سانجھی خوشیاں سانجھے غم ۔۔۔ شائستہ فاخری

اسے معلوم تھا کہ اس کی تحریر میں ایسا کچھ نہیں ہے جو گھر کے نظام کو درہم برہم کر دے۔ شوہر کو کسی پریشانی میں ڈال دے یا پھر وہ خود کسی آفت میں گرفتار ہو جائے۔ پھر بھی اس کے اوپر ایک انجانا خوف مسلط تھا۔ اس کے پیر کپکپا رہے تھے، انگلیاں تھرتھرا رہی تھیں، گلا سوکھ رہا تھا اور ہونٹ پیاسے تھے۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں جسے وہ اپنے گلابی شیفان کے دوپٹے سے آہستہ سے پوچھ لیتی۔

ادھر کچھ مہینوں سے وہ غفران علی سے ناراض چل رہی تھی۔ ایک دو نہیں پورے پچیس برسوں کا ساتھ رہا ہے اور یہ پچیس برس اس نے کھیل کھیل میں گزار دئے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ کھیل نہیں تو اور کیا تھا!

غفران، بیٹا کاشف اور بیٹی نادرہ۔ بھرا پورا گھر اور بھری پوری زندگی۔ مگر وقت کی طرح زندگی بھی ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔

ڈاکٹر کہتا ہے کہ اسے کوئی بیماری نہیں ہے۔ ایساہر عورت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہارمونس کی تبدیلی کی وجہ سے اموشنل ڈسٹربینس بھی آتے ہیں۔ خود کو بزی رکھئے۔

اب وہ ڈاکٹر کو کیسے سمجھائے کہ سچ مچ وہ بیمار ہے۔ کبھی گھٹنوں میں درد، کبھی کمر میں، کبھی لگتا تیز بخار چڑھا ہے اور کبھی ٹھنڈ میں بھی بیٹھے بیٹھے شدیدگرمی کا احساس ہوتا ہے۔ ہاتھ پیروں سے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں، جی گھبراتا رہتا، کہیں دل نہیں لگتا۔ سنّاٹے میں چپ چاپ بیٹھے رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اکثر ایسی اختلاجی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں سے اُمڈ پڑتا۔ غفران علی کی چھوٹی چھوٹی باتیں، چھوٹی چھوٹی لاپروائیاں بھی اس کا دل توڑ جاتیں۔ بچوں کی باتیں بھی دل کو بھاتی نہیں۔ اپنے ہی گھر میں اپنے اندر پھیلتے اس سنّاٹے سے وہ ٹوٹ رہی تھی۔ اس نے خود کو سمجھایا، چلو ان ساری باتوں میں ایک بات تو اچھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب وبال تو چھوٹا۔ بالغ ہوتے ہی ہر ماہ کی جو جھنجھٹ شروع ہوئی تھی وہ ختم تو ہوئی۔ اب سات دن کی نمازیں بھی نہیں چھوٹیں گی۔ وہ خود کو بہلاتی اور خوش رہنے کی کوشش کرتی مگر بے سود۔ بستر پر غفران علی جلدی سو جاتا، اس میں بھی اسے اپنے شوہر کی بے رخی نظر آتی۔ جب وہ بیمار نہیں ہے تو غفران اس کے ساتھ بیماروں جیسا برتاؤ کیوں کر رہا ہے۔ ایک ہی بستر پر دونوں الگ الگ کیوں پڑے رہتے ہیں۔

اس کے چڑچڑے ہوتے مزاج کی وجہ سے غفران آہستہ آہستہ اس سے دور ہو رہا تھا۔ خود کو دوسرے کاموں میں مصروف رکھنے لگا تھا اور رہی سہی کسر نیٹ نے پوری کر دی۔ ایک بار فیس بک اوپین ہوا نہیں کہ سمجھو گھنٹوں کی چھٹی۔ وہ جانتی تھی کہ ایسے موقع پر جب وہ چیٹنگ کر رہا ہو اور وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی ہو، کچھ باتیں کرنا چاہتی ہو، تو غفران ہاتھ کے اشارے سے صرف اتنا ہی کہتے۔۔۔۔۔ ٹھہرو!

وہ چڑھ کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی اور پھر شروع ہوتا تجزیہ۔۔۔۔ شوہر اور بچوں کے درمیان گزاری پچھلے پچیس برسوں کی زندگی کا تجزیہ جس میں وہ خود کو ٹھگا پاتی۔

بیٹی بیاہنے کے بعد اس کا اکیلا پن اور بڑھ گیا تھا۔ بیٹے نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

’’ممّا کہاں چلی گئی! میں تو کافی کا انتظار ہی کرتا رہ گیا‘‘

’’بس بیٹا، پانچ منٹ میں لائی‘‘

کافی پھیٹتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی، سچ مچ وہ بے وقوف ہے۔ کتنی سادگی سے اس نے اتنا طویل عرصہ گزار دیا اور ہاتھ کچھ نہ آیا۔ مٹھی بھر ریت اور وہ بھی انگلیوں کی جھری سے پھسل گئی۔ اس نے خود غرض ہو کر اپنے لئے کچھ سوچا ہی نہیں۔ یہ بات بہت بعد میں سمجھ میں آئی کہ اپنے لئے سوچنا خود غرضی نہیں ہوتی۔

آج ہی کی بات لو۔ لفافہ کے ایک طرف کمپیوٹر ٹائپنگ اور دوسرے کونے پر قلم کی تحریر۔ جب وہ کمپیوٹر پر غفران علی کا نام ٹائپ کر رہی تھی تو خیال ہی نہیں رہا کہ اپنا بھی نام ٹائپ کر لیتی۔ لفافہ بند کرنے کے بعد اچانک اسے لگا کہ خود کا نام بھی لکھنا چاہئے اور اس نے جھٹ سامنے لال قلم سے اپنا نام لکھ دیا۔ ماہ رخ علی عرف تمہاری میمے۔

’’ممّا میں کچھ مدد کر دوں؟‘‘ باورچی خانہ کے دروازے پر کاشف کھڑا تھا۔

’’نہیں بیٹے، کافی تو تیار ہے، لو پکڑو۔‘‘ اس نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا مگ بیٹے کی طرف بڑھایا۔

’’اور آپ کی کافی!‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھا۔

’’ارے! مجھے تو اپنے لئے بنانے کا خیال ہی نہیں آیا‘‘

کاشف نے اپنے میں سے آدھی کپ کافی دوسرے کپ میں ڈال کر ماں کو پکڑا دی۔

کافی پینے کے بعد وہ باورچی خانہ میں جا کر برتن سمیٹنے لگی۔ بیٹا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ چکا تھا۔ ویب کیمرے میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ اسی لڑکی سے چیٹنگ کرنے میں مصروف ہو چکا ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔

غفران علی صبح سے کہیں نکلے ہوئے تھے۔ شاید نیٹ کا بل جمع کرنے گئے ہوں یا پھر انکم ٹیکس کے پیپر لے کرکسی وکیل کے پاس پہونچے ہوں۔ ہو سکتا ہے، واٹر ٹیکس یا مکان ٹیکس کا بھگتان کرنے گئے ہوں، یا پھر دوستوں کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے۔

پہلے حال یہ تھا کہ گھر سے قدم نکالنے سے پہلے غفران علی پوری تفصیل اسے دے کر جاتا تھا، مگر اب، خاص کر ادھر کچھ مہینوں سے اس کے اندر کچھ نہ بتانے کا مادّہ پیدا ہو گیا۔ سوال کرو تو یہی جواب ملتا کہ تم تو ہر وقت جھنجھلائی رہتی ہو۔ مانا مینوپاز کوئی بیماری نہیں ہے مگر عورت کی زندگی کی ایک تبدیلی ضرور ہے۔ غفران یہ بات کیوں نہیں سمجھتا۔

غفران علی کو لے کر طرح طرح کی قیاس آرائیوں کے بعد وہ پھر اپنی زندگی پر واپس لوٹ آئی۔

شروع شروع میں اسے میمے نام سے چڑھ ہوتی تھی کیوں کہ غفران نام لیتے وقت بکرے کی سی آواز نکالتے تھے۔ ساس نے سمجھایا شوہروں کا پیار ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ دن برا لگا پھر میمے نام سننے کی اسے عادت سی پڑ گئی۔ وہ بھی تو بے وقوف تھی، ذرا ذرا سی بات پر خوفزدہ ہو جاتی تھی۔ اگر سامان اٹھاتے وقت کہیں سے دبی چھپی چھپکلی نکل پڑتی تو اسے اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بے وقت اگر ڈور بیل بج جاتی ہے تو وہ ہونّق کی طرح سب کا چہرہ کیوں تکنے لگتی ہے۔ غفران کی ایک چھینک پر وہ اجوائن، لہسن والا کڑکڑاتا گرم کڑوا تیل لے کر کیوں بھاگی چلی آتی۔ بچے ہوم ورک سے بچنے کے لئے جب بیماری کا بہانہ بناتے تو کیوں وہ انہیں کندھے پر لے کر گھنٹوں ٹہلاتی رہتی اور علی الصبح اٹھ کر سب سے پہلے بچوں کی رائٹنگ میں ان کا ہوم ورک پورا کر دیتی۔ بعد میں وہ شوہر اور بچوں کے بیچ اپنی انہیں بے وقوفیوں پر مذاق کا موضوع بنتی۔ سب ہنستے وہ مسکراتی رہتی۔ سب چھیڑتے اور وہ دائیں بائیں دوسروں کے چہروں کو ایسا تکتی جیسے بات کسی اور کی ہو رہی ہے۔ وہ سب سمجھتی تھی پھر بھی انجان کیوں بنتی تھی۔ پھر آج وہ خود کو ٹھگا ہوا کیوں محسوس کرتی ہے۔ مجرم تو وہی ہوئی نا۔

ہاں، کبھی کبھی دل دکھ جاتا تو تنہائی میں چند قطرے آنسو ضرور بہا لیتی۔ غفران جانتے ہیں کہ سردی کے موسم میں اسے بیحد ٹھنڈ لگتی ہے۔ موزہ، اسکارف، دو۔ دو سویٹر، شال، بس چلتا تو وہ پورا لحاف اوڑھ کر چلتی۔ یہی تو کہہ کر غفران ہنستے تھے پھر کیوں مذاق مذاق میں ہی سہی اس کے اوپر ٹھنڈا پانی اچھال دیتے تھے۔ اندر تک کپڑے بھیگ جاتے۔ غفران کی اس شوخی پر بچے خوب خوب ہنستے اور وہ۔۔۔۔۔ آنکھیں پھر بھیگنے لگیں۔

’’ممّا ڈاکٹر نے تمہیں سوچنے کے لئے منع کیا ہے نا! پاپا کو فون ملاؤں؟‘‘

ماہ رخ چڑچڑا گئی۔ ’’پاپا کیا کر لیں گے۔‘‘

’’آپ کو آ کر سنبھال لیں گے‘‘

’’اگر سنبھال پاتے تو میں ان حالات میں ہی کیوں پڑتی‘‘

’’کیا ہوا ہے ممّا، سب کچھ تو ٹھیک ہے‘‘

’’تم جاؤ‘‘ اس نے بیزاری سے بیٹے کو باہر جانے کا اشارہ کیا مگر کاشف کمرے سے نکلنے کے بجائے اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔

’’ممّا آپ مجھے بتائیے آخر پریشانی کیا ہے‘‘

’’مجھے کوئی پریشانی نہیں، تم جاؤ‘‘ ماہ رخ نے اپنا چہرہ دوسری طرف گھما لیا۔

’’آپ سمجھتی کیوں نہیں، بیماری کو دعوت دے رہی ہیں‘‘ ماہ رخ نے چہرہ اس کی طرف گھمایا اور تلخ لہجے میں بولی۔

’’بہت دعوت کھلا چکی، اب دعوت کھانا بھی چاہتی ہوں۔‘‘

’’اف!‘‘ کاشف اٹھ کھڑا ہوا اور موبائل پر غفران علی کا نمبر ملاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ ’ناٹ ریچیبل‘ کی کمپیوٹرائزڈ آواز سے جھنجھلا کر اسے نے موبائل اٹھا کر سوفے کشن پر پھینکا اور خود نیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ ویب کیمرے پر اس کی محبوبہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ دونوں میں پھر رکی ہوئی گفتگو شروع ہو گئی۔

ڈور بیل کی تیز آواز سے ماہ رخ کو ایک جھٹکا سا لگا مگر وہ اسی طرح لیٹی رہی۔ غفران کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ وہ ڈور بیل ایک ساتھ دو بار بجاتے تھے۔ کچھ تاخیر کے بعد جب تیسری بار بیل بجی تو اسے بے چینی ہونے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت کاشف جلدی جلدی اس لڑکی سے اپنی گفتگو ختم کر کے ویب کیمرہ آف کر رہا ہو گا۔ ٹیبل پر اپنے پروجیکٹ کی فائل پھیلا رہا ہو گا۔ یہ سب دیکھ کر اسے کتنی کوفت ہوتی تھی مگر جوان ہوتے بیٹے سے بات کرتے وقت محتاط تو ہونا ہی پڑتا ہے۔

ہونٹ سی کر، خود پر جبر، خاموشی اور سب کچھ اپنے اندر پی جانے کی عادت سے عورت کتنی مجروح ہو جاتی ہے ماہ رخ کی طرح۔ آج ماہ رخ کو ضرورت ہے مینٹل سپورٹ کی۔ ایموشنل ڈسٹربینس کو سنبھالنے کے لئے یہ ضروری ہے۔ یہی تو ڈاکٹر نے غفران علی کو سمجھایا تھا، مگر کیا غفران اس بات کو سمجھ پائے۔

’’ارے! تم ابھی تک لیٹی ہوئی ہو‘‘ ماہ رخ کے بدن میں آگ لگ گئی۔ نہ خیریت پوچھی نہ حال چال لیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ دو دن سے بوا نہیں آ رہی ہے، گھر کا سارا کام وہ خود کر رہی ہے۔ پھر ایک بے تکی بات جو اسے خنجر کی طرح اندر تک پھاڑ گئی۔ وہ چٹخ کر اٹھی۔ ’’صبح سے کہاں گئے تھے؟‘‘

غفران علی کے تھکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ ’’کیوں ناراض ہوتی ہو ڈئیر، بجلی کا بل دس ہزار سے اوپر آ گیا ہے۔ اتنا تو خرچ بھی نہیں ہے۔ کچھ میٹر کی گڑبڑی لگتی ہے‘‘

’’تو!‘‘ ماہ رخ کا لٹھ مار لہجہ تھا۔

’’دو قسطوں میں ادا کرنے کی بات کرنے گیا تھا، رہی بات صحیح غلط کی تو بعد میں دیکھیں گے‘‘

ماہ رخ نے غور سے غفران علی کا چہرہ دیکھا۔ آنکھوں میں اداسی، چہرے پر دن بھر کی بھاگ دوڑ کی تھکان اور پیشانی پر پھیلے بے ترتیب بال، ہلکی بڑھی سفید داڑھی، اس نے اوپر سے نیچے تک غفران پر ایک گہری نظر ڈالی۔

’’ارے! تم نے بغیر موزے کے جوتے پہن رکھے ہیں‘‘

’’تم نے دونوں جوڑ موزے دھونے کے لئے بالٹی میں بھگا دئے تھے اور تیسرا جوڑ مل نہیں رہا تھا، اس لئے بغیر موزے کے جوتے پہن لئے‘‘

’’مگر تم تو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’چھوڑو ان باتوں کو، تمہاری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی تو پھر پہلے جیسا ہو جاؤں گا‘‘

اسے اپنے شوہر پر افسوس ہوا۔ کاشف پر غصہ آیا کہ ایک کپ چائے تو باپ کو دے ہی سکتا ہے۔ وہ اٹھی اور چائے بنانے کے لئے باورچی خانہ میں چلی گئی۔

چائے دے کر وہ منع کرنے کے باوجود کپڑے دھونے بیٹھ گئی۔ کل شام ہی اس نے ایک بالٹی کپڑے بھگوئے تھے۔ واشنگ مشین خراب ہو چکی تھی جسے ٹھیک کروانے کا کام کاشف کا تھا۔ مگر کاشف کے پاس وقت کہاں؟کچھ بولتی تو باپ بیٹے الجھ جاتے، اس لئے خاموش رہتی۔

انگلیاں بھیگے کپڑوں کو مسل رہی تھیں، میل چھوٹ رہی تھی مگر دل پر آئی میل اور دبیز ہوتی جا رہی تھی۔ اگر اپنوں سے ہی دل میلا ہو جائے تو زندگی کتنی عذاب بن جاتی ہے۔ ماہ رخ سے بہتر اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے۔

اس دن کا سویرا اس کے لئے کتنا گہرا اندھیرا لے کر آیا تھا۔ کاشف گھر کے بالائی حصہ میں بنائے اپنے جم میں ورزش کر رہا تھا۔ غفران غسل کر رہے تھے اور وہ چائے کا مگ ہاتھ میں لئے سامنے پھیلے اخبار کی ہیڈ لائن پڑھ رہی تھی تبھی ڈور بیل بجی۔ اس نے عادت کے مطابق سر پر آنچل ڈالا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے روبی کھڑی تھی۔ اس لڑکی کو ماہ رخ نے سیکڑوں بار ویب کیمرے میں دیکھا تھا۔ پہچاننے میں لمحہ بھر بھی نہیں لگا۔ ’’آؤ آؤ، اندر آؤ‘‘ اس نے شفقت سے کہا۔

’’سلام علیکم آنٹی، آپ سب کو سرپرائز دینے کے لئے بے وقت آ گئی‘‘

ماہ رخ نے آگے بڑھ اسے گلے سے لگا لیا۔ لمحہ بھر کے لئے لگا اس کی بیٹی نادرہ آ گئی ہو۔ وہ خوشی خوشی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کو اندر لائی اور کاشف کو آواز لگانے لگی۔

۔۔۔۔ اور پھر کاشف کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ ماہ رخ اور غفران علی بھی بے حد خوش تھے، اکلوتا بیٹا تھا۔ آج نہیں تو کل کاشف اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔ سگائی کر کے سال دو سال کے لئے شادی ٹال دینے میں کیا ہرج ہے۔ روبی دوپہر تک رہی، سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا، کہیں کچھ گڑبڑ نہیں۔ آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور جلد ہی سگائی بھی ہو گئی۔ سگائی کے بعد اس دن وہ پہلی بار آئی تھی۔ جانے لگی تو غفران بولے ’’ارے بھئی، اب روبی محض کاشف کی دوست نہیں ہماری ہونے والی بہو بھی ہے، سگائی کے بعد پہلی بار آئی ہے، ماہ رخ آپ کوئی تحفہ نہیں دیں گی؟‘‘

’’کیوں نہیں ابھی لائی‘‘ ماہ رخ تیزی سے اپنے کمرے میں گئی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی، جیسے وہ کسی گفٹ شاپ میں آ گئی ہو۔ اس کے زیادہ تر زیور بینک لاکر میں ہیں، روزمرّہ پہننے والی چیزیں تو دے نہیں سکتی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے غفران علی کو کمرے میں بلایا۔

’’کیا دوں؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے‘‘

’’ارے میمے کیسے سمجھاؤں تمہیں یہ کوئی غیر تو ہے نہیں جو جی چاہے دے دو‘‘

غفران ہنستے ہوئے چلے گئے اور ماہ رخ اپنے آپ میں الجھ گئی۔ اس نے الماری کھولی، کئی کپڑے نکالے، رکھے۔ کچھ نئے کچھ پہنے ہوئے، مگر اسے سب کی طرز کٹنگ فٹنگ پرانی لگی۔ جینس ٹاپ پہننے والی لڑکی اس طرح کے کپڑے کیوں پہننے لگی۔

اس نے الماری بند کر دی۔

’پھر؟‘ اس کے سامنے سوال کھڑا تھا۔ غفران کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے، شیلف میں اردو کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں لگی ہوئی تھیں مگر کاشف بتا چکا تھا کہ روبی کو اردو نہیں آتی۔ تبھی غفران علی نے دوسرے کمرے سے تیز آواز میں کہا ’’بھئی ہونے والی تمہاری بہو ہے، کیوں پریشان ہوتی ہو، جو چیز تمہیں سب سے زیادہ پیاری ہو وہی دے دو۔‘‘

کاشف کے ہنسنے کی آواز آئی ’’ممّا ایسا منتر دو جس سے یہ ہمارے گھر کو اچھی طرح سنبھال سکے‘‘

کاشف نے یہ بات تو ہنسی ہنسی میں کہی تھی مگر ماہ رخ کو لگا کاشف ٹھیک کہہ رہا ہے۔ کل کو یہ گھر اسے سنبھالنا ہے، سکھانا تو پڑے گا نا کہ کیسے گھر چلایا جاتا ہے۔

ماہ رخ مے میز کی ڈراز کھول کر ایک ڈائری نکالی اور الٹ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔ ہر سال بدلا جانے والا یہ وہ دستاویز تھاجس میں سال بھر کے حساب درج کئے جاتے تھے، درج کرنے والی وہ خود ہوتی۔ غفران نے اسے سکھایا تھا کہ گھر بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لئے کیسے کالم بنا کر ایک ایک چیز لکھی جاتی ہے۔ تمام بل، ان کا بھگتان، دن، تاریخ، مہینہ سب کچھ ڈائری میں ہوتا۔ دودھ والے کا بھگتان، کام والی کا بھگتان، لانڈری والے، کیبل والے، سبزی والے، گوشت والے، راشن والے، اخبار، بجلی، نیٹ، ہاؤس ٹیکس، واٹر ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ ان میں کچھ کا بھگتان روز ہوتا، کچھ کا ہفتوں یا مہینوں میں اور کچھ ایسے بھگتان بھی تھے جو سال میں ایک بار ادا کئے جاتے۔ ایک بار ماہ رخ نے جھلّا کر کہا بھی تھا۔ کچھ بل ایسے بھی ہونے چاہئے جن کا بھگتان زندگی میں ایک بار کرنا پڑے۔

برسوں سے ڈائری لکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ جان سے پیاری یہ ڈائری سال کے ختم ہونے پر تمام بے مصرف سامانوں کے ساتھ جب کباڑی کے ترازو پر چڑھتی تو اسے لگتا اس کی یادداشت کے شجر سے ایک پتا اور ٹوٹ گیا۔ سال گزرتے رہے، پتے ٹوٹتے رہے اور یادداشت کی عمر گھٹتی رہی۔

ہاں! گزرتے وقت کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بچوں نے بھی اٹھا لی تھیں۔ اب ڈائری کے صفحے اس بات کے گواہ بنتے کہ میٹریمونیل میں کہاں کہاں نادرہ کا میرج ڈاٹا بھیجا گیا ہے، کن کے خطوں کا جواب دینا ہے اور کنہیں اگنور کر کے آگے بڑھ جانا ہے۔ سنار کے یہاں کتنے گرام سونے دئے ہیں۔ ڈزائن کیسی ہے، بنوائی کے چارجز کتنے دینے ہیں۔ یہ سارے معاملے اب ڈائری میں درج ہوتے اور ڈائری لکھنے والی کو ہر روز ان کے صفحے پلٹ کر اپنی یادداشت کو تازہ کرنے کی عادت سی ہو چکی تھی۔ نادرہ کی شادی کے بعد ڈائری کی تحریر میں پھر بدلاؤ آیا۔ ماہ رخ کو غفران علی کے ساتھ کس ڈیٹ پر ڈاکٹر کے روٹین چیک اپ پر جانا ہے! کون سی دوا کس مرض کے لئے ہے! کن دواؤں کا استعمال کرنے سے غفران کو الرجی ہو جاتی ہے۔ اسے ڈاکٹر نے کن چیزوں کو کھانے سے پرہیز بتایا ہے! کس کس فوڈ آئٹم میں کتنے وٹامن، آئرن، کیلشیم وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ سبھی تفصیل اب ان ڈائریوں کا حصہ بنتی ہے۔

’’آنٹی میں آپ کی کچھ مدد کروں؟‘‘

ماہ رخ کو لگا آس پاس کوئل کوک اٹھی ہو۔ دروازے پر روبی کھڑی تھی۔

’’آؤ میری بچی! دروازے پر کیوں کھڑی ہو! اندر آ جاؤ‘‘

ماہ رخ نے بے حد اپنائیت اور پیار سے اسے قریب بلایا۔

’’لو آج میں تمہیں یہ ڈائری دیتی ہوں‘‘

روبی نے ڈائری اپنے ہاتھ میں لے لی اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ ’’ارے آنٹی! یہ تو استعمال کی ہوئی ہے‘‘

’’ہاں! مگر دیکھو تو اندر کیا لکھا ہے‘‘ روبی کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔

’’اس ڈائری کو پڑھ لو گی تو گھر چلانے میں اور گھر کے لوگوں کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی‘‘

روبی کے چہرے پر پھیکی سی ہنسی آ گئی۔ ’’اچھا!‘‘

کچھ دیر ڈائری کے صفحے اِدھر اُدھر پلٹنے کے بعد وہ آہستہ سے بولی ’’آنٹی یہ ڈائری آپ نے جہاں سے نکالی ہے وہیں رکھ دیجئے، میں اپنے گھر کو اپنے طریقے سے چلاؤں گی نا!‘‘

ماہ رخ کو لگا آج بے مصرف سامانوں کے ساتھ ڈائری نہیں وہ خود تولی گئی ہو۔ اس نے حیرت سے روبی کو دیکھا، جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، چہرے پر اطمینان، آواز میں شہد مگر لہجے کی تیکھی دھار نے ماہ رخ کو بہت گہرائی تک زخمی کر دیا تھا۔ کم گو ماہ رخ اس دکھ کو نہ کاشف کے ساتھ تقسیم کر سکی، نہ غفران علی کے ساتھ۔ ماں کی پرورش یہی تو کہتی تھی کہ مردوں کا کان بھرنے والی عورتیں گھر توڑ دیتی ہیں۔

روبی ماہ رخ کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے کھینچتی ہوئی سب کے بیچ لائی۔ ’’میں تو آنٹی سے اپنی پسند کا تحفہ لوں گی‘‘

ماہ رخ چپ تھی مگر بجھے چہرے پر ایک اداس سی مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔ بعد میں کاشف نے اسے بتایا کہ روبی کی خواہش ہے کہ وہ ان دونوں کے سنگاپور گھومنے کا ٹکٹ ارینج کر دے۔ اتنا پیسہ تو تھا ہی غفران علی دونوں کو ہنی مون کے لئے سنگاپور بھیج سکتے تھے۔ انہوں نے خوشی خوشی سارے انتظام کر دئے مگر ماہ رخ کے جسم سے جیسے رہی سہی طاقت بھی نچڑ گئی۔ وہ روز بروز مایوسی کے گہرے اندھیرے میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا مینوپاز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتیں بری لگتی ہیں، کوشش کیجئے یہ ڈیپ ڈپریشن میں نہ جانے پائیں۔

غفران علی کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی، وہ بھی اندر اندر ٹوٹ رہے تھے۔ ماہ رخ کی گرتی صحت کو لے کرفکرمند رہتے۔ خود کو گھر دفتر کے کاموں میں مصروف رکھتے۔ وقت گزرتا رہا، حالات تیزی سے آگے بڑھتے رہے۔ اگلے مہینے بیٹے کی شادی ہونی تھی اور سارا کام انہیں خود کرنا تھا۔ ماہ رخ کا کام اتنا ہی تھا کہ صبح ہوتے ہی خریداری کے لئے لسٹ پکڑا دیتی۔

کاشف اپنے خوابوں کی دنیا میں ڈوبا تھا۔ بیٹی نادرہ کا فون آ چکا تھا کہ وہ ایک ہفتہ پہلے آ جائے گی۔

ماہ رخ کی کمزوری روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، ڈاکٹر کہتا کہ کوئی بیماری نہیں ہے اور اسے لگتا کہ اس کا جسم بے شمار بیماریوں کا گھر بن چکا ہے۔ اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ ہونے کا احساس مارے ڈال رہا تھا۔ شادی کی تاریخ قریب آ رہی تھی اس کا وزن گھٹ رہا تھا، غفران پریشان تھے، روزمرہ پہننے والے کپڑے بھی اس کے جسم پر جھولنے لگے تھے۔

آخر ماہ رخ نے وہی کیا جو کرنے کی خواہش اسے پچھلے کئی دن سے پریشان کئے ہوئے تھی۔ اس نے غفران کے نام ایک تحریر لکھی، اسے لفافہ میں بند کیا اوراپنے کمرے کے کمپیوٹر ٹیبل پر رکھ کربستر پر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی، تبھی غفران علی کمرے میں داخل ہوئے اور کمپیوٹر ٹیبل پر رکھے لفافہ کو دیکھ کر سوالیہ نظروں سے ماہ رخ پر ایک نظر ڈالی اور لفافہ کھول کر پڑھنے لگے، جیسے جیسے وہ بند لفافہ کی اس تحریر کو پڑھتے جا رہے تھے، چہرے کی رنگت بدلتی جا رہی تھی، کبھی ہلکی مسکراہٹ آ جاتی، کبھی گہرا کرب جھلکنے لگتا، کبھی الجھن کے آثار، کبھی پیشانی پر فکر کی لکیریں ابھرتیں اور کبھی چہرے پر مایوسی کے سائے نمایاں ہونے لگتے۔ ایک بار پوری تحریر پڑھنے کے بعد اسے انہوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ ماہ رخ آنکھوں کی جھری سے غفران کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ اسے یہ سب لکھتے وقت بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا، غفران کی یہ کیفیت اس سے دیکھی نہیں جا رہی تھی مگر وہ بھی کیا کرتی، خود سے لڑتے لڑتے تھک گئی تھی۔ اب اچھا پڑے یا برا، جو کچھ دل میں ہے، وہ کر ہی گزرو۔ اس نے عزم کر لیا اور پھر اسے عملی جامہ بھی پہنا دیا۔

لیٹی ہوئی ماہ رخ کی طرف غفران آہستہ قدموں سے بڑھنے لگے۔ ان کے بڑھتے قدموں کے ساتھ ماہ رخ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں، دماغ سن پڑ گیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی۔ غفران کے قدم ماہ رخ کی طرف بڑھ رہے تھے مگر نظریں اب بھی ان ہی سطور پر دوڑ رہی تھیں۔ انہوں نے پھر شروع سے آخر تک اسے پڑھنا شروع کیا۔

یہ تحریر آخری صفحہ پر تھی جسے ڈائری سے پھاڑ کر الگ کیا گیا تھا۔

۳۱ دسمبر ۲۰۱۲

غفران علی کے نام

ماندہ بلوں کے بھگتان کے لئے

بل نمبر ۱۔ تمہارے ساتھ گزارے ان پچیس سالوں کا بھگتان جس میں میں خود میں نہیں، تم میں گم ہو کر جیتی رہی۔

بل نمبر ۲۔ ان لمحوں کا بھگتان جب میں اپنی مرضی کے خلاف تمہارے جبر سے بستر پر سلوٹیں پیدا کرتی رہی۔

بل نمبر ۳۔ ان تنہا راتوں کا بھگتان جب تم دوستوں کے ساتھ تفریح کے لئے لمبے ٹور پر نکل جاتے اور میں تمہارے ننہے بچوں کو اپنے دودھ سے سینچتی رہی، جاگتی رہی۔

بل نمبر ۴۔ بے شمار بہائے ان آنسوؤں کے قطروں کا بھگتان جب تمہاری لاپروائیوں کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا، کیا ان تینوں ابارشن کاحساب ہے تمہارے پاس!

اس کے آگے غفران علی کی نگاہیں جھلملانے لگیں۔

بل نمبر ۵، بل نمبر ۶، بل نمبر ۷۔۔۔۔۔ اور پھر نمبروں سے سرکتی ہوئی آنکھیں تحریر کے آخری حصہ پر آ کر ٹھہر گئیں

۔۔۔۔۔ کر سکو تو بھگتان کر دو ورنہ معاف کرنا تو میرے اختیار میں ہی ہے۔ میں تمہیں معاف کر دوں گی کیوں کہ میں ٹھہری عورت۔

ماہ رخ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور انگلیاں ڈوپٹے سے کھیل رہی تھیں، غفران علی آہستہ سے آ کر اس کے بغل میں بیٹھ گئے اور پھر انہوں نے پیارسے ماہ رخ کو اپنے قریب کیا، ان کی انگلیوں کا دباؤ ماہ رخ کو اپنے شانے پر صاف محسوس ہو رہا تھا۔

وہ آہستہ سے بولے ’’میمے ڈارلنگ! تم عورتوں اور ہم مردوں میں بس تھوڑا ہی فرق ہے، تم لوگوں کو اظہار کا سلیقہ آتا ہے پھر بھی ماتم کی پہلی صف میں کھڑی ہو کر آنسو بہاتی رہتی ہو، ہم مرد چپ رہ کر جی لیتے ہیں اور آخری صف میں کھڑے ہو کر بھی خوش رہتے ہیں‘‘

’’بس اب چپ رہئے‘‘ ماہ رخ کے چہرے پر جھینپی ہوئی ہنسی تھی

’’آؤ چلیں‘‘

’’کہاں؟‘‘ ماہ رخ نے سوالیہ نگاہوں سے غفران علی کو دیکھا۔

’’مہ جبیں خالہ سے باتیں کرتے ہیں بہت دن ہو گئے ان کے لطیفے نہیں سنے‘‘

’’مگر مجھے ویب کیمرے کے سامنے بیٹھ کر چیٹنگ کرنا نہیں آتا، پتا نہیں ابھی کویت میں کون سا وقت ہو گا‘‘

’’تم آؤ تو میرے ساتھ‘‘۔۔۔۔۔ غفران نے ماہ رخ کو کرسی پر بیٹھایا اور خود سسٹم آن کرنے لگے پھر بے حد نرم لہجے میں ماہ رخ سے مخاطب ہوئے

’’بس میری اتنی ہی غلطی ہے کہ مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ گھر کی چہار دیواری میں بند ہو کر جینے والی آج کی عورت کو بھی نئی دنیا کے تقاضے پریشان کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور شاید عمر کے اس پڑاؤ میں یہ پریشانی اور بڑھتی ہے۔ پتا نہیں کیسے ہماری مائیں، خالائیں، نانی وغیرہ وقت گزارتی تھیں۔۔۔۔ زندگی جی لینے کا ان کا کلیجہ تھا۔

غفران نے جلد ہی ماہ رخ کو بہت سی نئی چیزیں سکھا دیں، دیر تک دونوں خالہ سے باتیں کرتے ہوئے پرانے رشتے کو تازہ کرتے، پھر تو نہ جانے کتنی کھوئی سہیلیوں، رشتے کی بہنیں، ماموں، خالائیں، پھوپھیوں سے اس کی باتیں شروع ہو گئیں۔ کھوئی ہوئی ایک دنیا کمرے میں سمٹنے لگی۔

ماہ رخ ان دنوں بے حد خوش تھی کہ عمر کے اس پڑاؤ کو بھی وہ کھیل کھیل میں پار کر رہی تھی، نیٹ، چیٹ، ویب کیمرہ کسی بہانے سہی ٹوٹے بکھرے، بھولے بسرے خاندانی رشتے ناطے ایک بار پھرسے جڑ رہے تھے۔ اکیلے اکیلے جینے کا درد اب سانجھا ہو رہا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے