عرفان ستار کی شاعری کا تکنیکی جائزہ۔ ۔ ۔محمد خاور

سخن شناس کو بہت بہت مبارک کہ اس نے ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے فیس بک پر شعرا کے تعارف کے بہانے اچھی شاعری اور اس پر اہل علم حضرات کی گفتگو پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس بار۔ عرفان بھائی (نام کے ساتھ صاحب نہیں لکھنا چاہ رہا کہ ان کی قد کاٹھ کے رعب میں کہیں میرا تبصرہ قصیدہ نہ بن جائے ) کی شاعری پر بات کا اعلان ہوا تو دل مچل اٹھا کہ میں بھی کچھ لکھوں
عرفان بھائی کی شاعری میں نہ محبوب کے حسن و سراپے کا بہت ذکر ہے نہ تصوف کے رنگ کی بھرمار ہے۔ نہ جدیدیت کے نام پر تجریدیت ہے اور نہ روایت پسندی کی آ ڑ میں فرسودہ ہجر و وصال کے نغمے۔ ۔ نہ ہی ایک ہارے ہوے انسان کی پژمردگی ہے نہ ہی زندگی کا بہت جوش و جذبہ۔ خیالات میں نہ ہی ایسی سادگی ہے کہ سرسری نظر ڈال کر آگے چلا جائے اور نہ ہی اتنی پیچیدگی کہ رک کے گھنٹوں سوچا جائے۔ زمینیں سادہ ہیں۔ قافیے سامنے کے ہیں۔ بحور میں بہت زیادہ تجربات نہیں مشکل الفاظ و تراکیب بھی ڈھونڈھنے سے ہی ملیں گے۔ ۔ تو پھر کیا وجہ کہ ان کی شاعری بہت متاثر کن ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا جذبات و احساسات کی دھیمی آنچ پر سلگتا ہوا ان کا مخصوص آہنگ ان کا اثاثہ ہے۔ جو بہت پر سوز اور پر اثر ہے۔ جی ہاں میرے نزدیک عرفان بھائی احساسات و جذبات کے شاعر ہیں اور عرفان بھائی کو اس کا علم بھی ہے کی ان کا احساس ان کی دولت ہے

یہ تازہ کاری ہے طرزِ احساس کا کرشمہ
مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے
اور اسی احساس کے زیر اثر پیدا ہونے والی خود کلامی کا عنصر انسان کی داخلی کیفیت کا عکاس ہے۔ اور بعض اوقات تو لب ہو لہجے کی تازگی شک میں ڈال دیتی ہے کہ کہیں یہ آپ بیتی تو نہیں۔
میں اس مضمون میں عرفان بھائی کی شاعری کے اجتماعی (مجموعی ) تا ثر اور ان کی فکری اساس کا احاطہ کرنے کے بجائے اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں کہ ان کی شاعری کے وہ کون سے تکنیکی پہلو یا خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے سادہ الفاظ اور دھیمے لہجے کے باوجود تازہ کاری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ وہ تکنیکی خوبیاں اور فنی محاسن جو غیر محسوس طریقے سے ان کی شاعری کا قد کاٹھ بڑھا رہے ہیں اور وہ اپنا احساس قاری تک کس طرح منتقل کر رہے ہیں۔ ؟ تازہ کاری کا کیا راز ہے ؟ اس ضمن میں ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بے شمار خصوصیات میں سے ان دو تکنیکی خوبیوں کا انتخاب کیا ہے جو میری نظر میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ جو ان کا ایک لہجہ اور آہنگ بنا رہی ہیں۔ یہ دو خوبیاں تکرار لفظی اور مصرعوں میں غیر عروضی سکتے کا استعمال ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ یہ ان کے آہنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور مضمون کے آخر میں ایک ایسے پہلو کا بھی ذکر ہے جس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ وہ مصرع اولی اور مصرع ثانی کی بناوٹ کا موازنہ ہے۔
عرفان بھائی کی شاعری کی بات کی جائے تو تو ان کے اشعار میں کلیدی الفاظ و تراکیب کی تکرار بہت اہم ہے۔ جس سے دھیمے لہجے میں بھی بلا کا اثر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس پر تفصیلی بات سے پہلے میں ایک اور دلچسپ تکرار کی طرف اشارہ دینا چاہوں گا۔ وہ لفظ۔ میں۔کی تکرار کی طرف ہے :

میں اور کہاں خود نگری یاد ہے تجھ کو
جب تو نے میرا نام لیا میں نے کہا میں

میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے

دشت حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا
اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہمسفر میں بھی تو ہوں

اس نے مجھ کو محال جان لیا
میں یہ کہتا رہا نہیں، میں ہوں

درج بالا اشعار والی تمام غزلوں میں ردیف میں بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی کچھ غزلیں ہیں جن کی ردیف میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے۔ ان کی کتاب تکرار ساعت میں پیش لفظ کا عنوان بھی۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ہی ہے اور تو اور تکرار ساعت کی پہلی غزل بھی۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ کہ اسی نعرے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

جس دن سے اس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں
ہر چند آئینہ ہوں منور نہیں ہوں میں

اور اس کے بعد یہ غزلیات بھی نظر آتی ہیں جن کی ردیف میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجود ہے :

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
مرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے

اک تاریک خلا اس میں چمکتا ہوا میں
لفظوں کے برتنے میں بہت صرف ہوا میں

سمجھوتا کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں
رفتگاں کی صدا نہیں، میں ہوں

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر
ایک سنسان گھر، چاندنی اور میں

اور میرا، مجھ کو یا مجھے ردیف والی غزلیں بھی موجود ہیں۔ اور ایسے اشعار کی تو بھرمار ہے جن میں ردیف کے علاوہ میں، میرا، مجھے یا کوئی ہم معنی لفظ استعمال ہوا ہو۔
مجھے یہ کہنے میں کچھ عار نہیں کہ میں کی یہ تکرار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز عرفان کی آڑ میں کسی بھی ذات کی اندر کی آواز ہے جو اپنی پہچان چاہتی ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے یہ آواز درجۂ سماعت تک نہیں پہنچ پائی اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ اپنی منزل کے اس پار پہنچنے کی خوشی میں مستی سے شرابور ہے ۔

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری

تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری

اسی لئے میں، مجھے یا مجھ کو تکرار کی صورت میں مختلف انسانوں کی داخلی کیفیت یا ایک ہی انسان کی داخلی کیفیت کے مختلف درجات سب کچھ ملتا ہے عرفان بھائی کی شاعری کا یہ ایسا رخ ہے جس پر ایک مکمل مضمون درکار ہے۔ لیکن فی الحال مجھے لفظی تکرار کی طرف واپس آنا ہو گا۔
اگر صنعت تکرار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک لفظ کو دو مختلف معنوں میں استعمال کرنا، ایک ہی لفظ سے دو مختلف تراکیب بنانا اور ایک ہی لفظ کو اسی معنوں میں تاکید کے لئے دو بار استعمال کرنا، قریباً ہر طرح کی مثال ان کے کلام میں موجود ہے۔
بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کے دوسرے مصرعے میں ضمیر لوٹائی جا سکتی تھی۔ لیکن نہیں لوٹائی گئی۔ اور اسی سے شعر بن گیا۔ اور اگر ان اشعار میں الفاظ کی تکرار ختم کر کے ضمیر استمعال کریں تو شعر کا حسن ختم ہو جائے گا

کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رکی تھی سو وہ نگاہ بھی کیا

اسی شعر میں اگر دوسرے مصرعے میں سے ایک بار نگاہ کا لفظ نکال دیا جائے تو شعر ہی فوت ہو جائے گا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا
کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بس ایک بار رکی تھی سو وہ نگاہ بھی کیا

اور کیا اس شعر میں سراب کی تکرار ختم کی جا سکتی ہے ؟
یہ عمر ایک سراب ہے صحرائے ذات کا
موجود اس سراب میں دم بھر نہیں ہوں میں

میں جانتا ہوں کہ جواب نہیں میں ہو گا۔ اسی قبیل کے کچھ اور اشعار دیکھئے

تو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بدر
اپنی خاطر ہی سہی پر در بدر میں بھی تو ہوں

ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا

جو رات بسر کی تھی مرے ہجر میں تو نے
اس رات بہت دیر ترے ساتھ رہا میں

اور یہی لفظی تکرار کئی جگہوں پر اشعار کی غنائیت میں بھی اضافہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کیوں نہیں رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی ردیف والی غزل پڑھ کر دیکھ لیں۔ اشعار میں وہی روانی او غنائیت ہے جو عرفان بھائی کے ہاں عموماً پائی جاتی ہے لیکن لفظی تکرار نے اس شعر کو باقی تمام اشعار سے ممتاز کر دیا ہے ۔

وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی
وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا

اور شدت خیال کے لئے تو بے شمار مثالیں موجود ہیں :

لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لئے، اس دیار سفر میں گذر کے لئے
عاجزی چاہئے، آگہی چاہئے، درد دل چاہئے، چشم تر چاہئے

اک امکان کی بے چینی سے اک امکان کی وحشت تک
میں کس حال میں زندہ تھا اور میں کس حال میں زندہ ہوں

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے

اسی تکرار لفظی کی بدولت سادہ الفاظ و خیالات کے باوجود بھی بھول بھلیاں کا سا ایک منظر سامنے آتا ہے۔ جسے قاری ذرا سی ہے دیر میں حل کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ بھول بھلیاں لطف تو دیتی ہے لیکن ناگوار نہیں گذرتی۔

رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا

یا مجھ سے گذاری نہ گئی عمر گریزاں
یا عمر گریزاں سے گزارا نہ گیا میں

سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا

گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی مجھ کو
نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سے مجھ کو

اور بعض اوقات الفاظ کی تکرار سے ایک موازنہ ہو رہا ہے۔

اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف حسرت تسکین نظر کھینچتی ہے

وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا
یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بے بسی سے

وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا
یہ کون ہیں جو پس جسم و جاں بھی زندہ رہے

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

پہلے شعر میں اک طرف یعنی ایک ہی اشارے سے دو مختلف سمتیں دکھائی گئی ہیں اور دوسرے شعر میں وہ دن اور یہ دن کا موازنہ ہے۔ تیسرے شعر میں وہ کون اور یہ کون کا استعمال دوسرے شعر کی طرح ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وجود جسم اور پس جسم و جاں کا التزام بھی کیا گیا ہے۔ اور چوتھے شعر میں لفظ کسی کے ساتھ موازنہ کیا ہے اور آہٹ اور صورت کی بھی تکرار ہے۔
اور سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اس ایک شعر میں نہیں کی تکرار سے پیدا ہونے والا بانکپن کیا ہی پر لطف ہے ۔

تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاؤ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے

تکرار لفظی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ردیف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دم بخود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والی غزل کا تذکرہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس غزل میں ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ایک شعر کے علاوہ ہر شعر میں ایک مصرع دم بخود سے ہی شروع ہوتا ہے اور دم بخود پر ہی ختم ہوتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ غزل سوچ کر ایسی نہیں لکھی گئی بلکہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ اگر سوچ کر ایسا کیا ہوتا تو جو ایک شعر دم بخود سے شروع نہیں ہوتا وہ نکال دیا گیا ہوتا۔ اس سے میرے اس خیال کو بہت تقویت پہنچتی ہے کہ تکرار لفظی عرفان بھائی کے آہنگ کا فطری حصہ ہے۔ غزل کا صرف مطلع اور ایک شعر ہی یہاں پیش کر پاؤں گا۔

دم بخود میری انا تیری انا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا اور میں رہا بھی دم بخود

رقص کرنے پر تلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دئیے ہیں غم کدہ بھی دم بخود

تکرار ساعت، تکرار لفظی کی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اب چلتے ہیں مصرعے میں سکتے کا استعمال کی طرف۔ خصوصاً مصرعہ ثانی میں۔ وہ بہت سے دوسرے لوازمات کے ساتھ مصرعے میں غیر عروضی سکتہ ڈال کر نہایت شاندار ڈرامہ اور اثر انگیزی پیدا کرتے ہیں۔ یہی سکتے کا استعمال، لہجے کی بے تکلفی، آسان فہم زبان اور روزمرہ کی گفتگو جیسی شاعری ان کی تازہ کاری ہے۔ کچھ مثالیں دیکھتے ہیں :

جنوں میں رقص کناں موجۂ طرب کیا ہے ؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے ؟

ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے

پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
"کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ "اب کیا ہے ؟

ایک ہی غزل میں تین اشعار مل گئے۔ اور اس غزل کا انتخاب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رینڈم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے۔ عرفان بھائی کے کے پروفائل میں سے مثالیں ڈھونڈھنے کے لئے نوٹس کھولے تو یہ تازہ ترین غزل ہے۔ ۔ چلئے اس سے پچھلی غزل بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کیا اس میں ایسا کوئی شعر ہے۔

تیرا اندازِ تخاطب، ترا لہجہ، ترے لفظ
وہ جسے خوفِ خدا ہوتا ہے، یوں بولتا ہے ؟

اگرچہ پہلے مصرعے میں بھی سکتے کا استعمال ہے۔ لیکن اس کی مثالیں تو بہت سے شعرا کے ہاں بکثرت ملیں گی آپ دوسرے مصرعے پر غور کیجئے ۔

وہ جسے خوف خدا ہوتا ہے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوں بولتا ہے۔

انصاف سے کہئے گا کہ اس سکتے نے خوف خدا کو بہت بڑا نہیں کر دیا؟
اور یہ شعر دیکھئے:

حد ہے، کہ تو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے

حد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بعد کا سکتہ کیا گل کھلا رہا ہے وہ اہل فن خوب سمجھتے ہیں۔

کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشم طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکی بھی نہیں

آپ نے محسوس کیا؟ رکنے کے بیان سے پہلے سکتہ۔ یقیناً اس سکتے سے لاشعوری طور پر قاری کی کیفیت میں ۔۔رکی۔ ۔ کا لفظ گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔
اور اگر سچ پوچھئے تو مجھے لگتا ہے کہ سادہ الفاظ میں اتنے پر اثر اشعار کہنے کی ملکہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سکتے۔ ۔ ۔ ۔ کے استمعال کا بہت کردار ہے۔ اور مثالیں دیکھنے کے لئے نوٹس میں سے تیسری غزل دیکھی تو ایسا لگا کہ اگر مثالیں اکٹھی کرنی شروع کی تو بہت شی شاعری ٹائپ کرنی پڑ جائے گی۔ چلئے آپ کے خوشی کے لئے ایک اور غزل، جس میں ایک خاص نکتہ بھی ہاتھ آیا ہے، کا کاپی پیسٹ مار دیتا ہوں :

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا

ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا

ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً، آنا اِدھر ہمارا

اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا

اک سعیِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا

پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاؤ پوچھے، کوئی اگر ہمارا

دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا

ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا

خاص نکتہ یہ ہے اس غزل میں معنوی اور عروضی سکتے ایک ہی مقام پر آ پڑے ہیں۔ اور اگر عرفاں بھائی سکتے کی علامت نہ بھی ڈالتے تو بھی اشعار کا آہنگ یہی رہتا۔ لیکن (چھوٹا منہ بڑی بات ) میرا خیال ہے کہ عرفان بھائی۔ معنوی سکتے۔ ۔ کا ہتھیار اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بھی سکتے کا اعلان علامت سے کیا اور اس سے میرے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ۔ ۔ کے مصرعے میں۔ ۔ ۔ ۔ سکتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا استعمال بھی عرفان بھائی کا خاص ہتھیار ہے ۔
ایک شعر میں منظر کشی میں سکتے کے استعمال کا جادو ملاحظہ فرمائیے۔ ایسے جسیے منظر درجہ بدرجہ قاری کے دل و دماغ پر نازل ہو رہا ہے۔

لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں

یہ پہلا مصرع ہے۔ اور اسے تمہید کے طور پر لیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ عرفان بھائی کی شاعری میں سکتہ اپنا جادو دوسرے مصرعے میں دکھا تا ہے۔

پھول پتے شجر، منتظر چشم تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں

اور اب ایک بار یہی شعر میرے ساتھ دوبارہ پڑھئے۔

لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں
پھول پتے شجر، منتظر چشم تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں

سکتے کا استعمال جب جب دوسرے مصرعے میں ہوا۔ اس نے یہی قیامت ڈھائی۔ اسی طرح کا اک اور شعر بھی حاضر ہے۔

منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے
چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں

بہت سی جگہوں پر سکتے کا یہ استعمال مکالماتی اور بے تکلفانہ انداز کا اظہار ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی ایک جگہ بھی پھکڑ پن یا عامیانہ پن نظر آیا ہو۔ صرف مہارت ہی مہارت نظر آتی ہے۔ اور ایسے لگتا کہ عرفان بھائی کی یہ گفتگو نہ صرف آپ پڑھ رہے ہیں بلکہ سن اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہُوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

کہئے، جاں اور جان کی تکرار، جان اور ہاں کا ہم آواز ہونا، مری جان کو کھپانا اور پھر ۔ہاں۔ کی شکل میں ایک ڈرامہ۔ تو مقطع کیوں نہ قیامت ڈھانے والا ہو۔

اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے آگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان من۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے بعد سکتے کا کمال دیکھئے

تجھ کو چشم تحیر سے تکتا ہوا ایک میں ہی نہیں آئینہ بھی تو ہے
جان من، حسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے

اور تخاطب کا یہ انداز جان و جان من ہی تک محدود نہیں بلکہ عرفان بھائی اسی انداز سے رقیب کو بھی مخاطب کر جاتے ہیں ۔

نہیں مشروط کار عاشقاں ترک سکونت سے
میاں، اہل جنوں کی نا مکینی اور ہوتی ہے

درج بالا شعر میں سکتے کے استعمال کے علاوہ بھی دو بلا کی خوبیاں ہیں۔ ایک تو لفظ میا ں کا استعمال جس میں بہت سے پہلو ہیں۔ مخاطب رقیب بھی ہو سکتا، دوست بھی اور یہ خود کلامی بھی ہو سکتی ہے اور دوسرا نا مکینی جیسی انوکھی ترکیب جو یہاں بہت لطف دے رہی ہے ۔
سکتے کا اک اور بہترین استعمال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقین مانو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے بعد دیکھئے

اداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

پہلے مصرعے میں کچھ خاص بات نہیں ایک سیدھا سا مصرع ہے۔ شعر کا مضمون بھی نیا نہیں۔ لیکن جیسے ہی یقین مانو۔ ۔ ۔ کے بعد سکتہ آتا ہے۔ قاری کی پوری توجہ حاصل کر لیتا ہے۔

اسی طرح کے اور اشعار دیکھتے ہیں جہاں سکتے کہ بعد پہلی والی بات کو بڑھایا گیا۔

جسے ہو عرفانِ ذات وہ کیا تری سنے گا؟
او ناصحا، چھوڑ دے، کوئی فائدہ نہیں ہے

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر، اے دیدہ ور! میں بھی تو ہوں

میں جہاں پاوں رکھوں واں سے بگولا اٹھے
ریگ صحرا، میری وحشت کے برابر ہو جا

شام ہوتے ہی لگاتے ہیں درد دل پہ صدا
آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں

کچھ اشعار میں سکتہ قاری کی روانی اور اس کی کیفیت کو کو توڑنے کے لئے استعمال ہوا۔ اور قاری کی کیفیت کو توڑنے کے بعد یا تو اسی بات کو بڑھا دیا ہے یا ایک نئی یا متضاد بات کہہ دی گئی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں نئی یا متضاد بات کی گئی ہے۔

چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا
یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے

جس دن سے اس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں
ہر چند آئینہ ہوں، منور نہیں ہوں میں

ہوں اس کی بزم ناز میں مانندِ ذکر غیر
وہ بھی کبھی کبھار ہوں، اکثر نہیں ہوں میں

یہ سخن، یہ خوش کلامی، در حقیقت ہے فریب
یہ تکلم، روح کی بے رونقی کا جبر ہے

میں نے شرو ع میں ذکر کیا تھا کہ عرفان بھائی کے کرافٹ کے دو خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسے پہلو پر بھی بات ہو گی جہاں کچھ کمزوری محسوس ہوئی۔ اس کے لئے پہلے اور دوسرے مصرعے کا موازنہ کرنا ہو گا۔ دوسرے مصرعے کی بابت تو میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہے کہ بیشتر اچھے اشعار میں سکتے کا استعمال دوسرے مصرعے میں ہی ہوا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اگر غور کریں تو دوسرے مصرعے بہت مضبوط ہیں اور کسی ایک لفظ کو بھی ادھر سے ادھر کرنا شعر کی عمارت ڈھانے کے مترادف ہے۔ ہاں ایک مطلع ایسا ضرور نظر سے گذرا جس کے دوسر ے مصرعے میں زبان کی غلطی در آئی ہے۔

ترے لہجے میں ترا جہل دروں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے

دوسرے مصرع میں ہے زائد ہے۔ اور نقص آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا مصرع فعل حال مطلق ( بولتا ہے، جاتا ہے، کھاتا ہے ) میں ہے اور اس کی نفی کے بارے میں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نفی حال مطلق میں آخری علامت ہے یا ہیں حذف ہو جاتی ہے جیسے وہ نہیں آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس ایک مطلع کے علاوہ مجھے کسی بھی مصرع ثانی میں کوئی بات کھٹکتی ہوئی محسوس نہ ہوئی۔ ہاں اس بات پر حیرت ہے کہ کبھی کبھار کوئی ایسا مصرع اولی کیوں نظر آ جاتا ہے جس کی بندش بہتر کی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی عیب نہیں۔ اساتذہ کی شاعری میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہوں۔ لیکن اساتذہ کے ہاں ان کی موجودگی یہ قطعا ثابت نہیں کرتی کہ یہ قابل تقلید روش ہے۔ جتنا بڑا شاعر ہو گا پکڑ بھی اتنی ہی باریک بینی سے ہو گی۔ اگر عرفان بھائی کی شاعری میں کبھی کبھار بھی کوئی ایسا مصرع نظر آئے تو نشاندہی ضرور کی جانی چاہئے تا کہ ایسے تازہ کلام کا حسن اور بکھر سکے۔ اور میں ان کمزور مصرعوں کی نشاندہی اس لئے بھی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تمام مصرع اولیٰ ہیں۔ ۔ خدا جانے کیا وجہ ہے۔ کیا عرفان بھائی پہلے مصرعے کی بندش پر اتنا خیال نہیں کرتے جتنا دوسرے مصرعے کی بندش پر کرتے ہیں ؟
چلئے مثالوں سے ہی بات کرتے ہیں۔ اور صرف انہی مصرعوں کی بات کروں گا جن میں صرف الفاظ کی ترتیب بدلنے سی ہی بہتری آ جاتی ہے۔

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے تازہ اک شکایت
کبھی تجھ سے، کبھی خود سے کبھی اس زندگی سے

شعر شاندار ہے اور عیب سے پاک ہے۔ میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تازہ اک شکایت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے ٹکڑے کا کیا مقصد ہے یہ اک تازہ شکایت کیوں نہیں جو بحر میں با آسانی آ رہا ہے۔ کیا اس مصرع کی بندش بہت آسانی سے بہتر نہیں کی جا سکتی؟

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت
کبھی تجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور عرفان بھائی کے لئے تو یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔ تو کیا وجہ ہے اس کا خیال نہیں کیا گیا ؟ کیا کوئی رمز ہے ؟ لیکن مجھے تو یہی لگا کہ سہو ہو گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی ایسے مصرعے نظر آ جاتے ہیں جن مین الفاظ کی ترتیب قابل غور ہو تی۔ جیسے

پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح
جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے

پھونک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے مصرع شروع کرنے کی وجہ؟۔ ہو سکتا ہے شعر میں لفظ پھونک کو پھونکا گیا ہے۔ یعنی پھونک کا تا اثر بڑھانے کے لئے شعر کو پھونک سے شروع کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ لیکن مجھے کچھ ٹھیک نہ لگا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر لفظوں کی ترتیب بدل کر یوں کر دی جائے

اس طرح پھونک دی جاتی ہے مرے شعر میں روح
جیسے سانسوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے مقابلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح۔ ۔ ۔ ۔ آ کر شعر کے حسن کو بڑھا نہ دے گا اور پھونک جیسا نسبتا کم شاعرانہ لفظ مصرعے کے اندر زیادہ بہتر طریقے سے کھپ جائے گی۔ اسی طرح کچھ مصرعے بھی ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی بات کی وضاحت کے لئے ان مصرعوں میں کچھ لفظوں کا ہیر پھیر بھی کروں۔ لیکن یہ تجاویز نہیں ہوں گی بلکہ مقصد نقطہ نظر کو واضح کرنا ہو گا۔

وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب کو نظر آتا ہے فسوں ہے میرا

میں ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا ڈھیلا ٹکڑا

وہ جو مخفی ہے وہی اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے

جو یہ نہ ہو تو وغیرہ اکٹھے ہی آ گئے ہیں ۔

رہے نہ یہ تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری
اور دریاؤں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا

یہ ہے خاک مری میں لفظی ترتیب۔

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے مری خاک ہے یہ
اور دریاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میری تجویز میں مصرع اولی یہ سے شروع ہو کر یہ پر ہی ختم ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ایک مبتدی کی کوشش ہے عرفان بھائی کے لئے تو اس مصرعے کی اس سے بہتر شکلیں نکالنا کچھ مشکل نہیں۔

کوئی عرفان مجھ میں سے مجھے آواز دیتا ہے
ارے تو سوچتا کیا ہے کبھی کچھ تو بتا مجھ کو

کوئی اور عرفان میں فاصلہ ضروری ہے۔

کوئی مجھ میں ہی سے عرفاں مجھے آواز دیتا ہے
ارے تو سوچتا کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے مصرع صرف اپنی بات کی وضاحت کے لئے تبدیل کیا ہے یہ تجویز نہیں ہے۔ اس مین عرفان کی نون نہیں ادا ہو رہی۔

تجھ کو معلوم نہیں ہے میری خواہش کیا ہے
مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا

پہلے مصرعے میں سے درمیانی ہے اڑانا چاہئے ۔

امید ہے کہ عرفان بھائی کے آئندہ کے اشعار میں میں کوئی ایسا مصرع نہ ڈھونڈ پاوں گا کہ جس میں کوئی بہتری ممکن ہو۔
٭٭٭

One thought on “عرفان ستار کی شاعری کا تکنیکی جائزہ۔ ۔ ۔محمد خاور

  • اشعار مین بہتری کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔مجھے جاوید شاھین یاد اا رھے ھین ایک بار میری ایک غلز کی تعریف کر رھے تھے۔۔کہ رشید ندیم نے کہا۔۔یہ غزل رفیع رضٓ نے ۳۰ سال مین مکمل کی ھے۔۔۔جاوید شاھین مرحوم نے فرمایا۔۔مین نے اپنی غلزون کی کانٹ چھانٹ ۵۰ سال بعد بھی کی ھے۔۔۔۔پس بہتری یا تندیلی کی گنجائش ھمیشہ رھتی ھے۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے