غزلیں ۔۔۔ عرفان ستار

تمہارا نام سر ِ لوح ِ جاں لکھا ہُوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاض ِ سخن
حساب ِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیل ِ شہر پہ شہر ِ اماں لکھا ہُوا ہے

ملی ہے اہل ِ جنوں کو جہاں بشارت ِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟

یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوح ِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے

تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟

جناب ِ شیخ، یہاں تو نہیں ہے آپ کا ذکر
ہمارے نسخے میں پیر ِ مغاں لکھا ہوا ہے

یہ کائنات سراسر ہے شرح ِ راز ِ ازل
کلام ِ حق تو سر ِ کہکشاں لکھا ہوا ہے

میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے

جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتاب ِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنام ِ خواب ِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے

عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حساب ِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
٭٭٭

ہونے کا اظہار نہیں ہے، صرف خیال میں زندہ ہوں
عمر کا کچھ احوال نہیں ہے، اور مآل میں زندہ ہوں

ٹھیک ہے میرا ہونا تیرے ہونے سے مشروط نہیں
لیکن اتنا یاد رہے میں ایک ملال میں زندہ ہوں

اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہُوا
پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں

دنیا میری ذات کو چاہے رد کر دے، تسلیم کرے
میں تو یوں بھی تیرے غم کے استدلال میں زندہ ہوں

ایک فنا کی گردش ہے یہ ایک بقا کا محور ہے
ایک دلیل نے مار دیا ہے، ایک سوال میں زندہ ہوں

اک امکان کی بے چینی سے ایک محال کی وحشت تک
میں کس حال میں زندہ تھا اور میں کس حال میں زندہ ہوں

کتنی جلدی سمٹا ہوں میں وسعت کی اُس ہیبت سے
کل تک عشق میں زندہ تھا میں، آج وصال میں زندہ ہوں
‎٭٭٭

آج بام ِ حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر اے دیدہ ور، میں بھی تو ہوں

بے اماں سائے کا بھی رکھ باد ِ وحشت کچھ خیال
دیکھ کر چل درمیان ِ بام و در میں بھی تو ہوں

تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بدر
اپنی خاطر ہی سہی پر دربدر میں بھی تو ہوں

دشت ِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا
اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہم سفر میں بھی تو ہوں

رات کے پچھلے پہر پُر شور سنّاٹوں کے بیچ
تُو اکیلی تو نہیں اے چشم ِ تر، میں بھی تو ہوں

خود پسندی میری فطرت کا بھی وصف ِ خاص ہے
بے خبر تُو ہی نہیں ہے بے خبر میں بھی تو ہوں

سُن اسیر ِ خوش ادائی، منتشر تُو ہی نہیں
میں جو خوش اطوار ہوں زیر و زبر میں بھی تو ہوں

دیکھتی ہے جُوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے، بے ہُنر، میں بھی تو ہوں

کوزہ گر، بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہوں

یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی، مگر میں بھی تو ہوں

سمجھوتہ کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں
اب ترک ِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں

پل بھر کے لیے کوئی سماعت ہو میّسر
بے صوت و صدا جاں سے گزرنے کا نہیں میں

زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر
اک تیرے کہے سے تو ٹھہرنے کا نہیں میں

کل رات عجب دشت ِ بلا پار کیا ہے
سو باد ِ سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں

اب چشم ِ تماشا کو جھپکنے نہیں دینا
اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں

کیوں مملکت ِ عشق سے بے دخل کیا تھا
اب مسند ِ غم سے تو اترنے کا نہیں میں

ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ
اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشم ِ تر ہمارا

بس گاہ گاہ لے آ، خاک ِ وطن کی خوشبو
اے باد ِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا

ہیں بزم ِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا

ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا

اتمام ِ دل خراشی، اسلوب ِ سینہ چاکی
اظہار ِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا

اک سعئ ِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا

پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا

دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا

ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
٭٭٭

کہے دیتا ہوں، گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی
تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی

بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے
کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی

رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر
اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی

بس اپنی اپنی ترجیحات، اپنی اپنی خواہش ہے
تجھے شہرت کمانے کی، مجھے اک شعر کہنے کی

سخن کرتے تھے پہروں کائناتی مسئلوں پر ہم
مگر وہ بات اب کرتی ہے بس کپڑے کی، گہنے کی

جہاں کا ہوں، وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو
یہ دنیا بھی بھلا کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی؟

جو کل عرفان پر بیتی سنا کچھ اُس کے بارے میں؟
خبر تم نے سُنی طوفان میں دریا کے بہنے کی؟
٭٭٭

دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلب ِ حزیں کا نہیں رہا

دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا

تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا

سارا وجود محو ِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا

پاس ِ خرد میں چھوڑ دیا کوچۂ جنوں
یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا

وہ گردباد ِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا

اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا

میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرش ِ بریں کا نہیں رہا

ہر ذرۂ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا

آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکان ِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا

عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
٭٭٭

One thought on “غزلیں ۔۔۔ عرفان ستار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے