غلام محمد قاصر اور ظفر اقبال کا متوازی مطالعہ ۔۔۔ فرحت عباس شاہ

اردو زبان میں جتنا اعلیٰ و ارفع ادب گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں میں تخلیق کیا گیا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے شاید ہی کسی عہد میں کیا گیا ہو لیکن المیہ یہ ہے کہ اچھے ادب کو بے توقیر کر کے رکھنے والے لوگ اور فورسز بھی پہلے سے کہیں زیادہ سفاکی پر تُل چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے یا اس کے تدارک کے لیے کیا کیا جائے۔ مجھے اب تو جو بنیادی بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ عہد حاضر میں اہم ترین کام حقیقی اور مصنوعی ادب میں فرق واضح کرنا ہے اور حقیقی اور مصنوعی ادیب اور شاعر کی نشاندہی کرنا ہے۔ میں نے ظفر اقبال اور غلام محمد قاصر کے متوازی مطالعے کی ضرورت کو اسی مقصد کے تحت محسوس کیا ہے۔ مزید برآں ادراکی تنقیدی دبستان کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی شامل ہے کہ تنقید کو بے مصرف نصابیت یا محض کتابی نوعیت کے مباحث سے نکال کے معاشرے میں سانس لینے والے حقیقی مکالمے کا حصہ بنایا جائے تاکہ تنقید کا دھڑکتے ہوئے ادب کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو نہ کہ بے جان اور لاتعلق کتابی آئیں بائیں شائیں سے بات شروع ہو کر کائیں کائیں پر ختم ہو جائے۔ اس متوازی مطالعے سے ایک اہم ادبی فریب کاری کو بے نقاب کرنا بھی مقصود ہے جس سے ہماری تین نسلوں کو گمراہ کیا گیا اور وہ ہے نئی شاعری، جدید شاعری یا منفرد شاعری کے نام پر غیر شعری بازیگری یا کرتب بازی جس کا ڈھول بجا بجا کے لوگوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اسے شاعری بلکہ نئی اور منفرد شاعری سمجھیں۔ نئی شاعری کی تحریک نے ستر اور اسی کی دہائی میں بہت زور پکڑا۔ اس تحریک کے پر جوش نمائندوں میں افتخار جالب اور ڈاکٹر انیس ناگی ہراول دستے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کا بنیادی موقف یہ تھا کہ غزل میں کہنے کو نیا کچھ نہیں رہ گیا۔ ہر طرف سے ایک جیسی آوازیں آ رہی ہیں اور ہماری شاعری خصوصاً غزل کا حال ٹھہرے ہوئے پانی جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک جیسے خیالات، قافیہ ردیف کے امکانات کے مارے ہوئے تلازمے اور موضوعات کی تنگی نے غزل کو مفلوج صنف بنا کے رکھ دیا ہے لہٰذا کچھ نیا ہونا چاہئیے جو مختلف بھی ہو اور تازہ بھی ہو تاکہ ہمارا شعری ادب جمود سے باہر نکلے۔ اب اس بات کی وضاحت تو ظفر اقبال صاحب ہی کر سکتے ہیں کہ ان کی ملاقات افتخار جالب، ڈاکٹر انیس ناگی یا ان کی تحریک کے باقی دوستوں سے کب اور کیسے ہوئی۔ وہ نئی شاعری اور لسانی تشکیلات کے نام پر راستے سے کیسے بھٹکے اور اس نام نہاد غیر تخلیقی تجربے کا شکار کیونکر ہوئے۔ کیونکہ تجربے کے نام پر اور کچھ نیا کر دکھانے کے جوش میں اتنا ہوش کھو بیٹھنا کہ شاعری کا بنیادی عنصر اور بنیادی روح کو ہی نظر انداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ امرود، کچھے، بریزئیر، بنیانیں، پستان، زیر ناف بالوں کے گچھے، سڑے ہوے آلو اور کتے کے پیشاب کو نئی جدید شاعری، لسانی تشکیلات اور غزل میں تجربہ بنا کر پیش کر دیا جائے ادب کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے اور پھر شاعری جیسے نفیس ترین آرٹ کی تذلیل اور تضحیک کو اعلیٰ شاعری بھی قرار دے دیا جائے ستم بالائے ستم نہیں تو کیا ہے۔ آج کے اس مطالعے میں اس ظلم اور فریب کا تجزیہ کرنا اور اس کے مقابلے میں ایک خالص اور حقیقی شاعر کو تقابل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہے تاکہ سالہا سال سے جاری اس ادبی بے حرمتی کو ان لوگوں کے منہ پر دے مارا جائے جو اسے بڑی شاعری تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ ظفر اقبال کے یہ اشعار دیکھئیے جنہیں وہ اردو غزل میں نئی تشکیلات کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔۔ ۔۔

شعر ہے وہ سڑا ہوا آلو

جس پہ کتے پشاب کرتے ہیں

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ابھی سو کوس پڑا ہے ملتان

ملتان سے آگے ہے تلمبہ

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

آنی مانی کرے گا

اور من مانی کرے گا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

گوگو گاگے گا

اتنا بھاگے گا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

چمک چمکارنے شب شیرنے کے

مزے محکم، الف انجیرنے کے

لہو لہلوٹ سیاہی پھیلویں پھب

کُڈھب کاغذ طلب تحریرنے کے

۔۔ ۔۔ ۔۔

اس مکاں کو اُس مکیں سے ہے شرف

یعنی اک افواہ سی ہے ہر طرف

معترض کے منہ پہ ہے کتا بندھا

اس لیے سننا پڑے گی عف عف

نظر ثانی بھی کریں گے غزل پر

اے ظفر فی الحال تو لکھی ہے، رف

۔۔ ۔۔ ۔۔

افتخار جالب اور ڈاکٹر انیس ناگی کے علاوہ بھی مزید کئی اطراف سے ظفر اقبال کے شاعری کو بے تکریم کرنے والے اس معرکے کے حوالے سے اتنی زیادہ بانسری بجائی گئی کہ ارد گرد بندر ہی بندر اکٹھے ہونے لگ گئے مزید رہی سہی کسر ظفر اقبال نے اپنے اخباری کالم کے ذریعے بڑی مشاقی اور مہارت سے پوری کر لی۔ ایک نفسیاتی مسئلہ جو ہمارے ادیبوں میں بہت دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں بی، سی کیٹیگری کے کمزور شاعر ادیب اپنے فطری خوف کی وجہ سے جینوئن اور قد آور تخلیق کار کو نظر انداز کر کے اپنے جیسے کسی مصنوعی شاعر کو بڑا شاعر بناتے ہیں اور اس کا اتنا زیادہ راگ الاپتے ہیں کہ وہ کئی دوسرے کچے ذہنوں کو واقعی حقیقی بڑا شاعر لگنے لگتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پچھلے پچاس سالوں سے ظفر اقبال کی جدید شاعری، غزل میں تجربہ اور لسانی تشکیلات کا شور ہے لیکن حوالے کے طور پر جو شعر کوٹ کیے جاتے ہیں وہ در حقیقت شکیب جلالی کی جدید غزل کی دین ہیں۔ یعنی جس شاعر کا کوئی شعر اس کے موقف کا حوالہ ہی نہ بن سکے اس کی ناکامی پر تو سوائے ماتم کے کچھ بنتا ہی نہیں چہ جائیکہ اسے اہم شاعر قرار دے دیا جائے۔ ظفر اقبال اپنی شاعری کو با رہا لوہارا ترکھانا اور منجی پیڑھی ٹھوکنا قرار دے چکے ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ناقدین ادب بھی ہوش کے ناخن لیں اور خوب ٹھوکی گئی اس منجی پیڑھی کو منجی پیڑھی ہی رہنے دیں اور نئی نسل کو دھوکہ نہ دیں۔ مصنوعی شاعری کو شاعری قرار دینا ہی جرم ہے چہ جائیکہ اسے اہم قرار دیا جائے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں۔

ڈاکٹر انیس ناگی صاحب میرے قابل احترام اساتذہ میں سے ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ میری نظموں کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ انہیں بہت اعلیٰ بھی قرار دیتے تھے۔ تنقید کی طرف بھی میری حوصلہ افزائی انہوں نے فرمائی۔ غزل پر میری ان سے بحث ہمیشہ رہتی تھی اور نظم میں بھی میرا موقف ہمیشہ رہا کہ ضروری نہیں شاعری کی روح کو داغدار کر کے ہی اسے نیا کیا جا سکتا ہے۔ نئی حسیات اور محسوسات کی نئی فضا کا حامل شاعر جب نئے لہجے کے ساتھ شاعری کرے گا تو وہ خود بخود نئی ہوتی جائے گی۔

ایک دفعہ ناگی صاحب نے مجھے اپنے گنگا رام مینشن والے آفس میں بلا بھیجا کہ افتخار جالب آیا ہوا ہے اور ہم سب بشمول ڈاکٹر انور سجاد، عبد الرشید اور سمیع اہوجا سب دوست اکٹھے ہیں اور تم سے نئی نسل کے نمائندہ شاعر کے طور پر مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں اور شفیق احمد خان جا پہنچے۔ سلام دعا کے بعد جالب صاحب بولے کہ ناگی تمہاری بہت تعریف کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اردو کو نظم کا ایک اچھا شاعر مل گیا ہے۔ اب اردو نظم کا مستقبل محفوظ ہے لیکن غزل ابھی بھی فضا کو بوجھل کیے ہوئے ہے۔ وہ تھوڑی دیر رکنے کے بعد پھر بولے۔

جیسا کہ تمہیں معلوم ہے ہم نئی شاعری کی تحریک والے کوشش کر رہے ہیں کہ اب تک بہت اچھی، بہت بُری، درمیانی مگر ایک جیسی شاعری اتنی ہو چکی ہے کہ اب اردو ادب کو شعر کی نہیں لا شعر کی ضرورت ہے۔ اب ایسی شاعری ہونی چاہئیے جو شاعری نہ ہو۔ کوئی بہت مختلف شئے سامنے آنی چاہئیے۔ تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟

میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر بولا کہ سر ناگی صاحب نے آپ کو بتایا ہو گا کہ میں اور میرے دوست شفیق احمد خان اور اعجاز رضوی ہم لوگ پہلے سے موجود شاعری سے مختلف شاعری کر رہے ہیں اور یہ فطری ہونے کے باوجود نئی بھی ہے۔ ہم نے اپنے سے پہلے ہونے والی شاعری کے اثرات بہت کم قبول کیے ہیں۔ لیکن یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ لا شعر بنایا جائے تو یہ سوائے بگاڑ پیدا کرنے اور پہلے سے موجود بد صورتی میں اضافہ کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہمارے ارد گرد ظلم، نا انصافی، گالی گلوچ، جبر، جھوٹ اور منافقت کے لا شعر سے پوری دنیا بھری پڑی ہے۔ ہم اس بدبو دار لا شعر کی بھرمار میں سے پہلے ہی اتنی مشکل سے شعر کشید کر کے لا رہے ہیں اور آپ ہمیں پھر اسی گند کی طرف واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ باقی رہی جدید شاعری کی تو اگر ہم جدید عہد کے جدید لوگ ہیں تو ہمارے باطن سے نکلنے والی شاعری بھی جدید ہو گی اور اگر پچھلے کسی عہد میں رہ رہے ہیں تو پچھلے شاعروں کے ملبے تلے آ کے کچلے جائیں گے۔

میرے استدلال پر تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر افتخار جالب بولے۔۔ ناگی نئی شاعری کی تحریک آج سے بند، فائیل پہ سرخ فیتا لگا کے اسے کلوز کر دے۔ نوجوان ٹھیک کہتا ہے ہم سب لا شعر میں ہی سانس لے رہے ہیں ہمیں یہیں سے خود تازہ ہوا پیدا بھی کرنی ہے اور بانٹنی بھی ہے۔ فرحت مجھے خوشی ہوئی تم سے مل کے۔ بریوو۔۔۔ اتنے میں چائے آ گئی اور موضوع بدل گیا۔

یہ واقعہ سنانا اس لیے ضروری تھا کہ ظفر اقبال کی تمام نہیں تو بیشتر شاعری یا تو وہ گند ہے جسے افتخار جالب لا شعر کہتے تھے یا پھر قافیہ ردیف کی پِٹی ہوئی وہ مصنوعی شاعری ہے جو احساسات، جذبات اور نظرئیے سے عاری ہے۔ مجھے کبھی کبھی بہت حیرت ہوتی ہے جب میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے اردو ادب میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ہوتی ہے۔ یہ مدرس ٹائپ کے لوگ بظاہر شاعر اور محقق بھی ہوتے ہیں لیکن ان کو یہ تک شعور نہیں ہوتا کہ شعر انسان کے باطن سے پھوٹنے والی کرن کی طرح ہوتا ہے۔ جب تک دل کا حال بیان کرتا ہوا نہ ہو اس میں تاثیر ہی نہیں ہوتی جبکہ عروضی مشق اور پریکٹس سے کی گئی شاعری بے برکت اور بے تاثیر ہوتی ہے۔ یعنی اگر شاعری کا بھی تعلق دل سے یا جذبات سے نہ ہو تو ویلڈنگ اور شاعری میں کیا فرق رہ جائے گا۔ در اصل ایسے لوگ زیادہ تر روز گار کی خاطر غلطی سے ادب کے شعبے میں آن پڑے ہیں ورنہ ان کو میلان طبع کی بنیاد پر سیاست، پولیس یا کسی کاروبار میں ہونا چاہئیے۔ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال سے ظفر اقبال نامی ایک شاعر ادبی منظر پر پورے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ رسائل، اخبارات، مشاعرے ٹی وی پروگرامز ہر جگہ پر اس کی شاعری سنی پڑھی جاتی ہے لیکن سوائے ایک اوسط درجے کے شعر کے اس کے کسی دوسرے شعر نے سفر نہیں کیا۔ شاعروں اور ادبی حلقوں میں سنے سنائے جانے والے اشعار پروموشنل ہوتے ہیں اصل شعر وہی ہوتا ہے جو خوشبو کی طرح شعر شناس اور با ذوق عوام الناس میں پھیلتا چلا جائے۔ جیسا کہ یہ شعر۔۔ ۔۔

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

اور میں یہاں یہ بھی یاد دلاتا جاؤں یہ شعر ظفر اقبال کی فخریہ پیشکش المعروف لسانی تشکیلات کا شعر نہیں یہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ میں احمد فراز کے اسلوب کا شعر ہوں۔

بس اس کے علاوہ ظفر اقبال کے پاس جو ہے اس کا تعلق آمد سے نہیں بلکہ شعر گھڑنے کے تکنیکی عمل سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظفر اقبال اور غلام محمد قاصر کے درمیان پہلا فرق وہی ہے جو مستری اور شاعر میں ہوتا ہے۔

میں جیسے جیسے غلام محمد قاصر کو پڑھتا جاتا ہوں بار بار آنکھیں بھیگتی جاتی ہیں اور دل تڑپ اُٹھتا ہے کہ ایسے تخلیقی معصومیت سے بھرے ہوئے شاعروں کے سامنے کیسے کیسے لکڑی کے شاعر کھڑے کیے گئے۔ دل و دماغ میں مصرعہ ساز شاعروں اور فن شعر سازی کی حمایت کرنے والے مدرسین، ناقدین اور محققین کی علمی و ادبی بلکہ ذہنی صحت کے بارے شکوک و شبہات سر اُٹھانے لگتے ہیں۔

از راہ کرم مجھے یہ شکوہ بار بار کرنے دیجئیے کہ کمزور، ناقدین و محققین نے یا تو بڑوں کے کہنے میں آ کے، کسی شعبۂ اردو کے لوکل فیشن کی وجہ سے یا خود اپنی کسی خاص کمزوری کے باعث ظفر اقبال، احمد مشتاق، خورشید رضوی جیسے قابل احترام بزرگوں کو قابل ذکر و لائق تحسین شاعر سمجھا بھی اور اس کا دب کے پراپیگنڈا بھی کیا جبکہ غلام محمد قاصر جیسے شاعری سے لبالب بھرے ہوئے عظیم شاعروں کو نظر انداز کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے منظم کوششیں کی گئیں اور کی جا رہی ہیں۔ میں نے ایک بات اور بھی خاص طور پر نوٹ کی ہے کہ پہلے پہلے سینئر شعراء نے ظفر اقبال کو مختلف لہجے کا شاعر کہا شاید وہ اس ترغیب سے ظفر اقبال کے اندر مختلف شعر کہنے کے سپنے کو تعبیر میں بدلنا چاہتے تھے کہ یہ شخص کوئی تر و تازہ لب و لہجہ اختیار کر لے گا لیکن فوراً بعد ہی وہ خاموش ہو گئے حتیٰ کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی وفات سے پہلے ان کے بارے پھیلائے گئے جھوٹ کی تردید کر دی ( کہ ظفر اقبال غالب سے بڑے شاعر ہیں)۔ خاص بات یہ ہے کہ ظفر اقبال کے قصیدے گانے والوں میں اکثریت ایسے شعراء کی ہے جو غیر تخلیقی، شعریت سے محروم اور بناوٹی شاعر اور نقاد ہیں جبکہ شاعری کا حقیقی قاری شاعری کو پہلے دل سے محسوس کرتا ہے اور بعد میں دماغ سے اس پر سوچ بچار کرنے والا ہوتا ہے۔ اور یہی قاری شاعری کے حسن اور اس کی سماجی، نفسیاتی اور انسانی حیثیت کا قدر دان بھی ہوتا ہے۔ ورنہ آج کل ادب کے بیشتر اساتذہ اور شاگردوں سمیت زیادہ تر ناقدین و محققین جعلی قسم کے زعم کے ساتھ رٹی رٹائی باتوں کے علاوہ اگر کچھ کر رہے ہیں تو ایک طرف اس حقیقی قاری کو ادب سے نکالنے کے در پئے ہیں اور دوسری طرف ہر اس شاعر اور تخلیق کار کو بھی مارنے پر تُلے ہوئے ہیں جسے قاری دل و جان سے پسند کرتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں صرف چند حقیقی، عالم، شریف النفس اور مظلوم اساتذہ ہوتے ہیں ورنہ زیادہ تر نالائق، چوکس، اوور ایکٹو، چرب زبان، جھوٹے اور احساس کمتری کے مارے ہوئے ہوتے جن کے پیش نظر سوائے ذاتی مفاد کے کچھ نہیں ہوتا کسی علمی، ادبی، سماجی سچائی یا ذمے داری کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ان کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ خاص طور پر مقبول شعراء سے خائف، متنفر، حسد میں مبتلاء اور ان کے دشمن ہوتے ہیں اور ان کے سامنے کمتر درجے کے اور مصنوعی تخلیق کاروں کے بڑے بڑے بت بنا کر شاگردوں کے ذہنوں میں زہر ڈالتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ادب میں تطہیر کے عمل کی اشد ضرورت ہے۔ ادب ہو یا معاشرہ جب تک فاسد مادوں کو نکال باہر نہ کیا جائے خون پرا گندہ رہتا ہے اور اگر مسلسل پراگندہ رہے تو ایک دن دل کو ہی لے ڈوبتا ہے۔ میں ادب کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں کہ جس قدر ممکن ہو سکے مصنوعی ادیبوں کے پروان چڑھائے گئے مغالطوں کو دور کیا جاتا رہنا چاہئیے۔

غلام محمد قاصر اور ظفر اقبال کے موازنے کو اس سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جائے تو مکالمہ گزشتہ سے پیوستہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ٹو بی کنٹینیوڈ بھی۔

ظفر اقبال کے بارے میں مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ حضرت یقیناً اپنے سے چھوٹی عمر والے شاعروں سے عمر میں بڑے شاعر ہیں ورنہ شاعری میں جہاں شکیب جلالی، احمد فراز، سلیم کوثر، صابر ظفر، رام ریاض، عدیم ہاشمی اور غلام محمد قاصر جیسے تخلیقی جنات کھڑے ہوں وہاں چھوٹے موٹے کرتب کار چھلاووں کا ذکر کرنا بھی ادبی بد دیانتی یا نالائقی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعری کا بنیادی وصف ہی کیفیات دل اور لطیف احساسات کا جمالیاتی اظہار ہے اور الحمد للہ ظفر اقبال بطور شاعر اس بنیادی وصف سے ہی محروم ہیں۔ ایک بات ذہن نشین رہنی ضروری ہے کہ زندگی ہو یا ادب اس میں مستقل اور مسلسل عمل کردار کہلاتا ہے نہ کہ کبھی کبھار حادثاتی طور پر سر زد ہونے والا کوئی عمل۔ لہٰذا ظفر اقبال کے ہاں کہیں کوئی کسی کیفیت کا حامل شعر مل بھی جائے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو گا کہ موصوف کیفیات کے شاعر ہیں۔ اسی طرح غلام محمد قاصر کے ہاں کہیں کو بیانیہ یا سپاٹ شعر نظر آ جائے تو اس کا بھی ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان کی ساری شاعری ہی سٹیٹمینٹل ہے۔ غلام محمد قاصر کے ہاں صرف اداسی ہی ایسا ایسا بھیس بدل کر آئی ہے اور ایسی ایسی شدت کے ساتھ آئی کہ لگتا ہے قاری کے سینے سے دل نکال کے لے جائے گی۔ جس طرح ظفر اقبال نے ایسا ایسا ماہرانہ کالم لکھا ہے کہ لگتا ہے پڑھنے والے کی جیب سے پیسے نکال کے لے جائے گا اور ہر طرف سے واہ واہ کی جگہ بھاگ لگے رہن بھاگ لگے رہن کا شور سنائی دینے لگے گا۔ چلیے بات ان کے سب سے مقبول شعر سے شروع کرتے ہیں۔۔

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا

یا پھر زیادہ سے زیادہ اسی مزاج سے ملتا جلتا یہ شعر

تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی

عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

ظفر اقبال کے ہاں یہ اشعار اپنی نوعیت، فضا اور مزاج کے حوالے سے اِکا دُکا اور تنہا اشعار ہیں۔ ظفر اقبال کے پاس اس مزاج کا تسلسل موجود ہی نہیں اور اگر ظفر اقبال کا کوئی اسلوب ہے تو یہ اشعار ان کے اسلوب کے ہرگز نہیں بلکہ ان اشعار پر احمد فراز اور عدیم ہاشمی کی پرچھائیں اتنی گہری ہے کہ اگر کسی لاعلم کو یہ شعر عدیم ہاشمی یا احمد فراز کا کہہ کر سنا دیا جائے تو وہ فوراً ایمان لے آئے گا جبکہ غلام محمد قاصر کا سب سے مقبول شعر کسی کے سامنے رکھا جائے تو ہر خاص و عام کہہ اٹھے گا کہ روایت کے تاج میں ایک جدید شاعر کے حصے کا نیا پر سجانا اسے کہتے ہیں۔

تم ناحق ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

اور پھر یہی نہیں کہ شعر ظفر اقبال کی طرح تخلیقی و جمالیاتی غربت کے باعث پوری شاعری میں اکیلا رہ جائے گا بلکہ غلام محمد قاصر کے تخلیقی ساگر کا تموج اپنے کیفیاتی وفور کا ثبوت دیتا کناروں سے اچھل اچھل کر ساحل پر خوبصورت شعروں کی جھالریں اگاتا چلا جائے گا۔

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گھِستے گھِستے گھِس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

خار چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے

شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے

لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں کے ٹیلے تھے

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں پہنچا

رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے

آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمد قاصرؔ بے چارے سے کرتا بات

یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

اسی طرح دونوں کا ایک ایک اور مقبول شعر لے کر تجزیے کی کوشش کرتے ہیں۔

ظفر اقبال کا شعر ہے۔۔ ۔۔ ۔

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئیے

اور ساتھ ہی مطلع تو اتنا کلیشے ہے کہ پڑھتے ہی درجنوں اشعار یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے

یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے

شاعر نے تو اسے تماشا کہہ کر انکار کی عظمت، ہیبت اور کر و فر کو ہی ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے اور دوسرا سر بازار سے بہتر تھا سر دربار باندھ دیتے۔ بازاروں میں تو آئے دن تماشے لگتے رہتے ہیں سچ تو وہی عظیم کہلایا ہے جو سر دربار یا سر دار بولا گیا ہے۔ شاعر کا نظریہ دیکھئیے کہ جھوٹ پر مصر رہنے کو کردار بنا کر پیش کر رہا ہے حالانکہ جھوٹ پر معذرت کے ساتھ سچ کی طرح پلٹ آنا کردار ہوتا ہے۔ اس شعر سے تو سیدھا سیدھا شاعر کے بے نظریہ اور سماجی اقدار سے عاری ہونے کا تاثر ملتا ہے ورنہ اس شعر کو یوں بھی کہا جا سکتا تھا۔۔ ۔

جھوٹ بولا تھا تو اب اس کا ازالہ کیجئیے

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئیے

ان کا ایک اور مقبول لیکن انتہائی کچا اور پھیکا شعر دیکھئیے۔ میں حیران ہوں کہ لوگ ایسے شعروں کو کس طرح اعتماد کے ساتھ بڑا شعر کہہ کر پیش کرتے ہیں۔

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے

کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے

اور پھر ظفر اقبال کا ایک اور شعر جسے نا ہنجار شاعروں اور ناقدین نے پتہ نہیں کیا بنا کے رکھ دیا لیکن دیکھا جائے تو انتہائی مبہم اور بے کار سی بات کو منظوم کیا گیا ہے جو شعر بن ہی نہیں سکی۔

کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات

نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا

یہ کونسی حیات ہے اور کونسے کاغذی پھول ہیں اور بیرون شہر کیا ہوتا ہے مضافات، یا جنگل یا دیہی علاقہ اور بارش شہر سے باہر نکلنے پر ہی کیوں آئی شہر کے اندر کیوں نہیں آئی۔ کیا یہ کوئی البیرونی قسم کی بارش ہے؟۔۔

اب ایک اور شعر دیکھئیے فوری تاثر میں امیجری بناتا ہوا شعر ہے لیکن چونکہ اس کے پس منظر میں نہ کوئی خیال کار فرما ہے نہ احساس اس لیے صرف ایک مختلف شعر ہونے کا دھوکہ سا تو پیدا ہوتا ہے لیکن تاثر دیر تک قائم رہنے کی بجائے مبہم ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آسماں پر تصویر بنانے سے وہ ایک ہی طرف رہتی ہے اور ایک ہی طرف لگتی ہے چاروں طرف ردیف نبھانے کے لیے جڑ دیا گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔

آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر

کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

یہی شعر اگر میں نے کہا ہوتا تو صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر میں احساس، خیال اور تخلیقی استدلال کی شدتیں بھر دیتا۔۔

اپنے دل پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر

کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اگر ہم ان کے فضول شعروں کو نکال کے مشاقی سے بنائے گئے مصنوعی لیکن بظاہر جدید اشعار کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے بات کریں تو غزل کو نیا کرنے کے دعوے کے ساتھ ان کا اپنا رنگ اور اسلوب بھی جاتا نظر آتا ہے اور فکری سطح پر ان کی شاعری میں ویسے ہی کچھ نہیں ہے کہ کہیں کوئی بڑا خیال یا بڑا سوال نظر آئے۔ ہر شعر میں منفرد شعر کا ایک شک کرئیٹ کیا گیا ہے۔ پہلی قرأت میں لگتا کہ کچھ مختلف بات ہے لیکن اگر آپ اس پر غور کریں گے تو پیاز کے چھلکوں کی طرح چھلکے کے نیچے سے بھی چھلکا ہی نکلے گا۔ بڑی شاعری ویسے بھی مربوط فکر اور شدت احساس کے بغیر ممکن ہی نہیں جبکہ ظفر اقبال کی شاعری ان دونوں بنیادی عناصر سے محروم ہے۔

اب ذرا غلام محمد قاصر کا دوسرا مقبول شعر سامنے رکھتے ہیں

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ظفر اقبال اور غلام محمد قاصر کے ان اشعار میں شعریت اور شعری جمالیات کا تو خیر موازنہ ہی نہیں بنتا موضوع اور مضمون کی سطح پر بھی فرق نہایت واضح ہے۔ ظفر اقبال کے شاعری میں شاعر ایک نہایت چابکدست پراعتماد اور گھاگ قسم کا گُرگ باراں دیدہ نظر آتا ہے جب کہ غلام محمد قاصر کی شاعری میں نظر آنے والا انسان ایک معصوم پاکیزہ، سہما ہوا، اداس اور ہمدرد شاعر نظر آتا ہے جس کا نظریۂ حیات سچائی، محبت اور امن کی بنیاد پر استوار ہے۔

ظفر اقبال کی شاعری میں نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی ان کی شاعری میں خیال اور الفاظ کے درمیان کہیں ربط بن ہی نہیں سکا۔ یعنی ظفر اقبال کے وہ معدودے چند اشعار جو کوٹ کیے جاتے ہیں ان کے لسانی تشکیلات کے موقف کے بالکل برعکس ہیں اور صاف صاف شکیب جلالی، احمد فراز اور عدیم ہاشمی کا لہجہ لیے ہوئے ہیں جبکہ ان کی لسانی تشکیلات کا چرچا صرف انہیں شعراء تک محدود ہے جن کو ظفر اقبال کے اخباری کالم میں اپنی تعریف مقصود ہوتی ہے۔

جبکہ غلام محمد قاصر کے مقبول اشعار کی قرأت کا لطف اور بڑھ جاتا ہے جب انہیں پوری غزلوں کے اندر پڑھا جائے۔

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا

وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے

وہ ماہ رخ جو لب بام بھی نہیں آتا

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر

جدھر حباب تہی جام بھی نہیں آتا

چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے

اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ظفر اقبال کی لسانی تشکیلات والے اشعار میں شاید ایسی لسانی تشکیل تو مل جائے جو غزل، نظم، نثر یا کسی بھی صنف میں زبان کی ماں بہن ایک کر کے کی گئی ہو جو کہ ایک نہایت معمولی نوعیت کا کام ہے لیکن اسے غزل میں تبدیلی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ یہی الفاظ کسی بھی صنف میں ڈال کے اسے خراب کیا جا سکتا ہے یہ غزل کا تجربہ کیسے ہو گیا اور یہ نہ تو کوئی مشکل کام ہے نہ سنجیدہ۔ کچھ سال پہلے فیصل آباد کے دو تین شعراء نے ڈفر اقبال کے نام سے مذاق مذاق میں پورا شعری مجموعہ دے مارا تھا۔

دوسری طرف غلام محمد قاصر کے ہاں غزل کا مزاج ان کے ہمعصر شعراء سے مختلف ہے بلکہ اسے غلام محمد قاصر کا منفرد اسلوب کہنا زیادہ صائب ہو گا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ غلام محمد قاصر فطرت کی طرف سے ان تمام بنیادی صفات کا حامل ہے جو کسی شاعر کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہیں۔ عشق محبت، خواہشیں، خواب، خوف، اندیشے، حسرتیں، ہجر و وصال، اداسی، محرومی، مایوسی، مجبوری، بے بسی، بے چینی اور یتیمی یہ تمام ایسی ذہنی حالتیں ہیں جو کسی بھی تخلیق کار کے اندر وہ تموج وہ جوار بھاٹا اور وہ طوفان پیدا کرتی ہیں جو شعر کی تخلیق کے بیج کا کام کرتی ہے اور پھر قلبی واردات کی حالت اس بیج کی پرورش کر کے اسے بڑا کرتی ہے جسے زبان، مشاہدہ، مطالعہ اور شعری ریاضت شعر کے روپ میں صفحۂ قرطاس پر لے آتی ہے۔ غلام محمد قاصر کے ہاں بہت کم ایسا ہے کہ انہیں قافیے اور ردیف کے امکانات مصرعے کا سجھاوا دیتے ہوں بلکہ قافیہ ردیف خود کیفیت اور خیال کی تائید میں ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں۔ غلام محمد قاصر قافیے اور ردیف اکٹھے کر کے غزل نہیں بناتا بلکہ اس کا تخلیقی اضطراب اسے قافیے اور ردیف سے اتنا بے نیاز رکھتا ہے کہ اسے تلازمہ گھڑنے یا بنانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اس کے شعروں میں پائی جانے والی بے ساختگی دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سب کچھ بنا بنایا اس کے دل پر اترتا ہے اور صفحے پر متمکن ہو جاتا ہے۔

اشعار دیکھئیے۔۔ ۔۔

وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں

تو ہم بھی سیر سماوات چھوڑ دیتے ہیں

۔۔ ۔۔ ۔۔

پہلے اک شخص میری ذات بنا

اور پھر پوری کائنات بنا

حسن نے خود کہا مصور سے

پاوں پر میرے کوئی ہاتھ بنا

۔۔ ۔۔ ۔۔

لطیف احساسات کو شعروں میں ڈھالنے کی عطاء سے سرشار اور ہنر سے آشنا غلام محمد قاصر اپنے عصر سے بھی اتنی ہی درد مندی کے ساتھ جڑا ہوا ہے جتنا کہ وہ اپنے باطنی اندوہ سے۔۔ ۔۔ ۔

یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے

حسین خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگ میل سے

مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی

قاتل کو آج صاحب دستار مان کر

دیوار عدل اپنی جگہ سے سرک گئی

۔۔ ۔۔ ۔۔

بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے

زندگی سے یہ مرا دوسرا سمجھوتا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ہو سکتا ہے کسی وقت ظفر اقبال کو یہ خیال آ جائے کہ اپنے فطری میلان کو تعظیم دینے کی بجائے افتخار جالب کی لا شعر والی لائن پر چل کر انہوں نے اپنا نقصان تو کیا ہی ساتھ ساتھ جدید شاعری کے نام پر بے رس بے کیف اور بے روح شعر گھڑ گھڑ کے ادب کے طالب علموں کو گمراہ بھی کیا۔ رب تعالیٰ آپ کو خضر عمر عطاء کرے آج نتیجہ کیا نکلا ہے کہ آپ زندہ ہیں لیکن شاعری میں زندہ رہنے کے لیے آپ کو کترینہ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور غلام محمد قاصر کو ہم سے بچھڑے برسوں بیت گئے ہیں لیکن ان کی زندہ و تابندہ شاعری خود غلام محمد قاصر کی تخلیقی آفاقیت کے ساتھ ساتھ اپنے قاری میں بھی زندگی کی لہر پھونکتی جا رہی ہے۔ یہی فرق ہوتا ہے مصنوعی اور حقیقی شاعری میں۔

آخر میں اس شعر کو بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے مضمون کو ختم کرتا ہوں جس میں شعر کو مقصد حیات بنا لینے والے شاعر نے اپنے نظریہ شعر اور نظریہ حیات دونوں کا وا شگاف اعلان کیا ہے۔۔ ۔۔

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے