غزلیں ۔۔ ڈاکٹر وقار خان

 

۱

کسی کے دھیان میں بے دھیان بول پڑتے ہیں

کہ جیسے درد پہ درمان بول پڑتے ہیں

تُو میرے دل میں بھی رہ کر صدا رہا خاموش

یہاں پر آ کے تو بے جان بول پڑتے ہیں

یہ میرے قید نشیں نے کہا کہ بعض اوقات

مری خموشی پہ زندان بول پڑتے ہیں

میں اُس مقامِ سخن کہ طلب میں ہوں کہ جہاں

صدائے چپ ہو تو دیوان بول پڑتے ہیں

کسی کے لمس کااحساس جان ڈالتا ہے

فقط یہ گل نہیں گل دان بول پڑتے ہیں

٭٭٭

 

۲

دنیا کو اپنا بنانے سے غرض تھی ہی نہیں

اور دنیا کو دوانے سے غرض تھی ہی نہیں

بادشاہت مرے حصے میں کہاں آنی تھی

مجھے تلوار چلانے سے غرض تھی ہی نہیں

دوست کہتے تھے میں اظہار نہیں کر سکتا

اور مجھے حال سنانے سے غرض تھی ہی نہیں

ہم نے تاریخ کا احساں نہ لیا تیری طرح

ہم کو تو نام کمانے سے غرض تھی ہی نہیں

گزری تہذیبوں کو پڑھ پڑھ کے ہوا وہ ناکام

جسے موجودہ زمانے سے غرض تھی ہی نہیں

زندہ جانا تھا مجھے جنگ سے اُس کی خاطر

ورنہ تو جیت کے جانے سے غرض تھی ہی نہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے