عرفان ستّار کی شاعری میں رنجِ رائیگانی ۔ ۔ ۔ حمیدہ شاہین

میر تقی میرؔ صاحب نے کہا تھا
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے
یہ قیمتی احساس ہر کس و ناکس کو ودیعت نہیں ہوتا۔ اس سوال کا اکھوا اسی دل میں پھوٹتا ہے، جس میں احسا س کی نمی اور شعورِ مقصدِ تخلیق کی زر خیزی موجود ہو۔ طلبِ دنیا میں مصروفِ کار وجود اور حُبِّ دنیا میں مست رہنے والا دل اس کرب سے محروم رہتا ہے۔ یہ احساس اگر انسان کو مائل بہ عمل کر پائے تو اس کی زندگی شاخِ ثمر دار بن جائے۔
عرفان ستّار کی شاعری میں یہ احساس ہلکی ہلکی کسک اور چبھن کی شکل میں موجود ہے اور ان کی شاعری میں بار بار ظہور کرتا ہے
۔ ؎ شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ….
؎ یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اپنے اندرونی موسموں سے لطف کشید کرنے کا ہنر ہی سخن ور کا اثاثہ ہے۔ اس کے اندر احساسِ رائگانی کی ہوا چل پڑے تو خود سے ملاقات کی ساعتیں بھی دھول میں اٹ جاتی ہیں۔ تکرارِساعت کو زندگی نہ سمجھنا، مسلسل اسی ایک حالت میں رہنے کو عذاب کی طرح محسوس کرنا ایک اشارہ ہے، کچھ ایسا کرنے کی خواہش کا اشارہ، جو تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکے۔ لیکن ایسی تبدیلی جو اس کے احساسِ زیاں کا مداوا کر سکے۔ یہ احساسِ زیاں یا رنجِ رائیگانی زندگی کے موجودہ مشینی اور ماکسن کی تسلسل کی پیداوار ہے۔ قدیم انسان میں یہ جگہ ایک جستجو، کھوج اور تلاش کے جذبات نے پُر کر رکھی تھی۔ مادی اشیا نے زندگی پر اس قدر غلبہ نہ پایا تھا کہ انسان تلاش کے عمل کو یکسرفراموش کر دیتا جو نہ صرف اسے ترو تازہ اور جوان رکھتا تھا بلکہ اپنی زندگی اور اپنے وجود کے کارآمد ہونے کا احساس اسے مصائب و آلام سے نبرد آزما ہونے کی طاقت بھی فراہم کرتا تھا۔ شاعری سمیت تمام فنونِ لطیفہ کا مرکزی نقطہ یہی کھوج تھی، اور ہے۔ اپنے باطن میں کسی نقطہ عظمیٰ کی تلاش یا خارج میں زندگی کو معنی دینے والے راستوں کی جستجو اسے زیاں کاری سے محفوظ رکھتی تھی۔ سوال تو موجود تھے لیکن جوابوں کے خلا ابھی اس قدر بڑے نہ ہوئے تھے کہ انسان اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ اپنا وجود بھی اس میں ڈال دے، تو وہ پُر نہ ہوں۔
دور حاضر میں مادی اشیا کی فراوانی نے زندگی کو انسان اور انسانیت کی جس ارزانی کی طرف دھکیلا ہے وہاں خواب، جذبات، آدرش بھی اشیا ہیں، جنھیں پنکھے، فرج یا ٹی وی کی طرح خریدا یا بیچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ہولناک لہر ہے، جو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہائے چلی جا رہی ہے۔ اس لہر سے باہر سر نکالنے کی خواہش اور کوشش ہی آج کے فنونِ لطیفہ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
وہ لوگ جو خس و خاشاک ہونے کو تیار نہیں، جو اپنے لیے گاجر مولی کی حیثیت کو رد کرتے ہیں۔ ان میں رائیگانی کا دکھ طلوع ہو رہا ہے۔ تخلیقی فنون اس کی روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ روشنی کیا کوئی نیا راستہ تلاش کرنے میں مدد دے سکے گی؟ فی الحال تو صورتِ حال کچھ یوں ہے، جو عرفان ستار بیان کرتے ہیں
؎ وہ ہو رہا ہے، جو میں نہیں چاہتا کہ ہو
اور جو میں چاہتا ہوں، وہی ہو نہیں رہا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سخن، یہ خوش کلامی در حقیقت ہے فریب
یہ تماشا روح کی بے رونقی کا جبر ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک ملال تو ہونے کا ہے، اک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے

ہاں ویسے تو حجرۂ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں، سب کچھ درہم برہم ہے

در اصل ہونے کا ملال ہی نہ ہونے کا غم ہے۔ جسے ہو نے کا ملال نہ ہو، اسے نہ ہونے کا دکھ بھی نہیں ستاتا۔ یہی دکھ انسان کو اپنے ہونے پر اصرار کی راہ بھی دکھاتا ہے۔ اس اصرار کے تقاضے پورا کرنے پر اکساتا ہے، اور کہتا ہے
سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے
یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں

اس نے پوچھا، کہاں گیا وہ شخص
کیا بتاتا کہ تھا نہیں، میں ہوں
ان دو اشعار میں کیا کیا نہیں ہے۔ احتجاج، ملال، اصرار، گلہ اور بے کراں دکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی دکھ وہ تیشہ ہے، جس سے تخلیق کار انسانیت کے لیے نئے راستے تراشتے ہیں۔
جب ایسی آندھی کا سا منا ہو، جس کی شدت حجرۂ جان میں بھی در آئے اور سب کچھ درہم برہم کر دے تو ہمارا باطنی ارتکاز ہی ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا رکھتا ہے۔ تخلیق میں تاثیر بھی اسی ارتکاز سے آتی ہے۔ یہی ایک چیز ہے جو کسی طاقت ور تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ خواہ یہ تبدیلی اپنی ذات، اپنے سخن اور اپنے فن تک رہے، بہرحال اس کا ایک اثر اور ایک دائرۂ اثر ضرور ہو گا۔
یہ ایک ایسا عجیب زمانہ ہے کہ بہت سے تخلیق کار شعوری طور پر (یا لا شعوری طور پر )اخلاقیات سے رو گردانی میں اپنی انفرادیت تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن وہ تاریخ کا مزاج نہیں بدل سکتے، جو اپنی قابلِ قدر سفّاکی کے ساتھ ہولے ہولے ہر شے کو اس کے مقام تک لے آتی ہے اور غیر فطری کاوشوں کو موہوم و معدوم ہو نے میں دیر نہیں لگتی۔ معاصر معاشی نظام ہمارے باطن پر حملہ آور ہیں۔ مذاہب کی خوش نما رواداری ملیامیٹ کی جا رہی ہے۔ حسن و جمال کے فطری قوانین پائے مال ہو رہے ہیں۔ سخن ور بھی خود سے جدا، جمالِ عصر کی فکر میں ہے۔
جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبح فراق
گل کھلے ہیں کہ نہیں، بادِ صبا ہے کہ نہیں
یہی فکر شاعر کے وجدان کو بے دار کرتی ہے اور وہ روح عصر کی پکار سن سکتا ہے۔
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
لیکن وہ رنجِ رائیگانی جس سے میری بات کا آغاز ہوا تھا، اس مرحلے پر بھی ساتھ ساتھ ہے۔
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
البتہ رنج کی اس شاخ پر کچھ پھول کھلے ہیں جن کی خوشبو امید کا استعارا ہے۔
یونہی بے یقین یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رایگاں، مری آدھی عمر گزر گئی
اس غزل کی ردیف میں ایک لفظ چراغ کی طرح روشن ہے۔ امکان، امید، توقع، اور حوصلے کا چراغ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لفظ ہے "آدھی عمر” جو اس بات کا اشارا ہے کہ ابھی وقت کی ڈور ہاتھ سے نہیں نکلی۔ ابھی امکان کا در کھلا ہے۔ ابھی اس درد کی دوا ممکن ہے۔ ابھی رنجِ رائیگانی کے بطن سے زندگی کے معنی جنم لے سکتے ہیں۔
٭٭٭

One thought on “عرفان ستّار کی شاعری میں رنجِ رائیگانی ۔ ۔ ۔ حمیدہ شاہین

  • Mazmoon kafi achchha laga.. irfan sattar saheb ki shairi sach much dil ko chhoo leti hai. main unki ghazlein baar baar parhta hun aur kamaal ki baat to yeh hai ki unki shairi aap ko rokay rakhti hai aur ek ek sher ko baar baar parhwati hai.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے