جہانِ خیال میں ۔۔۔ ڈاکٹر شائستہ فاخری

 

میں نے اپنا چشمہ ماتھے کے اوپر لے جا کر بالوں کے گھنے پف کے درمیان پھنسا دیا۔ برہنہ آنکھوں سے ہنستی کھیلتی دنیا کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ دھوپ اور بادلوں کی لُکا چھپی کا کھیل، دوڑتے بھاگتے بچے، ٹہلتے گھومتے نوجوان جوڑے، تھمے تھمے قدمو سے چہل قدمی کرتیں عمر دراز عورتیں اور مرد، ننھے ہاتھوں سے چھوٹ کر آسمان کی جانب اُڑتے رنگ برنگے غبّارے، تالیاں بجاتیں ننھی ہتھیلیاں، ہتھیلیوں کی اوٹ میں ایک دوسرے کی جانب جھکتے ہوئے جواں چہرے اور میں۔  میں اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھی تھی۔  گل موہر کے درخت کے نیچے بنی بینچ پر۔  میں اکثر یہاں آتی رہتی ہوں۔ جگہ جانی پہچانی، راستے دیکھے بھالے پھر بھی جانے کیوں گھر سے باہر نکلتے ہی دل گھبرانے لگتا ہے۔ پارٹی چھوڑ کر جب میں شانے پر پرس جھلاتی زینے سے اتر رہی تھی تو مسٹر حبیب بھاگتے ہوئے میری طرف آئے۔۔۔۔۔  ’’ارے آپ کہاں جا رہی ہیں؟ٹی پارٹی کا لطف تو اُٹھا لیجئے۔ آج مسز کاشف کی شادی کی پچیسویں سال گرہ ہے۔‘‘

’’میں اس خوشی کے موقعے پر ضرور شامل ہوتی مگر ابھی جلدی میں ہوں۔‘‘

’’آپ تو ہمیشہ جلدی میں رہتی ہیں۔  کبھی کبھی تو ایسے موقعے آتے ہیں، جب ہم لوگ کلاس سے فری ہو کر ایک ساتھ ہنستے بولتے ہیں۔‘‘

میں ہنس پڑی۔۔۔۔  ’’ایک ساتھ تو ہم لوگ روز ہنستے ہیں۔  گھر جا کر بھی کانوں میں قہقہوں کا شور گونجتا رہتا ہے۔‘‘

’’ہاں ! بات تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔  شور تو واقعی بہت اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘

مسٹر حبیب کی آواز کی چہک ٹھنڈی پڑ گئی۔  گرمجوشی ندارد۔  میں نے اسی بات کا فائدہ اُٹھایا اور تیزی سے زینہ اتر گئی۔ بلڈنگ سے باہر آئی تو دیکھا موسم خوشگوار ہو رہا ہے۔  شام کے چار بج رہے تھے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ بس رات اب اُترنے کو ہے۔  برسات کے موسم میں کب بادل کالے ہو جائیں گے اور کب سنہری دھوپ نکل آئے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

میں نے اپنی کار کی چابی گھمائی اور ۴۰ کی رفتار سے خراماں خراماں چلاتی ہوئی شہیر پارک کے گیٹ تک پہنچ گئی۔ دوسرے پارکوں کے بہ نسبت یہاں کا ٹکٹ بہت مہنگا نہیں تھا۔  دس روپئے کا نوٹ میں نے ونڈو پر رکھ دیا۔ اور ٹکٹ لے کر پارک کے اندر داخل ہو گئی۔ مجھے اس بینچ پر بیٹھے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا۔ ہوا کے زور سے درخت کی زرد اور کمزور پتیاں ٹوٹ کر میرے اوپر گرتی جا رہی تھیں۔ مگر مجھے ان کا جھرنا، ان کا ٹوٹنا بھی اچھا لگ رہا تھا۔ چھونے پر زرد پتوں کی کُر مُری سی آواز مجھے بھلی لگ رہی تھی۔

اچانک ہواؤں کا بہنا تھم گیا۔  ٹکڑوں ٹکڑوں میں بکھرے بادل یکجاں ہونے لگے۔  لوگ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔  بڑھتی ہوئی اُمس مجھے اشارے دے رہی تھی کہ اب مجھے بھی چلنا چاہئے۔  بھیڑ کے ساتھ میں بھی باہر نکلی ہی تھی کہ تیز بارش شروع ہو گئی۔ بھاگتے قدموں سے میں اپنی کار تک پہنچی۔  گاڑی اسٹارٹ کی اور شاہ راہ کی طرف بڑھ گئی۔

اچانک ذہن کو شدید جھٹکا لگا، پرس تو میں بینچ پر ہی بھول کر آ گئی۔  جلدی سے میں نے گاڑی سائڈ کر کے سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔  شیشہ نیچے کر کے کھڑکی سے باہر جھانکا، پانی کی تیز پھوہاریں میرے چہرے کے ساتھ میری گردن اور کرتے کے کالر کو بھگو گئیں۔

’ اتنی تیز بارش میں تو میں گاڑی چلا ہی نہیں سکتی۔ ‘ تبھی میری نگاہ بیک مرر پر گئی۔  گہرے کاسنی رنگ کا بڑا سا پرس پچھلی سیٹ پر رکھا ہوا تھا۔ یقیناً کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے میں نے ہی اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھا ہو گا۔

گہرے اطمینان کے ساتھ ہاتھ پیچھے لے جا کر پرس اُٹھایا اور زپ کھول کر اندر دیکھنے لگی۔  ڈائری کے ساتھ ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ یہ ڈائری کیلنڈر ڈائری تھی۔  پہلی جنوری۲۰۱۱ سے اکتیس دسمبر۲۰۱۱ تک کے سارے صفحات یعنی ۳۶۵ دن کے ۳۶۵ صفحات لیکن ہر صفحہ بھرا ہو ایسا نہیں تھا۔  بہت سے صفحات خالی بھی پڑے تھے۔۔  کئی بار کوشش کی کہ خالی نہ صحیح، مگر بھرے صفحات کے نمبر تو گن لوں، مگر ہر بار صفحہ گنّے سے پہلے ہمّت چھوٹ جاتی، آنکھیں بھیگ جاتیں اور میں ڈائری کو اپنے پرس میں ڈال لیتی۔  جو باتیں بھولنا چاہتی ہوں وہ بھولتی نہیں اور جسے یاد رکھنا چائے وہ بھول جاتی ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے کوفت ہوئی۔

بارش کا شور ہلکا پڑنے لگا۔ ڈرائیونگ کرنا اب مشکل نہیں تھا۔  شاہراہ یہاں سے بیس پچیس قدم کی دوری پر تھی اور وہاں پہنچ کر مجھے دائیں گھومنا تھا، نہیں ! اس سے نہیں اگلے شاہراہ سے، جسے لوگ لال بتّی والا چوراہا کہتے ہیں۔ وہیں سے دائیں جانب مڑنا ہے۔  شام ڈھلتی جا رہی تھی اور دھندلکا بڑھتا جا رہا تھا۔  میں نے کار اسٹارٹ کی اور اس شاہراہ کو چھوڑ کر اگلے شاہراہ کی طرف بڑھ گئی۔ لال بتّی والا چوراہا، دائیں گھوموں گی تو چرچ آئے گا۔  چرچ پر پہنچ کر میں نے گاڑی روک دی۔  چورا ہے کے شیڈ کے نیچے کھڑا پولس والا مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔  کیونکہ موسم کے مزاج اب بھی برہم تھے اور میری ڈرائیونگ بتا رہی تھی کہ میں کنفیوزڈ لیڈی ہوں۔  اس کی نگاہوں سے بچنے کے لئے میں نے تیزی سے گاڑی داہنے جانب کاٹا اور پوری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ کچھ دور جانے پر سامنے ہی مجھے ایک بورڈ نظر آیا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اس سڑک سے دائیں مڑنے پر ریلوے اسٹیشن آتا ہے اور بائیں مڑنے پر کچہری روڈ آئے گی۔ مجھے سول لائنس جانا تھا جہاں فرحت اپارٹمنٹ کے تیسرے فلور پر میں رہتی ہوں۔  جھنجھلا کر میں نے گاڑی بئیک کی اور پولس والے کو گالیاں بکتے ہوئے پوری رفتار سے گاڑی بائیں جانب موڑ لی۔  میں جانتی تھی کہ چڑھے ہوئے شیشے سے پولس والا میری گالیاں نہیں سن پائے گا۔ مگر میں اس کی آنکھوں کے ترچھے پن کو محسوس کر رہی تھی۔ بائیں جانب سے آگے بڑھی تو پولس تھانہ نظر آیا جو میرے گھر کے راستے سے مختلف سمت کی طرف پڑتا تھا۔ یعنی میں غلط راستے پر ہوں۔  مجھے پھر شاہراہ سے واپس لوٹنا پڑے گا۔  میں گھبرا اُٹھی۔  دل زور زور دھڑکنے لگا۔ ہاتھ پیر سے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں بڑھتے ہوئے اندھیرے سے ڈر رہی تھی۔ ایک کیا سیکڑوں پولس والے آ جائیں تب بھی میں نہ گھبراؤں۔  مگر۔۔۔؟میں نے گاڑی سڑک کے کنارے کر کے روک دی۔ سلیم صاحب نے کتنی بار کہا کہ میں اپنے موبائل میں GPS appلیں لوں مگر میں ہر بار ان کی بات ٹال جاتی اور پیار سے کہتی، ’تم ہو نہ۔  پھر کس بات کا ڈر۔ ‘ وہ بھی خاموش ہو جاتے۔

میں نے بیک مرر میں اپنی شکل دیکھی۔  بالوں کے پف میں پھنسے گاگلس کے شیشے پر بھی پانی کے قطرے ٹھرے ہوئے تھے۔ پیشانی پر ہلکی سی نمی اُتر آئی تھی۔  گرین شیڈ کا کاجل واٹر پروف ہونے کی وجہ سے ابھی تک گالوں پر پھیلا نہیں تھا۔ ہلکے شیڈ کی لپسٹک نیم تاریکی میں بھی اپنے گلابی پن کا احساس لئے ہوئے تھی۔ میں نے جینس پر پیازی رنگ کی کرتی پہن رکھی تھی جو میری کھلتی رنگت پر کافی جنچتی ہے، ایسا حبیب صاحب کئی بار کہہ چکے تھے۔ مجھے سجنے سنورنے کا اب کوئی شوق نہیں رہ گیا تھا۔  میرے دل کی اُمنگیں اب ٹھنڈی پڑ چکی تھیں۔ میں تو یہ سب سلیم صاحب کے کہنے پر کرتی تھیں۔  کہنا ان کی ڈیوٹی اور کرنا میری مجبوری۔ ڈائری بھی میں نے انہیں کے کہنے پر لکھنا شروع کیا تھا۔  سلیم وہی کہتے، جسے کرنے کے لئے ڈاکٹر مشورہ دیتا۔ وہ مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند دیکھنا چاہتے تھے اور میں تھی جو خود کو سنبھالنے کی کوشش میں بکھرتی جا رہی تھی۔ جہاں میرا بس نہیں وہاں میں کر بھی کیا سکتی تھی۔  سلیم کہتے کہ یہ میرا نفسیاتی معاملہ ہے مگر جانتی تھی کہ میں خطرے کی حد میں داخل ہو چکی ہوں۔  اگر میں نے اپنی ماں کو اتنے قریب سے نہ دیکھا ہوتا، نہ جانا ہوتا تو شاید میں بھی اسے نفسیاتی معاملہ سمجھتی۔ ماں کی شروعات بھی تو کچھ اسی طرح سے ہوئی تھی۔  وہ گھر کی چابیاں رکھ کر بھول جاتیں، اور پھر گھنٹوں تلاشا کرتیں۔  چابی کبھی باورچی خانے میں ملتی اور کبھی غسل خانے کے طاق پر۔  میں بھی گھر کی تو نہیں مگر کار کی چابی رکھ کر بھول جاتی ہوں۔  چھ بچوں، ابا اور ملازِم کے درمیان چکرگھنی کی طرح گھومتی ماں جب یہ بھولنے لگیں کہ انہوں نے کھانا کب کھایا تو پہلی بار ابا کو فکر ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔  شک کی بنا پر کبھی وہ بھوکی رہ جاتیں کہ انہوں نے کھانا کھا لیا ہے اور کبھی، کھانا کھانے کے باوجود وہ دوبارہ کھانا کھا لیتیں کہ شاید انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہے، اس چکر میں اکثر ان کا پیٹ بھی گڑبڑا جاتا۔  وقت گزرتا رہا اور گزرتے وقت کے ساتھ ماں کے ہاتھ سے بہت کچھ چھن گیا۔  ابا ایک سڑک حادثہ میں گزر گئے۔  بیٹا بیٹی سب اپنی اپنی گرہستی میں مصروف ہو گئے اور ماں اپنی بات اپنے اندر لئے اپنے میں گم ہوتی چلی گئیں۔  کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا، ان پر بولتے رہنے کا جنون سوار ہو جاتا۔  ماضی کی باتیں وہ اس طرح کرنے لگتیں جیسے وہ آج ہی کل کی بات ہو۔  بیٹے کی شکل میں انہیں ابا نظر آتے اور وہ بھائی کو ابا کے نام سے پکارنے لگتیں۔  میری ڈائری کا وہ صفحہ آج بھی مجھے رلاتا ہے جس میں وہ لمحہ قلم بند کیا تھا جب میرے سامنے ہی میری ماں کو بچوں نے پاگل کہا تھا۔  میں چیخی چلائی مگر پھٹکار مجھے ہی ملی وہ تو بچے ہیں، میں تو سمجھدار ہوں، گھر کو کیوں رسوا کرتی ہوں۔  میں نے چپ سادھ لی اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو جایئے، مجھ پر گھر میں داخل ہونے کی پابندی لگا دی جائے۔  میں ان کے حق میں کبھی کچھ آہستہ لہجے میں بولتی تو ماں اجنبی آنکھوں سے مجھے دیکھا کرتیں۔  وہ آنکھیں کوری ہوتیں۔  ان میں کوئی جذبہ نہیں اُبھرتا تھا۔  ڈاکٹر نے کہا کہ یہ بھی ان کے مرض کی ایک علامت ہے۔

میں سلیم کے ساتھ کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر گئی ہوئی تھی۔  لوٹی تو سب سے پہلے ماں کے گھر کی طرف رُخ کیا۔  کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے  بعد میں نے دھیرے سے پوچھا۔۔۔

’’امی ! آپ نے کچھ کھایا۔ ‘‘

وہ نہ میں سر گھمانے لگیں۔ پھر کتنی دیر وہ آوازیں انہیں پھٹکارتی رہیں، جن کے ہاتھوں میں اب گھر کی چابی آ گئی تھی۔  امی نے آنکھیں بند کر لیں۔  ان آنکھوں میں گہرا خوف تھا۔  اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی کمرے میں، اپنے ہی بستر کی وہ قیدی بن چکی تھیں۔  برین اِسٹروک کے بعد پیرالایزڈ ہو کر وہ پچھلے ایک سال سے بستر پر پڑی تھیں۔ ڈاکٹر کہتا مرض ہاتھ سے نکل چکا ہے، اب صرف ان کی دیکھ بھال کیجئے۔  سب کے ہوتے ہوئے بھی اب دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔  سب کی اپنی مصروفیت تھی اور جن کے پاس وقت تھا، جو شب و روز گھر میں ہی رہتے تھے، وہ ان کے اپنے نہیں تھے۔  رشتہ جڑ جانے سے ہی کوئی اپنا نہیں ہو جاتا۔

اچانک پرس میں رکھا ہوا موبائل بج اُٹھا۔۔۔  ’’کہاں ہو تم؟ کیا کلاس ابھی ختم نہیں ہوئی؟‘‘

’ کلاس تو اپنے وقت پر ختم ہو گئی۔  میں ہی بھٹک گئی ہوں۔ ‘‘

’’اُف ! ابھی کہاں کھڑی ہو؟‘‘

میں نے تفصیل سے سلیم کو جگہ بتائی اور اتنی ہی تفصیل سے سلیم مجھے آگے کا راستہ سمجھانے لگے۔  تھوڑی دیر کے بعد میں اپنے اپارٹمنٹ کے کار پارکنگ ایریا میں پہنچ گئی۔ اتنی ذہنی جد و جہد کے بعد میں بری طرح تھک گئی تھی۔  میں جانتی تھی کہ اب سلیم میری کلاس لیں گے کہ میں ضروری باتوں کوکیسے بھول جاتی ہوں۔  کیوں بھول جاتی ہوں۔  میری زندگی عام عورتوں سے بہتر ہے۔  میں ان سے زیادہ عیش میں جی رہی ہوں، پھر ایسی کیا کمی رہ گئی ہے جو مجھے جیتے جی غار میں ڈھکیل رہی ہے۔  پچھلے چھ ماہ سے جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔  اپنی یادداشت پر میری گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔  میرا ذہن خلاء میں بھٹکتا رہتا۔  جو میں سوچنا نہیں چاہتی تھی وہی باتیں بار بار میرے ذہن کو پریشان کرتی تھیں۔ سلیم میرے ساتھ بچوں کی طرح پیش آتے تھے مگر تھے تو مرد ہی، کبھی کبھی بری طرح جھنجھلا جاتے تھے۔  ایک ایک بات سؤ سؤ بار سمجھاتے مگر میں تھی کہ، اچانک موبائل کی رنگ پھر سے ہوئی۔  میں سمجھ گئی کہ اب کہ سلیم پھر مجھے ڈانٹیں گے مگر اس بار فون میرے بیٹے کا تھا۔  جو دبئی میں سول انجینیر ہے۔۔۔۔  ’’مماں کیا حال ہے۔  کیسی طبیعت ہے تمہاری۔‘‘

’ میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔ ‘‘

’’کلاس کرنے جا رہی ہیں نہ؟‘‘

’’ہاں ! روز جاتی ہوں۔ ‘‘

’’کچھ دن ہم لوگوں کے پاس بھی آ جائیں۔  ہوا پانی بدلنے سے صحت بحال ہوتی ہے۔‘‘

’’بالکل آؤں گی۔  بچوں کو دعائیں کہنا۔  بہو سے کہنا، پانچ برس گزر گئے۔  اب ایک چکر وہ انڈیا کا بھی لگا لے۔  یہاں بھی اس کے اپنے بستے ہیں۔  تم دونوں بھائی بہن تو جیسے پردیسی ہو کر رہ گئے۔  ذکیہ کیسی ہے۔  کئی دنوں سے اس کا بھی فون نہیں آیا۔‘‘

’’اس کے بچوں کے امتحان چل رہے ہیں مماں ! میں آپ کی خیریت اس کو بتا دوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔  اس سے کہنا جب فرصت میں آ جائے تو ضرور مجھے فون کر لے۔ بہو کی آواز سننے کے لئے تو میں ترس کر رہ گئی۔‘‘

بیٹے نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔  میں سوچنے لگی جب سلیم کو یہ سب باتیں بری لگتی ہی نہیں پھر میں کیوں ہر دن اپنے بچوں کے گھر لوٹنے کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔  سلیم مجھے پھٹکارتے۔۔۔۔  ’’تم تو اس طرح انتظار کر رہی ہو جیسے وہ اسکول گئے ہوں اور ابھی شام ڈھلتے ڈھلتے گھر لوٹ آئیں گے۔ ‘‘

ایک دن ایسا ہوا کہ میں سچ مچ اپارٹمنٹ کے گیٹ پر جا کر کھڑی ہو گئی۔  اسکول کی بسیں لوٹ رہی تھیں اور میں ان کو آتے جاتے دیکھ رہی تھیں۔  دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔  اسی وقت سلیم آ گئے۔  انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں کہا اور میری کلائی تھام کر مجھے گھر کے اندر لے آئے۔  اسی شام مجھے وہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔  پھر تو میری روز مرہ کی زندگی ہی بدل گئی۔  میرے شب و روز اب ڈاکٹر اور سلیم کے ہاتھ میں تھے۔  جو وہ کہتے مجھے کرنا ہوتا۔ میرا لباس، میرے بالوں کی کٹنگ، میرا گھومنا پھرنا سب سلیم طئے کرتے۔  تبدیلی ذہن کو تر و تازہ بناتی ہے۔ میں ہر چیز سے بے زار رہتی اور سلیم۔۔۔۔۔ سلیم تو مجھ سے پانچ برس پہلے ہی ریٹائر ہو گئے تھے پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی کا سوال مجھے پریشان کرتا رہتا۔

میری عمرے ۶۰ کو پار کر چکی تھی اور میرے اوپر کسی دیو زاد کی طرح ڈیمنشیا[DEMENTIA] سوار ہو رہا ہے۔  مرض ہی ایسا ہے کہ حال فراموش ہوتا جا رہا ہے اور ماضی ذہن کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد میں نے مسز کاشف کا اِدارہ جوائن کر لیا۔ پھر بھی میں کہیں کچھ بھول جانے، خود کے کھو جانے کے احساس سے خوف زدہ رہتی ہوں۔  ڈرتی ہوں کی سب کچھ چھوڑ کر گھر کے اندر بیٹھ گئی تو اپنی ماں کے انجام پر پہنچ جاؤں گی۔  اسی لئے عمر کے چوتھے پڑاؤ پر آ کر پھر سے زندگی نئے سرے سے جینے کا ہنر سیکھ رہی ہوں۔  آرٹ آف لونگ کلاس میں میرے قہقہے اپنے تمام ساتھیوں سے اوپر رہتے ہیں۔ مسز کاشف مجھ سے بہت خوش ہیں مگر میں اپنے آپ سے بے حد دکھی ہوں اور خوش رہنے کی جد و جہد میں مسلسل خود کو کوشاں رکھتی ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے