علی یاسر ۔۔۔ قرۃ العین طاہرہ

پرسے کو آ گئی صبا، ریشمی شال دی گئی

 

میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت

جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بے وجہ ہی کوئی بات، کوئی شعر کوئی تاثر آپ کو اپنی گرفت میں یوں لیتا ہے کہ آپ ہجوم میں ہوں یا تنہا، ہمہ وقت وہ آپ کے ذہن و دل کو حصار میں لیے رہتا ہے۔ آٹھ دن ہوئے کہ دس، اس شعر نے لمحہ بھر کے لیے مجھے آزاد نہ کیا۔ خود کو بہت سمجھایا کہ میں زندگی کی دعا بہت مانگتی ہوں لیکن اپنے لیے تو کبھی نہیں، اپنے پیاروں، عزیز و اقارب کی عافیت اور زندگی کی دعا ہر لمحہ لبوں پر ہوتی ہے۔۔۔ پھر یہ کیا بات ہے جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے۔ کن فیکون پر ایمان رکھنے کے باوجود ہو سکنے کی بات کیوں۔۔۔ اصل یقین کامل اس امر پر ہے کہ وہ تو دعاؤں کو رد ہی نہیں کرتا اس لیے خواہش کی جا رہی ہے میں تو حالتِ شعوری، بے شعوری میں دعا مانگے چلا جا رہا ہوں تو ہی انھیں رد کرنے پر قادر ہے۔

آج صبح کالج میں فرصت ملتے ہی کتابی چہرہ (فیس بک) کھولا تو ایک انتہائی تکلیف دہ اور نا قابل یقین خبر سامنے تھی۔ لمحہ بھر کو محسوس ہوا کہ سانس رک گئی ہے۔۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے جمعے کو لگ بھگ گیارہ بجے میری اس سے بات ہوئی ہے۔ میں فون بہت کم کرتی ہوں اس دن نہ جانے کیوں اچانک ہی میں نے اکادمی کا نمبر ملا لیا، خیال تھا سہیل صاحب فون اٹھائیں گے، ان سے پوچھوں گی ’’خان صاحب قاضی فضل حق، شخصیت اور فن‘‘ کا مسودہ اکادمی کے حوالے کیے دو سال تو ہو رہے ہوں گے، اس کی صورت حال کیا ہے، لیکن فون یاسر نے اٹھایا۔ حسب معمول بہت ادب کے ساتھ، اس نے حال احوال دریافت کیا۔ مجھے اس سے بات کر کے ہمیشہ یہ احساس ہوا

ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

خاکساری اپنی کام آئی بہت

خیال آیا کہ یاسر کن زمانوں میں جی رہا ہے۔ اب تو آپ کسی سے عاجزی سے بات کر لیتے ہیں تو وہ آپ کو عاجز کیے بنا چھوڑتا نہیں ہے۔ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو، لیکن وہ تو کسی کے کام بھی آتا ہے تو اس انداز سے کہ جیسے وہ ان کا حد درجہ احسان مند ہے۔ وہی سوال جو مجھے کرنا تھا اب یاسر سے کر دیا۔ کہنے لگا، اس وقت بے سر و سامانی کا عالم ہے، اکادمی بغیر کسی ناظم کے چل رہی ہے، جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے، آپ کا مسودہ سر فہرست ہے ان شا اللہ کام ہو جائے گا۔ اس مختصر سی بات کے بعد میں نے اسے خوش رہنے کی دعا کے ساتھ اللہ حافظ کہہ دیا۔ مجھے لمحہ بھر کے لیے احساس ضرور ہوا کہ اس کے لہجے میں تہذیب و شائستگی کے ساتھ ساتھ ایک تھکن بھی تھی۔ ایسا کیوں ہے، کیا اس کی طبعیت ٹھیک تھی۔۔۔ اس کے بعد میں اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہو گئی۔ پیر کے روز گیارہ بجے عارفہ ثمین طارق کی جانب سے شیئر کی گئی پوسٹ نے دم بخود کر دیا۔ وہ اپنا منتخب کلام سنا رہا تھا، جو اب تک احباب کو ازبر ہو چکا ہو گا۔

مجھے روک لو، میں چلا گیا تو چلا گیا

کسی طور پھر میں تمھارے بس میں نہ آؤں گا

میں گلوں کی شکل میں آؤں گا ترے سامنے

مرے یار صورت خار و خس میں نہ آؤں گا

کل تمھیں کوئی مصیبت بھی تو پڑ سکتی ہے

ہم فقیروں کی ضرورت بھی تو پڑ سکتی ہے

اتنی عجلت میں بچھڑنے کا ارادہ نہ کرو

پھر ملاقات میں مدت بھی تو پڑ سکتی ہے

تیری نگاہ جب پڑی، سینے میں دل نہیں رہا

تیرا اشارہ جب ہوا جان نکال دی گئی

جتنے یہاں گلاب تھے تشنۂ آب و تاب تھے

پرسے کو آ گئی صبا، شبنمی شال دی گئی

میں اس کے اشعار سنتی جا رہی تھی اور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سانس رکنے لگا ہے۔ شاہد صاحب برابر والے کمرے میں اپنے آفس میں بیٹھے تھے انھیں آواز دی کہ دیکھیں یہ کیا ہو گیا ہے۔ ابھی دو ایک روز پہلے ہی تو میری اس سے بات ہوئی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیوں کر ہو گیا۔۔ اکادمی فون ملایا کہ یہ کیا خبر ہے سہیل صاحب نے بتایا، سچی خبر ہے ہم اس کا جنازہ پڑھ کر آ رہے ہیں۔ میت گوجرانوالہ بھیج دی گئی ہے نماز عصر کے بعد تدفین ہے، اکادمی میں ۱۹ تاریخ کو تعزیتی ریفرنس ہے۔ میرے ذہن میں یہ فقرہ اٹک کر رہ گیا، میت گوجرانوالہ بھیج دی گئی ہے۔۔ اسے تو ابھی حاجی والہ آنا تھا، مشاعرے کا اہتمام کرنا تھا۔۔۔ میں یہاں مشاعرے کی بات کر رہی ہوں اس کے والدین اس کے بیوی بچے، بیٹے بیٹیاں، اس نے ان کے لیے کیا کیا خواب نہ دیکھے ہوں گے، انھوں نے یاسر سے کیا کیا امیدیں نہ باندھی ہوں گی۔۔ موت کی خبر سے صدمہ ہوتا ہے لیکن میں نہیں جانتی کہ یاسر کی موت، جس سے ساری زندگی میں میری ملاقات، کل ملا کر بیس تیس منٹ سے زیادہ نہ تھی، مجھے یوں بے جان کر جائے گی۔ اس کے لیے دعائے مغفرت، وہی دو نفل، پہلی رکعت میں الھکم التکاثر اور دوسری میں سورہ اخلاص۔ مجھے درویشی ڈیرے کی قسط نمبر ۳۰ یاد آئی اس کی دو چار سطریں آپ پھر دیکھ لیں۔

’’یہاں مجھے طاہرہ غوری کی یہ بات یاد آ رہی ہے، جب میں ڈاکٹریٹ کر رہی تھی تو میں نے اسے بھی اس راہ پر لگانے کی کوشش کی۔ کہنے لگی:

’’نہیں بھئی، میرا ابھی مرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ اِدھر محنتوں مشقتوں سے سالوں لگا کر پی ایچ ڈی کرو اور ادھر موت کا فرشتہ دستک دینے آ موجود ہوتا ہے۔۔۔‘‘

ڈاکٹر بشیر سیفی اور ڈاکٹر حسن رضوی کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ کیا تم ضمانت دے سکتی ہو کہ اگر پی ایچ ڈی نہیں کرو گی تو موت تمھارے دروازے کی جانب دیکھے گی بھی نہیں۔۔۔ اور اب روبینہ الماس نے بھی وہی کام کیا۔۔۔ یا یوں کہیے کہ اس کے ساتھ بھی وہی ہوا۔ وہ کامیاب ڈیفنس دے کر لوٹی۔ یونی ورسٹی نے ڈاکٹر ہونے کا نوٹی فیکیشن تھمایا، وہ بہت خوش تھی کالج اساتذہ کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی طالبات کو بھی مٹھائی کھلائی۔ اس بات کو دو روز ہی گزرے تھے کہ اس کی زندگی میں کالج کے علاوہ ہسپتال، میڈیکل سٹورز اور ڈاکٹرز کا عمل دخل شروع ہو گیا۔ اب تک تو وہ صرف کالج، یونی ورسٹی، ادبی و علمی اداروں اور لائبریریوں کے رستوں سے ہی آگاہ تھی۔ ہوسٹل کی تنہا زندگی تو صحت مند انسان کے لیے بھی آسان نہیں ہوتی اور وہ تو اس مرض میں گرفتار ہوئی کہ جس کا نام ہی دل دہلا دیا کرتا ہے۔‘‘

روبینہ الماس اپنے پی ایچ ڈی ہو جانے کی خوشی یا فخر ابھی سنبھال بھی نہ سکی تھی کہ وقتِ رخصت آن پہنچا اور اب یاسر جسے اس کے دوست ننھا منا ڈاکٹر کہا کرتے تھے یوں اچانک اپنے ہی مصرع کی تفسیر بن گیا۔

مری زندگی میں تری ہوس میں نہ آؤں گا

جسموں کے مزار تو زمین پر بن سکتے ہیں روحوں کے مزار دکھتے نہیں کہ وہ دلوں میں تعمیر ہوتے ہیں۔ مختصر بحر، سہل ممتنع کا انداز، استفہامیہ لہجہ، بڑی سے بڑی بات چند لفظوں میں کہنے کے فن سے وہ آشنا تھا۔

جسم نے روح سے سوال کیا

تیرا کوئی مزار ہے کہ نہیں

میری اس سے ملاقات شاید دو مرتبہ ہوئی تھی یا تین مرتبہ۔۔ ہر مرتبہ انتہائی مختصر۔۔ پہلی مرتبہ غالباً ۲۰۱۴ء کی بات ہے، میں الطاف حسین بھٹہ کے پی ایچ ڈی ڈیفنس میں شرکت کے لیے اردو یونی ورسٹی جا رہی تھی کہ اکادمی ادبیات سے لمحہ بھر کے سفر سے پہلے اس کا فون آ گیا۔

’’حفیظ ہوشیار پوری پر آپ کی کتاب بالکل تیار ہے۔ بس میں چاہتا ہوں کہ پس سرورق شائع ہونے والا اپنا سوانحی خاکہ آپ ایک نظر دیکھ لیں۔‘‘

مجھے وقت پر پہنچنا تھا لیکن میں یاسر کی بات سن کر اکادمی چلی آئی اور اس دو چار منٹ کی ملاقات میں مجھے احساس ہوا کہ میں ایک بہت سلجھے ہوئے، بہت عزت کرنے والے انسان سے مل رہی ہوں۔ دوسری بار حفیظ ہوشیار پوری پر کتاب کی اشاعت کے بعد کتب وصولی کے لیے میرا جانا ہوا۔ میں خود کم نکلتی ہوں، بچوں کو ہی تکلیف دیتی ہوں اور وہ میرا کام کر دیتے ہیں، لیکن اس دن میرا ارادہ بن گیا، کتابیں وصول کیں۔ یاسر نے بہت خوب صورت انداز میں کتاب شائع کی تھی اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی نیشنل بک فاؤنڈیشن نے منتخب کلام حفیظ ہوشیار پوری شائع کی تھی، جسے دیکھ کر واقعی صدمہ ہوا تھا۔ یاسر بہت مطمئن تھا کہ اس کی محنت وصول ہو گئی۔ اس نے مجھے چند ایک کتابیں اور رسائل بھی دیے اور جب میں نے اسے کہا کہ گجرات میں شاہد صاحب نے سٹائم فاؤنڈیشن ڈگری کالج برائے طالبات کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے، مجھے اس کے لیے بھی کتب در کار ہوں گی تو اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ آپ آئیں گی، آپ کے لیے بہت سی کتابیں تیار رکھوں گا۔ وہ اس بات سے بہت خوش تھا کہ ہم اسلام آباد سے حاجی والہ گجرات شفٹ ہو گئے ہیں۔ بار بار کہتا رہا میں اپنے آبائی گھر گجرانوالہ جاتا رہتا ہوں۔ میں حاجی والہ ضرور آؤں گا، میں اسے کہتی رہی کہ حاجی والے کا رستہ بہت خراب ہے، تمام سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، شہر سے کوئی گھنٹا بھر کی مسافت پر ہے، وہاں آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ کہنے لگا، اس بات کو چھوڑیں ایسا کریں کہ اپنے کالج میں کوئی مشاعرہ کروا لیں، پانچ سات شاعر میں لے آؤں گا، گجرات میں بھی بہت اچھے شاعر موجود ہیں، بہت زبردست مشاعرہ ہو جائے گا۔

’’بیٹا! ابھی ہمارا کالج اتنا سٹیبلش نہیں ہوا، ان شا اللہ ایسا ضرور کریں گے، لیکن کچھ عرصے کے بعد اس وقت مجھے اجازت دو شاہد صاحب گاڑی میں میرا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ایچ ای سی جا رہے تھے تو میں نے کہا کہ مجھے دس منٹ کے لیے اکادمی جانا ہے اب تو دس منٹ سے کہیں اوپر وقت ہو گیا ہے۔‘‘

یاسر ایک دم خفا ہو گیا۔

’’خود تو آپ چائے کے لیے فوراً منع کر دیتی ہیں اور شاہد صاحب باہر بیٹھے ہیں، میں انھیں بلواتا ہوں۔‘‘ بڑی مشکل سے اس سے معذرت کی۔ شاہد صاحب سے ملنے گاڑی تک آیا۔ عزت و احترام کے سارے ا لفاظ، تہذیب و شائستگی میں ڈوبا لہجہ اکادمی کے لان میں کھلتے پھولوں کو اور مہکا گیا۔

پاکستانی ادب کے معمار سلسلے کی کتاب ’’خانصاحب قاضی فضل حق‘‘ لکھنے کے دوران میں اور مسودہ بھیجنے کے بعد دو ایک مرتبہ فون پر ہی بات ہوئی۔ فون پر اس کا لہجہ ایسے خوش گوار ہوتا، اتنا مو ء دب ہوتا کہ یوں لگتا ہم نے اپنے کام کے لیے فون نہیں کیا، بلکہ اس بات کو وہ اپنے لیے اعزاز سمجھ رہا ہے۔۔ اس دنیا میں ایسے لوگ ہوتے ہیں؟ ہاں ہوتے ہیں مگر بہت تھوڑے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے۔ مثبت اندازِ فکر، اعلیٰ نصب العین، محنت پر یقین، قوت عمل، اپنی استطاعت کار کا ادراک، اپنی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد اسے مایوسی اور قنوطیت کے اندھیروں سے بچاتا اور زندہ مستقبل کی نوید سناتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔

مرا مقام، اگر ہو سکا نہ طے ابھی تک مرا ہنر تو مری دسترس میں ہے ابھی تک

عمار علی یاسر اور اس کے دوسرے بہن بھاؤں کے لیے حرف تسلی کہاں سے لاؤں۔ صرف اس دعا پر آمین ہی کہہ سکتی ہوں۔

کچھ نہیں مرے اثاثے میں سوائے فن و حرف

میری اولاد کو میری یہ وراثت مل جائے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے