غزل ۔۔۔ ظفر اقبال

 

روزہ کیا کھولا پانی میں

پانی ہی بولا پانی میں

 

لہریں تھیں چالاک نہر کی

ڈوب گیا بھولا پانی میں

 

میرے بہت قریب سے گزرا

پانی کا گولہ پانی میں

 

جل پری تھی بس ایک اکیلی

مگرمچھ سولہ پانی میں

 

پانی کی فطرت نہیں بدلی

رنگ بہت گھولا پانی میں

 

مجبوراً پیتے ہیں ملا کر

ہم کوکا کولا پانی میں

 

خود میری آنکھوں کے آگے

اُڑا کوئی شعلہ پانی میں

 

نہا رہی خوش طبع لڑکیاں

ٹولے کا ٹولہ پانی میں

 

آپ ظفرؔ ساحل پہ کھڑا تھا

اُس کا ہنڈولہ پانی میں

٭٭٭

تشکر: دال دلیہ کالم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے