ سکول سے لے کر محلے تک چاروں کو ہمیشہ ساتھ ہی دیکھا جاتا تھا۔ شہر کے جنوبی  کونے پر بسے پوربیا ٹولا  (اب اس بارے میں یہ پوچھنا کہ جنوبی کونے پر تھا تو پوربیا ٹولا کیوں؟ کچھ ایسا ہی سوال ہو گا کہ ہندستان کے پورب میں ہونے پر بھی صوبے کا نام مغربی بنگال کیوں ہے ؟) سے لے کر ادھر ضلع سکول تک شاید ہی کبھی کسی نے ان کو الگ الگ دیکھا ہو۔ ویسے بھی کوسی ندی کی اکثر آنے والی باڑھ کی دھمکی سے خوف کھائے اس چھوٹے سے شہر میں ہر کوئی ہر کسی کو نام سے جانتا تھا لگ بھگ۔

کمشنری ہیڈ کوارٹر ہونے کے باوجود شہر ابھی اپنے پر نہیں پھیلا پایا تھا۔ ابھی بھی بس چھوٹی لائن والی ٹرین ہی آتی تھی یہاں۔ دہلی، کلکتہ جیسے بڑے شہروں کو جانے کے لئے اس شہر کے لوگوں کو کوسی اور گنگا ندی پار کر پٹنہ یا بھاگلپور جانا پڑتا تھا۔ یہاں سب کچھ ایک اپنی طے شدہ مدھم رفتار سے چلتا تھا۔۔ ۔ کسی کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ شام کو جلدی سونے والا یہ شہر صبح کو دیر سے السایا جاگتا تھا۔ دہلی میں پہلی بار ایشیاڈ گیمس ابھی پانچ چھ سال پہلے منعقد ہوے تھے تو اس چکر میں شہر کے کچھ گھروں میں ٹیلی ویژن آ گئے تھے۔ انہیں سست سے السائے دنوں میں شہر کے پوربیا ٹولا کے یہ چاروں لڑکے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بڑے خواب پالے بہت کچھ کر گزر نے کا سوچا کرتے تھے۔

ویسے  فی الحال ان کے اس بہت کچھ کر گزر نے کے منصوبے پر ایک نئے تعجب خیز وقوعے نے اپنا اثر ڈالا ہوا تھا، جس سے چاروں کے دن کا چین اور راتوں کی نیند اڑی ہوئی تھی۔ پر پھیلانے کے عمل کے لئے تیار ہو رہے اس چھوٹے سے شہر کے لئے یہ خبر اپنے آپ میں کسی عجوبہ سے کم نہیں تھی۔۔ ۔ اور بیوٹی فل۔ لیکن اکتائے ہوئے شہر کے منظر نامے پر ابھی اس نام نہاد بولڈ اور بیوٹی فل وقوعے کا سکرین پلے کھلا نہیں تھا۔ یہ خبر ابھی تک اس چنڈال چوکڑی کی آنکھوں تک ہی محدود تھی۔ چاروں اپنے محلے سے ساتھ ہی پیدل چالیس منٹ چل کر سکول آتے تھے۔۔  محلے  سے نکلنے کے بعد نیشنل ہائی وے کو پار کرنا، پھر شہر کے اکلوتے کالج کے کیمپس سے ہوتے ہوئے کالج کی پیچھے والی دیوار کے ایک ٹوٹے حصے سے شارٹ کٹ لیتے ہوئے یہ سیدھے چوک پر آ جاتے تھے۔ چوک، جس کا کوئی نام نہیں تھا۔۔ ۔شہر  بھر میں وہ بس چوک کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ چوک سے پھر پوسٹ آفس کو بائیں چھوڑتے ہوئے یہ اس سڑک پر آ جاتے تھے، جہاں آگے جا کر شہر کا صدر اسپتال، پھر سکریٹیریٹ، پھر کچہری اور تمام دفاتر آتے تھے۔ لیکن ان سب سے پہلے آتا تھا شہر کا اکلوتا سرکاری گرلس ہائی اسکول، جسے سب لوگ عموماً گرلس سکول کہہ کر بلاتے تھے اور اسی سے بس کچھ فرلانگ آگے سڑک کے پر لی طرف لڑکوں کا سرکاری ہائی اسکول آتا تھا، جسے بس ضلع سکول کہہ کر بلایا جاتا تھا۔

چھٹی کلاس  تک وہیں پوربیا ٹولا کے ایک پرائیویٹ سکول سنسکار بھارتی ودیا مندر میں پڑھنے کے بعد چاروں آ گئے تھے ضلع سکول میں اور پچھلے تین سالوں سے یہی معمول چل رہی تھی ان کا۔۔  پڑھنے  میں اوسط سے بس تھوڑا سا آگے تھے چاروں اور موج مستی میں اوسط سے بہت آگے۔ لیکن سکول اور محلے کی کرکٹ ٹیم چاروں کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتی تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ابھی تک۔۔   بس تین چار دن پہلے ان کی دنیا الٹ پلٹ ہو گئی تھی۔ اس الٹ پلٹ میں جہاں ایک انجانی سی گدگدی تھی، وہیں ایک ناقابلِ بیان رومانس بھی تھا۔۔  شدید گرمی کے بعد بارش کی پہلی بوند کے گرنے کا احساس تھا اور ساتھ ہی تھی اسرارکی ایک چادر۔

ہوا یوں کہ اس دن چاروں گپیں لڑاتے اپنے سکول کی سمت آتے ہوئے جب گرلس سکول کے سامنے سے گزر رہے تھے تو گرلس سکول کے ایک کلاس روم کی دو کھڑکیوں سے، جو مین روڈ کی طرف کھلتی تھیں، دو دو گورے گورے ہاتھ زور زور سے ہل کر انہیں اشارہ کر رہے تھے۔ سب سے پہلے بینی نے دھیان دیا اس حرکت پر اور اس کی چوندھیائی آنکھوں کا پیچھا کرتے ہوئے جب منٹو، ببلو اور دیپو نے وہ منظر دیکھا تو ان کی بھی آنکھیں اپنے کٹوروں سے ابل کر باہر آنے کو بے تاب ہونے لگیں۔ چاروں  کبھی ایک دوسرے کو تو کبھی ان دو کھڑکیوں سے ہلتے ہوئے ان چار گورے گورے ہاتھوں کو دیکھتے رہے۔ یہ حالت شاید یوں ہی کسی تھم گئے لمحے سی چلتی رہتی اگر اسی وقت گرلس سکول اور وہیں سے تھوڑی دور پر ضلع اسکول، دونوں ہی سکولوں کی مارننگ پریئر کے لئے ہونے والی گھنٹیاں ایک ساتھ بج نہ اٹھتیں۔ گھنٹی کی آواز پر بھک سے ٹوٹا ان چاروں کا مجسمہ بن جانا۔۔  اُدھر دونوں کھڑکیوں سے وہ گورے گورے ہاتھ غائب ہوئے اور اِدھر چاروں کے پیروں میں جیسے طوفان سما گیا۔ پریئر کے لئے دیر ہونے کا مطلب تھا پرنسپل کی چھڑی۔ “تمھیں ہو ماتا، پتا تمھیں ہو”  کے بول پر سکول کے لگ بھگ پانچ سو طلبا کے ساتھ وہ آنکھیں بند کئے ہاتھ جوڑے سُر تو ملا رہے تھے، لیکن دھیان میں ’’تمھیں ہو ماتا پتا ‘‘ والے طاقت ور بول کی جگہ بس گرلس سکول کی دو کھڑکیاں تھیں۔

پہلے انہیں لگا کہ گرلس سکول کی لڑکیاں یوں ہی شرارت کرتے ہوئے ہر لڑکوں کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہوں گی۔ لیکن بھید کھلا دو تین دن کی جانچ پڑتال کے بعد کہ وہ چاروں ہاتھ صرف انہیں کے گزر نے پر ہلتے تھے۔ پچھلے کچھ دنوں سے لگاتار آخری پیریڈ بنک کر کے گرلس سکول کے گیٹ کے ارد گرد منڈراتے ہوئے چاروں نے سکول سے باہر نکلتی ہوئی نیوی بلو فر اک والی تمام لڑکیوں کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے ایک ایک چہرے کو ان دو کھڑکیوں سے ہلتے ہاتھوں سے ملانے کی ان تھک کوشش کی، لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا۔ اس چھوٹے سے شہر کے سمجھ میں نہ آنے والی تہذیب  کے بوجھ تلے دب کر گرلس سکول کی لڑکیوں کی گردنیں جو سکول کے گیٹ سے باہر نکلتے ہی نیچے کی سمت جھکتیں تو پھر وہ اپنے اپنے گھر پہنچنے پر ہی اوپر اٹھتیں۔

اسرار کی چادر موٹی ہوتی جا رہی تھی اور چاروں کی بے کلی اپنی چوٹی پر تھی۔ سڑک سے تقریباً بیس پچیس میٹر دور سکول کی باؤنڈری وال کے اندر اس کلاس روم کی دونوں کھڑکیوں سے انہیں اشارے کرتے ہلتے گورے گورے ہاتھوں سے جڑے چہروں کا وہ بس تصور ہی کر پا رہے تھے، کیونکہ باہر کی دھوپ کلاس روم کے اندر کی نیم تاریکی میں کچھ بھی دیکھ پانے کے نا قابل بنا دیتی تھی چاروں کو۔

یہ ایک نئی دنیا تھی چاروں کے لئے، جو ابھی تک کتابوں اور کرکٹ تک ہی سمٹی تھی۔ لڑکیوں سے تعلقات کے طور پر بس اتنا ہی ہوتا تھا کہ اگر کوئی بڑے بزرگ آس پاس نہیں ہوتے اور ایسے میں راستے میں کوئی لڑکیوں کا گروپ نظر آتا تو بس انہیں سنا کر کوئی مشہور گیت گانے لگتے وہ۔ شام کو کرکٹ کی پریکٹس اب گھنٹے لگی تھی اور چوک پر ان کی بیٹھک بڑھنے لگی تھی۔۔ ۔ بابا کی مشہور چائے کی دوکان سے چائے پیتے ہوئے۔

نام تو ان کا ویسے رادھے شیام بابو تھا لیکن جب سے چاروں نے ہوش سنبھالا تھا، سب کے منھ سے رادھے شیام کے لئے بابا کا ہی خطاب سنتے آئے تھے۔ چاروں کی لگ بھگ ساری شامیں وہیں بیتتی تھیں۔ ڈسٹ والی پتی کو خوب کھولا کر ڈھیر سارا دودھ ملا کر بنائی گئی بابا کی چائے کا مزا ان دنوں آسمانی ہوا کرتا تھا۔ بابا ان کو چائے کے ساتھ خوب ساری تقریر بھی کرتے تھے پڑھائی لکھائی کو لے کر۔ وہیں بغل میں بجیندر سنگھ کی پان کی دوکان بھی تھی، جہاں سے وہ چاروں ہر روز پناما کی چار سگریٹ لیا کرتے تھے، جسے وہ دوکان کی گمٹی کے پیچھے چھپ کر پیا کرتے تھے اور پھر بجیندر بھیا سے خوب ساری لونگ الائچی کھا کر گھر جاتے تھے۔ چاروں کی اس سازش کو با قاعدہ بجیندر بھیا کا آشیرواد حاصل تھا۔

وہ ستمبر مہینے کے شروعاتی دنوں کی کوئی بے چین سی شام تھی، جب بینی منٹو دیپو ببلو کی چوکڑی جمع ہوئی تھی چوک پر بابا کی چائے سڑکتے ہوئے۔ سات مہینے سے اوپر ہو گئے تھے گرلس سکول کی ان دو کھڑکیوں سے ان کو اشارے کرتے چار ہاتھوں کو ہلتے ہوئے۔ ان سات مہینوں میں وہ بس اتنا پتہ کر پائے تھے کہ وہ دونوں کھڑکیاں دسویں کلاس کی ہیں۔ لڑکیوں کی تعداد اتنی نہ ہونے کی وجہ سے ضلع سکول کی طرح گرلس سکول میں کلاسوں  کو سیکشن میں نہیں بانٹا گیا تھا۔ یہ خلاصہ بھی کسی طرح دیپو اپنی چھوٹی بہن مینو سے نکال سکا تھا ۔ جو کسی نہ کسی طرح  گرلس سکول میں ہی نویں کلاس میں آ گئی تھی۔ اسرار کی یہ چادر اب تک خوب ساری روئی بھری رضائی سی موٹی ہو گئی تھی، لیکن رومانس کی گدگدی ہنوز جاری تھی۔

“کون ہے یہ اپنا سب کا دیوانی؟” لگ بھگ رو پڑنے کے انداز میں پوچھا بینی نے۔

“ہم لوگ جیسا ابھاگا تو اور کوئی نہیں ہو گا اس سنسار میں۔ ” فلسفی ببلو کا بیان جانے کتنا فلسفہ سمیٹے ہوئے تھا۔

“دیپوا، سالا تم کچھ کر ہی نہیں رہا ہے۔ مینو کو پٹاؤ تو ٹھیک سے۔ وہی ہم لوگ کا بیڑا ترا سکتی ہے بس۔ ” منٹو نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

“ارے یار، وہ بابوجی کی پکی چیلی ہے۔ پٹوا دے گی ہم کو۔ پھر بھی ہم ہمت کر رہے ہیں۔۔ ۔ لگا لیں گے، دیکھنا تم لوگ۔ ” دیپو نے جوش میں آتے ہوئے کہا۔

“مینو کو تم لوگ اس سب سے الگ ہی رکھو۔ ” اچانک سے بول پڑا تھا  ببلو اور اس کے عجیب سے ٹون نے باقی تینوں کو لگ بھگ چونکا ہی دیا تھا۔

اس سے پہلے کہ اس بارے میں کوئی کچھ پوچھتا ، بینی کو چھ سات لڑکیوں کا جھنڈ آتا دکھا ئی دیااور وہ بجیندر بھیا کی دوکان پر بج رہے بڑے سے ٹو ان ون میں گاتے گڈو رنگیلا کے سر میں سر ملانے لگا۔۔ ۔

“کھا لوں ترنگا گوریا ہو پھاڑ کے

باقی اب ایہ اتوار کے

جا۔۔ ۔ جھاڑ کے ”

پل بھر میں باقی تینوں بھی ساتھ میں راگ آلاپ رہے تھے۔۔ ۔

“چولیا میں جھلکیلا جوبنا کی جالی

من کرے دیکھی توہرے کے خالی

جان مارے توہرو بندیا لیلار کے

جا جھاڑ کے۔۔ ۔ ”

ادھر اچانک سے لڑکیوں کے قدم تیز ہو گئے اور وہ لوگ جھٹ پٹ وہاں سے گزر گئیں۔ چاروں کے قہقہے کے ساتھ جب گانا ختم ہوا تو بابا کی تیز پکار آ رہی تھی ان کے کانوں میں “بچوا لوگ، سدھر جاؤ تم سب!” جس کے رد عمل  میں چاروں ہڑبڑا کر اٹھے اور بجیندر بھیا کی گمٹی کے پیچھے “پناما کے دَم دار کش کی قسم، کسی فلٹر میں کہاں یہ دم” پر عمل کرتے ہوئے دھوئیں میں نہا گئے۔

شام ڈھلے جب سگریٹ کی مہک کو لونگ الائچی چبا کر ہٹاتے ہوئے چاروں گھر کی طرف لوٹ رہے تھے تو ساتھ میں پلاننگ چل رہی تھی آنے والے کل کی شام کی۔۔ دیپو  کے گھر میں تینوں کو اکٹھا ہونا تھا سال کے آخری گرینڈ سلیم یو ایسں اوپن کا عورتوں کا فائنل میچ دیکھنے کے لئے۔ دیپو کے بابوجی شہر کے اکلوتے تھانے کے تھانے دارتھے اور شہر میں گنے چنے رنگین ٹیلی وژنوں میں بڑا انیس انچی والا “اپٹرون” کمپنی کا ٹیلیویژن دیپو کے گھر میں بھی تھا۔ چاروں کی دلربا سٹیپفی گراف سال کے باقی تین گرینڈ سلیم پہلے ہی جیت کر یو ایسں اوپن کو بھی جیتنے کے موڑ پر تھی اور نیا ریکارڈ قائم کرنے والی تھی، جس کے لئے چاروں با قاعدہ جشن منانے کی تیاری میں تھے۔ اس فائنل کی تھوڑی سی الگ مشکل یہ تھی کہ اس بار کے فائنل میں ان چاروں کی دلربا کا مقابلہ ان کی دوسری دلربا سے ہو رہا تھا۔۔ ۔ گھنے والوں والی گیبریلا سباتینی سے اور اس وجہ سے ان کی محبت کچھ منقسم سی ہو رہی تھی۔

اگلی شام اپنے اپنے گھروں سے دیر رات کی اجازت لے کر منٹو، بینی اور ببلو جب دیپو کے گھر پہنچے تو باہر اوسارے پر تھانے دار شری نتیانند سنہا جی دھوتی اور بازو والا بنیان پہنے میکڈوویل نمبر ون وہسکی نوش فرما رہے تھے۔

“آئیے، آئیے۔۔ کیا حال ہے تم لوگ کا؟ پڑھائی لکھائی کیسا چل رہا ہے ؟”

ببلو نے سب سے پہلے بڑی مستعدی سے ان کے پیر چھوتے ہوئے جواب دیا، “سب ٹھیک ہے چاچا جی۔ آپ کیسے ہیں ؟”

“خوش رہو! یہ دپوا، چوٹّا، پڑھتا ہے کہ نہیں ٹھیک سے ؟ اور چھ مہینہ بعد تم لوگ کا میٹرک کا امتحان ہے اور تم لوگ یہی سب میچ ویچ دیکھ کر ٹائم برباد کرتے ہو؟ دن بھر تو تم لوگ کو دیکھتے ہیں بیٹ بال اٹھائے کالج فیلڈ میں ناچتے رہتے ہو۔۔  پڑھائی کب کرتے ہو؟ ایسا تھوڑے نہ چلے گا۔ کمپیٹیشن اب بہتے بڑھ گیا ہے۔ محنت نہیں کرو گے تو یہیں سڑتے رہو گے۔۔  باہر نکلو، اچھا کالج میں جاؤ، ہم سب کا نام بڑھاؤ۔۔ ۔ ”

اور یہ لمبا سا بھاشن جھیل کر تینوں آ گئے ٹی وی والے کمرے میں، جہاں پردے کے پیچھے چھپا ہوا دیپو اپنی کھیسیں نپوڑ رہا تھا۔ رات بڑی ہی نشیلی سی تھی وہ۔ سٹیفی اور سباتینی کے عشق میں بورائے چاروں کی آنکھیں پورے وقت ٹی وی سکرین سے چپکی رہیں۔۔ ہاں،  ببلو کی بے چین نگاہیں ضرور بیچ بیچ میں ادھر ادھر دوڑتی رہیں۔ کئی بار اٹھ اٹھ کر وہ آنگن والے ٹیوب ویل تک گیا، جس پر منٹو اور بینی کا کمینٹ بھی آیا تھا کہ “بڑا گلا سوکھ رہا ہے تمہارا رے ؟ سٹیپفی اور سباتینی کا گرمی برداشت نہیں ہو رہا کیا؟” جس کے جواب میں ببلو نے دیپو سے مخاطب ہو پوچھا تھا “چاچی اور مینو دکھ نہیں رہے ہیں ؟ کہیں گئے ہیں کیا؟”  تو دیپو نے بتایا کہ پڑوس میں پوجا ہے، اسی میں گئے ہیں۔

نشیلی رات ختم ہو گئی تھی۔ سٹیپفی کی سباتینی کے اوپر دلچسپ جیت کے ساتھ اور چاروں کی پر جوش نعروں پر اندر سے تھانے دار صاب کا ہمکتا ہوا ہنکار آیا تھا “چوپ ­پ پ پ۔۔ !!!” کا، جس نے ایک جھٹکے میں سارا ہینگ اوور اتار دیا ان کا۔ چاروں سٹپٹا کر چپ ہو گئے اور پھر کھس پھس دیر تک یہ باتیں چلتی رہیں کہ اسی مہینے کے آخر میں ہونے والے سیؤل اولمپک میں بھی اگر سٹیفی گولڈ میڈل جیت جاتی ہے، تو کیسا عظیم الشان ریکارڈ ہو گا یہ۔

دن یوں ہی بیتتے جا رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے سال اپنے ختم پر آ گیا تھا۔ دسمبر کے ٹھٹھراتے ہوئے دوسرے ہفتے کی بات ہو گی، جب ان چاروں کی بے چینی ایک دم قابو سے باہر ہو گئی تھی۔ اگلے ہفتے سے سکول بند ہو جانے تھے اور پھر تو میٹرک بورڈ کا امتحان دینے ہی سکول آنا تھا۔ ان کی تمام دعاؤں اور منتوں کی بدولت ان کی دلربا سٹیفی سیؤل اولمپک میں تو گولڈ میڈل جیت گئی تھی، لیکن وہیں دوسری طرف وہی منتیں گرلس سکول کی کھڑکی سے ہلتے ہاتھوں والے چہرے سے نقاب اٹھانے میں کامیابی نہیں دلوا پائی تھیں۔ مایوسی کی کوئی مجسم شکل اگر ہو سکتی تھی، تو یہ ان دنوں ان چاروں کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا تھا۔ وہ مایوسی کی حد ہی تھی یا بے چینی کی، جب چاروں سکول بند ہونے والے ہفتے کے جمعے کو سڑک پار کر کے گرلس سکول کی باؤنڈری کودتے ہوئے ان دو کھڑکیوں کے قریب پہنچنے کی جگاڑ  میں تھے۔ سب کچھ ایک عجیب سی افرا تفری میں ہوا تھا۔۔ منٹو  اور بینی باؤنڈری والی دیوار پر چڑھ چکے تھے، ببلو نیچے کھڑا تھا اور دیپو تھوڑا سا جھجکا ہوا پیچھے سڑک کے کنارے۔ گرلس سکول کے اس کلاس روم کی نیم تاریکی سے لڑکیوں کی اجتماعی چیخ سنائی دی تھی۔ نہیں، اس چیخ میں کہیں بھی خوف جیسا کچھ نہیں تھا۔۔ کچھ بھی تھا تو تھا ایک گلابی سا تعجب اور ایک لال پیلے اضطراب کا مرکب اور اس بات کی تائید چاروں قسمیں کھا کر کر سکتے تھے۔ لیکن اسی وقت بد قسمتی سے اپنی راج دوت موٹر سائیکل پر براجے کسی کام سے سکریٹیریٹ جا رہے شہر کے اکلوتے تھانے کے تھانے دار صاحب کے کانوں میں آئی وہ چیخیں کچھ اور ہی فسانہ گڑھ رہی تھیں۔ راج دوت کو وہیں روکتے ہوئے، آناً فاناً اپنے اکلوتے بیٹے کے کام مروڑتے ہوئے جو انہوں نے آواز لگائی تو نیچے کھڑا ببلو آندھی طوفان کی طرح یہ لے وہ لے ہو غائب ہو گیا، لیکن دیوار کے اوپر چڑھے منٹو اور بینی کو اسی دیوار نے جیسے جکڑ لیا تھا۔ دیپو کی تو خیر تھانے دار صاحب نے وہ دھلائی کی کہ بیچارہ “دھوئے گئے کچھ ایسے کہ بس پاک ہو گئے ” والا غالب کا مصرع ہو گیا۔ باقی تینوں کے کرتوت کا آنکھوں دیکھا حال سنانے تھانے دار صاب خود ایک ایک کے گھر گئے۔ پورے شہر میں چاروں نکمے نکارے کپوت  مشہور ہو چکے تھے۔

اور اس تمام جھمیلے میں اسرار کی وہ چادر موٹی سی رضائی بنی رہ گئی۔ دیر رات گئے پڑھائی سے اوب اٹھے من کو واپس تر و تازہ کرنے کے لئے کھڑکی سے ہلتے ان گورے گورے ہاتھوں کی یادیں ہی تھیں باقی۔ اب، جو روائٹل کیپسول کا کام کرتی تھیں۔ آنے والے امتحان کی تیاری کے لئے۔ میٹرک کے امتحان کے نتیجے نے چاروں کی ادھڑی ہوئی عزت پر کچھ پیوند لگانے کا کام کیا کہ چاروں ہی فرسٹ ڈیویژن میں پاس ہوئے تھے۔ یوں پٹنہ سائنس کالج میں داخلے اور اس  قصبے نما شہر سے نکلنے کا خواب بس خواب ہی رہ گیا کہ وہاں کے لئے کٹ آف مارکس کی لکشمن ریکھا سے تھوڑا نیچے جھول رہے تھے ان کے مارکس۔ انٹرمڈئیٹ کی پڑھائی کے لئے شہر کا اکلوتا کالج، شری للت نارائن کالج ، ہی بیترنی بنا پھر۔ وہ گرلس سکول والا واقعہ ضرور ان کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ حساب  لے کر آئی آئی ٹین (I.I.T’ian)کو  نشانہ (جس کی ایک اور وجہ چار سال پہلے بینی کے بڑے بھائی پون مادھو جھا دوارہ شہر کا پہلا آئی آنی ٹین بننا بھی تھا)  مانتے ہوئے چاروں کچھ گمبھیر ہوئے تھے اور ریسنک ہیلڈے کے نیومیرکلس سے لے کر جوشی اینڈ جوشی کے کیمسٹری کے سولیوشنس میں ڈوبے رہتے تھے اب دن رات۔ ٹیس بس اس بات کی تھی کہ حساب والے گروپ میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی کالج میں۔۔ ساری کی ساری لڑکیاں ڈاکٹر بننے کا سپنا لئے بایولاجی گروپ میں تھیں۔ کبھی کبھار فزکس اور کیمسٹری کے کامن کلاس ہو جاتے تھے تو ان کا دن بن جاتا تھا۔

چتکبرے خوابوں والے نیلے نیلے دنوں کے کینواس میں اپنے اپنے رنگوں کی کوچی چلاتے وہ بالغ ہو رہے تھے۔ بچپنا اب بھی گیا نہیں تھا کہ لڑکیوں کے بنٹوارے کو لے کر جنگ کی ابتدا اکثر ہوتی رہتی کالج کیمپس میں۔ “شالو ہماری ہے، گڈی تمہاری ہے اور رنجو اس کی ہے ” کا مکالمہ اکثر حالات کے مطابق اپنی دھن بدلتا رہتا تھا۔ اسی دن راستے میں گڈی کا رو مال گر گیا تھا، جسے اٹھا کر اتراتے ہوئے بایولاجی گروپ والے نشکانت نے واپس کیا تھا اور دوپہر کو فزکس کے پریکٹکل میں آ کر اس نے با قاعدہ دھمکاتے ہوئے منٹو سے کہا تھا کہ وہ گڈی کو بھول جائے۔۔ وہ آج سے نشکانت ٹھاکر کی ہو گئی ہے۔ اچھا گھماسان ہوا تھا اس دن شام کو کالج فیلڈ میں۔ جب کرکٹ پریکٹس کو روک کر وکٹوں سے سر پھوڑ دیا گیا تھا نشکانت ٹھاکر کا۔ بیچاری گڈی ان سب سے انجان کہ اس کے نام پر کرکٹ کے بلے اور وکیٹ تاریخی ہتھیاروں کا کام کر رہے ہیں، اگلے دن کے لئے تیار ہو رہی تھی کہ دربھنگہ سے لڑکے والے آ رہے تھے اسے دیکھنے کے لئے۔

“ہم لوگ مل کر اخبار نکالیں گے۔ سالا، اس شہر سے ایک ٹھو اخبارو نہیں نکلتا ہے۔ ” اسی شام نشکانت کو اس کی اوقات بتانے اور گڈی پر واپس اپنی مہر لگا لینے کے بعد چوک پر بابا کی چائے کی سڑکی لگاتے ہوئے منٹو نے دور افق کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

“ہاں، اور اس میں ایک ٹھو سپیشل پیج ہو گا تمہارے لئے کہ تمہاری گڈی ڈارلنگ تک تمہارا من کا بات پہنچے۔ ” دیپو نے ٹھہاکا لگاتے ہوئے کہا۔

“اور اس میں ہم لوگ پردہ فاش  کریں گے رنجی ٹرافی کے لئے بہار کی ٹیم کے انتخاب میں ہوا دھاندلی کا۔ چوٹا، نگوڑا ارون با سیلیکٹ ہو گیا جس کو ہم ہر اوور میں دو بار آؤٹ کر سکتے ہیں، کا ہے کہ باپ ودھایک ہے۔ ” بینی کا  غصہ جان لیوا تھا۔

“پہلے ہم لوگ کوئی کمپیٹیشن نکال لیں، پھر کریں گے یہ سب۔ ” ببلو ہمیشہ کی طرح فلسفی تھا۔

“ایک ٹھو خیال آیا من میں کل۔  کہ ہم لوگ پیسہ ملا کر مدراس والا برلئینٹ ٹیوٹوریلس سے کاریسپونڈینس منگاتے ہیں آئی آئی ٹی کا۔ ہر سال برلئینٹ کا بہتے کینڈیڈیٹ سب نکالتا ہے آئی آئی ٹی ۔ کیا کہتا ہے تم لوگ؟”

“بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے منٹوا۔ اگر برلئینٹ والا دو سال کا پورا پیکیج با گھونٹ لیں، سالا کوئی مائے کا لال نہیں روک سکتا ہم لوگ کو آئی آئی ٹی جانے سے۔ تمہارا پون بھیا بھی تو ایسے ہی نکالے تھے نہ، بینیا رے ؟” ببلو کچھ جوشیلے لہجے میں بولا۔

“ہاں، بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے تم۔۔ ۔ پتہ ہے، پون بھیا تمہاری دیدی پہ لائن مارتے ہیں۔ ” بینی نے کچھ ٹھہر ٹھہر کر کہا۔

“جانتے ہیں ہم۔۔ ۔ اس کو لائن مارنا نہیں، پیار کرنا کہتے ہیں بیوقوف۔ ” ببلو واپس اپنے فلسفیانہ اوتار میں آ گیا تھا۔

“ٹھیک کہہ رہا ہے ببلوا۔ لائن تو سالا ہم لوگ مارتے ہیں ہر لڑکی پر۔ لیکن پون بھیا کا سینٹیمینٹل والا پیار ہے۔ ” دیپو نے اپنا گیان بگھارا۔

“ہاں، جیسے ہم سینٹی ہیں مینو پر۔ ” اچانک ہی نکل گیا تھا ببلو کے منھ سے یہ اور وہ ہڑبڑا  کر چپ ہو گیا ترنت ہی۔

ایک بھیانک سی خاموشی پسر گئی چوک پر بیٹھی منڈلی میں، جو دوسرے ہی پل بینی اور منٹو کے ٹوٹتے ٹھہاکوں سے ریزہ ریزہ ہوئی اور دیپو کی ببلو کے لئے چن چن کر نکالی ہوئی گالیوں سے۔ بڑی مشکل سے ہمت جٹا کر تھوڑی سی جھمنپی جھینپی ہنسی کے ساتھ ببلو کہنے لگا۔۔ ۔ “اب چپ ہو جاؤ تم لوگ۔ رے دیپوا، بچپن سے پیار کرتے ہیں ہم مینوا کو اور تمہارا تھانیدار باپ کو بھی ہم اچھے لگتے ہیں سب سے زیادہ تم تینوں میں۔ تمہارا دوست تمہارا جیجا بن کر آ جائے گا گھر میں تو تمہارے لئے ہی اچھا رہے گا نہ۔ اور کوئی جہیز  وہیز بھی نہیں لیں گے ہم۔۔ ۔ ”

اس شام دیر تک اس موضوع پر بات چلتی رہی تھی۔ دیپو کو سمجھانے میں بڑا وقت لگا تینوں کو، لیکن مجلس کے اٹھنے تک اور پناما کے آخری دمدار کش تک دیپو نے ببلو کو اپنے ہونے والے جیجا کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ ادھر وہ چوک جانے کیوں ان کی ان باتوں پر دیر تلک ہولے ہولے مسکراتا رہا تھا۔

وقت بیتتا رہا یوں ہی۔۔ ۔ اس کے بیتتے رہنے میں ہی اس کا وجود ہے۔ دن، مہینے کی گنتی نہیں آتی اسے، لیکن اس چوک کو اتنا ضرور یاد ہے کہ سٹیفی گراف کو وہ گولڈن گرینڈ سلیم جیتے انتیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور آج اس کی بوڑھی  ہوتی عمر کا بچپنا لوٹ آیا ہے۔ بچپن جو ایک صدی سے مضطرب تھا۔    ۔ ۔چوک جو کئی صدیوں سے وہیں کا وہیں بیٹھا ہوا تھا، بوڑھا ہوتا ہوا۔ بہت کچھ بدل گیا تھا ویسے تو شہر میں۔۔ سڑکیں چوڑی ہو گئی تھیں …سڑک پر سائکلوں، رکشوں کی جگہوں کو نئے نئے ماڈل والی چار پہیہ گاڑیاں نظر آنے لگی تھیں…بجیندر بھیا کی پان کی دوکان نے ٹو ان ون کو سٹیریو سسٹم سے تبدیل کر دیا تھا اور "جا جھاڑ کے ” بجائے "تیرے مست مست دو نین” بجانے لگی تھی اور کیپسٹین پناما کے علاوہ ولس کلاسک، ٹرپل فائیو جیسے بڑے برانڈ کے پیکٹ بھی رکھنے لگی تھی…دو تین آئس کریم پارلر کھل گئے تھے اور ان کے پارکنگ سپیس میں سکوٹیوں بائکوں کی دلفریب سنگت جلوے دکھانے لگی تھی۔ سامنے چائے والے بابا کے پاس جمنے والی شام کی چوپال میں۔ اب قاعدے سے اس بدلتی رت میں بوڑھے ہوتے ہوئے چوک کی جوانی لوٹنی چاہئیے تھی، لیکن لوٹا کمبخت بچپن۔

شہر تو خوب پھیل گیا تھا۔بڑی لائن کی ٹرینیں بھی دہلی اور کولکاتہ سے آنے لگی تھیں۔ کچھ نیتاؤں، کچھ شہیدوں کے نام پر سڑکوں تک کا نام دے دیا گیا تھا۔ لیکن وہ چوک بس چوک ہی رہا۔ چوک اسی پکارے جانے میں اپنی پوری پہچان سمیٹے ہوئے۔ اور اس روز اچانک سے اس کا بوڑھا ہونا جیسے ٹھہر گیا تھا۔ سالوں بعد۔۔ ۔، یگوں بعد ملے تھے وہ چاروں پھر سے اسی چوک پر۔ کچھ بھی ماضی کی طرح نہیں تھا۔ بس ایک اتفاق بنا تھا چھٹھ پوجا کا، مصروف زندگی کی آپا دھاپی میں۔ چاروں میں سے بس ببلو عرف بسنت کمار شریواستو ہی آئی آئی ٹی نکال پائے تھے اور فی الحال دہلی میں ایک کسی نامی پرائیویٹ بینک میں لاکھوں کا سالانہ کما رہے تھے۔ منٹو عرف مانویندر پرساد جرنلزم کا کوئی مشہور کورس کر کے پٹنہ سے نکلنے والے ایک بڑے روزنامے کا فیچر رپورٹر بن گئے تھے۔ بینی مادھو جھا اپنے بڑے بھیا کی کامیابی کو دہرا تو نہیں پائے، لیکن ہندوستانی فوج میں مذہبی معلم کی بھرتی میں کچھ سال پہلے ہی کامیابی پا کر مطمئن تھے۔ اور دیپو عرف دیپانکر سنہا اپنے پتا کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے ان سے ذرا آگے نکلتے ہوئے ریاستی سول سروس میں جھنڈا گاڑ کر بغل کے ہی ڈیویژن میں بی ڈی او  کی کرسی پر براجمان ہو کر خوب اوپری آمدنی کما رہے تھے اور اپنی بہن مینو عرف میناکشی سنہا کی شادی خوب سارا جہیز دے کر پٹنہ کے ایک آئی آئی ٹین سے کروا چکے تھے۔

چھٹھ پوجا کی وہ شام ۔۔ ۔ سورج ڈوبنے کے بعد چاروں پھر سے اکٹھا ہوئے چوک پر…یگوں پہلے ساتھ ساتھ دیکھے ہوئے چتکبرے خوابوں کو پھر سے ایک بار جی لینے کے لئے … بڑے ہو کر کچھ کر دکھانے کا خواب…گرلس سکول کی کھڑکی کے اس پار نیم تاریکی میں جھانک لینے کا خواب…بایولاجی گروپ کی لڑکیوں کے خواب…دنیا نہیں، بس اپنے شہر کو بدلنے کا خواب…ساتھ ساتھ ایک اخبار نکالنے کا خواب…رنجی ٹرافی کے ٹرائل میں منتخب ہونے کا خواب…سٹیفی گراف اور گیبریلا سباتینی کے خواب۔ ایک صدی ہی تو بیت گئی اس بیچ اور ان دنوں اپنی جوانی پر اتراتا وہ چوک، ان کے خوابوں میں شامل ہوتا ہر روز اور دعائیں کرتا تھا ان خوابوں کے تعمیر کی۔ پھر ایک دن اپنے خوابوں کی تلاش میں چاروں جو الگ ہوئے، تو پیچھے چھٹ گیا بس یہ چوک اور تب سے چوک کا بوڑھا ہونا بدستور جاری تھا۔ وہ بھی بڑے ہو گئے۔۔ ۔ شہر نے اپنے پر پوری طرح پسار لیے۔۔ ۔ سمجھ میں نہ آنے والی افدار کا بوجھ یک بیک ہلکا ہو گیا کہ اب گرلس سکول کی لڑکیاں بے جھجھک گردن اٹھائے چلتی ہیں۔۔ بایولاجی گروپ والیاں دو تین بچوں کی ممیاں بن کر اپنے اپنے اپنے آنگنوں میں لاپتہ ہو گئی ہیں …شہر سے بہت سے اخبار بھی نکلنے لگے ہیں۔۔ ۔ رنجی ٹرافی کے ٹرائل نے سفارشوں کے بوجھ تلے اپنا وجود کھو دیا ہے۔۔ ۔ سٹیفی کو اگاسی لے گیا اور سباتینی کو اس کی ارجینٹینین گرل فرینڈ۔

اور اس شام، یگوں بعد ان چاروں کا ملنا چوک کا بچپنا لے آیا واپس پھر سے۔ جوانی نہیں، بچپنا۔ ٹرپل فائیو کو آسانی سے افورڈ کر پانے کے باوجود چوک پر پھر سے پناما ہی سلگا۔ "تیرے مست مست دو نین” کو درکنار کر چلاتے ہوئے "جا جھاڑ کے ” گایا گیا۔ آئس کریم پارلر کے پارکنگ سپیس میں دکھتی سکوٹیوں اور بائکوں کے بہانے بایولاجی گروپ والی تمام لڑکیوں پر نہ صرف مفصل گفتگو ہوئی، بلکہ نتھنے پھلائے گئے، بھویں ٹیڑھی کی گئیں اور بانہیں بھی چڑھائی گئیں۔ بابا کی چائے میں ڈسٹ کے بجائے لیف کی خوشبو ملی تو بابا کو ڈھیر سارے الاہنے دئیے گئے۔ شہر کے بدلنے پہ خوشی اور افسوس ساتھ ساتھ جتائے گئے۔ اخباروں کے معیار پر مٹھیاں لہرائی گئیں ہوا میں۔ رنجی ٹرائل کی بات چیت پر پوری ہندوستانی کرکٹ ٹیم کو ایک سرے سے گالیاں دی گئیں۔ مگر سب سے بہترین گالیوں کا پٹارا آندرے اگاسی کے لئے کھولا گیا جو ان کی دلربا سٹیفی کو لے بھاگا تھا۔۔ ۔ آخر میں سباتینی کے لیسبین نکلنے کی خبر پر دو منٹ کی خاموشی رکھی گئی۔

چوک اس اجتماعی ماتم میں باقاعدہ شامل تھا اپنے بڑھاپے کو بھولے ہوئے، بچہ بنا ہوا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے