صحافت اور ادبی صحافت۔ اہمیت و افادیت کی روشنی میں ۔۔ ڈاکٹر ہاجرہ بانو

صحافت عربی زبان کے لفظ ’’صحف‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں جرنلزم، جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حساب یا روزنامچہ۔ صحافت کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق یا پھر سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے بشرطیکہ اس سارے کام میں نہایت ایمانداری اور مخلص پن کا عنصر ضرور موجود ہو۔ صحافت نام ہے لوگوں کی رہنمائی کرنے کا۔ صحافت نام ہے تبصروں کے ذریعہ عوام الناس کو حقائق سے روشناس کرانے کا۔

خبر کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس وقت سے دیا جا رہا ہے جب سے اخبارات کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن خبریں تو اس سے قبل بھی ہوتی تھیں مگر انہیں حاصل کرنے اور پہنچانے کے ذرائع مختلف تھے۔ تاہم مختلف لوگوں نے اس سوال کے مختلف جواب دئیے ہیں۔  ہر شخص اپنے نقطہ نظر کے مطابق اس کی تعریف کرتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے خبر کی تعریف کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں۔ بقول رحم علی شاہ ہاشمی انگریزی میں خبر کو News کہتے ہیں اور یہ لفظ New سے بنا ہے۔ جس کے معنی جدید یا تازہ کے ہیں۔  اردو میں خبر (عربی لفظ) کے مفہوم سے بھی تازہ ہونا مترشح ہے۔ ولبسٹر Welbister نے اسے صرف تازہ واقعے کی رپورٹ کا نام دیا ہے۔ ول ارون Will Irwin نے اپنی کتاب ’’پروپیگنڈا اور خبر‘‘ (Propaganda and News) میں خبر کی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے کہ ایسا واقعہ جو مانوس اور معمول کی دنیا کے متعلق قاری کے تصور سے مختلف ہوتا ہے یہ متصادم قوتوں کی کشمکش کا نام ہے۔ کارل وارن Carrel Warren نے Radio News Writingمیں خبر کی یہ تعریف کی ہے کہ خبر عموماً وہ رپورٹ ہوتی ہے جو اس سے پہلے عام لوگوں کو نہیں ہوتی۔ یہ رپورٹ بنی نوع انسان کی ایسی سرگرمیوں کے متعلق ہوتی ہے جو قارئین یا سامعین کے لئے دلچسپی، تفریح طبع یا معلومات کا موجب ہوتی ہیں۔  

عصر حاضر کے برقیاتی ذرائع ابلاغ میں اتنی وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ ہر کوئی خبروں سے باخبر ہے۔ دنیا میں متعدد ٹیلی ویژن چینل اب صرف خبری چینل کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ہر ساعت خبریں نشر کرتے ہیں۔  اکثر و بیشتر خبروں اور تبصروں کے ساتھ ساتھ بریکنگ نیوز یعنی تازہ ترین خبریں بھی ملتی رہتی ہیں۔  صحافت کی مختلف انواع کی ترقی بسیط کے باعث اب خبر کا علم کتابوں ، صحافیوں اور کلاس رومز کی حد تک محدود نہیں رہا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی آج خبر کے بارے میں عمومی آگاہی الگ چیز ہے اور خبر کو باقاعدہ علمی انداز میں سمجھنا مختلف بات ہے۔ دنیا میں جہاں بھی صحافت یا ابلاغیات کی تعلیم و تدریس کا اہتمام ہے وہاں ’’خبر‘‘ کو سمجھنے کا عمل خبر کی تعریف کے تعین سے شروع ہوتا ہے۔

جہاں تک صحافتی مواد کا تعلق ہے اس کے بغیر تو اخبار کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ تقریباً ہر ملک کی صحافت کے ابتدائی دور میں بیشتر مواد خبروں اور ان کے تبصروں پر نہیں بلکہ خیالات و نظریات پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کو دلکش و خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ صحافتی مواد کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی گئی۔ صحافت آزاد ہوئی۔ دنیا میں جمہوری نظام قائم ہوا۔ گرد و پیش سے باخبر رہنے کی ضرورت بڑھ گئی۔ اسی ضرورت کے نتیجے میں اخبارات کا کام لوگوں تک صرف خیالات و نظریات پہنچانا نہ رہا بلکہ ان کو حالات و واقعات سے اور ان کے پس منظر و نتائج سے باخبر رکھنا بھی ہو گیا۔ صحافتی مواد کی افراط ہو گئی اور اسی کے نتیجے میں اس مواد کی نوعیت و معیار کے ساتھ ساتھ اس کے خوبصورت و دلکش طریقہ پیشکش کی ہیئت نے بھی اہمیت اختیار کر لی۔

صحافتی مواد کی اتنی افراط ہو گئی کہ اخبارات کے صفحات میں اضافہ ہوا۔ صحافت کے ابتدائی دور میں اخبارات چھوٹے ہوتے تھے اور مواد تھوڑا۔ اس وقت قارئین کی آسانی کے لئے مواد کے مختلف حصوں کو نمایاں کر کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی مگر اب مواد کی افراط کے باعث اس کے ہر جز کو الگ طور پر نمایاں کرنے کی ضرورت محسو س ہونے لگی۔ آٹھ دس بیس پچیس صفحات کے اخبار میں اگر مواد کو سرخیوں ، ذیلی سرخیوں اور حاشیوں میں نمایاں کر کے نہ دیا جائے تو اسے پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کئی اخبار علاقہ وار خبریں شائع کرتے ہیں۔  پھر انہیں جزوی سرخیوں کے ساتھ ترتیب دیتے ہیں تاکہ قاری کو اپنی دلچسپی کی خبریں تلاش کر کے پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

محنت اور مستعدی سے تیار کی جانے والی خبریں تعمیری اور مفید ہوتی ہیں۔  فرض کیجئے کسی جگہ اجتماعی طور پر کچھ لوگوں کے مرنے کی خبر آتی ہے۔ ایک اخبار یہ خبر شائع کر دینے کے بعد مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس نے قارئین کو خبر فراہم کر کے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ لیکن دوسرا اخبار اگلے روز ڈاکٹرس اور ماہرین سے ان اموات کے اسباب معلوم کرتا ہے اور اس کے سدباب کی تجاویز حاصل کر کے اگلے روز فالو اپ کی صورت میں ایسی خبر شائع کرتا ہے جو تعمیری اور مفید ہے۔ ایسی خبر بھی بڑی اہم تصور کی جاتی ہے۔

 اسی طرح کی ایک دوسری خبر تھی کہ مشہور ماہر نفسیات ڈیوڈر ونلڈلسنگ (David Ronald Lisning) سے ایک تیرہ برس کی لڑکی کے والدین نے شکایت کی کہ وہ ان کے ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہے اور وہ غیر معمولی عمل کر رہی ہے۔ جب ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو وہ اپنے کمرے میں جا کر خالی دیوار پر نظریں گاڑ دیتی ہے۔ اس خبر کو صرف شکایتی انداز میں اخبارات کی زینت بنا دیا گیا لیکن ایک تبصرہ میں اس خبر سے جڑے نفسیاتی اور سائنٹفک پہلو کو مد نظر رکھ کر مفصل حالت کو پیش کر کے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا گیا۔ والدین کی شکایت کے بعد لیسنگ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ لڑکی اتنی دیر تک دیوار نہیں دیکھتی جتنی دیر تک اس کے ماں باپ ٹی وی دیکھتے ہیں۔  انہیں اپنی لڑکی کے دیوار دیکھنے پر اعتراض ہے خود کے ٹی وی دیکھنے پر نہیں۔  یہ محض اپنی اپنی پسند ہے۔ مریض کون ہے وہ لڑکی جو بغیر کچھ بولے خالی دیوار دیکھتی ہے یا اس کے ماں باپ جو گھنٹوں ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔  وہ مفصل طور پر پرچھائیاں دیکھتے ہیں۔  جبکہ لڑکی خالی دیوار پر تصویر کشی کے تخیلی اور تخلیقی عمل سے گزرتی ہے۔

 حالیہ دور میں زندگی کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ عوام و خواص کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں۔  ان کی زندگی میں کئی نئی با مقصد اور بے مقصد چیزیں شامل ہو گئی ہیں کہ فرصت ناپید ہو گئی ہے۔ اب بہت کم لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ الف سے ي تک سارا اخبار پڑھ سکیں۔  بیشتر لوگ اخبار پر سرسری نگاہ ڈال کر اپنی دلچسپی کی خبریں یا مواد تلاش کرتے ہیں اور صرف اسی کو غور سے پڑھتے ہیں۔  چنانچہ قارئین کی اس مصروفیت اور ضروریات کے پیش نظر بھی ضروری ہو گیا ہے کہ مواد اسی انداز سے پیش کیا جائے کہ قاری جلد سے جلد اور آسانی کے ساتھ اپنی دلچسپی کا مواد تلاش کر لے۔

صحافت اب محدود تعداد کے قارئین سے نکل کر انتہائی وسعت اختیار کر چکی ہے۔ اب اخبارات و رسائل کے ذریعے جو معلومات دی جاتی ہیں وہ پوری دنیا سے متعلق ہوتی ہیں۔  اس لئے صحافت کی طاقت بھی اسی کے حلقہ اثر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے اب اخبارات سے کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔  اس طرح صحافت لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کی رائے کو متاثر کرتی ہے جس سے اس کی ہمہ گیر قوت کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی شعور اور تربیت کی بدولت سیاسی بیداری حاصل ہوتی ہے۔ اخبارات اچھی قیادت کی خوبیوں سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔  بحث و مباحثہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اخبارات نظریات و خیالات کے تبادلے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں اور آزادی تحریر کے علمبردار بھی۔ آمرانہ نظام کے خلاف شعوری طور پر قارئین کو آمادہ کر کے جمہوری عمل کے فروغ کے لئے صحافت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔

یہ مقابلہ و مسابقت کا دور ہے۔ اخبارات میں مقابلے کی دوڑ جاری ہے۔ علاوہ ازیں اخبارات کے باہمی مقابلے کے علاوہ ان کا دوسرے ذرائع ابلاغ ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ سے بھی مقابلہ ہے۔ چنانچہ مقابلے کی اس دوڑ میں وہی اخبار کامیاب رہ سکتے ہیں جو نہ صرف مواد کے حجم اور تنوع میں ایک دوسرے سے اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے سبقت لے جائیں بلکہ مواد کی پیشکش میں بھی دوسروں کو مات دے دیں۔  لہٰذا مقابلہ و مسابقت کی اس فضا میں اخبارات کو نہ صرف معنوی اعتبار سے بلکہ ظاہری اعتبار سے بھی زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے کی دوڑ جاری ہے۔

فطری طور پر ہر انسان میں تجسس کا مادہ پایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ارد گرد کے ماحول سے آگاہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ جو انسان جاہل ہو گا وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ اس لئے انسان ذرائع کا متلاشی رہتا ہے جو اس کو حالات سے باخبر رکھنے میں اس کی مدد کرسکیں۔  اخبارات کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ وہ انسان کے تجسس کے جذبے کی تسکین کے لئے زیادہ سے زیادہ معلومات اس تک پہنچائیں۔  اور تازہ واقعات و معلومات کو بغیر کسی تاخیر کے اخبارات میں جگہ دی جائے تاکہ قاری وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرسکے اور ہر قسم کے حالات سے بخوبی آشنا ہو لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر واقعہ یا خبر پیش کرتے وقت دور اندیشی، مصلحت اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرے۔ صحافی کی تنگ نظری اس کی پیش کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے آج کے موجودہ حالات میں چنندہ وسیع النظر افراد ہی نظر آتے ہیں کیونکہ آج کل کے کئی اخبارات شہریان کو ترقی یافتہ، کشادہ ذہن بنانے کی بجائے انہیں کئی صدیوں پیچھے ڈھکیل رہے ہیں اور محض مٹھی بھر افراد کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سماج و معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔  ایک باشعور انسان اپنے آپ کو اخبار کے بغیر نامکمل تصور کرتا ہے۔ابتداء میں صحافت صرف خبروں پر مشتمل تھی مگر موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق صحافت میں تبصرے، تجزئیے، تجاویز و آراء شامل ہوتی ہیں۔  صحافت کی تمام اقسام میں واقعات اور مسائل کے متعلق جو حقائق و ثبوت حاصل کئے جاتے ہیں قارئین کی ایک بڑی تعداد ان کو بغیر حیل و حجت کے قبول کر لیتی ہے۔ اخبارات کا یہ فرض ہے کہ وہ مختلف معلومات و اطلاعات، تبصروں یا جائزوں میں حقیقت پسندی کے عنصر کو مد نظر رکھیں کیونکہ عبارت میں اگر ہلکی سی Slant کر دی جائے تو مطلب کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے اخبارات کو واقعات کی صحت کی جانب پڑتال کے بعد حقائق کی ترسیل کا فرض سرانجام دینا چاہئے کیونکہ وہ سچ کے محافظ ہوتے ہیں۔  

ہر قوم اپنی مخصوص ثقافت کی بدولت پہچانی جاتی ہے۔ صحافت جس ملک کی نمائندگی کرتی ہے قدرتی طور پر اسی ملک کی ثقافت کا رنگ اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ غیر ارادی طور پر اس کی تشہیر کرتی ہے اور اخبارات و رسائل اسی صورت میں دوسروں کی نظروں میں جچتے ہیں جب وہ اپنا مخصوص رنگ لئے ہوئے ہوں۔  اس لئے اخبارات کو اپنی ثقافت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر صحافت ہر معرکے پر اپنی حقیقت پسندانہ نظریاتی جنگ پیش کرے تو ملک و قوم کی ترقی کے منازل بآسانی طے ہوسکتے ہیں۔  

ادبی صحافت میں اگر نظریاتی جنگ کا نمونہ دیکھنا ہے تو شبلی نعمانی اور سرسید احمد خاں کی زرین تحریریں صحافتی آسمانی افق پر اپنی مثال آپ ہیں۔  سماجی اور عملی جدوجہد کے ضمن میں شبلی نعمانی اور سرسید احمد خان کا ایک بڑا اجتہادی کارنامہ ان کی سیاسی فکر کی صورت میں سامنے آیا۔ جس نے بیسویں صدی کی اولین دو دہائیوں کے دوران مسلمانوں کے سیاسی رویوں اور ترجیحات کی تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ دونوں مفکرین طباعی، ذہانت اور ایجاد پسندی کی ایسی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھے جنہیں ان کی حریت فکر نے مزید جلا دی تھی۔ تعقل اور تفکر کی قوتیں جو قدرت کی طرف سے ان پر ارزاں کی گئی تھیں انہیں اپنے وقت کے نامور علماء اور ماہرین سے اکتساب فیض کے ذریعے مزید جلا حاصل ہوئی۔

شبلی کا اپنے ماضی سے علمی معاملہ کرنے کا رجحان انہیں بار بار مسلمانوں کی علمی تاریخ کے تابندہ کارناموں کی طرف لے جاتا ہے جہاں وہ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک زمانے تک دنیا کی علمی امامت کی تھی تو اس کے کیا اسباب تھے۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے ماضی کے علمی خزانوں کو تلاش کیا اور ان میں سے ایسے علمی جواہر پارے منتخب کر کے اپنی تحریروں میں پیش کئے کہ مغربی دنیا حیرت میں پڑ گئی۔ شبلی کے زمانے تک مغربی استعمار اور مستشرقین نے ساری دنیا کو یہ باور کرا رکھا تھا اور اس جھوٹ سے بہت سے مسلمان بھی متاثر ہو چکے تھے کہ مسلمانوں نے انسانی تہذیب اور علم کے فروغ کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ شبلی نے اپنے مضامین کے ذریعے مسلمانوں کے علمی ماضی کو ایک زندہ حقیقت کی طرح پیش کیا اور بتایا کہ مسلمان نہ ہوتے تو قدیم یونانی علوم غفلت کی فراموشی کی گرد میں دبے دبے دم توڑ چکے ہوتے اور یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے ان علوم کو ترجموں کے ذریعہ نہ صرف محفوظ کیا بلکہ ان میں اضافے کر کے انہیں آئندہ نسلوں کو منتقل کیا اور یوروپ کی علمی نشاۃ ثانیہ کے لئے زمین تیار کی۔ انہوں نے فلسفے سے متعلق مسلمانوں کے رد و قبول کے رویے کو گہرائی سے سمجھا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کے ایک خاص علمی اکتساب یعنی علم کلام پر نہایت عرق ریزی سے غور کر کے اس پر عبور حاصل کیا۔ اس کلام سے متعلق ان کی وہ تحریریں سامنے آئیں جن میں آج بھی ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ ان کے مضامین نے ماضی شناسی کا سبق دے کر مسلمانوں میں اعتماد پیدا کیا کہ وہ شاندار علمی ورثہ اور فرسودہ روایات و رجحانات پر سخت نکتہ چینی کر کے اپنی روشن خیالی اور وسیع النظری کا ثبوت پیش کیا۔ مسلمانوں کو نئے زمانے کے تقاضے سے ہم آہنگ ہو کر نیا اجتہادی نظریہ پیش کرنے پر مجبور کیا۔ شبلی اور سرسید کا زمانہ قدیم و جدید کی شدید کشمکش کا زمانہ تھا۔ اور اس وقت کے اہل نظر سرسید کی تحریک اور رہنمائی کے تحت یہ محسوس کر رہے تھے کہ مسلمان اپنے تقلیدی رویے کے سبب علم کے میدان میں پستی کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے ضروری تھا کہ مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر نظر ثانی کی جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شبلی جس شدت سے علمی تحقیق کی طرف متوجہ تھے اسی شدت سے ان کا ذہن تعلیم کی اصلاح پر بھی مرتکز تھا۔ خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو انہیں نے نہایت شد و مد اور سنجیدگی سے لیا۔ ان کے نزدیک خواتین کو بے تعلیم رکھنا مسلمانوں کے اجتماعی وجود کے نصف حصے کو تاریکی میں رکھنے کے مترادف تھا۔ تعلیم کے معاملے میں وہ مردوں عورتوں میں کسی قسم کے امتیاز کے قائل نہیں تھے۔ تاریخ و سیرت، دینی علوم اور اسلامی فکریات میں اجتہادی بصیرتوں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ شبلی کو ایک غیر معمولی جمالیاتی نگاہ بھی حاصل تھی۔ شبلی کے مضامین میں ایک ایسی ادبی صحافت نظر آتی ہے جس نے نیم مردہ قوم کو نئی توانائی بخشی۔ ادبی صحافت انسان کے رنج و غم کے اظہار کے لئے کبھی شاعری کبھی کہانی کبھی افسانوی یا ناول تو کبھی مضامین کا وجود کھڑا کرتی ہے۔ ان تمام ادبی شہ پاروں میں ایسے جواز پوشیدہ ہوتے ہیں جہاں تک صحافت اور تحقیق کے ماہرین کی نگاہ تک نہیں جا سکتی۔ اکثر ادیب و شعراء حالات کی چکی میں پسنے کے بعد ہی اپنا قلم اٹھاتے ہیں۔  وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سماجی اور سیاسی حالات کس بناء پر کروٹ لیتے ہیں۔  ان کا قلم وہ حقائق بیان کرتا ہے جو پولیس اور صحافت کی رپورٹ بیان نہیں کرسکتی۔ میری رائے میں ادبی صحافت کی مدد سے کئی جرائم کی تہہ تک پہنچ کر ان کا پردہ فاش کیا جا سکتا ہے۔ مظفر رزمی جیسے عظیم شاعر نے ایک شعر میں ماضی حال اور مستقبل کے سارے ادوار سامنے کھڑے کر کے اپنے شعر کو لازوال بنا دیا۔ ان کا یہ شعر خندہ چشم کے پیچھے کئی سچے اور کڑوے حقائق کا پردہ چاک کرتا ہے۔

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

آج کل ماس میڈیا ادب اور فن کو عوام کے دروازے تک پہنچانے کا کام کر رہا ہے۔ درباروں ، محلوں اور مندروں سے نکال کر اسے شہروں کے گلی کوچوں اور گاؤں اور دور دراز کے علاقوں تک پہنچاتا ہے۔ چاہے وہ سی ڈیز ہوں یا کیسٹ، ٹی وی ہو یا ریڈیو یا فلم۔ ادب اور فن کی اجارہ داری اور اشرافیت ختم ہو رہی ہے۔ جو لوگ انفرادی ذوق اور تخلیقی صلاحیت کی باتیں کرتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ تہذیب، روایت، ادب عالیہ، فنون لطیفہ، لوک کلا اور سنگیت کے زوال کو ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہی روکا جا سکتا ہے۔ ماس میڈیا کو نظر انداز کرنا عام لوگوں کو ادب اور فن سے محروم رکھنا ہے۔ آج ریڈیو، ٹرانسٹر، ٹی وی، سیٹیلائٹ، کیسٹ، سی ڈی، موبائل سینما، آڈیو اور ویڈیو کے ذریعہ غلام علی، مہدی حسن، محمد رفیع، لتا منگیشکر، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، عصمت چغتائی،جاوید اختر، گلزار، منی بیگم، بیگم اختر، بشیر بدر، ندا فاضلی اور بشر نواز جیسے کتنے ہی نام ہیں جو ملک اور دنیا کے طول و عرض تک پہنچ چکے ہیں۔  یہ کلچر کا احیاء ہے۔ پاپولر کلچر نے عام لوگوں کو گمنامی اور جمود سے نکال کر ان کی قوت کو متحرک کیا ہے۔انہیں اپنی پہچان اور انفرادیت عطا کر کے ذاتی اظہار کے مواقع مہیا کئے ہیں۔  آج ادب اور فن خواص کے دائرے سے نکل کر پورے سماج میں داخل ہو کر عام لوگوں کے پاس پہنچ رہے ہیں۔  ہر فنی تخلیق کا سماجی پہلو ہوتا ہے۔ اس تخلیق کا عمل کتنا ہی نجی کیوں نہ ہو جب اس کی نمائش کی جاتی ہے یا کوئی تحریر چھپ کر منظر عام پر آتی ہے۔ موسیقی کی محفل ہو یا تصویروں کی نمائش، کتاب کی اشاعت یا ماس میڈیا کے ذریعہ جو کچھ بھی نشر ہوتا ہے تو وہ فنی تخلیق سماجی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب وہ اپنے دوستوں ، پرستاروں یا سرپرستوں کی محفل سے باہر آتی ہے تو اسے پیش کرنے کے لئے تنظیم، رقم اور اداروں کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔

فنی تخلیق کئی مرتبہ صحافت کا وہ پہلو سامنے لاتی ہے جس کا دنیا کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ جذبات و احساسات کی رگوں میں رچی بسی کہانیاں ، افسانے اور گیت جب سامنے آتے ہیں تو وہ درد و کرب سے لپٹی کسی ایسی خبر کی خبر دے جاتے ہیں جس کے محور پر انسانی ذہن غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس خبر کے سلسلے کہاں جا کر ختم ہوتے ہیں ؟ وہ پریم چند کی کہانیاں ہوں یا غالب کی شاعری، چاہے ایم ایف حسین کی مصوری ہو یا ساحر لدھیانوی کی شاعری کا کرب ان تمام عظیم شخصیات کے تمام ادبی شہ بارے بہترین ادبی صحافت کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور ایک طویل عرصے تک قارئین کے ذہن و دل پر براجمان رہے اور رہیں گے۔

آغا شورش کاشمیری کے خیالات کے مطابق کوئی صحافی اس وقت تک عزت کماسکتا ہے جب تک وہ اپنے قلم کو آزاد رکھتا ہے اور خود کو ایوانوں سے باہر رکھتا ہے اور جب اپنے قلم کو با اثر طبقوں اور اہل اقتدار کے پاس رہن رکھ دیتا ہے اسی دن اس کی صحافتی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔ آج کل ایسے ہی صحافیوں اور صحافت کا دور دورہ ہے۔ لیکن ادبی صحافت اس زمرہ میں بالکل نہیں رکھی جا سکتی۔ اس لئے ہر دور میں عوام و خواص کے ذہن و دل پر نسل در نسل نقش ہو جاتی ہے۔

صحافت اور ادبی صحافت کے نہایت ہی باریک سے فرق کو سمجھنے کے لئے اس امر پر نظر ثانی کرنی ہو گی کہ صحافی کی نظر صرف اور صرف خبر یا اطلاع پر ہوتی ہے جبکہ ادبی صحافت میں خبر یا اطلاع سے متعلق ایک مستحکم نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک عام صحافی اپنی خبریں اور اطلاعات میکانیکی انداز سے پیش کرتا ہے۔ بالکل اسی شعر کے مصداق:

پانی دیکھا نہ زمین دیکھی نہ موسم دیکھا

بے ثمر ہونے کا الزام شجر پر رکھا

جبکہ ادبی صحافی ان اطلاعات کے پس پردہ محرکات کو اپنے جذبات کے ساتھ شعوری طور پر آزادانہ پیش کر کے اپنا نمایاں نقطہ نظر قاری کے مد مقابل رکھتا ہے۔ جس طرح بیل گاڑی کے پہئے بیل کے قدم کے ساتھ چلتے ہیں اسی طرح ایک ادیب کا قلم اپنے جذبات و نظریات کے ساتھ حالات کے ہمراہ چل کر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا راستہ دکھاتا ہے۔ جیسے مولانا آزاد، شبلی نعمانی نے اکثر خیالات کے وقتی موضوعات کو اپنا محور قلم بنایا۔ ترکی پر حملہ، خلافت تحریک پر جو کچھ بھی لکھا کھل کر آزادانہ اپنا موقف بیان کیا۔ صحافت صرف سطحی طور پر عام قاری تک بدلتے حالات کی تصویر پیش کرنا ہے۔ یہاں ہمیں ایک ایسی اصولی بحث پیش کرنا ہے جس میں صحافت کے ساتھ ادبی کا لاحقہ لگا کر بحث کرنا ہے۔

ناول، افسانے، کہانی، تنقیدی مضامین یہ تمام ادبی صحافت کا بہترین نمونہ ہیں۔  ان تمام Creative Arts میں یقیناً عصری سماجی حالات شامل ہوتے ہیں۔  صحافتی ادب ہمیشہ موضوع بحث رہا۔ اس پر طرح طرح کی الزام تراشیاں بھی ہوئیں لیکن ادبی صحافت عوام کے ذہن و دل پر طویل عرصے تک اپنا نقوش ثبت کرنے میں کامیاب رہی۔ کسی ادب پارہ کو ادبی نقطہ نظر کے ساتھ موجودہ حالات کے ساتھ متصل نہ کیا جائے تو وہ صرف ایک معمولی خبر بن کر رہ جاتی ہے۔ جس کی وقعت صرف چند ساعتوں کی ہوتی ہے۔ ادب کی بنیاد حقائق پر مبنی ہوتی ہے اور ہونی ہی چاہئے چاہے وہ کسی بھی دور میں صفحۂ قرطاس پر منظر عام پر آئے اس میں اس دور کے حالات کی جھلک ضروری ہوتی ہے اور ہونی ہی چاہئے۔ کیونکہ صحیح معنوں میں سماجی زندگی سے منسلک ادب ہی ادبی صحافت کہلاتا ہے۔ اگر میں یہاں خلیل جبران کے خیالات کی عکاسی کروں تو غلط نہ ہو گا کہ زندگی ایک ایسی زنجیر ہے جو مختلف کڑیوں پر مشتمل ہے اور ان کڑیوں میں سب سے اہم کڑی رنج وطن ہے جو پیش آمدہ حالات میں تسلیم و رضا کا درس دے کر مستقبل کے لئے امید بن کر خوشحالی کا پیغام دیتی ہے۔ اور ایسے ادب پاروں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔  

تقسیم ہند کا کرب۔ شاعری، ہر موضوع پر شاعری کی گئی۔ کئی رسائل اور سالنامے وجود میں آئے اور لائبریری کی زینت بننے کے ساتھ ذہنی و دل کے نہاں خانوں میں بھی جگہ حاصل کر گئے۔ فسادات کے پس پردہ داستانیں ، فلمیں ، ناول، افسانے وجود میں آئے۔ حسن و عشق اور محبت کی کہانیوں کے پیچھے گھناؤنی سیاست کا چہرہ سامنے آیا۔ روٹی کپڑا مکان جیسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سیاست کا شکار ہونے مجبور لوگوں کے آنسو کئی ناولوں اور افسانوں سے ٹپکنے لگے۔ دوران الیکشن کی گئی دھاندلیوں سے جنمی کہانیوں نے کھوکھلے اقتدار کا پردہ فاش کیا۔

فرانس کا انقلاب، چین کا انقلاب، روس کی تقسیم، امریکہ کے حالات یا پھر صنعتی انقلاب یا سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات ان سارے حالات و موضوعات صحافت کی شہہ سرخیوں سے نکل کر ادبی صحافت کے وسیع کینوس پر شعر و نثر کا روپ لے کر جب بکھر گئے تو لافانی مقام حاصل کر گئے اور کئی نسلوں میں اپنی سچائی و صداقت کو منتقل کر گئے۔ جن کی بدولت عوام کی ذہنی تغیرات سامنے آئیں اور ترقی کے دروازے بھی کشادہ ہوئے کیونکہ یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آرٹ خود ترقی نہیں کرتا بلکہ ذہن کو تبدیل کرتا ہے۔ اور ادبی صحافت اس کی زندہ مثال ہے۔ کوئی بھی اطلاع صرف سچ کا ایک پہلو سامنے رکھتی ہے۔ اس کے صرف پس پردہ امکانات، حالات اور محرکات کو مد نظر نہیں رکھتی۔ جبکہ کسی ادیب کی نظر سے اسی اطلاع کو اگر دیکھیں تو ایک ناول یا افسانہ بن کر لوگوں کے ذہنوں پر سالوں سال چھا جائے گی اور جو دیرپا اثر کریں وہی الفاظ تو سچے صدف ہوتے ہیں۔  جن کی تابناکی میں لاکھوں کروڑوں لوگ اپنا راستہ تلاش کرتے ہوئے تاریکی سے روشنی میں آتے ہیں۔  

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے