لالہ۔۔۔ سبین علی

 

کیا مجھ سے ہاتھ ملاؤ گی؟

اس اچانک سوال سے میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

وہ افریقی بچی اتنی کالی تو نہیں تھی مگر نمکین سی سلونی رنگت، چمکیلی آنکھیں، ہونٹوں پر مسکان لیے ہاتھ میری جانب بڑھائے ہوئے تھی۔

کیونکہ نہیں ___ میں نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا ننھا سا ہاتھ تھام لیا۔

اور اندازہ لگانے لگی کہ یہ ابتدائی چاند راتوں میں گھلی سیاہی جیسی پیاری بچی چار سال کی ہے یا پانچ کی؟ اسی دوران اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیا۔ بھورے رنگ کے گھنگریالے بالوں کو سختی سے کھینچ کر بہت سی پونیاں بنائی گئیں تھیں اور ماتھے سے ذرا اوپر سر پر ایک بڑا سا گومڑ نمایاں تھا۔ شاید اسی کے علاج کے لیے وہ ہسپتال میں موجود تھی۔

تمہارا نام کیا ہے؟

میں نے مصافحے کے بعد اس سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھا۔

لالا ا ا۔۔۔۔۔ اس نے جواب دیا

کیا اا ا ______؟ لیلیٰ تو نہیں میں نے پھر پوچھا۔

نہیں نہیں _____ کھِرکھِرکھِر رررررر ____ اس نے با آواز بلند قہقہہ لگایا۔

پھر بولی لا اا اا الاہ ___ لالہ ___

ا چھا ___ میں نے گہری سانس چھوڑتے ہوئے کہا لالہ ___ اور فوراً ہی داغِ لالہ کا خیال ذہن میں امڈ آیا۔

اس کا گومڑ شاید پیدائشی تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ کچھ گھٹتا معلوم ہو رہا تھا کیوں کہ اس کے ارد گرد جلد سکڑنے کے واضح آثار نظر آ رہے تھے۔ وہ گرمی کے موسم میں بھی اڑی رنگت والی سکرٹ کے اوپر فلیس کی شرٹ پہنے تھی۔ پاؤں میں میلے سے سلیپرز، جن میں سے ایک کے اوپر تتلی بنی ہوئی تھی دوسرے پاؤں کے سلیپر کی تتلی ٹوٹی ہوئی تھی۔

میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔

کھِر کھِر کھِرررررر ____ وہ بار بار اپنے پیٹ کے بل پر عجیب سا زور دار قہقہہ لگاتی میرے دائیں بائیں پھدکنے لگی۔ اس ننھی بچی کے قہقہے میں کچھ ایسا تھا جو مجھے سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔

اس دن میری کلینک کی شفٹ شروع ہی ہوئی تھی اور اس وقت تک کسی مریض کی اپائنٹمنٹ بھی موجود نہیں تھی، اس لیے میری پوری دلچسپی اس بچی کے عجیب و غریب اطوار کی طرف مبذول تھی جسے میں نے پہلے بھی چند ایک بار پولی کلینک پر دیکھا تھا مگر اپنی مصروف روٹین میں کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ اور اُس وقت سب کچھ چھوڑ کر، کمرے کا دروازہ نیم وا کیے میں کھڑی لالہ کو ہی دیکھ رہی تھی۔

مسلسل موبائل فون پر مصروف اس کی ماں اُس سے اِس قدر بے نیاز تھی کہ ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ اِس کی بیٹی کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔

پانی پلاؤں؟ لالہ نے مجھ سے پوچھا! اور جواب کا انتظار کیے بغیر واٹر ڈیسپنسر میں سے ٹھنڈا پانی گرانے لگی۔ کافی سارا پانی ویٹینگ لاؤنج کے فرش پر پھیل گیا۔ اس کے چہرے کی چمک بتا رہی تھی گویا پانی لینا اور گرانا کوئی دلچسپ مشغلہ ہو۔

مجھے اس کی ماں کی لاپروائی پر غصہ آ رہا تھا۔

لالہ ___ ادھر آؤ

میں نے یہ سوچ کر آواز دی کہ پانی ضائع نہ کرے۔

اور وہ اپنا مخصوص قہقہہ لگاتے، بھاگتی ہوئی میرے پاس آ گئی۔

میں نے اس کی کمر پر ہلکی سی تھپکی دی اور کہا گڈ گرل !!! ایسا مت کرو۔

مجھے اس کی شرارتوں سے قدرے الجھن ہونے لگی تو پوچھا تمہاری ماما کہاں ہیں؟

اس نے اپنی ماں کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا _____ اور پھر کھِر کھِر کھِرررررر _____ ہنسنے لگی۔

میں نے کہا جاؤ دیکھو تمہاری ماما بلا رہی ہوں گی۔

لالہ کی آنکھوں میں ایک افسردہ سا رنگ آ کر گزر گیا

پھر ضدی بچوں کی مانند سر نفی میں ہلاتے ہوئی کہنے لگی

وہ نہیں بلاتی مجھے _____ میں ادھر ہی کھیلوں گی _____ _____ کھِی کھِر کھِر کھِررررررررر_____

میں نے اُ سے پچکار کر اس کی ماں کے پاس بھیجنے کی کافی کوشش کی مگر بے سود۔

کچھ ہی دیر میں اس کا باپ کاؤنٹر پر ادائیگیاں کر کے آ گیا۔ اس نے جب لالہ کو واٹر ڈسپنسر سے ٹھنڈا پانی گرانے کے بعد اس میں چھپ چھپ کرتے دیکھا تو آواز دی۔

لالہ _____ لالہ _____ مگر لالہ نے جواباً صرف کھر کھر کرنے پر اکتفا کیا۔

اس کا باپ جو محض ایک تھکا ماندہ وجود نظر آ رہا تھا بیزاری سے خاموش بیٹھ گیا۔

اس کی ماں جو اپنے شوہر اور بیٹی کی بنسبت کافی بہتر حلیے میں تھی مونہہ دوسری طرف کیے پہلے کی طرح پھر سے فون پر مصروف ہو چکی تھی۔ لالہ کبھی میرے کلینک کے اندر موجود چیزوں کا جائزہ لینے لگتی تو کبھی میرا گاؤن اور جوتے ہاتھ لگا لگا کر دیکھتی۔

اسی اثنا میں ایک طویل قامت اور خوش شکل خاتون ویٹینگ روم میں داخل ہوئی اس کے ساتھ تین بہت خوبصورت گول مٹول اور گورے چٹے بچے تھے۔ جن کی عمریں چار سے سات سال کے درمیان تھیں۔ برانڈڈ کپڑوں میں ملبوس تینوں بچے ایسے خوش شکل تھے کہ دیکھتے ہی کسی کو بھی بے ساختہ ان پر پیار آ جاتا۔ میں نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور سسٹر سے ان کی اپائنمنٹ چیک کرنے کا کہا۔

اسی دوران لالہ میرا طواف چھوڑ کر ان بچوں کی طرف لپکی۔ میں نے سکون کا سانس لیا کہ اب وہ میرا پیچھا چھوڑ کر ان بچوں کے ساتھ کھیلنے لگے گی۔

اس کے چہرے پر بچوں کے لیے ایک اشتیاق تھا اور آنکھوں میں کھلنڈری سی شرارت تھی۔

لالہ بچوں کے قریب گئی اور اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھایا۔

جواباً ان بچوں کی ماں نے حقارت سے اس کا بازو بھینچ کر اسے پیچھے دھکیل دیا۔

لالہ سن ہو کر دیوار کر ساتھ لگ گئی اس کے ماں باپ پہلے ہی اس کی طرف سے لا پرواہ تھے، وہ یہ تماشا کیا دیکھتے۔

لالہ کی آنکھوں میں شرارت کی جگہ غصے، حقارت، نفرت اور محرومی کے ملے جلے تاثرات ابھر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا زمین نے اس کے پاؤں جکڑ لیے ہوں اور اور پتھر کی مورت بنی اپنی دھتکار کو سہنے کی کوشش کر رہی ہو۔ ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں کے تاثرات نے مجھے بھی منجمد کر دیا۔

اس پل مجھے ایسا لگا کہ لالہ کی چپل پر جڑی پلاسٹک کی اکلوتی تتلی بھی سفید برفیلی ٹھنڈک میں کملا گئی ہے اور ویٹینگ لاؤنج میں ہر طرف ہنسی اور قہقہوں کی جگہ بے رنگ پتھر گڑ گئے ہیں۔

لالہ کے سر کے گومڑ کی طرف ایک افسردہ سی نظر ڈال کر میں نے سسٹر سے کہا

دروازہ بند کر دو۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے