عرفان ستار کی ’تکرارِ ساعت‘ سے منتخب اشعار ۔۔۔ انتخاب افزا خالد

بکھرا ہُوا ہوں شہرِ طلب میں اِدھر اُدھر
اب تیری جستجو کو میّسر نہیں ہوں میں

گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی
تُو مجھ پہ غور کر کہ مکرّر نہیں ہوں میں

تُو جب طلب کرے گا مجھے بہر ِ التفات
اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں

دیکھتی ہے جونہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے، بے ہنر، میں بھی تو ہوں

کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے اِس چاک پر میں بھی تو ہوں

یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی، مگر میں بھی تو ہوں

سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے
قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا

کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا

خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے، اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہئیے
چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجّہ اِدھر چاہئیے

لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیار ِ سخن میں گزر کے لیے
آگہی چاہئیے، عاجزی چاہئیے، دردِ دل چاہئیے، چشم ِ تر چاہئیے

جنھیں روشنی کا لحاظ تھا، جنھیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں انہی کی صف میں جلا کیا، میں اُسی قطار میں بجھ گیا

ترے خیال کی صورت گری کا شوق لیے
میں خواب ہو تو گیا ہوں، اب اور کیا ہو جاؤں ؟

ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے

کھینچ رہی تھی کوئی شے، ہم کو ہر ایک سمت سے
گردشِ بے مدار میں، عمر گزار دی گئی

یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خاکِ رہگزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو

کار ِ دنیا کے سِوا کچھ بھی مرے بس میں نہیں
میری ساری کامیابی بے بسی کا جبر ہے

کون بنتا ہے کسی کی خودستائی کا سبب
عکس تو بس آئینے پر روشنی کا جبر ہے

یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہگزر کو دیکھتے ہیں

وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی
وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں

جو ہم پہ ایسا نہ کار ِ دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے

یہ اب کھلا ہے کہ اُس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے

بقدر ِ خوابِ طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا اُدھار کر کے ؟

عرصۂ خواب سے وقتِ موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو
ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا

میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یار ِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے

حد ہے کہ تُو بھی میری اذیّت نہ پڑھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے

بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلّف درمیاں باقی رہے گا

ہمارے پاس جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا

جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی

ہاں کہا تھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی

تُو ہمیں دیکھ آ کر سر ِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزم ِ سخن
اک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اُس پر ہمارا بیاں یا اخی

جو رات گزاری تھی مرے ہجر میں تُو نے
اُس رات بہت دیر ترے ساتھ رہا میں

نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں
اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے

خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو
تجسّس بڑھ گیا ہے سرکشی کم ہو گئی ہے

ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ
ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے ؟

میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اٹھے
ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے
تُو کسی دن مری امّید سے بڑھ کر ہو جا

اتنے برسوں بعد بھی دونوں کیسے ٹوٹ کے ملتے ہیں
تُو ہے کتنا سادہ دل اور ہم کتنے پیچیدہ ہیں

اِس بستی میں ایک سڑک ہے جس سے ہم کو نفرت ہے
اُس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں

بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں
مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے

بدن کس طور شامل تھا مرے کار ِ جنوں میں
مرے دھوکے میں اِس کو کیوں مٹایا جا رہا ہے

خرد کی سادگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے
مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے

ابھی اے بادِ وحشت اِس طرف کا رخ نہ کرنا
یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے

کہیں تو جا کے سمٹے گا ترا کار ِ جہاں بانی
کبھی تُو بھی تو دیکھے گا کہ ویرانی کہاں تک ہے ؟

رفوگر، میں تو شہر ِ عشق سے باہر نہیں جاتا
میں کیا جانوں کہ رسم ِ چاک دامانی کہاں تک ہے ؟

چھلک رہی ہے جو دل میں وہ تشنگی ہی نہ ہو
وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو

گزر رہا ہے تُو کس سے گریز کرتا ہُوا
ٹھہر کے دیکھ لے اے دل کہیں خوشی ہی نہ ہو

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے

جس دن سے روزگار کو سب کچھ سمجھ لیا
راتیں خراب ہو گئیں اور دن سنور گئے

ایک ملال تو ہونے کا ہے، ایک نہ ہونے کا دکھ ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے

تعلق کو نبھانے کے بہت دکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں

تکمیل تو زوال کا پہلا پڑاؤ ہے
خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا

بے رنگ ترے در سے، کب خاک بسر اٹھے
یا پیرہنِ گل میں، یا خون میں تر اٹھے

چلے آئے ہیں آنکھوں میں کسی کا عکس پا کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشا چاہتے ہیں

ہمیں بھی سودا کہاں تھا ایسا جو اپنے دل میں ملال رکھتے
اگر تُو اپنا خیال رکھتا تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے

اپنی ویرانی کا سارا رنج بھلا کر صحرا نے
میری دل جوئی کی خاطر خاک اڑا کر رقص کیا

رات گئے جب سنّاٹا سرگرم ہُوا تنہائی میں
دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا

ملے گا کیا تجھے اے دل یہ تجربہ کر کے
ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے

ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا، صبا کر کے

اداس تھے سو ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے
فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے

ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس
ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے

کوئی نغمہ بُنو، چاندنی نے کہا، چاندنی کے لیے ایک تازہ غزل
کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل

اپنی تنہائی میں رات میں تھا مگن، ایک آہٹ ہوئی دھیان میں دفعتاً
مجھ سے باتیں کرو، خامشی نے کہا، خامشی کے لیے ایک تازہ غزل

وہ شہرِ ہجر عجب شہرِ پُر تحیّر تھا
بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے

یہاں تو حبس بہت ہے سو گرد بادِ جنوں
مدارِ وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے

پھر اُس کے بعد نہ تُو ہے، نہ یہ چراغ، نہ میں
سحر کی پہلی کرن تک ذرا سنبھال مجھے

ٹھیک ہے میرا ہونا تیرے ہونے سے مشروط نہیں
لیکن اتنا یاد رہے میں ایک ملال میں زندہ ہوں

کتنی جلدی سمٹا ہوں میں وسعت کی اُس ہیبت سے
کل تک عشق میں زندہ تھا میں آج وصال میں زندہ ہوں

کہیں سے نقش بجھ گئے کہیں سے رنگ اڑ گئے
یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا

بہارِ جاں سے تجھے باریاب کر دیں گے
نظر اٹھائیں گے چہرہ گلاب کر دیں گے

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر، ایک سنسان گھر، چاندنی، اور میں
بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی، اور میں

لمحہ لمحہ اُجڑتا ہُوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں
پھول، پتّے، شجر، منتظر چشمِ تر، رات کا یہ پہر، روشنی، اور میں

کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا
یہ کڑی رہگزر، رائیگانی کا ڈر، مضمحل بال و پر، بے بسی، اور میں

زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر
اک تیرے کہے سے تو ٹھہرنے کا نہیں میں

اب چشم ِ تماشا کو جھپکنے نہیں دینا
اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں

کیوں مملکتِ عشق سے بے دخل کیا تھا
اب مسندِ غم سے تو اترنے کا نہیں میں

ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ
اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں

ایک مدت میں جا کے مجھ پہ کھلا
چاند حسرت زدہ نہیں، میں ہوں

میں ہی عجلت میں آ گیا ہوں اِدھر
یہ زمانہ نیا نہیں، میں ہوں

سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے
یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں

یہ کسے دیکھتا ہے مجھ سے اُدھر
تیرے آگے خلا نہیں، میں ہوں

گاہے گاہے سخن ضروری ہے
سامنے آئینہ نہیں، میں ہوں

تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں
یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے

سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر
یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے

ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا
ابھی تو شوق تمنّا کی سیرگاہ میں ہے

مرے خوابوں سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا، پر ایسا ہو گیا ہے

تعلق اب یہاں کم ہے، ملاقاتیں زیادہ
ہجوم ِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے

تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے

میں سمجھا تھا سئیے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عُمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیّر؟
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے

یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عُمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے

مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفان، اٹھ جاؤ، سویرا ہو گیا ہے

وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں، رہا ہوتے ہوئے بھی

مجھے تُو نے بدن سمجھا ہُوا تھا، ورنہ میں تو
تری آغوش میں اکثر نہ تھا، ہوتے ہوئے بھی

اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے
تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی

مسلسل قُرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ، وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی

وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے
بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جُدا ہوتے ہوئے بھی

ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں

کرم کیا کہ رکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں

وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میّسر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عُمر گزر گئی

کبھی ذکر ِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکر ِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اِسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

پوچھتا ہے یہ ہر اک خار سر ِ دشتِ جنوں
آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہے کہ نہیں

میں تو وارفتگیِ شوق میں جاتا ہوں اُدھر
نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں

جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبحِ فراق
گُل کِھلے ہیں کہ نہیں، بادِ صبا ہے کہ نہیں

رازِ ہستی سے جو پردہ نہیں اٹھتا، نہ اٹھے
آپ کیوں اپنے تجسّس کا زیاں چاہتے ہیں

شام ہوتے ہی درِ دل پہ لگاتے ہیں صدا
آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں

دشت ِ فرقت کی اِس تشنگی تک نہیں، آزمائش فقط ہجر ہی تک نہیں
اِ سے سے آگے تمنّا کے اظہار کا، ایک دشوار تر مرحلہ بھی تو ہے

حسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، روح پرور سہی، خوش ادا ہی سہی
سن مگر دل رُبا، تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں، سوچتا بھی تو ہے

کس قدر خوش نفس، کس قدر خوش ادا، یاد کے پھول کھلتے ہوئے جا بجا
عشق کی راہ میں رنج بھی ہیں تو کیا، عشق کے دم سے ایسی فضا بھی تو ہے

وہ نہیں تو سخن کی ضرورت نہیں، مجھ کو سب سے تکلّم کی عادت نہیں
ہجر سے کچھ سِوا ہے مرا واقعہ، حرف کی موت کا سانحہ بھی تو ہے

نجانے رشک سے، غصے سے، غم سے یا رقابت سے
یہ کس انداز میں تکتا ہے تیرا آئینہ مجھ کو

کھلے تو سب زمانوں کے خزانے ہاتھ آ جائیں
در ِ اقلیم صد عالم ہے وہ بندِ قبا مجھ کو

گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری
نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو

کثافت بار پا سکتی نہیں ایسی لطافت میں
کرم اس کا کہ بخشا دل کے بدلے آئینہ مجھ کو

صبا میری قدم بوسی سے پہلے گل نہ دیکھے گی
اگر وحشت نے کچھ دن باغ میں رہنے دیا مجھ کو

بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رخی سے
کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے

تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ
میں اب اکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے

کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ
کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دل کشی سے

کرم تیرا کہ یہ مہلت مجھے کچھ دن کی بخشی
مگر میں تجھ سے رخصت چاہتا ہوں آج ہی سے

تخیّل اور ہے، نادیدہ بینی اور ہوتی ہے
یہ تنہائی ہے بس، خلوت نشینی اور ہوتی ہے

نہیں مشروط کار ِ عاشقاں ترکِ سکونت سے
میاں، اہلِ جنوں کی نا مکینی اور ہوتی ہے

عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی
کہ تُو بھی پاس ہو، تیرا گماں بھی زندہ رہے

تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے

عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا
یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے

ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے

اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغّیر مری جانب نگراں تھا پہلے

کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے

کون یہ لوگ ہیں ناواقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے

اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجّہ کا زیاں تھا پہلے

میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے

دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے

میری کم مائیگی کو ترے ذوق نے، دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیار ِ سخن، مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

قاصدِ شہر ِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکر ِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی

احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی

اپنے ذوقِ نظر سے تری چشم ِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دئیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی

راز داری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں نے انھیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی

مجھ میں میرے سِوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریِ دلبراں سونپ دی

ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں، حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

تمہیں فرصت ہو دنیا سے، تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے

ہمارا عشق بھی اب ماند ہے، جیسے کہ تم ہو
تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب ان کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بجا کہتے ہو تم، ہونی تو ہو کر ہی رہے گی
تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

شمار و بے شماری کے تردد سے گزر کر
مآل عشق، وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے