نظمیں ۔۔۔ حفیظ تبسم

بارش کی خواہش بھی اک موت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مون سون سے پہلے

پانی کی تقسیم پر

زمین کے بڑے خداؤں نے اپنے اجلاس کا آغاز

گالیوں کی طویل فہرست سے کیا

جو جنگ کے دنوں میں ایجاد ہوئیں

 

امن پسند راہب جنگل میں چھپ گئے

اور بدھا کے مجسمے پر بیٹھے پرندے

اداس گیت گاتے گاتے

پتھروں میں تبدیل ہو گئے

 

جنگ کے لیے

نقارہ بجا کر اعلان کیا گیا

مائیں دیر تک بچوں کی گنتی پوری کرتی رہیں

بوڑھے باپ

سانسوں کے تاوان میں اناج کی بوریاں اٹھا لائے

اور دروازے غیر معینہ مدت کے لیے

دیواروں میں تبدیل ہوئے

 

گور کنوں نے قبر کی کھدائی کا معاوضہ دوگنا کر دیا

لوگ مرتے رہے

یہ اندازہ لگانا مشکل ہوا

چالیس روزہ آرام دہ قبر کس کے حصے میں آئے

 

جنگ کوئی نمایاں کھیل نہیں

جو جاری رہے بہت دن تک

سو آخر جنگ ختم ہو جاتی ہے

ذرا سستانے کے لیے

البتہ جنگ کی کہانی

ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچ جاتی ہے

 

صلح نامے میں درج ہے

روحیں / پانی کے خواب میں سفر کر رہی تھیں

جب زمین سے رخصت ہوئیں

وہ پانی۔۔ ۔

جس کے لیے جنگ ہوئی

مون سون سے پہلے

 

 

شہوت کی بیٹی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہم نے محبت کے نشے میں رات کی ملاقات ایجاد کی،

رات نے بوسہ ایجاد کیا،

جب ہم وعدوں کے معاہدے پر دستخط کرتے تھک جاتے، تو تاریکی کے سائے میں شیطان قہقہہ لگاتا تھا، تاکہ ہم خود پر اترے خوف کا منہ نوچ سکیں،

جب ہم نے چومنے کے معنی سیکھے، اُن دنوں کنڈوم ایجاد ہو چکا تھا اور ہم ٹیلی ویژن کے اشتہار میں دیکھ چکے تھے، مگر ہم جسم کی عطر سونگھنے سے ڈرتے تھے۔

 

آخری ملاقات کی رات،

ہم جدائی سے پہلے رونا چاہتے تھے، تاکہ دل کی بانسری پر منفرد دھن ایجاد ہو سکے،

ہمارے سامنے میز پر ماضی کے دن پڑے تھے، اور ان پر پھپھوندی لگ چکی تھی،

ہم فراموش کر رہے تھے، دماغ میں شور مچاتی یادوں اور ایمبولینس کے سائرن کی طرح چیختے وعدوں کو،

ہم محبت کی لاش کو سرکاری اعزاز سے دفن کرنا چاہتے تھے، تب شیطان نے تاش کا آخری پتہ پھینکا اور ہماری بے ترتیب سانسیں گننے لگا۔

 

172 دن گزرے تو معلوم ہوا کہ

تمھارے اندر ایک لڑکی ہے، جو آخری ہم بستری کا شہادت نامہ تحریر کر رہی ہے،

اگر تم کہو، وہ محبت کی نشانی ہے، میں کہوں گا۔۔ ۔ نہیں،

اگر تم کہو، وہ معصوم ہے اور اسے ہمارے گناہ کی سزا نہیں ملنی چاہیے، میں کہوں گا، نہیں،

 

لڑکی تمھاری ہے اور نہ میری،

وہ کون ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے،

ہمیں اس کا نام شہوت کی بیٹی رکھ دینا چاہیے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے