مہندی رچے ہاتھ ۔۔۔ اقبال حسن آزاد

 

دور کہیں پہیوں کی گڑ گڑاہٹ اُبھری۔

کوئی ٹرین گذر رہی تھی۔ پھر وہ آواز معدوم ہو گئی۔ اب ہر طرف سناٹا تھا اور ایک دبیز تاریکی۔ اس کی آنکھیں کھل نہیں پا رہی تھیں۔ دونوں پپوٹے آپس میں یوں پیوست ہو گئے تھے گویا کسی نے انہیں گوند سے چپکا دیا ہو۔ اس نے زور سے چلانا چاہا مگر اس کے حلق سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔ اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ گہری، اندھیری اور دبیز دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے سارے احساسات بھی زرد موسم کے پتوں کی طرح اس کا ساتھ چھوڑے جا رہے تھے مگر امید کا ایک ننھا سا ستارا زندگی کی علامت بن کر جھلملا رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ستارے کے ذرا نیچے باریک سا چاند طلوع ہوا۔ پھر اس کے کانوں میں خوشگوار ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ایک چہکار گونجی۔

’’ابا!ابا!! میرے لئے نئے کپڑے…..‘‘ایک بچی کی معصوم فرمایش۔

’’اور میرے لئے بہت سارے کھلونے……‘‘ایک توتلی آواز۔

’’اور تمہارے لئے…..؟‘‘اس نے شرارت آمیز نظروں سے سلمہ کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ستارہ جیسی آنکھوں والی نے اسے ایک لسٹ تھما دی۔ چوڑیاں ، مہندی، ساڑی، بلاؤز اور نہ جانے کیا کیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے رو پہلا چاند غروب ہو گیا مگر وہ روشن ستارہ اب بھی جھلملا رہا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ زور زور سے رونا شروع کر دے مگر اب اسے خود پر کوئی اختیار نہ تھا۔ وہ نہ چیخ سکتا تھا، نہ چلا سکتا تھا اور نہ ہی رو سکتا تھا۔

اچانک اس کانوں میں کسی غم زدہ عورت کے رونے کی آواز آئی۔ اس نے اپنی چھاتی پر دو ہٹّر مارا۔ چوڑیوں کے ٹوٹنے کا چھناکا ہوا اور پھر ایک ساتھ کئی عورتیں رونے لگیں۔ اس نے بچی کھچی طاقت کو یکجا کر کے اپنے جسم کو جنبش دینا چاہا۔ اس دفعہ وہ کامیاب رہا مگر اسے اپنے بائیں بازو میں زبردست ٹیس محسوس ہوئی۔ اس کے منہ سے ایک ہلکی سی کراہ نکلی۔ پھر ایک ساتھ کئی آوازیں اس کے پردۂ سماعت میں ارتعاش پیدا کرنے لگیں۔

’’اس ڈیڈ باڈی کو یہاں سے شفٹ کرو۔ ‘‘پہلی آواز آئی۔

’’اسٹریچر لاؤ۔ ‘‘ددسری آواز آئی۔

اس نے زور سے سانس لی اور پھر اس کی آنکھیں آپے آپ کھل گئیں۔ اس نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا۔ وہ کسی ہسپتال کا جنرل وارڈ تھا۔ پورا کمرہ بھانت بھانت کے لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ داہنی جانب والی بیڈ پر ایک لاش پڑی تھی۔ ایک بے حال سی عورت لاش کے پائتانے بال بکھرائے بے سدھ پڑی تھی۔ اس کی کلائیاں سونی تھیں مگر ہتھیلیوں پر مہندی رچی تھی۔ چوڑیاں تو توڑی جا سکتی ہیں مگر مہندی کا رنگ اتنی جلدی چھڑایا نہیں جا سکتا۔ تین مرد، جن کے شیو بڑھے ہوئے تھے، بیڈ کے ارد گرد کھڑے تھے۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے خالی نظروں سے لاش کو تکے جا رہے تھے۔ یہ نظارہ دیکھ کر وہ ایک بار پھر بے ہوشی کے دلدل میں دھنسنے لگا۔ پھر وہی دبیز تاریکی…..مگر وہ ننھا ستارہ اب بھی جھلملا رہا تھا۔ پھر وہ ستارہ اس کی نگاہوں کے قریب آتا گیا یہاں تک کہ اس نے ایک دودھیا بلب کی شکل اختیار کر لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انگنت دودھیا بلب اس کے چاروں طرف روشن ہو گئے۔ ساڑیوں کی اس بڑی سی دکان میں بڑی ہما ہمی تھی۔ وہ کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا نہایت مشاقی کے ساتھ گاہکوں کو ساڑیاں دکھانے میں مشغول تھا۔ دکان میں بس عورتیں ہی عورتیں تھیں۔ جب وہ کوئی خوبصورت ساڑی کاؤنٹر پر پھیلاتا تو یہ سوچے بغیر نہیں رہتا کہ یہ اس کی بیوی پر کیسی لگے گی۔ بس چند دنوں کی بات ہے۔ عید میں وہ اپنے گھر پر ہو گا…..بیوی بچوں کے ساتھ…..اس نے ساری تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ ایک روز سیٹھ جی نے دریافت کیا۔

’’کہیے نسیم میاں !ریزرویشن ہو گیا؟‘‘

’’نہیں جناب! بہت کوشش کی۔ ٹریولنگ ایجنٹ کے پاس بھی گیا۔ تتکال میں ہونے کی بھی امید نہیں ہے۔ کسی گاڑی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘

’’اب آپ کیسے جائیے گا؟‘‘

’’اب تو جنرل بوگی میں جانا ہو گا۔ ‘‘

’’مگر اس میں تو بڑی پریشانی ہو گی۔ ‘‘

’’اب کیا کیا جائے۔ جانا تو ہے ہی۔ ‘‘

عید کے دو روز قبل جب وہ اسٹیشن پہنچا تو بھیڑ دیکھ کر اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ جنرل بوگی میں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ ایک قلی کو روپے دے کربس بیٹھنے بھر کا انتظام کر پایا تھا۔ اپنا سوٹ کیس اس نے سیٹ کے نیچے رکھ دیا۔ وہ کرتا پائجامہ پہن کر ہی نکل کھڑا ہوا تھا۔ سال بھر کی کمائی اس نے تھیلی کی شکل میں پیٹ پر باندھ رکھی تھی۔ بوگی میں کسی نے سگریٹ سلگا لیا تھا جس کا کڑوا دھواں کئی مسافروں کو ناگوار گذر رہا تھا مگر کسی نے اسے منع کرنے کی ہمت نہیں کی۔ کیا پتہ وہ پلٹ کر چاقو نکال لے۔ آج کل تو لوگ ذرا ذرا سی بات پر دوسروں کی جان لے لیتے ہیں۔ اس نے اپنی سانس روک لی۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے دھوئیں کو بکھیرا اور پھر ایک زور کی سانس لی۔

’’چائے!گرم چائے!!‘‘پتہ نہیں کہاں سے ایک چائے والا لوگوں کو الانگھتے پھلانگتے وہاں تک آ پہنچا تھا۔ اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی نے چائے والے کو اشارے سے بلایا۔

’’لیجئے چائے پیجئے۔ ‘‘چائے کا کلہڑ تھامے ایک ہاتھ اس کی جانب بڑھا۔ اس نے انکار کرنا چاہا مگر اس سے پہلے پھر وہی اصرار کرتی آواز اُبھری۔

’’لیجئے نا!‘‘اور اس کا ہاتھ بے اختیار کلہڑ کی جانب بڑھ گیا۔

پہلا گھونٹ…..چائے گرم تھی۔ میٹھی بھی مگر ایک ہلکی سی بے نام تلخی لئے ہوئے۔

دوسرا گھونٹ…..ویسی ہی گرم اور تلخ۔

تیسرا گھونٹ…..پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ایک گہری تاریکی۔ بس ایک ننھا سا ستارہ جھلملا رہا تھا۔ پھر اس ستارے سے ایک ساتھ کئی شعاعیں پھوٹیں اور اس کی آنکھوں میں چبھنے لگیں۔ اس نے بڑی بے چینی محسوس کی۔ اس نے ایک زور کی سانس لی اور اس کی آنکھیں خود بخود کھل گئیں۔ نظروں کے سامنے سفید چھت تھی اور اس سے لٹکتا سیلینگ فین۔ اس نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس نے نظریں گھمائیں۔ کھڑکی کھلی تھی اور صبح کا سورج اپنی تیز کرنوں کے ساتھ اس کے سامنے روشن تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں اب تک چبھن ہو رہی تھی۔ بیڈ کی بائیں جانب ایک خالی بوتل لٹکی ہوئی تھی اور ایک سرنج اس کے بائیں بازو میں کھبی ہوئی تھی۔ اس نے بدقت تمام اپنے جسم کو موڑا اور پھر اپنے داہنے ہاتھ سے سرنج نکال کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے جسم پر صرف میلا کچیلا پائجامہ بچا تھا۔ د ا ہنی جانب والا بیڈ خالی تھا۔ زمین پر ہرے کانچ کی چوڑیوں کے ٹکرے بکھرے پڑے تھے۔ وہ بستر پر پیر لٹکا کر بیٹھ گیا اور خالی خالی نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اسے کچھ بھی نہ یاد تھا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے۔ ذہن کسی دھلی ہوئی سلیٹ کی طرح سادہ تھا۔ اچانک ایک بوڑھی عورت ہاتھوں میں ایک بوسیدہ سی چادر لئے ہوئے آئی اور بغیر کچھ کہے اس نے وہ چادر اس کے جسم پر ڈال دی۔ اس نے اس بوڑھی عورت کو غور سے دیکھا۔ جھریوں بھرا چہرہ، سفید ساڑی، ننگی کلائیاں۔ سر پر بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے سفید بال اور شفیق آنکھیں۔ ار ے یہ تو اماں ہیں۔ اماں یہاں کیسے آ گئیں۔ انہیں گذرے ہوئے تو ایک زمانہ بیت گیا۔ پھر اس بوڑھی عورت نے اشارے سے دریافت کیا۔

’’بھوک لگی ہے؟‘‘اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ بوڑھی عورت اس کا ہاتھ پکڑ کر اسپتال سے باہر لے گئی۔ مین گیٹ سے ذرا ہٹ کر چائے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ اس بوڑھی عورت نے دو بسکٹ اور ایک گلاس چائے اس کی جانب بڑھایا۔ یہ چائے گرم تھی اور میٹھی بھی۔ مگر اس میں تلخی کا شائبہ تک نہ تھا۔ چائے پینے کے بعد اس کی آنکھیں پورے طور پر کھل گئیں۔ اب وہ سب کچھ صاف صاف دیکھ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا سڑک کے کنارے ایک نیم عریاں لاش پڑی تھی۔ لاش کا منہ کھلا ہوا تھا اور اس کی پتھریلی آنکھیں آسمان پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اسے اُس مردے کا چہرہ جانا پہچانا سا لگا۔ پھر اسے یاد آ گیا۔ یہ بھی اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور شاید اسے بھی چائے پیش کی گئی تھی۔ بوڑھی عورت کہہ رہی تھی۔

’’یہ بے چارہ تو مر گیا۔ پرماتما کی کرپا سے تم بچ گئے۔ ‘‘

اب ہر شے بالکل صاف اور واضح تھی۔ اسے صرف یہ نہ معلوم تھا کہ ہسپتال تک کیسے پہنچا۔ بوڑھی عورت نے اس کی یہ مشکل بھی حل کر دی۔ اس نے بتایا کہ رات کو کسی وقت ایک سپاہی ان دونوں کو ایک ٹھیلے پر لاد کر لایا تھا اور ہسپتال کے عملے نے دونوں کو الگ الگ بیڈ پر لٹا کر ایک ایک بوتل چڑھا دی تھی۔ وہ دوسرا شخص مر گیا تو اسے ہسپتال سے باہر زمین پر رکھ دیا گیا۔ اس نے لاش کی جانب ایک بار پھر دیکھا۔ اسے جھرجھری سی آ گئی اور اس نے گھبرا کر نظریں پھیر لیں۔

بوڑھی عورت جا چکی تھی۔ مگر اس کی دی ہوئی چادر اب تک اس کے جسم سے لپٹی ہوئی تھی اور اب جبکہ زندہ ہونے کا احساس اس کی رگ رگ میں سما چکا تھا تو زندگی کے سارے مسائل بھی اس کے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے۔ یہی مسائل تو انسان کو زندہ رکھتے ہیں۔ اپنے لئے جینا تو وہ کب کا چھوڑ چکا تھا۔ اب وہ صرف دوسروں کے لئے زندہ تھا۔ اور جن لوگوں کے لئے وہ جی رہا تھا ان کے پاس خالی ہاتھ کس طرح جائے گا۔ مگر جانا تو تھا ہی۔ وہ ڈگمگاتے قدموں سے پوچھتے پاچھتے اسٹیشن تک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر وہ پلیٹ فارم کے ایک کنارے بیٹھ رہا۔ اب کیا ہو گا؟ بچوں کے کپڑے، کھلونے، بیوی کے ملبوسات، چوڑیاں …..ہرے کانچ کی چوڑیاں۔ چھن چھناتی ہوئی…..چھن چھن چھن۔

چھن کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ کسی نے اس کے آگے ایک سکہ پھینک دیا تھا۔ پھر تھوڑے تھوڑے وقفے سے سکے گرتے رہے اور وہ خالی خالی نظروں سے بس انہیں دیکھتا رہا۔ دور بیٹھا ایک فقیر دزدیدہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ کئی گھنٹے یوں ہی گذر گئے۔ دو بجے اس کے شہر کی جانب جانے والی گاڑی آئی تو وہ اُٹھا اور زمین پر پڑے سکوں سے بے نیازانہ آگے بڑھ گیا۔ دور بیٹھا فقیر کسی چیل کی طرح جھپٹا اور اپنے غلیظ ہاتھوں سے سکے بٹورنے لگا۔ وہ ٹرین میں سوار ہو کر دروازے کے پاس ہی بیٹھ رہا۔

جس وقت گاڑی اس کے شہر پہنچی شام گھِر آئی تھی۔ وہ اسٹیشن سے باہر نکلا اور ڈگمگاتے قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھا۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی اور گلی میں سناٹا تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے اس کی بیوی کی آواز آئی۔

’’لگتا ہے کوئی افطار مانگنے آیا ہے۔ ‘‘اس نے پھر کنڈی کھٹکھٹائی۔ کمزوری اس قدر شدید تھی کہ اس سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ وہ دروازے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ اسے برتنوں کے رکھنے اور اُٹھانے کی آواز آئی۔ اس نے چاہا کہ آواز دے مگر نقاہت نے اس کی زبان کو گویا بے جان کر رکھا تھا۔ پھر دروازہ کھلا اور مہندی رچا ایک ہاتھ افطار کی پلیٹ لئے سامنے آیا۔

’’سلمہ…..میں ہوں ، میں۔ ‘‘اس نے کہنا چاہا مگر اس کے حلق سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔ بوڑھی عورت نے جو چادر اسے اُڑھائی تھی وہ ابھی تک اس کے جسم سے لپٹی ہوئی تھی اور اس کا ایک کونا زمین پر پڑا ہوا تھا۔ مہندی رچے ہاتھ نے افطار کی پلیٹ چادر پر اُلٹ دی اور پھر دروازہ اندر سے بند ہو گیا۔

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے