افسانچے ۔۔۔ محمد جمیل اختر

 

                   دھوکے باز

 

 

صبح سویرے صفائی والے نے کوڑا دان کو الٹنا چاہا تو اُس کی آنکھ کھل گئی۔

’’ کون ہے بھائی سونے دو‘‘

’’یہ سونے کی جگہ ہے ؟ ‘‘

’’وہ رات باہر سردی تھی، میں کوڑا دان کے اندرسو گیا تھا‘‘

’’ اچھا اب باہر نکلو مجھے کوڑا دان خالی کرنا ہے ‘‘

’’ابھی تو سورج بھی نہیں نکلا‘‘

’’سورج کا تمہارے اٹھنے سے کیا تعلق ہے ؟ ‘‘

’’وہ مجھے کسی سُنار کی دکان پر جانا ہے، رات کوڑا دان سے مجھے سونے کی انگوٹھی ملی تھی وہ بیچنی تھی اتنی جلدی تو کوئی دکان نہ کھلی ہو گی اب میں یہ کہاں بیچوں ؟ ‘‘

’’ سونے کی انگوٹھی ؟ ‘‘صفائی والے نے حیرت سے کہا

’’ہاں یہ دیکھو ‘‘ اور اُس نے جیب سے ایک انگوٹھی نکال کر ہتھیلی پر رکھ دی

’’یہ تم کتنے کی بیچو گے ؟ ‘‘ صفائی والے نے کہا

’’مجھے سونے کا بھاؤ نہیں معلوم، تم ہی بتاؤ یہ کتنے کی ہو گی؟ ‘‘

صفائی والے نے سوچا کہ یہ دھوکا دینے کا بہترین موقع ہے۔ سو اُس نے کہا

’’یہ پانچ ہزار روپے کی ہو گی‘‘

’’ پانچ ہزار تو کچھ کم نہیں بتا رہے ؟ ‘‘

’’ بھئی میں تو تمہارے بھلے کی بات کر رہا ہوں بے شک دکان کھلے تو کسی سُنار سے پوچھ لینا، اگر بیچنی ہے تو ٹھہرو میں گھر سے پانچ ہزار روپے لے آتا ہوں ‘‘

’’ اچھا بھائی تم کہتے ہو تو سچ کہتے ہو گے لے آؤ پانچ ہزار روپے ‘‘

صفائی والا بھاگتا ہوا گیا اور پانچ ہزار روپے اُس آدمی کو دے کر انگوٹھی لے لی، اور اُس بے وقوف آدمی کی قسمت پر دل ہی دل میں خوب ہنسا۔

اب صفائی والا کافی بوڑھا ہو چکا ہے لیکن اُس کی ایک عادت ہے کہ وہ ہر روز کوڑا دان کو زور سے ہلاتا ہے اور کہتا ہے

’’ کمبخت دھوکے باز, باہر نکلو‘‘

٭٭٭

 

                   سزا

 

 

پہلا مقدمہ پیش ہوا۔

پہلے قیدی کو ایک روٹی چوری کرنے پر قاضی نے دس کوڑوں کی سزا سنائی۔

دوسرے مقدمے میں قیدی نے بھوک سے مجبور ہو کر کسی سبزی فروش کی دکان سے چند گاجریں چرائی تھیں لیکن وہ پکڑا گیا اور اسے بیس کوڑے سزا ملی۔۔

تیسرے قیدی کا جب مقدمہ پیش ہوا کہ جس نے شہر سے کئی ہزار مویشی چرا رکھے تھے، تو اس نے آہستہ سے قاضی سے کہا کہ

” میں بادشاہ کے وزیر کا لڑکا ہوں ۔۔۔  ”

قاضی نے اونچی آواز میں کمرہ عدالت میں موجود سب افراد کو مخاطب کیا اور کہا کہ

"ہم انصاف کریں گے اور مجرم کو سزا ضرور ملے گی، اس مقدمے میں اس شریف النفس شہری کو پکڑنے والے سپاہی کو 1 سال قید با مشقت سنائی جاتی ہے۔ ”

٭٭٭

 

 

                   رُکا ہوا آدمی

 

’’آنکھیں اور کان بند کرو اور چھتری تان لو، بارش سے بچ جاؤ گے اور بجلی کی چمک تمہاری آنکھوں میں نہ پڑے گی، کانوں میں روئی ڈال لو کوئی آواز نہ سنائی دے گی‘‘

’’تو پھر میں آگے کیسے بڑھوں گا؟ ‘‘

’’ چھتری بارش سے بچاتی ہے ‘‘

’’ لیکن وہ آگے کا سفر؟ ‘‘

’’بجلی کی چمک سے آنکھیں چندھیا سکتی ہیں سو بند ہی رکھو‘‘

’’ لیکن وہ میں کہہ رہا تھا کہ سفر؟ ‘‘

’’ کان بند رکھو اور کسی بات پر دھیان نہ دو‘‘

’’لیکن پھر؟ ‘‘

’’بس تم چھتری تانے، آنکھیں اور کان بند کیے یہیں کھڑے رہو‘‘

’’ اخبار لے لو، اخبار‘‘

” آج کی تازہ خبر پڑھنے کے لیے

اخبار لے لو، اخبار”

’’اخبار والے رکو، کیا نئی خبر ہے ؟ ‘‘

’’ تمہیں کیا، تم تو رُکے ہوئے آدمی ہو‘‘

٭٭٭

 

 

                   سوچ کے بونے

 

وہ چلتے چلتے بونوں کی بستی میں آ گیا تھا، حالانکہ اس کا قد ان سے بڑا تھا لیکن اب اسے چاروں طرف سے بونوں نے گھیر لیا تھا۔

شروع شروع میں وہ وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا لیکن ہر بار پکڑا جاتا۔

تھک ہار کے اس نے بونوں سے کہا کہ اچھا میں یہیں تمہاری بستی میں رہنا چاہتا ہوں۔

بونوں نے کہا کہ تم رہو مگر ہماری کچھ شرائط ہیں۔

” تمہاری ٹانگیں ہم سے لمبی ہیں انہیں کٹوا دو” بونوں کے سردار نے کہا

” نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا، ان کے بغیر میں چلوں گا کیسے ” نوجوان نے گھبرا کر کہا۔

” ہاں یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں ” بونوں نے کہا

” اچھا تو بازو کٹوا لو کہ یہ بھی تو ہم سے لمبے ہیں ”

” نہیں ہرگز نہیں میں کھاؤں، پیوں گا کیسے ”

” ہاں یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں ” بونوں نے کہا

آخر بونوں کا سردار آگے بڑھا اور اس نے کہا ” اچھا تم اپنی سوچ کو کم کر دو اور ہمارے لیول ہی کا سوچا کرو”

” ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ” نوجوان نے کہا اور مدت بعد بونوں کے درمیان اسے کوئی پہچان نہ سکتا تھا۔

٭٭٭

 

 

                   جوتے

 

’’ میرے جوتے گُم ہو گئے ہیں، آپ کو ملیں تو مجھے لوٹا دیجیے گا‘‘ لڑکے نے پریشانی میں ایک دکاندار سے کہا

’’ کہاں گُم ہوئے ہیں ؟ ‘‘ آدمی نے پوچھا

’’یہ ابھی یہاں اِدھر ہی آپ کی دُکان کے باہر اُتارے تھے، کسی نے کہا کہ سامنے گلی میں مفت راشن تقسیم ہو رہا ہے سو میں جوتے یہاں اُتار کر بھاگ گیا تھا‘‘

’’ جوتوں سمیت چلے جاتے تو جلدی پہنچتے ‘‘

’’ نہیں میرے جوتے مجھے بھاگنے میں مدد نہیں دیتے، وہ تھوڑے سے بڑے ہیں، پاؤں باہر نکل آتے ہیں، در اصل وہ میرے بھائی کے تھے، اُن پر اب چھوٹے ہو گئے ہیں سو اب میرے ہیں ‘‘

’’ تو پرانے جوتے تھے سو تمہیں کیا پریشانی ہے ‘‘

’’وہ جوتے بہت خاص ہیں، نواب صاحب کے بیٹے نے استعمال کے بعد ہمیں دیے تھے ‘‘

’’تمہیں راشن ملا؟ ‘‘

’’ نہیں وہ کسی نے جھوٹ میں آواز لگائی تھی، شاید وہ میرے جوتے چرانا چاہتا ہو‘‘

’’اتنے پرانے جوتے کوئی نہیں چراتا‘‘

’’ وہ اتنے پرانے نہیں تھے، وہ بہت قیمتی تھے نواب صاحب کے بیٹے کبھی بھی کوئی چیز عام نہیں پہنتے ‘‘

’’ صفائی والا یہاں سے گُزرا تھا ہو سکتا ہے اُس نے جوتوں کو اپنے کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے تھیلے میں ڈال لیا ہو، وہ یہاں سے جنوبی گلی میں گیا ہے ‘‘

’’ کیا، آہ میرے قیمتی جوتے، میں ابھی اُس کے پیچھے جاتا ہوں ‘‘

’’ رکو، لڑکے تمہارے پاؤں سے خون بہہ رہا ہے ‘‘ دکاندار نے اونچی آواز میں لڑکے کو پکارا

’’ پاؤں کی خیر ہے ‘‘ ۔۔۔   لڑکے نے کہا اور جنوبی سمت میں جاتی گلی میں بھاگتے ہوئے گُم ہو گیا۔

٭٭٭

 

                   انصاف

 

’’ جناب ! تھوڑا سائیڈ پر ہوں، میرا قد چھوٹا ہے اور مجھے سنائی بھی اونچا دیتا ہے، مجھے بادشاہ سلامت نہ دکھائی دے رہے ہیں نہ سنائی ‘‘

’’ تو ہم کیا کریں ‘‘

’’ اچھا یہ تو بتا دو کہ بادشاہ سلامت کہہ کیا رہے ہیں ؟ ‘‘

’’ وہ انصاف کی فراہمی پر بات کر رہے ہیں اب سب کو انصاف ملے گا‘‘

’’ سب کو؟ ‘‘

’’ ہاں سب کو، وہ دیکھو بادشاہ سلامت نے انصاف بانٹنا شروع کر دیا ہے ‘‘

’’ انصاف تو مجھے بھی چاہیے , بھئی ایک طرف ہوں، مجھے آگے جانے دیں ‘‘

’’ نہیں تم آگے نہیں جا سکتے، انصاف پہلے آگے والوں کو ملے گا‘‘

’’ میرے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے بادشاہ سلامت کو میرا بتاؤ وہ یقیناً مجھے انصاف دیں گے ‘‘

’’ خاموش رہو اور انصاف ملنے کا انتظار کرو‘‘

’’جناب! اب تو شام ہونے کو ہے انصاف ابھی پیچھے والوں تک نہیں پہنچا‘‘

’’ پہنچ جائے گا تم لوگوں کو جلدی کیا ہے ‘‘

’’ہم مجبور ہیں، یہاں پیچھے ہم پر بہت ظلم ہو رہا ہے ‘‘

’’بادشاہ سلامت اب واپس جا رہے ہیں، باقی انصاف کل ملے گا‘‘

’’ہم یہاں سے نہیں جائیں گے تاکہ کل انصاف کی فراہمی ہم سے شروع ہو‘‘

’’نہیں ایسا نہیں ہو گا، بادشاہ سلامت نے کہا ہے کہ پہلے انصاف آگے والوں کو ملے گا اور پھر آگے والے ہی باقی لوگوں میں انصاف بانٹیں گے، سو تم آرام سے گھر جاؤ اور انتظار کرو کہ آگے والوں میں انصاف پورا پورا تقسیم ہو جائے ‘‘

٭٭٭

 

                   گرم انڈے

 

دسمبر کی ایک یخ بستہ شام کو اس بچے کا خیال تھا کہ وہ بیس کے بیس انڈے بیچ لے گا سو وہ جب پوری طاقت سے آواز لگاتا ” گرم انڈے ” تو دھوئیں کا ایک گولہ اس کے منہ سے نکلتا۔

لیکن آج شاید لوگوں کو گرم انڈوں کی ضرورت نہیں تھی، رات تاریک سے تاریک ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔

” گرم انڈے لے لو، ساری سردی ختم ہو جائے گی ”

یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھوں کو منہ کے قریب لا کر ان کو پھونک مار کر گرم کیا ۔۔۔

” آدھی قیمت پر لے لو”

لوگوں نے آج انڈے لینے ہی نہیں تھے سو اس کی اس پیشکش پر کسی نے کان نہ دھرے۔

رات اب کافی بیت چکی تھی اور بیس کے بیس انڈے اس کے پاس تھے، اسے بھوک ستائی تو اس نے ایک گرم ابلا ہوا انڈا چھیلا، منہ میں پہلا ہی ٹکڑا ڈالتے ہی سردی اس کے اندر تک اتر گئی ۔۔۔   اور وہ روتے ہوئے چلایا۔

” انڈے لے لو، خدا کے لیے مجھ سے یہ انڈے لے لو، ایسے اچھے انڈے تم نے زندگی بھر نہیں کھائے ہوں گے ”

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے