عقیدوں کے چراغ ۔۔۔ دیپک بُدکی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاسپورٹ ایشو ہونے کے لیے مثبت پولیس رپورٹ کا ملنا ضروری تھا۔ سچے مسلمان کے لیے عید کا چاند اور پولیس کی رپورٹ دونوں صبر آزما ہوتے تھے۔ آسام کے ایک دور دراز علاقے میں برکت علی کی آنکھیں دیدارِ حرمین شریفین کے لیے کب سے ترس رہی تھیں۔

اس سلسلے میں پولیس کے ایک سپاہی نے گھر کے دروازے پر ایک روز دستک دی۔ گھر کیا تھا۔ سادگی اور فروتنی کا نمونہ! یک منزلہ، بانس کا ڈھانچہ، بانس کی چھت، اینٹوں کی دیواریں اور مٹی کا پلستر۔ ہر سو ہریالی، بانس کے جھنڈ، کیلے، لیچی، سنترے، اور لیموں جگہ جگہ اُگے ہوئے۔ دوچار چھتنار درخت بھی تھے جن کی شاخوں سے آرکِڈ کے خوبصورت رنگ برنگے پھول لٹک رہے تھے۔ دل کو موہ لینے والی بھینی بھینی خوشبو ہر آنے جانے والے کا استقبال کرتی تھی۔

تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا۔ اس کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی عورت کھڑی تھی جو پولیس والے کو دیکھ کر گھبرا رہی تھی۔ روایتاً پولیس کا گھر میں آنا کسی کو اچھا نہیں لگتا اور پھر آسام ایجی ٹیشن کے بعد تو حالات اس قدر بگڑ گئے تھے کہ کسی پر بھروسہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ مہاجروں، در اندازوں اور دہشت گردوں کی دھر پکڑ ہر روز سننے میں آتی ہے۔ وہ ہچکچائی اور ارتعاش زدہ لہجے میں پوچھنے لگی: ’’ کہیے کسے ڈھونڈ رہے ہیں آپ ؟‘‘

’’ محترمہ، کیا برکت علی چودھری یہیں رہتے ہیں ؟ ‘‘

’’ جی ہاں، ان سے کیا کام ہے ؟‘‘

’’ میں پولیس تھانے سے پاسپورٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے آیا ہوں۔ پاسپورٹ ایشو کرنے سے پہلے پولیس جانچ پڑتال ضروری ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ اندر تشریف لائیے، میں انھیں بلاتی ہوں۔ ‘‘

سپاہی اندر آ کر صوفہ نما کرسی پر بیٹھ گیا۔ اپنی چاروں طرف نظر دوڑائی، در و دیوار سے سادگی، پاکیزگی اور قناعت ٹپک رہی تھی۔ دیواروں پر خانۂ کعبہ اور آیات قرآنی کی کئی تصویریں لٹک رہی تھیں۔ کچھ ذاتی فوٹو بھی تھے جن میں گاندھی، نہرو اور ابو الکلام آزاد کے ساتھ برکت علی کھڑا نظر آ رہا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تینوں لیڈر جنگ آزادی کے دوران آسام آئے تھے۔ برکت علی کی جوانی کے دن تھے، دن رات انگریزوں کے خلاف مہم جوئی میں لگا رہتا تھا، کبھی ستیہ گرہ، کبھی پِکیٹنگ اور کبھی جلسے جلوس۔ جب انگریز چلے گئے تو برکت علی و اپس اپنے کام میں جُٹ گیا اور قوم سے اپنی قربانیوں کا معاوضہ لینے سے انکار کر لیا۔ نوگاؤں اسلامیہ سیکنڈری سکول میں مدرس تھا اور معقول تنخواہ ملتی تھی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کر لی مگر وہ بھی رحمت حق ہو گئی۔ اس وقت برکت علی کی عمر پچپن سال تھی۔ تب سے مجرد زندگی گزار رہا تھا۔ پہلی بیوی کے بطن سے جنمے تینوں بچوں نے اپنے چولھے الگ کر لیے تھے جب کہ دوسری بیوی کی اولاد ساتھ میں رہتی تھیں۔ دونوں پڑھ لکھ کر روزگار کی تلاش میں تھے۔

دریں اثنا برکت علی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھا تا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور پولیس والے کے سامنے بیٹھ گیا۔ عمر رسیدہ، باریش، گول چہرہ، چوڑا اُبھرا ہوا ما تھا، دھنسی ہوئی ترچھی آنکھیں، منگولی ناک، دبلے پتلے ہونٹ، پیشانی پر بے شمار تفکر کی شکنیں، کھادی کا بے داغ سفیدکرتا و پاجامہ اورسر پر سفید کلاہ، سرتاپاعزم و تیقن کی مورت لگ رہا تھا۔ بیٹھتے ہی اس نے وردی پوش سے سوال کیا۔ ’’ جناب کیسے آنا ہوا؟‘‘

’’آپ کے پاسپورٹ کے سلسلے میں کچھ جانچ کرنی ہے۔ ‘‘ پولیس والے نے سامنے رکھی ہوئی میز پر چند کاغذات قرینے سے رکھ دیے۔ کچھ لکھنے سے پہلے اس نے سوال داغا: ’’ آپ کا نام ؟‘‘

’’ جناب میرا نام برکت علی چودھری ہے۔ ‘‘

’’ آپ کے والد کا نام؟‘‘

’’ ان کا نام مظفر علی چودھری (مرحوم) تھا۔ ‘‘

’’آپ آسام کے مستقل باشندے ہیں ؟ ‘‘

’’ جی ہاں، ہمارا خاندان کئی پشتوں سے یہاں رہتا ہے۔ میں یہیں نوگاؤں میں پیدا ہوا ہوں، مقامی سکول میں ملازمت کرتا تھا اور اب سبکدوش ہو چکا ہوں۔ ‘‘

’’ آپ کی تاریخ ولادت؟‘‘

’’ ۳۰؍ جنوری ۱۹۳۰ء‘‘

’’ مطلب آپ کی عمر اسّی برس ہے۔ ‘‘

’’ جی ہاں ‘‘

’’ اس عمر میں آپ حج کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ پہلے کیوں نہیں گئے ؟‘‘

’’گھر کی ساری ذمہ داریاں ختم ہو چکی ہیں، اب کچھ آخرت کی فکر ہونے لگی۔ عمر بھر ایک ہی آرزو پالتا رہا کہ کسی روز خدا کے گھر کا طواف ضرور کروں گا۔ اِدھر ذرا معاشی استحکام ممکن ہو پایا اس لیے پہلا قدم یہی اٹھایا۔ ‘‘

’’ اس سے پہلے آپ نے کبھی پاسپورٹ کے لیے درخواست دی ہو، اس کی تفصیل بتا دیں۔ ‘‘

’’ جی نہیں ۔۔۔  کبھی نہیں ۔۔۔  اس سے پہلے میں نے آسام سے باہر قدم بھی نہیں رکھا۔ ‘‘

وردی پوش سپاہی اندراج کرتا رہا۔ کچھ خالی جگہیں جیسے مذہب، جنس، ذات وغیرہ اندازے سے بھر تا رہا۔ بیچ بیچ میں وہ برکت علی کی طرف متوقع نظروں سے دیکھتا رہا۔ اتنی دیر میں برکت علی کا بیٹا چائے اور ناشتہ لے کر کمرے میں وارد ہوا اور ٹرے کو سپاہی کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ ’’ انکل، پہلے چائے لے لیجیے۔ بہت دور سے آئے ہوں گے۔ شکر کم ہو تو بتا دیجیے۔ ‘‘ دریں اثنا کچھ اور بھی گفتگو ہوتی رہی جس کو بیٹا غور سے سنتا رہا۔ وہ پولیس والے کی بدنی زبان سمجھ گیا۔ اس لیے اپنے والد کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’ابو، آپ کو دو منٹ کے لیے اندر بلا رہے ہیں۔ ‘‘

پولیس والا سمجھ گیا کہ بیٹا کس غرض سے باپ کو اندر لے جا رہا ہے۔ اس کو پوری امید تھی کہ برکت علی باہر آ کر اس کے ہاتھ میں کم سے کم پانچ سو کا نوٹ تھما دے گا۔

اندر جا کر بیٹے نے والد سے کہا۔ ’’ ابو، اس پولیس والے کو پانچ سو روپے دے دیجیے۔ وہ پوچھ گچھ کے لیے کم، روپے وصولنے کے لیے زیادہ آیا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ خفیہ رپورٹ پاسپورٹ آفس بھیج دے گا۔ ‘‘

’’ شبیر، تم کیا کہتے ہو، میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔ خانۂ کعبہ کی زیارت کرنے کے لیے مجھے رشوت دینی پڑے گی کیا؟میں نے عمر بھر نہ کسی سے رشوت لی اور نہ کسی کو رشوت دی۔ ہم نے ہندستان سے انگریزوں کو کیوں نکالا، صرف اس لیے کہ وطن آزاد ہو، استحصال ختم ہو اور ہم سب ہندستانی سکھ کا سانس لے سکیں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ ہم نے قربانیاں اس لیے دی تھیں کہ انگریزوں کی جگہ مقامی غاصب ہم پر راج کریں تو پھر ہماری قربانیاں رائے گاں ہو گئیں۔ بیٹے، مجھے اپنی ایمانداری کو داؤ پر لگا کر خدا کے گھر کی زیارت کرنا منظور نہیں۔ تم نے کیسے سوچ لیا کہ تمھارا باپ اس عمر میں رشوت دے کر اپنی زندگی داغ دار بنا لے گا؟ ایسا میرے جیتے جی کبھی نہیں ہو گا۔ ‘‘ برکت علی بپھر گیا اور خشمگیں حالت میں لوٹ کر اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔

پولیس انسپکٹر گویا ہوا۔ ’’ برکت صاحب، آپ مزید کچھ فرمانا چاہتے ہوں تو بتا دیں۔ ‘‘

’’ نہیں جناب، آپ نے سب کچھ لکھ دیا۔ باقی تو کچھ بھی نہیں بچا؟ بھلا اس عمر میں اور کیا بتانے کو رہ گیا؟مرنے سے پہلے خدا کا گھر دیکھنے کی دیرینہ خواہش تھی سو فارم بھر لیا۔ اس کی مرضی ہو گی تو بلا لے گا۔ ‘‘

چائے پی کر سپاہی اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف جانے لگا۔ وہ بار بار مڑ کر برکت علی کی طرف دیکھتا رہا کہ شاید بوڑھا جیب میں ہاتھ ڈالے اور کچھ روپئے نکال کر دے۔ مگر اس نے نہ تو جیب میں ہاتھ ڈالا اور نہ ہی روپئے دینے کی کوئی کوشش کی۔ انجام کار وردی پوش اپنا سا منہ لے کرواپس چلا گیا۔

اِدھر بیٹے نے اپنے والد پر غصہ نکالا اور خشم آلود لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’’ ابو، آپ نے خواہ مخواہ اس کو خالی ہاتھ لوٹا دیا۔ اس طرح آپ کا پاسپورٹ بننے سے رہا۔ عمر بھر انتظار کرتے رہیں گے پھر بھی پاسپورٹ نہیں ملے گا۔ ‘‘

’’ ایسا نہیں ہے شبیر۔ مجھے اپنی سرکار پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ میری عرضی ضرور منظور کرے گی۔ ہر کوئی راشی نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’ ابو، نہ جانے آپ کس خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ آپ اور آپ کا یہ آدرش واد ۔۔۔ ۔ ! یہاں تو جینے کے وقت بھی رجسٹر میں نام لکھانے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں اور مرنے کے وقت بھی موت کی سرٹیفیکیٹ بنوانے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہیں۔ ہر سانس کے ساتھ پیسہ اگلنا پڑتا ہے ۔۔۔ ۔ ابو جان!پھر پاسپورٹ کے لیے تو جائز ہی ٹھہرا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاسپورٹ افسر کی تقرری کے لیے کتنی رشوت دینی پڑتی ہے ؟ لاکھوں کا لین دین ہوتا ہے تب کہیں جا کر بندے کو یہ اسامی مل جاتی ہے۔ اس کے بعد تو اُگاہی کرے گا ہی وہ۔ ‘‘

’’ شبیر مجھے تمھاری یہ بھاشا بالکل سمجھ نہیں آتی۔ نہ یہ سمجھ آتا ہے کہ کسی بھی سرکاری کام کے لیے روپئے کیوں دینے پڑتے ہیں اور نہ یہ سمجھ آتا ہے کہ مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے ہمیں رشوت کیوں دینی پڑے گی؟ میں تفریح کے لیے تو نہیں جا رہا ہوں، خدا کے گھر میں حاضری دینے جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’ ابو، وہ پولیس والا توثیق کرنے کے لیے آیا تھا۔ ہر کوئی اسے پانچ سو روپئے دیتا ہے تب جا کر وہ اپنی مثبت رپورٹ لکھ کر بھیجتا ہے۔ جب تک ان لوگوں کو کچھ ملتا نہیں، وہ رپورٹ بھیجنے میں آنا کانی کرتے ہیں۔ تب تک پاسپورٹ مانگنے والے کا کام بگڑ چکا ہوتا ہے۔

’’ بیٹے، میں مسلمان ہوں۔ اب تک اسّی سال گزارے ہیں۔ زندگی بھر انصاف اور دیانت داری سے جیتا رہا۔ معلّم ہونے کے سبب میں ہمیشہ اپنے طالب علموں کو ایمان داری اور نیکو کاری کا درس دیتا رہا۔ رشوت دے کر تو میں ان بچوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ میرا ضمیر مجھے اٹھتے بیٹھتے ملامت کرے گا۔ کل کو کوئی پوچھے، اسے کیا جواب دوں گا؟کیا یہی کہوں گا کہ وہ تو محض ایک جملہ تھا، در اصل زندگی میں سرخرو ہونے کے لیے آدمی کو خود غرض، موقع پرست اور زمانہ ساز بننا پڑتا ہے۔ نہیں مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ ‘‘ برکت علی چودھری نے دو ٹوک جواب دیا اور اٹھ کر چل دیا۔

ایک مسلمان کی سب سے بڑی آرزو کیا ہوتی ہے ؟ ارض مقدس کی زیارت کرنے کی، عرفات کے میدان کا منظر دیکھنے کی، اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں حاضری دینے کی، سفید احرام پہن کر حرم شریف کا طواف کرنے کی، لبیک اللھم لبیک اور اللہ اکبر کا ورد کرنے کی۔ اس نے سنا تھا کہ ساجد کی نیت صاف ہو تو خدا کے گھر بیت اللہ میں پہلی نظر میں جو کچھ بھی وہ مانگتا ہے اسے ضرور مل جاتا ہے۔

برکت علی انتظار کرتا رہا، حاجیوں کا جتھا حج کرنے کے لیے چلا گیا۔ اس کا ایک دوست بھی ان میں شامل تھا۔ وہ اپنے دوست کو الوداع کہنے کے لیے اس کے گھر چلا گیا۔ دوست کے چہرے پر کیا رونق تھی۔ سبھی لوگ اس کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ برکت علی نے بھی مصافحہ کیا۔ دوست نے پوچھا۔ ’’ کیا ہوا برکت علی، تم نے بھی تو درخواست دی تھی؟‘‘

’’کچھ معلوم نہیں کیا ہوا ؟ میرا تو ابھی تک پاسپورٹ بھی نہیں بنا۔ پھر حج کیسے کرتا ؟‘‘

دوست نے چاہا کہ کہہ دے ’’ تم نے وہی اپنی پرانی خصلت کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ پولیس والے کو روپے نہیں دیے ہوں گے اور اس نے رپورٹ نہیں بھیجی ہو گی۔ ‘‘مگر ماحول کچھ حد تک روحانی تھا اس لیے اس نے خاموش رہنا ہی پسند کیا۔

برکت علی کو معلوم ہوا کہ اس کا پاسپورٹ ابھی تک نہیں بنا کیوں کہ پولیس رپورٹ پاسپورٹ دفتر نہیں پہنچی تھی۔ چونکہ برکت علی نے خاص حج کے لیے ہی پاسپورٹ مانگا تھا اور حج تو کب کا اختتام پذیر ہوا تھا اس لیے پاسپورٹ افسر نے کیس ہی بند کر دیا۔ نتیجتاً برکت علی کو دوسرے سال کا انتظار کرنا پڑا۔ مگر دوسرے سال بھی ایسا ہی تماشہ دہرایا گیا۔ پھر درخواست دی گئی، ایک وردی پوش سپاہی گھر آیا، چائے پی لی، سوال پوچھے، مٹھی گرم کرنے کے لیے اشارے کیے مگر اسے بھی خالی ہاتھ واپس جانا پڑا۔ وہ فائیل بھی پولیس تھانے میں پڑی رہی اور رپورٹ پاسپورٹ دفتر نہیں پہنچی۔ اُدھر حج کی تاریخ پھر سے نکل گئی۔ اس بار بھی برکت علی چودھری مایوس ہوا۔ اس کی صحت بھی قدرے بگڑ گئی تھی۔ اب وہ سکت نہیں رہی تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ اب تو چلنے پھرنے میں بھی مشکل ہو رہی تھی۔

اس کے باوجود برکت علی نے آس نہیں چھوڑی۔ کوئی موہوم سی امید تھی جس کے باعث اسے لگتا تھا کہ کہیں تو کوئی ہو گا جو اس کی فریاد سنے گا۔ انتظامیہ کے گلیاروں میں تھک ہار کر اس نے آسام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو رجسٹری کر کے ایک خط بھیجا جس میں اس نے اپنی ساری داستان لکھ بھیجی اور پھر التجا کی کہ اگر ممکن ہو تو میرا پاسپورٹ ایشو کرنے کے لیے پاسپورٹ افسر کو ہدایت دی جائے۔ چیف جسٹس خط پڑھ کر حیران ہوا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہا کیاسی سالہ مجاہدِ آزادی پوری عمر میں ایک بار اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہتا ہے اور پولیس گذشتہ دو سال سے اس کا رپورٹ نہیں بھیج رہی ہے۔ چیف جسٹس نے پاسپورٹ افسر کو بذاتِ خود کورٹ میں حاضر ہونے کا حکم صادر کیا۔ اس کے وکیل نے بہت کوشش کی کہ وہ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جواب دے مگر جج نے نہیں مانا۔ آخر کار پاسپورٹ افسر کو خود ہی حاضر ہونا پڑا۔ اس کی صفائی سن کر اسے ایک ہفتے بعد دوبارہ حاضر ہونے کو کہا گیا اور ساتھ ہی پولیس کے متعلقہ سپرانٹینڈنٹ کو بھی حاضر ہونے کے لیے سمن جاری کیا گیا۔ دوسری بار دونوں حاضر ہوئے اور یہ بات سامنے آئی کہ دونوں بار پولیس نے رپورٹ نہیں بھیجی۔ جج کو بہت غصہ آیا۔ اس نے دونوں کی سرزنش کی اور ہدایت دی کہ جن پولیس سپاہیوں کو یہ کام سونپا گیا تھا انھیں معطل کیا جائے اور ان پر فوراً تادیبی کار روائی کی جائے۔ علاوہ ازیں عدالت کو کیس کے اختتام تک اس کی ترقی کے بارے میں وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جائے۔ نیز یہ بھی ہدایت دی گئی کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پاسپورٹ ایشو ہونا چاہیے۔

اگلے روز پولیس محکمے نے ڈسپیچ رنر کے ذریعے تفصیلی رپورٹ بھیج دی اور پھر اسی روز پاسپورٹ آفس نے خصوصی نامہ بر کے ذریعے برکت علی کا پاسپورٹ اس کے گھر بھیج دیا تاکہ عدالت کے آرڈر کی تعمیل ہو۔

نامہ بر نے گھر کے دروازے پر بہت دیر تک دستک دی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ پریشان ہوا اور دائیں بائیں اس امید سے دیکھتا رہا کہ کہیں کوئی آدمی نظر آئے اور گھر کے مکینوں کے بارے میں جانکاری دے۔ آخر کار ایک پڑوسی کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور اس سے پوچھ لیا۔ ’’ جناب، آپ کے بغل والے گھر میں برکت علی چودھری صاحب رہتے ہیں، میں نے ان کے دروازے پر کئی بار دستک دی مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ کیا وجہ ہے ؟‘‘

’’ بھائی، برکت علی چودھری کو آج صبح شدید دل کا دورہ پڑا۔ ویسے بھی بہت بوڑھے تھے۔ بچوں نے اس کو گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کرا دیا ہے۔ اس وقت وہ آئی سی یو میں ہیں اور کسی سے مل نہیں سکتے۔ گھر والے سبھی ہسپتال میں ہیں۔ سنا ہے کہ ان کا بچنا بہت مشکل ہے۔ پھر بھی خدا ہی بہتر جانتا ہے!‘‘

پاسپورٹ دفتر کے پیغام رساں نے پاسپورٹ اپنے بیگ میں واپس ڈال دیا اور پھر اپنے دفتر کی جانب رخ کر لیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے