ذرا سا مختلف ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

مَیں عام طور پر اپنا کلینک دس بجے بند کر دیتا ہوں لیکن آج رش کی وجہ سے گیارہ بج گئے تھے اور میں بری طرح تھک گیا تھا۔ آخری مریض چیک کرنے کے بعد کلینک میں میرے علاوہ ایک ڈسپنسر اور دو اسسٹنٹ رہ گئے تھے۔  میں نے ڈسپنسر کو کلینک بند کرنے کا کہا اور خود کلینک سے نکل کر کار کا گیٹ کھولنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک رکشا کار کے ساتھ آ کر رکا۔ رکشے سے ایک ادھیڑ عمر کی عورت کے ساتھ ایک نیم بے ہوش سی لڑکی نکلی۔  عورت نے لڑکی کو سہارا دے رکھا تھا اور وہ دونوں کلینک کی طرف جانے لگیں۔ ابھی نومبر کا شروع تھا لیکن سردی اچانک بڑھ گئی تھی۔ عورت نے لڑکی کو کمبل میں لپیٹا ہوا تھا۔ ابھی ڈسپنسر نے کلینک بند نہیں کیا تھا۔ وہ دونوں کلینک کے اندر پہنچ گئی تھیں۔ میں نے کار کا گیٹ بند کیا اور دوبارہ کلینک آیا۔  ڈسپنسر کو ان سے ابتدائی معلومات لینے کو کہا۔ کچھ دیر بعد ڈسپنسر نے بتایا کہ لڑکی کا شوگر لیول بہت گر گیا ہے اور وہ بڑی تیزی سے اپنے حواس کھوتی جا رہی ہے لیکن ان کی ظاہری حالت ایسی نہیں کہ آپ کی فیس بھی ادا کر سکیں۔ بہتر ہے آپ پرچی لکھ دیں اور انہیں سرکاری ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں داخل کرا دیں۔ آپ چونکہ ٹیچنگ ہستپال کے پروفیسر بھی ہیں اس لیے وہ فوراً اسے داخل کر کے ضروری طبی امداد دے دیں گے۔ رات کافی ہو گئی تھی اور میں کافی تھک بھی چکا تھا اس لیے مَیں نے ڈسپنسر کی بات سے اتفاق کیا اور کہا ’’ٹھیک ہے مَیں پرچی لکھ دیتا ہوں، تم انہیں ٹراما سینٹر بھیج دو‘‘۔ لیکن ایک دم مجھے خیال آیا کہ مَیں نے آج کے دن ’’ذرا مختلف‘‘ کام نہیں کیا۔ مَیں نے پچھلے کئی ماہ سے اپنے ذمہ ایک کام لگایا ہوا ہے کہ روزانہ ایک کام عام ڈگر سے مختلف کرنا جس میں اپنی تھوڑی قربانی دے کر دوسروں کا زیادہ زیادہ سے فائدہ ہو! مَیں روزانہ صبح اٹھتے ہی اپنے دماغ کو ’’ذرا مختلف‘‘ کام کرنے کی ہدایات دیتا ہوں۔ چونکہ میرا پبلک سے روزانہ براہ راست واسطہ پڑتا رہتا ہے اس لیے مجھے تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی ’’ذرا مختلف‘‘ کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جس دن یہ موقع نہ ملے، مجھے بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے۔ مَیں نے ڈسپنسر کو کہا ’’ٹھہرو! انہیں اپنے کلینک میں داخل کر لو‘‘۔ ڈسپنسر کو میرے اس طرح کے اچانک فیصلوں سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ اس لیے اس کی حیرت کا لیول اب بہت کم رہ گیا ہے۔  ’’یس سر !‘‘ ڈسپنسر نے بڑے رسان سے کہا اور داخلے کی ضروری کاروائی میں مصروف ہو گیا۔  بحیثیت ڈاکٹر میں جان گیا تھا کہ لڑکی کو اگر فوری طبی امداد نہ ملی تو لڑکی مر جائے گی اور ٹراما سینٹر جو میرے کلینک سے دس منٹ کی مسافت تھا، تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ مر جائے گی۔ میں نے سوچا ’’میرے تھوڑے سے آرام اور پیسے کی قربانی سے اگر کسی کی جان بچ جاتی ہے تو اس میں برا کیا ہے؟ ۔ میں گھر گیارہ بجے نہیں تو بارہ بجے پہنچ جاؤں گا اور ادویات پر زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپیہ خرچ آ جائے گا۔ رہا کمرے کا کرایہ اور خدمات کا معاوضہ تووہ ان کی عدم موجودگی میں بھی مجھے ادا کرنا ہی تھا۔ ‘‘۔

لڑکی کو ڈرپ لگ چکی تھی اور اس کی حالت آہستہ آہستہ سنبھلتی جا رہی تھی۔ لڑکی کی ماں کے چہرے پر بھی اسی حساب سے پریشانی کم ہوتی جا رہی تھی۔ مَیں نے دیکھا اس کے چہرے پر ایک دم پریشانی اپنی شدت کے ساتھ دوبارہ لوٹ آئی تھی حالانکہ اسی کی بیٹی کی حالت بدستور بہتر ہو رہی تھی۔ رکشے والا کرایہ لینے کلینک کے اندر آ گیا تھا۔  ’’بہن جی کرایہ تو دے دیں، کافی دیر تک انتظار کیا، مجبوراً مجھے اندر آنا پڑا‘‘ عورت نے سو روپے کا میلا کچیلا نوٹ نکال کر اسے دیا لیکن رکشے والے نے یہ کہہ کر واپس کر دیا ’’ایک تو یہ نوٹ چلنے والا نہیں دوسرا میرا کرایہ دوسو روپے ہے‘‘۔ عورت کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہ گئی، میں نے ڈسپنسر کو معاملہ نمٹانے کا اشارہ کیا اور اس نے ادائیگی کر کے فوراً معاملہ بہ احسن و خوبی نمٹا دیا۔  لڑکی کی ڈرپ ایک چوتھائی خالی ہو گئی تھی اور اس کی طبیعت کافی حد تک سنبھل گئی تھی اور وہ اب خطرے کی حالت سے نکل آئی تھی۔ میں نے ڈسپنسر کو ہدایات دیں اور اپنے گھر چلا گیا۔  اگلے دن جب میں شام کو کلینک گیا تو دیکھا اس کی حالت بالکل ٹھیک ہے۔ اس کی والدہ خوش ہونے کے ساتھ کچھ متفکر بھی تھیں۔ میں فکر مندی کی وجہ سمجھ گیا تھا۔ میں نے ڈسپنسر کو اپنے کمرے میں بلایا اور انہیں ڈسچارج کرنے کو کہا۔ ڈسپنسر نے پہلے سے ہی دس ہزار کا بل بنا یا ہوا تھا۔ وہ یہ بل لے کر میرے پاس آ گیا۔ میں نے بل پر ایک نظر ڈالی اور ڈسپنسر سے کہا ’’ذرا سا مختلف‘‘۔ ڈسپنسر میری بات فوراً سمجھ گیا اور بغیر کوئی رقم لیے انہیں ڈسچارج کر دیا۔  میں نے فالو اپ ادویات اور طریقہ پرچی پر لکھ کر ڈسپنسر کو دے دیا۔ وہ ماں بیٹی میرا شکریہ ادا کرنے کے لیے مجھ سے ملنا چاہتی تھیں، مَیں نے ڈسپنسر کو پھر ’’ذرا مختلف‘‘ کہا۔ وہ فوراً سمجھ گیا اور انہیں جا کر بتایا کہ آج ڈاکٹر صاحب کے پاس مریضوں کا کافی رش ہے، پھر کبھی سہی۔

اس بات کو کئی برس بیت گئے۔ ایک دن شام کے وقت میں اپنے کلینک پر بیٹھا مریض دیکھ رہا تھا تو میرے، اسسٹنٹ نے مجھے ایک پرچی دیتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! یہ ایک لڑکی نے دی ہے اور وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے‘‘۔  مَیں نے پرچی دیکھی جس پر کسی لڑکی کا نام لکھا تھا۔ مَیں نے اسسٹنٹ کو لڑکی اندر بھیجنے کو کہا۔ لڑکی میری میز کے آگے لگی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بڑی بے تکلفی سے بیٹھ گئی۔ اس کی نگاہوں میں تشکرانہ چمک تھی۔  ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ، سر پر سفید دوپٹے اور گلابی رنگت کے ساتھ وہ کوہ قاف کی کوئی پری لگ رہی تھی۔ مریضوں کے مرجھائے ہوئے چہروں کے اکتا دینے والے ماحول میں وہ یقیناً تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ مَیں نے اسے بھرپور نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’جی فرمائیے؟ ‘‘ اب اس کی آنکھوں میں تشکرانہ چمک کے ساتھ حیرت بھی تھی ’’ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟ ‘‘ مَیں نے واقعی اسے نہیں پہچانا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں وہی لڑکی ہوں جو قریب المرگ تھی اور آپ نے مجھے اپنے کلینک میں داخل کر کے میری جان بچائی تھی۔ اب میرا میڈیکل کالج میں داخلہ ہو گیا ہے۔ مَیں شکریہ ادا کرنے آپ کے پاس آئی ہوں‘‘۔ مجھے یاد آ گیا تھا اور مجھے اسے دیکھ کر بے تحاشا خوشی ہوئی۔ میرا دل چاہا اس سے باتیں کروں اور اسے گھر آنے کی دعوت بھی دوں لیکن اچانک مجھے خیال آیا آج میں نے ’’ذرا مختلف‘‘ کام نہیں کیا۔ میں نے واجبی سی خوشی کا اظہار کیا اور سٹول پر بیٹھے مریض کو چیک کرنے لگ گیا۔ وہ پتہ نہیں کب کمرے سے چلی گئی۔ کچھ دیر بعد میری نظر سامنے والی کرسی پر پڑی تو وہ خالی تھی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے