بیگ احساس کے لیے ۔۔۔ ابرار مجیب

بے حسی کے موسم میں 

موت ایسے آتی ہے 

جان ایسے جاتی ہے 

جیسے شام ڈھلتی ہے 

جیسے شب گزرتی ہے 

جیسے نیند آتی ہے 

جیسے صبح ہوتی ہے 

جیسے برگِ بے مایہ 

ٹوٹ کے بکھرتے ہیں 

جیسے آنکھ روتی ہے 

جیسے لب سبکتے ہیں 

بے حسی کے موسم میں 

موت یوں ہی چپکے سے 

آتی اور جاتی ہے 

جیسے آج شہروں میں 

چاند تو نکلتا ہے 

چاندنی بکھرتی ہے 

اور کسی بھی آنگن میں 

روشنی نہیں ہوتی

بلب کے اجالوں میں 

زندگی نہیں ہوتی۔ 

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے