افسانے کا فن۔۔۔ وزیر آغا

یہ بات شوپنہارؔ سے منسوب ہے کہ تمام فنون موسیقی کی سطح پر پہنچنے کی تمنا کرتے ہیں۔  اس بات کی توضیح کرتے ہوئے ہربرٹ ریڈؔ نے لکھا ہے کہ موسیقار ہی وہ واحد ہستی ہے جو اپنے شعور کے بطون سے فنی تخلیق کو جنم دیتا ہے ورنہ دوسرے فنکار تو ظاہر کی دنیا سے کچا مواد حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔  مثلاً مصوِّر رنگ اور صورت کا دست نگر ہے اور شاعر الفاظ کا اور معمار مجبور کہ چونے گارے کے ریختہ میں اپنی ذات کا اظہار کرے مگر ذریعہ چاہے کوئی بھی کیوں نہ استعمال کیا جائے مقصد اس کا صرف یہ ہوتا ہے کہ شے یا مظہر کو اوپر اٹھا کر غنائیت کی سطح پر پہنچا دیا جائے۔  تھوڑے سے تصرف کے ساتھ یہی بات کہانی لکھنے والوں کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ چاہے وہ کردار کے نقوش کو اجاگر کریں یا ٹائپ کو بروئے کار لائیں، بند ماحول کو پیش کریں یا کشادہ کینوس کو سامنے لائیں، قریب سے نظارہ کریں یا دور سے نظر ڈالیں، وہ ہر حال میں مجبور ہیں کہ کہانی کی سطح  پر پہنچنے کی کوشش کریں بصورتِ دیگر افسانہ، جو اب مضمون بن جائے گا یا ایک شعری پیکر یا محض نثر کا ایک ٹکڑا۔  چنانچہ میں اپنی بات کی ابتدا اس کلیہ سے کروں گا کہ افسانے کا فن بنیادی طور پر کہانی کہنے کا فن ہے۔

مگر کہانی محض ہوا میں تخلیق نہیں ہو جاتی۔  اس کے نقوش کو اجاگر کرنے کے لئے سب سے پہلے ایک کینوس درکار ہو گا اور کینوس زمانی اور مکانی حدود کے تابع ہو گا۔  کوئی واقعہ بہر صورت ایک خاص جگہ اور خاص وقت ہی میں ظہور پذیر ہو سکتا ہے اور اس لئے کہانی لکھنے والوں کو کینوس کے انتخاب پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔  یوں زندگی بجائے خود زمین کے کینوس ہی پر اپنے نقوش اجاگر کر رہی ہے اور اس میں وہ تمام کہانیاں ہر روز وقوع پذیر ہوتی ہیں جو کہانی کہنے والے کے لئے کچا مواد کا کام دیتی ہیں۔  مگر فرق یہ ہے کہ یہ ادھوری اور نا تراشیدہ کہانیاں ہیں جو ایک بڑے کینوس کی زمانی اور مکانی وسعتوں میں اس طور بکھری ہوئی ہیں کہ نظر ان کی ڈرامائی کیفیت کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔  کہانی کہنے والے کی خوبی اس بات میں ہے کہ وہ کہانی کی بکھری ہوئی کڑیوں کے درمیانی فاصلے کو ختم کر کے ان کو یوں ملائے کہ سارے خد و خال ایک ترشے ہوئے واقعہ کی صورت میں مرتب ہو جائیں۔ مگر اس مقام پر افسانے یا کہانی کی دوسری اصناف کے فرق کو ملحوظ رکھ کر بات کو آگے بڑھانا ہو گا۔  ناول یا داستان کا کینوس نسبتاً بڑا ہوتا ہے اور اس میں ان گنت کردار اور واقعات کسی بنیادی واقعہ یا کردار کی تعمیر میں صرف ہوتے ہیں۔  یوں کہ اس واقعہ یا کردار کی نسبت سے سارا مکانی یا زمانی کینوس منور ہو جاتا ہے۔ مگر افسانہ واقعہ یا کردار کے ایک خاص پہلو کو سامنے لاتا ہے اور سارے کینوس کو منور کرنے کی بجائے صرف اس گوشے کو منور کرنے کا اہتمام کرتا ہے جسے وہ توجہ کا مرکز بنانے کا طالب ہوتا ہے۔  مگر اس فرق کے با وصف اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ناول ہو یا افسانہ، کینوس اس کے لئے بہر حال ناگزیر ہے۔

مگر یہ کینوس اس وقت تک کہانی کو جنم نہیں دے سکتا جب تک اس کے اندر کلبلاہٹ پیدا نہ ہو۔  کائنات کی اصل کہانی بھی اس وقت شروع ہوئی تھی جب باغِ بہشت کے کینوس پر انسان کی کلبلاہٹ کا آغاز ہوا تھا۔  اس پر شاید یہ اعتراض وارد ہو کہ بعض کہانیاں ایسی بھی تو ہیں جن میں انسان کا گزر تک نہیں۔  یہ بات غلط نہیں ہے۔  خود اردو زبان میں رفیق حسین نے جانوروں کے بارے میں جو کہانیاں لکھی ہیں وہ صرف جانوروں کے اعمال سے متعلق ہیں۔  اسی طرح میرزا ادیب نے دل ناتواں  اور درونِ تیرگی ایسی کہانیاں لکھی ہیں جو انسان کی بجائے پودے اور ذرے کو بڑی عمدگی سے اپنا موضوع بناتی ہیں۔  ایک کہانی ممتاز مفتی کی بھی ہے جس میں مجسموں کی داستان پیش ہوئی ہیں۔  مگر یہ بات ضرور ہے کہانی کا بنیادی موضوع انسان کے سوا اور کوئی نہیں  حتیٰ کہ جب جانور، پودا یا ذرہ کہانی کا موضوع بنتا ہے تو بھی انسان کی صورت ہی اس میں منتقل ہوتی ہے اور وہ بھی انسان ہی طرح جذبات اور اعمال سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے۔  ایسی کہانی میں انسان کی دلچسپی کا اصل باعث بھی یہی ہے کہ وہ اسے آئینہ دکھا کر اس کی ANIMISTIC URGEکی تسکین کرتی ہے۔  واضح رہے کہ انسان نے اپنی حیات کا ایک نہایت طویل دور اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے ماحول(کینوس) سے اس طور پر ہم آہنگ ہو کر گزرا ہے کہ اس کے اور حیوان کے یا بے جان شے کے مابین تفریق پیدا نہیں ہو سکی اور یہ بہت بعد کی بات ہے کہ جب اس کے ہاں انفرادیت پیدا ہوئی اور نرگسیت کا میلان توانا ہوا تو اس نے اپنی ذات کو کائنات سے کاٹ کر الگ کر لیا۔  چنانچہ سائنس اور ٹیکنولوجی کے دور میں انسان کی تنہائی روز بروز شدید ہو رہی ہے کہ اب وہ کائنات کے آہنگ میں شرکت کرنے کی بجائے محض اس کا تماشائی بن کر ظاہر ہو رہا ہے۔  البتہ فن کی دنیا میں شرکت (Participation)  کا عمل تا حال خاصا توانا ہے۔  (فن کی رعنائی اور اثر انگیزی کا اصل سبب بھی یہی ہے )چنانچہ جب افسانے میں درخت، پیڑ، حیوان اور ذرے انسانی اوصاف سے متصف ہو کر سامنے آتے ہیں تو افسانہ ایک بنیادی انسانی طلب کو پورا کر کے ہمیں تسکین مہیا کرتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ افسانے کا بنیادی موضوع اور محور انسان کے سوا اور کوئی نہیں۔

تو یہ بات یہاں تک پہنچی کہ کہانی کے کینوس سے مراد وہ ماحول ہے جس میں جملہ جاندار اور بے جان اشیا موجود ہوتی ہیں لیکن جس کا اصل محور انسان ہے۔  کہانی بنیادی طور پر انسانی عمل سے متعلق ہوتی ہے اور جب انسان سے ہٹ کر دوسری اشیا کو موضوع بناتی ہے تو بھی در اصل ان میں انسانی اوصاف کو شامل کر کے ایسا کرتی ہے۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کس طرح اس ماحول یا اس کے محور، یعنی انسان کو افسانے کی بنت میں شامل کرتا ہے یا اسے افسانے میں کس زاویے، ترتیب یا ترجیح کے ساتھ شامل کرنا چاہئے۔  اس ضمن میں کوئی کلیہ قائم نہیں کیا جا سکتا اور یہ اچھی بات بھی ہے ورنہ افسانے کا سارا تنوع اور رنگارنگی خاک میں مل جائے۔  اصل بات یہ ہے کہ افسانہ نگار اپنی ذات کے ایک خاص زاویے سے اس کینوس کا احاطہ کرتا ہے نیز اپنی افتاد طبع کے مطابق ہی اس پر قریب یا دور سے نظر ڈالتا ہے اور اس کے نہایت دلچسپ نتائج بھی مرتب ہوتے ہیں۔  مثلاً وہ افسانہ نگار جو فطرتاً باریک بین اور آہستہ رو ہیں زمین پر اتر کر ایک بالکل ہموار سطح سے کینوس کا مطالعہ کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ وہ کینوس کی ارضی سطح پر چلنے کے دوران کرداروں کو اپنے بدن سے ٹکراتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔  نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف سارا ماحول اپنے تمام تر گوشوں کے ساتھ قاری کے سامنے آ جاتا ہے بلکہ اس میں مثالی نمونوں  (Types) کی بجائے کردار ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور حقیقت نگاری کی روش وجود میں آ جاتی ہے۔  یہ روش بعض اوقات بے رحمی کی حد تک سپاٹ بھی ہو سکتی ہے۔  جیسے اختر اورینوی کے افسانوں میں، اور دلچسپ اور لذیذ بھی جیسے منٹو، بیدی، بلونت سنگھ اور رحمٰن مذنب کی کہانیوں میں۔  اسی طرح سماجی مسائل کی عکاسی کے اعتبار سے یہ خیال انگیز یا صبر آزما بھی ہو سکتی ہے۔  جیسے پریم چند کی کہانیوں میں۔  لیکن یہ بات طے ہے کہ اس میں باصرہ اور لامسہ کا عنصر خاصا شدید ہوتا ہے اور جب کردار یا مسئلہ ابھر کر سامنے آتا ہے تو وہ قاری کے اس قدر قریب ہوتا ہے کہ وہ اسے پوری طرح دیکھ سکتا ہے بلکہ محض ہاتھ بڑھا کر اسے گویا مَس بھی کر سکتا ہے۔

لیکن بعض طبائع ماحول کو اس قدر قریب سے دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔  اعتراض کی خاطر آپ کہہ لیں کہ وہ اس کی اہل ہی نہیں ہوتیں لیکن حقیقت شاید یہ ہے کہ ہر شخص اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہے کہ کسی شے سے اپنا ربط قائم کرنے کے لئے اسی قدر دوری یا قرب کو بروئے کار لائے جو اس کی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔  وہ افسانہ نگار جو ذرا فاصلے سے کینوس پر نظر ڈالتے ہیں، فطرتاً متجسس، سفر پسند اور مہم جو ہوتے ہیں۔  ایسے لوگوں کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ وقت کی تنگ دامانی یا ایک داخلی بیقراری کے زیر اثر ماحول پر اچٹتی سی نظر ڈال کر اور اس کے صرف چند ایک نمایاں پہلوؤں کو اپنی گرفت میں لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔  وہ اکثر و بیشتر ریل کی کھڑکی یا ہوٹل کی بالکنی سے یا یوں کہہ لیجئے کہ ذہنی یا جسمانی سفر کی حالت میں رہتے ہوئے مناظر کا احاطہ کرتے ہیں۔  ان کے ہاں تجرباتی مطالعے کا رجحان کم اور اجتماعی محاکمے کا میلان زیادہ ہوتا ہے۔  چنانچہ وہ کھمبے کی بجائے سڑک، گلی کی بجائے شہر اور فرد کی بجائے انبوہ کو مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ افسانے میں کھمبے، فرد یا گلی کی نفی ہو جاتی ہے۔  یہ چیزیں تو بہر حال ماحول کے ضروری اجزا ہیں اور اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔  مگر افسانہ نگار ایک خاص میلان کے تحت انہیں ثانوی حیثیت بخش دیتا ہے۔  کرشن چندر کا افسانہ دو فرلانگ لمبی سڑک اس کی ایک مثال ہے کہ اس میں بنیادی کردار سڑک ہے۔  باقی کردار اور واقعات کا مقصد محض اس سڑک کے کردار کو واضح کرنا ہے اور بس۔  اسی طرح زندگی کے موڑ پر کا مرکزی کردار سماج ہے۔  افسانہ ایک سفر کی صورت میں ابھرتا ہے اور اس کے کردار اور واقعات بکھرے ہوئے اور ڈھیلے ڈھالے سے دکھائی دیتے ہیں۔  تا آنکہ جب وہ آخر میں کنویں کی تمثیل سے یہ تاثر دیتا ہے کہ سماج تو اندھے بیلوں کی مدد سے چلتا ہوا ایک رہٹ ہے تو قاری کو فی الفور محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ثانوی کرداروں اور معمولی واقعات کو سماج کے وسیع تر کردار کی تعمیر میں صَرف ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔  رام لعل کے بعض افسانوں میں بھی سفر کی یہ کیفیت موجود ہے۔  گو رام لعل کے ہاں زمانی اور مکانی قیود نے افسانے کو بکھرنے  کی پوری اجازت نہیں دی۔  ماحول کو دیکھنے کے اس خالص انداز میں تجزیاتی مطالعہ کا رجحان کم تو ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔  کردار اور واقعات ثانوی حیثیت تو اختیار کرتے ہیں لیکن مدھم نہیں پڑتے۔  متفرق کردار اپنے نکیلے پہلوؤں سے دست کش تو ہوتے ہیں لیکن انہیں پہچاننے میں دقّت محسوس نہیں ہوتی بلکہ تلافی کے طور پر ایک بڑا کردار بھی ابھر آتا ہے۔  جیسے سماج، سڑک یا شہر کا کردار جس پر قاری کی ساری توجہ مرتکز ہو جاتی ہے۔ کہانی ایک حد تک رقیق ضرور ہو جاتی ہے لیکن اس کی کڑیاں نظروں سے اوجھل نہیں ہوتیں اور موضوع کی تبدیلی اگر ملحوظ رہے تو پھر کہانی کا تاثر بھی پوری طرح برقرار رہتا ہے۔

زمین پر اتر کر کردار کے تمام تر پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کا رجحان ان کہانی کہنے والوں کے ہاں عام ہے جو خواب کار کم اور حقیقت پسند زیادہ ہیں ایسے لوگ بڑے سنجیدہ شہری ہوتے ہیں اور ان کے شعور میں ہمیشہ سوسائٹی کی بے اعتدالیوں یا ناہمواریوں کو طشت از بام کرنے کا رجحان موجود رہتا ہے۔  بعض تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اصلاح کا ایک باقاعدہ پنج سالہ منصوبہ مرتب کرنے لگتے ہیں مگر ان کا ذکر اس لئے مناسب نہیں کہ وہ ادب کی مملکت کو الوداع کہہ کر اخلاقیات کی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور ادب ان کے بلند آدرش سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔  لیکن اس سے ورے وہ افسانہ نگار ہیں جو اپنی افتادِ طبع کے مطابق ماحول کے عیوب کی نشاندہی کرتے ہیں۔  چنانچہ پریم چند مذموم سماجی رسوم کو بے نقاب کرتا ہے اور منٹو اور رحمان مذنب طوائف کے ماحول کو وغیرہ۔  ان کے بعد ان افسانہ نگاروں کو دیکھئے جو زمین سے متعلق ہونے کے باوجود ہمیشہ کسی ٹیلے کی تلاش میں رہتے ہیں، جہاں سے وہ ماحول پر ایک طائرانہ نظر ڈال سکیں۔  نتیجہ یہ ہے کہ ان کے فن میں دائرۂ عمل کی وسعت سے افسانے کا مزاج ہی بدل جاتا ہے۔  اس ضمن میں کرشن چندر کی مثال اوپر دی جا چکی ہے۔  مگر افسانہ لکھنے کے یہی دو طریق مستعمل نہیں، ان کے علاوہ دو اور انداز بھی ہیں جو اردو افسانے کے جدید دور میں اپنے سارے نکھار کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔  ان میں سے ایک تو وہ ہے جس میں افسانہ نگار نے ایک ایسے زاویے سے ماحول کو دیکھا ہے کہ افسانے کے کردار محض ننگے جسموں کے ساتھ نہیں بلکہ ان جسموں سے چمٹی ہوئی لمبی پرچھائیوں کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔  کردار سے براہ راست متعارف ہونے والا افسانہ نگار اول تو کردار سے اپنی نظریں ہٹا ہی نہیں پاتا اور اگر لحظہ بھرکے لئے ہٹا بھی لے تو اسے وہ مدھم سی پرچھائیں شاذ ہی نظر آتی ہے جو سورج کی بے پناہ روشنی میں کردار کے قدموں سے چمٹی ہوئی ہے۔  مگر جب افسانہ نگار اپنے اور ماحول کے درمیان فاصلہ کم کر کے وہ طریق اختیار کرتا ہے جس کا ذکر وان گاگؔ نے اپنے دوست کے نام ایک خط میں کیا تھا۔

جب لوگ میری تصویروں کی اشیا کو پوری طرح پہچان نہیں سکتے تو میں خوش ہوتا ہوں، کیونکہ میری یہ آرزو ہوتی ہے کہ اشیا اپنی خوابناک کیفیات سے دست کش نہ ہو۔

تووہ در اصل کردار میں پرچھائیں کی ایک نئی اور انوکھی سطح کا اضافہ کر کے نہ صرف بے رحم حقیقت نگاری کے سپاٹ پن سے افسانے کو بچا لیتا ہے بلکہ کردار کے مخفی گوشوں کو روشنی میں لا کر قاری کو زندگی کی تہہ داری کا احساس بھی دلاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ افسانہ نگار کو اچانک کردار سے کہیں زیادہ اس کی پرچھائیں  Hauntکرنے لگتی ہے اور وہ خود سے سوال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ پرچھائیں کون ہے؟ اس کا کردار سے کیا رشتہ ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل کردار یہی پرچھائیں ہو؟ اور پھر عام روش سے ہٹ کر خوابوں سے مملو ایک ایسا ماحول خلق کر لیتا ہے جس میں اصل کی پہچان کا واحد ذریعہ وہ نقل ہے جسے انسانی فلسفہ نے ہمیشہ بنظرِ تحقیر دیکھا ہے۔  یوں بھی فلسفہ کے شعور کے حربے سے حقیقت تک پہنچنے کی ایک سعی ہے اور فن خواب کے وسیلے سے۔  اور اس لئے جو فن پارہ اپنے طریقِ کار کو تج کر فلسفے کے آلات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے وہ اسی نسبت سے اپنے مشن میں ناکام بھی ہو جاتا ہے۔ افسانہ نگار نے جب کردار اور واقعہ کی روشن اور ننگی دنیا کو ایک خواب ناک فضا کے ہالے میں رکھ کر دیکھا تو اسے ایک اور ہی منظر دکھائی دیا۔  مگر اس نے یہ کوشش ضرور کی کہ افسانے کو کردار اور واقعہ سے بے نیاز نہ ہونے دے۔  مطلب یہ کہ اس نے پرچھائیں کو نظر کی گرفت میں لیا لیکن صرف اس پرچھائیں کو جو کردار سے منسلک تھی۔  بصورتِ دیگر بے جسم ہیولوں میں گھر کر رہ جاتا(اس کا ذکر آگے آئے گا)۔ یورپ میں افسانے کی اس نئی جہت کا چرچا اکثر ہوتا رہتا ہے اور اسے مصوری کی بعض تحریکوں سے منسلک کرنے کی کوشش بھی ایک عام بات ہے لیکن ہمارے ہاں افسانے میں اس روش کی نشاندہی تا حال نہیں ہو سکی۔

یہ سوال کہ جدید اردو افسانے میں پرچھائیں  کا وجود کن محرکات کے تابع ہے، بحث کو بہت سی پیچ دار جہتوں میں لے جائے گا۔  اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔  مگر ایک بات واضح ہے کہ یہ پرچھائیں بیسویں صدی کی پیداوار ہے اور افسانہ ہی نہیں شعر میں بھی اپنی جھلک دکھا رہی ہے۔  بالخصوص اردو کی جدید غزل میں اس نے دوسری ہستی(The other) کے روپ میں ظاہر ہونے کی پر زور کوشش کی ہے اور جدید اردو افسانے میں بھی یہ خاصی فعال نظر آ رہی ہے۔  صورت اس کی یوں ہے کہ یکایک افسانے کا کردار اپنے بدن کے جملہ خدوخال کو برقرار رکھتے ہوئے اندر سے خالی ہو گیا ہے اور کوئی اور شے یا روح اس جسم میں حلول کر گئی ہے اور کردار ایک نئی ہستی کے روپ میں دکھائی دینے لگا ہے اور اس Underworldکا باسی بن گیا ہے جو ہم میں سے ہر شخص کے اندر موجود تو ہے لیکن جسے سماجی احتساب نے باہر آنے کی اجازت نہیں دی۔  ہمزاد یا پرچھائیں کی یہ آمد ہی وہ نئی سطح (Dimension)ہے جس نے اردو افسانے کو ایک نئی رفعت سے آشنا کر دیا۔  واضح رہے کہ میں یہاں پرچھائیں کا محض نفسیات کے  Shadowکے مفہوم میں ذکر نہیں کر رہا۔ بے شک افسانہ کی فضا میں  Shadowکا در آنا کوئی عیب کی بات نہیں کیونکہ اس سے کردار کے بعض گہرے اور تہہ دار پہلوؤں تک رسائی پانے میں مدد ملتی ہے لیکن میں پرچھائیں سے مراد وہ شخصیت بھی لیتا ہوں جو فطری ارتقا کے تحت ہر بار قدیم کی راکھ سے برآمد ہوتی ہے اور نئے دور کی نئی آواز قرار پاتی ہے۔ جدید غزل یا جدید افسانے میں پرچھائیں کا یہ تصور اس نئی ہستی(Wise old man) یا شخصیت کی دریافت کا تصور بھی ہے جو نئے زمانے سے نبرد آزما ہونے کی خود میں سکت رکھتی ہے۔  رہا یہ سوال کہ جدید افسانہ نگار نے اس پرچھائیں کو دریافت کرنے کے لئے کیا خاص طریق اختیار کیا ہے تو اس سلسلے میں بھی کوئی کلیہ موجود نہیں۔ ہر افسانہ نگار اپنے مزاج اور جہت کے مطابق ہی اس دریافت میں حصہ لیتا ہے۔  چنانچہ بعض تو Stream of consciousnessکو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طریق نفسیات کے آزاد تلازمۂ خیال سے متاثر ہے۔  دوسرا طریق یہ ہے کہ افسانہ نگار کردار کے ذہن کے تجزیہ سے نہیں بلکہ اس کے اعمال سے اس دوسری ہستی کو دریافت کرتا ہے۔  تیسرایہ کہ وہ افسانے کی ابتدا ہی اس ہستی کو مرکزِ نگاہ بنا کر کرتا ہے۔  ہرچند اس ہستی کے ساتھ اس کا گوشت پوست کا کردار منسلک رہتا ہے لیکن لگتا ہے جیسے جو پہلے سایہ تھا اب وہ کردار ہے اور جو کردار تھا وہ اب محض سائے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔  پچھلے چند برس میں افسانے کا یہ رجحان خاصا توانا ہوا ہے اور اس کے تحت اردو میں بعض عمدہ کہانیوں کا اضافہ بھی ہوا ہے۔  غلام الثقلین نقوی، انتظار حسین، انور سجاد، رشید امجد، شمس نعمان، بلراج مین را اور بعض دوسرے لکھنے والوں کی متعدد کہانیوں میں اس خاص انداز کی جھلکیاں ملتی ہیں۔  رام لعل کا افسانہ چاپ اور بلراج کومل کا افسانہ کنواں  اس خاص جہت کی بہت عمدہ مثالیں ہیں۔

ہر تحریک یا رجحان کا ایک فارورڈ بلاک بھی ہوتا ہے جو بعض اوقات اپنے جوش میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ اصل تحریک ہی سے منقطع ہو جاتا ہے۔  یہ فارورڈ بلاک جدید اردو افسانے میں بھی ظاہر ہو گیا ہے۔  جدید افسانے نے پیش پا افتادہ مسائل اور بے رحم حقیقت نگاری کے عمل کو تج کر واقعہ یا کردار کی دوسری سطح تک رسائی کی جو کوشش کی ہے اس سے افسانہ میں یقیناً گہرائی کا اضافہ ہوا ہے اور ایسی بہت سی کہانیاں وجود میں آئی ہیں جو انسان کی بنیادی طلب کو مطمئن کرنے میں بہت کامیاب ثابت ہوئی ہیں لیکن پھر افسانہ نگار ذرا دم لینے کے بجائے آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا ہے تا آنکہ وہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں سائے سے اس کا کردار چھن گیا ہے۔  جب تک کردار اور اس کی پرچھائیں کی ثنویت قائم رہے۔  ان دونوں کے ربطِ باہم کا تجزیہ نئے نئے انکشافات کا باعث ثابت ہوتا ہے لیکن اگر کردار سے اس کا سایہ یا سائے سے اس کا کردا چھِن جائے تو ایک انتہائی صورت وجود میں آ جاتی ہے۔  چنانچہ جب جدید ترین افسانے نے کردار یا ماحول کی معروضی صورت کو تج کر خود کو محض بے جسم ہیولوں تک محدود کر لیا تو کہانی کے سارے خدوخال ہی گڈمڈ ہو گئے۔  جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ افسانے کا فن بنیادی طور پر کہانی کہنے کا فن ہے اور یہ کہانی ماحول اور اس کے کرداروں سے مرتب ہوتی ہے۔  جب افسانے سے کردار ہی غائب ہو جائے یا افسانے کا کینوس اپنی معروضیت سے دست کش ہو کر Referenceکے طور پر باقی ہی نہ رہے یا جب اشیا ایک دوسری سے متمیز ہی نہ ہو سکیں توہیولے جنم لیتے ہیں اور انتشار( Anarchy)کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔  آج اردوافسانے میں کہیں کہیں انتشار کا یہ رجحان بھی نظر آ رہا ہے اور بعض طبائع جدیدیت کے نام اسے  Exploitبھی کر رہی ہیں۔  یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں ترقی پسندی کے نام پر حقیقت نگاری کے رجحان کو Exploitکیا گیا تھا۔

*****

(نئے مقالات)

(بحوالہ:  اردو افسانہ: روایت اور مسائل۔  مرتبہ پروفیسر گوپی چند نارنگ)

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے