غزلیں ۔۔۔ عالم خورشید

جانے والوں کے  نام

 

 

یہاں سے روٹھ کے شاید کہیں چلے گئے ہیں

سرائے دل میں تھے جتنے مکیں چلے گئے ہیں

 

زمیں کی آب و ہوا میں نہ سانس لے پائے

خلا کی سیر کو اہل زمیں چلے گئے ہیں

 

بھٹک کے راستہ آئے تھے خاکداں کی طرف

پھر آسماں پہ ستارہ جبیں چلے گئے ہیں

 

خیال و خواب میں جنت بسائے بیٹھے تھے

اسی تلاش میں سب ہم نشیں چلے گئے ہیں

 

عزیز ان کے یہاں بھی تھے اور وہاں بھی تھے

کسی سے دور، کسی کے قریں چلے گئے ہیں

 

بدل کے راستہ اپنا اب ایک ہی جانب

ملائے ہاتھ یسار و یمیں چلے گئے ہیں

 

اسیر وہم و گماں ہو گئے بچے ہوئے لوگ

کہ ساتھ چھوڑ کے اہل یقیں چلے گئے ہیں

 

نظر جو آتا ہے سایہ وہ ہم نہیں عالم

کہ اب کے ہم بھی یہاں سے کہیں چلے گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ہوا ہے فیصلہ اب سارے باغبانوں میں

بچے نہ کوئی بھی بلبل ان آشیانوں میں

 

سروں کے پیچھے ہیں آنکھیں، قدم بھی الٹے ہیں

ملی تھی پہلے یہ مخلوق داستانوں میں

 

کوئی بھی سایہ کہیں اب نظر نہیں آتا

یہ کیسے لوگ بسے ہیں نیے مکانوں میں

 

عجیب شہر ہے گلدستے لا رہے ہیں لوگ

اگرچہ زہر بھرا تھا مرے بیانوں میں

 

حواس اپنے ٹھکانے لگے نہیں شاید

لگی ہے بھیڑ ابھی خواب کی دکانوں میں

 

مری زمیں کے مسائل مجھے نہ تنگ کرو

ابھی میں سیر کو نکلا ہوں آسمانوں میں

 

ٹھہر بھی جاؤ ذرا آندھیو! ٹھہر جاؤ

ابھی دبے ہیں شرارے بھی خاک دانوں میں

 

اب اور کتنا کروں صبراے مری مٹی!

شمار ہونے لگا میرا بے زبانوں میں

 

فریب کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے ہمیں

سو خود ہی جاتے ہیں عالم فریب خانوں میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے