جنوں پیشہ درد کی خود کلا می۔عرفان ستار۔۔۔ سدرہ سحر عمران

ادب پردازی کی اس کتابی دنیا میں تصنع اور بنا وٹی لوگوں کی بھر مار ہے۔ ہر شاعر ہی اپنی ذات میں ”یکتا ”اور ”دانا ”سمجھتا ہے خود کو۔ قصور اس میں بھی تخیل کا ہی ہے کہ خود پسند ی کی پرواز جہاں تک بھی ہو خوش کن اور خوش گماں ہے۔ اپنا محدود حلقہ ارباب اور مجبوری (زبردستی ) کی داد و تحسین کہ اب یہ رسم چل نکلی ہے شہرا یاراں میں اسی لئے ناقدین یا تو رہے نہیں یا انہوں نے بھی منافقت سے ساز باز کر لی اس لئے اچھے شعرا ئ کی شاعری پہ لکھا نہیں جا رہا۔ جو لکھتے ہیں وہ قرابت داری نبھا تے ہیں۔ یا سچ ہیں تو اب خلوص کی جگہ نوٹ بو لتے ہیں۔ عرفا ن ستار جیسی مستحکم شخصیت پہ ہم نے نشست رکھنے کا سوچا تو گما ں غالب یہی تھا کہ جو ہر ہر فورم اور وال پوسٹس پہ اخلا ص و محبت کے ٹو کرے بھر بھر بھیجتے ان سے شاید کہنا بھی نہ پڑے یہ از خود ہی لکھنے کا وعدہ کر لیں گے مگر وہی ساغر والی بات کہ

دیا ر پیر مغاں میں آ کر یہ حقیقت کھلی ہے ساغر

یہ ادب پرور جو بظاہر بہت مہذب اور مخلص ہیں ہیں ان کے اندر کس قدر بغض، عناد اور کینہ بھرا ہوا ہے۔
یہ اپنی ذات کے اندر ہی مقابلے کا پنڈا ل لگائے بیٹھے ہیں۔ اور کس طر ح کنی کترا کے گزر گئے ہیں
خیر حقیقت کا یہ رخ بہت تکلیف دہ ہے اور انگشت بدنداں کر گیا۔
البتہ یہاں بھی عرفان ستار کا ایک شعر یا د آ یا کہ

مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کرو گے تو شاعری سے گئے

میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟

استجاب ہے یا سوال ؟ یا دونوں ہی باتیں ہیں یا ایک بات بھی نہیں۔ درد مندوں کو زخم شماری کی پرانی عادت ہے۔ اور شاعر تو ہو تا ہی رنج و الم کا ولی یا درد کا پیرو۔ جہاں احساس ہے وہاں لذت آزار ہے لیکن کیا کہئے کہ اس درد میں بھی سرور ہے۔ اس شکایت میں بھی فخر و انبساط ہے کہ عشق جستجو نہیں عطا ہے اوریہ درد کی دولت فقیر کی عمر بھی کی کمائی اور ریاضت ہوتی ہے۔
عرفان ستار کی شاعری میں اس درد کی جھلک سرسری نہیں بلکہ گہرائی لئے ہوئے ہے گو کہ ان کا مزاج رومان پرور ہے مگر ہجر و وصال کی شدتیں پورے احساس کے ساتھ موجود ہیں ۔ یہ احساس کا مارا شاعر اپنی طبیعت میں بے نیاز ہے۔ اگر چہ انجان نہیں۔ با خبر ہے لیکن اس کی بے نیازیاور خود ساختہ لا تعلقی کا اپنا ہی رنگ ہے۔ وہ خود کہتا ہے کہ

بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ
اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں

یہی بے نیازی کہیں خود پسندی کا لبادہ بھی پہن لیتی ہے

خود پسندی میری فطرت کا بھی وصفِ خاص ہے
بے خبر تُو ہی نہیں ہے، بے خبر میں بھی تو ہوں

لیکن یہ خودساختہ خود پسندی ہے اور لطف دیتی ہے۔ ناگوار نہیں گزرتی۔

میرے ہی دم سے ملی ساعتِ امکان اِسے
وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں

کبھی لگتا ہے کہ۔ یہ بے نیازی خود پہ طاری کر لی گئی ہے اور اس کا پس منظر کچھ بھی رہا ہو لیکن عرفان جیسا شخص لہجوں،آوازوں اور شور و غل سے بے وجہ بیزار نہیں ہو سکتا۔ وہ خول میں بند ہو نے والا انسان ہے ہی نہیں۔ اسے آدمیت میں گھلنا ملنا پسند ہے یہ اس کے مزاج کا حصہ ہے لیکن اسے مجبور کیا گیا ہے یقیناً کہ وہ اپنی ذات میں محصور ہو کے رہے ۔

میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں

اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفان عجب شعلہ بیاں تھا پہلے

تو صاحبو! عرفان کی شاعری، شاعری کیا ہے۔ ہفت آ سمان کی پرتیں ہیں۔ جس کے کئی رنگ اور پہلو ہیں۔ جس کی وسعتیں لا محدود ہیں مگر نظر میں اتنا ہی سما سکتا ہے جتنا کہ بینا ئی کی سرحدیں ہیں۔ آغاز کرو تو لگتا ہے یہ درد کی تصویر کشی تو ہر صاحب دل کی کل املاک ہے۔ نظر بھٹکتی ہے۔ دل ٹھہرتا ہے۔ کسی لفظ، خیال یا مفہوم کی چاشنی سے احساس کا پاؤں رپٹ جا تا ہے اور اس کے لفظوں کا اضطراب قاری کے اندر پھیلنے لگتا ہے۔ ایک وحشت نا ک سناٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پھر چا پ ابھرتی ہے۔ اور صفحہ پلٹتا ہے۔ ساعتوں کی تکرار ہونے لگتی ہے۔ لمحے آ پس میں الجھ پڑتے ہیں۔ اور آنکھ پڑھتی ہے کہ

یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے ؟
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے ؟

تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے ؟

اس نے فقط ساعتوں سے تکرار ہی نہیں کی بلکہ ان کی معنی آفرینی، خاموشی، آوازیں اور احساس کا رس بھی کشید کیا ہے۔ اس کی ظاہری شخصیت میں جتنا ٹھہراؤ محسوس ہو تا ہے اس کے لفظ اتنا ہی بو لتے ہیں۔ اور جہاں یہ اپنی اندر کی آوازوں کا گلہ گھونٹتا تو وہ اشعار کی صورت باہر نکل آتی ہیں اب یہ اس کے ہم نفسو کی مجرمانہ غفلت یا خاموشی ہے یا اس کی شکایات کا دائرہ ہی وسیع تر ہو تا جا رہا ہے۔ اس نے بے چینی کا منبع بنا لیا خود کو۔ اس کی شاعری کی فطرت میں اضطراب ہے لیکن یہ اسی پہ ظاہر ہے جو خود بھی مضطر خاک کے خمیر سے اٹھا یا گیا ہو،

یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عُمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے

اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

اور یہی اضطراب اور بے سکونی کبھی درونِ ذات سے باہر بھٹکتی ہو تو وہ لکھتا ہے ۔

مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے

اسے سمجھنا ہو تو اس کی شاعری پرکھو۔ اس کے اشعار کو جانچو۔ اس کے اسلوب کا قد کا ٹھ نا پو۔ یہ ہر لحا ظ سے قد آور ہے۔ یہ لفظی صناعی نہیں۔ جس نے عرفان کو گہرائی میں جا کے پڑھا وہ اختلاف نہیں کر سکتا کہ روایت سے جڑت میں بھی اگر جدیدیت کا پہلو نظر آئے تو وہ اس کی پہچان بن چکا ہے۔ جدید شعرا ء کو روایت سے انحراف ہے ان کے خیال میں قدیم غزل اپنی کشش کھو چکی ہے۔ فارسی سے مستعار شدہ تلازمے اور استعار ات کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔ وہی گل و بلبل، زلف و رخسار، محمل و قیس اور بے آ ب و گیا ہ صحرا، صیاد و قفس کی شورش لیکن یہ عرفان ستارکا طرہ امتیاز ہے کہ اس نے روایتی اسلوب کو اپنی شاعری میں زندہ رکھا۔ مرنے نہیں دیا۔ گو کہ کہیں کہیں یکسانیت بھی غالب ہے لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک ہی تصویر پہ کئی رنگ بکھر گئے ہوں۔ ہم نے اس کی شاعر ی کے خاص استعارے تلاشنا چاہے تو مایوسی ہوئی۔ اس نے اپنی کیفیات کو لفظوں میں مدغم کیا مگر ہر رنگ پہچان میں آ تا ہے گھلا ملا نہیں ہے۔ اس کی شاعری میں بے پناہ حساسیت ہے اور اس کے اشعار کیا ہیں تصویرِ درد ہیں۔ دیکھئے

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا

پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری

میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟

اور میر نے کیا خوب کہا تھا کہ

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا

اسی محتاط پسندی کو عرفان کے نئے رنگ میں دیکھئے کہ

تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے

عرفان کے ہاں جو دوسری شے شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ خرد جنوں کی ازلی داستان ہے۔ عرفان نے جنوں کو عالمِ وحشت میں بھی پکارا اور بے زاری میں بھی:

سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دورِ آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے

میں سمجھا تھا سئیے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے

جس سے اٹھتے ہیں قدم راہِ جنوں خیز میں تیز
ہم بھی شانے پہ وہی بارِ گراں چاہتے ہیں

ذرا اہلِ جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤیہاں
ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے

ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

حسرت نے کہا تھا کہ

تر ے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

عرفان نے یہی بات اس انداز سے کہی کہ بے ساختہ واہ نکلا منہ سے :

مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم
الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا

اور اس شعر میں کیا دلکش انداز میں خود کو جنو ں کے وارثان میں شما ر کیا کہ

قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی

عرفان نے اکثر اشعار میں تجا ہل عارفانہ بھی برتا ہے اور کیا ہی دلکشی سے برتا ہے ۔

اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟

اس نے کہیں کائنات کے سر بستہ رازوں کے متعلق بھی خود کلامی کی ہے

میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں
سو خود کو خواہشِ دنیا سے ماورا رکھا

یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے

سادگی اور سلاست کے بھی کیا کہنے۔ بعض غزلیں سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہیں۔ انداز بیا ن بہت سادہ، صاف اور رواں ہے۔ صنائع و بدائع کی بھر ما ر نہیں ہے تاہم تغزل اس کے کلام کی نما یا ں خصوصیت ہے ۔
کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے

تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا

مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا

اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟

جانے کب دل سے آنکھ تک آ کر
بہہ گئی چیز قیمتی میری

تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عُمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہُوا ہے

عرفا ن نے چھوٹی بحور میں بھی اپنے فن کا جادو جگا یا اور طویل بحور بھی اس کے کلام میں فنی اعتبار سے مکمل ہیں۔ بلکہ اکثر تو حیران بھی کر دیتی ہیں کہ پورا مصرع اس مشاقی کے ساتھ ادا کیا جائے کہ کہیں وزن ٹوٹنے نہ پائے۔ اس کی یہ غزل ہمیں خصوصی طور پہ بہت پسند ہے اور ہم اکثر و بیشتر گنگناتے رہتے ہیں

کوئی نغمہ بُنو، چاندنی نے کہا، چاندنی کے لیے ایک تازہ غزل
کوئی تازہ غزل؟ پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل

میں عبادت بھی ہوں، میں محبت بھی ہوں، زندگی کی نُمو کی علامت بھی ہوں
میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا، اِس نمی کے لیے ایک تازہ غزل

یہ غزل بھی بہت خوب رواں اور مترنم ہے

جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگذر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی

جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی

ہم نقاد نہیں اس لئے شاعری میں حسن تلا شا ہے عیب نہیں۔ ۔ اور عرفان ستار جیسے شاعر پہ با ت کرنے کے لئے ہمیں اپنی ایڑھیاں اٹھا نی پڑی ہیں۔ اور کچھ اس کا دیا ہوا اعتما د تھا کہ ہم نے بھی ”جرات رندانہ ”کر لی۔ بہت سے پہلو تشنہ ر ہ گئے ہیں ابھی لیکن جتنا ہو سکا اتنا نبھا گئے ہیں۔
عرفان کے ایک شعر کے ساتھ اجازت

وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی
تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے