غزلیں ۔۔۔ ظفرؔ گورکھپوری

 

کتنوں ہی کے سر سے سایہ جاتا ہے

جب اک پیپل کاٹ گرایا جاتا ہے

 

دھرتی خود بھی کھا جاتی ہے فصلوں کو

چڑیوں پر الزام لگایا جاتا ہے

 

پیاسوں سے ہمدردی رکھی جاتی ہے

بادل اپنے گھر برسایا جاتا ہے

 

جب شخصیت آوازوں کی تابع ہو

بے مقصد بھی شور مچایا جاتا ہے

 

دل کے سو سو ٹکڑے جب ہو جاتے ہیں

تب تھوڑا سا درد کمایا جاتا ہے

 

جھوٹے سچے خواب خریدے جاتے ہیں

پیڑھی پیڑھی قرض چکایا جاتا ہے

 

بھائی ظفرؔ پہلے جیتو اس کا وشواس

دھیرے دھیرے رنگ جمایا جاتا ہے

٭٭٭

 

 

مِرا قلم، مِرے جذبات مانگنے والے

مجھے نہ مانگ، مِرا ہاتھ مانگنے والے

 

یہ لوگ کیسے اچانک امیر بن بیٹھے

یہ سب تھے بھیک مِرے ساتھ مانگنے والے

 

اٹھا سکے گا نہ سینے پہ یہ سیاہ پہاڑ

کچھ اور مانگ مِری رات مانگنے والے

 

سکون دے گیا شاید انہیں کھُلا میدان

خموش کیوں ہیں مکانات مانگنے والے

 

تُو اپنے دشت میں پیاسا مَرے تو اچھا ہے

سمندروں سے عنایات مانگنے والے

 

کچھ اپنے خون کی سرخی کا اعتبار بھی کر

شفق سے رنگ کی خیرات مانگنے والے

٭٭٭

 

 

دھوپ ہے کیا اور سایہ کیا ہے اب معلوم ہوا

یہ سب کھیل تماشا کیا ہے، اب معلوم ہوا

 

ہنستے پھول کا چہرہ دیکھوں اور بھر آئے آنکھ

اپنے ساتھ یہ قصہ کیا ہے، اب معلوم ہوا

 

ہم برسوں کے بعد بھی ان کو اب تک بھول نہ پائے

دل سے ان کا رشتہ کیا ہے، اب معلوم ہوا

 

صحرا صحرا پیاسے بھٹکے ساری عمر جلے

بادل کا ایک ٹکڑا کیا ہے، اب معلوم ہوا

٭٭٭

 

 

اشکِ غم آنکھ سے باہر بھی نہیں آنے کا

ابر چھٹ جائیں وہ منظر بھی نہیں آنے کا

 

اب کے آغازِ سفر سوچ سمجھ کے کرنا

دشت ملنے کا نہیں، گھر بھی نہیں آنے کا

 

ہائے، کیا ہم نے تڑپنے کا صِلہ پایا ہے

ایسا آرام جو آ کر بھی نہیں آنے کا

 

عہدِ غالب سے زیادہ ہے مِرے عہد کا کرب

اب تو کوزے میں سمندر بھی نہیں آنے کا

 

سبزہ دیوار پہ اُگ آیا ظفرؔ ، خوش ہو لو

آگے آنکھوں میں یہ منظر بھی نہیں آنے کا

٭٭٭

 

 

زندگی نے مجھے سوغات انوکھی دی ہے

تیشہ اک ہاتھ میں، اک ہاتھ میں سنبی دی ہے

 

کون جانے کہ ہوس جسم سے کیا کیا لے جائے

چور کے ہاتھ میں صندوق کی کنجی دی ہے

 

کتنی آسانی سے مشہور کِیا ہے خود کو

میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دی ہے

 

زندگی دی ہے مجھے آگ کے دریا کی طرح

پار اترنے کے لئے موم کی کشتی دی ہے

 

بے تحاشا میں تیرے گھر کی طرف بھاگا ہوں

ان مشینوں نے ذرا دیر جو چھٹی دی ہے

 

کیسے بھیگے ہوئے ہاتھوں سے سنبھالو گے ظفرؔ

اس نے کاغذ پہ بنا کر تمہیں تتلی دی ہے

٭٭٭

 

 

ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی

 

ملا کے نظروں کو والہانہ حیا سے پھر

جھکا لے کوئی نظر تو سمجھو غزل ہوئی

 

اِدھر مچل کر انہیں پکارے جنوں میرا

دھڑک اٹھے دل اُدھر تو سمجھو غزل ہوئی

 

اداس بستر کی سلوٹیں جب تمہیں چُبھیں

نہ سو سکو رات بھر تو سمجھو غزل ہوئی

 

وہ بدگماں ہوں تو شعر سُوجھے نہ شاعری

وہ مہرباں ہوں ظفرؔ تو سمجھو غزل ہوئی

٭٭٭

 

 

دن کو بھی اتنا اندھیرا ہے مِرے کمرے میں

سایہ آتے ہوئے ڈرتا ہے مِرے کمرے میں

 

غم تھکا ہارا مسافر ہے چلا جائے گا

کچھ دنوں کے لیے ٹھہرا ہے مِرے کمرے میں

 

صبح تک دیکھنا افسانہ بنا ڈالے گا

تجھ کو ایک شخص نے دیکھا ہے مِرے کمرے میں

 

دربدر بھٹکتا ہے دن کو تصور میرا

ہاں مگر رات کو رہتا ہے مِرے کمرے میں

 

چور بیٹھا ہے کہاں، سوچ رہا ہوں میں ظفرؔ

کیا کوئی اور بھی کمرہ ہے مِرے کمرے میں

٭٭٭

 

 

مِرا قلم، مِرے جذبات مانگنے والے

مجھے نہ مانگ مِرا ہاتھ مانگنے والے

 

یہ لوگ کیسے اچانک امیر بن بیٹھے

یہ سب تھے بھیک مِرے ساتھ مانگنے والے

 

اٹھا سکے گا نہ سینے پہ یہ سیاہ پہاڑ

کچھ اور مانگ مِری رات مانگنے والے

 

سکون دے گیا شاید انہیں کھلا میدان

خموش کیوں ہیں مکانات مانگنے والے

 

تُو اپنے دشت میں پیاسا مَرے تو اچھا ہے

سمندروں سے عنایات مانگنے والے

 

کچھ اپنے خون کی سرخی کا اعتبار بھی کر

شفق سے رنگ کی خیرات مانگنے والے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے