غزلیں ۔۔۔ قمر صدیقی

سب کو حیران ایسے کر گیا تھا میں

خواب میں رات اپنے گھر گیا تھا میں

 

شہر میں میں نہیں یہ لاش ہے میری

گاؤں کو چھوڑتے ہی مر گیا تھا میں

 

کل تلک بھیڑ سے لڑتا جھگڑتا تھا

آج سائے سے اپنے ڈر گیا تھا میں

 

تھیں مجھے اب بھی اس کے در سے امّیدیں

آج بھی پھر اسی کے در گیا تھا میں

 

تھی قمر کیا کشش اس سمت، بالآخر

سب نے رو کا بہت تھا پر گیا تھا میں

٭٭

 

لوگ ہنستے ہیں مسکراتے ہیں

کون سا غم ہے جو چھپاتے ہیں

 

دیکھیے ہو چلا سویرا بھی

آؤ اب بتّیاں بچھاتے ہیں

 

چھوڑو رہنے دو اب ہٹاؤ بھی

بات اتنی نہیں بڑھاتے ہیں

 

راستے پر نہیں ہے کوئی نہیں

ہاتھ کس کے لیے ہلاتے ہیں

 

میں بھی خالی ہوں تم بھی خالی ہو

تو چلو دونوں مسکراتے ہیں

 

آج کھڑکی میں چاند اترا ہے

آج ہی عید ہم مناتے ہیں

 

ہو چکا ختم یہ ڈراما بھی

آؤ اب سیٹیاں بجاتے ہیں

 

بھیڑ کے ساتھ تو سبھی ہیں قمر

ہم نیا راستہ بناتے ہیں

٭٭

 

 

 

 

جذبۂ سرد ستمگر نہیں اچھا لگتا

تیرے چہرے پہ دسمبر نہیں اچھا لگتا

 

آئینہ دیکھ تو لیں دیکھ کے حاصل کیا ہے

اب یہاں اپنا ہی پیکر نہیں اچھا لگتا

 

غالباً آپ نے سچ بولا ہے سو بھکتو اب

حاکم وقت کا تیور نہیں اچھا لگتا

 

اک وہی شخص لگے جان سے پیارا ہم کو

اور کبھی وہ بھی سراسر نہیں اچھا لگتا

 

بھیڑ ہے شور ہے اور دائمی اکتاہٹ ہے

شہر کا بس یہی منظر نہیں اچھا لگتا

 

خیر یہ ملنا بچھڑنا تو لگا رہتا ہے

ہاں مگر یادوں کا دفتر نہیں اچھا لگتا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے