غزلیں ۔۔۔ عرفان عابدؔ

سچ مٹا تو جھوٹ کا اک سلسلہ رہ جائے گا

وقت کی تاریخ میں یہ سانحہ رہ جائے گا

 

شہر میں انسان سب بن جائیں گے جب جانور

تو یہاں رہنے کے لائق اور کیا رہ جائے گا

 

تیل اور باتی کریں گے اس کی لو کا قتل پھِر

جو دیا طوفان کے آگے کھڑا رہ جائے گا

 

جس قدر ممکن ہو قاتل خود کو دھو ڈالے مگر

اک نہ اک دھبہ بدن پر خون کا رہ جائے گا

 

بیچ دیں گے یہ وہ سب کچھ جو نہ بکنا چاہیے

اور زمانہ تاجروں کو کوستا رہ جائے گا

 

دن گزر جائیں گے بجلی کی طرح اور آدمی

عمر اپنی انگلیوں پر جوڑتا رہ جائے گا

 

ہَم جدا ہو کر دوبارہ مل تو سکتے ہیں مگر

درمیاں دونوں کے شاید فاصلہ رہ جائے گا

 

میرا چہرہ اس کی آنکھوں میں نہ ہو گا عمر بھر

عکس مٹ جائے گا، خالی آئینہ رہ جائے گا

 

ہَم نہ ہوں گے تو ہمیں ڈھونڈے گی منزل بار بار

ٹھوکریں کھاتا سفر میں راستہ رہ جائے گا

 

چلتے چلتے میں تو عابدؔ ٹوٹ کر گر جاؤں گا

میری مٹّھی میں مرے گھر کا پتا رہ جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

جس شخص کو خودی نے جھنجھوڑا ہے، دوستو

وہ جو بھی کر دکھائے سو تھوڑا ہے، دوستو

 

اُس ہی پہ کھُل سکا ہے فقط رازِ کائنات

جس نے طلسمِ ذات کو توڑا ہے، دوستو

 

امواجِ دشمناں کی بھلا کیا بساط ہے

ہَم نے تو رخ ہواؤں کا موڑا ہے، دوستو

 

انساں نے قتل و جنگ سے پائی ہے جب نجات

رشتہ زمیں کا چاند سے جوڑا ہے، دوستو

 

سمجھو کہ ان کی عمر سے اک روز گھٹ گیا

کل پر جنہوں نے کام کو چھوڑا ہے، دوستو

 

چل دیں جو ایک بار تو منزل نہیں ہے دور

سستی ہی اپنی راہ کا روڑا ہے، دوستو

 

کیوں کر سخن اثر نہ کرے، حرف حرف میں

عابؔد نے دِل کا خون نچوڑا ہے، دوستو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے