نظمیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

……………………………………………
پانی کا کھیل
……………………………………………

پانی پر اک تصویر ہماری اُبھری تھی
اک تصویر زمانے کی
اور کبھی یہ تصویریں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتیں
اک دوجے میں گھل مل جاتیں
پھر سے جدا ہو جاتی تھیں

پانی کے اک قطرے نے اِن آنکھوں میں
دیکھو … کیسا کھیل رچایا
جانے کیسا پانی تھا … اُس پانی پر بہتے
کیسے کیسے بازار لگے تھے
کیسی کیسی تصویریں ..
جانے کون تھا
ہم اپنے کُرتے کے دامن سے
کس کے آنسو پونچھ رہے تھے

پھر اک لہر اٹھی … سارا بازار… اس بازار میں ہم دونوں
گہرے پانی میں ڈوب رہے تھے !!
٭٭٭

……………………………………………
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
……………………………………………

مرے مولا
میں منٹو کا کردار نہیں
کسی زینت کا عاشق ،شیدا
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
مرے پاس تو اتنا دھن بھی نہیں … بس کچھ سانسوں کے سکے ہیں
کچھ سجدے ہیں
کسی ناز و ادا کے نُکڑّ پر … کسی کوٹھے پر
کسی پیر فقیر کے تکیے پر
اب ان کو لُٹا کر کیسے ننگا ہو جاؤں …

وہ جو پاس یہاں اک مسجد ہے … میں اس مسجد کی سیڑھی پر بیٹھا
ہاتھ اٹھاؤں دعا کو مولا…
میر ے مولا… وہ لوگ
جو اپنے تاریک بدن کو تَج کر
اپنی اُجلی روحوں کی روشنیوں میں
تیرے در تک پہنچے ہیں
مجھے (اپنے قدموں میں جگہ دے) اُن لوگوں کے پاس بٹھا دے
اور وہاں کہیں منٹو، بابو گوپی ناتھ اگر ہوں
مجھے ان سے ملا دے !!
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے