اگنی دان ۔۔۔ شالنی مکھریّا

‘‘راجیش بھائی نہیں رہے ‘‘ آفس سے گھر آتے ہی بیوی نے اطلاع دی۔ دل کو ایک دم سے گہرا جھٹکا لگا۔ اچانک یقین ہی نہیں ہوا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی صبح ہی تو ملاقات ہوئی تھی، کتنے خوش تھے وہ۔ بڑی بیٹی امریکہ سے جو واپس آ رہی تھی اس دن۔ دو ہی تو بیٹیاں ہیں ان کے، بہت ہی ہوشیار اور سشیل۔ بیٹی میتریئی نے ایم بی اے کیا تھا اور امریکہ کی کسی اچھی کمپنی میں اسے نوکری مل گئی تھی اور چھوٹی والی نیہا ابھی کالج میں ہی تھی۔ راجیش نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ کبھی بھی کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا تھا اور دونوں بیٹیوں نے بھی اپنے والد کی عزت کا پورا خیال رکھا تھا۔ پوری سوسائٹی میں ان کی تعریف ہوتی تھی۔

میں نے فوراً اپنی بیوی کو راجیش کے گھر چلنے کے لئے کہا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ راجیش کا سلوک ہی ایسا تھا۔ بہت ہی ملنسار اور ہنس مکھ طبیعت کے تھے راجیش، اس باعث سوسائٹی میں سب سے  بہت خوش گوار تعلقات تھے۔ ان کی بیوی سریکھا کا رو رو کر برا حال تھا، بار بار پچھاڑ کھا کر بیہوش ہو جاتیں۔ امریکہ سے بڑی بیٹی بھی آ چکی تھی، اس نے سپنے بھی نہ سوچا تھا کہ جس پتا سے آنے سے کچھ گھنٹے پہلے ہی بات ہوئی تھی، ان سے ملاقات بھی نہیں ہو سکے گی۔ وہ سدا سدا کے انہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ راجیش بڑی بے صبری سے میتریئی کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ دہلی فلائٹ لیٹ ہونے پر اس نے میترییی سے بات بھی کی تھی۔ میتریئی نے گھر آنے کے لئے ٹیکسی لے لی تھی اور تین  چار گھنٹے میں گھر آنے والی تھی۔  دوپہر کا کھانا کھا کر راجیش آرام کرنے کے لئے بستر پر لیٹے تھے۔

ایک گھنٹے بعد سریکھا نے راجیش کو ہلا کر جگانا چاہا تو خوف سے اس کی چیخ نکل گئی۔ راجیش اس دنیا سے جا چکے تھے، شاید نیند میں ہی ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ آناً فاناً ہی پوری سوسائٹی میں خبر پھیل گئی تھی۔ کئی سارے لوگ راجیش کے گھر جمع ہو گئے۔ تبھی راجیش کی بڑی بیٹی کی کار وہاں آ کر رکی۔ دروازے پر بھیڑ دیکھ کر اس کا من کسی انہونی کے اندیشے  سے کانپ اٹھا۔ وہ بھیڑ کو چیرتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تو دہاڑیں مار کر روتی ہوئی ماں کی آواز نے دل و دماغ سب کو جیسے صفر کر دیا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے باپ کو کو دیکھ کر اس کے آنسؤں کا ریلا بہہ نکلا۔

جیسے تیسے اس نے اپنی ماں اور بہن کو سنبھالا۔ سبھی رشتے داروں کو خبر کر دی گئی تھی۔ راجیش کے دونوں بھائی دوسرے شہر سے آ چکے تھے۔ سبھی پڑوسیوں نے مل کر انتم سنسکار کی تیاریاں کر لی تھیں۔ پنڈت جی آ چکے تھے اور انتم رسمیں باقی تھیں، تبھی وہاں یہ سوال اٹھا کہ مرنے والے کی چتا کو آگ کون دے گا۔ سبھی رشتے دار چہرے پر سوالیہ نشان لئے کھڑے تھے۔ راجیش کے کوئی بیٹا تو تھا نہیں، ایسے میں بھائی کا ہی فرض بنتا تھا کہ وہ اس رسم کو نبھائے۔ مگر آج کل رشتے کتنے کھوکھلے ہوتے ہیں یہ ایسے ہی وقت پر پتہ چلتا ہے۔ راجیش کے دونوں بھائی ایک دوسرے کا منھ تاک رہے تھے اور چالاکی سے ایک دوسرے پر ڈال کر بچنا چاہ رہے تھے۔ جو آگ دیتا اسے پورے 13 دن تک رہ کر سبھی رسمیں نبھانی پڑتیں۔ باہر ہو رہی کاناپھوسی کی خبر جب راجیش کی بیٹی میتریئی تک پہنچی تو وہ اندر تک ہل گئی۔

اپنی پچھاڑ کھائی ماں کو وہ اور دکھ میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ من ہی من اس نے کوئی فیصلہ لے لیا اور باہر آ کر پر امن لہجے  میں بولی — ’’پنڈت جی، پتاجی کے انتم سنسکار کی ساری رسمیں میں پوری کروں گی ‘‘ باہر ساری بھیڑ اس بیان سے چونک اٹھی۔ ایک نئے سرے سے کانا پھوسی بھیڑ میں شروع ہو چکی تھی۔

‘‘بھلا لڑکیاں بھی کبھی شمشان جاتی ہیں کیا ؟ ’’ جو لوگ سماج کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں سب کے چہرے سے نقاب اترے ہوئے تھے، مگر کسی نے آگے آ کر ذمے داری اٹھانا قبول نہیں کیا۔

’’پتاجی کے کوئی بیٹا نہیں ہے تو کیا ہوا، ہم بہنوں کو انہوں نے نے بیٹے کی طرح ہی پالا ہے ‘‘ میتریئی کی آواز  رندھی ہوئی  تھی۔۔

’’میرے پتاجی کبھی کسی کے رحم و کرم کے محتاج نہیں رہے ’’

’’میں اپنے پتا کے انتم سنسکار کی ساری رسمیں نبھاؤں گی، جسے میرے فیصلے پر اعتراض ہے وہ لوگ یہاں سے جا سکتے ہیں ‘‘

مخالفت کی آوازیں مند ہونے لگیں۔ میتریئی اور اس کی بہن نے ساری رسمیں نبھائیں۔ ماحول میں ‘‘رام نام ستیہ ہے ’’ کا نعرہ گونج اٹھا۔ جس بیٹی کو راجیش کنیا دان کر کے وداع کرنے کے سپنے دیکھ رہا تھا اسی بیٹی کو اپنے باپ کو اگنی دان دینا پڑا۔ سماج کے سارے ٹھیکیدار منھ اٹھائے دیکھتے رہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے