ہیولا ۔۔۔ آدم شیر

یہ کہانی ہے ایک خرادیے کی جو کرشن کے بیٹے سے منسوب شہر کا باسی تھا۔  وہ اِس شہر کی عظمت کے گیت گاتا تھا جو ہمیشہ سے راج گڑھ رہا ہے، راجہ چاہے کوئی ہو۔  افغانی ہو یا ترک، سکھ ہو کہ ہندو، گورے اور بھورے، کوئی بھی اِسے نظر انداز نہیں کر سکا۔  اِس کے ایک کنارے وہ بادشاہ منوں مٹی تلے خاموش ہے جس نے ایک زنجیر لٹکا رکھی تھی جسے ہلانے پر ٹن ٹن کی آواز وسیع و عریض محل میں گونجنے لگتی تھی اور آج اُس کے مقبرے میں بھینسیں گھاس چرتی ہیں۔  صدیوں سے زمانے کا ہیر پھیر دیکھنے والے اِس شہر کے ٹھیک درمیان میں خاندانِ غلاماں کا وہ بادشاہ ابدی نیند سو رہا ہے جس کے مقبرے سے اڑھائی فٹ کے فاصلے پر گندی نالی بہتی ہے۔  اِس سپاہی سے منسوب مسجد بھی ہے جو بادشاہِ وقت کی صف میں کھڑا ہوتا تھا۔  اب وہ سپاہی ہیں نہ سالار جو وقت کی باگ تھام کر رُخ موڑ دیتے تھے۔  اِسی شہر میں اُس تانا شاہ کا آوا تازیانہ عبرت ہے جس نے نوکر شاہی اور سپاہ پر اِتنا پیسہ لُٹایا کہ رعایا کے لیے کچھ نہ بچا اور وہ بیرونی حملہ آوروں کا خیر مقدم کرنے لگی۔  اُس کی روایت اقتدار کے ایوانوں میں آج بھی قائم ہے۔  ایک مہاراجہ کی آخری نشانی بھی یہیں موجود ہے جو اِسی دھرتی سے اُٹھا تھا اور اِسی کو تاراج کرتا رہا تھا۔  اُس کے بیٹے گورے لے گئے تھے اور قانونِ فطرت کے مطابق بعد میں وہ اُس کے نہ رہے تھے۔

اِس شہر کے لیے سلامتی کی دعا تو بنتی ہے جسے تیمور کے بھیڑیے بھی نہ نوچ سکے لیکن آج کے شاہی خانوادے اِسے یوں بھنبھوڑ رہے ہیں کہ حقیر سمجھے جانے والے کتے بھی ہڈی کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے۔  ماضی کے شاہوں کے محل اُن کی طرح مٹ چکے ہیں مگر ایک دو جو باقی ہیں وہ بھی دور حاضرِ کے شہزادوں کی خواب گاہوں کے سامنے شرمندہ ہیں۔  ہزاروں ایکڑ پر محیط ریاستیں ایسی کہ آسودۂ خاک راجے دیکھیں تو مزید نیچے دھنس جائیں اور آنکھ نہ اٹھائیں راوی کی طرح جس کے لیے سریلے بول بولے جاتے رہے ہیں جو آج بھی اپنی بانہوں میں بے گھروں کو سمیٹے ہے گو اِسے کئی بیماریاں لاحق ہو چکی ہیں اور مسیحا کوئی بھی نہیں۔

بوڑھے دریا کو چیرتی ہوئی ایک سڑک نکلتی ہے اور اُس شاہراہ سے جا ملتی ہے جو شیر شاہ سوری کی یاد دلاتی ہے۔  اِس سڑک کے جوانب کئی دیہات آباد ہیں اور اِن میں سے ایک میں خرادیا رہتا تھا۔  پہلے وہ اُس باغ کے پچھواڑے میں بستا تھا جس کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اِس کی بنیادوں میں ایک سالے کا خون شامل ہے۔  گزرتے وقت نے باغ پر ہی بُرے اثرات نہ چھوڑے بلکہ اُسے بھی لپیٹ میں لے لیا۔  یہ شہر جو پہلے بارہ دروازوں میں بستا تھا اور ایک موری کا چوں گا بھی اِس کے پاس تھا، اب اتنا پھیل چکا ہے کہ جامد رہنے لگا ہے، سومو پہلوانوں کی طرح جن کی آخرت بڑی دردناک ہوتی ہے لیکن اِس کے اونچے برج سلامت رہنے کی دعائیں مانگتے رہنا چاہئے کہ تاریخ کی ایسی ایسی نشانیاں سمیٹے ہوئے ہے جو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں مگر ہوش والوں کی اور اُن کے لیے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا جن کے ندیدے دیدے کاغذوں میں چھپے ہیں اور اس سبب وہ خود دیکھ پاتے ہیں نہ کسی کو دیکھنے دیتے ہیں۔

یہ نگر ہے اُس لال کا جو ماں کے حضور دُکھڑے سناتا رہا اور یہ گھر ہے اُس صوفی کا جس کی ٹیڑھی اینٹ پر سنہری گوردوارہ قائم ہے گو اِسے ایک دو بار خون سے غسل بھی دیا گیا۔  شمال سے آئے بزرگ بھی یہاں آرام فرما ہیں اور یہ گھر ہے اُن فنکاروں کا۔۔۔ جو سرگم چھیڑتے تھے اور برکھا برستی تھی۔  ملہار گاتے تھے، پون چلتی تھی۔  یہ کینوس ہے اُن مصوروں کا۔۔۔  جن کے رنگ باتیں کرتے ہیں۔  یہ خواب گاہ ہے اُن شاعروں کی جو درباری تھے اور اُن کی بھی جو تخت گرانے کے ترانے گنگناتے رہے۔  یہ مسکن ہے قصہ گوؤں کا کہ جن کے چھیڑے قصے آج بھی سنائے جا رہے ہیں اور کل بھی کانوں پر گِراں گزریں گے۔  اِنہی میں سے ایک قصہ خرادیے کا ہے جو کسی کی نظر میں خاص نہیں مگر وہ اِس عظیم شہر کا باسی تھا اور باپ تھا ایک چھوٹے سے بچے کا گو لڑکے تو پیدا ہوتے ہی جوان ہوتے ہیں اور باپ کا سینہ کشادہ کرتے ہیں جو طوفانی بارش میں بچوں کے سر پر چھتری بنا رہتا ہے۔

وہ سارا دن لوہے کو گھساتا رہتا تھا مگر نہیں جانتا تھا کہ خود بھی گھس رہا ہے۔  اُس کا لختِ جگر صرف ڈیڑھ سال کا تھا اور وہ ہر رات سونے سے پہلے اور جاگنے کے بعد اُس سے ڈھیروں باتیں کرتا تھا۔  اُسے پہلا کلمہ سکھانے کی کوشش کرتا۔  اللہ ہو کا ورد بتاتا۔  اُسے بغلوں سے اُٹھا تا اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے لا الہ کرتا رہتا تھا۔  ایک رات یونہی اُس نے بچے کو اٹھایا اور فوراً واپس لٹا دیا۔  بیوی سے پوچھا کہ یہ تَپ کیوں رہا ہے؟ ماں نے بتایا کہ خالی تاپ نہیں، دست بھی لگے ہیں۔  خرادیے نے اندازہ لگایا کہ ٹھنڈ لگی ہے۔  اُس نے بچے کو کمبل میں لپیٹا اور گاؤں کے اکلوتے ڈاکٹر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔  ڈاکٹر نے ٹیکا لگایا اور دوا دیتے ہوئے تسلی دی کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔  بچوں کے ساتھ موسم بدلنے پر چھوٹے چھوٹے مسئلے ہو جاتے ہیں۔

بچے نے ساری رات رو رو کر اور خرادیے نے اپنی بیوی کے ساتھ اُسے چپ کرانے میں گزار دی۔  سویرا ہوتے ہی بچے کی چیخیں تھمنے لگیں جیسے رات بھر کی مشقت سے تھک گیا ہو اور مزید چلانے کی سکت نہ رہی ہو۔  بغل والے کمرے سے خرادیے کا بڑا بھائی آنکھیں ملتے ہوئے آیا اور کھردری آواز میں پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تیری بھابھی بتا رہی تھی کہ کاکا ساری رات روتا رہا ہے۔  خرادیے نے بخار کے متعلق بتایا تو اُس نے اپنی دانست کے مطابق کچھ مشورے دیے اور دہی کے ساتھ روٹی کھا کر کام کو چل دیا۔  اُس کے پیچھے پیچھے خرادیا بھی چائے کے ساتھ روٹی نگل کر دُکان پر پہنچ گیا اور گھسانے لگا۔  گھر میں بیوی بھی گھس رہی تھی۔  وہ ننھے کے پوتڑے دھو کر واپس آتی تو ایک اور لنگوٹ لبھڑ چکا ہوتا۔  ناک پونچھ پونچھ کر اُس کا دوپٹہ الگ سے چِپ چِپا ہو گیا۔  جیٹھانی اپنے بچوں کے کام نمٹاتے ہوئے اُس کا ہاتھ بھی بٹاتی جاتی تھی لیکن اُس کے اپنے جھمیلے اتنے تھے کہ بس آسرا ہی ہوتا جو کم ہوتے ہوئے بھی زیادہ ہوتا ہے۔

موسم سرما میں اِس چھوٹے سے گاؤں میں سردی کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے کہ چاروں طرف سے ٹھنڈی ہوائیں بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی رہتی ہیں۔  گاڑیوں کی حرارت اور شور نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔  صبح سورج دیر سے آتا ہے اور شام کو جلدی چلا جاتا ہے۔  کئی دن ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دھندلکے کی اوٹ میں کہیں چھپا رہتا ہے۔  بڑے بوڑھے کھیتوں کے کنارے بیٹھے حسب عادت ماتھے پر ہاتھوں کی چھتری تان کر توانائی کا گولا دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھلے میں پانی کاٹنے کو آتا ہے مگر خرادیے کی بیوی کے ہاتھ سوکھنے میں نہیں آ رہے تھے جو صبح سے شام تک راضی بہ رضا ٹھٹھرتی اور بھاگ بھاگ کر کام نمٹاتی رہی تھی۔  یہاں تک کہ خرادیا دُکان سے واپس گھر آ یا اور اُس کے سیاپے شروع ہو گئے۔

دوپہر کی سوئی گیس پر پکی روٹی اور شام کے وقت لکڑیوں کی آنچ پر بنائے گئے آلو مٹر کھا کر وہ ننھے کو سہلانے لگا جو وقفے وقفے سے ریں ریں کر رہا تھا۔  خرادیے نے بیوی سے دوا دارو کا پوچھاجس نے بروقت کھلانے پلانے کا بتایا۔  وہ سوچ میں پڑ گیا کہ چار دفعہ دوائی کھلانے کے باوجود آرام نہیں آیا، کیا بات ہے؟ اس نے ننھے کو کمبل میں لپیٹا اور ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جس نے دوبارہ اچھی طرح معائنہ کیا۔  سکون آور ٹیکا لگا کر دوائی خرادیے کے ہاتھ میں تھما دی اور ہدایت کی کہ صبح بچے کو لازمی لے کر آئے۔

اُس رات بچہ کم کم رویا گو کبھی کبھی اُس کے گلے سے اِس طرح آواز نکلتی تھی کہ معلوم نہ پڑتا سانس لینے میں مشکل پیش آ رہی ہے یا رونے کی کوشش کر رہا ہے۔  خرادیا لرزتی سوچوں کے ساتھ اُسے دیکھتے دیکھتے نصف شب سے پہلے ہی نیند کی وادی میں چلا گیا اور اُس کی بیوی ساری رات میکانکی انداز میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد اُٹھ جاتی اور اپنے لال کو اچھی طرح دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتی تھی۔  نیند میں بھی وہ اپنے تئیں یہی کرتی رہی اور یہ سب ایک ماں ہی کر سکتی ہے جس کی محبت کو مثال خود اُس نے بنایا ہے جس نے سارا کھیل رچایا ہے۔

سویرا ہوا تو خرادیے کی بیوی نے جاگ کر سب سے پہلے ننھے کو دیکھا، پھر برتن مانجھے اور دوبارہ بچے کو دیکھ کر کھانا بنانے لگی۔  خرادیا اُٹھا، پیٹ بھرا اور ننھے سے لاڈ کر کے کام کو نکل پڑا لیکن تین گھنٹے بعد ہی واپس آ گیا اور بچے کو لے کر ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جس نے معائنہ کرنے کے بعد فوری طور پر ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔  خرادیا بچے کو واپس گھر لایا اور تھوڑی دیر بعد میاں بیوی گھر سے نکل پڑے۔  بیس منٹ کی پیدل مسافت سے اِس بڑی سڑک پر پہنچے جو شہر سے ٹریفک کا بوجھ کم کرنے کے لیے اطراف میں بنائی گئی تھی۔  اِسے عبور کر کے ذیلی سڑک پر چنگ چی رکشا لیا جس نے اُنھیں تیس منٹ بعد ایک ایسی جگہ اتار دیا جہاں سے اُنھیں ایک اور رکشا لینا پڑا جو اُنھیں ہسپتال کے قریب ترین سٹاپ پر لے گیا۔  وہ دس منٹ چل کر ٹیچنگ ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ گئے جہاں سے اُنھیں بچوں کی ڈاکٹر کے کمرے میں بھیجا گیا جس نے بچے کی ہر سانس کے ساتھ نکلتی آواز کو محسوس کیا اور آکسیجن والی ایمبولینس میں فوری طور پر پرانے شہر کے بارہ دروازوں میں سے مٹ چکے ایک کی بغل میں موجود بہت بڑے ہسپتال جانے کی ہدایت کی۔  خرادیے نے منت کی کہ بوتل نہیں تو ٹیکا ہی لگا دیں تاکہ بچہ تھوڑا سنبھل جائے، پھر وہاں لے جائیں گے۔  ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا ایمرجنسی والوں نے کوئی دوا نہیں دی؟ جواب نفی میں ملنے پر اُس نے استقبالیہ سے ملی پرچی پر نرسوں کے لیے کیڑے مکوڑے بنا کر اُسے بچوں کے لیے ایمرجنسی ٹریٹمنٹ روم میں بھیج دیا۔

وارڈ کے باہر خرادیا دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔  اندر ماں بچے کو گود میں اٹھائے ایسے بنچ پر بیٹھی تھی جو سردیوں میں کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔  غذا کی کمی سے پڑی جھائیوں اور راستے کی دھول سے اَٹے چہرے پر ایک رنگ آتا تو دوسرا جاتا۔  پریشانی اِس بات کی زیادہ تھی کہ اُسے سامنے موجود چیزیں صاف نظر نہیں آ رہی تھیں۔  نرسوں نے بچے کو آکسیجن کا ماسک لگا دیا تھا۔  ننھی جان کی شریان ڈھونڈنے میں دقت پیش آئی۔  سوئی بار بار چبھنے سے بچہ رویا بھی بہت مگر تیسری نرس کی کوشش کامیاب ہوئی اور سوئی شریان میں چلی گئی۔  بوتل سے قطرہ قطرہ بچے کے جسم میں منتقل ہونے لگا۔  نرسوں نے بوتل میں کچھ اور ٹیکے بھی وقفے وقفے سے داخل کیے مگر بچہ روتا رہا۔  ماں نے چپ کرانے کی بہتیری کوشش کی لیکن ناکام رہی۔  وہ روتا رہا کہ اُس کے پاس اپنی تکلیف بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے، صرف رونا ہی تھا جس کا وہ استعمال کرتا رہا جب تک طاقت ساتھ دیتی رہی۔

بچوں کا رونا اکثریت کو ناگوار گزرتا ہے، اذیت دیتا ہے لیکن ہسپتال بھی کیا عجب جگہ ہے کہ بچہ روئے جا رہا تھا۔  نرسیں اپنی دھن میں کاغذات پر کچھ لکھ رہی تھیں، دوسرے بچوں کو لگی بوتلیں دیکھ رہی تھیں یا مزید ٹیکے لگانے کی تیاری کر رہی تھیں۔  دور دور سے لائے گئے بچوں کی مائیں خرادیے کی بیوی کی طرف ہمدردی سے دیکھ رہی تھیں اور وہ اپنے بچے کو پریشانی سے … اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بچے موسم بدلنے پر تھوڑا بہت بیمار ہو ہی جاتے ہیں تو میرے لال کو کیا ہو گیا ہے جو صحیح ہونے میں نہیں آ رہا۔  روئے جا رہا ہے بس روئے جا رہا ہے۔  اُسے یاد آیا کہ صبح تھوڑا سا دودھ پیا تھا جو فوراً الٹ دیا تھا۔  نرس سے دودھ پلانے کے لیے پوچھتی ہے کہ کہیں بھوک سے تو نہیں ہلکان ہو رہا؟ نرس نے بتایا کہ بوتل کے ہوتے ہوئے ضرورت نہیں۔  وہ بچے کے ماتھے پر ہاتھ پھیر پھیر کر زیر لب اللہ اللہ کرتی رہی کہ سکون ملے۔ وارڈ کے باہر خرادیا بھی بے سکونی سے کبھی ٹیک لگاتا اور کبھی کھڑکی میں لگے شیشے سے وہاں دیکھتا جہاں سے درد ناک آواز آ رہی تھی۔  وہ بھی اندازے لگا رہا تھا کہ بچے کو کیا ہو سکتا ہے؟ بیماری ایسی کیا ہو گئی کہ بچہ رو رو کر ہلکان ہو رہا ہے؟

دو گھنٹے اِسی طرح گزر گئے مگر بچے کی حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی گئی۔  نرسوں کی شفٹ بدلنے کا وقت ہوا تو اُنھوں نے باری باری سب کو دیکھا اور کاغذات میں کچھ لکھا۔  نئی نرسیں آ گئیں اور وہ بھی وہی عمل دہرانے لگیں۔  جب ایک نئی نرس نے خرادیے کے بچے کو دیکھا تو اُس کے چہرے پر پریشانی کی لہریں ابھر آئیں۔  اُس نرس کے لیے بھی ایک نغمہ ہونا چاہئے جو کسی کے لال کے لیے پیلی ہوتی ہے۔  وہ وارڈ میں موجود خود سے بڑی عمر کی نرس کو بچے کے پاس لاتی ہے اور اُسے دیکھتے ہوئے مشورہ کرتی ہیں۔  پھر نئی نرس وارڈ سے نکل کر ڈاکٹر کے کمرے میں چلی گئی جہاں سے تیز تیز قدم اٹھاتی واپس آئی اور خرادیے کے بچے کے پاس جا کر ماں سے کچھ کہا جو باہر کھڑے خرادیے کو سنائی تو نہیں دیا مگر پریشانی ضرور ہوئی جو اس وقت مزید بڑھ گئی جب ڈاکٹر بھی اپنے کمرے سے نکل کر وارڈ میں آ گئی۔

ڈاکٹر چند لمحے بچے کو دیکھتی رہی اور نرس کو ایمبولینس کا بندوبست کرنے کا کہہ کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔  نئی نرس نے وارڈ کے دروازے میں کھڑے کھڑے خرادیے کو ایمبولینس کے متعلق بتایا۔  پھر کچھ سوچتے ہوئے وارڈ بوائے کو بلایا اور اُسے ہسپتال کی ایسی ایمبولینس لانے کے لیے کہا جس میں آکسیجن کا انتظام بھی ہو۔  خرادیے کے پوچھنے پر نئی نرس نے بتایا کہ بچے کو ایک بڑے ہسپتال میں بھیج رہے ہیں جہاں ہر وقت بچہ ایمرجنسی میں ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔  یہاں تو تھوڑی دیر میں ڈاکٹر چلی جائے گی۔  اُس کے بعد ایمرجنسی ہونے پر کسی دوسرے وارڈ سے ڈاکٹر کو بلانا پڑتا ہے اور بچے کی حالت ٹھیک نہیں۔  اسے یہاں رکھنا بہتر نہیں۔  خرادیے کو سمجھ نہیں آیا کہ اِس ٹیچنگ ہسپتال میں کیا خرابی ہے جو بہت بڑا ہے اور جہاں لوگ دوسرے شہروں سے بھی آتے ہیں لیکن نرس کے چہرے کے تاثرات اِسے اندر ہی اندر اعتماد دلا رہے تھے کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔  یہاں شام کو واقعی ڈاکٹر نہیں بیٹھتا ہو گا۔

وارڈ بوائے نے واپس آ کر بتایا کہ سرکاری ایمبولینس کا انتظام نہیں ہو سکا، پرائیویٹ آ رہی ہے۔  اُس نرس نے ڈانٹا کہ جاؤ کسی ڈرائیور کو ڈھونڈ کر لاؤ۔  اور خرادیے کو لے کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے پاس چلی گئی جس نے کہا کہ ہسپتال کی نہیں مل رہی تو پرائیویٹ میں لے جائیں۔  پیسے نہیں دے سکتے تو رکشا کر لیں یا یہیں مرنے کا انتظار کرتے رہیں۔  خرادیا چپ چاپ اُس کمرے سے باہر نکل آیا لیکن پیچھے دروازہ اس طرح بند کیا جیسے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارا ہو۔  اُس نے وارڈ میں آ کر اُس نرس کی واپسی کا انتظار کیا جو ابھی کسی غیر کے لیے پریشان ہونے کی صلاحیت رکھتی تھی۔  جب وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے سے لوٹی تو اُس نے آتے ہی ریفرنس فائل بنانا شروع کر دی۔  خرادیا اسے فائل پر کرتے اور اس کی بیوی اپنے بچے کو دیکھتی رہی۔  اسی اثناء میں وارڈ بوائے آ گیا کہ پرائیویٹ ایمبولینس ہسپتال کے دروازے پر کھڑی ہے۔

دوپہر کا وقت تھا اور سڑکوں پر کچھ بھی سننے اور سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔  کاریں، ویگنیں، گدھا گاڑی، گھوڑا گاڑی، موٹرسائیکل، بائیسیکل سب موجود تھیں لیکن پیدل چلنا تک دو بھر تھا۔  دو پہیوں والے سوار کسی نہ کسی طرح راستہ بناتے جا رہے تھے مگر چار پہیوں والے پھنسے ہوئے تھے جن میں تین سو روپے کرایہ پر لی گئی ایمبولینس بھی شامل تھی جس کا ڈرائیور مسلسل سائرن بجا رہا تھا جو خرادیے کی کنپٹیوں پر تو ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا مگر بیوی اور بچے پر لگتی ضربوں کی شدت کا صحیح اندازہ نہیں۔  ٹریفک پولیس کے دو اہلکار چوک میں کھڑے آپس میں گفتگو میں مصروف تھے اور ایک جوان ہاتھ ہلا ہلا کر بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔  خرادیا شیشے سے باہر تک رہا تھا اور اُس کے دماغ میں اک طوفان اٹھ رہا تھا۔  اس کی بیوی حواس باختہ معلوم دے رہی تھی جسے سب دیکھنے کے باوجود کچھ نظر نہ آ رہا ہو۔  وہ یوں سوچوں میں گھری تھی کہ کچھ سوچ نہ پا رہی تھی۔  اُس کے اندر باہر سب سُن سا تھا جیسے سڑک پر ٹریفک جام۔  ایمبولینس پاں پاں کر رہی تھی مگر کسی کو سنائی نہیں دے رہا تھا۔  اُس کی بیوی یعنی بچے کی ماں کا بھی یہی حال تھا جو سڑک پر تھا کہ ایک کے سوا ساری پریشانیاں اپنی اہمیت کھو چکی تھیں۔

ایمبولینس نے ایک گھنٹے میں تیرہ کلومیٹر کا فاصلہ کسی نہ کسی طرح طے کر لیا اور شہر کے سب سے بڑے ہسپتال سے صرف آدھا کلومیٹر دور تھی۔  ڈرائیور خرادیے کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ سائرن بجائے جا رہا تھا اور جیسے چوہا کونے کھدرے ڈھونڈتا ہے، وہ بھی راستہ تلاش کر رہا تھا۔  کبھی کسی کو بچاتے اور کبھی سے بچتے ہوئے بیس منٹ کے بعد اسے ہسپتال پہنچنے میں کامیابی مل گئی۔  اس دوران میں خرادیے اور اس کی بیوی نے اتنے جھٹکے کھا لیے کہ بچہ ایمرجنسی کے سامنے جیسے ہی ایمبولینس رکی وہ یوں نکلے کہ مشکل سے توازن قائم رکھ سکے۔  ڈرائیور آکسیجن والا سلنڈر سنبھالے ان کے پیچھے پیچھے اندر گیا۔  استقبالیہ پر پہلے ہی چار لوگ پرچی بنوانے کے لیے کھڑے تھے۔  خرادیا بار بار اپنے بچے کا نام دہراتا مگر استقبالیہ پر موجود شخص پہلی پرچی پر مصروف تھا۔  ڈرائیور کو واپس جانے کی جلدی تھی، اُس نے آگے بڑھ کر کہا کہ بچہ ایمرجنسی میں ہے اور آکسیجن کا سلنڈر لگا ہوا ہے۔  استقبالیہ والے نے اس کی طرف دیکھے بغیر بچہ وارڈ میں پہچانے کا کہا اور اپنا کام جاری رکھا۔  خرادیے کی بیوی اور ڈرائیور بچے کو ایمرجنسی میں لے گئے جہاں نرسوں نے اسے بیڈ پر لٹا کر آکسیجن لگائی اور اتنی دیر میں خرادیا بھی پرچی بنوا کر آ گیا۔

پینتیس چھتیس سال کے ڈاکٹر نے، جس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی اور رنگ صاف تھا، خرادیے سے پرچی اور ٹیچنگ ہسپتال کی ریفرنس فائل لے کر ایک نظر دیکھی۔  پھر دوسرے جوان ڈاکٹروں اور نرسوں کو ہدایات دینا شروع کر دیں۔  وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی بچے سے چمٹ گئے۔  کوئی کچھ چیک کر رہا تھا تو کوئی کچھ دیکھ رہا تھا۔  ایک ڈاکٹر نے کہا کہ بخار بہت زیادہ ہے۔  دوسرے نے بتایا کہ دل کی دھڑکن سست روی کا شکار ہے۔  تیسری نے لنگوٹ بدلنے کا اشارہ کیا۔  داڑھی والا ڈاکٹر باقی جوانوں سے زیادہ تجربہ کار معلوم دے رہا تھا، اُس نے ساتھیوں سے فارغ ہو کر خرادیے کی طرف منہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ اس کا باپ ہے؟ خرادیے نے ہاں میں سر ہلایا تو اُس نے بچے کو راستے میں جھٹکے لگنے کے متعلق پوچھا جس پر خرادیا سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہونے اور ایمبولینس کی پریشر بریک سے لگنے والے جھٹکوں کے متعلق بتاتا رہا۔  ڈاکٹر اُس کے جواب پر جھنجھلا گیا مگر اس کا حلیہ دیکھتے ہوئے چپ رہا اور خرادیے کی بیوی یعنی بچے کی ماں۔۔۔  ماں جو اپنے بچوں کے لیے کبھی تھکتی ہے نہ ہار مانتی ہے، اُسے بچے کو ٹھنڈی پٹیاں کرنے کی ہدایت کی۔  خرادیا بھاگ کر باہر گیا۔  ستر روپے کی پانی والی بوتل لایا اور اپنے کندھے پر رکھا پرنا اچھی طرح جھاڑنے کے بعد تر کر کے بیوی کو بوتل سمیت پکڑا دیا۔

بچے کے دونوں ہاتھوں کی اُلٹی جانب بٹر فلائیاں لگ چکی تھیں۔  ایک کے ذریعے ڈرپ لگائی گئی اور دوسری سے باری باری چار سرنجوں میں خون نکالا گیا جو خرادیے کو چار پرچیوں کے ساتھ تھما دی گئیں۔  وہ لیبارٹری ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک تہہ خانے میں پہنچا جہاں اُس سے دو پرچیاں اور دو سرنجیں لے لی گئیں اور ایک گھنٹے بعد آنے کا حکم ملا۔  اُس نے دوسری دو پرچیوں کے متعلق پوچھا تو پتا چلا کہ وہ مردانہ ایمرجنسی کی لیبارٹری میں لے کر جانی ہیں۔  وہاں اُس سے ایک پرچی اور سرنج لی گئی اور پانچ منٹ کھڑا رکھنے کے بعد اسے نتیجہ کے ساتھ لوٹا دی گئی۔  آخری پرچی اسی عمارت میں تیسری منزل پر موجود لیبارٹری میں پہنچی اور آدھے گھنٹے کے بعد آنے کا کہا گیا۔

خرادیا ایمرجنسی میں واپس آیا تو دیکھا کہ ایک نرس بوتل سے پانی اپنی ہتھیلی میں انڈیل کر اُس کے بچے کی چھاتی بھگو رہی ہے۔  سانس کے لیے آکسیجن ماسک لگایا جا چکا تھا جو ایک سیلیکون کی چوڑے پیٹ والی بوتل سے منسلک تھا اور اس کی بیوی ایمبو بیگ کو مخصوص ردھم کے ساتھ ہاتھوں سے دبا رہی تھی۔  اس نے ایمبو بیگ کو ہاتھوں سے گیند کی طرح پکڑا ہوا تھا، دبانے پر ہوا اندر جاتی اور انگوٹھے ڈھیلے چھوڑنے پر باہر آتی تھی۔  خرادیا حیرانی سے سارا عمل دیکھتا رہا جب تک ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ بچہ کب سے بیمار ہے؟ خرادیے نے اُسے گاؤں کے ڈاکٹر سے لے کر ٹیچنگ ہسپتال اور یہاں تک پہنچنے کی روداد سنا دی لیکن یہ نہ بتایا کہ کتنے دن سے بیماری گھر بنائے بیٹھی تھی۔  اسے علم ہی نہ تھا کہ سردی لگ جانا بھی بیماری ہی ہوتی ہے۔  ڈاکٹر نے ڈانٹا کہ اسے پتا نہیں اُس کا بیٹا ایک سو چھ بخار میں تڑپ رہا ہے اور وہ دیوار پر نصب کی گئی مشین کو قریب ہو کر غور سے دیکھنے لگا جو بچے کے دل کی دھڑکن کا گراف بنا رہی تھی۔  ڈاکٹر نے چند لمحے بعد خرادیے کی طرف مڑتے ہوئے ایک سادہ کاغذ پر کچھ لکھ کر اسے پکڑایا اور کہا کہ ایکسرے روم جا کر دکھائے، کہے کہ ایمرجنسی ہے، کب تک بچہ لے آئیں؟

خرادیے نے ہدایت پر عمل کیا مگر ایکسرے روم میں شفٹ تبدیل ہو رہی تھی اور مشین کو آرام دیا جا رہا تھا۔  ڈاکٹر نے غصے سے کہا کہ ٹیکنیشن کو جا کر کہو مشین سٹارٹ کرے۔  خرادیے نے ایسے ہی کہا تو ٹیکنیشن نے مسکراتے ہوئے وہی کہا جو پہلے کہہ چکا تھا کہ بیس منٹ سے پہلے مشین سٹارٹ نہیں کروں گا۔  ڈاکٹر نے خرادیے کی زبانی مشین ریسٹ کا سن کر وارڈ بوائے کو بھیجا جو واپسی پر ویسا ہی پیغام لایا۔  تب ڈاکٹر نے غصے کے ساتھ اپنے ساتھی سے کہا کہ اس کی تحریری شکایت کروں گا۔  یہ کیا بات ہوئی کہ مشین ریسٹ پر ہے۔  یہاں بچے تڑپ رہے ہیں اور مشین ریسٹ پر ہے۔  یونہی بولتے بولتے اُس کی نظر اچانک خرادیے پر پڑی تو اس نے کچھ سوچتے ہوئے اسے ٹیسٹوں کے نتیجے لانے کے لیے بھیج دیا اور خود دوسرے بچوں کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔

خرادیا بھاگا بھاگا گیا اور دو لیبارٹریوں سے دو نتیجے لے آیا۔  آخری ٹیسٹ کی رپورٹ دو دن بعد آنے کی خبر بھی لایا۔  اُس کی غیر موجودگی میں ایکسرے ہو چکے تھے۔  اس کی بیوی اب تک بیڈ کے ساتھ کھڑی ایمبو بیگ کے ذریعے اپنے بچے کو سانس فراہم کر رہی تھی اور اُس کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ زرد لگ رہا تھا مگر خرادیے کا دھیان اُس کے چہرے پر کہاں تھا، وہ تو بچے کو دیکھ رہا تھا جو اب خاموش اور بے سدھ نظر آ رہا تھا۔  خرادیے نے خدشات کو دماغ سے جھٹکا اور اردگرد دیکھنے لگا۔

میاں بیوی چپ چاپ کھڑے تھے جبکہ وارڈ میں ایک عجب شور تھا جو ان کی سماعت سے پرے تھا۔  ماؤں اور باپوں کی خاموش چیخیں کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھیں۔  اس آہ و پکار میں ایک آواز اس خاتون کی بھی شامل تھی جو اُس شہر سے آئی تھی جس میں لکھوکھا لوگ رہتے تھے۔  لوگ اچھے لوگ۔۔۔  برے لوگ۔۔۔  غریب لوگ۔۔۔  امیر لوگ۔۔۔  ہر مرئی اور غیر مرئی شے پر ٹیکس دینے والے۔۔۔  زبردستی لینے والے۔۔۔  واپس کچھ نہ دینے والے۔۔۔  ذلیل اور کمینے لوگ۔۔۔  غلام معاشرے کے بے حد آزاد لوگ۔۔۔  ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لوگ جو ٹھپے سے لاعلم ہیں اور باخبر بھی۔۔۔  وہ بھی ان میں شامل تھی جنہیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔۔۔  پھر بھی وہ آئی تھی جرنیلی سڑک پر سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے بچے کی جان بچانے جسے سانپ نے کاٹ لیا تھا۔  اُس سینکڑوں کلومیٹر کی مسافت میں کروڑوں لوگ بستے ہیں، وہی لوگ جن کی بابت ابھی کچھ کہا ہے، جن کا ذکر کرتے ہوئے آنکھ بھر آتی ہے، جن کے بیان سے انگاروں پر لوٹنا پڑتا ہے اور جن کی گفتگو سے خون کھول اٹھتا ہے لیکن وہ اِس سب سے بے پروا تھی مگر اُس کی آنکھوں میں بے بسی چیخ رہی تھی جو کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھی۔  سنی جاتی تو سینکڑوں کلومیٹر پر محیط لمبی راہ اور انتظار کا اوکھا پینڈا طے نہ کرنا پڑتا۔

اس وارڈ میں ایک اور بچہ چت لٹایا گیا تھا۔  اسے بھی خرادیے کے بچے سے ملتی جلتی کوئی بیماری تھی شاید۔۔۔ کہ خرادیے کی بیوی اس کے گلے سے اٹکتی، نکلتی مانوس آواز پر بار بار اُسے دیکھتی تھی۔  اُس کی ماں بنچ پر بیٹھی تھی اور کچھ اس طرح بیٹھی تھی کہ آدھی لیٹی دکھائی دیتی تھی اور اُس کا باپ وارڈ سے باہر دیوار کے ساتھ سفری سامان کو سرانا بنائے فرش پر پڑا قرض کا حساب کر رہا تھا جو زندگی نے اس پر بے طرح چڑھا رکھا تھا۔  اُس کے قریب پڑے پتھریلے بینچ ان لوگوں نے مل رکھے تھے جن کی قیود پہلے سے متعین کر دی جاتی ہیں۔  وہ بچہ وہاں سے آیا تھا جہاں سے دوسرے صوبے کی حد شروع ہو جاتی ہے۔  حدیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔  زیادہ کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور کم دیوار چین کی مانند محفوظ رکھتی ہیں مگر اس نگر میں رائج حدود کا کیا مذکور ہو کہ جس میں ہر اس آدمی پر حد لگ جاتی ہے جو کسی دوسرے کو حدود و قیود میں نہ لا سکتا ہو اور خرادیا بھی انہی میں شامل ہے جن کی حد بندی کی جاتی ہے۔  ہر سانس پر حد۔۔۔  ہر آس پر حد۔۔۔  دائیں حد۔۔۔  بائیں حد۔۔۔  آگے حد۔۔۔  پیچھے حد۔۔۔  اوپر حد۔۔۔  نیچے حد۔۔۔ حق مانگنے پر حد۔۔۔  حق چھیننے پر حد۔۔۔  دم گھٹ کیوں نہ جائے۔۔۔  چلتا رہے تو حد ہے۔۔۔  اور تم اپنی کون کونسی ذمہ داری سے جان چھڑاؤ گے۔

خرادیے کا بچہ چار گھنٹے اس بیڈ پر رہا۔  چھوٹی چھوٹی داڑھی والا ڈاکٹر پوری تندہی سے علاج کرتا رہا۔  جب وہ ایمرجنسی میں آنے والے دوسرے بچوں کو دیکھنے جاتا تو خرادیے کے بیٹے کے پاس دو ڈاکٹر چھوڑ جاتا۔  نرسیں بھی نرم روی سے پیش آتی تھیں۔  پھر بھی کچھ ٹھیک معلوم نہیں دے رہا تھا، خرادیے کو نہ ڈاکٹر کو۔۔۔  اور ماں تو پہلے ہی خطرہ بھانپ لیتی ہے۔  ڈاکٹر دوسرے بچوں سے فارغ ہو کر آتا تو بار بار اپنی داڑھی کھجلاتا تھا جس پر خرادیا اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرنے لگتا مگر اُسے ایک اطمینان تھا کہ ڈاکٹر کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں اور اس کے بچے کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا کہ اس نے سرکار کے ہسپتالوں میں بے حسی اور سفاکی کے کئی قصے سن رکھے تھے۔  تبھی اسے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ یاد آیا جو اس کے بچے کے جینے یا مرنے سے قطعی لاپروا تھا اور ایک ادھیڑ عمر نرس کی سرگوشی بھی دماغ میں گھسی جسے ننھی جان سے زیادہ اپنے ریکارڈ کی فکر تھی لیکن اس بڑے ہسپتال کے ڈاکٹروں کے متعلق اس کا خیال بدل چکا تھا۔  وہ کچھ کرنے کے خواہشمند تھے مگر ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔  ان کی مثال اس مکینک کی ہے جسے ورکشاپ کا مالک پورے اوزار دیے بغیر گاڑی کے نیچے گھسا دیتا ہے۔  یہی بات اس کے لیے پریشان کن تھی کہ اتنا بڑا ہسپتال جس میں پیدل چلتے چلتے آدمی تھک جائے اور پورا پھر بھی دیکھا نہ جائے، اس کے لیے خالی کیوں ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ سوئی گیس کا بل آتا ہو مگر جلانی لکڑیاں پڑتی ہوں یا شیشے کی طرح لشکارے مارتی سڑک ہو لیکن اس پر چلنے والا کوئی نہ ہو جیسے بڑی سی کوٹھی کے کسی کونے میں نادار بوڑھا اکیلا پڑا رہے۔

چار بجے کے قریب داڑھی والے ڈاکٹر کے جانے کا وقت ہوا تو اُس نے ایک ساتھی کو کہا کہ خرادیے کے بچے کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کرنے کی تیاری کرے۔  دوسرے کو کاغذی کار روائی کرنے کی ہدایت کی اور خود بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا۔  ایک متمول نظر آنے والے ڈاکٹر نے آئی سی یو میں منتقلی کی فائل تیار کر کے اس ساتھی کو پکڑائی جس کا حلیہ پسماندہ پس منظر کی چغلی کھا رہا تھا۔  اُس نے ڈرپ کا سامان احتیاط سے اٹھایا اور بچہ اٹھائے سیڑھیاں چڑھنے والے خرادیے کے ساتھ ساتھ قدم بڑھانے لگا تاکہ سوئی ہل نہ جائے۔  ماں نے ایمبو بیگ اٹھا رکھا تھا اور قدم بڑھاتی، دباتی جا رہی تھی۔  وہ پہلی منزل پر پہنچے تو خرادیا ذرا رکا مگر ڈاکٹر نے سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ کیا۔  دوسری پر گئے تو پھر اسے یوں لگا کہ یہی رکنا ہے مگر تیسری کی طرف قدم بڑھانے پڑے اور تیز تیز سانس لیتے ہوئے وہ بالآخر چوتھی منزل پر پہنچ گئے جہاں انتہائی نگہداشت وارڈ تھا۔  تین نرسیں ان کی طرف لپکیں، بچے کو بیڈ پر لٹایا۔  گلوکوز والی بوتل کو احتیاط سے لٹکایا۔  ماں کو ایمبو بیگ استعمال کرنے کا صحیح طریقہ بتایا۔ دو نرسیں واپس اپنی کرسیوں پر جا بیٹھیں جبکہ تیسری باہر چلی گئی اور ایک دو منٹ میں ڈاکٹر کے ساتھ واپس آ گئی۔  لیڈی ڈاکٹر نے آتے ہی فائل پڑھی، بچے کا اچھی طرح معائنہ کر کے نرسوں کو ہدایات جاری کیں اور دوبارہ اپنے کمرے کو ہو لی۔

بچوں کے لیے مخصوص انتہائی نگہداشت وارڈ میں چھ بیڈ اور تین وینٹی لیٹر تھے۔  دو پہلے سے موجود بچوں کی سانسیں جاری رکھنے کی کوشش کر رہے تھے اور تیسرا خرادیے کے بیٹے کے قریب بند پڑا تھا۔  ماں جو صبح سے کھڑی ایمبو بیگ کے ذریعے ننھے کے پھیپھڑوں تک ہوا پہنچا رہی تھی، اب بیڈ کے قریب رکھے بنچ پر بیٹھی وہی کام کرنے لگی لیکن وہ پریشان تھی کہ کئی گھنٹے سے بچہ رو یا نہیں اور آنکھوں کی رنگت بھی بدلی بدلی محسوس ہو رہی تھی۔  اُس کا اپنا رنگ بھی اڑا ہوا تھا اور وہ سہمی سہمی سی وارڈ میں نظریں گھما رہی تھی۔  کبھی بچوں کو دیکھ رہی تھی اور کبھی اُن کی ماؤں کو جن کے چہروں پر ایک ہی چیز دکھائی دے رہی تھی جو اس کے منہ پر بھی تھی کیونکہ وہ ماں تھی جو عجیب مخلوق ہے کہ روح ہے جو تمام بد روحوں کے سامنے ڈٹ جاتی ہے بالکل اس کی طرح۔۔۔  جس کا ناشتہ بھی ادھورا تھا اور پیاس سے حلق سوکھا ہوا تھا مگر وہ بھوک اور تکان سے لاعلم دکھائی دے رہی تھی۔  وہ نیند کے غلبے سے بھی ایسے ہی بے خبر تھی جیسے درد سے چٹخ رہے جوڑ جوڑ سے کہ اس کا سارا دھیان ایمبو بیگ کو صحیح طرح دبانے پر لگا ہوا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے اسے تھماتے ہوئے بتایا تھا کہ تمہارے بچے کی جان اب تمہارے ہاتھوں میں ہے۔  ہاتھ ہلتے رہیں گے، سانس چلتی رہے گی۔

خرادیے نے ڈاکٹر کو دو مرتبہ بتایا کہ صبح سے کھڑی ایمبو بیگ استعمال کر رہی ہے۔  تھک گئی ہے۔  وینٹی لیٹر چلا دیں مگر ڈاکٹر کے بس میں کہاں تھا کہ خراب وینٹی لیٹر کام کرنے لگے گو اس نے معلوم ہونے کے باوجود خرادیے کے اصرار پر اپنی سی کوشش کی اور اُنھیں ہوا والی تھیلی دباتے رہنے کی تاکید کر کے باہر نکلی اور پانچویں منزل پر جانے کیا کرنے چلی گئی۔  وہ ایمرجنسی وارڈ میں گیا اور ڈاکٹر کو وینٹی لیٹر کا ماجرا سنایا کہ بچے کو کسی اور وارڈ میں منتقل کر دیں۔  ڈاکٹر نے پریشانی سے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور اسے سمجھایا کہ ایک ہی آئی سی یو ہے جس میں صرف تین وینٹی لیٹر ہیں اور کہیں نہیں ہیں۔  خرادیے نے شاید سنا نہیں تھا تو ڈاکٹر نے مزید واضح کیا کہ اگر وہ بچے کو پرائیویٹ ہسپتال لے جانا چاہتا ہے تو بتا دے یا بچوں کے لیے مخصوص سرکاری ہسپتال جانا ہے تو بھی کہہ دے مگر بچوں کے ہسپتال میں رش زیادہ ہو گا اور پتا نہیں کہ وینٹی لیٹر وہاں بھی ملے گا۔  ڈاکٹر نے فیصلہ اس پر چھوڑا اور خود ایک بچے کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔  وہ کچھ دیر وہیں ہکا بکا کھڑا رہا۔  پھر سیڑھیاں چڑھ کر چوتھی منزل پر موجود انتہائی نگہداشت وارڈ میں آ گیا اور بیوی کو آرام دلانے کے لیے سانس رساں تھیلی دبانے کی کوشش کی مگر اس سے صحیح طرح دبایا نہ جاتا تھا اگرچہ وہ کوشش کرتا رہا تا آنکہ ایک نرس نے اسے ہٹا دیا اور ایمبو بیگ اس کی بیوی کو تھما دیا۔

خرادیا۔۔۔  ایک باپ بھی کم عجیب نہیں کہ صبح سے اندر باہر، اوپر نیچے آ جا کر اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا مگر وہ وارڈ کے باہر یوں کھڑا ہو گیا جیسے موت کے سامنے ڈھال بنا ہو لیکن کوئی اسے کہاں روک سکتا ہے بھلا۔  وارڈ کے باہر کھڑے خرادیے کے ہونٹ دعا کے لیے اور اندر موجود ماں کے ہاتھ سانس کے لیے ہلتے رہے مگر اُنھیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کب اندھیرا چھا گیا۔  ماں بھی زندگی کی روشنی بچا نہ سکی۔ اسے اتنا ہوش بھی نہ تھا کہ خود کو یا کسی اور کو قصور وار ٹھہراتی اور خرادیے کو جیسے چُپ لگ گئی۔  چنگھاڑتی ہوئی چُپ۔۔۔  دھارتی ہوئی چُپ۔۔۔  خوف میں ڈوبی چُپ۔۔۔  مصلحت جان کر اپنائی چُپ۔۔۔  سیانی چُپ۔۔۔  ہونق چُپ۔۔۔  ہر طرف چُپ ہی چُپ اور اس پر خرادیے کی کان پھاڑتی ہوئی، پکارتی ہوئی چُپ جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔

کاغذی کار روائی پوری ہونے تک وہ قدرے سنبھل چکے تھے۔  ماں خود کو قصور وار ماننے لگی تھی کہ اُس نے سانس رساں تھیلی صحیح طرح نہیں دبائی۔  خرادیا خود کو کوس رہا تھا کہ پرائیویٹ ہسپتال لے جاتا تو وینٹی لیٹر ملتا اور وہ شاید بچ جاتا۔  لیڈی ڈاکٹر نے اسے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پکڑایا تو خرادیے کے منہ سے بلاسوچے سمجھے نکل گیا کہ وینٹی لیٹر نہ ہونے سے میرا بچہ مر گیا۔  ڈاکٹر کبھی خرادیے اور کبھی اس کی بیوی کو دیکھتی اور بالآخر اس نے بتایا کہ بچے کا دم نہیں گھٹا، دل ڈوب گیا تھا۔  خرادیے اور اس کی بیوی کو کچھ سمجھ نہ آیا۔  اُنھوں نے وینٹی لیٹر کو عجیب نظروں سے دیکھا جیسے اس نے ایک باپ اور ایک ماں کو شکست دے دی ہو۔  دوسرے وینٹی لیٹر پر موجود بچوں کی مائیں ان کی طرف ہی دیکھ رہی تھیں اور ایک کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل رہے تھے۔  نرسوں کے چہرے پر افسردگی طاری تھی اور ڈاکٹر بے بسی کا اظہار کر کے اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔

جب وہ آرزوؤں اور حسرتوں کی لاش اٹھائے ہسپتال سے باہر نکلے تو تاریخ کے ماتھے پر نگینے کی طرح جڑا شہر شام کی تاریکی میں بھی جگمگا رہا تھا اور ان کی منزل دور اندھیرے میں ڈوبا ایک کونہ تھا۔  خرادیے نے آٹو رکشا روکا جس کے ڈرائیور نے پانچ سو روپے کرایہ مانگا اور وہ خلافِ عادت کسی بھاؤ تاؤ کے بغیر چپ چاپ بیٹھ گیا۔  اس کی بیوی کو بھی کرایہ بہت زیادہ لگا لیکن وہ منہ سے کچھ نہ بولی اور رکشے میں بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں جن میں سے قطرہ قطرہ کسیلا پانی کمبل میں لپٹے بے جان وجود پر گرنے لگا۔  خرادیے نے ایک دو بار اُس کی طرف دیکھا اور رکشا کے ٹوٹے دروازے سے باہر تکنے لگا۔  سڑکوں کے اطراف میں نصب برقی قمقمے دودھیا روشنی پھینک رہے تھے۔  انڈر پاس سے گزرے تو وہاں بھی اندھیرا نہیں تھا اور اوور فلائی برج بھی نور میں نہایا ہوا تھا مگر جس اندھیرے نے اُنھیں ہسپتال میں لپیٹا تھا، وہ کم نہیں ہوا تھا، مسلسل پھیل رہا تھا اور اس پورے شہر کو نگل رہا تھا جو دو اطراف میں بٹی پانچ دریاؤں کی ہری گود والی دھرتی کا مرکز ہے مگر چند سبز قدموں کی نحوست سے اس کے ایک کنارے بھوک اُگتی ہے تو دوسرے سرے پر موت برستی ہے لیکن یہ شہر رات اور دن کے پھیر سے نکل کر ہمیشہ سانس لیتا رہا ہے۔  اسے کبھی وینٹی لیٹر کی ضرورت نہیں پڑی مگر خرادیے کو آج اس کی سانسیں بھی کچھ اکھڑی اکھڑی لگ رہی تھیں یا شاید اس کی اپنی بے ترتیب ہو رہی تھیں۔

اس طرح کرشن کے بیٹے سے منسوب شہر کے خرادیے کی کہانی تمام ہوتی ہے اور میں اِس شہر کی عظمت کے گیت گاتا ہوں جسے شہریاروں کی نحوست نگل رہی ہے۔  شہزادے یہاں کل بھی ٹہلتے تھے اور اور آج بھی بادشاہ چہلتے ہیں۔  اُن کے قافلے پہلے سے زیادہ طویل ہو گئے ہیں اتنے کہ سارے میں صرف وہی ہوتے ہیں۔۔۔ اور کچھ نہیں رہتا۔  یہ کل بھی پایۂ تخت تھا اور آج بھی ہے گو اس کے پائے دیمک زدہ ہیں۔  پہلے بڑے بڑے قلعے تھے اور اب حفاظتی باڑوں میں بسی چھاؤنیاں اور کالونیاں ہیں۔  میناروں کی جگہ بے شمار اونچی اونچی عمارتیں لے چکی ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے کمر پر ہاتھ رکھنا پڑتا ہے۔  کبھی یہاں سرنگیں بنائی جاتی تھیں، اب زیر زمین راہداریاں بن رہی ہیں جو ہوا میں بل کھاتے پلوں کو بھی شرماتی ہیں۔  بگھی کی جگہ چار پہیوں والی گاڑیاں ہیں جو ہوا کو بھی ہوا نہیں لگنے دیتیں۔  لمبی لمبی بسیں ہیں اور نویکلی ریل گاڑیاں جو درختوں کو کاٹ اور گھروں کو ڈھا کر چلائی جا رہی ہیں۔  یہ آج بھی شاہوں کا دیس ہے جن کے پاس اتنا مال و دولت ہے کہ چھینک آنے پر علاج کے لیے آقاؤں کے کسی دیس چلے جاتے ہیں۔  یہ کبھی علماء، فضلاء اور حکماء کا مسکن تھا اور آج بھی ہے لیکن اس کے باکمال دوسرے دیسوں میں کمال دکھانے چلے گئے ہیں کہ وہ خود کو رُلتا پاتے تھے۔  آج بھی یہاں بڑے بڑے شفا خانے ہیں مگر وینٹی لیٹر نہیں ہیں اور ہمیں موقع ملتا ہے کہ ہم خرادیوں کے قصے سنائیں جن کا خون اس شہر کی خشکی ماری شریانوں میں دوڑ رہا ہے جسے وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے، جس کی عظمت کے گیت ہم گاتے آئے ہیں اور گنگناتے رہیں گے لیکن آج اس پر ایک اجنبی سایہ بھی چھا رہا ہے جو خرادیے کا بچہ لپیٹ کر نیا شکار ڈھونڈ رہا ہے سو میں نوحہ کُناں ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے