سر راہ ۔۔۔ اختر النساء قریشی

 

آج کمپیوٹر کلاس میں کچھ خاص Function   کو Explain   نہیں کیا گیا۔ کچھ مزا نہیں آیا بھئی …مطربہ نے راستہ چلتے ہوئے زنیرہ سے کہا۔ ’’اللہ! دیکھو کتنا پیارا بچہ ہے دل چاہ رہا ہے کہ اسے وہاں سے اٹھا کر ساتھ لے جاؤں۔ ‘‘

’’ارے! زنیرہ۔ میں تم سے کیا بات کر رہی ہوں  اور تم کیا جواب دے رہی ہو! یہ بچے کا ذکر کہاں سے بیچ میں آ گیا۔ ‘‘مطربہ نے متعجب ہو کر زنیرہ سے پوچھا۔

’’ہاں! نہیں تو کیا دیکھو تو کتنا چھوٹا سا بچہ ہے ، چلو اسے اٹھا کر گھر لے چلیں۔ ‘‘

’’بس! اب تم اس بات پر عمل درآمد مت کرنا  اور اس سے پہلے کہ تم اپنے ارادے کو پورا کرو قدم تیز تیز آگے بڑھاؤ اگر تاخیر ہو گئی تو گھر میں ڈانٹ مجھے ہی پڑے گی تم تو بچ جاؤ گی۔ ‘ مطربہ نے تفکر آمیز لہجے میں زنیرہ سے کہا۔

زنیرہ  اور مطربہ دونوں آپس میں ماموں پھوپھی زاد بہنیں تھیں۔ زنیرہ اپنے ماموں کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں شادیوں میں شرکت کی غرض سے کانپور سے لکھنو آئی ہوئی تھی۔ چونکہ مطربہ کمپیوٹر کورس کر رہی تھی تو زنیرہ نے بھی ایک ماہ کے لیے class join   کر لی تھی۔

یہ دونوں جلدی جلدی گھر پہنچیں لیکن زنیرہ کا دھیان اسی کوڑے کے ڈھیر میں اٹک کے رہ گیا تھا۔ زنیرہ نے سوچا ’’یہ مطربہ بھی عجیب لڑکی ہے۔ ذرا دیر رک جاتی تو میں اس بچے کو اس ڈھیر سے اٹھانے میں ضرور کامیاب ہو جاتی۔ ‘‘

’’سوری مما ہم آج ذرا late   ہو گئے ، دراصل اس زنیرہ کو کوڑے کے …‘‘

’’مطربہ …مطربہ … میں کہتی ہوں خاموش رہو نہیں تومیں تم سے بات نہیں کروں گی‘‘ زنیرہ نے مطربہ کو دھمکی دی۔

’’ارے! بات تو مکمل کرو‘‘ ممانی نے درمیان میں ٹوکا۔

‘‘ نہیں ممانی جان کوئی بات نہیں! یہ تو بس یونہی مطربہ کی زبان میں کھجلی ہوتی رہتی ہے …‘‘

’’نہیں مما یہ زنیرہ …‘‘

’’دیکھو مطربہ! میں پھر کہہ رہی ہوں …‘‘زنیرہ نے مطربہ کو حقیقت بیان کرنے سے باز رکھنا چاہا۔

’’مما یہ زنیرہ ہے نا اسے بس ہر اک پر …‘‘

’’دیکھو مطربہ میں صحیح میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی! ‘‘

’’اچھا چلو تم کہتی ہو تو میں نہیں بتاتی‘‘ مطربہ نے زنیرہ  کو اطمینان دلایا۔

ؔؔ اب خوش! چلو اب ذرا کچن میں جھانک آئیں۔ شام کے کھانے کی تیاری بھی کرنی ہے۔ ‘‘

’’ہاں چلو‘‘ زنیرہ نے کہا: ’’دیکھو مطربہ اگر تم نے اس بات کا ذکر گھر میں کسی سے بھی کیا تو تمہاری میری دوستی ختم سمجھو…‘‘

’’ارے اتنی ناراضگی…! ٹھیک ہے بابا میں کسی سے بھی نہیں کہوں گی خوش …‘‘مطربہ نے کہا۔

’’زنیرہ تم روٹیاں ڈال لو! میں باقی چیزیں تیار کر لوں گی‘‘

’’…ارے! تم نے ابھی تک آٹا نہیں گوندھا! زنیرہ …تم کہاں گم ہو بھئی؟ ہاں …میں تم سے کہہ رہی ہوں زنیرہ! ‘‘

’’…ہاں وہ بلی کا بچہ … ‘‘زنیرہ نے چونک کر کہا۔

’’اف! میرے خدا…تم ابھی تک اسی کے بارے میں سوچ رہی ہو …‘‘ مطربہ بولی ’’اچھا چلو! یوں کرتے ہیں ابھی پانچ بج رہے ہیں۔ ہم چھ بجے تک پورا کھانا تیار کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد چل کراس بچے کو اٹھا لائیں گے …نہیں  تو تم نیند میں بھی بلی کا بچہ … بلی کا بچہ … چلاؤ گی۔ ‘‘

’’ارے ہٹو بھی اب! ایسی بھی بات نہیں …بس… پتہ نہیں کیوں میں اس طرف سے ذہن نہیں ہٹا پا رہی ہوں …‘‘

’’اچھا لاؤ میں تمہاری مدد کروں‘‘ زنیرہ نے کہا۔

’’چلو بھئی اب اپنا کھانا تو تقریباً تیار ہو گیا۔ تم مما کو بتا کر  آؤ تب تک میں کچن کا سامان سمیٹ لیتی ہوں …‘‘زنیرہ کے کچن سے نکل جانے کے بعد مطربہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ اتنے میں زنیرہ چلاتی ہوئی آئی۔ ’’مطربہ …مطربہ…! ‘‘

’’کیا ہے بھئی کیوں چلا رہی ہو؟ ‘‘

’’ارے! مطربہ سنو تو سہی، ممانی جان نے اجازت دے دی ہے۔ اب ہمیں جلدی چلنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بچہ وہاں سے کہیں  اور چلا جائے …‘‘

’’…oh yes! we are already too late  ‘‘ مطربہ نے کہا…

’’…lets go now   ‘‘

’’زنیرہ …زنیرہ ارے بھئی مجھے تو وہ بچہ دکھائی نہیں دے رہا۔ ‘‘

’’دیکھو مطربہ! مجھے وہ بچہ ہر قیمت پر چاہئے۔ ‘‘

’’اگر تم اس وقت ضد نہ کرتی تو وہ بچہ میرے پاس ہوتا …‘‘زنیرہ نے مطربہ سے شکوہ کیا۔ ’’اب تم ہی اسے اس گندگی کے ڈھیر سے مجھے ڈھونڈ کر دو۔ ‘‘

’’I’ll try my best, OK  ‘‘

’’…اف! کتنی بدبو…اور یہ زنیرہ  اور اس کی یہ طفلانہ پسند … اب تو وہ بچہ اسے ڈھونڈ کر دینا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’کہاں گیا…کہاں گیا…ہاں! یہ رہا وہ بلی کا بچہ! ‘‘

’’زنیرہ مل گیا… دیکھو…یہ رہا تمہارا بلی کا بچہ…‘‘

’’ارے! دیکھو اب میں اٹھاؤں کیسے …یہ کہیں کاٹے نہ …ہاں …نہیں کاٹا… لو سنبھالو! تمہارا بلی کا بچہ ‘‘مطربہ نے اپنے کپڑوں سے گرد جھٹکتے ہوئے زنیرہ سے کہا۔ ’’اب تو یہ میرا رقیب بن گیا۔ تم نے اس سڑے بچے کے لیے مجھے اس گندگی کے ڈھیر پر بھیجا! میں اس کا بدلہ تم سے ضرور لوں گی… دیکھ لینا ہاں! … ‘‘زنیرہ نے ہنس کر اس کی بات کے جواب میں کہا ’’اب تم جو چاہو کر لو میں کچھ نہیں کہوں گی…اب لاؤ وہ بچہ مجھے دو۔ ‘‘زنیرہ نے اس بچے کو مطربہ کے ہاتھوں سے لے لیا…

’’اور ہاں! تمہیں میری وجہ سے جو تکلیف اٹھانی پڑی اس کے لیے sorry‘‘

’’…ٹھیک ہے … ٹھیک ہے۔ اب چلو! سارے لوگ آتے جاتے ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں کہ یہ لڑکیاں اس کوڑے کے ڈھیر پر کیا کر رہی ہیں …‘‘

’’ہاں ہاں چلو یہاں سے جلدی چلیں … ‘‘

’’مما…مما…‘‘

’’کیا ہے لڑکیوں! کیوں اتنا شور مچا رہی ہو؟ ان لڑکیوں کو کتنا ہی کہو کہ اب تم بڑی ہو گئی ہو ذرا آواز دبا کر بولا کرو… لیکن رب خیر کرے … آج کی یہ نئی نسل… ارے! یہ تم کیا اٹھا لائی ہو…ارے زنیرہ تمہارے پاس یہ بلی کا بچہ۔

’’ہاں ممانی جان میں نے اس بچے کو پالنے کا ارادہ کیا ہے  اور اب یہ ہمارے ساتھ کانپور جائے گا۔ ’’

’’ٹھیک ہے بھئی…تم لوگوں کا بچپن ابھی تک گیا نہیں …جاؤ! اس بچے کو صاف کرو اور کچھ کھلاؤ پلاؤ…‘‘

’’ممانی جان…ممانی جان…‘‘

’’ارے زنیرہ اب کہہ بھی چکو کب سے کان کھا رہی ہو… ‘‘

’’ممانی جان آپ ناراض تو نہیں ہیں نا؟ ‘‘

’’…کس بات سے بھئی؟ ‘‘

’’…اس بچے کی وجہ سے … ‘‘

’’ارے نہیں بیٹا تم لوگوں کے یہی دن تو موج مستی کے ہیں۔ لیکن بیٹا تم لوگ اک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ اپنی خوشی کے لیے ہم سے کسی کو ضرر نہ پہنچے۔ تم نے اپنے شوق کو پورا کر نے کے لیے وہاں سے اس بچے کو اٹھا لایا…لیکن کیا اس بات پر غور کیا کہ جب اس بچے کی ماں اسے تلاش کرے گی  اور اسے وہاں نہ پائے گی تو اس کی ممتا کتنی تڑپے گی…چلو چھوڑو ان باتوں کو اور آؤ کھانے کے لیے پھر تمہیں صبح جلدی بیدار بھی ہونا ہے …‘‘ ’’ممانی نے کتنی صحیح بات کی …میں نے تو اس بات پر غور ہی نہیں کیا‘‘ زنیرہ نے مطربہ سے کہا…زنیرہ کی بات سن کر مطربہ اس کا ارادہ بھانپ گئی  اور اس سے کہا۔ ’’اے بی بی! اب غور کرو بھی مت…کیونکہ مجھے پتہ ہے غور کر نے کا نتیجہ …اسے وہیں چھوڑ آنا ہو گا…مجھے تو بہت بھوک لگی ہے …میں تواب بس کھانا کھاؤں گی  اور سوؤں گی… ‘‘

’’مطربہ سنو تو میری بات …‘‘

’’نہیں! مجھے کچھ نہیں سنتا…پہلے لانے کے لیے خوار کیا اب چھوڑ آنے کی بات کرو گی…‘‘

’’ارے ارے سنوتو! ‘‘بے چاری زنیرہ چلاتی ہی رہ گئی، لیکن مطربہ نے اس کی ایک نہ سنی…

’’اللہ! اب میں اس بچے کو کیسے چھوڑ آؤں …‘‘زنیرہ متفکر ہوئی۔

’’ماموں جان! ہاں وہی ہیں جو میری مدد کر سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں تو زنیرہ! کیا کہتی ہو۔ ‘‘

’’تمہاری بلی  اور اس کا بچہ …‘‘مطربہ نے زنیرہ کو ستایا…’’تم  تو مجھ سے بات نہ کرو… ‘‘

’’اوہو! ہماری بلی ہم ہی سے میاؤں! ‘‘ مطربہ مسکرائی  اور کہا…

’’ارے! ہماری زنیرہ بیٹی کیوں ناراض ہے۔ ‘‘

’’پاپا کچھ نہیں/ یہ موصوفہ تھوڑی پاگل ہو گئی ہے … ‘‘

’’ارے! ہمیں تو کسی نے نہیں بتایا… کب ہوا یہ حادثہ …‘‘

’’ماموں جان! آپ بھی! اس آفت کی پر کالی کے ساتھ مل گئے …ماموں جان دراصل …‘‘

’’ارے کہو بیٹی کیا بات ہے …‘‘

’’اسے اب بلی کے بچے کو واپس چھوڑ آنا ہے۔ ‘‘ مطربہ نے درمیان میں کہا۔

’’…تم تواب اپنی چونچ بند ہی رکھو … ‘‘زنیرہ نے خفگی کا اظہار کیا۔

’’بلی کا بچہ! ارے بھئی یہ بلی کا بچہ کہاں سے درمیان میں آ گیا… ‘‘

’’ماموں جان اسے توہر معاملہ میں ٹانگ اڑانے کی عادت …‘‘مطربہ نے زنیرہ کا فقرہ اچک لیا  ’’اور تمہیں توڑنے کی …‘‘

’’دیکھو مطربہ …‘‘

’’ہاں دکھاؤ! ‘‘

’’مطربہ میں تم سے ناراض ہوں بس… ‘‘

’’ارے مسئلہ کیا ہے جلدی بتاؤ کھانا ختم ہو گیا  اور تم لوگوں کی نوک جھونک میں اصل بات رہ گئی ‘‘مطربہ کے والد نے زنیرہ سے کہا…

’’ماموں جان مجھے اس بلی کے بچے کو اسی جگہ چھوڑ آنا ہے جہاں سے میں اسے اٹھا لائی تھی…‘‘زنیرہ نے جلدی سے اپنی بات ختم کی کہ کہیں مطربہ پھر سلسلہ نہ توڑ دے …

’’چھوڑ دینا سے تمہارا کیا مطلب ہے زنیرہ بیٹی…‘‘

’’مطلب یہ پاپا کہ مطربہ تم بالکل نہیں بولو گی… ‘‘

’’مطربہ! ‘‘

’’جی پاپا‘‘

’’ ہماری بیٹی کو پریشان نہ کرو…‘‘

’’جی اچھا I am serious   … ‘‘

’’ہاں! اب بولو زنیرہ بیٹی‘‘

زنیرہ نے بلی کے بچے کے متعلق پورا واقعہ اپنے ماموں کو کہہ سنایا  اور بولی ’’اگر مجھے ممانی جان ایک اچھی بات نہ بتاتی تومیں ایک بہت بڑے جرم کی مرتکب ہو جاتی جو انجانے میں مجھ سے سرزد ہوتا وہ ایک شیر خوار بچے  کو اس کی ماں سے جدا کرنا تھا۔ جیسے ہی مجھے ممانی جان نے یہ بات سمجھائی میں نے فوراً طے کر لیا کہ ہم اسے فوراً سے پیشتر اس کی ماں کے پاس چھوڑ آئیں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ جس طرح ہم اپنے والدین کے تئیں یہ سوچتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں تو پھر ہم اس بات کے حقدار نہیں کہ ایک جانور کو بچے کے اس کے حق سے محروم رکھیں۔ ‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے