نیا نگر ۔۔۔ تصنیف حیدر

قسط ۱

شاعری جیسی صفت مجھ میں کہیں پائی گئی

اس لیے مجھ سے مری ذات نہ دہرائی گئی

 

نجیب بہت دیر سے بیٹھا ایک پھڑکتی ہوئی دھن سنے جا رہا تھا۔ موسیقی کے تاروں پر کہیں کہیں کسی شخص کی اوبڑ کھابڑ اور بے سری تان گونج رہی تھی، مگر وہ سمجھ سکتا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اس بے سری اور اٹکل پچو تان کی جگہ الفاظ بھرنے ہیں۔ سامنے دیوار پر تکیے کی مدد سے ٹیک لگائے، چوڑی دار پجامہ اور نفیس کرتا پہنے ایک چھریرے بدن کا جوان بیٹھا تھا۔ وہ نیم دراز تھا اور اس نے اپنی ایک ٹانگ کی ایڑی کو دوسری ٹانگ کے گھٹنے پر اس طرح سجا رکھا تھا کہ بیچ میں ابھرنے والے خلائی مثلث سے اس کے گمبھیر ماتھے پر ابھرنے والی شکنیں صاف طور پر دیکھی جا سکتی تھیں۔ برابر میں دھول میں دھنسا ہوا ایک صوفا رکھا تھا، جس پر رکھے ہوئے بڑے سائز کے کشن اپنے کور سمیت اتنے بوسیدہ ہو چکے تھے کہ ان کے وجود کالے قیٹ ہو گئے تھے۔ دیواروں پر یوں تو گلابی رنگ کا پینٹ تھا، مگر پرانا ہونے کی وجہ سے پلستر کئی جگہوں سے ادھڑ چکا تھا، پیوند کے لیے کہیں کہیں دیوار پر اخبار کے تراشے لگے ہوئے تھے، مگر ان پر موجود خبروں کو تو کیا سرخیوں کو بھی محض بہت قریب سے ہی پڑھا جا سکتا تھا۔ کمرے کی فضا بوجھل تھی۔ نجیب جانتا تھا کہ طائر امروہوی کا استغراق بناوٹی ہے، وہ تھوڑی دیر کوشش کرنے کے بعد پانچوں انگلیوں میں کس کر پکڑا ہوا ٹیپ ریکارڈر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کوئی بے تکا مزاحیہ جملہ کسے گا۔ یہ مزاحیہ جملہ اس کے سر پر لگی ایک ٹوٹی پھوٹی ریک میں رکھی مشتاق احمد یوسفی کی آب گم سے دور کا واسطہ بھی نہ رکھتا ہو گا، مگر اس طرح طائر امروہوی اپنی زخمی اور بوسیدہ مزاح پسند انا کو کچھ تسکین دے لے گا۔

طائر امروہوی یہی کرتا تھا۔ اس چھوٹے سے چھ بائی آٹھ کے فلیٹ میں، جو کہ گراؤنڈ فلور پر موجود تھا، وہ اکثر نجیب کو اپنے ساتھ لے آتا۔ اور جب تازہ آملیٹ سے اس کی تواضع کرتا تو نجیب سمجھ جاتا کہ وہ اس سے کچھ لکھوانا چاہتا ہے۔ مگر طائر امروہوی کبھی بھی سیدھے منہ اپنا مدعا بیان نہیں کرتا تھا۔ پہلے گھنٹے بھر اول فول کچھ نہ کچھ ہانکتا رہتا۔ آب گم کے پڑھے اور سنائے ہوئے سو مرتبہ کے قصوں کو اپنی زبان میں دوہراتا۔ اس کے پاس پاکستانی رسالوں کے دو بہت ضخیم نظم نمبر بھی تھے، جو ریک کے اوپری حصے پر لگے رہتے۔ وہ ان میں موجود نثری نظموں کو چرا کر اپنے نام سے دوستوں کو سنایا کرتا، مگر اس کا طریق کار یہ تھا کہ اکثر وہ دو نظموں کے الگ الگ مصرعوں کو جوڑ کر، اس ملغوبے کو ایک نیا عنوان دے دیتا اور اس نئی نظم کو اپنی شعری اختراع قرار دیتا۔ طائر امروہوی، شاعر نہیں تھا، اردو داں بھی نہیں تھا، لکھنوی بھی نہیں تھا۔ مگر اس نے اپنی وضع قطع ایسی بنا رکھی تھی کہ اس سے ملنے والا کوئی بھی شخص اسے اور کچھ سمجھ بھی نہیں سکتا تھا۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر اسے اور کچھ سمجھا بھی جائے تو پھر کس خانے میں فٹ کیا جائے، کیونکہ بات وہ غلط زبان کے ساتھ ہی سہی مگر خالص لکھنوی لہجے میں کرتا۔ پان کھا کر ادھر ادھر چاہے تھوک دے، گٹکا ہی کیوں نہ چباتا پایا جائے مگر کپڑوں کو استری کیے بغیر کبھی نہ پہنتا، آنکھوں پرمستطیل نما باریک گلاسز لگاتا، بال گھنگھریالے ہی سہی مگر ایک نفیس انداز میں کٹے ہوئے ہوتے اور پاؤں میں ہوتی ایک جوڑی موجھڑی۔ یہ سب اوصاف ایسے تھے کہ وہ باہر سے تو کوئی پیدائشی شاعر، اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ اور صاحب زبان سمجھا ہی جا سکتا تھا۔ بہرحال، سمجھا جائے یا نہ جائے۔ بمبئی کی فلمی نگریا میں اسے جوتے گھسیٹتے زیادہ برس نہ ہوئے تھے کہ پہلے پیروڈیاں، پھر کچھ گھسے پٹے ٹی وی ڈرامے اور اب ایک بڑے بجٹ کی فلم کے گانے لکھنے کے لیے مل گئے تھے۔ اس فلم کے گانے جس روز اسے ملے تھے، نیا نگر کے چوک پر بنے اعظم ریسٹورنٹ کے باہر بچھی ہوئی لکڑی کی بینچ پر بیٹھ کر اس نے نجیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔

’یہ سامنے دیکھیے نجیب میاں! کیا ان آتی جاتی گاڑیوں میں گزرنے والے لوگوں کو، اس بھیڑ کو، اس ریستوراں میں کھانے والوں کو، بلکہ اس کے مالک کو بھی یہ اندازہ ہو گا کہ اس وقت، یعنی ٹھیک اس لمحے ان لوگوں کے درمیان کون شخص بیٹھا ہے۔ ایک جلد ہی بہت مشہور ہونے والا فلم رائٹر، سونگ رائٹر۔ اچھا چھوڑیے ان لوگوں کو! میں تو یہ خیال کرتا ہوں (اس نے ہاتھ سے ہنسی دباتے ہوئے کہا) کیا اس وقت یورپ کے کسی ملک کا کوئی باشندہ یہ تصور کر سکتا ہے کہ ہمارے یہاں کے نغمہ گاروں (نگاروں) کا بمبئی جیسے شہر میں یہ حال ہے کہ سائننگ اماؤنٹ مل چکا ہے، ایک بڑی فلم اس وقت ہاتھ میں ہے، لیکن وہ سادھوؤں کی طرح، ایک دھول اڑاتی سڑک پر اپنے ایک سیدھے سادھے اردو داں دوست کے ساتھ بیٹھا گپیں ہانک رہا ہو گا۔ ارے۔ ۔ ۔ میرا مطلب وہ تو یہی سوچ رہے ہوں گے نا، کہ ایسا آدمی تو بنگلے میں ٹھاٹ سے رہتا ہو گا، آتے جاتے لوگ اس کے پاس آٹو گراف کے لیے ٹھہر جاتے ہوں گے، اور وہ اپنی فکر میں گم، اپنی مہنگی گاڑی سے جب قدم باہر نکالتا ہو گا تو منظر بالکل کسی فلمی دنیا کی طرح گھوم کر اس کی پشت سے چہرے کی طرف آتا ہو گا، بیک گراؤنڈ میں تالیوں کا شور ابھرتا ہو گا، سیٹیاں بجتی ہوں گی اور لوگ اشارے کر کر کے ایک دوسرے کو دکھاتے ہوں گے، کہ وہ دیکھو، وہ رہا طائر امروہوی۔ ۔ ۔ ۔‘

اسی بینچ اور اس سے لگی دوسری بینچوں پر کئی دوسرے افراد بھی بیٹھتے تھے۔ جن میں کچھ ریٹائرڈ بیک گراؤنڈ آرٹسٹ، ناکام موسیقار، خود ساختہ سٹوری نریٹر اور تھوک کے بھاؤ میں مستقبل کے خواب آنکھوں میں پالے ہوئے ہندوستان کے مختلف کونوں سے آئے ہوئے سٹرگلنگ ایکٹرس بھی موجود ہوتے تھے۔ نیا نگر میں روزانہ کوئی فلم بنتی تھی، کاغذ پر اس کی پوری سکرپٹ تیار ہو جاتی تھی، کسی پروڈکشن ہاؤس سے بات بھی طے ہو جاتی تھی، کرانے، ریستوران یا بعض اوقات مکانوں کے مالک حضرات بھی پروڈیوسر بن جاتے تھے۔ بات اٹکتی فلم کی کاسٹنگ پر۔ جس میں شروعات ہی مشہور ابھینیتاؤں جیسے امیتابھ یا شاہ رخ سے ہوتی، مگر دھیرے دھیرے بجٹ کے مسئلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ساتھ ہی چائے پینے والے کسی مستقیم یا نظیر کو یہ رول آفر کیا جاتا۔ جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے پہلا سنہرا موقع جان کر اچک لیتا، بات کچھ دیر ہیروئن پر اٹکی رہتی۔ کسی اردو رسالے کا ایڈیٹر فلم کا چونکہ ڈائرکٹر بھی ہے، اس لیے تہذیب کا خیال کرتے ہوئے کئی سیکسی سین پہلے تو کاغذ پر ہی سنسر کر دیے جاتے۔ پھر خیر لے دے کر کوئی جان پہچان کی لڑکی ہچکچاتے ہوئے ہیروئن کا رول قبول کر لیتی۔ سائننگ اماؤنٹ کے طور پر ہیرو ہیروئن کو کٹنگ کے ساتھ خستہ نان خطائیاں کھلا کر ایک دفعہ پھر سے کہانی سنائی جاتی۔ ڈائرکٹر صاحب کہانی سناتے، کئی دفعہ رکتے، خلا میں دیکھتے، خاموش ہو جاتے، اور پھر کچھ سوچ کر کسی کسی منظر کو بالکل بدل کر کہانی کو تھوڑا پیچھے لے جاتے اور سچویشن بدل کر نئے سرے سے کہانی شروع کرتے۔ اس پر رائٹر کا حالانکہ منہ بنتا مگر وہ ڈائرکٹر کے سنجیدہ چہرے اور گہرے تجربے کے آگے اپنا اعتراض رکھنے سے بہتر یہی سمجھتا کہ اس وقت غصے کا گھونٹ گرم چائے سمیت نگل لیا جائے۔

یہ سب مرحلہ طے ہوتا تو فلم کی لوکیشن، باقی کی کاسٹنگ، بجٹ سب کچھ اسی وقت کاغذ پر لکھے جاتے۔ پروڈیوسر کون ہو گا، آرٹ ڈائرکشن کون کرے گا، سنیماٹوگرافی اور کوریو گرافی وغیرہ کے فرائض کون سنبھالے گا اور ان سب جھنجھٹوں کے بعد فلم کی ڈبنگ اور ایڈیٹنگ کا مرحلہ کیسے طے ہو گا۔ الغرض یہ سارے جھگڑے محنت سے نپٹائے جاتے اور پھر اگلے مہینے فلم کے فلور پر جانے کی بات طے ہوتی۔ مہورت کب ہو گا، کون ناریل پھوڑے گا اور اس کے لیے کس سلیبرٹی کو بلایا جائے گا، یہ سوال موضوع بحث بن جاتے۔ بات پھر وہی امیتابھ وغیرہ سے شروع ہوتی۔ مگر بھیڑ اور بن بلائے مہمانوں کے کھان پان کا خرچ بڑھ جانے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے یہی طے ہوتا کہ مہورت پر ناریل پروڈیوسر سے ہی تڑوایا جائے۔ ابھی یہ بات ہوہی رہی ہوتی کہ اردو میگزین کے ایڈیٹر کو جو کہ اچھے خاصے مسلمان بھی ہیں، یہ خیال جکڑ لیتا کہ ناریل واریل کو توڑنا تڑوانا ہندوانہ رسم ہے، اور کیا اچھا لگتا ہے کہ ایک فلم جس میں سارے مسلمان بھائی بہن مل کر کام کر رہے ہیں، اس کی شروعات ناریل توڑنے پھوڑنے کی غیر اسلامی رسم سے ہو۔ مگر پھر بات یہ آ جاتی کہ یہ رسم تو بالی ووڈ کی ابتدا سے چلی آ رہی ہے، چنانچہ اسے تیاگنا ٹھیک نہیں۔ مبادا کوئی خبر ہی نہ بن جائے۔ ایک تجویز یہ دی جاتی کہ مہورت کے بغیر ہی فلم کی شوٹنگ کیوں نہ شروع کر دی جائے۔ لیکن تبھی اس فلمی بحث میں حصہ لینے والا ایکٹر بھرپور جوش سے کہتا۔

’ارے نہیں بھائی! میری پہلی فلم ہے۔ آپ لوگ تو سب ٹھہرے دگج، دنیا جہان کی فلمیں بنائے بیٹھے ہیں۔ یہاں پہلی پہلی فلم ہے، مہورت بھی نہ ہوا تو ماں کو خط لکھ کر کیا خاک بتا پاؤں گا کہ فلم بن رہی ہے۔ میرے لیے تو فلم بننے سے زیادہ مہورت کی اہمیت ہے۔ فلم بنے نہ بنے، مگر مہورت ضرور ہونا چاہیے۔‘

ہیرو کا جوش دیکھ کر آس پاس کے احباب اس کی اس جائز خواہش پر ایک متفکرانہ ہنکار بھر کر اسے بٹھاتے ہیں۔ دوسری تجویز آتی ہے، پھر تیسری۔ لیکن جو تجویز سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ وہ فلم کے پروڈیوسر کی جانب سے آتی ہے۔ وہ کہتا ہے۔ ’کیوں نہ ناریل پھڑائی کی رسم کے ساتھ ساتھ قرآن خوانی بھی کرا دی جائے۔ مدرسے کے بچے آ جائیں گے، حافظ جی سے میں بات کر لوں گا، ارے یہی کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔‘

سبھی خوشی سے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں اور مہورت کا دن اور سامگری کو سرے سے ایک نئے کاغذ پر لکھا جاتا ہے۔ الغرض رات کو انگڑائی لیتے ہوئے جب یہ فوج ریستوران سے اٹھتی ہے تو اگلے مہینے دو مہینے بعد جس فلم کا مہورت ہونے والا ہے، اس کا ذکر یوں زیر گفتگو ہوتا ہے، جیسے وہ مغل اعظم، پاکیزہ، شعلے یا ڈی ڈی ایل جے کی طرح پردے پر آ کر اپنا جلوہ دکھا کر ایک یادگار فلم بن کر لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہو گئی ہے۔ ساری شام اس گمبھیر گفتگو کے درمیان کسی کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ابھی سب سے اہم مرحلہ تو باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر نے ابھی سکرپٹ کے سکرین پلے اور ڈائلاگز کو او کے نہیں کیا ہے۔ اس لیے جب اگلی شام، انہی بینچوں پر یہ فوج پھر جمع ہوتی ہے تو لوگ دیکھتے ہیں کہ ڈائرکٹر رائٹر کے پاس بیٹھا ہے اور اسے سکرپٹ پر لگے لال نشانوں کے ذریعے بتاتا جا رہا ہے کہ کہاں کہاں سکرپٹ ڈھیلی ہے، کون سی جگہوں پر غلط اصطلاحیں لکھی ہیں، اور کہاں مکالمے بالکل بے جان اور بے نمک معلوم ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ زور ہوتا ’اوقاف‘ پر۔ ڈائرکٹر صاحب بتانا تو شروع کرتے اس نکتے سے کہ بغیر پنکچوئیشن کے ڈائیلاگز لکھنے کی وجہ سے ہیرو، ہیروئن یا کوئی بھی دوسرا کردار کس طرح سمجھے گا کہ کسی مکالمے کو ادا کرتے وقت کہاں رکنا ہے، کہاں زور دینا ہے، کہاں کچھ پوچھنا ہے اور کہاں بات ختم کرنی ہے۔ پھر وہ سمجھانے لگتے کہ تحریر کی ایسی خوبیوں کو سمجھنے کے لیے مصنف موصوف کو ان کا رسالہ تواتر سے پڑھنا چاہیے کہ اس میں جو تحریریں چھپتی ہیں، ان میں مدیر کا سب سے اہم کام یہی ہوتا ہے کہ وہ تحریروں میں کومہ، ختمہ، سوالیہ اور فجائیہ علامتیں صحیح جگہوں پر لگاتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ادبی تحریروں کی اہمیت ہی کیا رہ جائے گی۔ کیونکہ ادب کی تخلیق تو بغل میں موجود ’قاسم ہیرکٹنگ سیلون‘ کا قاسم حجام بھی کر لیتا ہے اور بہتوں سے اچھی کرتا ہے۔

قاسم حجام کی دوکان کا ذکر خیر اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ نیا نگر کے ادیبوں، شاعروں اور ادیب و شاعر بننے کے پراسز میں ٹنگے ہوئے لوگوں کا اڈہ بھی تھا۔ وہاں بال کٹوانے والے دو قسم کے لوگ ہوتے تھے، ایک شاعر، دوسرے عام لوگ، جن میں عام لوگوں کی تعداد کم تھی، شاعروں کی زیادہ۔ پھر قاسم حجام کو سب کی خبر تھی۔ کس نے نیا نگر میں کب شعر کہنا شروع کیا، کس کی شعر گوئی کی بسم اللہ کس استاد نے کون سے دن، کیسی نشست میں کروائی۔ یہاں تک کہ اسے ایسے خاص دنوں پر بانٹی جانے والی مٹھائیوں کا بھی علم ہوتا تھا۔ ویسے نیا نگر میں قسم قسم کے استاد تھے۔ شاعری میں کچھ خاصے قدامت پسند اور کچھ جدیدیت سے متاثر۔ قدامت والوں کا تو وہی رونا تھا کہ زبان سیکھو، داغ، میر، غالب سب کو چاٹ جاؤ، تغزل کو برقرار رکھو، کوئی مصرعہ خواب میں بھی بے بحر نہ ہو، روزمرہ، محاورہ، ضرب الامثال وغیرہ وغیرہ۔ الغرض اتنا کھٹراگ تھا کہ ادھر نوجوانوں نے ایسے استادوں سے کنی کاٹنی شروع کر دی تھی۔ خود نجیب کے والد بھی کم استاد آدمی نہیں تھے۔ حالانکہ نیا نگر میں بسے ابھی انہیں دو برس بھی نہیں ہوئے تھے مگر وہ قاسم حجام سمیت کئی دوسرے درزی، قصائی، کارپینٹر وں، بروکروں اور دو ایک بلڈروں تک کے استاد تھے۔ حالانکہ کسی سے کچھ لیتے لواتے نہیں تھے۔ مگر جب کسی کو شاگرد بناتے تو ایک خاص نشست منعقد کی جاتی۔ جس میں پہلے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک کلام پڑھا جاتا، پھر ایک نعت ترنم سے جھوم جھوم کر گائی جاتی۔ حاضرین محفل اس مقدس ماحول سے جیسے ہی باہر نکلتے، استاد اپنے شاگرد کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے، اس کی تعریف میں چند رسمی جملے کہتے مگر ایسی شدت جذبات سے کہ درمیان میں ہی ان کا گلارندھ جاتا۔ اپنی رُواس روکنے کے لیے مجید صاحب(نجیب کے والد) اکثر بالوں کے پیچھے کی جانب دائیں ہاتھ کی چار انگلیوں کو تیزی سے گھستے، کچھ دھیرج ہوتی تو پھر بولنا شروع کرتے اور آخر میں شاگرد سے اس کی نئی غزل سنانے کا دھیمی آواز میں پروانہ جاری کرتے۔ شاگرد ترنم سے پڑھے گا یا تحت سے، اس کا فیصلہ بھی وہی کرتے تھے۔ کسی کا لحن داؤدی ہوتا تو اسے ترنم سے ضرور پڑھواتے، کوئی بھاری بھرکم آواز والا ہوتا تو اسے نہ صرف تحت سے پڑھنے کی صلاح دیتے بلکہ باقاعدہ پڑھنا سکھاتے۔ مجید صاحب بس یہی کام کرتے تھے، اور اس کام کے کوئی پیسے نہ لیتے تھے۔ دوسرا پارٹ ٹائم کام ان کا یہی تھا کہ صبح سے کبھی کسی بلڈر کے آفس میں بیٹھے ہیں، شاگردوں کا گروپ موجود ہے۔ بلڈر کچھ مصروف ہے، کچھ بیکار۔ ادب پر ان کی باتیں بھی سن رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسی ڈیل پر بروکر یا کلائنٹ سے بات بھی کرتا جا رہا ہے۔ انہی میں سے ایک بلڈر نے مجید صاحب کو نیا نگر میں ایک مناسب سی بلڈنگ میں گھر دلوا دیا تھا۔ مکان کا کرایہ یوں تو اٹھارہ سو تھا، مگر مجید صاحب کے پاس ان اٹھارہ سو روپیوں کا کوئی وسیلہ نہ تھا اس لیے شروع شروع میں تو چار پانچ مہینے شاگردوں، دوستوں اور قرض داروں کی عنایت سے کرایہ دیا گیا، مگر ادھر قریب تین مہینوں سے کرایے کی رقم نہیں دی گئی تھی، چوتھا مہینہ جاری تھا۔ مکان مالک دوسرے مہینے میں ادب سے استدعا کر چکا تھا، تیسرے مہینے سے اس نے ہلکی سی آنکھیں بھی تریر لی تھیں اور اب چوتھے مہینے باقاعدہ گھر باہر کر دینے کی دھمکی پر اتر آیا تھا۔ نیا نگر میں ہر سال ایک مشاعرہ ہوتا تھا، جس میں مقامی شاعروں کو بھی اچھے خاصے پیسے مل جایا کرتے تھے، اس میں مجید صاحب کو بلایا جانا تھا۔ مگر ابھی اس مشاعرے میں اول تو چھ ماہ باقی تھے، دوسرے یہ کہ مشاعرے کے کنوینروں میں جو شخص پیش پیش تھا، وہ تھے یوسف جمالی۔ جن کا اپنا ایک پیلے رنگ کا پی سی او تھا، جس میں اندر کی جانب وہ خود بیٹھتے تھے اور باہر کی طرف صبح سے شام تک فون کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے شاگردوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ وہ خود مجید صاحب سے پیٹھ پیچھے اس لیے بھنائے رہتے تھے کہ انہوں نے نہ صرف ان کے بہت سے شاگردوں کو ہتھیا لیا تھا بلکہ مفت خورہ بھی بنا دیا تھا۔ چونکہ مجید صاحب کچھ لیتے لواتے تھے نہیں اور یہ خبر بڑی تیزی سے اڑتی جا رہی تھی، اس لیے لفظ و شعر کے نئے تجار بھی یوسف جمالی کی دوکان کے بجائے، مجید صاحب کے مکان کا رخ کرنے لگے تھے۔

نجیب کے علاوہ مجید صاحب کی تین اور اولادیں تھیں۔ جن میں ایک بیٹی اور دو مزید بیٹے تھے۔ بیوی اللہ میاں کی گائے تھیں۔ بولتی وولتی زیادہ نہیں تھیں۔ مگر نیا نگر میں کئی جوانوں اور بزرگوں کی مشترکہ ’امی جان‘ بن گئی تھیں۔ مجید صاحب کے دو ایک دوستوں میں، جو اکثر گھر آ کر گھنٹوں بتیایا کرتے تھے۔ ایک صاحب تھے۔ معقول نقوی۔ نیا نگر شیعہ سنی آبادی کا ملا جلا نقشہ تو تھا ہی۔ نقوی صاحب یوں تو شیعہ کمیونٹی سے تھے، مگر اکثر اپنے ہم مسلکوں کو خود ہی الٹا سیدھا کہا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے اس بات کی بڑی لمبی چوڑی نفسیاتی توجیح پیش کی کہ شیعوں کو کھٹمل کیوں کہا جاتا ہے۔ وہ ایسی ایسی نئی باتیں بیان کرتے، ایسی دور کی کوڑیاں لاتے کہ مجید صاحب کا پورا پریوار ان کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھتا اور ان کی باتیں سنا کرتا۔ ان کی عادت تھی کہ اپنے ہاتھ سے سفید مہین کاغذ میں تمباکو بھر بھر کے سگرٹیں سامنے تیار کرتے جاتے اور ان کے مہین مہین کش لگاتے جاتے۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات زیادہ تر تاریخ سے وارد ہوتے تھے۔ قلوپطرہ کی موت سے لے کر نازیوں کی شقی القلبی کو یوں نظروں کے سامنے پینٹ کرتے کہ سننے والا سنتا رہ جائے۔ بس کسی بات پر انہیں شک تھا تو کربلا پر۔ حالانکہ مجید صاحب کی بیوی سنی ہوتے ہوئے بھی اس بات کا سخت برا مناتیں۔ کئی بار دبے لفظوں انہیں ٹوکتیں کہ ایسی منحوس باتیں ان کے سامنے نہ کیا کریں۔ مگر وہ قسمیں کھا کر یقین دلاتے، تاریخ سے گواہیاں لاتے۔ بڑے بڑے جید علما کے ایسے بیان سناتے، جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اہل بیت کو جس پانی بندی کی وجہ سے اتنا پریشان حال بتایا گیا ہے، وہ تو ہوئی ہی نہیں تھی۔ کیونکہ حساب سے تو نہر پر پہلے امام حسین کے گھرانے کو پہنچنا چاہیے تھا، اسی طرح وہ یہ بھی کہتے کہ کربلا کے جس ’روز عاشورہ‘ کا اتنا زور زورہ ہے، اس روز تو وہاں وہاں جھم جھم برسات ہوئی تھی۔ مگر ’امی جان‘ کے عقیدے کا وہ بال برابر بھی نقصان نہیں کر پاتے تھے۔ عقیدے اور عقل کے درمیان کوئی باریک فاصلہ تو ہے نہیں، اتنی چوڑی کھائی ہے کہ دنیا آج تک نہ اسے پاٹ سکی ہے، نہ کبھی پاٹ سکے گی۔ عقیدہ دنیا کی واحد چیز ہے جو نا ممکن کو عقل انسانی سے بھی ممکن تسلیم کروا لیتا ہے۔ یعنی کسی شخص کا اگر یہ عقیدہ ہے کہ فرہاد نے شیریں کے لیے پہاڑ کے دامن سے دودھ کی نہر کھود کر نکال ہی لی تھی تو ایسے انسان سے آپ لاکھ سر پٹک کر بھی یہ تک نہیں منوا سکتے کہ پہاڑ سے دودھ کی نہر تو کیا بوند نکلنا بھی بالکل سامنے کے لاجک کے حساب سے نا ممکن ہے۔ معقول نقوی کبھی کربلا کی کسی مجلس میں بھی اتنا نہیں روئے ہوں گے، جتنی رونی صورت بنا کر وہ امی جان کو یہ سب سمجھانا چاہتے تھے، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتی تھیں اور مجید صاحب ان کے اس عقیدے کی مضبوطی کو دیکھ کر خوشی سے مسکرائے جاتے تھے۔

ایک روز کی بات ہے، جب مجید صاحب اپنے دو بیٹوں سمیت قاسم حجام کی دوکان پر تشریف فرما تھے۔ اس کی نئی غزلوں پر سرسری اصلاح دینے کے ساتھ ساتھ بال کٹوانے کے مشتاقوں میں اپنی باری کا انتظار بھی کر رہے تھے۔ ساتھ ہی برابر میں بیٹھے ایک کہنہ مشق شاعر ناظم عباسی سے موجودہ ادب پر ان کی بحث بھی چل رہی تھی۔ بات تو شروع ہوئی تھی، نیا نگر کے ایک نوجوان ناول نگار سے۔ اس کا پہلا ناول شائع ہو کر آیا تھا اور خاصا بدنام بھی ہوا تھا، مگر بدنامی کی اصل وجہ ناول میں موجود فحاشی سے زیادہ اس سے وابستہ ایک قصہ تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جوگیشوری کے کسی مسلم کالج میں ایک استاد نے اس نوجوان ادیب کا ناول اپنی ایک پردہ دار طالبہ کو پڑھنے کے لیے دے دیا تھا۔ جیسا کہ عام طور پر روایت ہے کہ ایک دفعہ اردو ادب کا طالب علم جب ادیب یا پروفیسر میں سے کوئی ایک بن جاتا ہے تو اپنے علاوہ کسی اور کو پڑھنے کی اس کی دلچسپی گھٹتی جاتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے بھی ابھی خود ناول پڑھا نہیں تھا، بس ایک دو حضرات سے اس کی تعریف سن کر طالبہ پر یہ رعب جمایا کہ یہ معاصر ادب کا ایک بیش قیمتی ناول ہے، جو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ چنانچہ وہ بے چاری کچھ ناول اور کچھ پروفیسر کے رعب میں آ کر ادب پڑھنے کے شوق سے چور اس ناول کو گھر لے گئی۔ وہ اسے پڑھتی، اس سے پہلے اس کی اماں نے، جو کہ خود ناولوں کی بڑی شوقین تھیں اور اب تک بشری رحمٰن، رضیہ بٹ، نگہت عبد اللہ اور اے آر خاتون کے موٹے موٹے ناولوں کو چاٹ چکی تھیں، بڑے شوق سے یہ ناول بھی پڑھنا شروع کیا۔ ابھی پندرہ بیس صفحے ہی پڑھے تھے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ بیٹی سے پوچھا تو پتہ لگا کہ کتاب خود پروفیسر نے دی ہے۔ شکایت کے لیے اگلے دن جب وہ اپنے شوہر سمیت کالج کے دفتر پہنچیں تو وہاں ڈین نے پہلا سوال تو پروفیسر سے یہی کیا کہ آپ نے اس ناول کا مطالعہ خود بھی کیا ہے؟ پروفیسر صاحب نے ایک ذرا گلا صاف کیا اور بولے ’جی ہاں! کیوں نہیں۔ بڑا اہم ناول ہے، اسی لیے میں نے بچی کو دیا تھا کہ پڑھے اور سمجھے کہ معاصر ادب کیا ہے۔‘ نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے ہفتے پروفیسر صاحب کو کالج سے مستقل طور پر چھٹی دے دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ ناول نگار پر بھی اخلاقی آرڈر قائم رکھنے کی ایک ذمہ دار تنظیم نے ایف آئی آر درج کرا دی۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ ادیبوں، شاعروں اور خود ناول نگار کو بھی یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ دیکھیے صاحب! موجودہ حکومت اور یہ سماج کس طرح آزادی اظہار رائے کو کچل رہا ہے۔ بات اردو اخباروں میں اس ناول پر کی جانے والی مذمت سے اچھلی تو انگریزی اخباروں میں اس کی حمایت تک جا پہنچی۔ جس نے خبر پڑھی اس نے حکومت اور سماج کو گالی دی اور جس نے ناول پڑھا اس نے ناول نگار کو۔

ناظم عباسی نے یہ قصہ سناتے ہوئے کہا ’سنا ہے پاکستان میں اس ناول پر بہت تنقید ہوئی ہے۔‘

مجید صاحب نے فرمایا ’ہاں، وہ تو ہو گی ہی، وہ لوگ کیا کسی کو گھاس ڈالتے ہیں۔ مگر آپ کی بات سے مجھے ایک دو قصے یاد آ گئے۔‘ مجید صاحب نے یہ کہا تو دوکان پر موجود تمام لوگ سانسیں روک کر استاد کے قصے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایک بڑے میاں کونے میں اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ کر رہے تھے، مگر قصوں کا ذکر سن کر اپنا تجسس چھپا نہیں پائے۔ پتہ نہیں شاعری سے ان کا کوئی واسطہ تھا یا نہیں، مگر قصہ کے لفظ نے ان کا دامن ضرور کھینچا تھا تبھی تو اخبار تہہ کر، جلدی سے ہمہ تن گوش ہو گئے۔ دوکان میں کسی شخص کے گال پر پھیرے جانے والے استرے کی دھیمی کھچر کھچر کے ساتھ مجید صاحب کے الفاظ ابھرنے لگے۔

’یہ ساٹھ واٹھ کے دور کی بات ہے، میرٹھ کے حکیم سیف ہر سال نوچندی کا مشاعرہ کرواتے تھے۔ اس زمانے میں، بلکہ اس سے پہلے ہی میں کئی رسائل میں باقاعدہ شائع ہوا کرتا تھا۔ ماہر القادری کے فاران میں میری چیزیں چھپ چکی تھیں۔ نیاز فتح پوری جو لوگوں کی غزلیں کبھی پوری نہیں شائع کرتے تھے، انہوں نے بھی اپنے رسالے نگار میں میری دو تین سالم غزلیں چھاپیں۔ بڑے بڑے ادیب بس نام سے جانتے تھے، کئیوں نے چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے یاد ہے، ان دنوں جوش صاحب کے کچھ خط بھی آئے تھے۔ میرے دوست رحیم شاہجہاں پوری کے پاس شاید اب بھی محفوظ ہوں گے وہ خط۔ ہاں تو میں کیا بتا رہا تھا۔ ۔ ۔ اچھا ہاں۔ ۔ ۔ تو حکیم سیف کے اس مشاعرے میں پاکستان سے بھی کئی شاعر واعر آیا کرتے تھے۔ اب ایک مشاعرے میں میں بھی مدعو تھا اور احمد فراز بھی۔ ہوا یہ کہ احمد فراز کو جب سٹیج پر آواز دی گئی تو وہ آئے اور ایک ٹانگ پھیلا کر بیٹھ گئے۔ میں نے کہا بھئی! فراز صاحب! یہ آداب محفل کے خلاف بات ہے۔ اس طرح مجلس میں نہیں بیٹھا جاتا۔ اپنی بھاری بھرکم آواز میں انہوں نے عذر پیش کیا کہ ان کی ٹانگ میں تکلیف ہے۔ تب میں نے انہیں شاہجہاں پور کا ایک قصہ سنایا۔ وہ قصہ یوں ہے کہ ہمارے یہاں ایک بڑے رئیس آدمی ہوا کرتے تھے، کریم الرضا صاحب۔ حسرت موہانی جب بھی شاہجہاں پور آتے، انہی کے یہاں رکتے تھے۔ ان کی دولت کے لیے مثل تک مشہور تھی کہ ’مرضی کریم کی ہے کریم الرضا کے ساتھ‘۔ انہوں نے ہمارے یہاں کے اسلامیہ کالج میں ہونے والے ایک مشاعرے کی صدارت کی۔ رات بھر مشاعرہ چلا اور جب مشاعرہ ختم ہوا تو وہ اپنے ایک نوکر کو، جو کہ ان کے ساتھ رہتا تھا لے کر کالج کی ایک کلاس میں گئے۔ نوکر لالٹین پکڑے پکڑے ساتھ گیا، انہوں نے اس سے کہا کہ ابھی میرا پجامہ کھولو۔ وہ گھبرایا، سوچ رہا ہو گا کہ بڑے میاں کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا، بہرحال مرتا کیا نہ کرتا۔ اس نے پجامہ کھولا تو دیکھا کہ اندر یہ کالا بچھو کریم الرضا کی ٹانگ سے لپٹا ہے، پوری ٹانگ نیلی ہو رہی ہے۔ یہ تھے وہ لوگ اور یہ تھا ان کے آداب محفل کا عالم۔ فراز صاحب نے الغرض قصہ سنا تو شرمندہ ہوئے اور ٹانگ پیچھے کر لی۔‘

ناظم عباسی نے کہا ’وہ دور ہی الگ تھا۔ کیا سن رہا ہو گا آپ کا اس وقت۔‘

’ارے یہی کوئی سترہ اٹھارہ برس کی عمر تھی۔ مگر اس وقت دلی میں سب جانتے تھے۔ حالانکہ میں نیا نیا وہاں گیا تھا۔ مگر اسی سال یا اس کے آس پاس بنے بھائی نے مجھے لینن یادگار مشاعرے میں پڑھوایا اور (ہنستے ہوئے) سردار جعفری کے سامنے کہا کہ جعفری! تم اس لڑکے جیسا ایک شعر نہیں کہہ سکتے۔ یہی کانٹا ان کے دل میں ہمیشہ کھٹکتا رہا اور انہوں نے مجھ سے کبھی سیدھے منہ بات نہ کی۔ خیر۔ ۔ ۔ نثر بہت اچھی تھی ان کی۔‘

ناظم عباسی نے قہقہہ لگایا ’ہاں شاعری کے مقابلے میں تو واقعی بہت اچھی تھی۔‘

ناظم عباسی ابھی کچھ اور کہتے کہ قاسم حجام نے بے حد تشویش آمیز لہجے میں کہا۔ ’آپ لوگ جب ایسے ایسے بڑے شاعروں کو یوں چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں تو بس دل میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے۔‘

پورا مجمع سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو، کیسا سوال؟

’یہی کہ ادب میں ہمارا کیا ہو گا؟‘

۰۰۰

 

مجید صاحب کے شاگردوں میں ادھر کئی لوگوں کا اضافہ ہوا تھا۔ گھر میں لڈو، پیڑے، پان، شالیں سب کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ بس نہیں تھے تو پیسے۔ نجیب نے کچھ روز تک کورئیر کا کام بھی کیا، اور اس کے ایک چھوٹے بھائی نے سپر مارکیٹ میں نوکری حاصل کر لی۔ نجیب کی تنخواہ سات سو تھی اور چھوٹے بھائی مجیب کی ایک ہزار۔ ان سترہ سو کی آس تو بندھی تھی مگر ابھی پہاڑ جیسا مہینہ باقی تھا اور سچ پوچھو تو نجیب کا کام وام میں دل لگتا نہیں تھا۔ اسے لکھنے لکھانے کا بہت شوق تھا۔ وہ بھی چاہتا تھا کہ اس کی بہت عزت ہو، لوگ اسے بھی شالیں اڑھائیں، اس کے آگے پیچھے منڈرائیں، عزت سے نام لیں۔ آداب سلام کرتے پھریں اور سب سے اہم یہ کہ وہ بھی استاد کہلائے۔ اسی وجہ سے اس نے بحر الفصاحت کی پہلی جلد، آئین بلاغت، حسن بلاغت اور عروض آہنگ اور بیان جیسی کتابیں بڑے غور سے پڑھی تھیں۔ شعر تو وہ چوتھی پانچویں جماعت سے ہی کہنے لگا تھا۔ اس کا ان دنوں محبوب مشغلہ یہ تھا کہ وہ لوگوں سے مشہور غزلوں کی بحریں اور ان کے نام پوچھتا۔ جب لوگ نام نہ بتا پاتے تو کہتا

’اچھا اس میں کتنے ارکان ہیں یہی بتا دیجیے۔‘

اس پر بھی وہ منہ تاکتے رہ جاتے اور اس چھوٹے سے بچے کی علمی قابلیت پر تعریفی حیرت سے اسے دیکھتے تو اسے بہت سکون ملتا۔ دو چار دفعہ وہ نشستوں میں مجید صاحب کے شاگردوں کو بے بحر کلام پڑھنے پر بیچ میں ہی ٹوک چکا تھا۔ اس پر ایک دفعہ تو خود مجید صاحب نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا، مگر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وہ شعرا بھی، جنہیں اس نے ابھی تک نہیں ٹوکا تھا، کسی جگہ کلام سنانے سے پہلے، اسے اپنا کلام دکھانا ضروری سمجھنے لگے۔ دھیرے دھیرے اس کی شہرت اس حوالے سے بڑھنے لگی، ابھی کام پر جاتے اسے دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ نئے دوستوں، شاگردوں کی ڈیمانڈ پر اسے یہ نوکری تیاگنی پڑی۔ ویسے بھی نوکری ووکری سے کیا حاصل ہونا تھا۔ سات سو روپے تو کیا، کوئی سات ہزار بھی دے تو انا کی ایسی تسکین نہیں ہو سکتی، جیسی ان دوستوں اور عمر میں اس سے بڑے شاگردوں کی خوشامد سے ہوتی تھی۔ اس کی عادت نے یہ رنگ اختیار کیا کہ ایک روز جب مجید صاحب کے پاس چند دوست بیٹھے تھے اور ادب پر کوئی عمیق گفتگو ہو رہی تھی تو وہ ایک پرانا رسالہ ہاتھ میں تھامے ایک طرف کھڑا تھا۔ کچھ دیر بعد اس کی طرف دھیان گیا تو مجید صاحب نے اشارے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ وہ جلدی سے آگے بڑھا اور اس نے رسالے کے بیچ میں جہاں انگلی پھنسا رکھی تھی، اس صفحے کو کھول کر دکھایا اور کہا۔

’ابا! آپ کی یہ غزل پڑھ رہا تھا میں۔ سات آٹھ سال پہلے کا شمارہ ہے۔ اس میں آپ کا ایک مصرعہ بے بحر ہے۔‘

مجید صاحب بھونچکا ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نے کہا دیکھیے، مصرعے تو دونوں بحر ہزج میں ہیں۔ لیکن نیچے کے مصرعے میں ایک دو حرفی رکن کی کمی ہے۔

اس رات مجید صاحب نے سب کے جانے کے بعد اسے خوب ڈانٹا پھٹکارا۔

’جاہل مطلق! اتنی بھی تمیز نہیں کہ میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوں، اپنی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی قابلیت بگھارنے چلا آیا۔ چار کتابیں پڑھ کر تو کیا سمجھتا ہے؟ آئندہ ایسی حرکت کی تو کھال اُسیت دوں گا۔‘

اور وہ سہما سمٹا ایک کونے میں بیٹھا اندر ہی اندر اس بات پر خوش بھی ہو رہا تھا کہ اس نے اتنے لوگوں پر مجید صاحب کے مقابلے اپنی قابلیت کا زور زیادہ اور گہرا منوا لیا ہے۔ اب ہو نہ ہو، وہ لوگ یہ بات باہر بھی بتائیں گے۔ بد تمیز کہیں یا بد لحاظ مگر ایک دھاک تو جم ہی گئی ہے کہ جو لڑکا اپنے باپ تک کی بے بحر شاعری پر یوں کھلم کھلا اعتراض کر سکتا ہے، اس کے سامنے کون بے بحر شعر پڑھنے کی مجال کر سکے گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے