میرا تنقیدی موقف ۔۔۔ پروفیسر ابو الکلام قاسمی

تنقیدی تصورات، خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، میری دلچسپی کا محور رہے ہیں۔ ان تصورات کو تقریباً سو سال کے عرصے میں اُردو کے نمائندہ نقادوں نے جس طرح تنقیدی معیار اور پیمانہ بنانے کا عمل جاری رکھا ہے، ان کو مختلف جہات سے دیکھنا، پرکھنا اور کھرے کھوٹے کی تفریق کرنا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ تاہم کوئی تنقیدی رویّہ میرے لیے اس وقت تک قابلِ قبول نہیں بن پایا، جب تک شعری متن کے براہِ راست مطالعہ نے اس کی توثیق نہ کر دی ہو، چنانچہ میرے لیے تنقید نگار کا منصب بنیادی طور پر ایک ایسے با ذوق قاری کا منصب ہے، جو شاعرانہ تدبیر کاری سے با خبر ہونے کے باوجود شاعری کی بھرپور تفہیم، تحسین اور جمالیاتی قدر کے تعین کے عمل سے سب سے پہلے گزرنا چاہتا ہے، اس موقع پر مجھے اس تنقیدی طریق کارسے بے اطمینانی ظاہر کرنے میں کوئی تکلف نہیں، جس کا تعلق محض تنقیدی نظریات کے انطباق سے ہوتا ہے، یا جس میں شعری متن سے حاصل ہونے والی توثیق سے ماورا ہو کر صرف تنقیدی پیمانوں کی کھتونی سے سروکار رکھا جاتا ہے۔

شعری متن کے تعین قدر میں جو تنقیدی نظریات میرے لیے معاون ثابت ہوئے ہیں، میں نے ان کا اعتراف بھی کیا ہے اور مناسب مقامات پر ان کے حوالے بھی دیے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ میرا یہ ذہنی سفر تنقیدی اصطلاحات سے شروع نہ ہو کر تفہیم شعر سے شروع ہونے والا تھا۔ میری بیش تر تنقیدی رائیں متن کی متنوع قرأت کے بعد مناسب اور موزوں تنقیدی تصورات سے اس کی ہم آہنگی کی صورت میں بنی اور بگڑی ہیں۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ زیرِ نظر مضامین گہرے مطالعہ اور غور و خوض کا نتیجہ ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ میں ادب پارے کے مطالعے کے عمل میں بعض ایسے تنقیدی پیمانوں کی تلاش و جستجو کی طرف بھی متوجہ ہوا ہوں جن کا استعمال یا احساس رائج تنقیدی منظر نامے میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ امیر خسروؔ اور غالبؔ کی غزل سے متعلق مضامین میں موجود زاویۂ نظرسے اس مفروضے کی تصدیق زیادہ مناسب ہو گی۔

مجھے اس بات کا احساس شدّت سے ہوتا ہے کہ گذشتہ نصف صدی کی اُردو تنقید میں کسی نہ کسی مخصوص اسلوبِ شعر کو شاعرانہ بڑائی اور عظمت کا ماڈل قرار دینا عام تنقیدی طریق کار رہا ہے۔ میں اس طریق کار کو ادبی اور شعری اظہار کی ہمہ گیری کے منافی، تنقیدی کوتاہ اندیشی اور دوسرے شعری اسالیب کی تحقیر کا نام دینا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ ایک وقت اور ایک زمانے میں شاعری کے ایک سے زیادہ اسالیب بڑی شاعری کے امکانات کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری شعری روایت میں تہہ دار اور بالواسطہ اسلوب کے متوازی، بیانیہ اور بظاہر اکہرے اسلوب کی نمائندگی کرنے والی، اعلیٰ درجے کی شاعری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ اُردو تنقید کا علاقہ چونکہ شروع سے ہی غزل کی صنف کے استحکام اور غزل سے مخصوص ایجاز اور استعاراتی اور علامتی اظہار کے تعیّن قدر سے رہا، اس لیے اسی تنقیدی ماڈل کو مختلف اصناف شعر پر یکساں انداز میں برتنے کی کوشش جاری رہی۔ شاعرانہ عظمت کی پرکھ کے اس نشے میں ہم نے یہ سوچنے کی تکلیف بھی گوارہ نہ کی کہ مرثیہ، مثنوی، شہر آشوب یا اس نوع کے دوسرے شعری بیانیہ کے لیے شعریات یا تنقیدی اصولوں کو از سر نو مرتّب کرنے کی کیا، اور کتنی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں رہی سہی کسر نئی امریکی، اور ہیئتی اصول نقد کی دبازت، ابہام کے تصور اور ’بالواسطہ اظہار‘ کی غیر معمولی اہمیت نے پوری کر دی اور ان پیمانوں کو بھی بلا امتیاز ہر صنف شاعری پر آزمانے کاسلسلہ جاری رہا۔ یہ انداز سوائے تن آسانی اور عصبیت کے اور کچھ نہیں کہ اپنی سہولت کی خاطر ہم خود کو تنقید کے محض اپنے پسندیدہ ماڈل تک محدود رکھیں اور بڑی شاعری کے دوسرے امکانات کی تفہیم اور نظریہ سازی سے دامن بچا کر اپنی تنقیدی عصبیت کو مزید مستحکم کرنے کا ثبوت پیش کرتے رہیں۔

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

https://adbimiras.com/sbmera-tanqeedi-mauqif-prof-abul-kalam-qasmi/

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے