غزل ۔۔۔ صوبے سنگھ سجان

 

کچھ بھی ہو، اپنے مسیحا کو بڑا رکھتا ہے

آدمی اپنی ہی مرضی کا خدا رکھتا ہے

 

وہ سرعام حقیقت سے مکر جائے گا

گرگٹوں جیسی بدلنے کی ادا رکھتا ہے

 

تم غریبی کو تو انسان کا گہنا سمجھو

جو پھٹے حال ہے وہ لب پہ دعا رکھتا ہے

 

ظلم پر ظلم جو کرتا ہے یہاں دنیا میں

اس کے حصے میں بھی بھگوان سجا رکھتا ہے

 

مار کے کنڈلی، خزانے پہ اکیلا بیٹھا

حق غریبوں کا یہاں سیٹھ دبا رکھتا ہے

 

ایک دن میں تجھے آئینہ دکھا دوں گا "سجان ”

میرے بارے میں جو تو خیال برا رکھتا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے