سفر عشق۔۔۔ طارق محمود مرزا… قسط۔ ۳

کچھ بد مزاج لوگ

___________________

 

ریاض الجنۃ میں اشراق کی ادائیگی کے بعد ایک صبح ہم مسجد سے ملحق مقامی مارکیٹ میں چلے گئے۔ یہ مارکیٹ مسجد کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اتوار بازار کی طرز پر اس مارکیٹ کے اندر چھوٹی چھوٹی بہت سی دکانیں ہیں۔ جن میں زائرین کی دلچسپی اور ضرورت کی بہت سی اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ ان میں جائے نمازیں، مصلے، چھوٹے چھوٹے قالین، مسواکیں، کھجوریں، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی فریم شدہ تصاویر، تسبیحیں، چپلیں، احرام، خواتین اور بچوں کے ملبوسات، عربی لباس، ٹوپیاں، قہوے کے برتن، تھرماس، ریشمی اور سوتی بڑے رو مال اور ایسی ہی دوسری چیزیں بکتی ہیں۔ اکثر دکانوں کی دکاندار مقامی خواتین ہیں۔ یہ انتہائی تند خو اور بد مزاج واقع ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی شہروں کے برعکس یہاں کسی شے پر اس کے نرخ درج نہیں ہوتے۔ لہٰذا ہم نے ایک خاتون دکاندار سے جائے نماز کی قیمت دریافت کی۔ اس کا شکریہ ادا کر کے جانے لگے تو وہ چلانے لگی۔ وہ عربی میں ہمیں برا بھلا کہہ رہی تھی۔ پوری بات تو سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن اسے ہمارا نرخ پوچھنے کے بعد کچھ نہ خریدنا برا لگا تھا۔ اس لیے وہ اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھی۔ ہماری شلوار قمیض ہمارے پاکستانی ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ لہٰذا وہ (کل پاکستانی خربان) کہہ کر تمام پاکستانیوں کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ ہم نے اسے کیا جواب دینا تھا بس مسکرا کر چل دیے۔

سعودی لوگوں کی بد مزاجی کے جواب میں دنیا بھر کے زائرین یہی کرتے ہیں۔ کوئی اُن سے نہیں الجھتا ہے۔ کوئی ان کی بد مزاجی کا جواب نہیں دیتا۔ بلکہ لوگ اللہ اکبر کہہ کر آگے چل دیتے ہیں۔ حجاز مقدس میں جانے والے زائرین کے دل انتہائی نرم اور خدا خوفی سے معمور ہوتے ہیں۔ وہ ایسی باتوں کا برا نہیں مانتے۔ بلکہ ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ایک تو وہ اللہ کے خوف اور اپنے مقدس سفر کو مقدس کاموں میں صرف کرنے کی وجہ سے ان زیادتیوں کا جواب نہیں دیتے۔ دوسرا انہیں اس سسٹم میں اپنی شنوائی کی امید بھی نہیں ہوتی ہے۔ ورنہ کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی سیاح کے ساتھ ایسی زیادتی کو کبھی برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ ان حرکات سے سعودی شہریوں اور وہاں کے نظام کے بارے میں دنیا بھر میں کیا تاثر جاتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ بے شمار ملکوں کے لاکھوں زائرین ہر سال سعودی عرب جاتے ہیں۔ وہ وہاں ہفتوں قیام کرتے ہیں اور اپنی خون پسینے کی کمائی وہاں خرچ کرتے ہیں۔ جس سے سعودی عرب کو بڑی تعداد میں زر مبادلہ گھر بیٹھے مل جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کی تجارت اور خدمات کے عوض بے انتہا آمدنی ہوتی ہے۔ ہوٹل، ریستوران، دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ والے سبھی ان سے کماتے ہیں۔ یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ سعودی عرب میں عموماً اور مکہ مدینہ میں خصوصاً لوگوں کا روزگار چلتا رہتا ہے۔ اس کے بدلے میں مقامی لوگ اور سعودی حکومت ان زائرین کو عزت، سہولت اور ہر قسم کی حفاظت مہیا کرے تو مقامی لوگوں اور حکومت کا اچھا تاثر پوری دنیا میں پھیل جائے۔ وہ لوگ جو وہاں کی بد انتظامی کی وجہ سے نہیں آتے وہ بھی آئیں گے۔ جس طرح لوگ متحدہ عرب امارات میں جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین اور اس کے باشندوں کو حرمین شریفین کی صورت میں اتنا بڑا تحفہ دیا ہے۔ انہیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور خود کو اس کی میزبانی کا اہل ثابت کرنا چاہیے۔

حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کے باوجود حج کے پورے عمل کا مکمل اور غلطیوں سے مبرّا انتظام نہیں ہے۔ اس لیے ہر سال بہت سے لوگ وہاں جا کر بھی حج کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ درجنوں بد انتظامی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ 2015میں رمی کے دوران 700 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔

سب سے زیادہ افسوس مقامی شہریوں کے رویے پر ہوتا ہے۔ وہ انتہائی بدمزاج اور بد اخلاق واقع ہوئے ہیں۔ اس کا تجربہ آپ کو قدم قدم پر ہو گا۔ سب سے زیادہ بد مزاجی کا مظاہرہ وہ غیرملکیوں کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ خدا جانے کیا وجہ ہے ان کی بد مزاجی کی۔ وہ اپنے ملک میں آنے والے مہمانوں کی عزت کیوں نہیں کرتے۔ ان کو روزگار اور ان کے ملک کو زر مبادلہ پہچانے والے غیرملکی زائرین کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے مبرّا کیوں سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو اپنے سے کم تر کیوں سمجھتے ہیں۔

حالانکہ قرآن اور حدیث عربی زبان میں ہیں۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ انہیں میں مبعوث ہوئے تھے۔ نبی کریمﷺ کے اخلاق کی دنیا مثالیں دیتی ہے۔ صحابہ کرامؓ حسن اخلاق کا نمونہ تھے۔ اسی حسنِ اخلاق کی وجہ سے اسلام پھیلا۔ اُس وقت کے مسلمان جہاں بھی جاتے تھے اپنے اعلیٰ اخلاق اور حسن سلوک سے لوگوں کا دل جیتتے تھے۔ اُنہوں نے بزور شمشیر اسلام نہیں پھیلایا تھا۔ محمدبن قاسم، طارق بن زیاد، خالد بن ولید اور دوسرے فاتحین اسلام کو مقامی لوگ اپنا دیوتا مانتے تھے۔ محمد بن قاسم کے بت بنا کر ہندؤں نے گھروں میں سجا دیے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث حسن اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ لوگ نماز روزے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی زندگیوں پر اس کے اثرات کیوں مرتب نہیں ہوتے۔ ممکن ہے اچانک دولت آنے سے ان کے ذہن و دل میں ایسی رعونت آ گئی ہو یا پھر مقامی اور غیر مقامی لوگوں میں جو قانوناً فرق رکھا گیا ہے اس کے بھی اثرات ہوتے ہوں گے۔ تعصب کی روک تھام کے لیے مناسب قانون کی عدم موجودگی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔

نجی محفلوں میں احباب کے ساتھ اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو اکثریت میری ہم خیال ہوتی ہے۔ لیکن کچھ دوستوں کو اختلاف بھی ہے۔ خصوصاً پاکستان میں رہنے والے کچھ دوست ان انتظامات سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر طرف بد انتظامی کا دور دورہ ہے۔ صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان سے جا کران احباب کو سعودی عرب کے انتظامات اور قانون پر عمل درآمد بہتر محسوس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کے معاملے میں سعودی عرب بہت سے ممالک سے بہتر ہے۔ حرمین شریفین کے اندر کے انتظامات کافی بہتر ہیں۔ لیکن پورے حج اور شہر کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔

موجودہ دور کی ٹیکنالوجی، رسل ورسائل کے ذرائع اور آمدورفت کے وسائل کو مد نظر رکھا جائے تو ان انتظامات کو بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ تردّد کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صرف انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میں تین مثالیں دینا چاہوں گا۔

(الف) مکہ اور مدینہ میں دکاندار کیمسٹ، حجام، ٹیکسی ڈرائیور، دھوبی اور ریستورانوں والے منہ مانگی قیمت اور معاوضہ لیتے ہیں۔ ہر دُکان کا نرخ دوسری دکان سے الگ ہے۔ ہر ٹیکسی ڈرائیور کا اپنا کرایہ ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی کی قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل نہایت آسان ہے۔ صرف ایک حکم نامے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

(ب) دوران حج لوگوں کو جو پانی ملتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بوتلیں اور کچرا پھینکنے کے لیے مکہ مدینہ، عزیزیہ، منیٰ، عرفات اور جمرات کہیں بھی بن دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا لوگ یہ بوتلیں سٹرک اور فٹ پاتھ پر پھینکنے پر مجبور ہیں۔ اگر حکومت کچرے کے ڈبے نہیں رکھ سکتی خالی بیگ تو آسانی سے رکھ سکتی ہے۔ اس میں کیا مشکل ہے؟

(ج) مکہ اور مدینہ کی سڑکیں دورانِ حج پارکنگ کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ٹریفک اتنی زیادہ اور اس قدر بے قابو ہوتی ہے کہ ہم نے دس کلومیٹر کا فاصلہ چار گھنٹے میں طے کیا۔ کیا مکہ اور مدینہ میں لندن، پیرس، ٹوکیو اور سنگاپور کی طرح تیز ٹرینیں نہیں چلائی جا سکتیں۔ جہاں ٹنوں سونے کے کلاک نصب کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنائی جا سکتی ہیں وہاں ٹرین ٹریک بنانا کیا مشکل ہے؟

یہ صرف تین مثالیں ہیں۔ ایسے کئی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جو آسان بھی ہیں اور فائدہ مند بھی۔ یہ اقدامات مستقبل میں نہ صرف زائرین بلکہ مقامی لوگوں کے بھی کام آ سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری حکومت اور عام لوگوں کا رویّہ تبدیل کرنا ہے۔ ملک میں ایسا محفوظ ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں غیر ملکی کارندے اور زائرین اپنے آپ کو ہر قسم کے تعصب، زیادتی، بد اخلاقی اور بے قانونی سے محفوظ اور اچھے اور خوشگوار ماحول میں محسوس کریں۔ جیسا ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔

 

مسجد نبویؐ کی عظمت

___________________

 

میں نے مکہ اور مدینہ میں قیام کے دوران میں محسوس کیا کہ مدینہ میں مسجد نبویؐ اور مکہ میں خانہ کعبہ آپ کو مسحور کر لیتے ہیں۔ جتنا وقت وہاں گزرتا رہتا ہے آپ کو اللہ کے ان دو گھروں سے محبت ہوتی جاتی ہے۔ میں مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ مدینہ میں رہ کر مسجد نبویؐ سے دور رہنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ یہ مسجد ہر دم آپ کو اپنے پاس بلاتی رہتی ہے۔ جتنی دیر اس سے دور رہو ایک خلش سی لگی رہتی ہے۔ جونہی اس کی چاردیواری میں قدم رکھو دل میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں روزانہ بہت وقت اس مسجد کو دیکھنے میں صرف کرتا تھا۔ اندر سے، باہر سے، قریب سے، دُور سے، ہر زاویے سے دیکھتا تھا۔ یہ ہر زاویے سے ہی حسین و جمیل نظر آتی تھی۔ خوبصورت، دلنشین، مرصع، مسجع، آرام دہ، وسیع و عریض، کھلی، ہوادار، ہر دم ٹھنڈک اور نرمی کا احساس دلاتی ہوئی۔ اس کی دیواریں، اس کی چھت، اس کے ستون، اس کا فرش تو خوبصورت ہے ہی اس کا صحن بھی انتہائی صاف ستھرا، ٹھنڈا ٹھنڈا، کھلا کھلا، ہوادار بلکہ خوشبودار محسوس ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کی بڑی بڑی چھتریوں کے کھلنے اور بند ہونے کا منظر بھولتا ہی نہیں ہے۔

مسجد نبوی کی جگہ خود رسول پاکﷺ نے منتخب کی تھی۔ اس کی تعمیر میں بھی اپنے دست مبارک سے حصہ لیا تھا۔ اس وقت یہ گھاس پھونس کا ایک چھپر تھی۔ جو آج کل دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ جگہ دو یتیم بھائیوں کی تھی۔ جو اِسے بلا معاوضہ مسجد کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔ لیکن حضور پاکﷺ نے اصرار کر کے اس کی پوری قیمت ادا کی۔ اس وقت مختصر سی مسجد تعمیر ہوئی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ پہلا اضافہ نبی پاکﷺ کی زندگی میں ہوا۔ بعد میں خلفائے راشدین نے ارد گرد کے علاقے کو خرید کر مسجد میں اضافہ کیا۔ حضرت عثمانؓ نے مسجد کے آگے ایک برآمدے کا اضافہ کیا۔ 707ء میں ولید بن مالک کے دور میں چاروں کناروں پر مینار بنائے گئے اور دروازوں اور چھت پر سونے کی ملمع کاری کی گئی۔ 1481ء میں مصری دور حکومت میں مسجد کو آگ لگ گئی اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی جو 380 سال تک چلتی رہی۔

1861 ء میں عثمانی ترکوں نے مسجد کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور جس جذبے اور جس محبت سے تعمیر کیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ مگر عثمانی دور میں مسجد نبویؐ کی تعمیر، تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے۔ ترکوں نے جب مسجد نبویؐ کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع و عریض سلطنت میں اعلان کیا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ہیں۔ اعلان کی دیر تھی کہ فنِ تعمیر کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطرافِ عالم سے آئے ہوئے ماہرین فنون کو الگ الگ محلوں میں ٹھہرایا گیا۔ اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ہوا جس کی نظیر مشکل ہے۔ خلیفہ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا شہر میں آیا اور ہر شعبہ کے ماہر کو تاکید کی کہ وہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ اسے یکتا اور بے مثال کر دے۔ اس دوران ترک حکومت اس بچے کی ذمہ داری اٹھائے گی۔ اسے حافظِ قرآن اور شہسوار بنائے گی۔

دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب وغریب منصوبہ کئی سال جاری رہا۔ پچیس سال بعد نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا۔ یہ لگ بھگ پانچ سو لوگ تھے۔ اس دوران ترکوں نے پتھروں کی کانیں دریافت کیں۔ جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں۔ تختے حاصل کیے گئے اور شیشے کا سامان باہم پہنچایا گیا۔ یہ سارا سامان نبی آخر زمانﷺ کے شہر میں پہنچایا گیا تو احترام کا یہ عالم تھا کہ مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ہو۔ اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تو مسجد کے احترام کی وجہ سے یہ پتھر واپس بستی میں پہنچایا جاتا۔ ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران با وضو رہے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ حجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد و غبار اندر روضہ مبارک تک نہ پہنچ پائے۔ یہ کام پندرہ سال تک چلتا رہا۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ ایسی محبت اور عقیدت سے کوئی تعمیر نہ پہلے کبھی ہوئی ہے اور نہ کبھی بعد میں ہو گی۔ اس تعمیر میں پہلی دفعہ سنگ مرمر کا استعمال ہوا۔ اس تعمیر کو عمارت مجیدیہ بھی کہتے ہیں جو آج بھی پوری شان و شوکت سے قائم ہے۔

1952 میں مسجد کی مزید توسیع ہوئی اور پہلی بار کنکریٹ استعمال ہوئی۔ مسجد نبوی کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع جسے ہم آج دیکھتے ہیں شاہ فہد کے دور میں 1984-94 کے دوران ہوئی۔ اس وقت مسجد کے اندر تہہ خانے اور چھت کو ملا کر سات لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے اور مسجد کی چھت کے اوپر مزید نمازیوں کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ اس دیدہ زیب مسجد کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔

وقتِ جدائی

___________________

 

جوں جوں دن گزر رہے تھے توں توں مدینے کی فضاؤں سے جدائی کا خیال ستا رہا تھا۔ ان مقدس فضاؤں، ان مہکتی ہواؤں سے بچھڑنے کے تصور سے ہی دل میں ملال بھر آتا تھا۔ پھر نہ جانے کب ان گلیوں میں آنا نصیب ہو۔ زندگی میں دوبارہ یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ یہ سبز گنبد، ان پر اُڑتے اور بیٹھتے کبوتر، یہ خوبصورت مسجد، میرے پیارے نبیﷺ کی آخری آرام گاہ، ان کا منبر، مسجد نبویؐ کے صحن میں کھلنے اور بند ہونے والی خوبصورت چھتریاں، اس کا ٹھنڈا اور ساف ستھرا فرش، اس کے خوبصورت در و دیوار، اس میں بسی ہمارے پیارے نبیﷺ کی یادیں اور صحابہؓ کی یادوں کی خوشبوئیں، یہ سب کچھ دامن کو پکڑ لیتی تھیں۔ دل یہی چاہتا تھا کہ اس مسجد اور اس روضے کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتے رہیں۔

اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں

اپنا سب کچھ گنبد خضریٰ کل بھی تھا اور آج بھی ہے (صبیح رحمانی)

د وسری جانب حج اور مکہ کی فضائیں بھی صدائیں دے رہی تھیں۔ لبیک اللہمّ لبیک کی آوازیں کانوں میں گونجتی رہتی تھیں۔ وہ خانہ کعبہ جو ہمارا محور و مرکز ہے بلاتا رہتا تھا۔ صدیوں سے قائم یہ چھوٹا ساگھر خالق حقیقی کے قرب کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ ہمارا قبلہ و کعبہ ہے۔ یہ ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ اسے دیکھنے کو جی مچلتا تھا۔

تیسری طرف ہمارے رہنما اور ہمارے معلمین آنے والے سخت دنوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ عصر کے بعد تربیتی سیشن جاری تھا۔ سفر اور انتظامی امور کی بریفنگ دی جاتی تھی۔ دینی امور کی بریفنگ کے لیے ہمارے ساتھ کینبرا کی مرکزی مسجد کے امام کویتی تھے۔ وہ بہت موثر انداز میں حج اور اس کے ارکان کی تشریح کرتے رہتے تھے۔

 

اہتمامِ ملن

___________________

 

میرا پھوپھی زاد بھائی کا بیٹا جو عمر میں مجھ سے تھوڑا ہی چھوٹا ہے اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان سے حج کے لیے آیا ہوا تھا۔ اس کی بیوی بھی میرے دوسرے کزن کی بیٹی ہے۔ یوں رشتے میں یہ دونوں میرے بھتیجا اور بھتیجی ہیں۔ لیکن رشتہ داری سے بڑھ کر ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ ہے۔ وہ پہلے مکہ مکرمہ میں رہے اور ان دنوں مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ کوشش کے باوجود ہمارے درمیان رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ پاکستان سے روانہ ہونے سے پہلے جو نمبر اس نے مجھے دیا تھا وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ اس طرح پانچ چھ دن گزر گئے۔ ایک دن نماز فجر کے بعد میں ریاض الجنۃ میں بیٹھا اشراق کے وقت کا انتظار کر رہا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی۔ مجھے یوں لگا کہ میری بھتیجی صفیہ نے مجھے آواز دی ہے۔ فوراً میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے بائیں طرف دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہاں مرد ہی مرد تھے۔ اس وقت خواتین وہاں نہیں آ سکتی تھیں۔ میں جب ہوٹل واپس آیا تو اہلیہ سے کہا ’’آج اے ڈی اور صفیہ سے ملاقات ہو جائے گی‘‘

اس نے کہا ’’آپ کو ان کی کوئی خبر ملی ہے‘‘

’’ہاں‘‘ میں نے مختصر جواب دیا

اسی رات ہی عشاء کے بعد ریاض الجنۃ میں میری اہلیہ کی صفیہ سے ملاقات ہو گئی۔ صفیہ نے فون کر کے اپنے خاوند کو بھی بلا لیا۔ وہ تینوں ہمارے کمرے میں آ گئے۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس رات ہم ایک پل کے لیے بھی نہیں سوئے۔ بلکہ صبح تک باتیں کرتے رہے۔ ہم پانچ برس سے پاکستان نہیں گئے تھے۔ لہٰذا ان میاں بیوی سے برادری کے تازہ ترین حالات جاننے کا موقع ملا۔

ویسے بھی میرا یہ بھتیجا اے ڈی مرزا جہاں موجود ہوتا ہے وہاں موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ اس کی باتیں، اس کے قہقہے ہر دم محفل گرماتے رہتے ہیں۔ اس رات ہمارے کمرے میں یہ بزم سجی۔

صبح تہجد کے وقت ہم چاروں اکھٹے مسجدِ نبویؐ گئے۔ وہ میاں بیوی اسی دن واپس مکہ روانہ ہو گئے۔ حج کے بعد مکہ مکرمہ میں بھی ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ بھی اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ ورنہ لاکھوں کے مجمع میں کسی اپنے کا اس طرح مل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ سچ ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

مدینے میں آخری دن

___________________

 

اگلے دن جمعۃ المبارک تھا۔ یہ مدینہ منورہ میں ہمارا دوسرا جمعہ تھا۔ گرمی حسب معمول عروج پر تھی۔ عین دوپہر کے وقت جب ہم مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو مسجد کا طول و عرض نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں خالی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ حالانکہ وسیع وعریض صحن میں بھی دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لیکن وہاں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں عموماً مسجد کے اندر جا کر نماز ادا کرتا تھا۔ لہٰذا جتنا آگے بڑھ سکتا تھا بڑھتا چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ سیڑھیوں کے ذریعے چھت پر جا رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اُوپر چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا۔ میں نے جوتے اتارے ہوئے تھے۔ ننگے فرش پر پاؤں رکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ خیال تھا کہ اتنی تیز دھوپ میں یہ ٹائلیں آگ کی طرح تپ رہی ہوں گی۔ ادھر کئی لوگ مزے سے اس فرش پر چل رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ انہیں یہ تپش کیوں محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ تجربے کے لیے میں نے کنکریٹ کے فرش پر ننگا پاؤں رکھا تو حیران رہ گیا۔ فرش بالکل گرم نہیں تھا۔ میں اطمینان سے چلتا ہوا اس حصے میں پہنچ گیا جہاں نمازیوں کے لیے چٹائیاں بچھی تھیں۔

در اصل مسجد نبوی کے چھت اور صحن کا فرش اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ گرم نہیں ہوتا بلکہ ٹھنڈا رہتا ہے چاہے و ہاں تیز دھوپ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ انجینئرنگ کا کمال تھا۔ اس کی وجہ سے مسجد کے اندر، اس کے صحن اور حتیٰ کہ اس کی چھت پر بھی ٹھنڈی اور خوشگوار فضا برقرار رہتی ہے۔ جونہی مسجد کے گیٹ سے باہر قدم رکھیں منظر یکدم بدل جاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں بلند و بالا اور دیو قامت چھتریاں نہ صرف دھوپ سے بچاتی ہیں بلکہ سخت گرمی میں پانی کی ہلکی پھوار بھی پھینکتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے صحن میں ایک خوشگوار اور ٹھنڈا ماحول برقرار رہتا ہے۔ جس سے روحانی کے ساتھ ساتھ جسمانی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔

نماز عصر کے بعد ہم مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ نماز عصر سے پہلے ہمارا سامان بسوں پر لاد دیا گیا۔ ہم کم سے کم اشیائے ضرورت پر مشتمل بیگ کے ساتھ نماز عصر کے لیے مسجد نبویؐ روانہ ہو گئے۔ پچھلے کئی دنوں قافلوں کے قافلے مکہ کی جانب روانہ ہو رہے تھے۔ اب حج میں صرف دو دن رہ گئے تھے۔

یوں تو میقات مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر ذوالحلیفہ نامی مقام پر واقع ہے۔ لیکن ہم نے اپنے معلم کی ہدایت کے مطابق عصر سے پہلے مدینہ میں ہی احرام باندھ لیے تھے۔ میقات، مکہ مکرمہ کے مختلف اطراف میں وہ مقامات ہیں جہاں سے عازمینِ حج احرام باندھ کر ہی آگے جاتے ہیں۔ جس راستے سے ہم مکہ مکرمہ کی طرف جا رہے تھے وہاں میقات مکہ مکرمہ سے بہت پہلے اور مدینہ منورہ کے قریب ہی واقع ہے۔ مکہ مکرمہ سے سب سے قریبی میقات مسجد عائشہؓ کے مقام پر ہے۔ یہ جگہ مکہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ میں مقیم عازِمین حج جب حج کی نیت کرتے ہیں تو مسجدِ عائشہؓ کے اندر جا کر احرام باندھتے ہیں اور پھر مکہ کا رخ کرتے ہیں۔ ذو الحلیفہ جو ہمارے راستے میں میقات ہے وہ مدینہ منورہ سے 9 کلومیٹر دور اور مکہ مکرمہ سے 450 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

آج مسجد بھی اداس نظر آ رہی تھی اور گنبد خضریٰ بھی خاموش خاموش لگ رہا تھا۔ شفیق آنکھوں میں مسکراہٹ کی جگہ اداسی چھائی ہوئی تھی۔ نمازی بھی رو بوٹ کی طرح بے جان لگ رہے تھے۔۔ حتیٰ کہ گنبد خضریٰ کے اوپر بیٹھے کبوتر بھی اداس اور چپ چپ تھے۔ اس مسجد، اس گنبد اور ان در و دیوار سے بچھڑنے کے خیال سے دل میں درد سا اٹھتا تھا۔ حج کے دنوں میں یہ مسجد کتنی خالی خالی ہو گی۔ صرف مقامی لوگ ہوں گے اور بس۔

مسجد نبویﷺ میں آخری نماز پڑھ کر مسجد اور گنبد خضریٰ پر الوداعی نظریں ڈالیں تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ درود وسلام پڑھتا ہوا واپس چلا تو قدم من من کے ہو رہے تھے۔ بڑی مشکل سے بس تک پہنچا تو دیکھا کہ ہمارے ساتھی بس میں سوار ہو چکے تھے۔ ہم نے بھی اپنی سیٹیں سنبھالیں اور لمبے سفر کے لیے تیار ہو گئے۔

آج میں نے پہلی دفعہ احرام باندھا تھا۔ اِسے سنبھالنے میں کافی دقّت پیش آ رہی تھی۔ دو تولیہ نما بڑی بڑی چادروں کو باندھنا اور لپیٹنا شروع میں کافی مشکل لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی عادت ہو گئی۔ سخت گرمی میں اُوپر کی چادر کھول کر یہ زیادہ ہوادار محسوس ہوتا ہے۔ تاہم مسلسل کئی دن پہننے کی وجہ سے یہ بہت میلا ہو جاتا ہے۔ لیکن حج کی شرائط کے مطابق اسے اُتارا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ ایک سے زائد احرام خرید لیتے ہیں اور بدل بدل کر پہنتے رہتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر حاجی ایک ہی احرام باندھے رہتے ہیں اور سنت بھی یہی ہے۔ کیونکہ رسول پاکﷺ نے دوران حج ایک ہی احرام استعمال کیا تھا۔ حاجیوں کے لباس اور جسم کی میل اور بدبو بھی اللہ کو عزیز ہے۔ رسول پاکﷺ اور صحابہؓ نے احرام بدلنے یا دھونے کی زحمت نہیں کی تھی۔ حالانکہ اس کی ممانعت نہیں ہے۔ حج کی روح کے مطابق حاجی گرد و غبار اور پسینے کو برداشت کرتے تھے۔ تاہم آج کل کے انتظامات میں گرمی اور گرد و غبار کا اتنا سامنا نہیں کرنا پڑتا جتنا ماضی میں ہوتا ہو گا۔

ہم مسجد ذوالخلیفہ جا کر رکے تو وہاں پہلے سے بہت سی بسیں رُکی ہوئی تھیں۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ میں نے وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر حج قران کی نیت کی تھی۔ اس طریقہ حج میں حج اور عمرہ یکجا ہو جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر عمرہ وحج کا احرام ایک ساتھ باندھا جاتا ہے۔ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھولا نہیں جاتا۔ بلکہ فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد ہی کھولا جاتا ہے۔

 

مدینہ سے مکہ کا سفر

___________________

 

مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک تقریباً 400 کلو میٹر سے بھی لمبا سفر ہے۔ یہ آسان سفر نہیں ہے۔ حج کے دنوں میں سڑکیں مصروف ہو جاتی ہیں اور ٹریفک اتنی رواں نہیں ہوتی۔ اس لیے بس پوری رفتار سے نہیں چل پاتی۔ سڑک کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعۂ سفر بھی نہیں ہے۔ ہوائی راستے سے بھی جدہ تک ہی جا سکتے ہیں۔ جدہ سے پھر زمینی سفر کرنا پڑتا ہے۔ سنا ہے سعودی حکومت اب مکہ اور مدینہ کے درمیان ریلوے لائن بچھا رہی ہے۔ معلوم نہیں اتنے وسائل ہونے کے باوجود یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور دوسرے بہت سے ممالک میں پہاڑ کاٹ کاٹ کر ٹرین لائنیں بنائی گئی ہیں۔ بعض جگہوں پر شہروں کے نیچے بلکہ سمندروں کے نیچے سرنگیں بنا کر بھی ریل لائن بچھا دی گئی ہے۔ لندن اور پیرس میں یہ کام سو سال سے پہلے کر لیا گیا تھا۔ کاش کہ کوئی مسلمان ملک بھی اس طرف توجہ دے دیتا۔

ذو الحلیفہ سے روانہ ہوئے تو عازمین نے بآواز بلند لبیک اللھم لبیک، لبیک لاشریک لکَ لبیک ان الحمدہ والنعمتہ ولملک ولاشریک لکَ پڑھنا شروع کر دیا۔ سارے راستے یہ مسحور کن کلمات گونجتے رہے۔ بلکہ اگلے کئی روز یہ ولولہ انگیز صدا ہر جانب سنائی دی۔ ان کلمات نے جیسے ہمارے دلوں میں برقی رو سے دوڑا دی تھی۔ ہم سب ایک ہی منزل، ایک ہی مرکز اور ایک ہی گھر میں حاضری کے لیے یکجا ہو رہے تھے اور پکار پکار کر اپنے آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ یہ قافلہ اہلِ ایمان کا قافلہ تھا جو اللہ کے گھر حاضری سے اپنے دلوں کو گرمانے جا رہا تھا۔ یہ ایمان کی روشنی تھی جس کی کرنیں ہر سو پھوٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس روشنی کا مرکز وہیں تھا جہاں یہ قافلے چلے جا رہے تھے۔ اس مرکزیت نے ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا تھا۔ ہم ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے، ایک ہی رنگ میں رنگ رنگے ہوئے اور ایک ہی کلمہ ادا کرتے جا رہے تھے۔ سب ایک ہی سرکار کے گدا تھے، ایک ہی در کے فقیر تھے، ایک ہی در پر سجدہ کرنے والے تھے اور اِسی در کی طرف جا رہے تھے۔ ہماری نظریں کعبہ پر لگی تھیں۔ زبانوں پر تلبیہ جاری تھا اور جبینوں میں سجدے تڑپ رہے تھے۔

ایک دو جگہ رک کر ہمیں کھانے اور عشاء کی نماز پڑھنے کا موقع دیا گیا۔ ہماری بس کا ایئر کنڈیشنر صحیح کام نہیں کر رہا تھا جس سے بس میں بہت گرمی تھی۔ یہ پرانی بس تھی۔ اس کی سیٹیں تنگ اور بے آرام تھیں۔ اے سی چل تو رہا تھا لیکن ٹھنڈا نہیں کر رہا تھا۔ کھڑکیاں کھولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ باہر اس سے بھی زیادہ گرمی تھی۔ اس گرم اور کثیف ماحول میں میری اہلیہ اور دوسری کئی خواتین کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہوں نے قے کرنا شروع کر دی۔ شکر ہے ساتھیوں میں سے کسی نے برا نہیں مانا۔ بلکہ خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتی رہیں۔ اس بس کو دیکھ کر مجھے زمانہ طالب علمی کی وہ بس یاد آ گئی جس پر بیٹھ کر ہم کالج جاتے تھے۔ اس بس کا انجر پنجر ہلا ہوا تھا۔ چلتی تھی تو میلوں دور تک اس کی کھڑکھڑاہٹ اور چرچراہٹ سنائی دیتی تھی۔ اس کا کوئی بھی پرزہ دُرست نہیں تھا۔ دروازہ یا سیٹ کچھ بھی اپنی جگہ پر نہیں تھا۔ اس بس میں ڈرائیور کے سامنے ایک شعر لکھا ہوتا تھا۔

انجن کی خوبی ہے نہ ڈرائیور کا کمال

اللہ کے سہارے چلی جا رہی ہے

اگر کبھی جاگنے اور کبھی سونے کو سونا کہتے ہیں تو میرا زیادہ تر سفر سوتے ہی گزرا۔ میں آس پاس بیٹھے ہوئے ساتھیوں کی باتیں بھی سن رہا تھا اور ایئر کنڈیشنر کی تھکی تھکی گھوں گھوں بھی۔ اہلیہ کو بھی سنبھال رہا تھا اور ساتھ ساتھ آنکھیں موند کر سو بھی رہا تھا۔ ایک تو بس اور جہاز والے سیٹوں کے آگے اتنی کم جگہ چھوڑتے ہیں کہ میرے جیسے بھاری تن و توش کے مالک اور چھ فٹ قد والے شخص کے گھٹنے بالکل جڑ کر رہ جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں وقتاً فوقتاً اٹھ کر ٹہلنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ بس میں یہ بھی ممکن نہیں۔ مجھے ایسالگ رہا تھا کہ جب بس رکے گی تومیں اپنی ٹانگوں کو سیدھا نہیں کر سکوں گا۔ شاید یہی سوچ دوسرے مسافروں کی بھی ہو گی۔ کیونکہ ان میں اکثر میری ہی جسامت کے تھے۔ بلکہ کئی مجھ سے بھی بڑے تن و توش کے مالک تھے۔

یہ اچھی بات ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا اور ہر سفر کا کوئی نہ کوئی انجام ضرور ہوتا ہے۔ یہ مشکل سفر اور مشکل وقت گزر گیا۔ بالآخر صبح تین بجے کے لگ بھگ ہم عزیزیہ پہنچ گئے جہاں حج پر روانگی سے قبل اور بعد میں ٹھہرنے کے لیے ہمارا ہوٹل واقع تھا۔

میں نے سکون کا سانس لیا۔ بس کے لمبے اور تھکا دینے والے سفر نے سب کو ہلکان کر دیا تھا۔ اہلیہ کی طبیعت کی خرابی نے نہ صرف ہمارا سفر دشوار کر دیا تھا بلکہ پریشانی پیدا کر دی تھی کہ آگے چل کر کیا ہو گا۔ یہ تو صرف آغاز تھا۔ آگے چل کر اس سے بھی زیادہ مشکل مقام آنے تھے۔ رش گرمی، بے آرامی اور بھوک پیاس سب کچھ برداشت کرنا تھا۔ یہ سب ہم سے ہو پائے گا یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

 

مکہ آمد اور عمرہ

___________________

 

مکہ اور مدینہ کے مقابلے میں عزیزیہ کا یہ ہوٹل درمیانہ سا تھا۔ لیکن پھر بھی صاف ستھرا اور بنیادی سہولتوں سے آراستہ تھا۔ یہاں ہمیں الگ کمرہ بھی نہیں ملا۔ بلکہ چار لوگوں کو ایک کمرے میں اور ان کے ساتھ کی چار خواتین کو ملحقہ کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ رات بھر کے جاگے اور تھکے ہوئے جسموں کو بستر اور ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک ملی تو سکون آ گیا۔ لیکن سونے کے لیے ہمارے پاس دو تین گھنٹے ہی تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صبح سات بجے ہم عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہو رہے تھے۔

منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور جمرات وغیرہ عزیزیہ کے قریب ہیں۔ اس لیے حج سے پہلے اور حج کے بعد اکثر حاجیوں کو عزیزیہ میں ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ منتظمین کی کوشش ہوتی ہے کہ حاجیوں کا زیادہ وقت اسی علاقے میں گزر جائے۔ تاکہ انہیں مکہ میں خانہ کعبہ کے گرد و نواح والے مہنگے ہوٹلوں کا کرایہ کم سے کم ادا کرنا پڑے۔

اگلے دن حج کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اور ہم منیٰ کے کیمپ میں شفٹ ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے آج عمرہ کرنا ضروری تھا۔ جس کے لیے ہم صبح سات بجے ہی مکہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ صبح ہم فجر کی نماز پڑھ کر سوئے تھے۔ صرف دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ہی اٹھ کر تیار ہو گئے۔ آج میں نے عازمینِ حج کے چہروں پر شوق اور عقیدت کا رنگ چڑھا دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں کعبہ کی تصویر سجی ہوئی تھی۔ کسی نے بھی نیند یا تھکاوٹ کا گلہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاں وہ آج جا رہے تھے وہاں جانے کے انہوں نے برسوں سے دل میں خواہش کے دیپ جلائے ہوئے تھے۔ ہزاروں دعائیں مانگی تھیں۔ آنکھوں میں طلب کی جوت جگائی تھی۔ وہ اس گھر کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ بے قرار تھے۔ دل میں دعائیں تھی اور زبان پر اللہ ہم لبیک کی صدائیں تھیں۔

عزیزیہ سے مکہ کا فاصلہ دس گیارہ کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن سڑکیں پارکنگ کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ آج ہر گاڑی کا رخ سوئے کعبہ تھا۔ ان میں بسیں، ویگنیں کاریں، ٹیکسیاں، کرائے کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تک شامل تھیں۔ لوگوں کو جلدی تھی لیکن ٹریفک اتنی زیادہ تھی کہ گاڑی چلتی کم تھی اور رکتی زیادہ تھی۔ گرمی حسب معمول عروج پر تھی اور پیاس تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ تقریباً سبھی زائرین نے اپنے پاس پانی کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ بوتل نکالتے، چند گھونٹ لے کر حلق تر کرتے اور بوتل واپس اپنے بیگ میں رکھ لیتے۔

میں نے بس کے شیشے سے باہر نظر دوڑائی تو شہر سے کچھ فاصلے پر بڑے بڑے پہاڑ دکھائی دیے۔ یہ سنگلاخ پہاڑ سبزے اور درختوں سے خالی اور پتھروں سے اٹے ہوئے تھے۔ دھوپ میں یہ پتھر چمک رہے تھے۔ شہر میں بھی تیز دھوپ اور حبس کاراج تھا۔ رہی سہی کسر گاڑیوں کے انجن کی گرمی اور دھوئیں نے پوری کر دی تھی۔ دھوئیں اور پٹرول کی یہ بدبو بس میں بھی محسوس ہو رہی تھی۔

شہر میں پرانی اور نئی عمارتوں کا ملا جلا عکس نظر آیا۔ بڑی اور جدید سڑکوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور تنگ گلیاں بھی تھیں۔ شہر میں بھی سبزہ اور درخت کم ہی نظر آئے۔ کہیں کہیں کھجور اور اسی قبیل کے چند دوسرے درخت تھے۔ مجموعی طور پر یہ شہر عمارتوں، سڑکوں اور گلیوں پر مشتمل تھا۔ پارک، باغات، کھیل کے میدان، درخت، پودے اور گھاس بہت کم نظر آئی۔

حالانکہ درخت زمین کا زیور ہیں۔ شہر ہوں یا گاؤں، سڑک کا کنارہ ہو یا پارک ہوں، درختوں سے ہی رونق اور خوبصورتی ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں ہمیں ایک انچ زمین بھی سبزے یا درختوں سے خالی نظر نہیں آتی۔ پکی جگہ ہوتی ہے یا پھر گھاس اور پودے ہوتے ہیں۔ شہروں میں بھی درخت ہی درخت نظر آتے ہیں۔ کوئی گلی کوئی گھر کوئی علاقہ درختوں سے خالی نہیں ہے۔ درخت کاٹنا وہاں جرم ہے۔ حتیٰ کہ آپ اپنے گھر میں لگے درخت کو بھی بغیر اجازت نہیں کاٹ سکتے اور اکثر اس کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ ہر محلے میں بڑے بڑے پارک، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گولف کورس حتیٰ کہ شہر کے مختلف حصوں میں باقاعدہ جنگل واقع ہیں۔

یہی وجہ کہ پورا آسٹریلیا سرسبز و شاداب ہے۔ یہی حال امریکہ، کینیڈا اور یورپ کا ہے۔ لیکن مسلمان ملکوں میں بدقسمتی سے اس کا بالکل رواج نہیں ہے۔ ا س کی ایک وجہ موسم ہو سکتا ہے۔ لیکن پوری مسلم دنیا میں سبزہ اور درخت نہ اگانے کی وجہ صرف موسم نہیں ہو سکتا۔ اس میں ہماری لاپرواہی، منصوبہ بندی کا فقدان، حکومتوں کی نا اہلی اور عوام کی بے علمی بھی شامل ہے۔ درخت اور سبزہ اُگانا ہماری ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہیں۔ یہاں آسٹریلیا میں بھی ہم لوگ ایسے گھر پسند کرتے ہیں جہاں درخت نہ ہوں۔

ساٹھ اور ستر کی دھائی میں جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف میں درختوں کی بہتات تھی۔ جہلم اور راولپنڈی کے درمیان لگے یہ گھنے درخت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ان کے علاوہ مقامی سڑکوں کے کنارے پر بھی بے شمار درخت لگے ہوتے تھے۔ گاؤں اور دیہات میں تو درختوں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ میں گورئنمنٹ ہائی سکول کونتریلہ (تحصیل گوجرخان) پڑھتا تھا۔ وہاں بے شمار درخت، پھول دار پودے اور سرسبز میدان تھے۔ جن کی دیکھ بھال ایک مالی سارا دن کرتا رہتا تھا۔ یہ مالی ان پودوں اور سکول کی حفاظت کے لئے رات کو سوتا بھی وہیں تھا۔ سکول کے صحن میں خوبصورت باغیچہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس میں ہر رنگ کے پھول کھلے ہوتے تھے۔ چند سال پہلے میں اس سکول گیا تو وہاں خاک اُڑ رہی تھی۔ وہ باغیچہ، وہ درخت اور وہ سر سبز میدان قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔

ساڑھے نو بجے ہم خانہ کعبہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہوٹل الشہداء کے سامنے اُترے۔ یہ بہت بڑا اور خوبصورت ہوٹل ہے۔ حج کے بعد ہمیں یہیں قیام کرنا تھا۔ آج ہم نے وہاں وضو کیا اور اپنے راہنما کے بلند علم کے پیچھے پیچھے خانہ کعبہ کی طرف چل دیے۔ راستہ لوگوں سے اٹا پڑا تھا۔ بہت ہی مشکل سے آگے بڑھنے کا راستہ مل رہا تھا۔ اس ہجوم میں ہم بہت آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ ہمارے دونوں اطراف میں بلند و بالا عمارتیں تھیں جن میں زیادہ تر ہوٹل تھے۔ نیچے بڑی بڑی دُکانیں اور ریستوران تھے۔ سڑک اور فٹ پاتھ دونوں انسانوں سے بھرے ہوئے تھے۔

اچانک خانہ خدا ہمارے سامنے آ گیا۔ ایسا لگا کہ ہم نہیں وہ چل کر ہمارے سامنے آ گیا ہو۔ سیاہ رنگ کا چھوٹا سا چوکور گھر جسے ہم نے تصویروں میں ہزاروں بار دیکھا تھا آج ہمارے سامنے موجود تھا۔ یہی وہ گھر ہے جسے دیکھنے کی تمنا بیک وقت کروڑوں اربوں دلوں میں پلتی رہتی ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اسے دیکھ پاتے ہیں۔ یہی تو وہ گھر ہے جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اس گھر کا ذکر ہماری زندگیوں میں روزانہ ہوتا ہے۔ نماز ادا کرتے ہوئے، نیت باندھتے ہوئے، گفت و شنید میں، مطالعہ کرتے ہوئے، درسی ودینی کتب میں، مسجد و منبر سے، حمد و نعت میں، ماں کی گود سے گور تک اس گھر کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ آج یہ گھر ہمارے سامنے تھا۔ ان خوش قسمت لوگوں میں آج میں بھی شامل ہو گیا تھا جنہیں اس گھر کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔

میرے ہاتھ دُعا کے لئے اٹھ گئے۔ اے اللہ تو کتنا رحیم ہے۔ کتنا کریم ہے۔ تو دلوں کا بھید جانتا ہے۔ تو اپنے بندوں کے دلوں کی آواز سنتا ہے۔ یہ تو ہی ہے جو ہم جیسے گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کو بھی اپنے گھر آنے کی اجازت اور ہمت عطا کرتا ہے۔ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

دنیا میں کروڑوں اربوں انسان اس گھر کو دیکھنے کی حسرت لیے دنیا سے سدھار گئے۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے تھے جن کے پاس دولت اور طاقت بھی تھی۔ لیکن ان کے نصیب میں اس گھر کی زیارت نہیں تھی۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو دن رات دعائیں مانگتے رہے لیکن وہ یہاں نہ پہنچ سکے۔ اے اللہ تو نے ہماری دعائیں سن لیں۔ ہماری آرزو پوری کی۔ ہمیں اپنے گھر میں حاضری کے قابل سمجھا اور حاضر ہونے کا اِذن عطا فرمایا۔

اے اللہ مجھ پر اور میرے خاندان پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے۔ یا اللہ مجھے مستجاب الدُعا بنا دے۔ یا اللہ اس گھر پر برستی رحمتوں میں مجھے بھی شریک کر کر لے۔ یا اللہ تیری رحمتیں یہاں بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ گناہ گاروں کے گناہوں کو دھو رہی ہیں۔ توبہ کے دروازے کھل رہے ہیں۔ دلوں کے قفل وا ہو رہے ہیں۔ باطن کی سیاہی دھل رہی ہے۔ اس کی جگہ روشنی اور نور لے رہا ہے۔ یہ گھر ہی ایسا ہے جہاں سے کوئی خالی نہیں جاتا۔ جو بھی یہاں آتا ہے دامن بھر کر جاتا ہے۔

اے اللہ تو کتنا رحیم ہے۔ معاف کرنے والا ہے۔ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ مجھے بھی اپنے دامن میں پناہ دے دے۔ یا اللہ میرے تمام گناہوں کو معاف فرما دے۔ یا اللہ مجھے اپنی رحمت کی آغوش میں سمیٹ لے۔ یا اللہ میرے دل کو ایمان کی روشنی سے بھر دے۔ یا اللہ میرے اور میرے خاندان پر رحم فرما۔ یا اللہ میرے والدین کو بخش دے۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما۔ یا اللہ ان کی قبروں کو جنت کے باغ بنا دے۔ یا اللہ ہمارے خاندان میں اتفاق اور اتحاد قائم و دائم رکھ۔ یا خدا ہمارے دلوں کو اپنی اور اپنے بندوں کی محبت سے مالا مال کر دے۔ یا اللہ ہمارے دلوں کو ایمان، محبت یقین اور حق وسچ کی روشنی سے بھر دے۔ یا اللہ میرے وطن اور اس کے باسیوں کو امن اور ترقی عطا فرما۔ یا اللہ اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ یا میرے مالک تجھے اپنے حبیبﷺ کا واسطہ، میرے اس سفر کو، میرے حج کو اور میری عبادتوں کو قبول فرما۔ آمین

خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی میرے جسم پر کپکپی سی طاری ہو گئی تھی۔ میری اہلیہ نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ان کی حالت بھی مجھ سے مختلف نہیں تھی۔ ہماری آنکھیں نمناک ہو گئیں اور زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ آنکھیں بھی جھپکنا بھول گئی تھیں۔ یہ رعبِ خداوند تھا۔ خوف خدا تھا۔ اپنی قسمت پر رشک تھا۔ اپنے گناہوں کا احساس تھا یا پھر دنیا کے سب سے بڑے دربار کا رُعب تھا۔ جو کچھ بھی تھا اس نے ہماری طاقت سلب کر لی تھی۔ ہم کافی دیر تک اس کیفیت سے باہر نہ نکل سکے۔

خانہ کعبہ کو دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ انوارِ الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ زمین سے آسمان تک فرشتوں کی آمد ہو رہی ہے۔ یہ گھر مجھے زمین کا حصہ نہیں بلکہ آسمان سے اُترا ہوامحسوس ہوا۔ اس کے ارد گرد آسمانوں تک نور کا ہالہ تھا۔ میری زبان سے تلبیہ جاری ہوئی اور پھر یہ دعا مانگی یا اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے۔ یا اللہ ہماری حاضری کو منظور و قبول فرما۔

زبان کے بعد جسم کے باقی اعضاء نے بھی کام شروع کر دیا۔ ہم معلم کی ہدایت کے مطابق عمرے کی تیاری میں لگ گئے۔ جس کا پہلا جزو طوافِ خانہ کعبہ تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ حج سے صرف ایک دن پہلے اور صبح کے اس وقت بھی ہمیں خانہ کعبہ کے سامنے نچلے حصے میں طواف کا موقع مل گیا۔ اس نچلے حصے میں طواف کا فاصلہ سب سے کم ہوتا ہے۔ ویسے تو طواف کرنے والوں کی تعداد پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کے طواف کا دائرہ کتنا بڑا یا چھوٹا ہو گا۔ تاہم اوپر کی دو منزلوں کی نسبت یہ مختصر ہوتا ہے۔

آج کے بعد ہمارے اگلے سارے طواف اُوپر کی منزل پرہی ہوئے تھے۔ سب سے اوپر یعنی تیسری منزل پر طواف سب سے طویل طواف بن جاتا ہے۔ آج پہلا طواف نہ صرف ہمیں نیچے کرنے کا موقع مل گیا بلکہ حج کا موقع ہونے کے باوجود ہجوم قابلِ برداشت تھا۔ ہم خانہ کعبہ کے قریب تو نہ پہنچ سکے کیونکہ وہاں بہت بھیڑ تھی تاہم درمیانے فاصلے سے خانہ کعبہ کے سات چکر مکمل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کا آغاز اور اختتام حجر اسود کے سامنے سے ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ ہجوم بھی وہیں ہوتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ وہاں رک کر تکبیر پڑھتے ہیں۔ جبکہ یہ عمل چلنے کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس مقام پر جھمگٹے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے سات چکر مکمل ہوتے ہیں وہ وہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے لوگوں کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔

دنیا بھر کے مسلمان یہاں طواف کر رہے ہوتے ہیں۔ افریقی ممالک سے آئے ہوئے گرانڈیل مسلمان بھی ان میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ قوی الجثہ افریقی اپنے مضبوط کندھوں سے لوگوں کے درمیان سے ایسے راستہ بناتے ہیں۔ جیسے ٹینک کچے پکے راستوں پر بلا روک ٹوک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کے دھکوں سے مضبوطی سے پکڑے ہاتھ بھی چھوٹ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے کپڑے کی مدد سے خود کو دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس دھکم پیل میں ایک دوسرے سے بچھڑ نہ جائیں۔

طواف صرف جسمانی بھاگ دوڑ کا نام نہیں ہے۔ یہ اللہ کے گھر کا طواف ہوتا ہے۔ حجرِ اسود، مقامِ ابراہیم، حطیم سب آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور اس کی رحمت طلب کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔

طواف کعبہ کے دوران جتنی دعائیں مجھے یاد تھیں وہ مانگتا رہا۔ جو سورتیں یاد تھیں پڑھتا رہا۔ خود کو اور اہلیہ کو دھکم پیل سے بچاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کسی بڑی مشکل سے دوچار ہوئے بغیر ہمارا طواف مکمل ہو گیا۔

طواف کے بعد ہجوم سے باہر نکلنا آسان نہ تھا۔ کیونکہ پیچھے سے لوگوں کا ریلہ چلا آ رہا ہوتا ہے۔ وہاں رُکنے یا سمت بدل کر باہر نکلنے کا موقع نہیں ہوتا، ریلے کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس ریلے سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔ ورنہ حجر اسود کے سامنے تو ویسے بھی ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ یہی نقطہ آغاز اور یہی اختتام ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا ’’میں جانتا ہوں تو محض ایک پتھر ہے۔ جو نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔‘‘

حضرت عمرؓ کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان صرف حق تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے کسی اور کی نہیں۔ مسلمان حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے محض اتباع سنت کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پتھر لے کر آئے۔ روایت ہے کہ یہ پتھر حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے اتارا گیا تھا۔ اس وقت اس کا رنگ سفید تھا۔ مگر اولاد آدم کے گناہوں کے باعث سیاہ ہو گیا ہے۔ طوفانِ نوح میں بھی یہ پتھر قدرت الٰہی سے محفوظ رہا۔ سن 6ہجری میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور اموی افواج میں جنگ چھڑ گئی۔ پھر خانہ کعبہ کے غلاف کو آگ لگ گئی۔ تپش کے باعث حجرِ اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے چاندی کے موٹے خول میں ان ٹکڑوں کو ملفوف کر کے خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ 189 ہجری میں خلیفہ ہارون الرشید نے حجر اسود کے ان ٹکڑوں میں سوراخ کر کے چاندنی سے ملفوف کر دیا۔ 317 ہجری میں ابو طاہر نامی حاکم حجر اسود کو اکھاڑ کر بحرین لے گیا۔ 27 سال بعد یہ پتھر واپس اپنی جگہ نصب ہوا۔

حجر اسود کے ساتھ ایک لائٹ (روشنی) نصب کر دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے زائرین کو دور سے بھی یہ جگہ نظر آ جاتی ہے۔ ہر چکر کے بعد زائر اس کے سامنے رکتا ہے، اللہ اکبر کہہ کر دایاں ہاتھ اٹھاتا ہے، انہیں چومتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اگر لوگ زیادہ ہوں اور رکنے کا موقع نہ ملے تو چلتے چلتے یہ عمل مکمل کیا جاتا ہے۔

طواف مکمل کر کے ہم آہستہ آہستہ مطاف (خانہ کعبہ کے ارد گرد جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے) سے باہر آ گئے۔ سامنے ہی آبِ زم زم موجود تھا۔ وہاں سے جی بھر کر آب زمزم پیا تو گرمی کا اثر کم ہو۔ ورنہ طواف کے دوران دھوپ، گرمی، حبس اور رش کی وجہ سے پسینہ ایڑھی تک بہہ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے ورنہ چالیس پینتالیس ڈگری کی گرمی، تیز دھوپ اور اتنے دھکم پیل میں انتہائی بوڑھے لوگ بھی طواف کر لیتے ہیں۔ اس وقت گرمی اور پسینے کی طرف دھیان جاتا ہی نہیں۔ زائر کا دھیان سامنے کی طرف ہوتا ہے۔ ورنہ کسی نہ کسی سے ٹکراؤ ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یا پھر اپنے ساتھی کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس دھکم پیل میں الگ نہ ہو جائے۔ سب سے زیادہ دھیان تو اس گھر اور اس کے مکین کی طرف ہوتا ہے۔ لہٰذا گرمی اور پسینے کی فکر نہیں ہوتی۔

اس کے بعد ہم نے دو رکعت نفل ادا کیے اور سعی کے لیے چل پڑے۔ سعی دو پہاڑیوں کے درمیان ہوتی ہے۔ ان پہاڑیوں کے نام صفا اور مروہ ہیں۔ یہ پہاڑیاں اور ان کا درمیانی راستہ اب ایک چھت کے نیچے ہے۔ تاہم دونوں پہاڑیاں اب بھی درمیانی وادی سے بلند ہیں۔ اس چھت والے راستے میں ایئر کنڈیشنر نصب ہیں۔ درمیان میں آب زم زم پینے کے لیے موجود ہے۔ اس لیے وہاں نہ تو دھوپ اور گرمی ہے اور نہ پیاس کا مسئلہ ہے۔ پھر بھی پیدل چلنا تو پڑتا ہے

صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے قریب ہی واقع ہیں۔ عربی اور اُردو میں لکھے ہوئے سائن بورڈ منزل کا پتہ بتا دیتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے ہم صفا پر پہنچ گئے جہاں سے سعی شروع ہوتی ہے۔ ہم نے نیت کی اور حضرت حاجرہؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان دو پہاڑیوں کے درمیان آنے اور جانے لگے۔ سعی کے لفظی معنی دوڑنے کے ہیں۔ چونکہ حضرت حاجرہؑ جو حضرت ابراہیمؑ کی بیوی اور حضرت اسمعیلؑ کی والدہ تھیں، پانی کی تلاش میں ان دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ دوڑنا اس قدر پسند آیا کہ اسے حج کا حصہ بنا دیا۔

اگر غور کیا جائے تو حج، عمرہ، طواف اور سعی یہ سب ایک ہی خاندان یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔ خانہ کعبہ بھی حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمعیلؑ نے ہی تعمیر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس خاندان سے اتنا پیار تھا کہ ان کے ہر عمل کو حج کا حصہ بنا دیا۔ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ گویا اس خاندان کی سنت پر قیامت تک عمل ہوتا رہے گا۔

 

حضرت حاجرہؑ اور آب زمزم

___________________

 

اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ حضرت حاجرہؑاور حضرت اسمعیلؑ کو جواس وقت شیرخوار تھے اس لق و دق صحرا میں چھوڑنے آئے تھے۔ انہوں نے حضرت حاجرہؑ کو تھوڑاسا زادِ راہ اور پانی کا ایک مشکیزہ دیا۔ جانے لگے تو حضرت حاجرہؑ نے پوچھا ’’آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’اللہ کے سہارے جس کے حکم پر میں آپ لوگوں کو یہاں چھوڑ رہا ہوں۔‘‘

حضرت حاجرہؑ نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چند روز بعد خوراک اور پانی ختم ہو گئے۔ حضرت اسمعیلؑ پیاس کی وجہ سے نڈھال ہو گئے۔ حضرت حاجرہؑ پانی کی تلاش میں صفا پر چڑھیں کہ کہیں پانی کا چشمہ نظر آ جائے یا کوئی قافلہ دکھائی دے جائے۔ لیکن صفا پر انہیں ایسا کچھ نہ دکھائی دیا۔ وہ مروہ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اس پہاڑی پر چڑھ کر انہوں نے پانی یا قافلے کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ بے قراری سے وہ دوبارہ صفا کی طرف دوڑیں اور پھر مروہ کی طرف۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ساتویں چکر کے بعد انہوں نے مروہ کے اوپر سے ہی دیکھا کہ نشیب میں جہاں بچہ موجود تھا وہاں سے ایک قدرتی چشمہ ابل پڑا ہے۔ آپ فوراً ہی بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ پانی بچے کے ارد گرد پھیل رہا ہے۔ آپ نے پانی کے ارد گرد مٹی کے کنارے بناتے ہوئے کہا کہ زم زم یعنی ٹھہر جا ٹھہر جا۔ پانی ٹھہر گیا۔ آپ نے بچے کو بھی پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ کچھ عرصے بعد ایک قافلے کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ حیران ہوئے کیونکہ اس چشمے کا پہلے وجود نہیں تھا۔ وہ حضرت حاجرہؑ کے پاس گئے اور اس میٹھے چشمے کا پانی استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت حاجرہؑ نے بخوشی اجازت دے دی۔ قافلے والوں نے خود بھی پانی پیا۔ اُونٹوں کو پلایا اور مشکیزے بھی بھر لیے۔ اس طرح یہ چشمہ دور و نزدیک سب جگہ مشہور ہو گیا۔ اس کی وجہ سے کچھ لوگ یہاں آ کر بس گئے۔ یوں یہ صحرا آباد ہوتا چلا گیا۔

حضرت ابراہیمؑ بیس سال بعد یہاں آئے تو حضرت اسمعیل جوان ہو چکے تھے۔ دونوں باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کر دی۔ خانہ کعبہ جو آب زم زم والے چشمے سے زیادہ دور نہیں ہے اس کی نشاندہی اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیلؑ نے کی تھی۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں کو حج کی دعوت دی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

دوران سعی ہم نے دیکھا کہ وہاں کرائے کی وھیل چیئرز بھی دستیاب ہیں۔ یہ وھیل چیئر سعی اور طواف دونوں کے لیے دستیاب ہیں۔ اُنہیں چلانے والے لوگ بھی معاوضے پر مل جاتے ہیں۔ اگر صرف وھیل چئیر ہی درکار ہو تو وہ بھی مل جاتی ہے۔ اسے گھر کا کوئی فرد بھی چلا سکتا ہے۔ دورانِ حج و عمرہ وھیل چیئر سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اکثر لوگوں کو زخمی کر دیتی ہے۔ خصوصاً پیشہ ور چلانے والے بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ ہٹو بچو کے نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کے بیچ میں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ اچھی بات ہے کہ طوافِ خانہ کعبہ کے لیے وھیل چیئرز کے لئے اب ایک الگ فلور ہے۔ اب تمام وھیل چیئرز صرف پہلی منزل پر نظر آتی ہیں۔ اس طرح زمینی فلور اور دوسری منزل والا فلور ان سے خالی ہوتا ہے۔

سعی مکمل ہوتے ہی ہمارا عمرہ بھی مکمل ہو گیا۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

طواف اور سعی کے لیے ہم تین گھنٹے سے زیادہ پیدل چلے تھے۔ اس سے پہلے ہوٹل سے بھی پیدل چل کر یہاں آئے تھے۔ عام حالات میں ہم اتنا زیادہ چلنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن یہاں حالات مختلف تھے۔ یہاں کا ماحول اور منظر ہی الگ تھا۔ یہاں شوق تھا۔ عقیدت تھی۔ فرض تھا۔ سنت رسولﷺ تھی۔ نظروں کے سامنے خانہ کعبہ تھا۔ صفا اور مروہ میں حضرت حاجرہؑ اور حضرت اسمعیلؑ کا تصور آنکھوں میں تھا۔ کیسے حضرت حاجرہؑ معصوم بچے کو سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان بٹھا کر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی ہوں گی۔ اس وقت وہ امید اور نا امیدی کی کس کیفیت سے دوچار ہوں گی۔ سخت دھوپ، گرمی، پیاس کی شدت اور دور دور تک کسی انسان کی نا موجودگی۔ ایک ماں پر اس وقت کیا گزر ہی ہو گی۔

پھر اللہ نے اس بچے کی جس طرح مدد کی۔ سبحان اللہ وہ بھی کیا منظر ہو گا۔ ایک لمحہ پہلے جہاں سنگلاخ اور سوکھے پتھر ہوں گے۔ اگلے لمحے وہاں سے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ اُبل رہا ہو گا۔ یا اللہ تیری کیا شان ہے۔ تیری قدرت کیا کیا کرشمے دکھا سکتی ہے۔

یہ اللہ کی قدرت اور مدد ہی تھی کہ اتنا زیادہ چلنے اور اتنی زیادہ گرمی کے باوجود ہم اپنے اندر ہمت اور طاقت محسوس کر رہے تھے۔ واپس ہوٹل کی طرف چلے تو میں نے ٹیکسی لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اہلیہ نے کہا ’’رہنے دیں پیدل ہی چلتے ہیں۔ جہاں اتنا چلے ہیں وہاں پندرہ بیس منٹ اور سہی۔‘‘

مجھے اس کی ہمت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کبھی اسے اتنا چلتے نہیں دیکھا تھا۔ گھٹنوں کے آرتھرائٹس، ٹانگوں کی کمزوری اور وزن کی زیادتی کی وجہ سے یہ اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ لیکن اس اللہ کی بندی نے پورے حج میں کہیں بھی چلنے سے معذوری کا اظہار کیا نہ تھکن کی شکایت کی۔ حالانکہ ان میں سے بعض دن ایسے تھے کہ ہم تھکن سے چور ہو کر گرنے والے ہو گئے تھے۔ جہاں فریضہ نظر آیا وہاں اس نے تھکن کی شکایت کیے بغیر خوش دلی سے یہ کام سر انجام دیا۔ ہاں فرض ادا کرنے کے بعد تھکن کے آثار ظاہر ہوئے لیکن اس سے ہمارا حج یا اس کے ارکان متاثر نہیں ہوئے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی، اس کا کرم اور اس کی مدد تھی۔ ورنہ انسان کی اوقات تو اتنی سی ہے کہ ایک ٹھوکر کھا کر اس کی ہڈی پسلی ٹوٹ سکتی ہے۔ ایک دھکے سے گر کر معذور ہو سکتا ہے۔ معمولی سی بیماری اسے جکڑ کر بستر کا قیدی بنا سکتی ہے۔ انسان صرف ارادہ اور نیت کرتا ہے۔ اس پر عمل درآمد صرف اللہ کے حکم سے ہو سکتا ہے۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے فرمایا تھا ’’میں نے اپنے ارادوں میں ناکامی سے اللہ کو پہچانا ہے‘‘

ڈھُونڈتے ڈھُونڈتے اور گاڑیوں میں جگہ بناتے بناتے بالآخر ہم الشہداء میں پہنچ گئے۔ جب سب لوگ آ گئے تو جا کر بسوں میں سوار ہو گئے۔ ان بسوں نے شام سے پہلے ہمیں واپس عزیزیہ پہنچا دیا۔ اگلے روز ہم منیٰ میں منتقل ہو رہے تھے اور حج کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔ آج کا عمرہ بھی حج کا ہی حصہ تھا۔ لیکن مناسک حج کل منیٰ سے شروع ہونا تھے۔

عزیزیہ میں ہمارا ہوٹل ایک پہاڑ یکے سامنے واقع تھا۔ اس پہاڑی کی بلندی پر ایک بس سٹاپ بنا ہوا تھا۔ اُوپر نیچے جانے کے لئے لفٹ لگی ہوئی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ بسیں جمرات تک جاتی ہیں۔ جمرات وہ مقام یا پہاڑی ہے جسے رمی کیا جاتا ہے (یعنی کنکریاں ماری جاتی ہیں)۔ وہ منزل بعد میں آنی تھی۔ فی الحال ہم منیٰ جا رہے تھے۔ منیٰ، عرفات، مزدلفہ اور جمرات ہی وہ مقامات ہیں جہاں اگلے کئی روز ہمیں رہنا تھا۔ ہمارا قیام بہرحال منیٰ میں تھاسوائے ایک رات کے جو مزدلفہ میں بسر کی جاتی ہے۔

عزیزیہ میں ہمارے ہوٹل میں کھانا پکانے کی سہولت نہیں تھی۔ لبیک کی انتظامیہ یہ کھانا کہیں اور سے بنوا کر لاتی تھی۔ یہاں پر رامادا ہوٹل مدینہ یا الشہداء ہوٹل مکہ کی طرح رنگ برنگے کھانے نہیں ہوتے تھے۔ تاہم تینوں وقت تازہ اور گرم کھانا مل جاتا تھا۔ منیٰ اور عرفات میں بھی اسی قسم کا کھانا ملتا تھا۔ یہ کھانا عموماً ایک ہی ڈش پر مشتمل ہوتا تھا۔ یا پھر سالن کے ساتھ روٹی اور چاول دونوں دستیاب ہوتے تھے۔ اگرچہ اس میں مسالے پاکستانی کھانوں کی طرح نہیں ہوتے تھے تاہم اتنا پھیکا بھی نہیں ہوتا تھا۔ دورا نِ حج کھانے کی کمی کہیں محسوس نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں پینے کا پانی اور دوسرے مشروبات جن میں فروٹ جوس اور سافٹ ڈرنک وافردستیاب تھے۔ میرے پسندیدہ مشروب یعنی چائے کی بھی کمی نہیں تھی۔ یہ بھی ہر جگہ دستیاب تھی۔

 

قیامِ منیٰ

___________________

 

آٹھ ذوالحجہ کی صبح نماز فجر کے بعد تیار ہو کر ہم بسوں میں بیٹھ گئے۔ ہماراسامان الشہداء بھیج دیا گیا تھا۔ ہمارے پاس انتہائی ضروری چیزوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا بیگ تھا اور بس۔ چاروں جانب سے بسوں کے قافلے منیٰ کی جانب بڑھے چلے آ رہے تھے۔ ہر طرف لبیک الّھم لبیک کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ ٹریفک تقریباً رُکی ہوئی تھی۔ گاڑیوں کے انجن آن تھے۔ ایئرکنڈیشنز چل رہے تھے۔ فضا میں دھُواں پھیلا ہوا تھا۔ اس حالت میں رینگتے ہوئے بسیں ایک ایک انچ آگے سرک رہی تھیں۔ آخر ظہر کے قریب ہم اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔

منیٰ کا میدان حد نظر تک ایک جیسے بڑے بڑے خیموں سے سجا ہوا تھا۔ یہ بھی انتہائی منفرد اور انوکھا منظر تھا۔ اتنے خیمے دنیا میں کہیں اور نصب نہیں ہوتے جتنے یہاں ہر سال ہوتے ہیں۔ یہ خیموں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا کیمپ تھا۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور کینیڈا سے آنے والے عازمین حج کے خیمے ایک دوسرے کے قریب تھے۔ گویا ہم پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور دوسرے ایشیائی و افریقی ملکوں کے حاجیوں سے قدرے الگ تھے۔ حالانکہ تمام خیمے ایک سائز کے تھے اور ان کے اندر کی سہولتیں بھی ایک جیسی تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پاکستانی کیمپوں میں پاکستانی، بنگلہ دیشی کیمپوں میں بنگالی کھانا ملتا تھا۔ ان کے معلم بھی ان کی اپنی زبان میں تقریریں کرتے تھے۔ لہٰذا وہ لوگ مزے میں تھے۔ ہمیں کھانا ایسا ملتا تھا کہ ہر کوئی یہی سمجھتا کہ یہ دوسرے ملک کے لوگوں کے لیے بنا ہے۔ کسی کو بھی یہ کھانا اپنے ملک کے ذائقے کے مطابق نہیں لگتا تھا۔ اسی طرح ہمارے امام اور معلم انگریزی میں اعلانات اور تقریریں کرتے تھے جس میں وہ مزا نہیں تھا جو اپنی زبان میں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ حاجیوں کے درمیان اگر کوئی تو تو میں میں ہوتی تھی تو وہ بھی انگریزی میں ہوتی تھی۔ لہٰذا اس لڑائی کا بھی مزا نہیں تھا۔ اتنے دن بین الاقوامی Continental کھانے کھا کھا کر ہمیں اپنے کھانوں کا ذائقہ بھی بھول گیا۔ ادھر سعودیہ میں جا کر بھی ہماری جان انگریزی سے نہیں چھوٹی تھی۔ بہرحال زبان ہمارے حج کے آڑے نہیں آئی۔ عربی اور پاکستانی ذائقوں پر مشتمل ملا جلا کھانا بھی کسی کو برا نہیں لگا۔ انگریزی تقریروں کا بھی کسی نے برا نہیں منایا۔ وہاں سب لوگ گلوں شکووں سے بے نیاز ہو چکے تھے۔ اللہ کے قرب کے نے انہیں دوسرے ذائقوں سے بے گانہ کر دیا تھا۔ منیٰ اور عرفات میں حجاج اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ دنیاوی باتیں کم ہوتی تھیں۔ جو ہوتی تھیں وہ بھی اخوت اور محبت کی مظہر ہوتی تھیں۔ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ یہ جگہ اسلامی اخوت، رواداری اور باہمی احترام کا بہترین منظر پیش کرتی تھی۔

مکہ اور مدینہ کے فائیو سٹار ہوٹلوں سے نکلے تو ہم عزیزیہ کے ایک عام سے ہوٹل میں جا ٹھہرے۔ جہاں بستروں اور باتھ روموں کے علاوہ کوئی اور سہولت میسر نہیں تھی۔ وہاں سے نکل کر منیٰ کے کیمپوں میں پہنچے تو پھر خاک نشینی تھی۔ یہاں کوئی پلنگ کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ زمین کے فرش پر پتلے سے گدے بچھے تھے۔ اس گدے سے جڑا ایک تکیہ تھا۔ ایک چادر نما کمبل تھا۔ یہ گدا اتنا بڑا تھا کہ کروٹ بدلوتو ساتھ والے گدے پر لیٹے ساتھی سے بغل گیر ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ گدّوں کے درمیان چاروں طرف کوئی خلا نہیں تھا۔ آپ کے دائیں بائیں ہر طرف گدّے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ کا پاؤں اور سر دوسروں کے گدّوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ کسی کا پاؤں آپ کے سرہانے اور آپ کا پاؤں کسی دوسرے کے سرہانے پر ہوتا ہے۔ آپ کا بازو ساتھ والے کے پیٹ پر دھرا ہوتا ہے۔ آپ کے دوسری طرف والے ساتھی کی ٹانگ آپ پر رکھی ہوتی ہے۔ اس طرح ہمارے درمیان تمام فاصلے مٹ گئے تھے۔

ان فرشی بستروں کے بیچ میں سے گزرنے کا راستہ نہیں ہوتا تھا بلکہ گدّوں پر پاؤں رکھ کر ہی اِدھر اُدھر آ جا سکتے تھے۔ اس کی وجہ سے شروع میں کچھ ساتھیوں نے منہ بنایا لیکن بعد میں عادت ہو گئی۔ دن کے وقت جب گدّے لپیٹ دیے جاتے تو قدرے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا۔ اس طرح ہر نماز کے وقت بھی یہ گدے لپیٹ دیے جاتے اور وہیں جائے نماز بچھا کر نماز ادا کی جاتی تھی۔ یہ پتلی سی جائے نمازیں بھی ہمیں وہیں دی گئی تھیں۔ آتے ہوئے ہم لوگ یہ گدّے، کمبل اور جائے نمازیں وہیں چھوڑ آئے۔

خواتین بھی اسی کیمپ کے آدھے حصے میں مقیم تھیں۔ درمیان میں آڑ سی حائل تھا۔ یہ خواتین ہمارے ساتھ ہی ہمارے امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتی تھیں۔ اپنے گھر کی خواتین کو بلانا ہو تو باہر جا کر ان کے دروازے پر موجود کسی بھی خاتون کے ذریعے پیغام بھجوایا جا سکتا تھا۔ یہ پیغام رسانی کافی موثر تھی۔ خواتین بہت جلد ایک دوسرے کو پیغام پہنچا دیتی تھیں۔ اسی طر یقے سے خواتین بھی اپنے محرم کو بلاتی تھیں۔

ہمارے سروں پر بڑے بڑے شامیانے نصب تھے۔ درمیان میں شامیانے کی دیواریں تھیں۔ ان دیواروں پر پنکھے نصب تھے۔ جو دن میں گرم اور رات میں ٹھنڈی ہوا پھینکتے رہتے تھے۔ گرمی سے گدّے بھی گرم ہو جاتے۔ جسم کا جو حصہ گدّے پر ٹکا ہوتا وہ پسینے سے تر ہو جاتا۔ کروٹ بدل کر اس حصے کو پنکھے کی ہوا اور دوسرے حصے کو گدّے کی گرمی کی سزا دینی پڑتی تھی۔ کیمپوں کے اندر یہ گرمی کافی حد تک قابلِ برداشت تھی۔ کیونکہ باہر سخت ترین گرمی تھی۔ ٹھنڈے مشروبات ہمارے دروازے کے باہر ڈرموں میں ہر وقت موجود رہتے تھے۔ ان ڈرموں میں برف ڈال کر ان مشروبات کو ٹھنڈا رکھا جاتا تھا۔ دو کیمپوں کے درمیان والی گلی میں ایک بنگالی لڑکا چائے کا سامان سجائے ہر وقت تیار بیٹھا ہوتا تھا۔ جب بھی جاؤ چائے بنا کر مسکرا کر پیش کرتا تھا۔

میرے بستر کے دونوں اطراف میں جو حاجی صاحبان مقیم تھے وہ بھی بنیادی طور پر پاکستان سے ہی تھے۔ ان میں ایک حاجی ابتسام صاحب سڈنی سے آئے تھے اور دوسرے جاوید صاحب سڈنی سے کچھ فاصلے پر واقع شہر نیوکاسل میں رہتے تھے۔ جاوید صاحب کو میری طرح سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ لہٰذا ہم دونوں اکثر کیمپ سے باہر ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ لیے کھڑے نظر آتے تھے۔ جاوید صاحب گفتگو کے رسیا اور دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ میرا کافی وقت گزرتا تھا۔ وہ سوتے بہت کم تھے۔ رات کے جس پہر میری آنکھ کھلتی وہ اپنے بستر سے غائب ہی نظر آتے۔ کبھی وہ کم ہجوم کا فائدہ اٹھا کر رات گئے غسل کر رہے ہوتے یا پھر باہر کھڑے ہو کر چائے اور سگریٹ کے شغل میں مصروف ہوتے۔

دوسرے کئی سگریٹ نوش حضرات بھی ہم سے آ ملتے۔ اس طرح ہمارا ایک سموکنگ گروپ بن گیا تھا۔ مکہ اور مدینہ میں سگریٹ نوشی اور سگریٹ فروشی قانوناً ممنوع ہے۔ میں جب تک وہاں رہا مجھے اس قانون کا علم ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ مجھے ہر جگہ سگریٹ نوش نظر آ جاتے تھے۔ کہیں سگریٹ نوشی کی ممانعت کا سائن نظر نہیں آیا۔ اس طرح سگریٹ فروشی بھی وہاں ممنوع تھی لیکن یہ آسانی سے دستیاب تھے۔ بس اتنا تھا کہ دکانوں میں سامنے نہیں رکھے ہوتے تھے۔ طلب کرنے پر دکاندار نکال کر دے دیتے تھے۔ جہاں تک سگریٹ نوشی کا تعلق تھا، عرب خواتین بھی سگریٹ نوشی کرتی نظر آتی تھیں۔ ہوٹل کے کمروں میں بھی سگریٹ نوشی کی ممانعت نہیں تھی بلکہ وہاں ایش ٹرے رکھی ہوئی تھی۔ جب کہ آسٹریلیا میں کسی بھی ہوٹل میں سگریٹ نوشی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس قانون پر بہت سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ اگر سعودی عرب میں سگریٹ فروشی اور سگریٹ نوشی ممنوع ہے تو پھر وہاں اتنی آسانی سے سگریٹ کیوں مل جاتے ہیں۔ لوگ ہر جگہ سگریٹ نوشی کیسے کر لیتے ہیں۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی ہو سکتا ہے کہ یہ قانون صرف کتاب کی زینت ہو اور اس پر عمل درآمد ابھی شروع نہ ہوا ہو۔

 

کیمپ کا ماحول

___________________

 

کیمپ کے اندر کا ماحول ہلکا پھلکا بلکہ خوشگوار تھا۔ پہلے دن کہیں جانا بھی نہیں تھا۔ اس لیے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ بس نمازیں پڑھو۔ قرآن پاک کی تلاوت کرو۔ اس کے بعد آرام ہی آرام تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کیمپنگ کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن اس ہلکے پھلکے ماحول میں بھی سنجیدگی کا عنصر غالب رہتا تھا۔ جب بھی کوئی کھل کر ہنستا یا قہقہہ لگاتا تو کسی نہ کسی کی تنبیہی نظر کا سامنا کرنا پڑتا۔ کچھ احباب ہر وقت عبادت میں رہنا پسند کرتے۔ کچھ بس نماز کا اہتمام کرتے باقی وقت گھومنے پھرنے اور آرام میں گزارتے۔ کچھ میانہ روی اختیار کرتے اور عبادت اور آرام میں توازن اختیار کرتے۔

مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بعض مذہبی رہنما اتنے زیادہ سنجیدہ کیوں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ جتنا وقت گزرتا ہے ایسا لگتا ہے کسی کی میت پر آئے ہوں۔ اسلام تو دین فطرت ہے۔ یہ اتنا زیادہ سنجیدہ بلکہ رنجیدہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے رسول پاکﷺ کی زندگی کے بارے میں جتنا پڑھا ہے اس کے مطابق وہ تو باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ صحابہؓ ان کے ساتھ گھنٹوں گزارتے تھے اور کبھی بور نہیں ہوتے تھے۔ اگرانسان دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد فارغ وقت میں دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ خوشگوار وقت گزارے تو اس میں کیا برائی ہے۔ لیکن نہ صرف دورانِ حج بلکہ عام زندگی میں بھی کچھ لوگ ہنسی مذاق کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ میرے ساتھی جاوید صاحب کو ہنسی مذاق کی عادت تھی۔ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی چٹکلا چھوڑتے رہتے تھے۔ کبھی تو ہم خاموش رہتے یا صرف مسکرا دیتے۔ کبھی ان کے چٹکلوں پر ہنسی بھی آ جاتی تھی۔ ایسے میں کئی ماتھوں پر بل پڑ جاتے۔ کئی خشمگیں نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ شکر ہے کہ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔

بعض اوقات احباب میں ہلکی پھلی جھڑپ بھی ہو جاتی تھی۔ لیکن یہ محدود رہتی اور جھگڑا بڑھتا نہیں تھا۔ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے کئی دوست اپنے اوپر سے گزرنے والوں اور بے آرام کرنے والوں سے قدرے ناراض ہوتے تھے۔ کبھی گدّا اور دوسرا سامان ساتھیوں کی آمدورفت کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہو جاتا۔ کبھی تو وہ پیار سے گلہ کرتے اور کبھی غصے کا اظہار کرتے۔

قیام منیٰ کے دوران کم سے کم سامان رکھنے والوں کو آسانی رہتی ہے۔ ورنہ جتنا زیادہ سامان ہو اسے سنبھالنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایک چھوٹا سا بیگ ہو تو اسے سرہانے کے نیچے رکھا جا سکتا ہے۔ پہلے دن گدّے صاف ستھرے تھے۔ اگر کوئی اس پر پاؤں رکھ دیتا تھا تو احباب برا مناتے تھے۔ بعد میں سب کو عادت ہو گئی۔ کیونکہ گزرنے والوں کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں تھا۔ بعض اوقات گزرنے والے کا پاؤں سوئے ہوئے شخص کے جسم سے بھی ٹکرا جاتا تھا۔ لیکن ایک اللہ اور ایک نبیﷺ کے ماننے والے جس جذبے سے سرشار تھے، اس میں یہ قربانی معمولی تھی۔ اسی ترتیب سے دور دور تک فرزندانِ توحید وہاں مقیم تھے۔ اگر ان میں اللہ کا خوف نہ ہوتا اور نبیﷺ کی حرمت کا پاس نہ ہوتا تو ایسی جگہ پر روزانہ نہ جانے کتنی لڑائیاں ہوتیں۔ الحمدُ للہ یہ دین کے سپاہیوں کا قافلہ تھا جن کا ایک ایک قدم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے۔ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کی لگن ہوتی ہے۔ اللہ بھی ایسے لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ان کے دلوں میں نرمی پیدا کر دیتا ہے۔

اگلے تین دنوں میں حاجی آپس میں اس قدر شیر و شکر ہو چکے تھے کہ من و تو کا سلسلہ بالکل بند ہو گیا۔ کھانا آتا تو لوگ پہلے دوسرے کو پیش کرتے پھر خود لیتے۔ باہر نکلتے تو ساتھیوں سے پوچھتے کہ کسی کو چائے کی طلب تو نہیں۔ میرے قریب زیادہ تر پاکستانی، بنگالی اور ہندوستانی حاجی مقیم تھے۔ تھوڑے فاصلے پر عربی اور دوسرے لوگ اکھٹے تھے۔ ہر طرف برادر برادر کی آواز سنائی دیتی۔ ہر لہجے میں مٹھاس گھلی ہوتی۔ ہر کسی کی زبان سے شہد ٹپکتا محسوس ہوتا۔ احترام اور بھائی چارے کی خوشبو آتی۔ ایسے لگتا تھا کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے یہ مسلمان ایک جسم ایک جان ہیں۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ان میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہے۔ کوئی امیر یا کوئی غریب نہیں ہے۔ کوئی گورا یا کالا نہیں ہے۔ کوئی عرب یا عجم نہیں ہے۔ کوئی کمزور یا طاقت ور نہیں ہے۔ سب ایک لڑی میں پروئے موتی ہیں۔ اس لڑی کا نام ہے لا الہَ اِلآ اللہ محمّد الرّسول اللہ۔

منیٰ اور عرفات کے خیموں میں لیٹے ان خاک نشینوں کا تعلق امریکہ، آسٹریلیا، یورپ، افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ، وسط ایشیا، عرب، عجم اور ہر خطے اور ملک سے تھا۔ ان کی زبانیں، لباس، خوراک، تہذیب و تمدن سب الگ الگ تھے۔ ان میں انتہائی دولت مند بھی تھے۔ درمیانے درجے والے اور غریب بھی تھے۔ لیکن یہاں پہنچ کر سب ایک جیسی حالت میں ایک ہی جگہ رہ رہے تھے۔ فائیوسٹار والے اور فٹ پاتھ والے سب برابر ہو گئے تھے۔ سب ایک ہی در پر کشکول لیے سوالی بنے کھڑے تھے۔ سب ایک ہی آقا کے غلام تھے۔ ایک اللہ، ایک نبیؐ، ایک کتاب، ایک شریعت اور ایک خانہ کعبہ کے ماننے والے ایک ہی جگہ جمع تھے۔ ان کے درمیان میں محبت اور بھائی چارے کی خوشبو رچ بس گئی تھی۔ کاش کہ ہم جہاں بھی جائیں یہ محبت، یہ یگانگت، یہ خوشبو ہمارے ساتھ ساتھ جائے۔ دنیا میں یہ خوشبو عام ہو جائے۔

قیام منیٰ کے دوران جب بھی کسی حاجی کو شکایت ہوئی تو دوسرے نے فوراً معافی مانگ لی یا پھر شکایت کرنے والے نے اپنی شکایت واپس لے لی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں شیر و شکر نظر آئے۔ معاملہ آسانی سے رفع دفع ہو جاتا تھا۔

 

لیکن ہمارے ساتھ والے کیمپ میں ایک انہونا واقعہ پیش آ گیا۔ یہ کیمپ برطانیہ سے آئے ہوئے حاجیوں پر مشتمل تھا۔ اِس میں زیادہ تر عرب نژاد حاجی تھے۔ پاکستانی نژاد حاجیوں کا کیمپ الگ تھا۔ ہمارے کیمپ اور ان کے کیمپ کا نمبر ایک ہی تھا۔ بس درمیان میں ایک گلی سی بنی ہوئی تھی۔ ہمارے غسل خانے بھی مشترک تھے۔ اکثر وہ ہمارے کیمپ کے آگے چائے لیتے نظر آتے تھے۔ ویسے بھی احرام میں یہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون کہاں سے آیا ہے۔ صرف انگریزی کے لب و لہجے سے ہم اندازہ لگاتے تھے کہ یہ حاجی آسٹریلیا سے ہے یا برطانیہ سے۔

ایک رات شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ رات کے اڑھائی بجے تھے۔ کچھ ساتھی سوئے ہوئے تھے اور کچھ جاگ کر میری طرح آنکھیں مل رہے تھے۔ ہم اُٹھے اور خاموشی سے باہر کا رخ کیا۔ معلوم ہوا کہ سامنے والے شامیانے میں دو حاجیوں کے درمیان لڑائی ہو گئی ہے۔ یہ دونوں عرب نژاد طویل القامت پہلوان جیسے لگ رہے تھے۔ ان کے ننگے بازوؤں کی اُبھری ہوئی مچھلیاں ان کے تنے ہوئے سینے ان کے پہلوان ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں تھام رکھا تھا۔ لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے پھسل پھسل کر ایک دوسرے پر حملہ اور ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں جیسے شرارے پھوٹ رہے تھے۔ بدن زور آزمائی کے لیے بے قرار تھے۔ انہیں پکڑنے والے بھی تنومند لوگ تھے۔ جنہوں نے بڑی مشکل سے انہیں قابو کیا ہوا تھا۔ چند ہی منٹوں میں پولیس وہاں پہنچ گئی۔ اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دونوں کو ہتھکڑی لگائی، گاڑی میں ڈالا اور یہ جا وہ جا۔

لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ جھگڑے کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو یہ انتہائی نا خوشگوار واقعہ تھا۔ دورانِ حج ایک دوسرے سے اس طرح الجھنا کہ آپ کا حج بھی فاسد ہو جائے اور سعودیہ کی پولیس میں آپ کے خلاف کیس بھی درج ہو جائے، انتہائی بد قسمتی کی بات تھی۔ اتنی منصوبہ بندی کے بعد، اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنے دور آ کر اپنا حج ایسے ادھورا چھوڑ دینا کہ آئندہ بھی اسے مکمل کرنے کا موقع نہ ملے انتہائی افسوس ناک بات تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر سعودی عرب میں آپ کے خلاف کوئی کیس بن جائے تو دوبارہ یہاں کا ویزا نہیں ملتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا لیکن یہ واقعہ ہم سب کے ذہنوں پر ایک گہرا اثر مرتب کر گیا۔ حاجی زیادہ سنجیدگی سے اپنی عبادتوں میں مصروف ہو گئے۔

کیمپ کے اندر ایک مسجد بھی تھی۔ ظاہر ہے وہ تمام حاجیوں کے لیے کافی نہیں تھی۔ اس لئے حاجی اپنے کیمپ میں ہی با جماعت نماز ادا کرتے تھے۔ ہمارے معلم امامت کے علاوہ دین کی تبلیغ بھی کرتے اور حج کی تربیت بھی دیتے تھے۔ کیمپ میں بھی باقاعدہ چھ اذانیں اور چھ نمازیں بشمول تہجد با جماعت ادا ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ حاجی نوافل پڑھتے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور دینی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے۔ کئی حاجیوں کے پاس حج کی تفصیلات پر مشتمل کتابیں بھی تھیں۔ ان میں سے کچھ کتابوں سے میں نے بھی استفادہ کیا۔

ان میں سے ایک سڈنی کے عالم ڈاکٹر شبیر احمد کی لکھی ہوئی کتاب بھی تھی۔ اردو میں لکھی ہوئی یہ کتاب حج کے موضوع کا بڑی تفصیل سے احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر شبیر احمد نہ صرف اچھے عالمِ دین ہیں بلکہ حج کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہر سال حاجیوں کا گروپ لے کر جاتے ہیں۔

 

مفت مشورے

لیکن ہمارے ساتھ والے کیمپ میں ایک انہونا واقعہ پیش آ گیا۔ یہ کیمپ برطانیہ سے آئے ہوئے حاجیوں پر مشتمل تھا۔ اِس میں زیادہ تر عرب نژاد حاجی تھے۔ پاکستانی نژاد حاجیوں کا کیمپ الگ تھا۔ ہمارے کیمپ اور ان کے کیمپ کا نمبر ایک ہی تھا۔ بس درمیان میں ایک گلی سی بنی ہوئی تھی۔ ہمارے غسل خانے بھی مشترک تھے۔ اکثر وہ ہمارے کیمپ کے آگے چائے لیتے نظر آتے تھے۔ ویسے بھی احرام میں یہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون کہاں سے آیا ہے۔ صرف انگریزی کے لب و لہجے سے ہم اندازہ لگاتے تھے کہ یہ حاجی آسٹریلیا سے ہے یا برطانیہ سے۔

ایک رات شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ رات کے اڑھائی بجے تھے۔ کچھ ساتھی سوئے ہوئے تھے اور کچھ جاگ کر میری طرح آنکھیں مل رہے تھے۔ ہم اُٹھے اور خاموشی سے باہر کا رخ کیا۔ معلوم ہوا کہ سامنے والے شامیانے میں دو حاجیوں کے درمیان لڑائی ہو گئی ہے۔ یہ دونوں عرب نژاد طویل القامت پہلوان جیسے لگ رہے تھے۔ ان کے ننگے بازوؤں کی اُبھری ہوئی مچھلیاں ان کے تنے ہوئے سینے ان کے پہلوان ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں تھام رکھا تھا۔ لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے پھسل پھسل کر ایک دوسرے پر حملہ اور ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں جیسے شرارے پھوٹ رہے تھے۔ بدن زور آزمائی کے لیے بے قرار تھے۔ انہیں پکڑنے والے بھی تنومند لوگ تھے۔ جنہوں نے بڑی مشکل سے انہیں قابو کیا ہوا تھا۔ چند ہی منٹوں میں پولیس وہاں پہنچ گئی۔ اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دونوں کو ہتھکڑی لگائی، گاڑی میں ڈالا اور یہ جا وہ جا۔

لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ جھگڑے کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو یہ انتہائی نا خوشگوار واقعہ تھا۔ دورانِ حج ایک دوسرے سے اس طرح الجھنا کہ آپ کا حج بھی فاسد ہو جائے اور سعودیہ کی پولیس میں آپ کے خلاف کیس بھی درج ہو جائے، انتہائی بد قسمتی کی بات تھی۔ اتنی منصوبہ بندی کے بعد، اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنے دور آ کر اپنا حج ایسے ادھورا چھوڑ دینا کہ آئندہ بھی اسے مکمل کرنے کا موقع نہ ملے انتہائی افسوس ناک بات تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر سعودی عرب میں آپ کے خلاف کوئی کیس بن جائے تو دوبارہ یہاں کا ویزا نہیں ملتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا لیکن یہ واقعہ ہم سب کے ذہنوں پر ایک گہرا اثر مرتب کر گیا۔ حاجی زیادہ سنجیدگی سے اپنی عبادتوں میں مصروف ہو گئے۔

کیمپ کے اندر ایک مسجد بھی تھی۔ ظاہر ہے وہ تمام حاجیوں کے لیے کافی نہیں تھی۔ اس لئے حاجی اپنے کیمپ میں ہی با جماعت نماز ادا کرتے تھے۔ ہمارے معلم امامت کے علاوہ دین کی تبلیغ بھی کرتے اور حج کی تربیت بھی دیتے تھے۔ کیمپ میں بھی باقاعدہ چھ اذانیں اور چھ نمازیں بشمول تہجد با جماعت ادا ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ حاجی نوافل پڑھتے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور دینی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے۔ کئی حاجیوں کے پاس حج کی تفصیلات پر مشتمل کتابیں بھی تھیں۔ ان میں سے کچھ کتابوں سے میں نے بھی استفادہ کیا۔

ان میں سے ایک سڈنی کے عالم ڈاکٹر شبیر احمد کی لکھی ہوئی کتاب بھی تھی۔ اردو میں لکھی ہوئی یہ کتاب حج کے موضوع کا بڑی تفصیل سے احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر شبیر احمد نہ صرف اچھے عالمِ دین ہیں بلکہ حج کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہر سال حاجیوں کا گروپ لے کر جاتے ہیں۔

 

مفت مشورے

___________________

 

میرے قریب جو حاجی مقیم تھے ان میں سے ملبورن سے آئے ہوئے ایک پروفیسر تھے، کینبرا سے آئے ایک ڈاکٹر تھے۔ دوسرے لوگ بھی تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدوں پر فائز اور کاروباری شخصیات تھیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ہمیں بہت فائدہ ہوا کیونکہ وہ ہمیں طبی مشورے دیتے تھے۔ یہ مشورے وہ مشورہ طلب کیے بغیر نہیں دیتے تھے۔

تاہم ہمارے ساتھ ایسے احباب کی کمی نہیں تھی جو مفت مشوروں کی فیکٹریاں تھیں۔ کچھ احباب طبی مشورے دیتے تھے اور کچھ دینی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ مثلاً میرے ہی شہر کے ایک صاحب جب بھی مجھے ملتے تو کہتے ’’آپ نے بال نہیں کٹوائے۔ آپ کا حج کیسے ہو گا‘‘

میں نے عرض کیا ’’میں نے حج قِرِان کی نیت کی ہے۔ اس میں دس ذوالحج والے دن قربانی کے بعد بال کٹوائے جاتے ہیں‘‘

کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حج کی شرط یہ ہے کہ سات ذوالحج تک عمرہ کر کے بال کٹوانے پڑتے ہیں ورنہ آپ کا حج نہیں ہوتا‘‘

میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ٹالنے کے لیے کہا ’’کچھ ذمہ داری معلمین کے لیے بھی رہنے دیں۔ آخر ہم انہیں اس کا معاوضہ دیتے ہیں‘‘

وہ ہمارے ساتھ ہمارے معلم کو بھی غلط ثابت کرنے پر تل گئے۔ وہاں سے اٹھ کر ہی میں نے اپنی جان چھڑائی۔ وہ جب بھی ملتے پھر وہی موضوع چھیڑ دیتے۔

ہمیں احرام کا ایک سیٹ لبیک والوں نے دیا تھا۔ میں نے مدینہ منورہ سے ایک اور احرام خرید لیا۔ سوچا اگر دوران حج ایک احرام زیادہ میلا ہو گیا تو دوسرا استعمال کر لوں گا۔ وہی ہوا۔ دو دن میں ہی احرام بہت زیادہ میلا ہو گیا۔ میں نے دوسرا احرام نکال کر پہننا چاہا۔ لیکن اس کی چادریں اتنی چھوٹی نکلیں کہ میرے بدن کو ڈھانپنے سے قاصر تھیں۔ لہٰذا میں نے وہ احرام استعمال کئے بغیر پھینک دیا۔ جب میں یہ احرام خرید رہا تھا تو دکاندار سے میں نے ایک ہی بات پوچھی تھی ’’کیا تمام احرام کا سائز ایک ہی ہوتا ہے یا یہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں‘‘

دکاندار نے بڑے وثوق سے کہا ’’نہیں جی تمام احرام کا سائز ایک ہی ہوتا ہے‘‘

یہ بات میں نے اپنے ساتھیوں کو بتائی تو ایک صاحب نے فوراً فتویٰ دے دیا۔ ’’آپ کا حج مکروہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ آپ نے غیبت کی ہے۔ فوراً توبہ کریں‘‘

میں نے عرض کیا ’’میں نے تو حقیقت عرض کی ہے‘‘

کہنے لگے ’’پھر بھی یہ گناہ ہے‘‘

ایک دوسرے صاحب نے فتویٰ دینے والے کو ٹوکا ’’کل رات جو آپ کھانے کی شکایت کر رہے تھے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حالانکہ آپ یہ شکایت آپ براہ راست انتظامیہ سے کر سکتے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں تنقید کو آپ کسی زمرے میں لیں گے‘‘

ان صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اس طرح دوران حج مشورے اور فتویٰ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔ حالانکہ زیادہ تر عازمین حج خود پڑھے لکھے، سمجھ دار اور با شعور تھے۔ معلم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے مشورے کی ویسے بھی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ مشورے بن مانگے ملتے تھے۔

یہ شاید ہمارا قومی کھیل ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو مشورہ دینے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ موبائل فون کو استعمال کرتے دیکھتے تو کہتے ’’اس شیطان کے چرخے کو یہاں لانا ضروری تھا کیا۔ صاحب یہ اللہ اللہ کرنے کی جگہ ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کا پورا حج متاثر ہو سکتا ہے‘‘

کچھ دوست یوں سمجھاتے نظر آتے ’’زیادہ چائے نوشی آپ کی صحت خراب کر سکتی ہے اس سے بچے رہیں تو بہتر ہے‘‘

کچھ سگریٹ نوشی پر اعتراض کرتے۔ کچھ باتیں کرنے اور ہنسنے مسکرانے پر نالاں نظر آتے اور سنجیدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے۔

حج سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو بعض لوگ دوسروں کے کام میں جا بجا ٹانگ اُڑانا اور بن مانگے مشورے دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر ان کا علم واقعی وسیع ہو اور وہ آپ کو ایسی بات بتائیں یا سمجھائیں جو آپ کے لیے نئی ہو تو ان کا مشورہ سر آنکھوں پر۔ حالانکہ کسی خواہ مخواہ مشورہ دینا میں پھر بھی درست تصور نہیں کرتا۔

لیکن اگر مشورہ دینے والے کا اپنا علم محدود ہو۔ صرف سنی سنائی باتیں جانتا ہو اور محض رُعب ڈالنے کے لیے ہر کس وناکس کو روک کر مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتا ہو تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔

مجھے یاد ہے بہت سال پہلے میں چھٹیوں پر کراچی گیا ہوا تھا۔ ایک دن صبح صبح میری والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ میں ڈاکٹر کو بلانے کے لیے پیدل ہی اس کے گھر روانہ ہو گیا۔ ڈاکٹر کا گھر وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں تیز تیز چلا جا رہا تھا کہ کسی نے بازو پکڑ کر مجھے روک لیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو وہ ایک باریش نوجوان تھا جس کے سر پر پگڑی بھی موجود تھی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا بات ہے آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟‘‘

کہنے لگا ’’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سونے کی چین پہن رکھی ہے وہ حرام ہے۔ آپ اسے فوراً اتار دیں‘‘

میں نے جان چھڑانے کے لیے کہا ’’ٹھیک ہے۔ اب میں جاؤں؟‘‘

انہوں نے اسی مضبوطی سے میرا بازو پکڑے رکھا اور کچھ احادیث وغیرہ سنانے لگے جو غلط تھیں۔ وہ احادیث کو قرآن کہہ رہے تھے اور قرآنی آیات کو احادیث فرما رہے تھے۔ میں نے پھر کہا ’’میں بہت جلدی میں ہوں میں نے آپ کی بات سن لی ہے اب میں جاؤں؟‘‘

انہوں نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ اس دوران اس نے میری کلائی اس مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی کہ مجھے درد ہونے لگا۔ آخر تنگ آ کر ایک جھٹکے سے میں نے بازو چھڑوایا اور کہا ’’یہ تبلیغ کرنے یا فتویٰ دینے کا کون سا طریقہ ہے؟ آپ میرے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ بہتر یہ ہے کہ پہلے خود دین سیکھیں پھر فتو یٰ دینے اور تبلیغ کرنے کا کام شروع کریں۔ ورنہ آپ دین کی خدمت نہیں بلکہ اسے بدنام کر رہے ہیں‘‘

وہ اب بھی وعظ میں مصروف تھے لیکن میں وہاں سے چل دیا۔

بچپن میں میں نے نماز پڑھنی سیکھی تو فرض، سنت اور نفل کا فرق معلوم نہیں تھا۔ کیونکہ ہمارے گاؤں میں لوگ نفل بھی اسی اہتمام سے پڑھتے تھے جس اہتمام سے فرض پڑھتے تھے۔ میں نے جب مطالعہ شروع کیے تو معلوم ہوا کہ نفل فرض کی طرح ضروری نہیں ہیں۔ اگر نہ بھی پڑھیں تو نماز ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد میں کبھی تو نفل پڑھتا تھا اور کبھی جلدی میں ہوتا تھا تو نہیں پڑھتا تھا۔ اسی بات پر کئی نمازی میرے خلاف ہو گئے۔ ایک دن ظہر کی نماز میں فرض اور سنت پڑھ کر گھر جانے کے لیے اٹھا تو کسی نے میری قمیض کا دامن پکڑ لیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو وہ میرے محلے کے ایک بزرگ تھے۔ وہ باقاعدہ نمازی تھے۔ لیکن بچوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ نماز کی غرض سے مسجد میں آنے والے بچوں کو خواہ مخواہ ڈانٹتے رہتے تھے۔ میں بھی اس وقت دس گیارہ سال سے زیادہ کا نہیں تھا۔ لہٰذا ان کی ڈانٹ کا شکار بنتا رہتا تھا۔ آج وہ خود نماز میں تشہد پڑھ رہے تھے۔ لیکن ایک ہاتھ سے انہوں نے میری قمیض پکڑ رکھی تھی تاکہ میں جانے نہ پاؤں۔

جونہی انہوں نے سلام پھیرا تو لال سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ’’اوئے تم نماز پوری کیوں نہیں پڑھتے ہو۔ یہاں حاضری لگوانے آتے ہو کیا؟‘‘

میں نے ادب سے جواب دیا ’’میں نے پوری نماز پڑھی ہے‘‘

بولے ’’میں تمہیں دیکھ رہا تھا۔ تم نے نفل نہیں پڑھے۔ جب تک نفل نہیں پڑھو گے تمہاری نماز نہیں ہو گی‘‘

یہ بزرگ نماز اپنی پڑھ رہے تھے اور رکعتیں میری گن رہے تھے۔ اس وقت مسجد میں چار پانچ نمازی موجود تھے۔ زیادہ تر اسی بزرگ کی عمر کے تھے۔ صرف ایک جوان اور پڑھا لکھا سرکاری ملازم تھا۔ اس نے مداخلت کی ’’چاچا یہ لڑکا صحیح کہہ رہا ہے۔ نفل پڑھے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے‘‘

چاچا پھر بھی نہیں مانے۔ الٹا اس نوجوان پر چڑھ دوڑے۔ ’’تم نے بھی اس لڑکے کی طرح چار کتابیں پڑھ لی ہیں اور باپ دادا سے جو چیزیں چلتی آ رہی ہیں اس کو غلط کہہ رہے ہو۔ پتہ نہیں ان اسکولوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے آج کل‘‘

یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔ اس باریش نوجوان نے مجھے شاباش دی اور کہا ’’گھبراؤ نہیں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔ ان کے کہنے پر تم نماز پڑھنا یا مسجد آنا نہیں چھوڑ دینا۔ ایسی باتیں چلتی رہتی ہیں ان کا اثر نہیں لینا چاہیے‘‘

عمر بھر مسجد میں روک ٹوک، نماز پر فتوے، روزے کے مسائل پر بحث اور اب حج کے دنوں میں بہت سے مشورے فتوے اور مسئلے سننے کو ملتے رہے۔ اب اس عمر میں یہ سب کچھ سننے اور برداشت کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ لیکن بچپن اور نوجوانی میں اس طرح کی روک ٹوک نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو دین سے ہی دور لے جاتی ہو گی۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطیاں اور گناہ انسان سے ہی ہوتی ہیں۔ ان کا حساب لینے کے لیے اللہ کا پورا نظام موجود ہے۔ پھر ہم انسان ایک دوسرے کو جنت اور دوزخ کیوں بانٹتے پھرتے ہیں۔ ہمیں اس کا اختیار کس نے دیا ہے۔ کہیں ہم اپنے اختیار سے تجاوز تو نہیں کر رہے۔ سوچنے کی باتیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ایسے لوگ اپنی خو نہیں بدلتے تو ان کا تدارک کیا ہے۔ ان سے کس طرح نبٹنا چاہیے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ جب مشورہ یا فتویٰ دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی یہ نہیں کہتے کہ میرا خیال یہ ہے یا میری رائے یہ ہے۔ بلکہ وہ شروع ہی اس طرح کرتے ہیں کہ مخاطب کے پاس جواب دینے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ ان کی رائے اتنی بے لچک اور فتویٰ اتنا حتمی ہوتا ہے کہ بحث مباحثے کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کسی کو جھٹلانا مناسب نہیں ہوتا۔ تاہم بہت ادب اور طریقے سے انہیں باور کرایا جا سکتا ہے کہ آپ کی رائے سر آنکھوں پر، لیکن مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ لہٰذا آپ اپنی رائے پر قائم رہیں اور ہمیں اپنی زندگی جینے دیں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشورہ دینے والا آپ کے سر پر کھڑا ہو کر اپنے مشورے پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ اگر آپ بیمار پڑ جائیں تو تیمار داری کے لیے آنے والے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور ہوتا ہے۔ پہلے تو وہ یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اب تک یہ چیز استعمال کیوں نہیں کی۔ پھر ایسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے اہلِ خانہ، مریض حتیٰ کہ ڈاکٹر تک سبھی نادان ہیں۔

جب کہ مریض سوچ رہا ہوتا ہے کہ

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی بیمار ہوا ہو گا۔ اسے اس کے دوست احباب اور عزیز و اقارب نے مختلف مشوروں سے بھی ضرور نوازا ہو گا۔

وہ مشورے کیسے ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ مشورے ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔ اسے گلی کی نکڑ والے حکیم صاحب کے پاس لے جائیں ان کی دوائی سے ضرور تندرست ہو جائیں گے۔ حکیم صاحب ایسی بیماریوں کا چٹکی بجاتے علاج کر دیتے ہیں۔

۲۔ میرے گھر میں گلے کی بیماری کی دوا موجود ہے۔ کسی بچے کو بھیج کر منگوا لیں۔ فوراً آرام آ جائے گا۔ میری آزمائی ہوئی ہے۔

۳۔ اس بیماری کا علاج صرف ڈاکٹر امان اللہ ہی کر سکتا ہے۔ کسی اور ڈاکٹر کے پاس اس بیماری کا علاج نہیں ہے۔ انہیں اس کے کلینک میں لے جائیں۔ (کتنی پکی اور بے لچک رائے ہے۔ اس سے اختلاف کرنے کی کوئی جراٗت کر سکتا ہے)

۴۔ انہیں جڑی بوٹیوں والا کڑوا جوشاندہ پلائیں۔ دوا کے بغیر ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

۵۔ پیر کرم صاحب سے تعویذ لے آئیں۔ کسی دوا کی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ہمارا آزمودہ نسخہ ہے۔ ہم تو ہمیشہ اسی پر عمل کرتے ہیں۔

۶۔ بھئی ہمارے گھر میں تو دادی کے زمانے سے ایک پھکی (چورن) استعمال ہوتی ہے۔ جب بھی کسی کی طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹروں سے لٹنے کے بجائے اس پھکی کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ چاہیں تو میں بھجوا سکتا ہوں۔

۷۔ میں تو کہتی ہوں گاؤں کا چکر لگائیں اور بابا علی شاہ کے مزار پر حاضری دیں۔ ایسی بیماریاں پل بھر میں ہوا ہو جاتی ہیں۔ لیکن آج کل کے پڑھے لکھے بچے ہماری باتوں پر کب توجہ دیتے ہیں۔

اس طرح کے کئی مشورے ہر مریض کو سننے پڑتے ہیں۔ سب سے خطرناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب تیمار دار اپنی جیب سے دوا نکالتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے لو بھئی دوا تو میں لے آیا ہوں۔ پانی لے کر آئیں اِسے ابھی یہ دوا پلاتے ہیں، تم لوگ دیکھنا! آرام آتا ہے یا نہیں۔ یہ وہی بیماری ہے جو پچھلے سال مجھے ہوئی تھی اس لئے آتے ہوئے میں دوا ساتھ لیتا آیا ہوں۔

بعض تیمار دار زود رنج ہوتے ہیں۔ جس طرح ان سے بچنا آسان نہیں ہوتا اس طرح انہیں جھٹلانا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔ اس مسئلے کو بہت سمجھ داری سے نمٹانا پڑتا ہے۔ انہیں یقین دلانا پڑتا ہے کہ ان کا نسخہ سب سے اچھا ہے۔ ورنہ ان کی دوستی اس طرح دشمنی میں بدل سکتی ہے جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات بدلتے رہتے ہیں۔

یوں تو حج میں ہفتے لگ جاتے ہیں۔ لیکن منیٰ اور عرفات کا چند دن کا قیام ہی اصل حج ہے۔ یہی دن آزمائش کے دن ہوتے ہیں۔ یہاں ہوٹل کی طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کی سہولیات نہیں ہوتیں۔ انتہائی تنگ جگہ میں سخت گرمی میں صرف پنکھے کی ہوا میں شب و روز بسر کرنے پڑتے ہیں۔ مٹی، گرد و غبار، دھویں اور پسینے سے احرام میلا چکٹ ہو کر جسم سے چپک چپک جاتا ہے۔ وہاں کئی جلدی بیماریاں بھی جنم لے لیتی ہیں۔ میں نے ان بیماریوں کے اثرات کئی ساتھیوں کے ہاتھوں پاؤں پر نمایاں ہوتے دیکھے۔ جلد پر سرخ اور سیاہ دھبے پھیل جاتے ہیں جس میں خارش ہوتی ہے۔ میری جلد بھی چند ایک جگہ سے حساس ہو کر سرخی مائل ہو گئی جسے میں نے ایک کریم کے ذریعے قابو میں رکھا۔

یہ سارے مسائل اتنے بڑے نہیں تھے جتنا بڑا مسئلہ غسل خانے اور بیت الخلاء کا تھا۔ حجاج کے تناسب سے غسل خانے اور بیت الخلاء بہت کم تھے۔ ان کے سامنے رات دن چوبیس گھنٹے قطاریں لگی رہتی تھیں۔ ایک کھلے منہ والے بڑے سے پائپ پر مشتمل شاور والا غسل خانہ اور بیت الخلاء انتہائی تنگ بنا ہوتا ہے۔ یہ بیت الخلا پاکستانی طرز کا یعنی پاؤں پر بیٹھنا والا ہوتا ہے۔ اگر انگریزی سیٹ والی ایک آدھ کموڈ ہوتی بھی ہے تو اتنے لوگوں کے ہوتے ہوئے اس تک رسائی نا ممکن ہوتی ہے۔

یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے حجاج ان دیسی بیت الخلاؤں کے عادی نہیں ہوتے۔ یہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں دیتیں۔ لہٰذا ان کے لیے ایسے ٹوائلٹ استعمال کرنا کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کی ٹانگیں یا گھٹنے عمر یا بیماری کی وجہ سے کمزور یا نازک ہوتے ہیں ان کے لیے یہ مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔ مجھے بھی گھٹنوں کا اتھرائیٹس ہے اور برسوں سے پاؤں پر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے۔ نہ ہی ٹانگوں میں اتنی طاقت ہے۔ لہٰذا میری ٹانگوں نے جو صدائے احتجاج بلند کیا وہ میں ہی جانتا ہوں۔ یہ پہلے دو دن کی بات ہے۔ تیسرے دن عادت ہو گئی اور یہ تکلیف قدرے کم ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ انسان ہر ماحول میں جینا سیکھ لیتا ہے۔

لوگ غسل خانے کے آگے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ میں نے وہاں کوئی بدنظمی یا کسی قسم کی نوک جھونک نہیں دیکھی۔ شاید اس وجہ سے کہ یورپ اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے یہ لوگ قطار بندی کے عادی تھے۔ یا پھر حج کے موقع پر عام مسلمان جس جذبہ اخوت اور جذبہ قربانی سے بھرا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ایسی نوبت نہیں آئی۔ ورنہ عام زندگی میں ایسی جگہوں پر لڑائی جھگڑا عام سی بات ہے۔

حج کی شرائط کے مطابق جب آپ احرام باندھ لیتے ہیں تو بہت سی چیزیں اور کام آپ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں۔ مثلاً

۱۔ حجامت نہیں بنوا سکتے ۲۔ شکار نہیں کر سکتے ۳۔ خوشبو نہیں لگا سکتے۔ ۴۔ خوشبو والا صابن نہیں استعمال کر سکتے۔ ۵۔ شیمپو یا ٹوتھ پیسٹ استعمال نہیں کر سکتے ۶۔ موزے یا جرابیں نہیں پہن سکتے۔ ۷۔ بند جوتے نہیں پہن سکتے۔ ۸۔ احرام کے علاوہ کوئی اور لباس نہیں پہن سکتے۔

ان شرائط کی وجہ سے حاجی وہاں ایک خاص قسم کا صابن ہی استعمال کر تے ہیں جو خوشبو دار نہیں ہوتا۔ میں نے اس صابن کی دو ٹکیاں خرید رکھی تھیں۔ یہ ٹکیاں میں پہلے ہی روز دونوں وقت کے غسل کے دوران وہیں بھول آیا۔ لہٰذا اگلے کئی دن تک میرے پاس کوئی صابن کوئی شیمپو نہیں تھا۔ میں نلکا کھول کر کچھ دیر اس کے نیچے کھڑا رہتا اور پھر گیلے بدن پر ہی احرام لپیٹ کر باہر نکل آ تا۔ یہ عمل میں دن میں کئی دفعہ دہراتا تھا۔ جب بھی غسل خانے جانا ہوتا شاور کے بعد ہی باہر نکلتا تھا۔ دوسرے حاجی بھی اس سخت گرمی میں یہی کرتے تھے۔ شکر ہے قدرے گرم سہی نل میں پانی آتا رہتا تھا۔ پانی کی کمی صرف ایک جگہ پیش آئی۔ یہ جگہ مزدلفہ تھی۔ جہاں ہم نے نو ذوالحج والی رات قیام کیا تھا۔

دوران حج منیٰ میں پورا ایک شہر بسا ہوتا ہے۔ پچیس تیس لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ شہر دنیا کے کئی بڑے شہروں کے برابر ہو جاتا ہے۔ سڈنی جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے، کی کل آبادی بیالیس لاکھ ہے۔ برسبین جو آسٹریلیا کا تیسرا بڑا شہر ہے، کی آبادی بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ منیٰ کے اس عارضی شہر میں ترتیب سے سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ ان کھلی سڑکوں کے دونوں اطراف میں خیموں میں آنے جانے کے گیٹ ہیں جہاں سیکورٹی موجود رہتی ہے اور آپ کی شناخت کر کے ہی اندر جانے دیتی ہے۔ ان سڑکوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر وضو گاہیں، ٹھنڈے پانی کے کولر اور کچرا گاہیں ہیں۔ جہاں پر خیموں سے کچرا لا کر پھینکا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ٹرک آتے ہیں اور یہ کچرا اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ان سڑکوں پر ٹھیلے والے سودا بیچتے ہیں۔ حالانکہ کیمپ کے کچھ مخصوص علاقے ہیں جہاں باقاعدہ بازار موجود ہے۔ بہرحال ٹھیلے والے ہر کیمپ کے سامنے ٹھیلا لگائے ہوئے ہیں۔ ان میں عام اور فوری استعمال والی اشیاء اور پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان سڑکوں پر بھکاریوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ برقعہ میں ملبوس عرب خواتین بھیک بھی مانگتی ہیں اور ٹھیلہ برداری بھی کر رہی ہوتی ہیں۔

ایک دن میرے ساتھی جاوید صاحب نے میری توجہ ایک بھکاری عورت کی طرف دلائی جو بڑی صفائی سے ایک ٹھیلے سے پھل چرا کر اپنے برقعہ میں چھپا رہی تھی۔ ہمیں متوجہ پا کر بنگالی دکاندار بھی ہوشیار ہو گیا۔ اس نے بھی عورت کو چوری کرتے دیکھ لیا۔ دُکاندار نے اس عورت سے پھل واپس رکھنے کے لیے کہا تو عورت نے صاف انکار کر دیا۔ اس بنگالی دکاندار نے جب پولیس بلانے کی دھمکی دی تو عورت کے برقعے سے سیب اور کیلے برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ اس نے پھل واپس کر دیے اور دُکاندار کو بُرا بھلا کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

ہمارا خیمہ منیٰ کیمپ کے شروع کے حصے میں تھا۔ منیٰ ہسپتال، دکانیں اور دفاتر یہاں سے قریب تھے۔ اس محل وقوع کا نقصان اس وقت سامنے آیا جب ہم رمی کے لئے جمرات تک گئے۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا ہمارا خیمہ جمرات سے سب سے زیادہ دور ہے۔ اتنا دُور کہ جتنا چاہے چلتے جاؤ یہ فاصلے ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ ہم نے اگلے تین دن یہ عمل دہرا نا تھا۔ حج کے دوران سب سے مشکل کام، سب سے زیادہ رش اور سب سے زیادہ گھٹن کا سامنا رمی کے دوران ہوتا ہے۔ وہاں اکثر بڑے بڑے حادثے پیش آتے ہیں۔ 2015ء میں کئی سو حاجی یہاں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

میں اپنے خیمے سے نکل کر کبھی کسی ساتھی کے ساتھ تو کبھی اکیلا ہی ادھر ادھر گھومتا رہتا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں واپسی کا راستہ ہی نہ بھول جاؤں اپنے خیمے سے زیادہ دور نہیں جاتا تھا۔ اسے اتفاق کہیں کہ میری سستی کہ میں نے اپنے کیمپ کا نمبر بھی نوٹ نہیں کیا تھا۔ مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔ شروع میں اس کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی کیونکہ ہم کیمپ سے باہر جہاں بھی جاتے تھے اپنے گروپ کے ساتھ اور اپنے معلم کی راہنمائی میں جاتے تھے۔ اس لیے کیمپ کا نمبر اور اس کا محل وقوع یاد رکھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ میری بہت بڑی غلطی تھی جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔

اپنے کیمپ سے باہر نکل کر دوسرے حاجیوں سے ملاقات ہوتی رہتی۔ ان میں کوئی برطانیہ کے پر فضا خطے سے آیا ہوتا۔ کوئی یخ بستہ ملک کینیڈا سے اللہ کے حضور حاضری دینے کے لیے اس گرم ترین جگہ پر موجود ہوتا۔ ان میں سے چند ایک سے میرا اب بھی رابطہ ہے۔ ایک بزرگ حاجی عبدالقدوس نے کیمپ کے باہر رکھے بینچ پر بیٹھے بیٹھے اپنی کہانی سنائی۔

 

حاجی عبدالقدوس کی کہانی

___________________

 

میں پچھلے اکتیس برس سے برطانیہ میں مقیم ہوں۔ میں اپنے چچا کی مدد سے وہاں گیا تھا۔ پہلے دس برس خود کو قانونی بنانے کے چکر میں صرف ہو گئے۔ ان دس برسوں میں جو کچھ کماتا رہا میرپور (آزاد کشمیر) میں اپنی بیوی بیٹے اور بیٹیوں کے لیے بھیجتا رہا۔ جو کچھ باقی بچتا تھا وہ وکیلوں کی نذر ہو جاتا تھا۔ کئی درخواستیں رد ہوئیں۔ کئی فیسیں ضائع ہوئیں۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ نئی درخواستوں اور نئی فیسوں کے ساتھ اپنی قانونی جنگ جاری رکھی اور محنت مزدوری بھی کرتا رہا۔ اس دوران مجھے نہ تو کوئی اچھی نوکری ملی اور نہ رہنے کے لیے مستقل ٹھکانا تھا۔ میں مزدور تھا۔ کبھی کسی فیکٹری یا ویئرہاؤس میں کام کر رہا ہوتا اور کبھی کسی عمارت میں اینٹیں ڈھو رہا ہوتا۔ کام کے ساتھ ساتھ کرائے کے گھر بھی بدلتے رہتے تھے۔ گھر کیا ہوتا تھا بس رات گزارنے کا ٹھکانا ہوتا تھا۔ ان دس سالوں میں میں وطن واپس نہیں جا سکا۔ سارا دن مزدوری کرتا اور رات بچوں کو یاد کرتے گزر جاتی۔

اس ساری تگ و دو اور بدن توڑ مشقت کا یہ فائدہ ہوا کہ میرے گھر کے حالات کافی بدل گئے۔ میرے بچے غربت کے چنگل سے آزاد ہو کر خوشحال زندگی بسرلگے۔ میرا گھر میرے باپ کے وقتوں کا بنا ہوا تھا۔ میری بیوی نے اسے گروا کر وہاں نیا مکان بنوایا اور گھر میں رکھنے کے تمام لوازمات بھی خرید لیے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ کار بھی لے لی۔ جب کہ میں برطانیہ میں رہتے ہوئے ابھی تک بسوں اور ٹرینوں کے دھکے کھا رہا تھا۔ اس دوران میری بیٹیاں اور بیٹا پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج جا پہنچے۔ آخر دس سال بعد وہ وقت آ گیا جس کا مجھے بر سوں سے انتظار تھا۔ میری کوششیں رنگ لائیں اور مجھے برطانیہ کی مستقل سکونت مل گئی۔ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ احباب میں مٹھائیاں بانٹیں۔ کاغذ بننے کے فوراً بعد میں نے سامان باندھا اور پہلی فرصت میں میرپور پہنچ گیا جو صرف چند گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ لیکن اس چند گھنٹے کی مسافت نے میری زندگی کے دس برس نگل لیے تھے۔ اپنا گھر اور بچے دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔

در اصل میرے گھر والے برطانیہ جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ جب کہ ان میں سے کسی کا بھی ویزا نہیں لگا تھا۔ نہ ہی اس عمر میں بچوں کے ویزے لگنے کا امکان تھا۔ میں نے اپنی درخواست میں خود کو کنوارا ظاہر کیا تھا۔ کیونکہ اس طرح شہریت ملنے کے زیادہ امکانات تھے۔ اب اگر میں ان کو بتاتا کہ نہ صرف میں شادی شدہ ہوں بلکہ تین بچوں کا باپ ہوں تو میری فیملی کا ویزا ملنا تو درکنار میرا بھی منسوخ ہو سکتا تھا۔ مجھ پر غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا کیس بھی بن سکتا تھا۔ ان حالات میں میری فیملی کے برطانیہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نہ میں نے انہیں کبھی ایسی امید دلائی تھی۔

لیکن میری بیوی اور بچے کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس سلسلے میں وہ چاروں ہمنوا ہو گئے اور مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ میں نے بیوی کو سمجھا بجھا کر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی لیکن وہ میری بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ در اصل ہمارے عزیز و اقارب اور گاؤں کے بہت سے لوگ برطانیہ میں مقیم تھے۔ میرے گھر والے بھی ان کی دیکھا دیکھی وہاں جانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ان کے ذہنوں میں یہی تھا کہ جب فیملی کے سربراہ کو ویزا مل گیا ہے تو بقیہ گھر والوں کو خودبخود مل جائے گا۔ شاید ہمارے عزیزوں میں سے ہی کسی نے ان کو ایسا بتایا ہو۔ لیکن میری غلطی یا غلط بیانی کی وجہ سے اب یہ نا ممکن تھا۔

میں نے تو یہی سوچا تھا کہ میرپور میں رہ کر غربت کی زندگی بسر کرنے کے بجائے اپنی فیملی کے لیے قربانی دیتا رہوں گا۔ خود محنت مزدوری کر کے گھر والوں کو ہر آسائش فراہم کرتا رہوں گا۔ کم از کم میرے گھر والے تو خوش و خرم زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ان کی خوشی میں ہی میری خوشی تھی۔ لیکن خوشی شاید میری قسمت میں نہیں تھی۔ اتنی بڑی قربانی دے کر اور اپنی زندگی کے دس برس ضائع کر کے بھی میں انہیں خوش نہیں کر سکا تھا۔ ان کی خوشی یا غمی مجھ سے وابستہ نہیں تھی بلکہ برطانیہ پہنچنے میں پوشیدہ تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر کے حالات میرے لیے اتنے خراب ہو گئے کہ اس گھر میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ سب سے زیادہ دکھ مجھے اس بات کا تھا کہ جن بچوں کے لیے میں گھر سے بے گھر ہوا اور در در کی خاک چھانتا رہا وہ بھی میرے خلاف ہو گئے تھے۔ آخر تنگ آ کر صرف چھ ہفتوں بعد ہی میں برطانیہ لوٹ آیا۔ حالانکہ میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ چھ ماہ سے ایک سال تک رہ کرواپس آؤں گا۔

اگلے پانچ برس تک میں مختلف وکیلوں سے مشورے کرتا رہا کہ اپنی فیملی کو برطانیہ کیسے بلا سکتا ہوں۔ کسی نے مجھے امید نہیں دلائی۔ اُدھر میری بیوی اور بچے مجھ سے بدستور ناراض تھے حتیٰ کہ فون پر بھی بات نہیں کرتے تھے۔ در اصل میری بیوی کی جہالت نے میرے بچوں کو مجھ سے بہت بد ظن کر دیا تھا۔ پھر بھی میں بلا باغہ ہر ماہ انہیں خرچ بھیجتا رہا۔ بلکہ جو کچھ کماتا تھا تھوڑا بہت اپنے لیے چھوڑ کر سب کچھ انہیں بھیج دیتا تھا۔ حالانکہ اب میرا بیٹا جوان ہو چکا تھا اور کمانے لگا تھا۔ جسمانی اور ذہنی مشقت سے میں اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔

اس دن تو میری مایوسی اور میرے دکھ کی انتہا ہو گئی جب اطلاع ملی کہ میری بیوی نے میری بیٹی کی شادی طے کر دی ہے۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ تو درکنار مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ پچھلے سولہ سال کی تگ ودو، محنت مزدوری، سخت اور بے آرام زندگی، قانونی جنگ اور بیوی بچوں سے دوری کے دکھوں کو جھیلنے کے بعد مجھے یہی صلہ ملا تھا کہ میری بیوی اور بچے مجھے بالکل بھول گئے۔ انہوں نے میری قربانیوں، میری محبتوں اور دکھوں کو نظرانداز کر دیا تھا۔ میں اتنا دل برداشتہ ہوا کہ خودکشی کے بارے میں بھی سوچتا رہا۔

ایک دن بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں نے زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا کہ اچانک میرے خیالات بدل گئے۔ اس دن میں خودساختہ پابندیوں سے آزاد ہو گیا۔ جو مجھے بھولے ہوئے تھے میں بھی انہیں بھول گیا۔ اپنے بیوی بچوں، اپنے عزیز و اقارب اپنے دوست احباب اور اپنے وطن سے بہت دور آئرلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا بسا۔ اپنے پیچھے میں نے کوئی اتا پتا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ یہ گاؤں انتہائی پرفضا اور سادہ لوح دیہاتیوں پر مشتمل تھا۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے میں نے ایک فارم میں کام شروع کر دیا۔ تھوڑی بہت جمع پونجی میرے پاس تھی۔ کچھ قرض لے کر میں نے اپنا گھر بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ وہ فارم بھی میں نے خرید لیا جس میں کام کرتا تھا۔

اس گاؤں کے لوگ بہت سادہ دل اور پر خلوص تھے۔ انہی میں ایک خاتون مارگریٹ بھی تھی جو اس علاقے کی کونسل میں ملازم تھی۔ رفتہ رفتہ مارگریٹ اور میں قریب ہوتے گئے اور ایک دن باہمی رضامندی سے نکاح کر لیا۔ مارگریٹ نے مسلمان ہو کر اپنا نام آمنہ رکھا۔ پچھلے پندرہ سال سے ہم اکٹھے رہ رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے خوش ہیں۔ شادی کے وقت میری عمر پچاس اور آمنہ کی پینتالیس سال تھی۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ آمنہ نے اس عمر تک شادی نہیں کی تھی۔

اسے رُوحانی اطمینان حاصل نہیں تھا۔ اسلام کا مطالعہ اس نے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ وہ کبھی چرچ نہیں گئی تھی اور نہ اس نے زندگی بھر کوئی غیرا سلامی کام کیا تھا۔ جیسے جیسے وہ اسلام کا مطالعہ کرتی گئی ویسے ویسے اس کے ایمان میں پختگی آتی گئی۔ اب نہ صرف وہ پکی اور با عمل مسلمان ہے بلکہ اسلام کی حقانیت اور سچائی پر اس کا راسخ ایمان ہے۔ اس کی وجہ سے میں بھی نماز روزے کی طرف راغب ہو گیا۔ ہم یہ حج بھی آمنہ کی خواہش پر کرنے آئے ہیں۔

ہمارے گاؤں میں اب قاعدہ مسجد بنی ہوئی ہے جو میرے ہی فارم کے اندر ہے۔ یہاں پر گرد و نواح کے بہت سے مسلمان خواتین و حضرات نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں اب مسلمانوں کے چھ خاندان آباد ہیں۔ جمعہ والے دن اور عیدین پر ہمارے فارم ہاؤس میں خوب رونق ہوتی ہے۔ یہ سب آمنہ کی کوششوں اور محنت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی بلکہ میری بھی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کے اثرات ہمارے ارد گرد کے لوگوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ہر انسان کے اندر کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ عبدالقدوس سے میری اچانک اور سرسری ملاقات ہوئی تھی لیکن وہ ایک اثر انگیز کہانی سنا گئے۔ اپنے عزیز اقارب اور گھر والوں کی خاطر دیس پردیس کی خاک چھاننے والوں کی کیسی کیسی کہانیاں اور کیسے کیسے مسائل ہیں۔ اپنوں کی آسائش خاطر اپنی زمین سے دور غیروں کی مزدوری کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بجائے ٹی وی پر چند نام نہاد دانشور ایسی ایسی باتیں سنا جاتے ہیں جو نہ صرف خلاف حقیقت بلکہ لاکھوں دلوں کی آزاری کا باعث بنتی ہیں۔ وطن میں ہر طبقے کے دفاع کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے سوائے ان پردیسیوں کے جو نہ صرف اپنے کنبے اور عزیز اقارب بلکہ ملک کی خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا صلہ اکثر انہیں اس طرح ملتا ہے جیسے عبدالقدوس کو ملا۔ اپنے ہی لوگ اپنے ہی احباب اور اپنا ہی ملک نہ صرف انہیں اکیلا چھوڑ دیتا ہے بلکہ قدم قدم پران کی حق تلفی ہوتی ہے۔ جن عزیزوں کے لیے وہ باہر جا کر فکر مند رہتے ہیں وہی انہیں لوٹنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ساری زندگی کی جمع پونچی ان ’’اپنوں‘‘ پر لٹا کر اپنا بڑھاپا اولڈ ہاؤس میں سرکاری خرچ پر گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ائرپورٹ سے لے کر جہاں جہاں وہ جائیں شکار سمجھ کر کتنے ہی شکاری ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ان کی زمینیں جائیدادیں اور خون پسینے سے کمائے ہوئے گھروں پر لوگ قبضہ کر لیتے ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ روتے پیٹتے واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات ہو تے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو قیمتی زِر مبادلہ بھجوا کر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، کیا یہی انصاف ہے؟۔ جو ساری زندگی دیارِ غیر میں رہ کر بھی پاکستان کے گن گاتے ہیں، اپنے وطن کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، کب انہیں اپنا سمجھا جائے گا؟۔ کب ان پر اپنی ہی زمین تنگ کرنے کا سلسلہ بند ہو گا؟۔ کب انہیں ڈالر اور پونڈ کمانے والی مشین نہیں بلکہ جیتا جاگتا انسان سمجھا جائے گا؟۔

 

ریحان علی کی کہانی

 

منیٰ میں قیام کے دوران ہی میری ملاقات ایک باریش پاکستانی امریکن سے ہوئی۔ ریحان علی نامی یہ نوجوان لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا۔ وہ محض آزادی عیاشی اور کھیل کھیلنے کے لیے امریکہ گیا تھا۔ لیکن امریکہ جا کر چند ہی سالوں میں اس کے اندر اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ نہ صرف اس نے گناہوں سے لتھڑی زندگی چھوڑ دی بلکہ توبہ کر کے صراط مستقیم پر آ گیا۔ اس راستے پر آتے ہی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ آج منیٰ کے کیمپ میں بیٹھا اللہ اللہ کر رہا تھا۔ یہ انقلابی تبدیلی تھی۔ اور نوجوانی کی عمر میں امریکہ جیسے ملک میں اکیلے رہتے ہوئے آئی تھی۔ اس انقلاب کے پیچھے کیا محرکات کارفرما تھے، میں نے انہیں جاننے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ریحان علی نے اپنی آب بیتی یوں سنائی۔

میرا تعلق لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ میں نے بی ایس سی تک پڑھا ہے۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ لیکن میرا دھیان غلط کاموں کی طرف ہو گیا اور پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا۔ شراب اور شباب میرے روز و شب کے شغل بن گئے۔ دوستوں کی محفلیں جمتیں۔ منشیات بھی استعمال ہوتی۔ جوا بھی چلتا۔ شراب سے بھی شغل ہوتا اور بگڑی ہوئی امیر زادیوں سے بھی دل بہلتا۔ میرے دن رات جب اسی کام میں صرف ہونے لگے تو گھر والوں کو کچھ ہوش آیا۔ انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کی مداخلت پسند نہیں آئی۔ کیونکہ میرے ماں باپ اور بھائیوں نے شروع میں مجھے بالکل روکا ٹوکا نہیں تھا۔ اب جب کہ میں سرتاپا ان عیاشیوں میں ڈوب چکا تھا تو انہوں نے قدغن لگانے کی کوشش کی۔ میرے لیے واپسی اب ممکن نہیں تھی۔

جب گھر والوں نے دباؤ بڑھایا تو اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ ملک ہی چھوڑ دیا اور ویزا لگوا کر امریکہ چلا گیا۔ یہ سٹوڈنٹ ویزا تھا جو صرف تین سال کے لیے اس شرط پر کارآمد تھا کہ میں اپنی فیس باقاعدگی سے ادا کرتا رہوں۔ ہر چھ ماہ کے سمسٹر میں فیس کی مد میں اتنی بڑی رقم ادا کرنے اور اپنا خرچ پورا کرنے کے لئے مجھے زندگی میں پہلی بار نوکری کرنا پڑی۔ یہ آسان نوکری نہیں تھی۔ سخت سردی میں صبح چار بجے میں ایک سٹور میں کام کرنے جاتا تھا۔ دن کے بارہ بجے تک وزنی اشیاء ڈھو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا رہتا تھا۔ ان آٹھ گھنٹوں میں میرا انجر پنجر ہل کر رہ جاتا تھا۔ یہ بہت سخت اور تھکا دینے والا کام تھا۔ سب سے زیادہ مشکل کام صبح چار بجے گرم بستر چھوڑنا اور ٹرین کے ذریعے کام پر پہنچنا ہوتا تھا۔

ہفتے میں تین دن پڑھنے کے لیے یونیورسٹی بھی جاتا تھا۔ پڑھتا وغیرہ برائے نام تھا۔ کالج میں حاضری ضروری تھی ورنہ میرا ویزا منسوخ ہو سکتا تھا۔ ان سخت حالات میں میری عیاشیوں کا سلسلہ رک گیا۔ صرف ویک اینڈ پر چند دوستوں کے ساتھ کلب چلا جاتا تھا۔ یا پھر جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو نشے میں غرق رہتا تھا۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی۔ اسی دوران کئی لڑکیوں سے دوستی ہوئی۔ چند ایک گرل فرینڈ بھی بنیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہ سکا۔ اس کی وجہ میرے پاس وقت اور سرمائے کی کمی تھی۔ ان لڑکیوں کو دینے کے لیے نہ تو میرے پاس وقت ہوتا تھا اور نہ اتنی رقم کہ انہیں تحفے دے کر خوش کروں، انہیں گھما پھرا سکوں یا کسی ریسٹورنٹ میں لے جاؤں۔ میری آمدنی محدود تھی جس سے بمشکل فیس پوری ہوتی اور میرا گزارا ہوتا تھا۔ رہنے کے لیے میرے پاس الگ فلیٹ بھی نہیں تھا بلکہ کچھ دوستوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ان حالات میں پارٹیاں اور عیاشیاں سب ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔

میں سوچتا تھا کہ امریکہ آ کر کیا پایا۔ جانوروں کی طرح بار برداری کرتا ہوں۔ صبح سے شام تک نوکری اور پھر گھر کے کام بھی خود کرنے پڑتے ہیں۔ سونے کے لیے بھی بمشکل چند گھنٹے ملتے ہیں۔

جو تصور لے کر میں امریکہ آیا تھا کہ وہاں جا کر خوب عیاشی کروں گا وہ ملیا میٹ ہو گیا تھا۔ یہاں آ کر میں کولہو کا بیل بن گیا تھا۔ کبھی میں سوچتا کہ پاکستان واپس چلا جاؤں۔ پھر خیال آتا گھر والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ ان سے اجازت لینا تو درکنار میں تو انہیں بتا کر بھی نہیں آیا تھا۔ اب اگر ڈگری ہی لے لوں تو انہیں کچھ منہ دکھانے کے قابل ہو سکوں گا۔

یہ بھی خیال آتا تھا کہ پاکستان جا کر کروں گا کیا۔ پڑھنا تو میں نے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔ امریکہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد گرین کارڈ ملنے کے امکانات تھے۔ یہ یقینی نہیں تھا بہرحال ایک امید تھی۔ اسی لالچ، ڈر یا قوت فیصلہ کی کمی کی وجہ سے دو سال گزر گئے اور میرے شب روز تبدیل نہیں ہوئے۔ ان دو سالوں میں مزدوری، کالج اور گھر کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پایا تھا۔ اس کے باوجود میرے اندر کا شیطان زندہ اور سلامت تھا۔ تاہم میرے شب و روز اُسے کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ ان دو سالوں میں میں یہ بھی بھولا رہا کہ میں ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اتنے عرصے میں نہ تو کبھی نماز پڑھی اور نہ روزہ رکھا اور نہ عید اور شب برات کا خیال آیا۔ میرے لیے سال کے تین سو پینسٹھ دن ایک جیسے تھے۔

اس دوران ایک ترک نوجوان ہمارے ساتھ رہنے آ گیا۔ انور پاشا کا مرس میں ڈپلومہ حاصل کرنے امریکہ آیا تھا۔ دو بیڈروم والے اس فلیٹ میں دو ہندوستانی اور ایک میں مل کر رہ رہے تھے۔ اس سے پہلے ایک اور ہندوستانی طالب علم تھا جو کورس مکمل کر کے واپس چلا گیا تھا اور ایک آدمی کی جگہ خالی ہو گئی تھی۔ جہاں انور پاشا آ کر ٹھہرا۔ اس کا بستر میرے ہی کمرے میں تھا۔ انور کا تعلق استنبول کے ایک امیر گھرانے سے تھا۔ اُس کی فیس اور دیگر اخراجات کے لیے رقم ترکی سے آتی تھی۔ پھر بھی وہ ہفتے میں ایک دو دن ایک ترکش ریسٹورنٹ میں کام کر کے کچھ اضافی رقم کما لیتا تھا۔ ہم لوگ اپنا اپنا کھانا بناتے تھے۔ لیکن جس دن انور گھر ہوتا تو وہ اپنے ساتھ ہمارے لیے بھی کھانا بنا لیتا تھا جو بھنے ہوئے گوشت پر مشتمل ہوتا تھا۔ کبھی کبھار اس ک، ے ساتھ اُبلے ہوئے چاول بھی ہوتے تھے۔ ہم نے انور کو اس کا معاوضہ دینے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔

انور کے آنے سے ہمارے گھر میں کافی تبدیلی آ گئی تھی۔ یہ پہلے سے زیادہ صاف ستھرا اور سلیقے سے سجا ہوا لگتا تھا۔ تولیے بستر اور صوفے کے بجائے باہر لٹکے ملتے۔ جو تے اور بیگ ادھر ادھر بکھرے ہونے کے بجائے اپنی اپنی جگہ پر سلیقے سے رکھے ہوتے۔ انور خاموشی سے یہ کام کر دیتا تھا۔ کسی سے گلہ کرتا اور نہ احسان جتلاتا۔ اس کی دیکھا دیکھی ہم خود بھی صفائی کا خیال رکھنے لگے۔

انور پاشا پنچ وقتہ نمازی تھا اور روزانہ کچھ دیر کے لیے قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا۔ اس نے مجھے یا کسی اور کو کبھی نماز کے لیے نہیں کہا۔ اس لیے ہم اپنے حال میں خوش رہتے اور اسے اس کے حال پر چھوڑا ہوا تھا۔

ایک دن دوپہر کے وقت وہ نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر تیار ہوا تو میں نے پوچھ لیا ’’کہاں جار ہے ہو؟‘‘

اس نے سرسری لہجے میں بتایا ’’جمعہ کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں‘‘

انور کے سرسری لہجے (جیسے وہ مجھے مسلمان ہی نہ سمجھتا ہو)، جمعہ کے دن سے میری لاعلمی اور برسوں سے مسجد کا رخ نہ کرنے کے خیال سے میرا دل جھنجنا سا گیا۔ مجھے یاد آیا کہ باوجود ساری عیاشیوں اور لا پرواہیوں کے میں لاہور میں جمعہ کی نمازضرور پڑھتا تھا۔ ہم تینوں بھائی اور والد صاحب اکٹھے محلے کی مسجد میں جایا کرتے تھے۔ امریکہ آ کر جیسے میں بالکل بھول ہی گیا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ میں نے بے اختیار انور سے کہا ’’رُکو میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا‘‘

اسلامک سینٹر ہمارے گھر سے چند بلاک کے فاصلے پر تھا جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد میرے اندر ایسی طمانیت اور خوشی ہوئی کہ جب بھی وقت ملتا میں انور کے ساتھ مسجد چلا جاتا۔ آہستہ آہستہ میں اپنا خالی وقت وہیں گزارنے لگا۔ امام صاحب سے جن کا تعلق پاکستان سے تھا، میری اچھی رسم و راہ پیدا ہو گئی۔ امام صاحب کی باتوں میں بہت تاثیر تھی۔ لہٰذا میں کوشش کرتا تھا کہ ان کا وعظ ضرور سنوں۔ مسجد کے ماحول، انور کی دوستی اور مولانا صاحب کے لیکچر نے میرے اندر تبدیلی لانی شروع کر دی۔ اب میں پنچ وقتہ نماز ادا کرنے لگا تھا۔ اگر کوئی نماز قضا ہوتی تو مجھے اپنے اندر ایک کمی اور خلا سا محسوس ہوتا۔ اس سے مجھے دکھ اور پچھتاوا ہوتا۔ اس دوران میرا کورس بھی مکمل ہو گیا۔ سال ڈیڑھ سال کی مزید تگ ودو کے بعد مجھے گرین کارڈ بھی مل گیا۔ گرین کارڈ ملتے ہی میں وطن واپس گیا۔ میرے والدین میرے ماضی کے کرتوتوں کی وجہ سے مجھ سے مایوس ہو چکے تھے۔ میں نے پاکستان میں رہ کر بھی ان کی کبھی نہیں سنی تھی اور ان کی مرضی کے خلاف ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب میرا حلیہ اور میرے اندر آئے ہوئے انقلاب کو دیکھا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ میری ماں جو شروع سے ہی صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی اور میری حرکتوں سے نہ صرف نالاں بلکہ شرمندہ ہوتی تھی مجھے راہ راست پر دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئی۔ ایک تو میں برسوں بعد گھر لوٹا تھا دوسرا یہ کہ ان کی منشا کے مطابق اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے پر چل نکلا تھا۔

میری چھٹیوں کے دوران گھر والوں نے میری شادی کرا دی۔ اللہ کے فضل سے میری اہلیہ بھی قرآن وسنت پر عمل پیرا ہے جس سے ہمارے درمیان بہت ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ ہم دونوں امریکہ میں نہ صرف اپنی ملازمت کرتے ہیں بلکہ چھٹی والے دن اسلامک سینٹر میں رہ کر لوگوں تک اللہ کا پیغام پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے گھر میں خوشیاں ہیں اور اس سے بڑھ کر اس کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ اللہ نے ہمیں آج یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی اہلیہ اور اپنے والدین کو حج پر لے کر آیا ہوں۔ میرے والدین کبھی پاکستان میں اور کبھی امریکہ میں آ کر میرے پاس رہتے ہیں۔ وہ مجھے اور میں انہیں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔

 

بغیر اندراج حاجی

___________________

 

منیٰ کے کیمپ میں ایئر کنڈیشنر تو نہیں لگ سکتے کیونکہ یہ شامیانے ہوتے ہیں اور ہر طرف سے ہوا داخل اور خارج ہوتی رہتی ہے۔ تاہم وہاں پائپ نما پنکھے نصب ہوتے ہیں۔ جو کافی موثر ہوتے ہیں۔ ان پنکھوں سے گرمی کا زور قدرے ٹوٹ جاتا ہے۔ شامیانوں کے اندر گرمی کافی حد تک قابل برداشت ہوتی ہے۔ دن کے وقت شامیانے سے باہر نکلتے ہی سورج جیسے سوا نیزے پر محسوس ہوتا ہے۔ دوران حج پیدل بہت چلنا پڑتا ہے۔ اس شدید گرمی اور ہجوم میں پیدل چلنا دل گردے کا کام ہے جسے لوگ اللہ کی رضا کی خاطر ہنسی خوشی برداشت کر لیتے ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ مشکل اور سخت کام میں نے ان لوگوں کو کرتے دیکھا جو باقاعدہ اور رجسٹرڈ حاجی نہیں تھے۔ بلکہ اپنا نام اندراج کرائے اور سرکاری فیس ادا کئے بغیر کسی طور حج کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے عازمین کو نہ تو کوئی کیمپ الاٹ ہوتا ہے اور نہ کوئی شامیانہ ملتا ہے۔ انہوں نے حج کی شرائط کے مطابق منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قیام کرنا ہوتا ہے اور جمرات کی رمی کرنی ہوتی ہے۔ وہ لوگ اپنا بوریا بستر لے آتے ہیں اور کیمپوں کے درمیان جو سڑک ہے اس کے کنارے پر دری یا گدا بچھا کر لیٹ جاتے ہیں۔ یہ انتہائی مصروف اور گرد و غبار سے اٹا راستہ ہے جہاں بے شمار لوگ ہر وقت ادھر ادھر آ جا رہے ہوتے ہیں۔ صفائی والے ٹرک، راشن سپلائی والی گاڑیاں اور بسیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ خاکروب سڑک صاف کرتے ہیں۔ ٹھیلے والے اور بھکاری بھی اپنے دھندوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کے بیچ میں چوبیس گھنٹے پڑے رہنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ان حاجیوں کے سر پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔ رات کے وقت وہ شاید جیسے تیسے سو جاتے ہوں لیکن دن بھر آرام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دن کے وقت تیز دھوپ ہوتی ہے۔ شور شرابہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی مسلسل آمدورفت رہتی ہے۔ ایسے میں ایک گدّا اور ایک تھیلا لے کر راہ میں پڑے رہنا انہی لوگوں کا کام ہے۔ یہ لوگ خاصی بڑی تعداد میں منیٰ میں موجود ہوتے ہیں۔ میں پورے منیٰ کیمپ میں تو نہیں گیا لیکن میرے اپنے کیمپ کے اردگرد ان بوریا نشینوں کی تعداد درجنوں تھی۔ پورے منیٰ میں یہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ با ہمت لوگ ہیں جو کم وسائل کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے آ گئے تھے۔

انہی کی طرح دوسرے سینکڑوں حاجی ہمارے کیمپ کے سامنے والے بڑے سے پہاڑ پر نیچے سے لے کر اوپر تک پتھروں پر مقیم تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن سے لے کر کافی بلندی تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پتھروں کی طرح پڑے نظر آتے تھے۔ جب یہ اٹھتے بیٹھتے یا چلتے پھرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ پتھر نہیں انسان ہیں۔ یہ بھی ہماری طرح حج کے لیے آئے تھے۔ اس سنگلاخ اور تپتے ہوئے پہاڑ پر وہ دن کیسے گزارتے ہوں گے یہ سوچ کر ہی حیرت ہوتی تھی۔ اس سرخ سنگلاح پتھروں سے بھرے اور چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے پہاڑ پر وہ صبر اور ہمت سے بیٹھے رہتے تھے۔ بعض لوگ کہتے کہ یہ مقامی بدّو ہیں جو اس موسم کے عادی ہیں۔ بعض کہتے یہ پاکستان بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مزدور ہیں جو سارا سال اس موسم میں کام کرتے ہیں اور ان کو عادت ہو گئی ہے۔

کچھ بھی ہو وہ انسان ہیں۔ گرمی دھوپ اور تپش کا احساس انہیں بھی ہوتا ہو گا۔ اس چلچلاتی دھوپ کو برداشت کرنے کے لیے جس صبر حوصلے اور قوت برداشت کی ضرورت ہے کاش کہ وہ مجھے بھی حاصل ہو جائے۔ یہ قوت ایمانی ہے جو ان کو اس انتہائی سخت موسم کو برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اے اللہ میرے اندر بھی یہ جذبہ ایمان، یہ حوصلہ اور صبر و شکر کی طاقت عطا فرما۔ آمین

کچھ احباب نے بتایا کہ یہ وہ پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی ہیں جو ویزا ختم ہونے کے بعد محض اس لیے یہاں رکے ہوئے ہیں کہ وطن جانے سے پہلے حج ادا کر لیں۔ پھر نہ جانے زندگی میں یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ حالانکہ ان غریبوں پر شاید حج فرض بھی نہ ہو لیکن وہ اس ثواب عظیم سے محروم نہیں ہونا چاہتے خواہ بعد میں جیل میں ہی جانا پڑے۔ اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ کچھ لوگ اسے غلط بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ غیر قانونی طریقہ ہے۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے ہر مومن کے دل میں اللہ کے گھر کی زیارت کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ یہ منیٰ، عرفات، مزدلفہ کے میدان اہل ایمان کو بلاتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب فرزندانِ توحید حج کر رہے ہوتے ہیں تو دنیا بھر کے لوگ انہیں ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر مومنین کے دل میں شوق و عقیدت انگڑائیاں لیتی ہے۔ ان مقدس مقامات کی زیارت کی خواہش دل میں ابھرتی ہے۔ وسائل ہونا یا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ دل کا معاملہ ہے جسے صرف اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کسی کو سمجھانا اور بات ہے اور اس کے جذبات کو سمجھنا اور بات ہے۔ مسلمانوں کا مکہ مدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ سے انتہائی جذباتی رشتہ ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو بھی مسلمانوں کے اس جذبے کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی اس لیے یہاں رک جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر سکے تو اس جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ ایسے لوگوں کو سزا دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

غریب اور بے وسیلہ مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی پر اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم دے سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر نیک مومن کو اپنے گھر اور اپنے نبیﷺ کے آخری ٹھکانے کی زیارت نصیب فرمائے۔

 

میدانِ عرفات کا قیام

___________________

 

نو ذوالحج کی صبح ہم میدان عرفات جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بڑی بڑی بسوں میں بیٹھ کر ہمارا قافلہ عرفات کی جانب چلا تو جلد ہی منیٰ سے نکل کر بیرونی شاہراہ پر آ گئے۔ میدان عرفات میں جانے کے لیے بہت سی کھلی کھلی سڑکیں موجود ہیں۔ جو اس وقت بسوں کاروں اور دوسری گاڑیوں سے بھری تھیں۔ ایک انچ جگہ بھی خالی نظر نہیں آتی تھی۔ چند کلومیٹر پر مشتمل یہ فاصلہ ہم نے تقریباً تین گھنٹے میں طے کیا اور پہاڑی پر واقع سفید رنگ کی مسجدِ نمرہ سے کافی نیچے میدان میں ایک سجے سجائے خیمے میں پہنچ گئے۔ یہاں بھی خیمے دور دور تک ترتیب سے بنے ہوئے تھے۔ تاہم دن کے وقت ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے لوگ بغیر خیموں کے اس میدان میں مقیم تھے۔ ہمارے خیمے کے ساتھ ہی ہمارے گروپ کی خواتین کا خیمہ تھا۔ ایک طرف غسل خانے اور وضو گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ چائے اور مشروبات کا بہت اچھا بندوبست تھا۔ علاوہ ازیں ڈبوں میں بند کھانا بھی مہیا کیا گیا۔ لبیک والے اس معاملے میں کافی منظم تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میدانِ عرفات احرام پہنے حاجیوں کی وجہ سے سفید ہوتا جا رہا تھا۔ اُوپر پہاڑی سے لے کر نیچے دور تک پھیلی ہوئی وادی تک سفید لباس میں ملبوس فرزندانِ توحید اللہ کے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اس میدان میں جمع تھے۔ ایسا منظر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ چمکتے دمکتے سورج کی روشنی میں پوری وادی سفید ہو گئی تھی۔ شاید فرشتے بھی ایڑھیاں اُٹھا اُٹھا کراس منظر کو دیکھ رہے ہوں گے۔ حاجیوں کی زبانوں پر لبیک اللّھَمَ لبیک کا تلبیہ جاری تھا۔ دل میں اللہ کے دربار میں حاضری کا جوش تھا۔ ان کی نظریں آسمانوں پر ٹکی تھیں۔ وہ اپنے رب سے ہمکلام ہونے کے لیے یہاں جمع ہوئے تھے۔

میدان عرفات کے اس قیام کو حج کا رُکن اعظم کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر سے مغرب تک اس میدان میں قیام کیا جائے۔ مغرب کے وقت یہاں سے مزدلفہ کے لیے روانگی ہوتی ہے۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں اکٹھی ادا کی جاتی ہیں۔ یہ رات مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے گزاری جاتی ہے۔ میدان عرفات میں قیام کے دوران بظاہر ظہر اور عصر کی نمازوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ عام حاجی حج کا خطبہ نہیں سن پاتے۔ لیکن اِس میدان میں میں نے حاجیوں کے دل کا غبار نکلتے بلکہ انہیں اندر سے دھُلتے دیکھا۔ یہاں پر دعائیں اس طرح مانگی جاتی ہیں جیسے رب اور بندے کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ یہاں دُعا مانگنے کا جو مزا، جو سکون اور جو اطمینان ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دعا کے الفاظ زبان سے نکلے نہیں اور انہیں شرفِ قبولیت حاصل ہو گئی۔ یہاں مانگی جانے والی دعاؤں کی پہنچ آسمانوں تک ہوتی ہے۔ میدان عرفات میں حاجی توبہ استغفار کرتے ہیں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ وہ اپنی اور اپنے خاندان اور ملک و ملت کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔

ہمارے خیمے کے طول و عرض میں حاجی مختلف مصروفیات میں مشغول تھے۔ کچھ نوافل پڑھ رہے تھے۔ کچھ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ کچھ حاجی گروپوں میں بیٹھے حج کے ارکان اور شرائط پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ یہاں چند گھنٹے ہی گزارنے ہوتے ہیں اس لیے حاجیوں کو مخصوص جگہیں الاٹ نہیں کی گئیں۔ وہ اپنی سہولت کے مطابق جہاں دل چاہے بیٹھ سکتے تھے۔

میں اور جاوید صاحب اپنے کیمپ سے باہر نکل کر کھلی شاہراہ پر آ گئے۔ اس شاہراہ کی اونچائی سے دور و نزدیک کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف سفید احرام میں ملبوس فرزندانِ توحید نظر آ رہے تھے۔ مسجد نمرہ جو وہاں سے کافی بلندی پر واقع تھی اس کے ارد گرد بہت ہجوم دکھائی دیتا تھا۔ ہمیں انتظامیہ نے منع کر دیا تھا کہ وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی اس کے اندر جانے کی جگہ ملے گی۔ خواہ مخواہ گرمی، رش اور اونچائی کی وجہ سے کوئی حادثہ یا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہمارے معلم نے کہا ’’یہ پورا میدان ہی آج مسجد ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں آج کے دن اللہ اپنے بندوں پر اپنی رحمتیں برساتا ہے۔ یہ اس سے مانگنے کا دن ہے۔ یہ گناہوں سے نجات پانے کا دن ہے۔ بس اس سے مانگتے رہیں۔ اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرتے رہیں۔ اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور عالم اسلام کے لیے اللہ سے خیر و عافیت اور دنیا اور آخرت کی کامیابی طلب کرتے رہیں۔ اللہ یہ دُعائیں ضرور سنتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مانگی گئی دُعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ خدا اپنے بندوں کو یہاں سے مایوس نہیں لوٹاتا۔ وہ اپنے بندوں کا دامن اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیتا ہے۔ بس یہ دامن ربِّ ذوالجلال کے آگے پھیلاتے رہیں۔ آپ کا دامن بھر جائے گا اس کی رحمتیں کم نہیں ہوں گی۔ آج کے دن اس کی رحمتیں بے بہا اور بے شمار ہیں۔ بے شک اس سے بڑا رحمن اور اس سے بڑا رحیم کوئی نہیں ہے۔

کیمپ سے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر ہم نے دیکھا کہ مختلف قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیاں آتی ہیں۔ وہ حاجیوں میں پانی کی بوتلیں دیگر مشروبات اور ڈبے میں بند کھانا تقسیم کرتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ ان اشیاء سے وہ حاجی صاحبان مستفید ہو رہے تھے جو کیمپ سے باہر اور کھلے آسمان تلے دن گزار رہے تھے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست ان کی انتظامیہ کی طرف سے تھا یا نہیں تاہم وہاں اشیائے خورد و نوش کی کمی نہیں تھی۔ منیٰ اور عرفات میں ہمارے پاس جو کھانا زائد از ضرورت ہوتا تھا ہم باہر لا کر ان ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ میرے خیال میں کیمپوں سے باہر رہنے والے اور کام کاج کرنے والے کسی بھی شخص کو وہاں کھانے کی کمی ہر گز نہیں ہو گی۔ منیٰ کے کیمپ میں کھانا وافر مقدار میں آتا تھا۔ اسے پھینکنے سے پہلے باہر سڑک پر موجود ٹھیلے والوں، بھکاری خواتین، بے خیمہ حاجیوں کے درمیان بانٹ دیا جاتا تھا۔ دوسرے عام کیمپوں والے بھی یہی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات کھانا اور پانی گاڑیاں میں لاد کر لاتے تھے۔ حج کے دوران مکہ، مدینہ، عرفات، عزیزیہ، غرضیکہ جہاں جہاں حاجی اور مسافر انہیں ملتے تھے وہ ان کے درمیان تقسیم کرتے رہتے تھے۔ عزیزیہ جیسی جگہ جو بنیادی طور پر رہائشی علاقہ ہے حج کے دنوں میں وہاں بے شمار حاجی گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سڑکوں اور گلیوں میں یہ کھانا اور پانی تقسیم ہوتا رہتا تھا۔ اللہ کے یہ بندے خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں کھجوریں اور کھانا بانٹ رہے ہوتے۔ مسجد نبویؐ سے نماز پڑھ کر باہر نکلیں تو کئی دروازوں کے باہر کھانا تقسیم ہو رہا ہوتا۔ میری ملاقات ایسے کئی حاجی صاحبان سے ہوئی جو اس کھانے سے استفادہ کرتے تھے اور خود کھانا بنانے کے تردّد سے بچے رہتے تھے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ان لوگوں میں مقامی سعودیوں کے علاوہ دوسرے ملکوں کے مسلمان بھی شامل ہیں جو سعودیہ میں مقیم ہیں۔

یہ بھی کیسا منظر ہوتا ہے کہ لوگ اپنی محنت سے کمائی حلال آمدنی اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر دل کھول کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کے نظام میں صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور نفاق فی سبیل اللہ نے ایک توازن اور ایک حسن قائم کر رکھا ہے۔ ا س معاشرے میں ناداروں، مسافروں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مخیر اور اہل زر کا ہے۔ اس سے معاشرہ کتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اس معاشرے میں کوئی بے بس اور مجبور نہیں ہوتا۔ کوئی بھوکا اور ننگا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کو اس کے حصے کے مطابق رزق اور پناہ مل جاتی ہے۔ کاش کہ اسلام کا یہ نظام مکمل طور پر نافذ ہو جائے اور اسلامی معاشرے کا ہر فرد اس سے مستفید ہو سکے۔

ظہر کی نماز کے وقت میں وض وکرنے گیا تو وہاں گھڑی اتار کر رکھی۔ وضو کے بعد وہاں سے اٹھانا بھول گیا۔ نماز پڑھنے کے کافی دیر بعد اس گمشدگی کا احساس ہوا۔ یہ خاصی قیمتی گھڑی تھی۔ میں جلدی جلدی خیمے سے نکل رہا تھا۔ ادھر سے ہماری انتظامیہ یعنی لبیک کے باس کا بیٹا اندر داخل ہو رہا تھا۔ سلام دینے کے بعد اس نے پوچھا ہے ’’خیریت ہے نا؟‘‘

میں نے کہا ’’یوں تو خیریت ہے۔ میں اپنی گھڑی وضو گاہ میں بھول آیا ہوں۔ وہی لینے جا رہا ہوں‘‘

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’آپ اطمینان سے جائیں آپ کی گھڑی وہیں ہو گی۔ اسے کوئی نہیں اٹھائے گا‘‘

وہی ہوا۔ میری گھڑی وہیں تھی جہاں میں نے رکھی تھی۔ اس دوران سینکڑوں لوگ وہاں گئے ہوں گے لیکن کسی نے گھڑی چھونے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اس میدان میں ہر شخص اس وقت اللہ کا سپاہی بنا ہوا تھا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ ہر دل میں موجزن تھا۔ وہ کسی غلط کام کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ جذبہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں جاگزین رکھے۔

ظہر اور عصر کے درمیان ہمارے کیمپ میں اجتماعی دُعا ہوئی جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ہمارے اور خواتین کے کیمپوں کے درمیان مشترکہ ساؤنڈ سسٹم قائم تھا۔ کیونکہ وہ بھی امام صاحب کی اقتداء میں نماز ادا کرتی تھیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ دُعا کون کروا رہا تھا۔ کیونکہ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے اس کا چہرہ واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ دُعا اُردو یا عربی میں نہیں تھی۔ ہماری مادری، قومی یا علاقائی زبان میں بھی نہیں تھی۔

شاعر نے کہا تھا

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ہماری شرح آرزو زبان غیر یعنی انگریزی میں تھی۔ ہمارے گروپ میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کی مادری زبان انگریزی ہو گی۔ ہمارا قافلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے آیا تھا لیکن ہم میں سے بیشتر کی مادری اور پہلی زبان اُردو، عربی، بنگالی، پنجابی اور پشتو وغیرہ تھیں۔ ہم سب نے انگریزی زبان سیکھی تھی۔ یہ ہماری پہلی یا ترجیحی زبان نہیں تھی۔ صرف ہماری اولادوں میں وہ نوجوان جو آسٹریلیا میں ہی پلے بڑھے تھے ان کی پہلی اور ترجیحی زبان انگریزی تھی۔ لیکن ایسے نوجوان ہمارے درمیان بہت کم تھے۔ بہت سے خواتین و حضرات کی انگریزی خاصی کمزور تھی۔ لیکن آج زبان کسی کے آڑے نہیں آئی۔

ہمارے دُعا خواں نے اپنی پر سوز آواز اور درد بھرے اندازسے وہ سماں باندھا کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سب کو اپنے دل میں اُترتا محسوس ہو رہا تھا۔ دُعا خواں کے دِل سے نکلی ہوئی دعاؤں میں اتنی رقّت، اتنا سوز، اتنا درد اور اتنا عجز تھا کہ کیمپ میں موجود شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جس کی آنکھوں سے اشک رواں نہیں ہوں گے۔ جو دُعا خواں کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے خود مجسم دُعا نہ بن گیا ہو۔ کوئی شخص بھی بیٹھا نہ رہ سکا۔ سب قبلہ رُو کھڑے تھے۔ سب ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔ نظریں جیسے کسی خاص مرکز پر جمی ہوئی تھیں۔

وہ دعائیں تھیں التجائیں تھیں یا کراہیں تھی کہ اس کا اثر سے زمین آسمان پر نظر آ رہا تھا۔ اشکوں سے چہرے، داڑھیاں اور احرام تر ہو رہے تھے۔ دُعا مانگنے والے کے اندر کا درد، کرب اور التجا سب کو اپنے دل کی صدا محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے الفاظ اس کی طلب سب کو اپنی طلب لگ رہی تھی۔ اس کا رونا سب کو رُلا رہا تھا۔ اس کی دعاؤں، اس کی التجاؤں اور اس کی تڑپ نے کٹھور سے کٹھور شخص کو بھی آبدیدہ کر دیا تھا۔ اشک ایسے بہہ رہے تھے جیسے برسات ہو رہی ہو۔

میرے ساتھ نیوزی لینڈ سے آیا ہوا ایک حاجی کھڑا لب بہ دُعا تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کامقامی سیاہ فام تھا۔ معلوم نہیں کب وہ یا اس کے آباء و اجداد مسلمان ہوئے تھے۔ اللہ کے دربار میں دُعا مانگتے ہوئے وہ اس قدر ڈوب چکا تھا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی اور اس کا احرام تر ہو گئے تھے۔ اس کی زبان پر بار بارایک ہی لفظ آ رہا تھا۔ اللہ!

اس کے دل کا سارا درد اس ایک لفظ میں سمٹ آیا تھا۔ اللہ پریقینِ کامل کا حامل اور اس سے نجات کا طالب یہ شخص اللہ اللہ ایسے پکار رہا تھا جیسے اس کا کلیجہ کٹ کر باہر آ جائے گا۔ اس کا بال بال اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ اللہ کوپکارنے کے اس انداز سے اللہ سے اس کے گہرے رشتے کا پتہ چلتا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اسے اللہ اپنے سامنے نظر آ رہا ہے۔ اللہ سے اس کی عقیدت اور محبت اس کی پکار سے ظاہر تھی۔ اسے اپنے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ ہونٹوں پر پیپڑیاں جمی ہوئی تھیں اور بدن کانپ رہا تھا۔

مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ میں نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی تو کافی دیر تک اسے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ اچانک وہ لہرایا اور سجدے میں چلا گیا۔ سجدے میں بھی اس کا جسم ہچکولے کھا رہا تھا اور اللہ اللہ کی صدا بلند ہو رہی تھی۔

یہ شخص تھوڑی دیر پہلے ملا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ نیوزی لینڈ سے آیا ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ شخص مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا۔ نہ جانے کون تھا وہ۔

حج پر جا کر پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ میں دُعا ایسے مانگتا تھا جیسے بے خیالی میں سانس لیتے ہوں۔ جیسے کسی سوچ میں گم ہوں اور کھا نا بھی کھا رہے ہوں۔ جیسے رٹا رٹایا ایسا سبق پڑھ رہے ہوں جس کا مطلب بھی سمجھ نہ آتا ہو۔ جیسے پہاڑا سنا رہے ہوں۔ دعا مانگتے ہوئے نہ تو مجھے مقام دُعا یاد رہتا تھا اور نہ اس کی یاد آتی تھی جس سے مانگتا تھا۔ یہ رٹی رٹائی دُعا تھی جو بچپن میں یاد کی تھی۔ حالانکہ اس عربی دعا کا ترجمہ مجھے آتا تھا۔ لیکن دعا مانگتے ہوئے یہ ترجمہ میرے ذہن میں نہیں ہوتا تھا۔

بے شک ہمارا رب غفور الرحیم ہے۔ وہ ہماری حاجات سے واقف ہے۔ ہمارے دلوں کے بھید جانتا ہے۔ وہ ہماری دعائیں سنتا ہے۔ وہ ہمیں نوازتا رہتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کے قریب ہونے کی ضرورت ہے۔ بہت قریب۔ اتنا قریب جتنا وہ ہمارے قریب ہے۔ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی اس کے بارے میں ایسا سمجھتے ہیں۔ کیا ہماری زندگیاں اسی انداز میں گزرتی ہیں جس انداز میں وہ چاہتا ہے۔ کیا ہم اس کے فرمان پر ویسے ہی عمل کرتے ہیں جیسے وہ چاہتا ہے۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ تو پھر ہم اس سے اتنے دور دور کیوں ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی رحمتیں اور نعمتیں بھول جاتے ہیں۔ اس کی جزا اور سزا کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اپنی موت کو بھول جاتے ہیں جو برحق ہے۔ آخر ہماری یادداشت اتنی کمزور کیوں ہے۔ شاید یہی ہمارا امتحان ہے۔ کاش کہ رب کی موجودگی کا احساس ہر وقت میرے ساتھ رہے۔ کاش کہ میری دعاؤں میں وہ تاثیر پیدا ہو جائے جو اسے پسند ہے۔

میدانِ عرفات میں جس طرح ہمارے پیشوا نے دُعا مانگی اس طرح ہم روزانہ نہیں تو ہفتے عشرے میں مانگیں تو ہمارے دلوں پر زنگ نہیں جمے گا۔ میرے رب کو اپنے بندوں کی اطاعت، فرمانبرداری اور دعائیں بہت پسند ہیں۔ یہی تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے فرمانبردار رہیں۔ جو بھی حاجت ہو اسی سے مانگیں۔ بس شرط یہ ہے کہ جب بھی مانگیں دل سے مانگیں۔ گڑ گ ڑا کر مانگیں۔ اس سے توبہ استغفار کرتے رہیں۔ اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔ اس کا رحم اور اس کا کرم طلب کرتے رہیں۔ اللہ سے رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔ دعاؤں کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔

آسٹریلیا میں ایک ڈاکٹر صاحب ہمارے اچھے دوست ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہیں حج کا شوق چرایا لیکن ان کا دل و دماغ پوری طرح اس طرف مائل نہیں تھا۔ ساری زندگی دین سے دوری میں گزری تھی۔ اللہ معاف کرے ایمان بھی ڈانواں ڈول رہتا تھا۔ تاہم آبائی دین ہونے کی وجہ سے رسمی مسلمانیت باقی تھی۔ حج کا خیال آیا تو محض فرض سمجھ کر چل پڑے۔ دل میں کوئی تڑپ اور توبہ کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ عمرے کے دوران بھی ان پر اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ لیکن ان میں اصل تبدیلی خانہ کعبہ یا مسجد نبویﷺ میں نہیں بلکہ اونچے سنگلاخ پہاڑوں سے گھرے میدانِ عرفات میں آئی۔

وہ ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ ان کا گروپ الگ تھا۔ حج کے بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا ’’یار میرے ساتھ عجیب واقعہ ہوا۔ میدانِ عرفات میں پہنچتے ہی نہ جانے کیوں میرے آنسو رواں ہو گئے۔ یہ آنسو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میری پوری زندگی ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگی۔ پہلے بچپن کا خیال آیا جہاں والدین کے زیر سایہ دین کی تعلیم حاصل کی، قرآن مجید پڑھنا سیکھا اور نماز روزے کی بھی تربیت دی گئی۔ ا سکول کی حد تک نماز میں پابندی رہی اور دین سے تعلق قائم رہا۔

کالج جاتے ہی یہ سلسلہ ختم ہوا اور پھر ڈاکٹر بننے کے بعد میں صرف نام کا مسلمان رہ گیا۔ عید پر بھی مسجد کی شکل نہیں دیکھتا تھا۔ سائنس اور میڈیکل میں اُلجھ کر میرا ایمان بھی ڈانواں ڈول ہو گیا تھا۔ پوری زندگی اسی طرح گزر گئی۔ اب بڑھاپے میں دورانِ حج اور وہ بھی قیامِ عرفات کے دوران معلوم نہیں کیا ہوا کہ اپنے سارے گناہ ایک ایک کر یاد آنے لگے۔ اپنی بد اعمالیاں اور اللہ سے دوری ستانے لگی۔ احساسِ گناہ اور یہ پچھتاوا اتنا بڑھا کہ آنسور کنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ زبان سے اللہ اللہ کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا تھا۔ روتے روتے جیسے میرے اندر کی کالک بھی دھل گئی اور اللہ کا نور دل و دماغ میں سمانے لگا۔ رکوع و سجود میں لطف آنے لگا۔ اذان کی آواز سے پیار ہونے لگا۔ قرآن پڑھنا جیسے میں بھول چکا تھا پھر سے وہ وردِ زبان ہو گیا۔ آسٹریلیا واپس آیا تو میں مختلف شخص تھا۔ خالی ہاتھ گیا تھا دامن بھر کر لوٹا۔ میں نے زندگی بھر جو دولت جمع کی وہ ان چند دنوں کی حاصل کردہ دولت کے آگے ہیچ ہے۔ میرے اندر اللہ نے اتنی بڑی تبدیلی پیدا کر دی کہ گھر والے اور دوست احباب حیران رہ گئے۔ یہ اللہ کا کرم ہے اور اس مقدس جگہ کی برکت ہے کہ مجھ جیسے گناہ گار کو بھی ہدایت کی روشنی نصیب ہوئی۔

میرے ساتھی جاوید صاحب جو کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوتے تھے انہیں بھی میں نے میدانِ عرفات میں روتے اور گڑگڑاتے دیکھا۔ حالانکہ وہ عبادات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ فرض نماز پڑھ لیتے تھے اور بس۔ ادھر ادھر گھومتے پھرتے، چائے اور سگریٹ سے شغل کرتے یا پھر آرام کرتے رہتے تھے۔ لگتا تھا کہ حج پر نہیں چھٹیاں منانے نکلے ہیں۔ لیکن میدانِ عرفات میں دورانِ دُعا ان کی حالت دیدنی تھی۔ وہ گڑ گڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ یا اللہ تو کتنے رنگ دکھاتا ہے۔ تیرے بندوں میں تیرے ہی رنگ بکھرے ہیں۔ کائنات کے تمام رنگ تیرا ہی پرتو ہیں۔

ہمارے اجتماعی دُعا تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔

خوب گھٹائیں چھائیں۔

اور برکھا برسی۔

ہر طرف جل تھل کا سماں ہو گیا۔

برکھا کی یہ جلترنگ سنگلاخ اور بے آب و گیاہ چٹانوں پر بھی برسی۔

وہاں سے بھی جھرنے بہہ نکلے۔

خشک ندی نالے بھرنے لگے۔

مرجھائی ہوئی کھیتیاں ہری ہونے لگیں۔

جب برکھا تھمی تو پتہ پتہ بوٹا بوٹا بھیگ چکا تھا۔

سوکھی کھیتیوں میں جان پڑ گئی تھی۔

زمین سے نئی کونپلیں سر اُٹھا رہی تھیں۔

درخت، پہاڑ، گھاس پھونس سب دھل کر تر و تازہ اور نکھر چکے تھے۔

دور آسمانوں پر سات رنگوں کی قوسِ قزح نئے موسموں کی نوید دے رہی تھی۔

٭٭٭

 

میرے قریب جو حاجی مقیم تھے ان میں سے ملبورن سے آئے ہوئے ایک پروفیسر تھے، کینبرا سے آئے ایک ڈاکٹر تھے۔ دوسرے لوگ بھی تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدوں پر فائز اور کاروباری شخصیات تھیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ہمیں بہت فائدہ ہوا کیونکہ وہ ہمیں طبی مشورے دیتے تھے۔ یہ مشورے وہ مشورہ طلب کیے بغیر نہیں دیتے تھے۔

تاہم ہمارے ساتھ ایسے احباب کی کمی نہیں تھی جو مفت مشوروں کی فیکٹریاں تھیں۔ کچھ احباب طبی مشورے دیتے تھے اور کچھ دینی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ مثلاً میرے ہی شہر کے ایک صاحب جب بھی مجھے ملتے تو کہتے ’’آپ نے بال نہیں کٹوائے۔ آپ کا حج کیسے ہو گا‘‘

میں نے عرض کیا ’’میں نے حج قِرِان کی نیت کی ہے۔ اس میں دس ذوالحج والے دن قربانی کے بعد بال کٹوائے جاتے ہیں‘‘

کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حج کی شرط یہ ہے کہ سات ذوالحج تک عمرہ کر کے بال کٹوانے پڑتے ہیں ورنہ آپ کا حج نہیں ہوتا‘‘

میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ٹالنے کے لیے کہا ’’کچھ ذمہ داری معلمین کے لیے بھی رہنے دیں۔ آخر ہم انہیں اس کا معاوضہ دیتے ہیں‘‘

وہ ہمارے ساتھ ہمارے معلم کو بھی غلط ثابت کرنے پر تل گئے۔ وہاں سے اٹھ کر ہی میں نے اپنی جان چھڑائی۔ وہ جب بھی ملتے پھر وہی موضوع چھیڑ دیتے۔

ہمیں احرام کا ایک سیٹ لبیک والوں نے دیا تھا۔ میں نے مدینہ منورہ سے ایک اور احرام خرید لیا۔ سوچا اگر دوران حج ایک احرام زیادہ میلا ہو گیا تو دوسرا استعمال کر لوں گا۔ وہی ہوا۔ دو دن میں ہی احرام بہت زیادہ میلا ہو گیا۔ میں نے دوسرا احرام نکال کر پہننا چاہا۔ لیکن اس کی چادریں اتنی چھوٹی نکلیں کہ میرے بدن کو ڈھانپنے سے قاصر تھیں۔ لہٰذا میں نے وہ احرام استعمال کئے بغیر پھینک دیا۔ جب میں یہ احرام خرید رہا تھا تو دکاندار سے میں نے ایک ہی بات پوچھی تھی ’’کیا تمام احرام کا سائز ایک ہی ہوتا ہے یا یہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں‘‘

دکاندار نے بڑے وثوق سے کہا ’’نہیں جی تمام احرام کا سائز ایک ہی ہوتا ہے‘‘

یہ بات میں نے اپنے ساتھیوں کو بتائی تو ایک صاحب نے فوراً فتویٰ دے دیا۔ ’’آپ کا حج مکروہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ آپ نے غیبت کی ہے۔ فوراً توبہ کریں‘‘

میں نے عرض کیا ’’میں نے تو حقیقت عرض کی ہے‘‘

کہنے لگے ’’پھر بھی یہ گناہ ہے‘‘

ایک دوسرے صاحب نے فتویٰ دینے والے کو ٹوکا ’’کل رات جو آپ کھانے کی شکایت کر رہے تھے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حالانکہ آپ یہ شکایت آپ براہ راست انتظامیہ سے کر سکتے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں تنقید کو آپ کسی زمرے میں لیں گے‘‘

ان صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اس طرح دوران حج مشورے اور فتویٰ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔ حالانکہ زیادہ تر عازمین حج خود پڑھے لکھے، سمجھ دار اور با شعور تھے۔ معلم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے مشورے کی ویسے بھی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ مشورے بن مانگے ملتے تھے۔

یہ شاید ہمارا قومی کھیل ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو مشورہ دینے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ موبائل فون کو استعمال کرتے دیکھتے تو کہتے ’’اس شیطان کے چرخے کو یہاں لانا ضروری تھا کیا۔ صاحب یہ اللہ اللہ کرنے کی جگہ ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کا پورا حج متاثر ہو سکتا ہے‘‘

کچھ دوست یوں سمجھاتے نظر آتے ’’زیادہ چائے نوشی آپ کی صحت خراب کر سکتی ہے اس سے بچے رہیں تو بہتر ہے‘‘

کچھ سگریٹ نوشی پر اعتراض کرتے۔ کچھ باتیں کرنے اور ہنسنے مسکرانے پر نالاں نظر آتے اور سنجیدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے۔

حج سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو بعض لوگ دوسروں کے کام میں جا بجا ٹانگ اُڑانا اور بن مانگے مشورے دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر ان کا علم واقعی وسیع ہو اور وہ آپ کو ایسی بات بتائیں یا سمجھائیں جو آپ کے لیے نئی ہو تو ان کا مشورہ سر آنکھوں پر۔ حالانکہ کسی خواہ مخواہ مشورہ دینا میں پھر بھی درست تصور نہیں کرتا۔

لیکن اگر مشورہ دینے والے کا اپنا علم محدود ہو۔ صرف سنی سنائی باتیں جانتا ہو اور محض رُعب ڈالنے کے لیے ہر کس وناکس کو روک کر مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتا ہو تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔

مجھے یاد ہے بہت سال پہلے میں چھٹیوں پر کراچی گیا ہوا تھا۔ ایک دن صبح صبح میری والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ میں ڈاکٹر کو بلانے کے لیے پیدل ہی اس کے گھر روانہ ہو گیا۔ ڈاکٹر کا گھر وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں تیز تیز چلا جا رہا تھا کہ کسی نے بازو پکڑ کر مجھے روک لیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو وہ ایک باریش نوجوان تھا جس کے سر پر پگڑی بھی موجود تھی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا بات ہے آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟‘‘

کہنے لگا ’’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سونے کی چین پہن رکھی ہے وہ حرام ہے۔ آپ اسے فوراً اتار دیں‘‘

میں نے جان چھڑانے کے لیے کہا ’’ٹھیک ہے۔ اب میں جاؤں؟‘‘

انہوں نے اسی مضبوطی سے میرا بازو پکڑے رکھا اور کچھ احادیث وغیرہ سنانے لگے جو غلط تھیں۔ وہ احادیث کو قرآن کہہ رہے تھے اور قرآنی آیات کو احادیث فرما رہے تھے۔ میں نے پھر کہا ’’میں بہت جلدی میں ہوں میں نے آپ کی بات سن لی ہے اب میں جاؤں؟‘‘

انہوں نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ اس دوران اس نے میری کلائی اس مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی کہ مجھے درد ہونے لگا۔ آخر تنگ آ کر ایک جھٹکے سے میں نے بازو چھڑوایا اور کہا ’’یہ تبلیغ کرنے یا فتویٰ دینے کا کون سا طریقہ ہے؟ آپ میرے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ بہتر یہ ہے کہ پہلے خود دین سیکھیں پھر فتو یٰ دینے اور تبلیغ کرنے کا کام شروع کریں۔ ورنہ آپ دین کی خدمت نہیں بلکہ اسے بدنام کر رہے ہیں‘‘

وہ اب بھی وعظ میں مصروف تھے لیکن میں وہاں سے چل دیا۔

بچپن میں میں نے نماز پڑھنی سیکھی تو فرض، سنت اور نفل کا فرق معلوم نہیں تھا۔ کیونکہ ہمارے گاؤں میں لوگ نفل بھی اسی اہتمام سے پڑھتے تھے جس اہتمام سے فرض پڑھتے تھے۔ میں نے جب مطالعہ شروع کیے تو معلوم ہوا کہ نفل فرض کی طرح ضروری نہیں ہیں۔ اگر نہ بھی پڑھیں تو نماز ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد میں کبھی تو نفل پڑھتا تھا اور کبھی جلدی میں ہوتا تھا تو نہیں پڑھتا تھا۔ اسی بات پر کئی نمازی میرے خلاف ہو گئے۔ ایک دن ظہر کی نماز میں فرض اور سنت پڑھ کر گھر جانے کے لیے اٹھا تو کسی نے میری قمیض کا دامن پکڑ لیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو وہ میرے محلے کے ایک بزرگ تھے۔ وہ باقاعدہ نمازی تھے۔ لیکن بچوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ نماز کی غرض سے مسجد میں آنے والے بچوں کو خواہ مخواہ ڈانٹتے رہتے تھے۔ میں بھی اس وقت دس گیارہ سال سے زیادہ کا نہیں تھا۔ لہٰذا ان کی ڈانٹ کا شکار بنتا رہتا تھا۔ آج وہ خود نماز میں تشہد پڑھ رہے تھے۔ لیکن ایک ہاتھ سے انہوں نے میری قمیض پکڑ رکھی تھی تاکہ میں جانے نہ پاؤں۔

جونہی انہوں نے سلام پھیرا تو لال سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ’’اوئے تم نماز پوری کیوں نہیں پڑھتے ہو۔ یہاں حاضری لگوانے آتے ہو کیا؟‘‘

میں نے ادب سے جواب دیا ’’میں نے پوری نماز پڑھی ہے‘‘

بولے ’’میں تمہیں دیکھ رہا تھا۔ تم نے نفل نہیں پڑھے۔ جب تک نفل نہیں پڑھو گے تمہاری نماز نہیں ہو گی‘‘

یہ بزرگ نماز اپنی پڑھ رہے تھے اور رکعتیں میری گن رہے تھے۔ اس وقت مسجد میں چار پانچ نمازی موجود تھے۔ زیادہ تر اسی بزرگ کی عمر کے تھے۔ صرف ایک جوان اور پڑھا لکھا سرکاری ملازم تھا۔ اس نے مداخلت کی ’’چاچا یہ لڑکا صحیح کہہ رہا ہے۔ نفل پڑھے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے‘‘

چاچا پھر بھی نہیں مانے۔ الٹا اس نوجوان پر چڑھ دوڑے۔ ’’تم نے بھی اس لڑکے کی طرح چار کتابیں پڑھ لی ہیں اور باپ دادا سے جو چیزیں چلتی آ رہی ہیں اس کو غلط کہہ رہے ہو۔ پتہ نہیں ان اسکولوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے آج کل‘‘

یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔ اس باریش نوجوان نے مجھے شاباش دی اور کہا ’’گھبراؤ نہیں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔ ان کے کہنے پر تم نماز پڑھنا یا مسجد آنا نہیں چھوڑ دینا۔ ایسی باتیں چلتی رہتی ہیں ان کا اثر نہیں لینا چاہیے‘‘

عمر بھر مسجد میں روک ٹوک، نماز پر فتوے، روزے کے مسائل پر بحث اور اب حج کے دنوں میں بہت سے مشورے فتوے اور مسئلے سننے کو ملتے رہے۔ اب اس عمر میں یہ سب کچھ سننے اور برداشت کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ لیکن بچپن اور نوجوانی میں اس طرح کی روک ٹوک نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو دین سے ہی دور لے جاتی ہو گی۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطیاں اور گناہ انسان سے ہی ہوتی ہیں۔ ان کا حساب لینے کے لیے اللہ کا پورا نظام موجود ہے۔ پھر ہم انسان ایک دوسرے کو جنت اور دوزخ کیوں بانٹتے پھرتے ہیں۔ ہمیں اس کا اختیار کس نے دیا ہے۔ کہیں ہم اپنے اختیار سے تجاوز تو نہیں کر رہے۔ سوچنے کی باتیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ایسے لوگ اپنی خو نہیں بدلتے تو ان کا تدارک کیا ہے۔ ان سے کس طرح نبٹنا چاہیے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ جب مشورہ یا فتویٰ دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی یہ نہیں کہتے کہ میرا خیال یہ ہے یا میری رائے یہ ہے۔ بلکہ وہ شروع ہی اس طرح کرتے ہیں کہ مخاطب کے پاس جواب دینے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ ان کی رائے اتنی بے لچک اور فتویٰ اتنا حتمی ہوتا ہے کہ بحث مباحثے کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کسی کو جھٹلانا مناسب نہیں ہوتا۔ تاہم بہت ادب اور طریقے سے انہیں باور کرایا جا سکتا ہے کہ آپ کی رائے سر آنکھوں پر، لیکن مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ لہٰذا آپ اپنی رائے پر قائم رہیں اور ہمیں اپنی زندگی جینے دیں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشورہ دینے والا آپ کے سر پر کھڑا ہو کر اپنے مشورے پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ اگر آپ بیمار پڑ جائیں تو تیمار داری کے لیے آنے والے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور ہوتا ہے۔ پہلے تو وہ یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اب تک یہ چیز استعمال کیوں نہیں کی۔ پھر ایسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے اہلِ خانہ، مریض حتیٰ کہ ڈاکٹر تک سبھی نادان ہیں۔

جب کہ مریض سوچ رہا ہوتا ہے کہ

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی بیمار ہوا ہو گا۔ اسے اس کے دوست احباب اور عزیز و اقارب نے مختلف مشوروں سے بھی ضرور نوازا ہو گا۔

وہ مشورے کیسے ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ مشورے ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔ اسے گلی کی نکڑ والے حکیم صاحب کے پاس لے جائیں ان کی دوائی سے ضرور تندرست ہو جائیں گے۔ حکیم صاحب ایسی بیماریوں کا چٹکی بجاتے علاج کر دیتے ہیں۔

۲۔ میرے گھر میں گلے کی بیماری کی دوا موجود ہے۔ کسی بچے کو بھیج کر منگوا لیں۔ فوراً آرام آ جائے گا۔ میری آزمائی ہوئی ہے۔

۳۔ اس بیماری کا علاج صرف ڈاکٹر امان اللہ ہی کر سکتا ہے۔ کسی اور ڈاکٹر کے پاس اس بیماری کا علاج نہیں ہے۔ انہیں اس کے کلینک میں لے جائیں۔ (کتنی پکی اور بے لچک رائے ہے۔ اس سے اختلاف کرنے کی کوئی جراٗت کر سکتا ہے)

۴۔ انہیں جڑی بوٹیوں والا کڑوا جوشاندہ پلائیں۔ دوا کے بغیر ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

۵۔ پیر کرم صاحب سے تعویذ لے آئیں۔ کسی دوا کی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ہمارا آزمودہ نسخہ ہے۔ ہم تو ہمیشہ اسی پر عمل کرتے ہیں۔

۶۔ بھئی ہمارے گھر میں تو دادی کے زمانے سے ایک پھکی (چورن) استعمال ہوتی ہے۔ جب بھی کسی کی طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹروں سے لٹنے کے بجائے اس پھکی کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ چاہیں تو میں بھجوا سکتا ہوں۔

۷۔ میں تو کہتی ہوں گاؤں کا چکر لگائیں اور بابا علی شاہ کے مزار پر حاضری دیں۔ ایسی بیماریاں پل بھر میں ہوا ہو جاتی ہیں۔ لیکن آج کل کے پڑھے لکھے بچے ہماری باتوں پر کب توجہ دیتے ہیں۔

اس طرح کے کئی مشورے ہر مریض کو سننے پڑتے ہیں۔ سب سے خطرناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب تیمار دار اپنی جیب سے دوا نکالتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے لو بھئی دوا تو میں لے آیا ہوں۔ پانی لے کر آئیں اِسے ابھی یہ دوا پلاتے ہیں، تم لوگ دیکھنا! آرام آتا ہے یا نہیں۔ یہ وہی بیماری ہے جو پچھلے سال مجھے ہوئی تھی اس لئے آتے ہوئے میں دوا ساتھ لیتا آیا ہوں۔

بعض تیمار دار زود رنج ہوتے ہیں۔ جس طرح ان سے بچنا آسان نہیں ہوتا اس طرح انہیں جھٹلانا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔ اس مسئلے کو بہت سمجھ داری سے نمٹانا پڑتا ہے۔ انہیں یقین دلانا پڑتا ہے کہ ان کا نسخہ سب سے اچھا ہے۔ ورنہ ان کی دوستی اس طرح دشمنی میں بدل سکتی ہے جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات بدلتے رہتے ہیں۔

یوں تو حج میں ہفتے لگ جاتے ہیں۔ لیکن منیٰ اور عرفات کا چند دن کا قیام ہی اصل حج ہے۔ یہی دن آزمائش کے دن ہوتے ہیں۔ یہاں ہوٹل کی طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کی سہولیات نہیں ہوتیں۔ انتہائی تنگ جگہ میں سخت گرمی میں صرف پنکھے کی ہوا میں شب و روز بسر کرنے پڑتے ہیں۔ مٹی، گرد و غبار، دھویں اور پسینے سے احرام میلا چکٹ ہو کر جسم سے چپک چپک جاتا ہے۔ وہاں کئی جلدی بیماریاں بھی جنم لے لیتی ہیں۔ میں نے ان بیماریوں کے اثرات کئی ساتھیوں کے ہاتھوں پاؤں پر نمایاں ہوتے دیکھے۔ جلد پر سرخ اور سیاہ دھبے پھیل جاتے ہیں جس میں خارش ہوتی ہے۔ میری جلد بھی چند ایک جگہ سے حساس ہو کر سرخی مائل ہو گئی جسے میں نے ایک کریم کے ذریعے قابو میں رکھا۔

یہ سارے مسائل اتنے بڑے نہیں تھے جتنا بڑا مسئلہ غسل خانے اور بیت الخلاء کا تھا۔ حجاج کے تناسب سے غسل خانے اور بیت الخلاء بہت کم تھے۔ ان کے سامنے رات دن چوبیس گھنٹے قطاریں لگی رہتی تھیں۔ ایک کھلے منہ والے بڑے سے پائپ پر مشتمل شاور والا غسل خانہ اور بیت الخلاء انتہائی تنگ بنا ہوتا ہے۔ یہ بیت الخلا پاکستانی طرز کا یعنی پاؤں پر بیٹھنا والا ہوتا ہے۔ اگر انگریزی سیٹ والی ایک آدھ کموڈ ہوتی بھی ہے تو اتنے لوگوں کے ہوتے ہوئے اس تک رسائی نا ممکن ہوتی ہے۔

یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے حجاج ان دیسی بیت الخلاؤں کے عادی نہیں ہوتے۔ یہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں دیتیں۔ لہٰذا ان کے لیے ایسے ٹوائلٹ استعمال کرنا کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کی ٹانگیں یا گھٹنے عمر یا بیماری کی وجہ سے کمزور یا نازک ہوتے ہیں ان کے لیے یہ مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔ مجھے بھی گھٹنوں کا اتھرائیٹس ہے اور برسوں سے پاؤں پر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے۔ نہ ہی ٹانگوں میں اتنی طاقت ہے۔ لہٰذا میری ٹانگوں نے جو صدائے احتجاج بلند کیا وہ میں ہی جانتا ہوں۔ یہ پہلے دو دن کی بات ہے۔ تیسرے دن عادت ہو گئی اور یہ تکلیف قدرے کم ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ انسان ہر ماحول میں جینا سیکھ لیتا ہے۔

لوگ غسل خانے کے آگے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ میں نے وہاں کوئی بدنظمی یا کسی قسم کی نوک جھونک نہیں دیکھی۔ شاید اس وجہ سے کہ یورپ اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے یہ لوگ قطار بندی کے عادی تھے۔ یا پھر حج کے موقع پر عام مسلمان جس جذبہ اخوت اور جذبہ قربانی سے بھرا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ایسی نوبت نہیں آئی۔ ورنہ عام زندگی میں ایسی جگہوں پر لڑائی جھگڑا عام سی بات ہے۔

حج کی شرائط کے مطابق جب آپ احرام باندھ لیتے ہیں تو بہت سی چیزیں اور کام آپ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں۔ مثلاً

۱۔ حجامت نہیں بنوا سکتے ۲۔ شکار نہیں کر سکتے ۳۔ خوشبو نہیں لگا سکتے۔ ۴۔ خوشبو والا صابن نہیں استعمال کر سکتے۔ ۵۔ شیمپو یا ٹوتھ پیسٹ استعمال نہیں کر سکتے ۶۔ موزے یا جرابیں نہیں پہن سکتے۔ ۷۔ بند جوتے نہیں پہن سکتے۔ ۸۔ احرام کے علاوہ کوئی اور لباس نہیں پہن سکتے۔

ان شرائط کی وجہ سے حاجی وہاں ایک خاص قسم کا صابن ہی استعمال کر تے ہیں جو خوشبو دار نہیں ہوتا۔ میں نے اس صابن کی دو ٹکیاں خرید رکھی تھیں۔ یہ ٹکیاں میں پہلے ہی روز دونوں وقت کے غسل کے دوران وہیں بھول آیا۔ لہٰذا اگلے کئی دن تک میرے پاس کوئی صابن کوئی شیمپو نہیں تھا۔ میں نلکا کھول کر کچھ دیر اس کے نیچے کھڑا رہتا اور پھر گیلے بدن پر ہی احرام لپیٹ کر باہر نکل آ تا۔ یہ عمل میں دن میں کئی دفعہ دہراتا تھا۔ جب بھی غسل خانے جانا ہوتا شاور کے بعد ہی باہر نکلتا تھا۔ دوسرے حاجی بھی اس سخت گرمی میں یہی کرتے تھے۔ شکر ہے قدرے گرم سہی نل میں پانی آتا رہتا تھا۔ پانی کی کمی صرف ایک جگہ پیش آئی۔ یہ جگہ مزدلفہ تھی۔ جہاں ہم نے نو ذوالحج والی رات قیام کیا تھا۔

دوران حج منیٰ میں پورا ایک شہر بسا ہوتا ہے۔ پچیس تیس لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ شہر دنیا کے کئی بڑے شہروں کے برابر ہو جاتا ہے۔ سڈنی جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے، کی کل آبادی بیالیس لاکھ ہے۔ برسبین جو آسٹریلیا کا تیسرا بڑا شہر ہے، کی آبادی بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ منیٰ کے اس عارضی شہر میں ترتیب سے سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ ان کھلی سڑکوں کے دونوں اطراف میں خیموں میں آنے جانے کے گیٹ ہیں جہاں سیکورٹی موجود رہتی ہے اور آپ کی شناخت کر کے ہی اندر جانے دیتی ہے۔ ان سڑکوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر وضو گاہیں، ٹھنڈے پانی کے کولر اور کچرا گاہیں ہیں۔ جہاں پر خیموں سے کچرا لا کر پھینکا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ٹرک آتے ہیں اور یہ کچرا اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ان سڑکوں پر ٹھیلے والے سودا بیچتے ہیں۔ حالانکہ کیمپ کے کچھ مخصوص علاقے ہیں جہاں باقاعدہ بازار موجود ہے۔ بہرحال ٹھیلے والے ہر کیمپ کے سامنے ٹھیلا لگائے ہوئے ہیں۔ ان میں عام اور فوری استعمال والی اشیاء اور پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان سڑکوں پر بھکاریوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ برقعہ میں ملبوس عرب خواتین بھیک بھی مانگتی ہیں اور ٹھیلہ برداری بھی کر رہی ہوتی ہیں۔

ایک دن میرے ساتھی جاوید صاحب نے میری توجہ ایک بھکاری عورت کی طرف دلائی جو بڑی صفائی سے ایک ٹھیلے سے پھل چرا کر اپنے برقعہ میں چھپا رہی تھی۔ ہمیں متوجہ پا کر بنگالی دکاندار بھی ہوشیار ہو گیا۔ اس نے بھی عورت کو چوری کرتے دیکھ لیا۔ دُکاندار نے اس عورت سے پھل واپس رکھنے کے لیے کہا تو عورت نے صاف انکار کر دیا۔ اس بنگالی دکاندار نے جب پولیس بلانے کی دھمکی دی تو عورت کے برقعے سے سیب اور کیلے برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ اس نے پھل واپس کر دیے اور دُکاندار کو بُرا بھلا کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

ہمارا خیمہ منیٰ کیمپ کے شروع کے حصے میں تھا۔ منیٰ ہسپتال، دکانیں اور دفاتر یہاں سے قریب تھے۔ اس محل وقوع کا نقصان اس وقت سامنے آیا جب ہم رمی کے لئے جمرات تک گئے۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا ہمارا خیمہ جمرات سے سب سے زیادہ دور ہے۔ اتنا دُور کہ جتنا چاہے چلتے جاؤ یہ فاصلے ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ ہم نے اگلے تین دن یہ عمل دہرا نا تھا۔ حج کے دوران سب سے مشکل کام، سب سے زیادہ رش اور سب سے زیادہ گھٹن کا سامنا رمی کے دوران ہوتا ہے۔ وہاں اکثر بڑے بڑے حادثے پیش آتے ہیں۔ 2015ء میں کئی سو حاجی یہاں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

میں اپنے خیمے سے نکل کر کبھی کسی ساتھی کے ساتھ تو کبھی اکیلا ہی ادھر ادھر گھومتا رہتا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں واپسی کا راستہ ہی نہ بھول جاؤں اپنے خیمے سے زیادہ دور نہیں جاتا تھا۔ اسے اتفاق کہیں کہ میری سستی کہ میں نے اپنے کیمپ کا نمبر بھی نوٹ نہیں کیا تھا۔ مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔ شروع میں اس کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی کیونکہ ہم کیمپ سے باہر جہاں بھی جاتے تھے اپنے گروپ کے ساتھ اور اپنے معلم کی راہنمائی میں جاتے تھے۔ اس لیے کیمپ کا نمبر اور اس کا محل وقوع یاد رکھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ میری بہت بڑی غلطی تھی جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔

اپنے کیمپ سے باہر نکل کر دوسرے حاجیوں سے ملاقات ہوتی رہتی۔ ان میں کوئی برطانیہ کے پر فضا خطے سے آیا ہوتا۔ کوئی یخ بستہ ملک کینیڈا سے اللہ کے حضور حاضری دینے کے لیے اس گرم ترین جگہ پر موجود ہوتا۔ ان میں سے چند ایک سے میرا اب بھی رابطہ ہے۔ ایک بزرگ حاجی عبدالقدوس نے کیمپ کے باہر رکھے بینچ پر بیٹھے بیٹھے اپنی کہانی سنائی۔

 

حاجی عبدالقدوس کی کہانی

___________________

 

میں پچھلے اکتیس برس سے برطانیہ میں مقیم ہوں۔ میں اپنے چچا کی مدد سے وہاں گیا تھا۔ پہلے دس برس خود کو قانونی بنانے کے چکر میں صرف ہو گئے۔ ان دس برسوں میں جو کچھ کماتا رہا میرپور (آزاد کشمیر) میں اپنی بیوی بیٹے اور بیٹیوں کے لیے بھیجتا رہا۔ جو کچھ باقی بچتا تھا وہ وکیلوں کی نذر ہو جاتا تھا۔ کئی درخواستیں رد ہوئیں۔ کئی فیسیں ضائع ہوئیں۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ نئی درخواستوں اور نئی فیسوں کے ساتھ اپنی قانونی جنگ جاری رکھی اور محنت مزدوری بھی کرتا رہا۔ اس دوران مجھے نہ تو کوئی اچھی نوکری ملی اور نہ رہنے کے لیے مستقل ٹھکانا تھا۔ میں مزدور تھا۔ کبھی کسی فیکٹری یا ویئرہاؤس میں کام کر رہا ہوتا اور کبھی کسی عمارت میں اینٹیں ڈھو رہا ہوتا۔ کام کے ساتھ ساتھ کرائے کے گھر بھی بدلتے رہتے تھے۔ گھر کیا ہوتا تھا بس رات گزارنے کا ٹھکانا ہوتا تھا۔ ان دس سالوں میں میں وطن واپس نہیں جا سکا۔ سارا دن مزدوری کرتا اور رات بچوں کو یاد کرتے گزر جاتی۔

اس ساری تگ و دو اور بدن توڑ مشقت کا یہ فائدہ ہوا کہ میرے گھر کے حالات کافی بدل گئے۔ میرے بچے غربت کے چنگل سے آزاد ہو کر خوشحال زندگی بسرلگے۔ میرا گھر میرے باپ کے وقتوں کا بنا ہوا تھا۔ میری بیوی نے اسے گروا کر وہاں نیا مکان بنوایا اور گھر میں رکھنے کے تمام لوازمات بھی خرید لیے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ کار بھی لے لی۔ جب کہ میں برطانیہ میں رہتے ہوئے ابھی تک بسوں اور ٹرینوں کے دھکے کھا رہا تھا۔ اس دوران میری بیٹیاں اور بیٹا پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج جا پہنچے۔ آخر دس سال بعد وہ وقت آ گیا جس کا مجھے بر سوں سے انتظار تھا۔ میری کوششیں رنگ لائیں اور مجھے برطانیہ کی مستقل سکونت مل گئی۔ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ احباب میں مٹھائیاں بانٹیں۔ کاغذ بننے کے فوراً بعد میں نے سامان باندھا اور پہلی فرصت میں میرپور پہنچ گیا جو صرف چند گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ لیکن اس چند گھنٹے کی مسافت نے میری زندگی کے دس برس نگل لیے تھے۔ اپنا گھر اور بچے دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔

در اصل میرے گھر والے برطانیہ جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ جب کہ ان میں سے کسی کا بھی ویزا نہیں لگا تھا۔ نہ ہی اس عمر میں بچوں کے ویزے لگنے کا امکان تھا۔ میں نے اپنی درخواست میں خود کو کنوارا ظاہر کیا تھا۔ کیونکہ اس طرح شہریت ملنے کے زیادہ امکانات تھے۔ اب اگر میں ان کو بتاتا کہ نہ صرف میں شادی شدہ ہوں بلکہ تین بچوں کا باپ ہوں تو میری فیملی کا ویزا ملنا تو درکنار میرا بھی منسوخ ہو سکتا تھا۔ مجھ پر غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا کیس بھی بن سکتا تھا۔ ان حالات میں میری فیملی کے برطانیہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نہ میں نے انہیں کبھی ایسی امید دلائی تھی۔

لیکن میری بیوی اور بچے کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس سلسلے میں وہ چاروں ہمنوا ہو گئے اور مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ میں نے بیوی کو سمجھا بجھا کر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی لیکن وہ میری بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ در اصل ہمارے عزیز و اقارب اور گاؤں کے بہت سے لوگ برطانیہ میں مقیم تھے۔ میرے گھر والے بھی ان کی دیکھا دیکھی وہاں جانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ان کے ذہنوں میں یہی تھا کہ جب فیملی کے سربراہ کو ویزا مل گیا ہے تو بقیہ گھر والوں کو خودبخود مل جائے گا۔ شاید ہمارے عزیزوں میں سے ہی کسی نے ان کو ایسا بتایا ہو۔ لیکن میری غلطی یا غلط بیانی کی وجہ سے اب یہ نا ممکن تھا۔

میں نے تو یہی سوچا تھا کہ میرپور میں رہ کر غربت کی زندگی بسر کرنے کے بجائے اپنی فیملی کے لیے قربانی دیتا رہوں گا۔ خود محنت مزدوری کر کے گھر والوں کو ہر آسائش فراہم کرتا رہوں گا۔ کم از کم میرے گھر والے تو خوش و خرم زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ان کی خوشی میں ہی میری خوشی تھی۔ لیکن خوشی شاید میری قسمت میں نہیں تھی۔ اتنی بڑی قربانی دے کر اور اپنی زندگی کے دس برس ضائع کر کے بھی میں انہیں خوش نہیں کر سکا تھا۔ ان کی خوشی یا غمی مجھ سے وابستہ نہیں تھی بلکہ برطانیہ پہنچنے میں پوشیدہ تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر کے حالات میرے لیے اتنے خراب ہو گئے کہ اس گھر میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ سب سے زیادہ دکھ مجھے اس بات کا تھا کہ جن بچوں کے لیے میں گھر سے بے گھر ہوا اور در در کی خاک چھانتا رہا وہ بھی میرے خلاف ہو گئے تھے۔ آخر تنگ آ کر صرف چھ ہفتوں بعد ہی میں برطانیہ لوٹ آیا۔ حالانکہ میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ چھ ماہ سے ایک سال تک رہ کرواپس آؤں گا۔

اگلے پانچ برس تک میں مختلف وکیلوں سے مشورے کرتا رہا کہ اپنی فیملی کو برطانیہ کیسے بلا سکتا ہوں۔ کسی نے مجھے امید نہیں دلائی۔ اُدھر میری بیوی اور بچے مجھ سے بدستور ناراض تھے حتیٰ کہ فون پر بھی بات نہیں کرتے تھے۔ در اصل میری بیوی کی جہالت نے میرے بچوں کو مجھ سے بہت بد ظن کر دیا تھا۔ پھر بھی میں بلا باغہ ہر ماہ انہیں خرچ بھیجتا رہا۔ بلکہ جو کچھ کماتا تھا تھوڑا بہت اپنے لیے چھوڑ کر سب کچھ انہیں بھیج دیتا تھا۔ حالانکہ اب میرا بیٹا جوان ہو چکا تھا اور کمانے لگا تھا۔ جسمانی اور ذہنی مشقت سے میں اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔

اس دن تو میری مایوسی اور میرے دکھ کی انتہا ہو گئی جب اطلاع ملی کہ میری بیوی نے میری بیٹی کی شادی طے کر دی ہے۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ تو درکنار مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ پچھلے سولہ سال کی تگ ودو، محنت مزدوری، سخت اور بے آرام زندگی، قانونی جنگ اور بیوی بچوں سے دوری کے دکھوں کو جھیلنے کے بعد مجھے یہی صلہ ملا تھا کہ میری بیوی اور بچے مجھے بالکل بھول گئے۔ انہوں نے میری قربانیوں، میری محبتوں اور دکھوں کو نظرانداز کر دیا تھا۔ میں اتنا دل برداشتہ ہوا کہ خودکشی کے بارے میں بھی سوچتا رہا۔

ایک دن بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں نے زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا کہ اچانک میرے خیالات بدل گئے۔ اس دن میں خودساختہ پابندیوں سے آزاد ہو گیا۔ جو مجھے بھولے ہوئے تھے میں بھی انہیں بھول گیا۔ اپنے بیوی بچوں، اپنے عزیز و اقارب اپنے دوست احباب اور اپنے وطن سے بہت دور آئرلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا بسا۔ اپنے پیچھے میں نے کوئی اتا پتا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ یہ گاؤں انتہائی پرفضا اور سادہ لوح دیہاتیوں پر مشتمل تھا۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے میں نے ایک فارم میں کام شروع کر دیا۔ تھوڑی بہت جمع پونجی میرے پاس تھی۔ کچھ قرض لے کر میں نے اپنا گھر بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ وہ فارم بھی میں نے خرید لیا جس میں کام کرتا تھا۔

اس گاؤں کے لوگ بہت سادہ دل اور پر خلوص تھے۔ انہی میں ایک خاتون مارگریٹ بھی تھی جو اس علاقے کی کونسل میں ملازم تھی۔ رفتہ رفتہ مارگریٹ اور میں قریب ہوتے گئے اور ایک دن باہمی رضامندی سے نکاح کر لیا۔ مارگریٹ نے مسلمان ہو کر اپنا نام آمنہ رکھا۔ پچھلے پندرہ سال سے ہم اکٹھے رہ رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے خوش ہیں۔ شادی کے وقت میری عمر پچاس اور آمنہ کی پینتالیس سال تھی۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ آمنہ نے اس عمر تک شادی نہیں کی تھی۔

اسے رُوحانی اطمینان حاصل نہیں تھا۔ اسلام کا مطالعہ اس نے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ وہ کبھی چرچ نہیں گئی تھی اور نہ اس نے زندگی بھر کوئی غیرا سلامی کام کیا تھا۔ جیسے جیسے وہ اسلام کا مطالعہ کرتی گئی ویسے ویسے اس کے ایمان میں پختگی آتی گئی۔ اب نہ صرف وہ پکی اور با عمل مسلمان ہے بلکہ اسلام کی حقانیت اور سچائی پر اس کا راسخ ایمان ہے۔ اس کی وجہ سے میں بھی نماز روزے کی طرف راغب ہو گیا۔ ہم یہ حج بھی آمنہ کی خواہش پر کرنے آئے ہیں۔

ہمارے گاؤں میں اب قاعدہ مسجد بنی ہوئی ہے جو میرے ہی فارم کے اندر ہے۔ یہاں پر گرد و نواح کے بہت سے مسلمان خواتین و حضرات نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں اب مسلمانوں کے چھ خاندان آباد ہیں۔ جمعہ والے دن اور عیدین پر ہمارے فارم ہاؤس میں خوب رونق ہوتی ہے۔ یہ سب آمنہ کی کوششوں اور محنت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی بلکہ میری بھی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کے اثرات ہمارے ارد گرد کے لوگوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ہر انسان کے اندر کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ عبدالقدوس سے میری اچانک اور سرسری ملاقات ہوئی تھی لیکن وہ ایک اثر انگیز کہانی سنا گئے۔ اپنے عزیز اقارب اور گھر والوں کی خاطر دیس پردیس کی خاک چھاننے والوں کی کیسی کیسی کہانیاں اور کیسے کیسے مسائل ہیں۔ اپنوں کی آسائش خاطر اپنی زمین سے دور غیروں کی مزدوری کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بجائے ٹی وی پر چند نام نہاد دانشور ایسی ایسی باتیں سنا جاتے ہیں جو نہ صرف خلاف حقیقت بلکہ لاکھوں دلوں کی آزاری کا باعث بنتی ہیں۔ وطن میں ہر طبقے کے دفاع کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے سوائے ان پردیسیوں کے جو نہ صرف اپنے کنبے اور عزیز اقارب بلکہ ملک کی خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا صلہ اکثر انہیں اس طرح ملتا ہے جیسے عبدالقدوس کو ملا۔ اپنے ہی لوگ اپنے ہی احباب اور اپنا ہی ملک نہ صرف انہیں اکیلا چھوڑ دیتا ہے بلکہ قدم قدم پران کی حق تلفی ہوتی ہے۔ جن عزیزوں کے لیے وہ باہر جا کر فکر مند رہتے ہیں وہی انہیں لوٹنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ساری زندگی کی جمع پونچی ان ’’اپنوں‘‘ پر لٹا کر اپنا بڑھاپا اولڈ ہاؤس میں سرکاری خرچ پر گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ائرپورٹ سے لے کر جہاں جہاں وہ جائیں شکار سمجھ کر کتنے ہی شکاری ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ان کی زمینیں جائیدادیں اور خون پسینے سے کمائے ہوئے گھروں پر لوگ قبضہ کر لیتے ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ روتے پیٹتے واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات ہو تے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو قیمتی زِر مبادلہ بھجوا کر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، کیا یہی انصاف ہے؟۔ جو ساری زندگی دیارِ غیر میں رہ کر بھی پاکستان کے گن گاتے ہیں، اپنے وطن کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، کب انہیں اپنا سمجھا جائے گا؟۔ کب ان پر اپنی ہی زمین تنگ کرنے کا سلسلہ بند ہو گا؟۔ کب انہیں ڈالر اور پونڈ کمانے والی مشین نہیں بلکہ جیتا جاگتا انسان سمجھا جائے گا؟۔

 

ریحان علی کی کہانی

___________________

 

منیٰ میں قیام کے دوران ہی میری ملاقات ایک باریش پاکستانی امریکن سے ہوئی۔ ریحان علی نامی یہ نوجوان لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا۔ وہ محض آزادی عیاشی اور کھیل کھیلنے کے لیے امریکہ گیا تھا۔ لیکن امریکہ جا کر چند ہی سالوں میں اس کے اندر اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ نہ صرف اس نے گناہوں سے لتھڑی زندگی چھوڑ دی بلکہ توبہ کر کے صراط مستقیم پر آ گیا۔ اس راستے پر آتے ہی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ آج منیٰ کے کیمپ میں بیٹھا اللہ اللہ کر رہا تھا۔ یہ انقلابی تبدیلی تھی۔ اور نوجوانی کی عمر میں امریکہ جیسے ملک میں اکیلے رہتے ہوئے آئی تھی۔ اس انقلاب کے پیچھے کیا محرکات کارفرما تھے، میں نے انہیں جاننے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ریحان علی نے اپنی آب بیتی یوں سنائی۔

میرا تعلق لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ میں نے بی ایس سی تک پڑھا ہے۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ لیکن میرا دھیان غلط کاموں کی طرف ہو گیا اور پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا۔ شراب اور شباب میرے روز و شب کے شغل بن گئے۔ دوستوں کی محفلیں جمتیں۔ منشیات بھی استعمال ہوتی۔ جوا بھی چلتا۔ شراب سے بھی شغل ہوتا اور بگڑی ہوئی امیر زادیوں سے بھی دل بہلتا۔ میرے دن رات جب اسی کام میں صرف ہونے لگے تو گھر والوں کو کچھ ہوش آیا۔ انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کی مداخلت پسند نہیں آئی۔ کیونکہ میرے ماں باپ اور بھائیوں نے شروع میں مجھے بالکل روکا ٹوکا نہیں تھا۔ اب جب کہ میں سرتاپا ان عیاشیوں میں ڈوب چکا تھا تو انہوں نے قدغن لگانے کی کوشش کی۔ میرے لیے واپسی اب ممکن نہیں تھی۔

جب گھر والوں نے دباؤ بڑھایا تو اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ ملک ہی چھوڑ دیا اور ویزا لگوا کر امریکہ چلا گیا۔ یہ سٹوڈنٹ ویزا تھا جو صرف تین سال کے لیے اس شرط پر کارآمد تھا کہ میں اپنی فیس باقاعدگی سے ادا کرتا رہوں۔ ہر چھ ماہ کے سمسٹر میں فیس کی مد میں اتنی بڑی رقم ادا کرنے اور اپنا خرچ پورا کرنے کے لئے مجھے زندگی میں پہلی بار نوکری کرنا پڑی۔ یہ آسان نوکری نہیں تھی۔ سخت سردی میں صبح چار بجے میں ایک سٹور میں کام کرنے جاتا تھا۔ دن کے بارہ بجے تک وزنی اشیاء ڈھو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا رہتا تھا۔ ان آٹھ گھنٹوں میں میرا انجر پنجر ہل کر رہ جاتا تھا۔ یہ بہت سخت اور تھکا دینے والا کام تھا۔ سب سے زیادہ مشکل کام صبح چار بجے گرم بستر چھوڑنا اور ٹرین کے ذریعے کام پر پہنچنا ہوتا تھا۔

ہفتے میں تین دن پڑھنے کے لیے یونیورسٹی بھی جاتا تھا۔ پڑھتا وغیرہ برائے نام تھا۔ کالج میں حاضری ضروری تھی ورنہ میرا ویزا منسوخ ہو سکتا تھا۔ ان سخت حالات میں میری عیاشیوں کا سلسلہ رک گیا۔ صرف ویک اینڈ پر چند دوستوں کے ساتھ کلب چلا جاتا تھا۔ یا پھر جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو نشے میں غرق رہتا تھا۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی۔ اسی دوران کئی لڑکیوں سے دوستی ہوئی۔ چند ایک گرل فرینڈ بھی بنیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہ سکا۔ اس کی وجہ میرے پاس وقت اور سرمائے کی کمی تھی۔ ان لڑکیوں کو دینے کے لیے نہ تو میرے پاس وقت ہوتا تھا اور نہ اتنی رقم کہ انہیں تحفے دے کر خوش کروں، انہیں گھما پھرا سکوں یا کسی ریسٹورنٹ میں لے جاؤں۔ میری آمدنی محدود تھی جس سے بمشکل فیس پوری ہوتی اور میرا گزارا ہوتا تھا۔ رہنے کے لیے میرے پاس الگ فلیٹ بھی نہیں تھا بلکہ کچھ دوستوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ان حالات میں پارٹیاں اور عیاشیاں سب ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔

میں سوچتا تھا کہ امریکہ آ کر کیا پایا۔ جانوروں کی طرح بار برداری کرتا ہوں۔ صبح سے شام تک نوکری اور پھر گھر کے کام بھی خود کرنے پڑتے ہیں۔ سونے کے لیے بھی بمشکل چند گھنٹے ملتے ہیں۔

جو تصور لے کر میں امریکہ آیا تھا کہ وہاں جا کر خوب عیاشی کروں گا وہ ملیا میٹ ہو گیا تھا۔ یہاں آ کر میں کولہو کا بیل بن گیا تھا۔ کبھی میں سوچتا کہ پاکستان واپس چلا جاؤں۔ پھر خیال آتا گھر والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ ان سے اجازت لینا تو درکنار میں تو انہیں بتا کر بھی نہیں آیا تھا۔ اب اگر ڈگری ہی لے لوں تو انہیں کچھ منہ دکھانے کے قابل ہو سکوں گا۔

یہ بھی خیال آتا تھا کہ پاکستان جا کر کروں گا کیا۔ پڑھنا تو میں نے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔ امریکہ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد گرین کارڈ ملنے کے امکانات تھے۔ یہ یقینی نہیں تھا بہرحال ایک امید تھی۔ اسی لالچ، ڈر یا قوت فیصلہ کی کمی کی وجہ سے دو سال گزر گئے اور میرے شب روز تبدیل نہیں ہوئے۔ ان دو سالوں میں مزدوری، کالج اور گھر کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پایا تھا۔ اس کے باوجود میرے اندر کا شیطان زندہ اور سلامت تھا۔ تاہم میرے شب و روز اُسے کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ ان دو سالوں میں میں یہ بھی بھولا رہا کہ میں ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اتنے عرصے میں نہ تو کبھی نماز پڑھی اور نہ روزہ رکھا اور نہ عید اور شب برات کا خیال آیا۔ میرے لیے سال کے تین سو پینسٹھ دن ایک جیسے تھے۔

اس دوران ایک ترک نوجوان ہمارے ساتھ رہنے آ گیا۔ انور پاشا کا مرس میں ڈپلومہ حاصل کرنے امریکہ آیا تھا۔ دو بیڈروم والے اس فلیٹ میں دو ہندوستانی اور ایک میں مل کر رہ رہے تھے۔ اس سے پہلے ایک اور ہندوستانی طالب علم تھا جو کورس مکمل کر کے واپس چلا گیا تھا اور ایک آدمی کی جگہ خالی ہو گئی تھی۔ جہاں انور پاشا آ کر ٹھہرا۔ اس کا بستر میرے ہی کمرے میں تھا۔ انور کا تعلق استنبول کے ایک امیر گھرانے سے تھا۔ اُس کی فیس اور دیگر اخراجات کے لیے رقم ترکی سے آتی تھی۔ پھر بھی وہ ہفتے میں ایک دو دن ایک ترکش ریسٹورنٹ میں کام کر کے کچھ اضافی رقم کما لیتا تھا۔ ہم لوگ اپنا اپنا کھانا بناتے تھے۔ لیکن جس دن انور گھر ہوتا تو وہ اپنے ساتھ ہمارے لیے بھی کھانا بنا لیتا تھا جو بھنے ہوئے گوشت پر مشتمل ہوتا تھا۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ اُبلے ہوئے چاول بھی ہوتے تھے۔ ہم نے انور کو اس کا معاوضہ دینے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔

انور کے آنے سے ہمارے گھر میں کافی تبدیلی آ گئی تھی۔ یہ پہلے سے زیادہ صاف ستھرا اور سلیقے سے سجا ہوا لگتا تھا۔ تولیے بستر اور صوفے کے بجائے باہر لٹکے ملتے۔ جو تے اور بیگ ادھر ادھر بکھرے ہونے کے بجائے اپنی اپنی جگہ پر سلیقے سے رکھے ہوتے۔ انور خاموشی سے یہ کام کر دیتا تھا۔ کسی سے گلہ کرتا اور نہ احسان جتلاتا۔ اس کی دیکھا دیکھی ہم خود بھی صفائی کا خیال رکھنے لگے۔

انور پاشا پنچ وقتہ نمازی تھا اور روزانہ کچھ دیر کے لیے قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا۔ اس نے مجھے یا کسی اور کو کبھی نماز کے لیے نہیں کہا۔ اس لیے ہم اپنے حال میں خوش رہتے اور اسے اس کے حال پر چھوڑا ہوا تھا۔

ایک دن دوپہر کے وقت وہ نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر تیار ہوا تو میں نے پوچھ لیا ’’کہاں جار ہے ہو؟‘‘

اس نے سرسری لہجے میں بتایا ’’جمعہ کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں‘‘

انور کے سرسری لہجے (جیسے وہ مجھے مسلمان ہی نہ سمجھتا ہو)، جمعہ کے دن سے میری لاعلمی اور برسوں سے مسجد کا رخ نہ کرنے کے خیال سے میرا دل جھنجنا سا گیا۔ مجھے یاد آیا کہ باوجود ساری عیاشیوں اور لا پرواہیوں کے میں لاہور میں جمعہ کی نمازضرور پڑھتا تھا۔ ہم تینوں بھائی اور والد صاحب اکٹھے محلے کی مسجد میں جایا کرتے تھے۔ امریکہ آ کر جیسے میں بالکل بھول ہی گیا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ میں نے بے اختیار انور سے کہا ’’رُکو میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا‘‘

اسلامک سینٹر ہمارے گھر سے چند بلاک کے فاصلے پر تھا جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد میرے اندر ایسی طمانیت اور خوشی ہوئی کہ جب بھی وقت ملتا میں انور کے ساتھ مسجد چلا جاتا۔ آہستہ آہستہ میں اپنا خالی وقت وہیں گزارنے لگا۔ امام صاحب سے جن کا تعلق پاکستان سے تھا، میری اچھی رسم و راہ پیدا ہو گئی۔ امام صاحب کی باتوں میں بہت تاثیر تھی۔ لہٰذا میں کوشش کرتا تھا کہ ان کا وعظ ضرور سنوں۔ مسجد کے ماحول، انور کی دوستی اور مولانا صاحب کے لیکچر نے میرے اندر تبدیلی لانی شروع کر دی۔ اب میں پنچ وقتہ نماز ادا کرنے لگا تھا۔ اگر کوئی نماز قضا ہوتی تو مجھے اپنے اندر ایک کمی اور خلا سا محسوس ہوتا۔ اس سے مجھے دکھ اور پچھتاوا ہوتا۔ اس دوران میرا کورس بھی مکمل ہو گیا۔ سال ڈیڑھ سال کی مزید تگ ودو کے بعد مجھے گرین کارڈ بھی مل گیا۔ گرین کارڈ ملتے ہی میں وطن واپس گیا۔ میرے والدین میرے ماضی کے کرتوتوں کی وجہ سے مجھ سے مایوس ہو چکے تھے۔ میں نے پاکستان میں رہ کر بھی ان کی کبھی نہیں سنی تھی اور ان کی مرضی کے خلاف ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب میرا حلیہ اور میرے اندر آئے ہوئے انقلاب کو دیکھا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ میری ماں جو شروع سے ہی صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی اور میری حرکتوں سے نہ صرف نالاں بلکہ شرمندہ ہوتی تھی مجھے راہ راست پر دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئی۔ ایک تو میں برسوں بعد گھر لوٹا تھا دوسرا یہ کہ ان کی منشا کے مطابق اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے پر چل نکلا تھا۔

میری چھٹیوں کے دوران گھر والوں نے میری شادی کرا دی۔ اللہ کے فضل سے میری اہلیہ بھی قرآن وسنت پر عمل پیرا ہے جس سے ہمارے درمیان بہت ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ ہم دونوں امریکہ میں نہ صرف اپنی ملازمت کرتے ہیں بلکہ چھٹی والے دن اسلامک سینٹر میں رہ کر لوگوں تک اللہ کا پیغام پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے گھر میں خوشیاں ہیں اور اس سے بڑھ کر اس کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ اللہ نے ہمیں آج یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی اہلیہ اور اپنے والدین کو حج پر لے کر آیا ہوں۔ میرے والدین کبھی پاکستان میں اور کبھی امریکہ میں آ کر میرے پاس رہتے ہیں۔ وہ مجھے اور میں انہیں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔

 

بغیر اندراج حاجی

___________________

 

منیٰ کے کیمپ میں ایئر کنڈیشنر تو نہیں لگ سکتے کیونکہ یہ شامیانے ہوتے ہیں اور ہر طرف سے ہوا داخل اور خارج ہوتی رہتی ہے۔ تاہم وہاں پائپ نما پنکھے نصب ہوتے ہیں۔ جو کافی موثر ہوتے ہیں۔ ان پنکھوں سے گرمی کا زور قدرے ٹوٹ جاتا ہے۔ شامیانوں کے اندر گرمی کافی حد تک قابل برداشت ہوتی ہے۔ دن کے وقت شامیانے سے باہر نکلتے ہی سورج جیسے سوا نیزے پر محسوس ہوتا ہے۔ دوران حج پیدل بہت چلنا پڑتا ہے۔ اس شدید گرمی اور ہجوم میں پیدل چلنا دل گردے کا کام ہے جسے لوگ اللہ کی رضا کی خاطر ہنسی خوشی برداشت کر لیتے ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ مشکل اور سخت کام میں نے ان لوگوں کو کرتے دیکھا جو باقاعدہ اور رجسٹرڈ حاجی نہیں تھے۔ بلکہ اپنا نام اندراج کرائے اور سرکاری فیس ادا کئے بغیر کسی طور حج کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے عازمین کو نہ تو کوئی کیمپ الاٹ ہوتا ہے اور نہ کوئی شامیانہ ملتا ہے۔ انہوں نے حج کی شرائط کے مطابق منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قیام کرنا ہوتا ہے اور جمرات کی رمی کرنی ہوتی ہے۔ وہ لوگ اپنا بوریا بستر لے آتے ہیں اور کیمپوں کے درمیان جو سڑک ہے اس کے کنارے پر دری یا گدا بچھا کر لیٹ جاتے ہیں۔ یہ انتہائی مصروف اور گرد و غبار سے اٹا راستہ ہے جہاں بے شمار لوگ ہر وقت ادھر ادھر آ جا رہے ہوتے ہیں۔ صفائی والے ٹرک، راشن سپلائی والی گاڑیاں اور بسیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ خاکروب سڑک صاف کرتے ہیں۔ ٹھیلے والے اور بھکاری بھی اپنے دھندوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کے بیچ میں چوبیس گھنٹے پڑے رہنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ان حاجیوں کے سر پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔ رات کے وقت وہ شاید جیسے تیسے سو جاتے ہوں لیکن دن بھر آرام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دن کے وقت تیز دھوپ ہوتی ہے۔ شور شرابہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی مسلسل آمدورفت رہتی ہے۔ ایسے میں ایک گدّا اور ایک تھیلا لے کر راہ میں پڑے رہنا انہی لوگوں کا کام ہے۔ یہ لوگ خاصی بڑی تعداد میں منیٰ میں موجود ہوتے ہیں۔ میں پورے منیٰ کیمپ میں تو نہیں گیا لیکن میرے اپنے کیمپ کے اردگرد ان بوریا نشینوں کی تعداد درجنوں تھی۔ پورے منیٰ میں یہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ با ہمت لوگ ہیں جو کم وسائل کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے آ گئے تھے۔

انہی کی طرح دوسرے سینکڑوں حاجی ہمارے کیمپ کے سامنے والے بڑے سے پہاڑ پر نیچے سے لے کر اوپر تک پتھروں پر مقیم تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن سے لے کر کافی بلندی تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پتھروں کی طرح پڑے نظر آتے تھے۔ جب یہ اٹھتے بیٹھتے یا چلتے پھرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ پتھر نہیں انسان ہیں۔ یہ بھی ہماری طرح حج کے لیے آئے تھے۔ اس سنگلاخ اور تپتے ہوئے پہاڑ پر وہ دن کیسے گزارتے ہوں گے یہ سوچ کر ہی حیرت ہوتی تھی۔ اس سرخ سنگلاح پتھروں سے بھرے اور چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے پہاڑ پر وہ صبر اور ہمت سے بیٹھے رہتے تھے۔ بعض لوگ کہتے کہ یہ مقامی بدّو ہیں جو اس موسم کے عادی ہیں۔ بعض کہتے یہ پاکستان بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مزدور ہیں جو سارا سال اس موسم میں کام کرتے ہیں اور ان کو عادت ہو گئی ہے۔

کچھ بھی ہو وہ انسان ہیں۔ گرمی دھوپ اور تپش کا احساس انہیں بھی ہوتا ہو گا۔ اس چلچلاتی دھوپ کو برداشت کرنے کے لیے جس صبر حوصلے اور قوت برداشت کی ضرورت ہے کاش کہ وہ مجھے بھی حاصل ہو جائے۔ یہ قوت ایمانی ہے جو ان کو اس انتہائی سخت موسم کو برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اے اللہ میرے اندر بھی یہ جذبہ ایمان، یہ حوصلہ اور صبر و شکر کی طاقت عطا فرما۔ آمین

کچھ احباب نے بتایا کہ یہ وہ پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی ہیں جو ویزا ختم ہونے کے بعد محض اس لیے یہاں رکے ہوئے ہیں کہ وطن جانے سے پہلے حج ادا کر لیں۔ پھر نہ جانے زندگی میں یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ حالانکہ ان غریبوں پر شاید حج فرض بھی نہ ہو لیکن وہ اس ثواب عظیم سے محروم نہیں ہونا چاہتے خواہ بعد میں جیل میں ہی جانا پڑے۔ اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ کچھ لوگ اسے غلط بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ غیر قانونی طریقہ ہے۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے ہر مومن کے دل میں اللہ کے گھر کی زیارت کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ یہ منیٰ، عرفات، مزدلفہ کے میدان اہل ایمان کو بلاتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب فرزندانِ توحید حج کر رہے ہوتے ہیں تو دنیا بھر کے لوگ انہیں ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر مومنین کے دل میں شوق و عقیدت انگڑائیاں لیتی ہے۔ ان مقدس مقامات کی زیارت کی خواہش دل میں ابھرتی ہے۔ وسائل ہونا یا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ دل کا معاملہ ہے جسے صرف اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کسی کو سمجھانا اور بات ہے اور اس کے جذبات کو سمجھنا اور بات ہے۔ مسلمانوں کا مکہ مدینہ اور دیگر مقامات مقدسہ سے انتہائی جذباتی رشتہ ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو بھی مسلمانوں کے اس جذبے کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی اس لیے یہاں رک جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر سکے تو اس جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ ایسے لوگوں کو سزا دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

غریب اور بے وسیلہ مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی پر اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم دے سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر نیک مومن کو اپنے گھر اور اپنے نبیﷺ کے آخری ٹھکانے کی زیارت نصیب فرمائے۔

 

میدانِ عرفات کا قیام

 

نو ذوالحج کی صبح ہم میدان عرفات جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بڑی بڑی بسوں میں بیٹھ کر ہمارا قافلہ عرفات کی جانب چلا تو جلد ہی منیٰ سے نکل کر بیرونی شاہراہ پر آ گئے۔ میدان عرفات میں جانے کے لیے بہت سی کھلی کھلی سڑکیں موجود ہیں۔ جو اس وقت بسوں کاروں اور دوسری گاڑیوں سے بھری تھیں۔ ایک انچ جگہ بھی خالی نظر نہیں آتی تھی۔ چند کلومیٹر پر مشتمل یہ فاصلہ ہم نے تقریباً تین گھنٹے میں طے کیا اور پہاڑی پر واقع سفید رنگ کی مسجدِ نمرہ سے کافی نیچے میدان میں ایک سجے سجائے خیمے میں پہنچ گئے۔ یہاں بھی خیمے دور دور تک ترتیب سے بنے ہوئے تھے۔ تاہم دن کے وقت ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے لوگ بغیر خیموں کے اس میدان میں مقیم تھے۔ ہمارے خیمے کے ساتھ ہی ہمارے گروپ کی خواتین کا خیمہ تھا۔ ایک طرف غسل خانے اور وضو گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ چائے اور مشروبات کا بہت اچھا بندوبست تھا۔ علاوہ ازیں ڈبوں میں بند کھانا بھی مہیا کیا گیا۔ لبیک والے اس معاملے میں کافی منظم تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میدانِ عرفات احرام پہنے حاجیوں کی وجہ سے سفید ہوتا جا رہا تھا۔ اُوپر پہاڑی سے لے کر نیچے دور تک پھیلی ہوئی وادی تک سفید لباس میں ملبوس فرزندانِ توحید اللہ کے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اس میدان میں جمع تھے۔ ایسا منظر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ چمکتے دمکتے سورج کی روشنی میں پوری وادی سفید ہو گئی تھی۔ شاید فرشتے بھی ایڑھیاں اُٹھا اُٹھا کراس منظر کو دیکھ رہے ہوں گے۔ حاجیوں کی زبانوں پر لبیک اللّھَمَ لبیک کا تلبیہ جاری تھا۔ دل میں اللہ کے دربار میں حاضری کا جوش تھا۔ ان کی نظریں آسمانوں پر ٹکی تھیں۔ وہ اپنے رب سے ہمکلام ہونے کے لیے یہاں جمع ہوئے تھے۔

میدان عرفات کے اس قیام کو حج کا رُکن اعظم کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر سے مغرب تک اس میدان میں قیام کیا جائے۔ مغرب کے وقت یہاں سے مزدلفہ کے لیے روانگی ہوتی ہے۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں اکٹھی ادا کی جاتی ہیں۔ یہ رات مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے گزاری جاتی ہے۔ میدان عرفات میں قیام کے دوران بظاہر ظہر اور عصر کی نمازوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ عام حاجی حج کا خطبہ نہیں سن پاتے۔ لیکن اِس میدان میں میں نے حاجیوں کے دل کا غبار نکلتے بلکہ انہیں اندر سے دھُلتے دیکھا۔ یہاں پر دعائیں اس طرح مانگی جاتی ہیں جیسے رب اور بندے کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ یہاں دُعا مانگنے کا جو مزا، جو سکون اور جو اطمینان ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دعا کے الفاظ زبان سے نکلے نہیں اور انہیں شرفِ قبولیت حاصل ہو گئی۔ یہاں مانگی جانے والی دعاؤں کی پہنچ آسمانوں تک ہوتی ہے۔ میدان عرفات میں حاجی توبہ استغفار کرتے ہیں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ وہ اپنی اور اپنے خاندان اور ملک و ملت کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔

ہمارے خیمے کے طول و عرض میں حاجی مختلف مصروفیات میں مشغول تھے۔ کچھ نوافل پڑھ رہے تھے۔ کچھ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ کچھ حاجی گروپوں میں بیٹھے حج کے ارکان اور شرائط پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ یہاں چند گھنٹے ہی گزارنے ہوتے ہیں اس لیے حاجیوں کو مخصوص جگہیں الاٹ نہیں کی گئیں۔ وہ اپنی سہولت کے مطابق جہاں دل چاہے بیٹھ سکتے تھے۔

میں اور جاوید صاحب اپنے کیمپ سے باہر نکل کر کھلی شاہراہ پر آ گئے۔ اس شاہراہ کی اونچائی سے دور و نزدیک کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف سفید احرام میں ملبوس فرزندانِ توحید نظر آ رہے تھے۔ مسجد نمرہ جو وہاں سے کافی بلندی پر واقع تھی اس کے ارد گرد بہت ہجوم دکھائی دیتا تھا۔ ہمیں انتظامیہ نے منع کر دیا تھا کہ وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی اس کے اندر جانے کی جگہ ملے گی۔ خواہ مخواہ گرمی، رش اور اونچائی کی وجہ سے کوئی حادثہ یا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہمارے معلم نے کہا ’’یہ پورا میدان ہی آج مسجد ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں آج کے دن اللہ اپنے بندوں پر اپنی رحمتیں برساتا ہے۔ یہ اس سے مانگنے کا دن ہے۔ یہ گناہوں سے نجات پانے کا دن ہے۔ بس اس سے مانگتے رہیں۔ اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرتے رہیں۔ اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور عالم اسلام کے لیے اللہ سے خیر و عافیت اور دنیا اور آخرت کی کامیابی طلب کرتے رہیں۔ اللہ یہ دُعائیں ضرور سنتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مانگی گئی دُعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ خدا اپنے بندوں کو یہاں سے مایوس نہیں لوٹاتا۔ وہ اپنے بندوں کا دامن اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیتا ہے۔ بس یہ دامن ربِّ ذوالجلال کے آگے پھیلاتے رہیں۔ آپ کا دامن بھر جائے گا اس کی رحمتیں کم نہیں ہوں گی۔ آج کے دن اس کی رحمتیں بے بہا اور بے شمار ہیں۔ بے شک اس سے بڑا رحمن اور اس سے بڑا رحیم کوئی نہیں ہے۔

کیمپ سے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر ہم نے دیکھا کہ مختلف قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیاں آتی ہیں۔ وہ حاجیوں میں پانی کی بوتلیں دیگر مشروبات اور ڈبے میں بند کھانا تقسیم کرتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ ان اشیاء سے وہ حاجی صاحبان مستفید ہو رہے تھے جو کیمپ سے باہر اور کھلے آسمان تلے دن گزار رہے تھے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست ان کی انتظامیہ کی طرف سے تھا یا نہیں تاہم وہاں اشیائے خورد و نوش کی کمی نہیں تھی۔ منیٰ اور عرفات میں ہمارے پاس جو کھانا زائد از ضرورت ہوتا تھا ہم باہر لا کر ان ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ میرے خیال میں کیمپوں سے باہر رہنے والے اور کام کاج کرنے والے کسی بھی شخص کو وہاں کھانے کی کمی ہر گز نہیں ہو گی۔ منیٰ کے کیمپ میں کھانا وافر مقدار میں آتا تھا۔ اسے پھینکنے سے پہلے باہر سڑک پر موجود ٹھیلے والوں، بھکاری خواتین، بے خیمہ حاجیوں کے درمیان بانٹ دیا جاتا تھا۔ دوسرے عام کیمپوں والے بھی یہی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات کھانا اور پانی گاڑیاں میں لاد کر لاتے تھے۔ حج کے دوران مکہ، مدینہ، عرفات، عزیزیہ، غرضیکہ جہاں جہاں حاجی اور مسافر انہیں ملتے تھے وہ ان کے درمیان تقسیم کرتے رہتے تھے۔ عزیزیہ جیسی جگہ جو بنیادی طور پر رہائشی علاقہ ہے حج کے دنوں میں وہاں بے شمار حاجی گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سڑکوں اور گلیوں میں یہ کھانا اور پانی تقسیم ہوتا رہتا تھا۔ اللہ کے یہ بندے خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں کھجوریں اور کھانا بانٹ رہے ہوتے۔ مسجد نبویؐ سے نماز پڑھ کر باہر نکلیں تو کئی دروازوں کے باہر کھانا تقسیم ہو رہا ہوتا۔ میری ملاقات ایسے کئی حاجی صاحبان سے ہوئی جو اس کھانے سے استفادہ کرتے تھے اور خود کھانا بنانے کے تردّد سے بچے رہتے تھے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ان لوگوں میں مقامی سعودیوں کے علاوہ دوسرے ملکوں کے مسلمان بھی شامل ہیں جو سعودیہ میں مقیم ہیں۔

یہ بھی کیسا منظر ہوتا ہے کہ لوگ اپنی محنت سے کمائی حلال آمدنی اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر دل کھول کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کے نظام میں صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور نفاق فی سبیل اللہ نے ایک توازن اور ایک حسن قائم کر رکھا ہے۔ ا س معاشرے میں ناداروں، مسافروں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مخیر اور اہل زر کا ہے۔ اس سے معاشرہ کتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اس معاشرے میں کوئی بے بس اور مجبور نہیں ہوتا۔ کوئی بھوکا اور ننگا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کو اس کے حصے کے مطابق رزق اور پناہ مل جاتی ہے۔ کاش کہ اسلام کا یہ نظام مکمل طور پر نافذ ہو جائے اور اسلامی معاشرے کا ہر فرد اس سے مستفید ہو سکے۔

ظہر کی نماز کے وقت میں وض وکرنے گیا تو وہاں گھڑی اتار کر رکھی۔ وضو کے بعد وہاں سے اٹھانا بھول گیا۔ نماز پڑھنے کے کافی دیر بعد اس گمشدگی کا احساس ہوا۔ یہ خاصی قیمتی گھڑی تھی۔ میں جلدی جلدی خیمے سے نکل رہا تھا۔ ادھر سے ہماری انتظامیہ یعنی لبیک کے باس کا بیٹا اندر داخل ہو رہا تھا۔ سلام دینے کے بعد اس نے پوچھا ہے ’’خیریت ہے نا؟‘‘

میں نے کہا ’’یوں تو خیریت ہے۔ میں اپنی گھڑی وضو گاہ میں بھول آیا ہوں۔ وہی لینے جا رہا ہوں‘‘

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’آپ اطمینان سے جائیں آپ کی گھڑی وہیں ہو گی۔ اسے کوئی نہیں اٹھائے گا‘‘

وہی ہوا۔ میری گھڑی وہیں تھی جہاں میں نے رکھی تھی۔ اس دوران سینکڑوں لوگ وہاں گئے ہوں گے لیکن کسی نے گھڑی چھونے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اس میدان میں ہر شخص اس وقت اللہ کا سپاہی بنا ہوا تھا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ ہر دل میں موجزن تھا۔ وہ کسی غلط کام کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ جذبہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں جاگزین رکھے۔

ظہر اور عصر کے درمیان ہمارے کیمپ میں اجتماعی دُعا ہوئی جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ہمارے اور خواتین کے کیمپوں کے درمیان مشترکہ ساؤنڈ سسٹم قائم تھا۔ کیونکہ وہ بھی امام صاحب کی اقتداء میں نماز ادا کرتی تھیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ دُعا کون کروا رہا تھا۔ کیونکہ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے اس کا چہرہ واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ دُعا اُردو یا عربی میں نہیں تھی۔ ہماری مادری، قومی یا علاقائی زبان میں بھی نہیں تھی۔

شاعر نے کہا تھا

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ہماری شرح آرزو زبان غیر یعنی انگریزی میں تھی۔ ہمارے گروپ میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کی مادری زبان انگریزی ہو گی۔ ہمارا قافلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے آیا تھا لیکن ہم میں سے بیشتر کی مادری اور پہلی زبان اُردو، عربی، بنگالی، پنجابی اور پشتو وغیرہ تھیں۔ ہم سب نے انگریزی زبان سیکھی تھی۔ یہ ہماری پہلی یا ترجیحی زبان نہیں تھی۔ صرف ہماری اولادوں میں وہ نوجوان جو آسٹریلیا میں ہی پلے بڑھے تھے ان کی پہلی اور ترجیحی زبان انگریزی تھی۔ لیکن ایسے نوجوان ہمارے درمیان بہت کم تھے۔ بہت سے خواتین و حضرات کی انگریزی خاصی کمزور تھی۔ لیکن آج زبان کسی کے آڑے نہیں آئی۔

ہمارے دُعا خواں نے اپنی پر سوز آواز اور درد بھرے اندازسے وہ سماں باندھا کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سب کو اپنے دل میں اُترتا محسوس ہو رہا تھا۔ دُعا خواں کے دِل سے نکلی ہوئی دعاؤں میں اتنی رقّت، اتنا سوز، اتنا درد اور اتنا عجز تھا کہ کیمپ میں موجود شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جس کی آنکھوں سے اشک رواں نہیں ہوں گے۔ جو دُعا خواں کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے خود مجسم دُعا نہ بن گیا ہو۔ کوئی شخص بھی بیٹھا نہ رہ سکا۔ سب قبلہ رُو کھڑے تھے۔ سب ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔ نظریں جیسے کسی خاص مرکز پر جمی ہوئی تھیں۔

وہ دعائیں تھیں التجائیں تھیں یا کراہیں تھی کہ اس کا اثر سے زمین آسمان پر نظر آ رہا تھا۔ اشکوں سے چہرے، داڑھیاں اور احرام تر ہو رہے تھے۔ دُعا مانگنے والے کے اندر کا درد، کرب اور التجا سب کو اپنے دل کی صدا محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے الفاظ اس کی طلب سب کو اپنی طلب لگ رہی تھی۔ اس کا رونا سب کو رُلا رہا تھا۔ اس کی دعاؤں، اس کی التجاؤں اور اس کی تڑپ نے کٹھور سے کٹھور شخص کو بھی آبدیدہ کر دیا تھا۔ اشک ایسے بہہ رہے تھے جیسے برسات ہو رہی ہو۔

میرے ساتھ نیوزی لینڈ سے آیا ہوا ایک حاجی کھڑا لب بہ دُعا تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کامقامی سیاہ فام تھا۔ معلوم نہیں کب وہ یا اس کے آباء و اجداد مسلمان ہوئے تھے۔ اللہ کے دربار میں دُعا مانگتے ہوئے وہ اس قدر ڈوب چکا تھا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی اور اس کا احرام تر ہو گئے تھے۔ اس کی زبان پر بار بارایک ہی لفظ آ رہا تھا۔ اللہ!

اس کے دل کا سارا درد اس ایک لفظ میں سمٹ آیا تھا۔ اللہ پریقینِ کامل کا حامل اور اس سے نجات کا طالب یہ شخص اللہ اللہ ایسے پکار رہا تھا جیسے اس کا کلیجہ کٹ کر باہر آ جائے گا۔ اس کا بال بال اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ اللہ کوپکارنے کے اس انداز سے اللہ سے اس کے گہرے رشتے کا پتہ چلتا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اسے اللہ اپنے سامنے نظر آ رہا ہے۔ اللہ سے اس کی عقیدت اور محبت اس کی پکار سے ظاہر تھی۔ اسے اپنے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ ہونٹوں پر پیپڑیاں جمی ہوئی تھیں اور بدن کانپ رہا تھا۔

مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ میں نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی تو کافی دیر تک اسے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ اچانک وہ لہرایا اور سجدے میں چلا گیا۔ سجدے میں بھی اس کا جسم ہچکولے کھا رہا تھا اور اللہ اللہ کی صدا بلند ہو رہی تھی۔

یہ شخص تھوڑی دیر پہلے ملا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ نیوزی لینڈ سے آیا ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ شخص مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا۔ نہ جانے کون تھا وہ۔

حج پر جا کر پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ میں دُعا ایسے مانگتا تھا جیسے بے خیالی میں سانس لیتے ہوں۔ جیسے کسی سوچ میں گم ہوں اور کھا نا بھی کھا رہے ہوں۔ جیسے رٹا رٹایا ایسا سبق پڑھ رہے ہوں جس کا مطلب بھی سمجھ نہ آتا ہو۔ جیسے پہاڑا سنا رہے ہوں۔ دعا مانگتے ہوئے نہ تو مجھے مقام دُعا یاد رہتا تھا اور نہ اس کی یاد آتی تھی جس سے مانگتا تھا۔ یہ رٹی رٹائی دُعا تھی جو بچپن میں یاد کی تھی۔ حالانکہ اس عربی دعا کا ترجمہ مجھے آتا تھا۔ لیکن دعا مانگتے ہوئے یہ ترجمہ میرے ذہن میں نہیں ہوتا تھا۔

بے شک ہمارا رب غفور الرحیم ہے۔ وہ ہماری حاجات سے واقف ہے۔ ہمارے دلوں کے بھید جانتا ہے۔ وہ ہماری دعائیں سنتا ہے۔ وہ ہمیں نوازتا رہتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کے قریب ہونے کی ضرورت ہے۔ بہت قریب۔ اتنا قریب جتنا وہ ہمارے قریب ہے۔ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی اس کے بارے میں ایسا سمجھتے ہیں۔ کیا ہماری زندگیاں اسی انداز میں گزرتی ہیں جس انداز میں وہ چاہتا ہے۔ کیا ہم اس کے فرمان پر ویسے ہی عمل کرتے ہیں جیسے وہ چاہتا ہے۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ تو پھر ہم اس سے اتنے دور دور کیوں ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی رحمتیں اور نعمتیں بھول جاتے ہیں۔ اس کی جزا اور سزا کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اپنی موت کو بھول جاتے ہیں جو برحق ہے۔ آخر ہماری یادداشت اتنی کمزور کیوں ہے۔ شاید یہی ہمارا امتحان ہے۔ کاش کہ رب کی موجودگی کا احساس ہر وقت میرے ساتھ رہے۔ کاش کہ میری دعاؤں میں وہ تاثیر پیدا ہو جائے جو اسے پسند ہے۔

میدانِ عرفات میں جس طرح ہمارے پیشوا نے دُعا مانگی اس طرح ہم روزانہ نہیں تو ہفتے عشرے میں مانگیں تو ہمارے دلوں پر زنگ نہیں جمے گا۔ میرے رب کو اپنے بندوں کی اطاعت، فرمانبرداری اور دعائیں بہت پسند ہیں۔ یہی تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے فرمانبردار رہیں۔ جو بھی حاجت ہو اسی سے مانگیں۔ بس شرط یہ ہے کہ جب بھی مانگیں دل سے مانگیں۔ گڑ گ ڑا کر مانگیں۔ اس سے توبہ استغفار کرتے رہیں۔ اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔ اس کا رحم اور اس کا کرم طلب کرتے رہیں۔ اللہ سے رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔ دعاؤں کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔

آسٹریلیا میں ایک ڈاکٹر صاحب ہمارے اچھے دوست ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہیں حج کا شوق چرایا لیکن ان کا دل و دماغ پوری طرح اس طرف مائل نہیں تھا۔ ساری زندگی دین سے دوری میں گزری تھی۔ اللہ معاف کرے ایمان بھی ڈانواں ڈول رہتا تھا۔ تاہم آبائی دین ہونے کی وجہ سے رسمی مسلمانیت باقی تھی۔ حج کا خیال آیا تو محض فرض سمجھ کر چل پڑے۔ دل میں کوئی تڑپ اور توبہ کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ عمرے کے دوران بھی ان پر اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ لیکن ان میں اصل تبدیلی خانہ کعبہ یا مسجد نبویﷺ میں نہیں بلکہ اونچے سنگلاخ پہاڑوں سے گھرے میدانِ عرفات میں آئی۔

وہ ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ ان کا گروپ الگ تھا۔ حج کے بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا ’’یار میرے ساتھ عجیب واقعہ ہوا۔ میدانِ عرفات میں پہنچتے ہی نہ جانے کیوں میرے آنسو رواں ہو گئے۔ یہ آنسو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میری پوری زندگی ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگی۔ پہلے بچپن کا خیال آیا جہاں والدین کے زیر سایہ دین کی تعلیم حاصل کی، قرآن مجید پڑھنا سیکھا اور نماز روزے کی بھی تربیت دی گئی۔ ا سکول کی حد تک نماز میں پابندی رہی اور دین سے تعلق قائم رہا۔

کالج جاتے ہی یہ سلسلہ ختم ہوا اور پھر ڈاکٹر بننے کے بعد میں صرف نام کا مسلمان رہ گیا۔ عید پر بھی مسجد کی شکل نہیں دیکھتا تھا۔ سائنس اور میڈیکل میں اُلجھ کر میرا ایمان بھی ڈانواں ڈول ہو گیا تھا۔ پوری زندگی اسی طرح گزر گئی۔ اب بڑھاپے میں دورانِ حج اور وہ بھی قیامِ عرفات کے دوران معلوم نہیں کیا ہوا کہ اپنے سارے گناہ ایک ایک کر یاد آنے لگے۔ اپنی بد اعمالیاں اور اللہ سے دوری ستانے لگی۔ احساسِ گناہ اور یہ پچھتاوا اتنا بڑھا کہ آنسور کنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ زبان سے اللہ اللہ کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا تھا۔ روتے روتے جیسے میرے اندر کی کالک بھی دھل گئی اور اللہ کا نور دل و دماغ میں سمانے لگا۔ رکوع و سجود میں لطف آنے لگا۔ اذان کی آواز سے پیار ہونے لگا۔ قرآن پڑھنا جیسے میں بھول چکا تھا پھر سے وہ وردِ زبان ہو گیا۔ آسٹریلیا واپس آیا تو میں مختلف شخص تھا۔ خالی ہاتھ گیا تھا دامن بھر کر لوٹا۔ میں نے زندگی بھر جو دولت جمع کی وہ ان چند دنوں کی حاصل کردہ دولت کے آگے ہیچ ہے۔ میرے اندر اللہ نے اتنی بڑی تبدیلی پیدا کر دی کہ گھر والے اور دوست احباب حیران رہ گئے۔ یہ اللہ کا کرم ہے اور اس مقدس جگہ کی برکت ہے کہ مجھ جیسے گناہ گار کو بھی ہدایت کی روشنی نصیب ہوئی۔

میرے ساتھی جاوید صاحب جو کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوتے تھے انہیں بھی میں نے میدانِ عرفات میں روتے اور گڑگڑاتے دیکھا۔ حالانکہ وہ عبادات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ فرض نماز پڑھ لیتے تھے اور بس۔ ادھر ادھر گھومتے پھرتے، چائے اور سگریٹ سے شغل کرتے یا پھر آرام کرتے رہتے تھے۔ لگتا تھا کہ حج پر نہیں چھٹیاں منانے نکلے ہیں۔ لیکن میدانِ عرفات میں دورانِ دُعا ان کی حالت دیدنی تھی۔ وہ گڑ گڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ یا اللہ تو کتنے رنگ دکھاتا ہے۔ تیرے بندوں میں تیرے ہی رنگ بکھرے ہیں۔ کائنات کے تمام رنگ تیرا ہی پرتو ہیں۔

ہمارے اجتماعی دُعا تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔

خوب گھٹائیں چھائیں۔

اور برکھا برسی۔

ہر طرف جل تھل کا سماں ہو گیا۔

برکھا کی یہ جلترنگ سنگلاخ اور بے آب و گیاہ چٹانوں پر بھی برسی۔

وہاں سے بھی جھرنے بہہ نکلے۔

خشک ندی نالے بھرنے لگے۔

مرجھائی ہوئی کھیتیاں ہری ہونے لگیں۔

جب برکھا تھمی تو پتہ پتہ بوٹا بوٹا بھیگ چکا تھا۔

سوکھی کھیتیوں میں جان پڑ گئی تھی۔

زمین سے نئی کونپلیں سر اُٹھا رہی تھیں۔

درخت، پہاڑ، گھاس پھونس سب دھل کر تر و تازہ اور نکھر چکے تھے۔

دور آسمانوں پر سات رنگوں کی قوسِ قزح نئے موسموں کی نوید دے رہی تھی۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے