غزلیں ۔۔۔ نجمہ ثاقب

 

شہر کے آغاز میں دلدار قبروں کے نشاں

روک لیتے ہیں مجھے ہر بار قبروں کے نشاں

 

کھردرے،تاریک، داغی پتھروں کے روپ میں

چاند پر شاید ہیں ناہموار قبروں کے نشاں

 

اس پرانے گھر میں تیرا منتظر اب کون ہے

ایک شاخ بے ثمر اور چار قبروں کے نشاں

 

میں سر بالیں گلابوں کے شجر بوتا رہا

بن گئے پل بھر میں شعلہ زار قبروں کے نشاں

 

دل نے گو مرگ تمنا پر کہا کچھ بھی نہیں

ڈھونڈتا پھرتا ہے ناہنجار قبروں کے نشاں

 

آج خود نعشیں لڑیں گی انتخابی معرکہ

آج جیتیں گے مری سرکار!قبروں کے نشاں

٭٭٭

 

 

 

 

ہماری آنکھوں کے جنگلوں میں ہزار منظر اگے ہوئے ہیں

کہیں گزرتی ہے ریل گاڑی ،کہیں لٹیرے چھپے ہوئے ہیں

 

فصیل ٹوٹی ہوئی ہے تن کی،دھواں دھواں ہے سرا بدن کی

چراغ ہیں اور اپنے ہی دل کے طاقچوں میں بجھے ہوئے ہیں

 

جو چال بدلے گا آسمانی غلام گردش میں آتے جاتے

اسی ستارے کی زرد لو سے مسافر شب ڈرے ہوئے ہیں

 

اداس آنگن،خموش کمرے ،اجاڑ ممٹی،فسردہ زینہ

رکی تھمی سی ہوا ہے گرچہ کواڑ سارے کھلے ہوئے ہیں

 

خموش پانی میں عکس بن کے ابھر رہا ہے جمال خود بیں

یہ نرگسی پھول شاہزادے کے آنسؤوں پر کھلے ہوئے ہیں

 

اسے نہ چھیڑو یہ آنکھ خوابوں کی مہربانی سے سرخرو ہے

یہاں خزینہ ہے رتجگوں کا،یہاں نگینے جڑے ہوئے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے