یہ کہانی تو نہیں ۔۔۔سائرہ غلام نبی

 

تخیل کو تراش کر کہانیاں بنانا پہلے تو میرا مشغلہ تھا۔ پھر یہی روزگار ٹھرا کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کہانی کی بڑی اہمیت ہے۔

ایسی کہانی جو کسی نے سوچی نہ ہو۔

کسی نے برتی نہ ہو۔

بالکل ان چھوئی۔

عین میں وہی توقعات جو عاشق اپنی محبوبہ سے رکھتا ہے۔ اسی لئے Work Stationپر میرا کمرہ ہمہ وقت ’’قصہ خوانی بازار‘‘ بنا رہتا ہے۔

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے۔۔۔

بھانت بھانت کی کہانیاں سنانے والے۔۔۔

دور،دور سے چلے آتے ہیں۔

پہلی کہانی میں دو عورتوں کے درمیان ایک مرد آ جاتا ہے۔ اس سے اگلی میں دو مردوں کے درمیان ایک عورت آ جاتی ہے۔

دو عورتوں کے درمیان ایک عورت۔۔۔

اور دو مردوں کے درمیان ایک مرد۔۔۔

ایسی روایات عام زندگی میں تو ملتی ہیں۔ مگر کہانیوں میں خال خال لطافت، چاشنی، تضادات سے ابھرتی ہے اور  تضادات و تصادم نہ ہو تو کہانی نہیں بنتی۔۔ سپاٹ۔۔ بے رنگ واقعہ رہ جاتی ہے۔۔۔ شوبی کی طرح۔

دھیان اس کی طرف کیا گیا کہ وہ لمحہ بعد سامنے موجود تھی۔

’’ڈارلنگ تم کو پتہ ہے آج کل میری زندگی میں کیا ہے؟‘‘

وہ آتے ہی شور مچانے لگی۔

’’اتنا پتا ہے کہ تمہاری زندگی میں رومانس دور دور تک نہیں ہے۔۔۔

شو بی نے میری توقع کے مطابق منہ بنایا، شدید بے زار کن شخصیت ہے یہ شوبی۔۔ مجھے اس کی بے رنگی سے وحشت ہوتی ہے، چڑ ہوتی ہے کہ انسان، اشیاء رویے اپنے اصل رنگ میں نہ ہوں تو بڑے اوپرائے اور  نحوست زدہ لگتے ہیں۔

دھوپ نہ چھاؤں۔۔ جیسے بدلی چھائی ہوئی ہو۔۔ جیسے تصویر پر دھول پڑی ہو۔

اس کو دیکھ کر، کسی کی بھی تخلیقی صلاحیت بانجھ ہو سکتی ہے۔ یہ میرا تجزیہ ہے۔

سو اسے دیکھ کر میں شدت سے اکتا جاتی ہوں۔ میری بے زاری سے بے نیاز وہ ہے کہ سماج کو ہلا دینے والی کہانی کا مطالبہ لیے ہر وقت سر پہ سوار رہتی ہے۔ اب میں اسے کیسے بتاؤں کہ کون دیکھنا چاہتا ہے، ٹی وی، فلم کے تفریحی موڈ میں رونے والی، نحوست زدہ گندی سندی حقیقت پسندی۔۔۔

اس نے میری بور شکل دیکھ کر بات بدلی۔۔۔

’’اوکے، اوکے تمہیں ڈسٹرب کیا۔‘‘

فٹا فٹ وہ کام کی بات پر آ گئی۔

’’ تم نے مجھے جو اسکرپٹ دیا ہے نا اس میں ہیرو کیا سگریٹ پینے والا انسان ہے یا سگار۔۔‘‘

’’وہ گھاس کھانے والا انسا ن ہے‘‘

میں نے چڑ کر جملہ پورا کیا۔۔۔

جواباً اسے مجھ سے زیادہ غصہ آ گیا۔ میری میز۔۔ جس پر کاغذوں کا جمعہ بازار لگا رہتا ہے۔یہ اسکرپٹ پھینک کر بولی۔

’’یار ایک تو تم بھی نا، عجیب عجیب انسان مجھے پکڑا دیتی ہو۔ اللہ معافی۔۔ شعر بولنے والا، مشکل مشکل باتیں کرنے والا، فضول الفاظ منہ سے نکالنے والا،، توبہ۔۔۔ ‘‘

اس کا اپنا ذاتی ڈکشن ہے۔ لفظیات، روز مرہ، محاورے کے چکر سے آزاد۔۔

مجھے اس پر غصہ آ جائے تو میں اس کی صنف اسے یاد دلاتی ہوں۔ سو یہی کیا۔

’’اے لڑکی۔۔! تم کیسی انسان ہو۔۔بائے داوے۔۔‘‘

سنتے ہی دانت کچکچا کر بولی۔۔۔

’’سائرہ جی!۔۔ آئندہ مجھے یہ گالی نہ دینا۔۔! ‘‘

میں نے بھی اپنے شاعروں، ادیبوں کی بے عزتی کرنے کا بدلہ لے لیا تو ہی سکون ملا۔ اس کا دل جلانے والی مسکراہٹ سجا کر میں اپنی کہانیوں کی سستی رومانی دنیا میں گم ہونے لگی کہ اس نے اسکرپٹ میرے ہاتھ سے چھینا۔

’’کیا میں شکل سے ’چ‘ لگتی ہوں؟‘‘

چشمہ اتار کر اطمینان سے کہا۔

’’لگتی کیا ہنڈرڈ پرسنٹ ہو۔‘‘ میں نے نظریں جما کر زور دے کر کہا۔

چونکہ وہ ضرورت سے زیادہ سمجھ دار ہے، سمجھ گئی مگر میرے الفاظ آگ لگا چکے تھے اور  جیسے اس کا سارا وجود جھلسنے لگا۔۔ اتنا کہ اس کے منہ سے شعلے نکلنے لگے اور  مجھے لگا کہ میرے کمرے میں شاعری، ناول افسانے کی کتابوں کے جنگل میں آگ لگ جائے گی اور  کئی دن تک نہیں بجھے گی۔

’’آج سے سات سال پہلے یہ سالی شلوار اتار پھینکی تھی۔۔‘‘

’’اف بس کر دو‘‘ میں ویسے ہی کھلی زبان سن کر لرزسی جاتی ہوں۔ خوامخواہ اسے طیش دلا یا مگر اب وہ رکنے والی نہیں تھی۔ جملہ مکمل کیا۔

’’اور فیصلہ کیا تھا کہ زندگی جینز میں بسر کروں گی۔‘‘

اس نے چٹکی سے جینز کا موٹا کپڑا پکڑ کر دکھاتے ہوئے کہا۔

’’توبہ!سوچ سمجھ کر بولا کرو،کوئی مرد بھی سن سکتا ہے‘‘

’’کیوں میں کوئی لڑکی ہوں۔۔۔ عورت ہوں۔۔ کم زور ہوں۔۔ میں کیوں زبان روکوں؟‘‘

’’پیدا تو تم لڑکی ہوئی تھیں۔۔ نام بھی زنانہ رکھا گیا تھا۔ پھر کیا ہو؟‘‘ مجھے چھیڑ سوجھی۔ گویا اسے اوقات یاد دلائی۔

اس کا بس نہ چل رہا تھا کہ میری گردن دبا دے۔ میں اس کے کمزور پہلو پر مسلسل چٹکی لے رہی تھی۔

وہ چاہنے کے باوجود میرا کچھ نہ بگاڑ سکی کہ اپنے کیریئر کو جیک لگانے کے لئے اس کو مجھ سے کہانی درکار تھی۔جس کو ڈائریکٹ کر کے وہ شوبز مارکیٹ میں ان ہو سکے۔ ان سب معاملات کے پیش نظر وہ کچھ دھیمی ہوئی۔

’’دیکھو دادا!وہ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی نا۔۔ اس کو ایک دن میں نے اپنے ہاتھوں قتل کر دیا۔۔۔‘‘

اس نے اپنے نرم و نازک ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا جو کسی طرح کسی قاتل کے ہاتھ نہ دکھتے تھے۔

’’نہیں !اتنے پیارے ہاتھ کسی کا خون نہیں کر سکتے۔۔‘‘

میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔ جو اس نے جھٹکے سے کھینچ لیا۔

’’یہی بات بری لگتی ہے‘‘

’’کیا؟‘‘ میرا حیران ہونا بجا تھا۔۔

’’اپنے رنگ روغن کا قصیدہ سننا ‘‘

’’یار! عورت کی فطرت ہے‘‘

’’یقیناً تمہارے شاعروں نے بتایا ہو گا۔ سوری! میں نہیں مانتی ان مردوں کو جو عورت کے سامنے شاعر ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’اے احمق! کبھی ان کے آگے بے وقوف بن کر دیکھ۔۔‘‘

میں نے شرارت سے اسے گھیرا، وہ ایک لمحے کو بے وقوفی کی زد میں آ گئی اور  اس کا اعترافی موڈ بن گیا۔

’’یہ جو میں دکھتی ہوں نا۔۔ ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ اچھی خاصی نیک پروین تھی۔ لپٹی لپٹائی۔۔ چھپی چھپائی۔۔‘‘

’’یہ کون سی صدی کا قصہ ہے؟‘‘

میں حیران ہو کر انکشاف کی زد میں آ کر بولی۔

وہ جھینپ کر رہ گئی۔

’’جب میں نئی نئی کام کرنے نکلی تھی۔ غلطی سے صحافت کا پیشہ اختیار کیا کہ پڑھے لکھوں کی فیلڈ ہے۔ قلم سے جہاد کروں گی۔جرائم کو بے نقاب کروں گی۔ اصلاح معاشرہ کروں گی۔ کام سیکھوں گی۔ یوں سمجھ جانی ! خوابوں کی دنیا میں کھو گئی۔ ‘‘

پھر وہ خاموش ہو گئی۔ کچھ دیر بعد بولی۔

’’ہوش میں آئی تو پتہ چلا کہ سکھانے والا استاد مجھے محبت سکھانے پر تلا ہوا ہے۔ رومانس میں ماہر کرنے پر اتر آیا ہے۔‘‘

میں ہنسنے لگی کہ اس کی پھیکی زندگی میں زنانہ ملائمت کے آثار دریافت ہو رہے تھے۔ میں خوش ہونے میں حق بجانب تھی۔

’’مرد عاشق ہوتا ہے، عورت حسن ہوتی ہے۔ دونوں کے سمبندھ سے کائنات چل رہی ہے۔ سیکھ لینا تھا، آگے کام آتا، بہت ترقی ملتی‘‘ ۔۔

’’کیوں مجھ میں صلاحیت کی کمی تھی۔ میں چل سکتی تھی، پھر سکتی تھی، کام سیکھ سکتی تھی۔ جس پہ دل آتا، اس پر مر بھی سکتی تھی۔ پر یوں نہیں۔۔ نیوز روم کے ڈیسک پر کیا بیٹھی۔۔ چیف ایڈیٹر سے لے کر پیون تک کی محبوبہ بن چکی تھی۔

دو دن گزر ے، دو ہفتے گزرے، دو مہینے گزر گئے۔ کوری کی کوری۔۔ ویسے سب اوکے ٹیک تھا۔ مگر جانی! مجھے کام کی پیاس تھی۔۔ اور  پھر۔۔‘‘

وہ رک گئی۔۔ٹھر گئی۔ پھر اپنے مطالبہ پر آ گئی۔ جس سے میں بد مزہ ہوتی ہوں۔

’’یار جانی! مجھے آگے جانا ہے۔ بہت آگے۔ سماج کو بے نقاب کر دینے والی،بلاسٹ کرنے والی کہانی۔۔ ایک عدد کہانی۔۔ یار جو قلم سے نہ کر سکی۔ وہ کیمرے سے کروں گی۔ گندگی کو گندا دکھاؤں گی۔ ‘‘

’’شوبی! وہ محبوبہ۔۔ اس کا کیا ہوا؟‘‘

کہانی اور  کمزوری سننے کی انسانی فطرت مجھ میں جاگ گئی۔۔ میں نے پچھلی بات کا سرا تھمایا۔۔۔کاغذو ں کے جمعہ بازار میں چٹخارا چاہئے تھا۔

’’کھاتی اپنی مرضی کا ہوں۔۔ پہنتی اپنی مرضی کا ہوں۔۔ جاگتی اپنی مرضی کا ہوں۔‘‘ پھر قطعی لہجے میں بولتے ہوئے۔

ایک بار پھر رکی۔

’’تو پھر سوؤں گی بھی اپنی مرضی کا۔۔‘‘

’’اوہ۔۔!‘‘

’’پھر میں نے شلوار۔۔‘‘

’’اے رک رک۔۔ ‘‘ میں بوکھلائی۔

’’مطلب میں نے دوپٹہ پھینکا۔۔ چوڑیاں ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔ سینڈلیں ماسی کو دے دیں۔ لپ اسٹک، نیل پالش کو آگ لگا دی اور  ایسی بن گئی‘‘

اس نے اپنے مردانہ حلئے والے وجود پر حقارت بھری نظر ڈالی۔۔

’’کسی نے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اسے گلے سے لگایا۔ کسی نے چائے کی آفر دی۔ ڈھابے پر بیٹھ گئی۔ کسی نے سستا جملہ پھینکا۔ میں نے کرا را جوک سنایا۔ سب ٹھنڈے پڑ گئے۔‘‘

نہ چھپن چھپائی۔ نہ لگائی بجھائی۔ نہ چٹخارہ۔ نہ مزہ، میں بد مزہ ہو گئی۔

وہ چہک کر بولی۔

’’دیکھو جانی! یہ کانا یہ پھوسی بیکار ہے۔ سارے پتے کھول کر رکھ دو تو کوئی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔۔۔‘‘

’’جب میدان میں اترے ہیں تو کھیلے بغیر،یا ہارے، جیتے بغیر گھر جانے کا فائدہ۔‘‘ میرا اپنا فلسفہ ہے۔

’’جانی !فائدہ یہ ہو ا کہ ’’ عزت ‘‘ بچ گئی۔ وہ آنکھ دبا کر بولی۔

مجھے اس فلمی ڈائیلاگ پر ہنسی آ گئی۔

وہ بھی ہنستے ہنستے دیرینہ مطالبہ دوہراتے نکل گئی۔

’’اگلی باری۔ تم مجھے دے ہی دو۔ ایک کہانی۔ سماج کا بھرم کھولنے والی۔ ٹھیک۔۔‘‘

اور میں رومانی مکالمے لکھتے ہوئے سوچنے لگی۔ حقیقت اور  فرض میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ حقائق کھردرے ہوتے ہیں۔ خیال کتنا رومانی ہوتا ہے۔ انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری کے لئے کہانی وہی اچھی ہے جو تخیل سے پھوٹتی ہے۔ جہاں سب اچھا اچھا ہے، یا ہو جاتا ہے۔ مگر ایسی کہانی شوبی کو نہیں چاہئے۔۔

کافی دن گزر گئے۔

بغیر انتظار کرائے ایک بار پھر وہ میرے سامنے آ گئی اور   خاموشی سے بیٹھ گئی۔ شور شرابا آج اس کے مزاج میں نہیں تھا۔ میں نے محسوس کیا۔ وہ سمٹی سمٹائی سی ہے۔ جسم کو چرائے ہوئے،مجھے عجیب سا محسوس ہوا مگر میں نظر انداز کر کے اپنے کام میں گم رہی۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ کہنے لگی۔

’’سائرہ جی! جینز پہنو یا شلوار۔۔ سالی فلمی عزت کہیں محفوظ نہیں ‘‘

میں دوہرائی ہوئی کہانی سننے کے موڈ میں ہر گز نہیں تھی کہ زندگی کی سب سے خوبصورت کہانی میں سے ’’عاشق‘‘ کا کردار منہا کر کے ہر قصے کو سپاٹ کر دیا جائے۔وہ میرا موڈ دیکھ کر اپنے مطالبے پر آئی۔

وہ اسی سوال کو دوہرا رہی تھی۔

’’سماج کو ہلا دینے والی‘‘

’’نہیں ملی‘‘ اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا کہ میں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔

اس نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا۔پست لہجے میں بولی۔

’’ سائرہ جی! تم کو پتہ ہے اب میری زندگی میں کیا ہے؟‘‘

’’مار کٹائی، گالم گلوچ۔۔ اور  کیا ہے یار! فلرٹ کرنا مردوں کی فطرت ہے، اس سے سمجھو تہ کر۔ ‘‘

’’مطلب‘‘ ۔۔۔ وہ تیکھی ہو کر سیدھی ہوئی۔ اس کی تقریر کے پیش نظر میں نے پہلے بولنا شروع کر دیا۔

’’جاؤ۔۔ منہ توڑ دو۔۔ فلرٹ کرنے والوں کا۔‘‘

میں نے اس کی تھکی طبیعت کو جوش دلایا۔

’’نہیں !‘‘

’’ تم نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں کیا؟۔۔ جبڑا کیوں نہ چیرا؟‘‘

وہ بے دم ہو کر گری۔۔

’’سائرہ جی! کیسے منہ توڑ دوں؟چوڑیاں اگر چہ میں نے نہیں پہن رکھیں ‘‘ ۔۔۔ اس نے ڈنڈا سی کلائیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

اس کا لہجہ مزید پست ہوا۔ وہ رکی۔ پھر بے چارگی سے بولی۔

’’اس بار بھی مرد ہوتا تو میں اس کا منہ ضرور توڑ تی۔پھر تمہارے پاس آتی‘‘ ۔۔۔

چند لمحے خلا میں گھورتی رہی۔پھر جھر جھری لے کر بولی۔

’’ مگر چوڑیاں اس نے پہن رکھی تھیں۔۔۔ اور  میں کچھ بھی نہ کر سکی۔۔۔ ‘‘

سماج کو ہلا دینے والی لائن خود اسی نے مجھے دے دی تھی اور  میں سوچ رہی تھی کہ اس پر کہانی لکھ کر اسے دوں یا اب تک محفوظ رہ جانے والی عزت پر مبارک باد دے کر اسے رخصت کروں۔۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے