آدم خور ۔۔۔ خورشید حیات

کہانی تو ہم سب کے اندر سمندر کی لہروں کی طرح ابھرتی ڈوبتی رہتی ہے۔

سمندر میں میں ہوں۔

مجھ میں سمندر۔

بارش کی بوندیں سمندر میں۔

اور سمندر بارش کی بوندوں میں۔

مجھے قریب سے دیکھو۔

پہچانو!

ابھرتی ڈوبتی لہریں تم سے کیا کہہ رہی ہیں؟

آدمی۔! سانپ سے بھی زہریلا آدمی!!

آدمی۔ ہرے بھرے درختوں کی جڑوں کو کریدتا آدمی۔ درختوں کو کاٹنے کے معاملے میں شرمناک کردار نبھاتا آدمی۔

آدمی۔ سکھ میں ساتھ دیتا، دکھ میں ساتھ چھوڑتا آدمی۔

آدمی۔ بیمار پریشان کو دیکھ کر مسکراتا آدمی۔

آدمی اب آدمی کہاں رہ گیا ہے۔ وہ تو بھاگا جا رہا ہے تیز دھوپ میں، بارش میں، آندھی اور طوفان میں منزل کا پتہ نہیں، وہ تو ہے کسی اور راہ کا مسافر، مگر بھاگا جا رہا ہے ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر۔

عظمت آدمی کی گم ہوتی تحریک کیا تمہیں بے چین نہیں کرتی میرے ننکو!

کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ میرے پیارے ننکو!!

آج کل راتوں میں نیند نہیں آتی۔ جاگ جاتی ہے رابعہ اکثر راتوں میں کھانستے کھانستے۔ دیکھتی ہے وہ دائیں بائیں، ایک طرف سوئی اپنی بیٹیوں کو، دوسری طرف اپنے شوہر کو، جس کے چہرے پر ایک اطمینان ہے کہ وہ اپنی گرفت سے جانے نہیں دے گا۔ شاید دونوں کی روحیں محبت کی ڈور سے بندھی ہیں۔

روح کا رشتہ ایک بیمار بیوی اور شوہر کا۔ شوہر کے چہرے میں کبھی وہ اپنی ماں کو دیکھتی ہے تو کبھی اپنے والد کو۔ آج کی مائیں تو کتوں کے بچوں کو گود میں لے کر پیار کرتی ہیں۔ مگر خود ان کی بیٹیاں نوکرانی کی گود میں پلتی ہیں، بڑھتی ہیں۔

ماں ایک گمشدہ پنچھی کی طرح اور آج کا ہمارا کلچر ’’کتا کلچر!‘‘

آدمی/کتا

کتا /آدمی

’’ساودھان یہاں کتے رہتے ہیں‘‘

آدمی، کہاں بستے ہیں، کہاں رہتے ہیں؟

ہم ترقی کر رہے ہیں۔ میرے دلارے ننکو!

گھروں میں آدمی کی جگہ کتوں نے لے لی ہے۔ پرانی، سنہری قدروں کی جگہ نئی قدروں نے لے لی۔ فیروز پور ڈیویژن کے ’’کالا بکرا‘‘اسٹیشن پر بیٹھے رابعہ اور ننکو دورنتو اکسپریس کا انتظار کر رہے ہیں اور رابعہ کہانی سنا رہی ہے۔ ننکو سوچ رہا ہے کہ یہ کہانی رابعہ اپنی سنا رہی ہے یا پھر کوئی اور رابعہ مالکن کے اندر رچ بس گئی ہے۔ ویسے مالکن نے زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔

’’کالا بکرا‘‘ اسٹیشن پر کہانی آگے بڑھتی ہے۔ پلیٹ فارم نمبر دو پر چند قوال کہیں جا رہے تھے۔ ان کے ارد گرد بھیڑ تھی۔ کسی نے بھیڑ میں سے فرمائش کی اور پھر فلمی گانوں پر لکھی گئی نعتوں پر، ہاتھوں میں جھنڈے لئے لوگ جھومنے لگے۔ پان کھا کر قوالی کی محفل جم گئی۔

میوزیکل نعتیں۔

موسیقی حرام ہے۔

ہر قسم کی ہوائیں بہہ رہی ہیں۔ ہوائیں ٹھنڈی بھی، گرم بھی، بار آور بھی، غیر بار آور بھی، شمالی جنوبی بھی، مشرقی مغربی بھی انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطالب بھی۔ ان ہواؤں پر کس کی حکومت ہے۔ مگر قوالی میں دوسرے کو حاجت روا اور معبود قرار دیا جا رہا تھا۔

’’ننکو! کہاں گم ہو گیا۔ کیا سوچ رہا ہے، کیا دیکھ رہا ہے؟‘‘

’’کہیں نہیں مالکن، سفر میں ایک طرح کے خیالات نہیں آتے ہیں۔ میں شعور کی رو میں بہہ رہا تھا سامنے کی بھیڑ کو دیکھ کر‘‘

’’چل کہانی سن، آ نے والے دنوں میں تجھے کہانی سنانے والا چہرہ نہیں دکھائی دے گا۔‘‘

رابعہ کا بیمار جسم کانپ رہا ہے، کمزوری سے ڈر رہا ہے، ڈر رہا ہے موت کی آہٹ سے۔ مگر وہ مرنا نہیں چاہتی۔ نجات پانا نہیں چاہتی اس تکلیف سے جو اس کے لئے رحمت ہے۔ اس کی جنت ہے۔

رابعہ رو رو کر ساری رات جاگتی ہے۔ جسم کی تکلیف کی شدت آج کل کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ روح زخمی ہے۔ مگر وہ اسے اللہ کی رحمت مانتی ہے۔ رات کے ایک بجے سے صبح کے چھ بجے تک کے سارے لمحے، کبھی لیٹے لیٹے تو کبھی بیٹھے بیٹھے گزر جاتے ہیں۔ سوچتی چلو اٹھ کر تہجد پڑھ لیں۔ لیکن جسم میں نہ تو فجر پڑھنے کی طاقت ہے نہ ہی تہجد کی۔ نہ ہی کھڑے ہونے کی طاقت ہے نہ بیٹھنے کی۔ لب ہل رہے ہیں، اشاروں میں رکوع و سجدے ہو رہے ہیں۔

ایک طرف بیمار جسم دوسری طرف ٹھنڈ کا موسم شروع ہوا ہی ہے کہ کھانسی پریشان کرنے لگی۔ دل کی دھڑکنیں بڑھی ہوئی ہیں۔ بستر پر آرام کرنا بھی دشوار۔ سارا جسم تکلیف سے جنبش کر رہا ہے۔ دماغ کو چھوڑ کر۔ دماغ ہی تو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اگر یہ اپنے پیچھے کی طرف چھوٹتی ہوئی زندگی کو یاد دلانے کا کام چھوڑ دیتا تو شاید رابعہ تھوڑا سکون پا جاتی۔

رابعہ سوچتی کہ کوئی انسان کوما میں چلا جاتا ہے یا اس کا Brain dead ہو جاتا ہے تو اس کے رشتہ دار، ملنے جلنے والے کہنے لگتے ہیں کہ بس وہ ختم ہی ہوا سمجھو۔ تخلیق کار اس جہان میں مرنے سے پہلے شاید اپنی تخلیق کو تھوڑے وقت کے لئے سکون دے دیتا ہے۔ جس میں کچھ یاد نہیں رہتا صرف سانسیں چلتی رہتی ہیں۔

رابعہ کئی مرتبہ کوما میں جا چکی ہے۔ اس کے رشتہ دار اس کے مرنے کا اعلان بھی کر چکے تھے۔ مگر آج بھی وہ زندہ ہے۔

رابعہ کو اچھی طرح سے یاد ہے آٹھ سال کی عمر اپنی امی سے سنی ہوئی وہ کہانی جو اللہ جانے سچ تھی یا جھوٹ۔

آج بھی یاد ہے وہ آدم خور انسانوں کی کہانی۔

کبھی پرانے زمانے میں آدم خور قبیلے ہوا کرتے تھے۔ اگر کوئی مسافر وہاں پھنس جاتا تھا تو صحت مند ہوا تب تو ٹھیک ہے مگر اس کی طبیعت ذرا بھی خراب رہی تو قبیلے والے رات ہی میں اسے مار کر، بھون کر کھا جاتے تھے۔

بچپن میں رابعہ نے جب یہ کہانی سنی تھی تو اسے دس دن تک نیند نہیں آئی تھی۔ ایک خوف، ایک ڈر اس کے اندر جاگ گیا تھا۔ ایک خوف زدہ بچے کی طرح وہ سوچتی رہتی تھی کہ کیسے ایک بیمار آدمی کو مار دیتے ہوں گے۔ شاید رابعہ کی زندگی میں پہلی مرتبہ آج کی طرح نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی گئی ہو گی۔ اب تو رابعہ کو ایسا لگتا ہے کہ پہلے تو کچھ قبیلے ہی آدم خور ہوا کرتے تھے۔ لیکن آج آدم خوروں میں سے انسان کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

آدم خور۔

گھر کے آنگن میں بھی، اور آنگن کے باہر بھی!

’’آنگن‘‘

آدم خور!

فضا زہریلی ہوتی جا رہی ہے اور موت کی تجارت میں لگ ہیں تاجران وقت۔

رچھ سنسکرتی/راکشش سنسکرتی۔

آدم خور مار ڈالتا ہے ایک بیمار کو۔ زخمی کر دیتا ہے اس کی روح کو۔ لہو لہان کر دیتا ہے اعضا کو۔ ہاتھ منہ دھوتا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھاتا ہے۔ شراب پیتا ہے۔ سود کا چکھنا لیتا ہے۔ رہتا ہے مسلمان کی طرح۔!

’’مالکن! آپ بلی کو کتنا پیار کرتی تھیں۔‘‘

یہ جملے ادا کرتے ہوئے ننکو نے کہانی میں بریک لگا دیا۔ مگر یہ کوئی کمرشیل بریک نہیں تھا۔

ہاں رے ننکو! اگر تمہارا دل ایک بلی بھی نہیں لے سکتی تو سمجھ لو وہ مردہ ہو چکا ہے اسے ’’کالے پتھر‘‘ کے ساتھ رکھ دو۔‘‘

’’دورنتو ایکسپریس ایک گھنٹے دیری سے ایک نمبر پلیٹ فارم پر آئے گی۔‘‘ اناؤنسمنٹ ہو رہا تھا اور کہانی پھر شروع ہو گئی۔

ماں کے سامنے دم توڑ گیا ایک معصوم بچہ۔

آدم خوروں نے نوچ نوچ کر مار ڈالا۔ گاؤں میں کافی آکروش تھا۔ بچہ کو بچانے کے لئے گاؤں والوں نے کافی کوشش کی مگر آدم خور کتوں کے آگے کسی کی نہ چلی۔ گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے ایک بیمار ماسٹر جی کو بھی آدم خور کتوں نے نوچ کر مار ڈالا تھا۔ گاؤں والے بتاتے ہیں کہ ہڈا گاؤں میں باگمتی ندی کے کنارے سینکڑوں آدم خور کتے رہتے ہیں، جو بیمار جانوروں، مرے ہوئے جانوروں کے گوشت نوچ نوچ کر کھاتے کھاتے آدم خور ہو گئے اور سریو ندی کے کنارے نا معلوم لوگوں کی جو لاشیں ملی تھیں، اس کے بعد آس پاس کے علاقے میں بھی آدم خور قبیلہ کی افواہ پھیل گئی تھی۔

آدم خورم چہرہ مسخ کر دیتا ہے۔

بناتا ہے اپنا شکار

سنہری روایت کو

تہذیب کو

’’روشن‘‘ کو

اور پھر پوسٹ مارٹم کے بعد لاش گھر والوں کو سونپ دی جاتی ہے۔

اگر رابعہ کو شوہر کی شکل میں انسان نہ ملا ہوتا تو آج اس کی ہڈیاں بھی باقی نہ ہوتیں۔ قبر اسے کب نگل گئی ہوتی۔

رابعہ بیمار ہے سخت بیمار۔ اتنی بیمار کہ کسی پل کا ٹھکانہ نہیں۔ جسم بے حد کمزور، لیکن روح بے حد مضبوط۔

رابعہ کو اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ جب اس کی دادی ماں اس طرح سخت بیمار پڑی تھیں تو محلے کی پرانی سہیلیاں جو انہی کی طرح بوڑھی تھیں، ناشتے کے بعد سے ہی آ جایا کرتی تھیں۔ کوئی سر میں تیل لگا رہی ہوتیں تو کوئی بال میں کنگھی، کوئی کمزور پاؤں میں تیل کی مالش۔ پھر کوئی ان کی ساڑی بدل رہی ہوتیں تو کوئی رابعہ کے بیاہ کے گیت گانے لگتیں۔

کھولو نا کوڑیا جلدی آویں میری لاڈو

ارے جلدی آویں میری لاڈو

تیرا ٹیکا لئے ہم کھڑے ہیں جی لاڈو

تم را بیسر لئے تم را جھمکا لئے

ہم کھڑے ہیں جی لاڈو

ارے جلدی آویں میری لاڈو۔

یہ گیت سرحد کے اس پار سے آئیں دادی اماں کی بڑی بہن نے سنایا تھا اور اس گیت کو آپا نانی نے ڈھولک کی تھاپ اور تال کے ساتھ، آریہ ورت کی زمین سے اپجے کالے کالے چاول کے دانوں جیسے لفظوں کو ایک نئی زبان عطا کر دی تھی۔

بنو تیری انکھیاں سرمے دانی

بنو تیرا بنا لاکھ کا رے

بنو تیری جوڑی ہے ہزاری

بنو تیرا جھمکا لاکھ کا رے

بنو تیری جھانجھر ہے ہزاری

بنو تیرا جوڑا لاکھ کا رے

بنو تیرا ٹیکا ہے ہزاری

رابعہ کو شادی کے وقت کے ہر چہرے یاد آنے لگے۔ ڈھولک کی تھاپ اور گھر کے آنگن میں گونجتے گیت۔ شوہر کی بے لوث محبت اس کے اسپرش سے نہ جانے کتنے رنگ برنگے خواب۔ خوشیوں سے بھرے سپنے اس کی آنکھوں میں تیرنے لگے تھے۔ جیوں جیوں دونوں بیٹیاں بڑی ہونے لگیں، رابعہ کے آنچل کی چھاؤں میں نکھرنے لگیں، سنورنے لگیں دونوں جہاں میں اپنی شناخت قائم رکھنے کی خاطر، تو اس کا شوہر جسے پیار سے وہ خسرو پکارا کرتی تھی کہنے لگا تھا۔

بیٹیاں شبنم کی بوند سی ہوتی ہیں۔ بیٹیاں کانٹوں کی راہ پر چل کر بھی دوسروں کی راہوں میں پھول بچھاتی ہیں۔ بیٹیوں کی آوازیں، ان کی ہنسی، ان کی نرم نرم ہتھیلیاں اور ان ہتھیلیوں پر لکھی ایک عبارت…… اچھی تربیت، ایک پیارا سا احساس دل میں جگاتی ہیں۔

اب تو ماں کے سر سے آنچل سرکتا جا رہا ہے۔ نیک بخت لوگوں کا چہرہ بھی دھیرے دھیرے گھر کے آنگن سے گم ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو گھروں میں صرف ’’دروازے‘‘ ہیں۔ ’’آنگن‘‘ تو ہمارے گھروں سے غائب ہو چکا ہے۔

عنار

مزخ

اے میرے قدیم زمانے کے درخت!

تم اپنی ہری بھری ٹہنیوں کو ایک دوسرے پر مار کر آگ برساؤ نا۔

لذت و سرور بخشنے والی شراب کو چھوڑ دنیاوی شراب کے نشے میں بھیڑ آگے ہی آگے بڑھی چلی جا رہی ہے۔ انجام سے بے خبر۔ لوگوں کے دلوں میں یہ گمان ہو گیا ہے کہ ان کا مالک جبار و قہار نہیں صرف رحیم و کریم ہے۔

غریبوں کو نوازنے والا کون؟

مشکل کشا کون؟؟

دستگیر کون؟؟

مگر ہم کسے پکار رہے ہیں؟؟؟

گھرکے آنگن میں اگے ہرے بھرے پودے آنکھوں کو سکون دیتے ہیں، ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں رابعہ اپنے گھر کے آنگن میں پودوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔ خیال بھی، صرف اس لئے رکھتی تھی کہ ان کی ہری ہری پتیاں اپنے رب کی تسبیح میں مصروف ہیں۔

رابعہ بولتی تھی کہ ہر انسان کی زندگی میں ہمیشہ ایک سا موسم نہیں رہتا ہے۔ کبھی ہتھیلیاں گرم ہواؤں سے سخت ہو جاتی ہیں تو کبھی بارش کی بوندوں سے نم۔ زندگی میں ہر طرح کے موسم کو وہ اپنی خوش قسمتی مانتی تھی۔ وہ شاکرہ اور صابرہ جو ٹھہری۔

رابعہ کی زندگی میں بھی ایسا موسم آیا، جو اسے زندگی کی رشتہ داروں کی حقیقت سمجھا گیا۔ جب دھوپ میں مرجھاتے پودوں کو پانی سے سینچنے اور دھوپ سے بچانے کی بجائے سارے لوگ اس کے آنگن کے سارے پودوں کو جڑ سے کاٹنے میں جٹ گئے اور اسے اپنے حصے کی سب سے بڑی نیکی سمجھنے لگے۔ کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوا، کہیں یہ باغ کی ہریالی گم نہ ہو جائے انسانی رشتوں کی طرح۔

زیادہ سرخ مٹی سے پودے سوکھنے لگتے ہیں اور نمی والی مٹی سے پودوں کو چلچلاتی گرمی میں نئی زندگی ملتی ہے۔ مگر اس کی زندگی کی بگیا میں سارے خونی رشتے سرخ مٹی ڈالنے میں جٹ گئے۔

پودے اور انسان میں فرق

پودے کو اسپرے سے پانی دیا جاتا ہے اور بیمار کو

خواتین/دیندار/عابدہ/زاہدہ/صابرہ/شاکرہ

مگر آج، ایام حمل میں، ماں، کے کیا افعال و اعمال ہیں؟

باسی کڑھی میں مکھی گری اگے میری ماں!

رابعہ کو پھر بچپن کی کہانیوں میں بساوہ قبیلہ ڈرانے لگا جیسے ہی اسے یاد آنے لگی رشتہ داروں کی وہ باتیں، وہ مکالمے۔

’’میری بیگم کوئی نرس نہیں ہیں جو بیمار بیٹی کا خیال رکھیں۔‘‘

’’بیمار کی عیادت تبھی ممکن ہے، جب وہ اچھے سے بات کرے۔‘‘

’’بیمار بیوی کی تیمار داری، سچی محبت، جورو کی غلامی۔‘‘

’جیسی کرنی ویسی بھرنی۔‘‘

’’میری بیٹی مر گئی۔‘‘

’’بیمار کی عیادت/ تیمار داری تبھی ممکن ہے جب وہ اچھا برتاؤ کرے۔‘‘

مگر وہ، جس کا Creantine بڑھا ہو، جس کا Urea بڑھا ہو، جس کا Hb-4 ہو، جو کومے کی حالت میں ہو… …وہ……وہ جو……وہ!

’’رابعہ، اس کے شوہر اور دونوں بیٹیوں کو یہاں سے نکال پھینکو۔ بیمار بیٹی کو گھر میں پناہ نہ دو۔ ایک دن ساری جائیداد ہڑپ لیں گے۔ رابعہ کی خدمت میں آپ تباہ ہو جائیں گے۔ آپ کے بیٹے اور بہو کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔‘‘ احسان ماموں چیخے۔

رابعہ کی امی کو اپنی نواسیوں کا خیال آیا۔ اس لئے وہ بولنے لگیں۔ بچیاں ابھی چھوٹی ہیں۔ بیمار ماں کو کیسے سنبھالیں گی۔ ابھی تو ان بچیوں کو خود ہی انگلی پکڑ کر چلانے کی عمر ہے۔

دوسری طرف کسی سے کوئی مدد ملتی نہ دیکھ رابعہ کا شوہر لمبی چھٹی کر رحمن کی ہدایت سے رابعہ کی خدمت میں لگ گیا کہ اس کے لئے رابعہ کی زندگی ضروری تھی۔ رابعہ… ایک بیمار اس کے لئے رحمت تھی زحمت نہیں۔

وہ رابعہ جو نو ماہ تک کھانا کیسے کھایا جاتا ہے۔ اپنے پاؤں پر کیسے چلا جاتا ہے۔ بھول گئی تھی۔ اپنے دبلے پتلے شوہر کی گود میں ایک بیمار چھوٹے سے بچے کی طرح، پلنے لگی۔ باتھ ٹب میں بچے کی طرح نہا نہا کر نکھرتی رہی۔ اس کی دونوں بیٹیاں سہارا دے کر، اپنے معصوم کاندھوں کا، چلنا سکھاتی رہیں۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر ’بند کمرے‘ میں کھلانے کی کوشش کرتی رہیں کہ وہ چہرے اب سامنے نہ آئیں جنہوں نے ایک بیمار کو بستر پر تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔

مگر انسانیت کو شرمسار کرنے والے چہرے بیمار اور تیمار دار کے سامنے آتے رہے۔

مکالمے ہی مکالمے، اداکاری، مکھوٹے، ملمعے، عمل کچھ بھی نہیں۔

رابعہ کے ماموں جان چیخے۔ اس کے شوہر نے نکاح پڑھا ہے۔ شادی کے بعد بیٹی کا، ماں باپ پر کوئی حق نہیں رہتا اور وہ بھی بیمار بیٹی۔ رابعہ کو سنبھالے گا اس کا شوہر۔ بیمار کی تیمار داری بھی کرے گا اور اپنی بیٹیوں کو کھلائے گابھی پڑھائے گا بھی۔

بیمار بیوی پر صرف اس کے شوہر کا فرض ہوتا ہے باجی! بات کو سمجھو! آرزو چلا چلا کر اپنی بہن کو سمجھا رہے تھے۔

رابعہ کو بھولنے کی کوشش کرو۔ آخر وہ کتنے دنوں کی مہمان ہے۔ قبر میں پاؤں لٹکے ہیں۔ اپنی جوان اور تندرست بہو میں بیٹی کو تلاش لو۔

اور وہ جور رابعہ کی بیماری میں اس کے شوہر نے اس کے کہنے پر اس کا دل رکھنے کے لئے اتنی پریشانی میں گھر بنایا۔ اس نے اپنا تبادلہ کرایا۔ سب سے جونیر ہو کر ایک بیمار کی خاطر اس شہر میں آ گیا، جہاں بیمار رابعہ کے ماں باپ رہتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ایک بیمار کو اپنے والدین کے پاس تقویت ملے گی۔ اس کے شوہر کو نوکری میں علاج وغیرہ ساری چیزوں کی سہولتیں مہیا تھیں۔ اسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔

تسبیح کے دانوں پر انگلیاں تھرکتی رہیں۔

سجدے ہوتے رہے۔

رکوع میں لوگ جاتے رہے۔ مصلے آباد ہوتے رہے۔ ہر آدمی ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنتا رہا۔ غریب دولت مند سے اور صحت مند بیمار سے آزمایا جاتا رہا۔ عظیم کتاب محض آنکھوں سے چومنے، سینے سے لگانے، طاق پر رکھنے اور قسم کھانے کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔

ساتوں زمینوں میں دھنس جانے والے چہرے، سخت عذاب سے بے خبر دنیا حاصل کرنے میں جٹے رہے۔

رابعہ نے جب بغاوت کرنے کی کوشش کی کہ وہ نہیں جائے گی۔ آخر اس کے شوہر نے ٹرانسفر لے لیا ہے۔ کوارٹر چھوڑ دیا ہے۔ سارا سامان یہاں آ گیا ہے۔ آخر اس کے شوہر نے یہ سب کس لئے کیا۔ وہ اب یہاں سے نہیں جائے گی۔ آخر وہ اس گھر کی بیٹی ہے۔ اس کا بھی اس گھر کے لوگوں پر حق ہے۔ اس گھر کے آنگن میں وہ پلی بڑھی ہے۔ تھوڑے دنوں کی تو بات ہے۔ جب صحت واپس چلی آئے گی تو وہ چلی جائے گی۔ پردیس میں بیمار بیوی اور بیٹیوں کو شوہر کیسے سنبھالیں گے۔

سارے رشتہ داروں نے ایک جٹ ہو کر اس کو اور اس کے پریوار کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اپنے پرائے ہو گئے اور غیر اپنے بن گئے۔

بیمار چہرہ جب گھر کے آنگن سے نکل گیا تو بابا کہہ رہے تھے ’’آئی ایم ریلیکس ٹو ڈے۔‘‘

اس رات جب وہ وھیل چیر سے اتر کر ٹرین میں بیٹھی تو پھر اسے ساری رات نیند نہیں آئی کہ آدم خور قبیلہ آج بھی زندہ ہے اور اس کے گھر میں آ گیا ہے۔ سارے صحت مند لوگ مل کر بیمار کا کام تمام کر دیں گے یا اسے موت دے کر تکلیف سے چھٹکارا دلا دیں گے۔

لیکن اس کے شوہر نے اسے سمجھایا کہ نہیں رابعہ ایسا کوئی قبیلہ نہیں ہے۔ میرا یقین کرو میرے ساتھ اپنے نئے آشیانہ چلو تمہیں اس بات کا یقین ہو جائے گا۔ آخر اپنے گھر پہنچ کر اسے یقین ہو چلا کہ یہاں ایسا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور اسے پھر سے میٹھی نیند آنے لگی تھی۔

آج ایک زمانے کے بعد اس کے بابا کا فون آیا ہے۔ اپنے کئے پر شرمندہ تھے۔ وہ کہہ رہے تھے بہت بڑا گناہ ہو گیا۔ میں اب تمہارے لئے دعائیں کیا کرتا ہوں۔ میں اور تمہاری امی تمہارے پاس آنا چاہتے ہیں۔ تمہارا بھائی بیمار پڑ گیا ہے۔ بہو کی بھی صحت خراب ہو چکی ہے۔ گھر میں ہر وقت میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ تمہارے پاس سکون کے لئے آنا چاہتے ہیں۔

آج رابعہ بہت خوش ہے۔ اب اسے لگ رہا ہے ایسا کوئی قبیلہ دنیا میں نہیں بچا ہے۔ اب وہ سکون کی نیند سوئے گی۔ اب کوئی ڈر نہیں۔

بہت دنوں کے بعد آج اس کا دل چائے کے بعد اخبار پڑھنے کے لئے چاہا۔ اس نے اخبار اٹھایا تو سامنے کے صفحے پر خبر تھی کہ امریکہ میں نیوی کے چار افسروں کو جج صاحب نے معاف کر دیا، جو جہاز ڈوبنے کے بعد ایک بوٹ پر جان بچانے کے لئے سمندر میں نکلے تھے۔ کھانا پانی ختم ہونے کے بعد بھوک مری کی حالت میں جب اپنی اپنی جان بچانے کی نوبت آئی تو ان چاروں نے سازش رچ کر پانچویں بیمار ساتھی کو مار ڈالا اور کھا گئے۔ اتفاق سے وہ چاروں بچ گئے۔ بوٹ کنارے لگی تو انہوں نے گناہ قبول کر لیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور آخر میں جج صاحب نے انہیں معاف کر دیا تاکہ ایک اور آدم خور قبیلہ تیار ہو جائے۔ کیونکہ ان چاروں کو ایک بیمار آدمی کے خون کا ذائقہ مل گیا تھا۔

رابعہ پھر چھٹپٹانے لگی کہ آج بھی آدم خور قبیلہ وجود میں ہے۔ ہر ملک میں ہے۔ ہر گھر میں ہے۔ ہر آنگن میں ہے۔ اب اس بیمار کی جان شاید ہی بچے گی اور رابعہ زور زور سے رونے لگی۔ اس کے شوہر اور اس کی بیٹیاں دوڑ کر اس کے قریب آئے۔

شوہر نے کہا، ہاں یہ واقعی سچ ہے کہ آدم خور چاروں طرف ہیں لیکن تخلیق کار نے تجھے ایک سینا پتی اور دو سپہہ سالار دیے ہیں، تیری حفاظت کے لئے۔ ہم سب ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ تجھے میرا یہ گھر قلعہ کے طور پر دیا گیا ہے۔ اس رب نے تجھے وہ سب کچھ واپس لوٹا دیا جو زندہ رہنے کی شرط ہوا کرتی ہے۔ وہ کتنا عظیم ہے جس کے اشارے پر کائنات حرکت میں ہے۔ ہم لوگ ہر طرح سے تیری حفاظت کا سبب بنیں گے۔ چپ ہو جاؤ خوف کو دل سے نکال پھینکو۔ اور رابعہ آنسو پونچھ کر شوہر اور بیٹیوں کی گود میں آرام سے سو گئی۔ کہانی تو سمندر کی لہروں کی طرح ابھرتی ڈوبتی رہتی ہے۔ میرے ننکو کہ آدم خور قبیلہ آج بھی زندہ ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے