نظمیں ۔۔۔ سلیم انصاری

 

مشروط واپسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میں اب بھی

بچپنے کی سمت واپس لوٹ سکتا ہوں

مگر اک شرط ہے

یہ سرحدِ امکان تک پھیلا سمندر

وقت کے ساحل پہ بکھری سیپیاں واپس کرے مجھکو

گھنا جنگل۔

مرے ہاتھوں کی ساری تتلیاں واپس کرے مجھ کو

امنگوں کی پتنگیں آسماں واپس کرے مجھ کو

میں اب بھی دوڑ سکتا ہوں۔

مخالف سمت اپنی عمر کے لیکن

مری معصومیت تو چھین لی ہے

وقت کے بے رحم ہاتھوں نے

میں اب بھی

بچپنے کی سمت واپس لوٹ سکتا ہوں

مگر شاید۔۔ کہ

خالی ہاتھ واپس لوٹنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

رہائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میرے آزر مجھے دریافت بھی کر

قید پتھر میں ہوں جانے کب سے

اپنی پہچان کی امید میں روشن ہوں

بدن بھر۔  لیکن

میرے اطراف سیاہی کا گھنا جنگل ہے

منتظر  ہوں میں ترا

اپنے خد و خال کے ساتھ

میرے آزر، مرے محسن، مرے دوست

یہ مرے جسم سے لپٹے ہیں

جو کچھ  غیر ضروری پتھر

وہ ہٹا کر۔ اک  دن

مجھ کو اس قیدِ مسلسل کے عذابوں سے نکال

اور عطا کر مجھے میرے خد و خال

ہو سکے تو مرے اظہار کی امید کو روشن کر دے

میرے آزر ، مرے محسن ، مرے دوست

منتظر ہوں میں ترے دستِ ہنر کا کب سے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے