غزلیں ۔۔۔ رسا چغتائی

خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے

نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے

بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی

جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے

یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی

ایک درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے

تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کر دے

ہاتھ ہو تو کوئی چھُڑا لے جائے

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا

جانے کس سمت راستہ لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے

ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے

یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدّیار، میرا کیا

موج لے جائے یا ہَوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے

اب جہاں بختِ نارسا لے جائے

٭٭٭

 

 

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے

کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے

نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی

سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی

ہم طرف دار ہوائے رہگُزر کیسے ہوئے

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے

اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے

ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر

چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے

٭٭٭

 

 

کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا

پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا

لوگ کب کب کے آشنا نکلے

وقت کتنا گریز پا نکلا

عشق میں بھی سیاستیں نکلیں

قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا

رات بھی آج بیکراں نکلی

چاند بھی آج غمزدہ نکلا

سُنتے آئے تھے قصۂ مجنوں

اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا

ہم نے مانا وہ بے وفا ہی سہی

کیا کرو گے جو با وفا نکلا

مختصر تھیں فراق کی گھڑیاں

پھیر لیکن حساب کا نکلا

٭٭٭

 

 

دل کہ تھا درد آشنا تنہا

جل بجھا اک چراغ تنہا

تجھ سے کیا کیا ہمیں امیدیں تھیں

تُو بھی آئی ہے کیا صبا تنہا

رات کی بیکراں خموشی میں

گیت بُنتی رہی ہوا تنہا

یہ تو اپنا شعار ہے ورنہ

کون کرتا ہے یوں وفا تنہا

دشت سا دشتِ تنہائی ہے رسا

پھِر رہا ہوں غبار سا تنہا

٭٭٭

 

 

رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے

ٹوٹنے کا گماں بھی ہوتا ہے

اس توہم کے کارخانے میں

کارِ شیشہ گراں بھی ہوتا ہے

ہم سے عزلت نشیں بھی ہوتے ہیں

عرصۂ لامکاں بھی ہوتا ہے

ہم بھی ہوتے ہیں اُس کی محفل میں

رقصِ سیّارگاں بھی ہوتا ہے

بادِ صحرائے جاں بھی ہوتی ہے

نغمۂ سارباں بھی ہوتا ہے

جوئے آبِ رواں بھی ہوتی ہے

عکسِ سروِ رواں بھی ہوتا ہے

پھول کھلتے بھی ہیں سرِ مژگاں

چاندنی کا سماں بھی ہوتا ہے

لوگ مل کر بچھڑ بھی جاتے ہیں

اور یہ ناگہاں بھی ہوتا ہے

چشمِ آئینہ ساز میں شاید

آئینہ کا گماں بھی ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

سامنے جی سنبھال کر رکھنا

پھر وہی اپنا حال کر رکھنا

آ گئے ہو تو اِس خرابے میں

اب قدم دیکھ بھال کر رکھنا

شام ہی سے برس رہی ہے رات

رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا

عشق کارِ پیمبرانہ ہے

جس کو چھُونا مثال کر رکھنا

کشت کرنا محبتیں اور پھر

خود اُسے پائمال کر رکھنا

روز جانا اُداس گلیوں میں

روز خود کو نڈھال کر رکھنا

اس کو آتا ہے موجِ مے کی طرح

ساغرِ لب اُچھال کر رکھنا

سخت مشکل ہے آئینوں سے رساؔ

واہموں کو نکال کر رکھنا

٭٭٭

 

 

دل نے اپنی زباں کا پاس کیا

آنکھ نے جانے کیا قیاس کیا

کیا کہا بادِ صبح گاہی نے

کیا چراغوں نے التماس کیا

کچھ عجب طور زندگانی کی

گھر سے نکلے نہ گھر کا پاس کیا

عشق جی جان سے کیا ہم نے

اور بے خوف و بے ہراس کیا

رات آئی ادھر ستاروں نے

شبنمی پیرہن لباس کیا

سایۂ گل تو میں نہیں جس نے

گُل کو دیکھا نہ گُل کو باس کیا

بال تو دھوپ میں سفید کیے

زرد کس چھاؤں میں لباس کیا

کیا ترا اعتبار تھا تو نے

کیا غضب شہرِ ناسپاس کیا

کیا بتاؤں سبب اُداسی کا

بے سبب میں اسے اُداس کیا

زندگی اک کتاب ہے جس سے

جس نے جتنا بھی اقتباس کیا

جب بھی ذکرِ غزل چھڑا اُس نے

ذکر میرا بطورِ خاص کیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے