مصحف اقبال توصیفی کی شاعری ۔۔۔ شمیم حنفی

 

مصحف اقبال توصیفی کے پہلے مجموعۂ کلام ’’فائزہ‘‘ کی اشاعت 1977 ء میں ہوئی تھی، یعنی اب(2006) ء سے کوئی اٹھائیس برس پہلے۔ دوسرا مجموعہ، ’گماں کا صحرا‘ 1994 ء میں شائع ہوا۔ ان کی عمر اس وقت تقریباً سڑسٹھ برس کی ہے (پ1939ء)۔ اس حساب سے ان کا شمار سینئر شاعروں میں کیا جانا چاہیے۔ لیکن نئی شاعری کے قارئین کی اکثریت انہیں اگر جانتی بھی ہے تو، بساط ہوائے دل‘ کے ایک نووارد کی حیثیت سے۔ شناسائی کے اس انداز میں مصحف کے ساتھ صریحاً زیادتی چھپی ہوئی ہے۔ لیکن در حقیقت اسی سے ان کی انفرادیت اور کمال ہنر کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ اپنے دور اور کم و بیش اپنی عمر کے زیادہ تر شاعروں کے برعکس، مصحف کی تخلیقیت کا چراغ آج بھی پوری طرح روشن ہے۔ ان کے احساسات پر واماندگی اور تھکن کا سایہ ذرا بھی نہیں پڑا۔ ان کا شعور اپنے آپ کو دوہراتا نہیں۔ مرجھائی ہوئی، پھیکی اور بے روح زبان ابھی تک ان کے شعر کی زبان نہیں بنی ہے اور وہ آج بھی ایک زندہ آہنگ اور جاگتے ہوئے اسلوب میں اپنا شعر کہہ رہے ہیں۔

مصحف اقبال توصیفی اس تخلیقی روایت اور رویے کے شاعر ہیں جس کا سلسلہ قاضی تخلیقیت کے سب سے سرگرم ترجمان میراجی تک جاتا ہے۔ میراجی صرف ایک شخص نہ تھے، یہ نام تھا سوچنے اور جانچنے کے ایک ایسے اسلوب کا جو اپنے من میں ڈوبے ہوئے، اپنی تنہائی میں مگن اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے والوں کے وجود کی گواہی دیتا ہے۔ ہماری کاروباری دنیا کے لیے یہ ایک مشکل، صبر آزما اور نا مقبول اسلوب تھا۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ بیسویں صدی غالباً تخلیقیت کی تاریخ کی پہلی صدی ہے جب شعر و ادب اور آرٹ نے ایک دنیوی کاروبار، ایک پیشے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ ہر شئے فروختنی ہے۔ شاعری بھی۔ چناں چہ انفرادی تجربے اور ذاتی اظہار کے شور شرابے میں بھی، عام طور پر ہو تو یہی رہا ہے کہ مصوری، موسیقی، رقص، سنیما، تھیٹر کی طرح شاعری نے بھی ایک عام پیشے اور کاروبار کے رنگ اپنا لیے ہیں۔ شعر کہنے والے بھی، اپنی کتاب چھپنے سے پہلے ہی اس کی نکاسی، اس کے مول بھاؤ، اس کے واسطے سے نام اور شہرت اور اعزاز و اکرام کی حصول یابی کے پیر میں جا پڑتے ہیں۔ جدید مارکیٹنگ کے تقاضوں کے مطابق جلسے جلوس، کتاب کے اجرا، جدید ذرائع ابلاغ کی مدد سے اس کے اشتہار و اعلان کی سرگرمی شروع ہو جاتی ہے۔ میراجی اور ان کی روایت کے سچے پیروکار اس دنیا کو اپنے لیے اجنبی سمجھتے تھے۔ وہ کسی اور دنیا کے باسی تھے۔ گرد و پیش کے طوفان بے تمیزی سے ان کی اپنی تخلیقیت کبھی متاثر نہ ہوتی تھی۔ وہ اپنی حسیت کے انہماک اور اپنی تخلیقی تنہائی سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔ انہیں اپنے منصب کی حرمت کا لحاظ تھا اور اپنے شعر کو وہ آپ اپنا انعام جانتے تھے۔ مصحف کی شاعری نے اسی روایت کے سائے میں جنم لیا اور ان کے شعور کی تربیت اسی مخصوص اور محدود ثقافت کے دائرے میں ہوئی۔ چناں چہ مسلسل شعر کہتے رہنے کے باوجود وہ اپنے عہد کے عام ادبی کلچر کا حصہ نہیں بن سکے۔ اکیلے پن اور ایل الگ انداز کی زندگی گزارتے رہے۔ ہمارے عہد کا ایک آشوب یہ بھی ہے کہ عام لوگ دیکھتے اس کی طرف ہیں جو انہیں پکارتا ہے۔ بھیڑ سے بے نیاز رہنے والا، اپنی بات چاہے جتنے مؤثر طریقے سے کہہ رہا ہو، بہت کم لوگ اس کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ مصحف کی شاعری کا بھی یہی حال رہا۔ ’دور کنارا‘ ان کا تیسرا مجموعہ کلام ہے۔ پھر بھی لگتا ہے کہ اس کتاب کے ساتھ وہ پہلی بار نمودار ہوئے ہیں اور اس نمود میں خاموشی، تنہا روی اور شائستگی کی وہی ادا ملتی ہے جو توصیفی کی ہستی کا ایک حصہ ہے۔

بہت دن ہوئے، کوئی چالیس پینتالیس برس پہلے میاں بشیراحمد ( مدیر ’ہمایوں ‘) کی کتاب ’طلسم زندگی، میں کسی مغربی مصور کے ایک شاہ کار (کے Reprint) پر نگاہ ٹھہری تھی۔ تصویر میں ایک آزمودہ کار بوڑھا ہے جو ساحل پر چپ چاپ بیٹھا ہوا، اس مہیب اور با رونق جہاز کے عرشے پر نظریں جمائے ہوئے ہے جہاں لوگ اپنی رنگ رلیوں میں مست ہیں۔ جہاز کے لنگر کھول دیے گئے ہیں اور دھیرے دھیرے وہ کنارے سے دور ہو رہا ہے۔ میاں بشیر احمد نے اپنی نظم نما نثر میں اس پینٹنگ پر جو نوٹ لکھا تھا، اس میں بوڑھے کی زبان سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ ’’کیا یہی ہے زندگی؟‘‘ گویا کہ دنیا میں اکثر ہمارا حاصل سوائے ایک ’حسرتِ حاصل‘ کے کچھ اور نہیں ہوتا اور زندگی اکثر ہمارے پاس سے ہو کر یوں گزر جاتی ہے جیسے اس کا کوئی بھی نقش و نشان ہمارے لیے نہ ہو۔ مجھے آج یہ واقعہ ’دور کنارہ‘ کی ایک نظم پڑھتے وقت اچانک یاد آ گیا۔ نظم کا عنوان ہے ’’مجھے شاعری نہیں آتی‘‘ اور اس کی شروعات اس طرح ہوتی ہے کہ:

مجھے شاعری نہیں آتی

وہ شعر ہویا فلسفہ

میں اپنی بات کیوں کہوں

جب میرے گرد پھیلے اس سمندر میں

کوئی لہر ایسی نہیں

جو ساحل کو چھوسکے

میرا

اور اپنا بھرم رکھ سکے

جب فنا ہی میرا مقدر ہے

تومیں کیوں بے کار ہی

ایک بے لنگر جہاز میں بیٹھا

انجانے جزیروں سے

سر ٹکراتا پھروں

یعنی یہ کہ ’’یہ زمیں، یہ خلا کی رقاصہ‘‘ بھی تو بجائے خود ایک بے لنگر جہاز ہے۔ سو ہم دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس کے معاملات سے خود کو الگ رکھیں، یا اس تماشے میں شامل ہو جائیں، اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ مصحف کی نظموں اور غزلوں میں یہ احساس بار بار رونما ہوتا ہے، بالعموم ایک انتہائی ناقابلِ تقلید اور ایسی پر فریب، سادہ زبان میں اور ایک ایسے بے ساختہ فطری، سہل ممتنع کیسی کیفیت رکھنے والے اسلوب میں جس تک ان کے معاصرین میں صرف احمد مشتاق کی رسائی ہو سکی ہے۔ اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ’ دور کنارا‘ کے اشعار سے کچھ مثالیں نقل کرتا چلوں:

دن میں نہ جانے کب گھس آیا، صحرا میرے کمرے میں

دفتر سے لوٹے تو دیکھا گھر کا نقشہ آج عجیب

وہ کہتی ہے آج ہمارے بچوں کے فون آئیں گے

اپنے گھر میں لگتے ہیں نا تنہا تنہا آج عجیب

٭٭

ہاتھ میں ہندو لب پر چائے کا پہلا بوسہ

صابن کی دیوار پہ میری آدھی مونچھیں

آدھا چہرہ

صبح کی سیر کو جاتے

شام کو دفتر سے گھر آتے

مجھ سے لمبا میرا سایہ

(…تمامی)

٭٭

ایک ہوتی تو دکاں لے جاتا

دل سا بازار کہاں لے جاتا

خواب لے جاتا کبھی حسرتِ خواب

شمع بجھتی تو دھواں لے جاتا

کیا مرا ہونا نہ ہونا میرا

میرے سب نام و نشاں لے جاتا

وسعتِ گوشۂ خلوت سے ہوں تنگ

میں کہاں کون و مکاں لے جاتا

ایک آنسو نے ڈبویا مصحفؔ

اس سمندر کو کہاں لے جاتا

٭٭

نئی نظم لکھ کر

کہو …… جی کا کچھ بوجھ ہلکا ہوا

اسی طرح تم روز نظمیں لکھو گے

تو اک اور دیوان ہو جائے گا

اور آہستہ آہستہ

جینا بھی آسان ہو جائے گا!

(……نئی نظم)

آج اس سے ملے تو لوٹ آئے

بھولے بسرے ہوئے زمانوں میں

ایک بندوق کے نشانے پر

میں پہاڑوں پہ، میں ڈھلانوں میں

آئے ہو اس گلی میں اب مصحف

قفل جب پڑ گئے مکانوں میں

٭٭

دیکھو، وقت کی آہٹ تیز ہوتی جاتی ہے

جو سوال باقی ہیں پوچھ لو ابھی ہم سے

٭٭

سوچو تو دم گھٹتا ہے

دنیا کتنی چھوٹی ہے

٭٭

نقشِ قدم تھا وہم سفر تک

کوئی نہیں تھا حدِ نظر تک

بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر

کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک

میں ہی کسی کو یاد نہ آیا

میں نے نہیں لی اپنی خبر تک

اک بھاری زنجیر تھی دنیا

دفتر سے …بازار سے … گھر تک

٭٭

اپنا تو اک چراغ تھا جس کو ہوا بجھا گئی

ہم نہیں جانتے انہیں، شمس و قمر کا کیا کریں

قیس کی بات اور تھی اس کا نہ کوئی گھر نہ ٹھور

یہ جو ہمارے ساتھ اک گھر بھی ہے، گھر کا کیا کریں

اوروں کے سامنے رہے ہم بری آن بان سے

اپنی نظر سے گر گئے، اپنی نظر کا کیا کریں

٭٭

میرا خیال ہے کہ نئی حسیت کی ترجمانی اور ’ نئی شاعری‘ کے ارتقا میں میراجی کی روایت سب سے پیچیدہ، رمز آمیز اور دشوار مرحلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ گنے چنے اور شناخت کیے جانے والے identifiable عناصر، بندھے ٹکے، مروج اور مطبوع و مقبول موضوعات: سکہ بند، سریع الفہم اور آزمائے لفظوں یا گھسی پٹی اور پامال ترکیبوں کی مدد سے شعر کہنا، ظاہر ہے کہ آسان بات ہے۔ ان وسیلوں تک ادنیٰ قسم کی تخلیقیت کے حامل اور شاعرانہ ابجد کی معمولی شد بد رکھتے والے بھی گرتے پڑتے جا پہنچتے ہیں۔ نئی شاعری میں تکرار اور پیکے پن کا رنگ اتنی جلدی جو پیلا تو اسی لیے کہ ہماری زیادہ تر نئے شاعر تقلیدی مزاج کے مالک تھے۔ اُن کی دسترس بس سامنے کے موضوعات، ذخیرۂ الفاظ اور تجربوں تک تھی۔ بے شک، نئی شاعری نے ہماری روایت پر اپنی انفرادیت اور ایک علاحدہ تشخص کا نقش بھی مضبوطی سے بٹھایا، لیکن یہ سعادت اختر الایمان سے لے کر مصحف اقبال توصیفی بلکہ ان کے کافی بعد نمایاں ہونے والے تازہ تر نئے شاعروں ( مثلاً ذی شان ساحل، ثروت حسین، سعید الدین، ارباب مصطفیٰ اور خواتین میں سارہ شگفتہ، تنویر انجم، عشرت آفریں تک) صرف معدودے چند ناموں کو نصیب ہوئی ہے۔ مصحف اس چھوٹی سی اقلیت میں شامل ہیں جو زمانے کے عام چلن سے بے نیاز، اپنی دھن میں رہتی ہے اور اپنے نجی احساسات کو اپنا رہ نما بناتی ہے۔ زمانے کے مقبول عام رنگ ڈھنگ کو خاطر میں نہ لانا اور اپنے شعوری انتخاب کے نتیجے میں اپنی تنہائی اور تنہا روی کا بوجھ اٹھانا سہل نہیں ہے۔ میراجی کی روایت کا پہلا سبق یہی ہے کہ زاغ و زغن چاہے جتنا کہرام مچائیں، اپنا راگ اگر جے جے ونتی ( میراجی کا پسندیدہ راگ) ہے تو بس اس کی دھن ہر آن چھڑی رہنی چاہیے، باقی سب تو شب و روز کا تماشا ہے اور بازیچۂ اطفال کی دھما چوکڑی۔ ضروری نہیں کہ اپنے رنگ کو سمجھنے اور اسے اپنی نظم یا غزل میں برتنے والا ہر شاعر کامیاب بھی ٹھہرے۔ لیکن اچھی اور سچی شاعری کبھی بھی اپنی آواز کو پائے بغیر وجود میں نہیں آتی …… اس کا دائرہ اثر محدود تو ہو سکتا ہے مگر اس کی معنویت اور انفرادیت بہر حال مسلم ہے۔ مستعار تجربے کی طرح مستعار لہجے، زبان، اسلوب کی طاقت بھی صرف وقتی ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بہت سے نئے شاعر، جن کے نام کا ڈنکا کبھی زور و شور سے بجتا تھا، اتنی جلدی پرانے نہ ہو جاتے۔ تقلیدی کلاسیکیت ہو کہ ترقی پسندی کہ جدیدیت، ان کا جادو زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔ خود میراجی اور فیض کے معاصرین میں کتنوں کا کلام اب بھی شوق سے پڑھایا سنایا جاتا ہے ؟ غیر ادبی مصلحتوں کی مجبوری اور کسی خاص گروہ، نظریے، مقصد کے ’وفادارانِ ازلی، کی بات اور ہے۔

مصحف کی شاعری اس گیان دھیان کی شاعری ہے جس کی اپیل سے کے لیے نہیں ہوتی اور جو اپنی سادگی کے باوجود ایک سربستہ راز کی طرح دھیرے دھیرے اونچی ہوتی ہے اور اس سے نمودار ہونے والی روشنی کی پہچان کے لیے اس کے پاس جانا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اشیا اور مظاہر کی طرح احساسات اور داخلی تجربے اپنے آپ کو کھلے ڈلے انداز میں پڑھنے والوں پر منکشف نہیں کرتے۔ کچھ تو اپنی اندرونی ہیئت اور بنت کے باعث کچھ مصحف کی خلقی حیا اور کم آمیزی کی وجہ سے بھی ان کی شاعری تعارف ہمیشہ ادھورا اور محدود رہا۔ اور یہ صورتِ حال اس حقیقت کے باوجود رونما ہوئی کہ مصحف کی شاعری کے حوالوں پر نہ تو فلسفہ طرازی کا رنگ چھایا ہوا ہے، نہ نفسیاتی دروں بینی کا، نہ علامت سازی اور اسطور نوازی کا۔ تجربے اور اظہار و اسلوب کی دقت پسندی شعار کرنے والے ہر شاعر ( یا شاعرہ) کو غالب کی صف میں جگہ نہیں مل جاتی۔ پیچیدگی کا راستہ کئی نئے شاعروں نے بھی اختیار کیا تھا اور ان کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ افتخار جالب کتنے ذی علم شخص تھے اور تحقیق و تنقید میں انہوں نے کیسا صبر آزما اور حوصلہ طلب راستہ چنا تھا، مگر اس سے خود انہیں یا ان کے قاری کو ملا کیا؟ شاعری اور معمے بازی میں فرق تو ہمیشہ کیا جائے گا۔ لہٰذا میراجی کی روایت سے منسوب ایسے شاعر بھی جنہوں نے ذاتی علائم اور پیچیدہ بیانی کا کھٹ راگ پھیلایا، ان میں سرخ روئی کی مثالیں انتہائی کم یاب ہیں۔ بے شک شاعری میں سریت، رمز آفرینی، اشاریت، فکری دبازت، فلسفیانہ تعمق، نفسیاتی مہم جوئی، علوم کے دیدہ اور نادیدہ جہانوں سے باخبری اور مذہبی، معاشرتی، تاریخی، تہذیبی علامتوں اور تلمیحوں پر گرفت کے نتائج بار آور ہو سکتے ہیں، لیکن ملٹن، غالب، اقبال اور ایلیٹ کا انداز ہر ایک کو راس نہیں آتا اور ہمارا کم عیار عہد تو بہرحال اس روش سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ منٹو کا افسانہ ’’پھندنے ‘‘ اور حلقۂ ارباب ذوق کی نشستوں میں پیش کیے جانے والے بہت سے تجربے ہمارے عہد کی روایت کا مستقل حصہ جو نہ بن سکے تو اسی لیے کہ پیچیدگی ہر حال میں اور ہمیشہ نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ مصحف ان گنتی کے نئے شاعروں میں ہیں جنہیں اس عہد کی زندگی اور شاعری کے مسئلوں پر سوچ بچار کی عادت بھی ہے۔ ان کی ذہنی تربیت سائنسی خطوط پر ہوئی ہے۔ جدید دور کے ذہنی اور فکر اسالیب سے وہ اچھی طرح آگاہ ہیں جس کا اندازہ ان کی بعض نثری تحریروں اور ان کی نظموں کے مضامین سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ، ایک اور جہت جو ان کے تخلیقی وجود سے صریحاً وابستہ دکھائی دیتی ہے، وہ ان کی مذہبیت ہے، غیر رسمی اور غیر روایتی سطحی پر۔ گویا کہ موجودات کی جس دنیا میں وہ اپنے شام و سحر، اپنے شب و روز کا تانا بانا تیار کرتے ہیں، وہ تمام کی تمام ظاہر اور آشکار نہیں ہے۔ اس میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو حواس اور بصارت اور برتاؤ کے حدود سے ماورا ہے۔ لا موجود اور بے حساب ہے۔ غیر مجسم اور مجرد ہے۔ اس نوع کے احساسات کی نمائندگی جن نظموں اور غزلوں میں ہوئی ہے ان سے کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں:

درد کا نام پتا مت پوچھو

درد اک خیمۂ افلاک

اس اقلیم پہ پہ سایہ کناں

(تم اسے قطب شمالی کہہ لو)

تم جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھو

برف ہی برف ہے

اور رات ہی رات

ہم وہ ’موجود‘ کہ جن میں شاید

زندگی بننے کے آثار ابھی باقی تھے

حشرات …… ایسے کہ جن کو شاید

روشنی اور حرارت کی ضرورت تھی ابھی

اس اندھیرے میں کہو برف پہ رینگیں کیسے

کوئی بتلاؤ کہ اس رات کے آزار سے نکلیں کیسے

رات ایسی کہ جو ڈھلتی ہی نہیں

برف ایسی کہ پگھلتی ہی نہیں !!

(…… درد کا نام پنا مت پوچھو)

ہزار، لاکھ، کروڑوں برس میں بکھرا وقت

زمین کے گزرے ہوئے ’کل‘ کا ایک حصہ ہے

زمیں کے گذرے ہوئے ’کل ‘ میں میرا ’کل‘ ابھی ہے

مرے لہو کے بھی سکے ہیں ان خزانوں میں

زمیں نے جن کو لٹایا ہے آسمانوں میں

وہ ننھے ننھے ستاروں کے ٹمٹماتے چراغ

جو میرے اشکوں سے تابندہ ہیں …… وہ گول سا چاند

وہ چرخہ کاتتی بڑھیا جو اس میں بیٹھی ہے

وہ میری ماں کی طرح …… وہ میری بیٹی ہے !!

(…… نیم دائرے )

’دور کنارا‘ کے ساتھ وقت یہ ہے کہ اس طرح کی مثالیں یہاں بہ کثرت موجود ہیں۔ مصحف بظاہر بہت سادہ سی دکھائی دینے والی نظم میں، لہجے اور اسلوب پر کسی طرح کا عالمانہ غلاف چڑھائے بغیر، بہت گہری اور الجھی ہوئی کوئی بات کہہ جاتے ہیں۔ نظم اور غزل، دونوں میں ان کا یہی شیوہ قائم رہتا ہے۔ ’ درد کا نام بتا مت پوچھو‘ اور ’نیم دائرے ‘ سے آگے بڑھ کر ان کی غزلوں میں بھی ایسے شعر جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں جن میں کسی بلیغ اور انوکھے تجربے پر ایک جانا پہچانا مانوس سا لسانی خول چڑھا ہوا ہے اور اوپر سے یہی لگتا ہے کہ یہ شاعری بھی موجودہ دور کے مقبول عام رویوں کی ہی ترجمان ہے اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جسے غیر معمولی اور منفرد کہا جا سکے۔ لیکن جس وقت ہم اس طرح کے شعروں دو چار ہوتے ہیں تو ہمارا ردِ عمل یکسر بدل جاتا ہے:

عمر کی رات جاگ کر کاٹی

میری آنکھوں میں کوئی خواب کہاں

یہ زمیں گھومتی ہے جانے کیوں

جا رہا ہے وہ ماہتاب کہاں

٭٭

روح میں طوفان سا، جاں میں بھنور ہے الگ

دشتِ صدا میں گھرا آنکھ کا گھر ہے الگ

سر کو چھپائیں کہاں، بارشِ سنگ اک طرف

دل کو سنبھالیں کہ یہ کانچ کا گھر ہے الگ

تو جو بہت پاس ہے، دور سے دیکھوں تجھے

پاس بلاؤں اسے، تجھ سے اگر ہے الگ

چشم معانی میں ہے اور ہی منظر کوئی

لفظ وہی، لب وہی، دل پہ اثر ہے الگ

٭٭

کھویا ہے تو کیا کھویا، پایا ہے تو کیا ہم نے

سب کھیل تماشا ہے، سب دیکھ لیا ہم نے

دیکھیں تو سہی ہم بھی، اے دل ابھی چلتے ہیں

انجام جو ہو سو ہو، اب سوچ لیا ہم نے

بجھتی ہوئی آنکھوں میں لفظوں کا دھواں کیا تھا

کچھ تم کو نظر آیا، کچھ تم سے کہا ہم نے

’فائزا‘ سے ’دور کنارا‘ تک مصحف کی نظم اور غزل کا سب سے بڑا وصف یہی ہے کہ وہ بیان اور خاموشی کو ایک ساتھ اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ لفظوں کے اسراف سے دامن بچائے رکھتے ہیں۔ کبھی تجربے کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ نظموں سے قطع نظر، غزل کے شعروں میں بھی ایک نجی اور گھریلو فضا قائم رکھتے ہیں۔ بیان کی سجاوٹ کے معروف وسائل …… علامت، استعارہ، پیکر کی امداد کے بغیر، طبیعی اور ارضی حقیقتوں سے روحانی اور مابعد وسائل …… علامت، استعارہ، پیکر کی امداد کے بغیر، طبعی اور ارضی حقیقتوں سے روحانی اور مابعد الطبیعاتی حقیقتوں تک وہ ایک لمبا سفر اس طرح طے کر لیتے ہیں کہ ان کی مسافت کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس شاعری کی تمام تر سادگی اس کے بیان اور لفظیات میں ہے اور اس شاعری کی تمام تر پیچیدگی اس کے ذخیرۂ احساس میں ہے۔ معمول کی زندگی اور روز مرہ معاملات اور مظاہر کے واسطے سے مہیت و رفیع تجربوں تک رسائی کا یہ انداز معاصر شاعری میں عام نہیں ہے۔ ایک اور امتیازی وصف جس کی مثالیں مصحف کے یہاں جا بہ جا بکھری ہوئی ہیں، تعلق اور لاتعلقی، متانت اور مزاح کے ناگزیر اندرونی رابطوں کی دریافت ہے۔ ان کی حسیت آس پاس کی چیزوں میں، یہاں تک کہ آپ اپنی ہستی کے تقاضوں اور رشتوں میں کبھی آلودہ اور محصور نہیں ہوتی، آزاد بھی رہتی ہے اور پایہ گل بھی، صنوبر کی مانند۔ اسی طرح ان کا مزاح سنجیدگی سے اپنا تعلق کبھی توڑتا نہیں اور ان کی متانت، تخلیقی کھلنڈرے پن (Playfulness) کے لمحوں میں بھی اپنا بھرم باقی رکھتی ہے:

بدن کی اندھیری گپھا میں نہیں

زمیں پر نہیں، میں خلا میں نہیں

وہ مٹھی نہ کھولے تو میں کیا کروں

ابھی میری خوشبو ہوا میں نہیں

٭٭

اب انہیں، تنہائی بولی

دس بچتے ہیں دفتر جائیں

رونے اور ہنسنے سے پہلے

اس نے دیکھا دائیں بائیں

٭٭

سورج ڈوبا، ہم دفتر سے گھر لوٹے

کُتّا منھ میں گیند دبا کر لایا ہے

اک بے نام سفر ہے نوری سالوں کا

کس نے تجھ کو دیکھا، کس نے پایا ہے

دیکھیں اس کا غم ہے یا پھر اور کوئی

جانے اتنی رات گئے کون آیا ہے

٭٭

سن رہا ہوں ہاتھ میں ٹھوڑی لیے

جیسے یہ میری کہانی ہی نہیں

آپ ہم کو لاکھ اکسائیں جناب

آپ بیتی تو سنانی ہی نہیں

سچ تو یہ ہے ہر معنی خیز اور دل چسپ یا دوسروں کا دھیان اپنی طرف کھینچنے والی آپ بیتی، جگ بیتی کا بیان کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ایک آدمی کے رہنے سے گھر، گھر نہیں بنتا اور ایک سکری سمٹی ہستی بھی اس وقت ایک کائنات اصغر بن جاتی ہے جب اس کی بصیرتوں اور احساسات کے دریچے کھلے ہوئے ہوں۔

٭٭

اب تک مصحف سے میری بس دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ایک خاموش، سکوں پرور بستی میں، گھنے درختوں کے پہلو میں آباد ان کے گھر پر میں نے صرف ایک دوپہر گزاری ہے۔ ان کے اطوار میں شاعروں جیسے کوئی بات نہیں۔ ہم جتنی دیر ساتھ رہے، دوسروں کے شعر سنتے سناتے رہے۔ بات چیت سے وہ ایک عافیت پسند، گوشہ گیر اور کسی قدر غیر جذباتی انسان نظر آئے۔ اسی لیے ’دور کنارا‘ کے پیش لفظ میں میرا سامنا جب ان لفظوں سے ہوا کہ:

’’شاعر بھی ایک عام آدمی، ایک عادی مجرم کی طرح ہے لیکن تھوڑے سے فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ اسے اپنے جرائم کا احساس ہے۔ وہ جرم تو کرنا ہے، مجرم ہے لیکن پھر اچک کر جج کی کرسی پر بھی جا بیٹھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلسل سزائیں سناتا رہتا ہے۔۔ ۔ (بہ قول اختر الایمان) معاشرہ اور شاعر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہی معاندانہ رویہ شعری تخلیقات کی بنیاد ہے۔

یہ سارا منظر نامہ جو علوم، معاشرے اور تہذیب کی ترقی کے متوازی تاریخِ انسانی کا حصہ رہا ہے، میں بھی اسی ’کُل‘ کا ’جز‘ اور اسی خط کا ایک نقطہ ہوں۔ پھر میرا اپنا محلِ وقوع …… میری Locale ہے، میری داخلی کیفیات ہیں، جنہوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا میرا الگ اپنا انداز ہے …… اس کے علاوہ یہ کہ زمان و مکاں کی ایک بڑی چھتری کے نیچے ہمارے کچے اینٹوں کے مکانوں کے دروازے، روشن دان، کھڑکیاں اور  ان پر لٹکے ہوئے پردے الگ الگ ساخت اور الگ الگ رنگوں کے ہیں۔ تو جب ہمارے تجربات اور ہمارے Responses مختلف ہیں تو اظہار کے پیرائے بھی جدا ہونے چاہئیں ‘‘۔ (دور کنارا: پیش لفظ، ص: 10,9)

’دور کنارا‘ کی نظموں، غزلوں میں اظہار کا پیرایہ تحت بیانی کا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عراق اور گجرات پر اپنی موضوعاتی نظموں میں مصحف نے اپنے رد عمل کو ذرا بھی بے قابو نہیں ہونے دیا۔ کہا تو بس اتنا کہ:

ذرا سوچا نہیں تھا

کبھی دن اس قدر تاریک ہوں گے

کہ راتیں سہم جائیں گی

٭٭

’کبھی یہ سوچتا ہوں

کاش میں کچھ اور ہوتا

بس اک چوہا … اور اپنے بل میں رہتا …!!

یہ احتجاج نہیں، ایک جبر کا بیان ہے۔ اور اسی جبر کے بیان سے یہ دیوان مرتب ہوا ہے جس کی شروعات ’فائزا‘ سے ہوئی تھی اور اب ’ گماں کے صحرا‘ سے گزرتے ہوئے بالآخر ’دور کنارا‘ کی یہ منزل آئی ہے۔ یہ مسافت اگر بہت طویل نہیں تو کچھ بہت مختصر بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کے بے نام اور بال خیز عشق کا قافلۂ سخت جاں، اس وقت اظہار و بیان کی جس منزل میں ہے، اس کے روپ رنگ میں بھی بہتری کا کوئی امکان بہ ظاہر نہیں تو آتا۔ ایسی صورت میں ’دور کنارا‘ کی یہ نظم ہم سے جو کچھ کہتی ہے، شاید ٹھیک ہی کہتی ہے:

خدا نے چاہا تو جو بھی ہو گا وہ ٹھیک ہو گا

اگر اسی میں رضا ہے اس کی

اگر یہی اس کی مصلحت ہے

اگر وہ یہ چاہتا ہے میں خواب ہی نہ دیکھوں

کبھی نہ سوؤں

یہ چند سانسیں میں جات کر ہی گزار لوں گا

( …… خدا نے چاہا)

یہاں اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس چھوٹی سی نظم میں جو باتیں ان کہی رہ گئی ہیں، ان کا سلسلہ ہمارے پاس سے دور تک اور زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا ہے۔ مصحف نے بہت دنوں پہلے ایک شعر کہا تھا:

جس نے دی ہیں اسی کو لوٹا دیں

یہ رہیں صبحیں، یہ رہیں شامیں

یہ شعر اس مضمون کا اختتامیہ ہے …… اب اور کچھ کہنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے