ریڈیائی افسانوں میں ایک قابل قدر اضافہ: ’’کڑی دھوپ کا سفر‘‘ ۔۔۔ صدام حسین

پدم شری قاضی عبد الستار نے صغیر افراہیم کے افسانوی مجموعے ’کڑی دھوپ کا سفر‘ کے تعلق سے فرمایا ہے: ’’کڑی دھوپ کا سفر‘ اردو کے ریڈیائی افسانوی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔‘‘

صغیر افراہیم کی پریم چند شناسی اور فکشن تنقید پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر ان کی افسانہ نگاری بھی قابل تحسین ہے۔ صغیر افراہیم کے افسانوی مجموعے ’’کڑی دھوپ کا سفر‘‘ کا پہلا اردو ایڈیشن ۲۰۱۶ء میں شائع ہوا جو ۲۸ افسانوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا اردو ایڈیشن ۲۰۱۸ء ، ہندی ایڈیشن ۲۰۱۹ء اور اس کے فوراً ایک سال بعد ۲۰۲۰ء میں انگریزی ایڈیشن بھی منظر عام پر آیا۔ اس میں ان کے ان افسانوں کا انتخاب ہے جو انہوں نے تیس چالیس برس قبل لکھے ہیں۔ انجان رشتے، ننگا بادشاہ، انکشاف، وہ اچھا لڑکا نہیں ہے، روشنی، سرخ تاج، کڑی دھوپ کا سفر، خوابیدہ چراغ اور ’سفر ہے شرط‘ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھ کر کہا جا سکتا ہے کہ صغیر افراہیم فن افسا نہ نگاری کے بنیادی رموز و نکات سے بخوبی واقف ہیں۔ میرے خیال میں اگر وہ مسلسل افسانے لکھتے رہتے تو آج ایک بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے مشہور ہوتے۔

صغیر افراہیم کے افسانوں کے موضوعات کی بات کریں تو عصری زندگی کے بیشتر مسائل و معاملات ان میں نظر آتے ہیں۔ غلط رسم و رواج، تہذیبی شکست و ریخت، اقدار کی پامالی، رشتوں کی ناقدری، نفسیاتی الجھنیں، صارفیت کا بہاؤ، بے روزگاری اور عائلی زندگی کے مسائل پر انہوں نے بہترین کہانیاں لکھی ہیں۔ صغیر افراہیم کی کہانیوں کے موضوعات کے متعلق مقصود دانش لکھتے ہیں:

’’میں نے اپنے بالاستیعاب مطالعے کے دوران یہ پایا کہ صغیر افراہیم کے بیشتر افسانے پائمال قدروں کی بحالی، گمشدہ تہذیب و ثقافت کی واپسی، زوال آمادہ رشتوں میں از سر نو تازگی، بکھرتے معاشرے کی تجسیم کاری سے متعلق نئی نسل کی ذہنی آبیاری کا اثر انگیز اشاریہ ہیں۔ مجموعے میں چند ایسے افسانے بھی ہیں جو صرف چونکا تے ہی نہیں بلکہ قاری کو فکری و معنوی طور پر مزید سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔‘‘(تحریک ادب شمارہ ۴۸، اپریل تا جون ۲۰۲۰ء ، گوشۂ صغیر افراہیم، مدیر اعلی جاوید انور ص: ۱۹۹)

صغیر افراہیم کے افسانوں پر اگر بات کریں تو وہ بوجوہ اپنے تمام معاصرین سے ممتاز و منفرد نظر آتے ہیں۔ میں یہ بات یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ان کے افسانوں کی انفرادیت اور مقبولیت کے کئی اسباب ہیں جن میں سے چند کا ذکر میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں:

اولاً: اس افسانوی مجموعے کو یہ شرف حاصل ہے کہ عصر حاضر کے دو عظیم افسانہ نگاروں رتن سنگھ اور قاضی عبد الستار کے دست مبارک سے اس کی رسم اجراء ہوئی۔ دونوں بڑے افسانہ نگاروں نے مجموعے پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو انٹرویو بھی دیے اور فرمایا:

’’صغیر افراہیم کے افسانوں کا مجموعہ کڑی دھوپ کا سفر اردو کے ریڈیائی افسانوی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس میں شامل تقریباً تمام افسانے فن حسن و جمال کے عمدہ نمونے ہیں۔ کردار زندہ، سماجی زندگی میں موجود اور متحرک ہیں۔ صغیر افراہیم کا بیانیہ بہت مضبوط اور دلکش ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب افسانے ختم ہوتے ہیں تو ہم کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ مجھے امید ہے کہ صغیر افراہیم کے یہ افسانے شوق اور احترام سے پڑھے جائیں گے۔‘‘(بیک کور، کڑی دھوپ کا سفر)

ثانیاً: یہ تمام افسانے کلی طور پر ریڈیائی تکنیک پر ہیں۔ ریڈیو سے وابستہ اور ریڈیائی تحریروں کے ماہرین مثلاً نور الحسنین، رتن سنگھ، طارق چھتاری اور شکیل اختر سبھی نے ان افسانوں کو نہ صرف سراہا بلکہ ان پر اپنی قیمتی آراء بھی پیش کی ہیں۔ رتن سنگھ، نور الحسنین اور طارق چھتاری نے ان کے افسانوں کے تجزیے بھی کیے ہیں۔

ثالثاً: یہ تمام افسانے ریڈیائی تکنیک پر جانچے اور پرکھے گئے ہیں۔ صغیر افراہیم کے یہ افسانے ریڈیو نشریات کے جملہ مطالبات کو پورا کرتے ہیں اور ریڈیو نشریات کے سارے اصول و ضوابط پر کھرے اترتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افسانے آل انڈیا ریڈیو آگرہ اور دہلی سے نشر ہوئے ہیں۔

رابعاً: یہ افسانے اس لئے بھی منفرد ہیں کہ شائع ہوتے ہی ان کو بڑے بڑے لوگوں نے فوراً ہائی لائٹ کیا اور ان کہانیوں کو صرف ریڈیائی کہانیوں کے زمرے میں رکھا۔ جن میں قاضی عبد الستار، شکیل اختر، انیس رفیع، طارق چھتاری، احمد رشید، مظفر حسین سید اور نور الحسنین کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

خامساً: ان افسانوں کی مقبولیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ریڈیو کی تکنیک کی وجہ سے ہندی اور انگریزی کے لوگوں نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بے حد پسند کیا، سراہا اور ہندی اور انگلش ایڈیشن شائع کئے۔ ہندی ایڈیشن ۲۰۱۹ء میں اور اس کے فوراً ایک سال بعد ۲۰۲۰ء میں Journey Through Scorching Sun کے نام سے انگریزی ایڈیشن منظر عام پر آیا۔ ہندی کے مشہور کہانی کار ڈاکٹر پریم کمار نے ان افسانوں کی تعریف کی۔ ڈاکٹر وکرم سنگھ جو خود ایک اچھے کہانی کار ہیں، انہوں نے ان افسانوں کو پسند کیا۔

صغیر افراہیم کے افسانوں کا خاص وصف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہم عصروں سے ہٹ کر ریڈیائی قسم کے افسانے لکھے ہیں۔ ریڈیو ایک طاقتور میڈیا ہے۔ ریڈیو کے لئے لکھنا ایک علیحدہ فن ہے۔ اس کے لیے اولین اور اہم شرط زبان کا عام فہم اور سلیس ہونا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ زبان کو عام فہم بنانے میں اس کے معیار کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ ریڈیو کے لیے لکھنا بہت مشکل امر ہے جس کے لیے بڑی مشق و مزاولت درکار ہے۔ ریڈیو کے لئے مقالہ، مضمون یا افسانہ لکھنے کے لیے جن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اس کے متعلق پروفیسر نور الحسنین لکھتے ہیں:

’’ریڈیو ایک ایسا میڈیا ہے جو کامن سننے والوں اور خواص دونوں کے لیے ہے۔ یہاں افسانوں کی نشریات پر بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کے لئے ایسے افسانوں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کی سماعت کے بعد کسی قسم کا تنازعہ نہ ہو، یعنی ایسا افسانہ جس میں کسی خاص فرقے کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کے کرداروں کی وجہ سے کسی اپاہج، ہکلا کر بات کرنے والے کی تضحیک نہ ہو، کسی فرقے، جماعت کے رسم و رواج پر چوٹ نہ ہو، رشتوں کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ افسانہ ابہام زدہ، گنجلک نہ ہو، افسانے کے متن سے محسوس یا غیر محسوس طریقے سے کوئی اچھا پیغام سامعین تک پہنچے۔ ان افسانوں میں میاں بیوی کی ازدواجی زندگی شامل ہو، مسائل بھی آئیں، ان کے جذبات اور محسوسات کا بیان بھی ہو لیکن افسانے کا کلائمکس ایک بھرپور معنی خیز انجام بھی سامنے لائے جس کو سننے کے بعد ان کی اصلاح ہو سکے، ان افسانوں میں غیر مہذب الفاظ کے استعمال کی اجازت بھی نہیں دی جاتی، جنسی موضوعات یا سستے جذبات کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ ریڈیائی افسانوں کے پسندیدہ موضوعات میں قومی یکجہتی، آپسی بھائی چارہ، حب الوطنی، کامیاب ازدواجی زندگی، زندگی کے وہ مسائل جو تناؤ کا سبب تو بنتے ہیں لیکن ان کے پیچھے مقصد خاندان کی بہتری ہی ہوتا ہے۔ یا پھر بعض اوقات حکومت کی پالیسیوں کا موضوع دے کر افسانہ لکھوایا جاتا ہے اور اسے نشر کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریڈیو کی نشریات صاف ستھری اخلاقیات پر مبنی عام فہم زبان میں ہوتی ہیں۔‘‘

صغیر افراہیم کی تمام کہانیاں مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل ہیں۔ ان میں کسی فرقے، جماعت، مسلک، ذات یا رسم و رواج پر نہ کوئی چوٹ کی گئی ہے اور نہ ان میں کسی قسم کی تضحیک نظر آتی ہے۔ ان کی زبان نہایت سادہ، سلیس اور عام فہم ہے۔ صغیر افراہیم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے زبان کے معیار کو کہیں بھی گرنے نہیں دیا ہے۔ اختصار میں جامعیت ان کے اسلوب کا خاص وصف ہے۔ انہوں نے مبتذل موضوعات سے بھی اپنی تحریروں کو پاک رکھا ہے۔ ان کے افسانوں کا اختتام ایک بھرپور معنی خیز انجام سامنے لاتا ہے جس کو سننے کے بعد سامعین کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے اندر غور و فکر کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ان کی زبان ریڈیو نشریات کے جملہ مطالبات کو بحسن و خوبی پورا کرتی ہے۔ ڈاکٹر محمد شکیل اختر ان کے ریڈیائی افسانوں کے اوصاف کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سردست ہمارے پیش نظر ان کی 28 کہانیوں کا مجموعہ ’کڑی دھوپ کا سفر‘ ہے جنہیں وقفے وقفے سے ریڈیو پر پیش کیا گیا ہے۔ ان افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مختصر ہونے کے باوجود مکمل ہیں۔ اس دور میں اب اخلاقی اخلاقی موضوعات پر کہانیاں کہاں لکھی جاتی ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اب اخلاقی نظمیں بھی نہیں لکھی جا رہی ہیں۔ اخلاقی بحران کے دور میں صغیر افراہیم کی کہانیاں ہمارے لئے ایک نیک شگون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ فنی اعتبار سے آج ان کہانیوں کو ریڈیو اور ریڈیو کو کہانی کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان سبھی کہانیوں کو صغیر افراہیم نے ریڈیو کی فرمائش پر لکھا تھا یا لکھی ہوئی کہانیوں کو ریڈیو پر پڑھا تھا۔ لیکن مذکورہ کہانیوں کے معروضی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ موضوعات اور زبان ریڈیو جیسے لطیف میڈیم کے لئے کافی موزوں اور مناسب ہے۔‘‘ (کڑی دھوپ کا سفر، مصنف: صغیر افراہیم، مرتب: ڈاکٹر سیما صغیر، ص: ۱۶۰)

ریڈیائی تکنیک پر مشتمل ہونے کی وجہ سے صغیر افراہیم کے افسانوں نے ایک خاص مقبولیت حاصل کی ہے۔ موضوع کی مناسبت سے انہوں نے زبان کا استعمال کیا ہے۔ ریڈیو کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں صوتی بیانیہ کا بہت کم خیال رکھا جاتا ہے۔ کہانی کو میڈیم کے تقاضے کے مطابق نہیں لکھا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریڈیائی کہانیوں کا تعلق پڑھنے کے بجائے سننے سے ہوتا ہے۔ لہذا ان کا انداز تحریری کہانیوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ ان کا پلاٹ اور کردار بھی عام اور سادہ ہونا چاہیے۔ ریڈیو کے لئے کہانی رائج طریقے سے ذرا ہٹ کر لکھی جاتی ہے۔ ریڈیو سے کہانی ایک مکمل تسلسل کے ساتھ سنائی جاتی ہے جس میں رکنے کا عمل کہیں نہیں ہوتا۔ در اصل ریڈیو کی زبان ہماری وہ زبان ہے جو گلی کوچوں اور بازاروں میں عام طور پر بولی جاتی ہے اور جسے ہم مکمل ترسیل کی زبان کہہ سکتے ہیں۔ ریڈیو کے لیے لکھنے والے کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ریڈیو Spoken Word کا نام ہے Written Words کا نہیں۔ ریڈیائی اصولوں کو مد نظر رکھیں اور صغیر افراہیم کے افسانوں کے یہ چندا قتباسات بغور پڑھیں:

۱۔ ’’نظریں اٹھا کر دیکھا تو سامنے جو شخص کھڑا تھا اس کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں۔ دانت بڑے بڑے تھے اور سر پر دو سینگ تھے۔‘‘ (وہ خواب، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۲۴۔ ۲۳)

۲۔ ’’ایسا محسوس ہوا جیسے پہاڑی کی بلندی سے اسے کسی نے نیچے ڈھکیل دیا ہو اور وہ گرتی چلی جا رہی ہو۔۔ ۔۔‘‘ (وہ خواب، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۲۴)

۳۔ ’’یار! ……چھوٹے میاں ’علم الاجسام‘ کے ’’باب عریاں‘‘ میں غرق تھے مجھے دیکھ کر وہ چونک گئے۔۔ ۔‘‘ (ننگا بادشاہ، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۴۵)

۴۔ ’’۔۔ دیکھا گیا ہے جیب سے کنگال لوگ دل سے خوشحال ہوتے ہیں، چونکہ ان کے پاس پریم اور ممتا کا خزانہ ہوتا ہے۔‘‘ (انجان رشتے، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۲۹)

۵۔ ’’عشق بھی ایک بلا ہے، ایسی بلا کہ چھٹکارا نا ممکن۔۔ ۔ حسن کی شراب میں ذہانت کی خوشبو مل جاتی ہے تو قیامت آ جاتی ہے۔‘‘ (سرخ تاج، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۱۳۹)

۶۔ ’’زندگی تو اندھیرے سے روشنی کی طرف ایک لمبی اڑان کا نام ہے پھر یہ کیسی پرواز ہے کہ بازو تھک چکے ہیں اور سمٹ رہے ہیں ماضی کی گہرائیوں میں۔‘‘ (انکشاف، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۶۱)

میں نے یہاں صرف پانچ افسانوں سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں اگر آپ ان اقتباسات سے ہٹ کر صغیر افراہیم کے افسانے بے نام رشتہ، منزل، کھڑی دھوپ کا سفر، ننگا بادشاہ، وہ اچھا لڑکا نہیں ہے، سرخ تاج، انجان رشتے، انکشاف، وہ خواب، خوابیدہ چراغ وغیرہ از اول تا آخر پڑھیں اور ریڈیائی تحریروں کے اصولوں کو مد نظر رکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان افسانوں میں جملوں کی ساخت عام طور پر سادہ ہے جس سے تفہیم یا ترسیل کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ نہ ان میں کرداروں کی بھرمار ہے بلکہ معدودے چند کرداروں کی مدد سے کہانی بہتے دریا کی مانند بتدریج آگے بڑھتی رہتی ہے۔ کسی بھی مقام پر کہانیوں میں بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کہانیوں میں الفاظ کے انتخاب اور استعمال میں بھی ایک طرح کی ہنر مندی نظر آتی ہے۔ کہانیوں کے الفاظ میں ایک مسحورکن صوتی کھنک بھی موجود ہے جو ریڈیو کے لیے لکھی جانے والی کسی بھی تحریر کے لئے لازمی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر شکیل اختر لکھتے ہیں:

’’صغیر افراہیم نہ صرف نشریات کے فنی آداب بلکہ ریڈیائی تحریروں کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں زبان نہایت سادہ اور سہل استعمال ہوئی ہے۔‘‘ (کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۱۶۲)

ریڈیو پر نشر کی جانے والی تحریروں کے لیے اعراب اور رموز و اوقاف کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ایک غلط علامت وقف کے استعمال سے پورے متن کا مفہوم بھی بدل سکتا ہے۔ اس لیے فکشن ہو یا کوئی اور ریڈیو تحریر اس میں جملوں کی ساخت حتیٰ کے بیانیہ کو بھی اس طرح لکھا جائے کہ سین پڑھنے سے انداز کو ایک لطیف اشارہ مل سکے۔ صغیر افراہیم نے اپنی کہانیوں میں اس بنیادی نکتے کو بدرجہ اتم ملحوظ رکھا ہے۔ صغیر افراہیم کی کہانیوں کے ابتدائیے اتنے دلچسپ ہوتے ہیں ہیں کہ فوراً سامعین کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی شروعات اتنی مؤثر اور پرکشش ہوتی ہے کہ سامعین افسانہ سننے کے لیے خود کو غیر شعوری طور پر مجبور پاتے ہیں۔ صغیر افراہیم کی تمام کہانیوں میں سامعین ابتدا تا انتہا خود کو شریک پاتے ہیں اور یہی ان کہانیوں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ صغیر افراہیم نے ان کہانیوں میں مکالماتی اسلوب کی جگہ بیانیہ اسلوب کو ترجیح دی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ان کے افسانوں سے چند مثالیں:

’’ابو سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دورے پر رہتے تھے۔ گھر میں ڈھیر سارے نوکر چاکر تھے جو مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ ان کے درمیان میں نے کبھی اکیلا محسوس نہیں کیا۔‘‘ (انجان رشتے، کڑی دھوپ کا سفر،ص: ۲۹)

’’ان کی آنکھوں سے دو موتی گرنے والے تھے۔ میں نے اپنی ہتھیلی میں سمیٹ لئے۔۔ ۔ آسمان پر نظر اٹھائیں دو آنکھیں مسکرا رہی تھی۔‘‘ (انجان رشتے، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۳۴)

’’کڑی دھوپ کے سفر نے عرفان کے شاداب چہرے کو جھلسا دیا تھا آنکھیں ویران، گال پچکے ہوئے اور لب سیاہ ہو چکے تھے۔ جسم روزبروز گھلتا جا رہا تھا۔ اس کی سہمی ہوئی سی شخصیت مجھے عجیب پس و پیش میں مبتلا کئے ہوئے تھی۔ میں چاہنے کے باوجود بھی اس کی مدد نہیں کر پا رہا تھا۔‘‘ (وہ اچھا لڑکا نہیں ہے، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۱۲۱)

’’زندگی تو اندھیرے سے روشنی کی طرف ایک لمبی اڑان کا نام ہے ہے پھر یہ کیسی پرواز ہے کہ بازو تھک چکے ہیں اور سمٹ رہے ہیں، ماضی کی گہرائیوں میں۔‘‘ (انکشاف، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۶۱)

’’کالج کمپاؤنڈ میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ مالتی سفید ساڑھی میں گم صُم بیٹھی تھی۔ خضاب نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بالوں کی سفیدی اس کی بیوگی کا اعلان کر رہی تھی۔‘‘ (انکشاف، کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۶۴)

’’سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ بارات میں آئی عورتیں اس صورتحال سے گھبرا گئیں۔ باہر مرد ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ میزبان انہیں دلاسہ دے رہے تھے۔ دلہن ہوش میں آ گئی کی صدا نے سکتے کے عالم کو توڑا۔‘‘ (کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۱۳۰)

احمد رشید علیگ ان کے افسانوں کی دلچسپی اور تجسس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کا انداز بیان شفاف، مؤثر اور بیانیہ ہے۔ بیانیہ کہانیوں میں مکالموں کی بر جستگی اور کرداروں کی فعالیت غیر متحرک ہونے کے امکانات ہو جاتے ہیں لیکن صغیر افراہیم نے ایسی صورت میں کہانی کی دلچسپی بر قرار رکھتے ہوئے چستی، تیز رفتاری کا دامن تھام کر فنکارانہ چابک دستی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی لئے ان کے افسانے باوجود بیانیہ ہونے کے ایک دلچسپی اور تجسس آخر تک بر قرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔‘‘

ان کے افسانوں میں احساسات اور کیفیات دھیمی دھیمی رفتار سے آگے بڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی عورت مرد کے تصادم میں پیدا ہونے والے واقعات کو بیان کرنے میں سادگی اور آہستہ روی اختیار کرتے ہوئے شدت پسندی سے اجتناب برتا ہے۔‘‘ (کڑی دھوپ کا سفر، ص: ۱۵۸)

صغیر افراہیم کے افسانوں میں جملوں کی ساخت عام طور پر سادہ ہے۔ تفہیم اور ترسیل کے لحاظ سے بھی ان میں کوئی الجھاؤ نہیں۔ ایک یا دو کرداروں کی مدد سے کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ موضوعات کے لحاظ سے بھی یہ کہانیاں ریڈیو کے لیے مناسب و موزوں ہیں۔ افسانوں میں اختصار کا وصف خاص طور پر نمایاں ہے۔ دس سے بارہ منٹ میں کسی بھی افسانے کو با آسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اکثر افسانے سبق آموز ہیں۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ نہایت واضح اور سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ کرداروں میں زندگی کی رمق، فعالیت اور موضوع کی مناسبت سے فطری پن ہوتا ہے۔ صغیر افراہیم کے بیانیہ اسلوب کی بالخصوص اور ان کے افسانوں کے مجموعی تأثر کا بالعموم تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق احمد وانی لکھتے ہیں:

’’پروفیسر صغیر افراہیم کی چند مختصر کہانیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ نہ صرف کہانی کے فنی لوازمات سے کما حقہٗ واقف ہیں بلکہ ان کے موضوعات میں بھی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ صغیر افراہیم کی کہانیوں میں سب سے دلچسپ، مؤثر اور تسلی بخش عنصر ان کا بیانیہ انداز ہے۔ طویل قصے کہانیوں کے بدلے انہوں نے نہایت اختصار سے کام لیتے ہوئے وحدت تأثر کا خاص خیال رکھا ہے اور کہانی میں وحدت تأثر وہ اہم عنصر ہے جسے میں کہانی کی جان کہتا ہوں۔ قاری، تخلیق اور تأثر یہ تینوں چیزیں ان کے نزدیک کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ اسی ادبی و فنی شعور کے تحت وہ بڑے بے باکانہ انداز میں اس بات کی بھی نشان دہی کرتے چلے جاتے ہیں کہ کوئی فن پارہ کب معیاری بنتا ہے اور کن کمزوریوں کی بنیاد پر غیر معیاری قرار دیا جا سکتا ہے۔ صغیر افراہیم کی کہانیوں کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے پاس کہانی تخلیق کرنے کا ہنر موجود ہے۔ اسی ہنر مندی کے تحت ان کی مختصر کہانیاں عالم وجود میں آئی ہیں، جو زندگی کے معمولی اور غیر معمولی حالات و واقعات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کہانیوں سے قاری کو یہ تاثر ملتا ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بچھونا ہے۔‘‘(جہان صغیر افراہیم، مرتبہ: ڈاکٹر حنا آفرین یونیورسل پریس دہلی۔ ۲۰۱۷ء ص: ۴۹۹۔ ۵۰۰)

صغیر افراہیم کے فن میں کسی بھی قسم کا الجھاؤ یا پیچیدگی نہیں ہوتی، ان کی ہر تحریر اپنے آپ میں ایک مکمل تخلیقی اظہار ہوتی ہے۔ خیال اور احساس کا حسین امتزاج ان کے افسانوں کا وصف خاص ہے۔ عصری حسیت، معاشرتی شعور اور مثبت نقطہ نظر کے سبب ان کے افسانے قاری کو صرف چونکاتے ہی نہیں بلکہ غور و فکر پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ انہوں نے اختصار میں جامعیت کو ہر جگہ ملحوظ رکھا ہے۔ مشکل اور پیچیدہ بات کو بھی افسانوی رنگ میں ڈھالنے کا ہنر انہیں اچھی طرح آتا ہے۔ غیر ضروری اور نامناسب الفاظ سے وہ گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں آخر تک ایک خاص قسم کی وحدت نظر آتی ہے۔ جا بجا علامتوں، تشبیہوں اور استعارات کا استعمال بھی انہوں نے خوب کیا ہے۔ ان کی کہانیوں پر رائے دیتے ہوئے ڈاکٹر سیما صغیر لکھتی ہیں:

’’صغیر افراہیم جو بنیادی طور پر فکشن کے نقاد ہیں، ان کی کہانیاں سیدھے سادے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کے ارتقاء کے ساتھ جو لہجہ استعمال کیا گیا ہے وہ صورت حال اور ماحول کے مطابق ہے۔ اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے سلیس مگر عمیق بیانیہ طرز اور راست گوئی کے ساتھ علامتوں کا بر محل استعمال کیا ہے۔‘‘ (مقدمہ: کڑی دھوپ کاسفر، ص: ۱۳)

مختصر یہ کہ صغیر افراہیم ایک مختلف الجہات شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس کا حق ادا کیا ہے۔ ان کی تنقید ہو یا افسانہ نویسی دونوں میں انہوں نے اپنی علمی، ادبی اور فکری پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جہاں ایک طرف ان کی تنقید میں متانت، سنجیدگی، معروضیت اور غیر جانب داری نظر آتی ہے وہاں دوسری طرف ان کے افسانوں میں عصری حسیت، گہرا سماجی شعور اور مثبت نقطہ نظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی تنقیدی صلاحیتیں ان کے مطالعے کی وسعت، مشاہدے کی گہرائی، دقت نظر اور تفکر و تدبر کی غماز ہیں۔ موضوعات کا تنوع، وحدت تأثر، اختصار، کہانی پن، دلچسپی، زبان کی صفائی اور بیان کی سادگی سبھی کچھ ان کے افسانوں میں موجود ہے۔

٭٭

مآخذ و مراجع:

۱۔ جہان صغیر افراہیم، مرتبہ: ڈاکٹر حنا آفرین، یونی ورسل پریس دہلی۔ ۲۰۱۷ء

۲۔ تحریک ادب شمارہ ۴۸، اپریل تا جون ۲۰۲۰ء ، گوشۂ صغیرافراہیم، مدیر اعلی جاوید انور

۳۔ کڑی دھوپ کا سفر، مصنف: صغیر افراہیم، مرتبہ: ڈاکٹر سیما صغیر۔ ۲۰۱۶

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے