انتہائے کمال سے گوشۂ جمال تک قسط۔ ٢ ۔۔۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

سفر نامہ عمرہ ۲۰۱۶ء

دوسری قسط

 

بات ہو رہی تھی پہلے عمرے کی۔۔۔۔۔۔ سعی کے لےل صفا و مروہ پہنچے۔ یہاں بھی بہت کچھ بدل چکا تھا۔ راستے وسیع ہو گئے تھے۔ بھیڑ تھی تو سہی لیکن کم کم، صفا پر منہ کعبہ شریف کی طرف کرتے ہوئے سعی کے سات پھیروں کی آسانی اور قبولیت کی دعا کی۔ بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ میلین اخضرین کے درمیان مردوں کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، حضرت حاجرہ کی سنت پر عمل کرنا مردوں کے لےئ لازم قرار دیا گیا۔ شاہد سعی کے لےی دوڑ رہے تھے اور میرے بدن میں حضرت حاجرہ کی کیفیت یاد کر کے ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔ اس کیفیت کو کوئی نام، کوئی لفظ نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ ہوا کہ عمرے اور طواف کے دوران میں، ایصالِ ثواب برائے حضرت ابراہیم و حضرت ہاجرہ کا نام لینا یاد رہتا۔ صفا سے میلین ۹۲ قدم، میلین کے درمیان ۸۳ قدم اور میلین سے مروہ ۵۲۵ قدم یوں سات سو قدم ایک طرف کے، سات چکروں کے ۴۹ سو قدم، ہر قدم پر سات سو نیکیاں خود شمار کر لیں۔ اللہ نے ہم گنہگاروں کے لے کیا کیا انتظامات فرما رکھے ہیں۔ کیا ہم اس کی ایک، کسی ایک عطا کا شکر ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہاں ہر چکر کے لےا مختلف سورتیں اور تیسرا اور چوتھا کلمہ منتخب کر کے سعی کا آغاز کیا لیکن اس پر کار بند نہ رہ سکی کہ درمیان کبھی کوئی دعا اپنی جانب توجہ کھنچ لیتی کہ یہ دعا تو کی ہی نہ تھی، رب دینے پر آئے تو بندہ کیوں حجاب کرے۔ ہے آج وہ مائل بہ کرم اور بھی کچھ مانگ۔ پینتیس منٹ میں فارغ ہوئے۔ عصر کی نماز با جماعت ادا کی، بھوک اور تھکن کا احساس فزوں ہوتا جا رہا تھا۔ وقفے وقفے سے جاوید بھائی سے بھی بات ہوتی رہی تھی۔ وہ جدہ پہنچ چکے تھے لیکن ائر پورٹ کی کار روائیوں سے گزر رہے تھے۔ حرم پاک سے باہر نکل کر ان قریبی مطعم کے قریب پہنچے کہ جہاں سے اکثر بریانی یا بخاری اور چکن روسٹ لیا کرتے تھے۔ وہیں کھانا کھایا۔ مغرب و عشا کی نماز میں قاری السدیس امام کعبہ کی امامت کی خواہش تھی جو پوری نہ ہوئی۔

نماز کی ادائگی کے بعد سنابل روانہ ہوئے کہ معلوم چکا تھا کہ جاوید بھائی اور ثروت باجی پہنچ چکے ہیں۔ انھیں مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اس لےا بھی کہ انھوں نے لمحہ بھر میں سوچے بغیر عمرے کے لے آمادگی ظاہر کر دی تھی حالانکہ ہمارے علم میں تھا کہ وہ ان دنوں کتنے مصروف ہیں اور جب شاہد نے یہ سنا کہ انہیں پچاس پچپن ہزار زیادہ دینے پڑیں گے تو مجھے کہنے لگے مکہ میں یہ میرے مہمان ہوں گے۔ میں نے دل میں کہا کہ اللہ کے مہمان ہمارے مہمان کیسے ہو سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب بلال کا ابو ظہبی سے فون آیا۔

’’شاہد ماموں یہ کیا؟ آپ اس مرتبہ دبئی کیوں نہیں آ رہے۔ اب تو اور بھی اچھی جگہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘

تو شاہد نے کہا تھا۔

’’بلال! ایسا کرو تم یہاں آ جاؤ عمرے پر۔ تم میرے مہمان ہو گے۔‘‘

تب بھی میرے دل میں یہی خیال آیا تھا کہ یہاں تو ہم سب اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور شاہد محبت کی بے اختیار کیفیت میں یہ جملہ بول جاتے ہیں کہ بے شک میرے لےس بھی اور شاہد کے لےہ بھی یہ بہت محبت کے رشتے ہیں، جنھیں اللہ بری نظر سے محفوظ رکھے۔ دوسرا مجھے یہ بھی گمان تھا کہ آپ مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں ایک ریال بھی خود پر یا کسی دوسرے پر خرچ کرتے ہیں تو یہ نیکی ہے اور وہاں کی گئی نیکی کا ثواب سات سو گنا زیادہ ہے تو شاہد سارا ثواب خود ہی کیوں سمیٹنا چاہتے ہیں۔

جاوید بھائی اور ثروت باجی عمرے پر نکلنے کے لے تیار بیٹھے تھے۔ انھیں بہت کہا کہ کھانا کھا کر جائیں لیکن انھیں بھی عمرے کی تکمیل کی خواہش تھی، عشا کی نماز بھی ادا کرنا تھی، سو وہ حرم کے لےب نکل گئے اور رات دو بجے ان کی واپسی ہوئی۔ ہم نماز فجر کے لےے نکلے، کسی خنک جھونکے نے استقبال نہ کیا۔ کمرے میں اے سی کے سبب ٹھنڈک کا احساس فزوں تھا۔ پندرہ سترہ منٹ کی دوری پر حرم پاک تھا۔ لوگ تیز تیز قدموں سے چلتے جا رہے تھے۔ حرمِ پاک پہنچے۔ اذان راستے میں سن چکے تھے میرا خیال تھا کہ جلدی سے سنت ادا کر لیتے ہیں پھر چلنا شروع کریں گے لیکن شاہد حرم پہنچنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اقامت شروع ہوتے ہی ہم سنت کی نیت کر لیں گے اور امام صاحب کی قرات کے آغاز تک ہم دو سنتیں پڑھ لیں گے۔ یہی کیا۔ نمازِ فجر کی قرات کسی اور جہان میں ہی پہنچا دیتی ہے۔ نماز کے بعد دو طواف کیے۔

حضرت عبداللہ بن عمر حدیثِ رسول اللہﷺ کے راوی ہیں۔

’’جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعتیں ادا کیں اس نے گویا ایک غلام آزاد کیا۔‘‘

صلوۃ التسبیح کے لےو خانہ کعبہ کے سامنے مسقف برآمدے میں سبز قالینوں پر نماز کی نیت کی کہ جہاں چند ایک افراد ہی موجود تھے۔ ابھی پہلی رکعت بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ شرطوں کی مہیب آواز گونجنے لگی۔ ’’نسا ممنوع، نسا ممنوع‘‘، میں پریشان ہوئی کہ مجھے تو ابھی پندرہ منٹ اور لگیں گے۔ کیا میں اسی غوغے میں نماز پڑھوں گی۔ یہ خیال بھی آیا کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دوں اور اگلی دو رکعتیں شرطوں کی معین کردہ جگہ پر ادا کر لوں، لیکن دل نہ مانا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان کی صدا کم ہوتی جا رہی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔ شکر ادا کیا کہ نماز مکمل ہوئی۔ اتنے میں جاوید بھائی اور ثروت باجی بھی آن ملے۔ ظہر کی نماز اکٹھے پڑھی۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

’’اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو شخص اچھی طرح وضو کرے، وقت پر نماز ادا کرے، رکوع و سجود اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرے تو اس انسان کا اللہ پر ذمہ ہے کہ اسے معاف کرے اور جو شخص ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھے، اس پر اللہ کا کوئی ذمہ نہیں۔‘‘( ابو داؤد)

اللہ ہم سب کو نماز کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے۔

نماز کے بعد بھوک نے ستانا شروع کر دیا تھا۔ کل دوپہر کے کھانے پر بد مزہ ہوئے تھے۔ جاوید بھائی کہنے لگے۔

’’پچھلی مرتبہ ہم البراج البیت مکہ ٹاور میں کھانا کھایا کرتے تھے۔ بہت اچھی جگہ ہے آرام سے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں اور کھانا بھی مزے کا اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ان بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھانے سے لوگ جھجکتے ہیں کہ لوٹ لیں گے، حالانکہ صرف دو تین ریال کا فرق ہے۔‘‘

اب جاوید بھائی کو مطعم ابو ترکی کی تلاش ہے کہ جہاں وہ کھانا کھایا کرتے تھے اور ہم کہہ رہے ہیں بے شمار ریسٹورنٹ ہیں کسی میں بھی کھا لیتے ہیں، کہ اب بھوک بے دم کرتی تھی۔ جاوید بھائی جلد ہی اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے۔ کھانے میں چاول ہوں اور وہ کہ جن کی صورت ہی سیرت کا پتا بتا دیتی ہو۔ ساتھ چکن تکہ، مٹن قورمہ اور نان۔ کھانے کا بہت مزا آیا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، جو اس وادی غیر زرع میں دنیا جہان کے ذائقے فراہم کرتا ہے۔ کھانے کے بعد پھر حرم پاک پہنچے۔ ہوٹل سنابل جانے سے گریز اس لےہ کرتے تھے کہ پندرہ بیس منٹ آنے کے لے اور اتنا ہی وقت جانے میں لگے گا، تھکن الگ ہو گی اور دوسری نماز کا وقت ہو جائے گا۔ تو ہم زیادہ تر وقت حرم میں ہی گزارنے کے خواہش مند تھے۔ توسیع کے بعد حرم بہت بدل چکا تھا۔ پہلے باب عبدالعزیز سے آمد و رفت ہوتی تھی۔ اب بابِ فہد زیادہ استعمال ہو رہا تھا۔ ہر ایک پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہتا تھا۔ ثروت باجی کہنے لگیں۔ میں زیادہ تر اوپر کی منزل پر نماز پڑھا کرتی تھی سامنے کرسیاں پڑی ہوتی تھیں۔ میں پہلی صف میں موجود ہوا کرتی تھی، جب امام صاحب سجدے میں جانے سے پہلے قیام میں ربنا لک الحمد کہا کرتے تھے تو میں لمحہ بھر بعد سجدے میں جایا کرتی تھی اور اس ایک لمحے میں دنیا بھر کی دولت سمیٹ لیتی تھی۔ مجھے حجر اسود صاف شفاف، روشن و چمکدار نظر آتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم میرے اس عمل کو کتنا غلط کہا جائے لیکن مجھے بہت خوشی ہوتی تھی کہ جسے میں کبھی چھو نہ سکی، چوم نہ سکی۔ میں اسے اتنا واضح اتنا روشن دیکھ سکی ہوں جتنا چومنے والے بھی نہ دیکھ سکے ہوں گے۔ جاوید بھائی کی اولین خواہش حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی تھی لیکن ثروت باجی کو منع کرتے تھے کہ تم وہاں نہیں جاؤ گی۔ وہاں جو عورتوں کا حشر ہوتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے، ثروت باجی ملتجی نگاہوں سے مجھے دیکھتیں کہ شاید میں ہامی بھر لوں لیکن میں نے بھی انھیں کہا کہ اس خیال کو دل میں جگہ نہ دیں۔ یہ بہت مشکل ہے۔ حج کے موقع پر اور پہلے عمرے پر مجھے بھی بوسہ دینے کا با عزت موقع مل گیا تھا لیکن دوسرے عمرے پر ایسا موقع میسر نہ آ سکا۔ یہ کام بہت مشکل ہے اس لےر نگاہوں سے چومنے پر ہی اکتفا کر لیں۔

جمعرات نماز فجر ادا کر کے ہوٹل سنابل پہنچے کہ آج عمرہ کرنے کا ارادہ تھا۔ مسجد عائشہ کتنی خوبصورت، کتنی پر سکون، کتنی دل کے قریب عبادت گاہ کہ جہاں میں ہمیشہ کھلا وقت لے کر جانا چاہتی ہوں لیکن وقت ہمیشہ کم پڑ جاتا تھا۔۔ احرام لے کر باہر نکلے، بس سٹاپ پہنچنے میں بیس پچیس منٹ لگتے، پھر عمرے کے لےز ہم خود کو تازہ دم رکھنا چاہتے تھے۔ ٹیکسی لی جس نے بارہ پندرہ منٹوں میں مسجدِ عائشہ پہنچا دیا۔ طے یہ پایا کہ پہلے ناشتہ کر لیا جائے پھر احرام و نوافل کی طرف متوجہ ہوں۔ جوس چائے کیک بسکٹ لے شاہد اور جاوید بھائی، ہماری طرف آ رہے تھے اس اثنا میں ہم ایک خالی بنچ پا کر خوش تھے کہ بیٹھنے کی مناسب جگہ مل گئی ہے، مسجد عائشہ کی فضا میں جو سکون، احساسِ طمانیت اور مدھم مدھم خوشبو ہے، وہ آپ کو مجبور کر دے گی کہ کچھ وقت میرے ساتھ بھی گزارو لیکن آپ ٹھہر نہیں سکتے کہ آپ کے دل میں یہ تڑپ بھی موجود ہے کہ جلد سے جلد ایک اور مقبول عمرے کی سعادت حاصل کر لیں۔ یہی کیا تیزی سے ناشتے سے فارغ ہو کر احرام کیا اور نوافل کی ادائگی کے لےو مسجد میں داخل ہوئے۔ دو نفل تحیۃ المسجد اور دو احرام و عمرے کی نیت کے پڑھے اور بس کے ذریعے حرم پہنچے۔ طواف کا آغاز ایک ساتھ ہی کیا لیکن یہ طے کر لیا تھا کہ جاوید بھائی اور ثروت باجی اگر ہجوم میں الگ ہو جاتے ہیں تو ایک دوسرے کی تلاش کی بجائے اپنا اپنا طواف کر کے سعی کے لےو صفا پہنچ جائیں۔ طواف مکمل کیا، ملتزم کے سامنے دو نفل پڑھنے کے بعد آبِ زم زم پینا چاہتے ہیں لیکن اب وہ پہلے سے حالات کہاں، ۲۰۰۱ء میں حج کیا تھا۔ حج سے پہلے چار پانچ عمرے کیے تھے۔ ہر عمرے کے بعد شاہد مردانہ حصے میں سیڑھیاں اتر کر اور میں النسا کے حصے سے نیچے اتر کر تہ خانے میں پہنچ جاتی تھی، جی بھر کر پانی پیتے بلکہ اپنے جسم پر بھی ڈالتے۔ مجھے یاد ہے ۳ فروری ۲۰۰۱ء پہلے عمرے کے موقع پر، میں نے اس جالی کے ساتھ لگ کر شکرانے کے نوافل بھی ادا کر لے تھے کہ جس کے حصار میں آبِ زم زم کا کنواں تھا۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۲ء میں ہم کسی ایسی سہولت سے محروم تھے۔

’’آبِ زم زم کے کنویں کی جگہ پر بڑے بڑے زیرِ زمین کمرے خواتین اور مردوں کے لےک علیحدہ علیحدہ سے مخصوص تھے جہاں بے شمار نلکوں کے ذریعے وافر آبِ زمزم میسر تھا۔ جو پینے اور وضو کرنے کے کام آتا تھا۔ سال ۲۰۰۳ء میں مطاف میں واقع ان زیر زمین کمروں کو بند کر دیا گیا ہے اور اور آبِ زمزم کے کنویں تک جانے کے لے۰ مسجد کے باہر بابِ عبد العزیز سے راستہ بنایا گیا ہے‘‘(شگفتہ عمر، حج و عمرہ کے احکام، ص ۸۲)

۲۰۱۲ء کے عمرے میں مطاف کے برآمدوں میں آبِ زم زم سے بھری ٹینکیاں بے شمار نلکے لگے ہوئے، پانی پیو بھی اور انڈیلو بھی، خادم ہمہ وقت وائپر لے۰ جگہ خشک کرنے کو موجود لیکن اب ایسا کچھ نہیں پیاس بھی بہت لگ رہی تھی، سامنے کولر دکھائی نہ دیے تو سعی کے لےر چل پڑے۔ آبِ زم زم سعی کے دوران پیا۔

’’اے اللہ میں تجھ سے علم نافع، کشادہ رزق اور ہر مرض سے شفا طلب کرتی ہوں۔‘‘

’’اے اللہ میں آبِ زم زم اس نیت سے پی رہی ہوں کہ میدان حشر میں قیامت کے روز پیاس کی شدت سے محفوظ رہوں۔‘‘

یا اللہ ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت بخش۔ آمین

وہ کمی، کوتاہی، ایمان کی کمزوری، شرمندگی اور ندامت اس مرتبہ بھی ساتھ ساتھ رہی کہ میں جی بھر کر آبِ زم زم نہ پی سکی۔ وہی ایک آدھ گلاس اور بس۔ شاہد حسب معمول لٹر ڈیڑھ لٹر پانی پی جایا کرتے تھے۔

ہم سعی کے لےو پہنچ کر کافی دیر ان کا انتظار کرتے رہے کہ فون پر انھیں بت اچکے تھے کہ ہم پہلی منزل پر صفا پر آپ کے منتظر ہیں لیکن پچیس تیس منٹ تک انتظار کے بعد ہم نے سعی کا آغاز کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہم بیس منٹ میں انتظار کر رہے تھے اور انھیں پہلی منزل کہہ دیا تھا، انھوں نے بھی کافی انتظار کے بعد سعی شروع کی۔ صفا کوہ ابو قبیس کا حصہ ہے اور مروہ کوہ قعیقعان کا، ان کا درمیانی فاصلہ چار سو چالیس گز یا چار سو پانچ میٹر ہے نصف کلو میٹر سے کچھ کم سمجھیے، لیکن ان سات پھیروں میں پینتیس منٹ سے کم کبھی نہ لگے۔ بہرحال اللہ کے فضل و کرم سے عمرہ مکمل ہوا۔

’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری نعمتوں کے زائل ہو جانے سے اور تیری بخشی ہوئی عافیت کے چلے جانے سے اور تیرے عذاب کے ناگہانی آ جانے سے اور تیری ہر قسم کی ناراضی اور ناخوشی سے۔‘‘

اس عمرے میں بھی اس دعا نے ہر لمحہ ساتھ دیا جو میں ۲۰۰۸ء کے عمرے میں، پھر ۲۰۱۲ء کے عمرے میں اور اب بھی بہت شدت کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے کرتی رہی تھی۔ عمرے پر ہی موقوف نہیں وہ جب بھی جہاں بھی یاد آ جائے، دعا کرنے سے گریز نہ کرتی تھی۔ بات شاید طویل ہو جائے مختصر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ نوے کی دہائی کے آخری سال تھے۔ ہمارے سکول کالج میں ہمیشہ سے اردو اساتذہ کی قلت رہی ہے۔ مجھے کہا گیا کہ فوراً کسی اردو ٹیچر کا انتظام کیا جائے۔ میری پہنچ نسیم محمود، ڈائریکٹر پروگرامز، اکادمی ادبیات تک ہی تھی، انھیں فون کر دیا کہ مجھے فوری طور پر اردو کا ایک استاد چاہیے۔ اسی روز انھوں نے کہا انتظام ہو گیا ہے۔ دوسرے روز فرزانہ میرے سامنے تھی۔ راولپنڈی کے اس اسکول سے وابستہ تھی کہ جو ہر سال بہترین نتائج حاصل کرنے والوں میں سرِ فہرست تھا۔ بہت ہی سیدھی سادی خاتون، پہلی نگاہ میں مجھے محسوس ہوا کہ اسے منتخب نہ کیا جا سکے گا کہ ماڈل سکولز کالجز میں تعلیم، قابلیت اور تجربۂ تدریس کے ساتھ ساتھ شخصیت کا تاثر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ فرزانہ کراچی یونی ورسٹی سے اردو ادب اور اردو لسانیات میں ماسٹرز کر چکی تھی۔ میرے لےہ یہ بات بہت اہمیت کی حامل تھی کہ ادب میں ایم اے تو عام ہے، لسانیات میں بہت کم لوگ ملتے ہیں۔ بہر حال اسے تین دن کا آزمائشی وقت دیا گیا۔ تین دن بعد بچوں نے اس کے بارے میں مثبت رائے دی اور یوں وہ بے حد خوشی سے اسلام آباد کے ایک نامور تعلیمی ادارے سے منسلک ہو گئی کہ سرکاری ملازمت ہر ایک کا خواب ہوا کرتا ہے۔ غریب کی صورت سوال ہے، لیکن وہ کسی سے سوال نہیں کرتی تھی بس اس کے مسائل اس کے چہرے پر ڈیرہ ڈالے رہتے تھے۔ میاں کبھی نیوز اجنسی سے منسلک تو کبھی پراپرٹی ایجنسی سے، کپڑوں کا کاروبار کر رہا ہے تو کبھی کسی بوتیک سے وابستہ، روز گار کی گاڑی کھینچنے کی مشقت جھیل رہا ہے اور اسی کشمکش میں یرقان کی بیماری نے بھی آ دبوچا۔ ادھر کالج میں مینا بازار کی گہماگہمی تھی۔ فرزانہ اپنے دونوں بچوں کے ہمراہ آئی۔ بچے کیا تھے۔ بہت خوبصورت اور صحت مند، کسی بر گر خاندان سے تعلق لگتا تھا۔ ذہین و با تمیز زاویہ اور ظفر سے یہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ فرزانہ نے اپنے میاں کے بوتیک سے کپڑے لا کر سٹال لگایا تھا، بعد میں جب حساب کتاب ہوا تو اسے خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ ابھی اس صدمے سے وہ سنبھلی نہ تھی کہ ایک اور افتاد آن پڑی معلوم ہوا کہ طالبات نے فرزانہ کو بہ حیثیت استاد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ’’وہ اچھا نہیں پڑھاتیں۔‘‘ سکول والوں نے اسے فارغ کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ مجھے بے حد افسوس ہوا لیکن میں اس کے لےں کچھ کر نہ سکی۔ وہ اپنے پرانے سکول گئی۔ وہاں سے بھی بے رحمانہ انداز میں معذرت کر لی گئی۔ میاں بیمار، خود بے روزگار، آخر نسیم محمود، ڈائرکٹر پروگرامز، اکادمی ادبیات پاکستان، نے اپنی دیورانی کے ’’مہنگے‘‘ سکول بھجوایا کہ شاید بات بن جائے۔ وہاں گئی تو معلوم ہوا کہ ابھی جائے استاد خالی نیست البتہ کینٹین میں ایک جگہ خالی ہے۔ لسانیات اور ادب میں ایم اے کرنے والی سموسے اور چاکلیٹس بیچنے لگ گئی کہ جب ٹیچر کی اسامی کی جگہ خالی ہو گی تب انھیں موقع دیا جائے گا۔ میں گنگ رہ گئی بچے کیا تب اسے وہ عزت دے سکیں گے جو ایک استاد کا حق ہے۔ اسی اثنا میں میری سلیکشن ایف جی ایف ۷ کالج میں ہو گئی۔ فرزانہ سے رابطہ ویسے ہی منقطع ہو چکا تھا۔ ایک روز میں کالج میں تھی کہ فرزانہ مجھے ڈھونڈتی ہوئی کالج، ایف سیون ٹو آ گئی۔ ظاہر ہے مختصر سی بات ہوئی۔ حال احوال پوچھا تو کہنے لگی لگتا ہے آپ کو کچھ پتا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ایک روز وہ سکول میں تھی کہ زاویہ کے سکول سے فون آیا کہ بچی کے سر میں شدید درد اٹھا، اسے ہولی فیملی ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے، فوراً پہنچیں۔ فرزانہ کہتی ہے:

’’میں جب پہنچی تو زاویہ وہاں جا چکی تھی جہاں میری گریہ و زاری کی رسائی نہ تھی۔ وہ کبھی کبھی سر درد کی شکایت کرتی تو تھی لیکن میں ڈسپرین وغیرہ دے دیا کرتی تھی، مجھے بالکل اندازہ نہ ہوا کہ وہ کتنی تکلیف سے گزر رہی ہے۔‘‘

میں سوائے افسوس کے کچھ نہ کر سکی۔ اس بات کو دو ڈھائی سال گزرے ہوں گے کہ ایک روز وہ پھر کالج آ گئی کہ آپ سے ملنے کو بہت جی چاہ رہا تھا۔ میاں اور بیٹے کا حال پوچھا تو ایک خوفناک اور دل کو ریزہ ریزہ کر دینے والی حقیقت سامنے آئی۔

’’مجھے ایک نئے ماڈل سکول میں دوپہر کی شفٹ میں ڈیلی ویجز پر ملازمت مل گئی۔ میاں بیمار تھے۔ میں چھٹیاں لینے پر مجبور تھی، سوچا کہ آج کسی طرح کالج ہو آؤں اور پرنسپل کو بتا آؤں کہ میاں کی تیمار داری کی وجہ سے مجھے مزید رخصت درکار ہے، ادھر میاں میں بھی بالکل ہمت نہ تھی لیکن کہنے لگے کہ میں کسی نہ کسی طرح ٹیکسلا اپنے دفتر جا کر اپنی بیماری کا بتا آؤں اور یہ کہ اب ملازمت جاری نہیں رکھ سکتا۔ جمعے کا روز تھا میں بارہ بجے گھر پہنچی۔ ظفر جھاڑو دے رہا تھا۔ چولھے پر گرم پانی رکھا تھا، میں نے کہا پہلے تم نہا لو، پھر مجھے بھی نہانا ہے، میرا روزہ بھی تھا۔ نہا دھو کر نماز پڑھی۔ قیامت شام سے پہلے پہلے ہمارے گھر پر ٹوٹ چکی تھی معلوم ہوا ظفر کا دوست صبح سے گھر نہیں پہنچا۔ صبح ظفر اسے بلا کر کہیں لے گیا تھا اور اب وہ کچھ نہیں بتا رہا کہ فراز کہاں ہے۔ ماں نے پریشان ہو کر تھانے میں پرچہ درج کرا دیا اور پولیس آ کر ظفر کو تھانے لے گئی۔ ہم ماں باپ پریشان حال تھانے پہنچے۔ میں بتا نہیں سکتی کہ پولیس کا رویہ کتنا اہانت آمیز تھا۔ انھوں نے ظفر کو حوالات میں رکھا ہوا تھا اور اسے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ میں شرمندگی کے مارے کسی کو کچھ بتا بھی نہ پا رہی تھی، بتاتے بھی تو کسے۔ کراچی میں ایک بیمار باپ کے علاوہ تھا ہی کون اور یہاں اسلام آباد پنڈی میں تو کوئی بھی نہ تھا۔ ایک ہفتے بعد پولیس ہمارے گھر آئی اور آتے ہی دوسری منزل پر چلی گئی۔ دوسری منزل پر ایک کمرہ تھا۔ جو کئی سال پہلے طوفانی بارشوں میں ڈھے گیا تھا۔ میں کبھی اوپر گئی ہی نہ تھی میاں ویسے ہی بیمار تھے۔ فراز کی لاش ہمارے گھر سے برآمد ہوئی۔ ہمارے محلے کا ایک آدمی عاطف بٹ کہہ لیں، اس کے بچے انتہائی نالائق تھے۔ میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں انھیں ٹیوشن پڑھاؤں۔ میرے شدید انکار کے باوجود نہ مانا، میں اس کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی لیکن ان میں کوئی بہتری کے آثار پیدا نہ ہوئے، اسے جب بھی کوئی بات کہلانا ہوتی تو میں اسے کہتی کہ اپنی بیوی یا بہن کو بھیجو، تم ظفر کو کیوں بار بار بلاتے ہو۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسے بہانے بہانے سے بلاتا ہے۔ میں نے ظفر کو منع بھی کیا لیکن پندرہ سالہ ظفر کو اس نے اپنے قابو میں کیا ہوا تھا۔ دوسری طرف بچپن سے ہی ظفر اور فراز کی دوستی تھی۔ عاطف بٹ اسے کہا کرتا تھا کہ یہ دوستی ختم کر دو لیکن یہ دونوں دوست نہیں چاہتے تھے۔ فراز بھی کہتا تھا کہ اس کی بہن بھی اس دنیا میں نہیں رہی میں بھی اسے چھوڑ دوں تو یہ بالکل اکیلا رہ جائے گا۔ معلوم ہوا کہ عاطف کے کہنے پر ظفر اسے اس کے گھر سے بلا کر لایا تھا اور دوسری منزل پر لے جا کر عاطف نے اسے گولی ماری اور ظفر کو ڈرایا دھمکایا کہ اس واقعے کا کسی سے ذکر نہ کر نا۔‘‘

فرزانہ کی باتیں سن کر میں حیران رہ گئی۔ یہ ۲۰۰۵ء کا واقعہ ہے، آگے کی کہانی جو مختلف اوقات میں کبھی سال دو سال بعد میں فون کرتی تھی اس امید پر کہ شاید ظفر بری ہو گیا ہو، تو مجھے تازہ صورت حال سے آگاہ کر دیا کرتی تھی جو کبھی خوش آئند نہیں ہوا کرتی تھی۔ شوہر کی وفات کی خبر بھی اس نے مجھے فون پر دی۔ مصائب نے گھر کا رستہ دیکھ لیا تھا۔ کبھی میں فون پر پوچھتی۔

’’ظفر سے ملاقات کے لےس جاتی ہو‘‘

’’پیر ملاقات کا دن ہوتا ہے، ایک تو میری دوپہر کی شفٹ ہے سکول میں، دوسرے اڈیالہ جانا اتنا آسان نہیں۔ اتنا کرایہ لگ جا تا ہے، ہر پیر کو نہیں جا سکتی‘‘

کبھی بہت پریشان ہو کر بتاتی:

’’انھوں نے پہلے تو بچوں کی جیل میں رکھا ہوا تھا لیکن اب بڑوں کی جیل میں اسے عاطف کے ساتھ رکھا ہوا ہے، وہ اسے بہت مارتا ہے۔‘‘

اس کے دکھوں کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ کچھ کوشش کی بھی کہ کسی طرح عنبر تاجور یا انصار برنی سے رابطہ ہو جائے، لیکن یہ کام مکمل توجہ، مکمل وقت اور توانائی چاہتا ہے، بات آدھی ادھوری رہ گئی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ غریب و بے وسیلہ انسان کے لےت این جی اوز بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ نہ جانے کیسے کیسے وہ وکیلوں کی فیسیں پوری کرتی، تاریخ پہ تاریخ پڑتی جاتی۔ کبھی بتاتی:

’’اس نے جیل میں پڑھائی شروع کی ہوئی ہے۔ اس کا ایف اے کا نتیجہ آ گیا ہے، بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہے۔‘‘

’’اس نے بی اے کر لیا ہے، وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہے، وہ روزانہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتا ہے، باقاعدگی سے روزے رکھتا ہے۔‘‘

’’درسِ نظامی اس نے ڈیڑھ سال میں مکمل کر لیا ہے، اب جیل والوں نے اس کی ڈیوٹی مسجد میں لگا دی ہے۔ ناخواندہ قیدیوں کو قرآن پاک کا درس دیتا ہے۔‘‘

اب کافی دن بعد فون کیا تو اس نے بتایا کہ ہائی کورٹ سے ظفر کو پھانسی کی سزا ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے، دعا کریں۔ پھر کچھ عرصہ بعد فون کیا تو خوش تھی کہ سپریم کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا ہے۔ گیارہ سال تو وہ کاٹ چکا ہے۔ کچھ اس کے اخلاق اور تعلیم کی وجہ سے تخفیف ہو جائے گی۔ ویسے بھی دو ڈھائی سال بنتے ہیں۔ بس آپ دعا کریں۔ اب کے فون پر میں منتظر تھی کہ وہ خوشخبری سنائے گی، لیکن اس نے تو کہا تھا کہ جیسے ہی کوئی اچھی خبر ملی سب سے پہلے آپ کو بتاؤں گی، بہت انتظار کے بعد میں نے خود ہی فون کر لیا، بہت پریشان تھی۔

’’فراز کے گھر والوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی ہے۔‘‘

کچھ عرصے بعد اس نے بتایا ’’۱۷ فروری ۲۰۱۸ء کی تاریخ دی ہے۔ جج منظور ملک کی بہت تعریف سنی ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ جب ایک (ملزم یا) مجرم سزا پوری کر چکا ہے تو اسے بہتر زندگی گزارنے کا ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔‘‘

فراز کی ماں کا بھی بہت خیال آتا ہے جس کا بچہ نا حق جان سے گیا۔

فرزانہ کی آہ و زاری اور بے قراری بھی بے چین کر دیتی ہے۔ ماں کی دعائیں یوں بے اثر جاتی ہیں۔۔ حطیم میں، غلافِ کعبہ پکڑ کر اور عمرے اور طواف کے دوران میں بھی اس ستم رسیدہ ماں بیٹے کو میں بھی نہیں بھولتی اور نہ جانے کتنے دلوں سے ان کے لےو دعائیں نکلتی ہوں گی۔ یہ یقین بھی ہے کہ دعا رد نہ ہو گی لیکن کب قبول ہو گی۔ یہ جاں لیوا انتظار کب ختم ہو گا۔ میں نے تو پندرہ سال پہلے ایک کھلتے گلاب جیسا بچہ، برگر فیملی سے تعلق رکھتا ہوا دیکھا تھا، آزاد ہونے کے بعد کیا ہمارا معاشرہ اسے ایک با عزت تعلیم یافتہ شہری کی حیثیت دے گا۔ یہ باتیں تو بعد کی ہیں، اللہ اس کی ماں کی لامتناہی آزمائشیں ختم کرے اور ظفر کو آزاد فضا میں سانس لینا نصیب ہو اور بدقسمتی اور نحوست کے تمام دروازے بند ہوں۔ اس دنیا میں جو بھی کردہ نا کردہ گناہوں کی سزا وہ پا چکے ہیں، اس کے صلے میں آخرت کی منزلیں آسان ہوں۔ آمین

آج فروری ۲۰۱۹ء، اس کی ماں اس آس میں جینے کی تگ و دو میں مصروف ہے کہ اس کا بیٹا جب باہر آئے تو کوئی ایک تو اس کا منتظر ہو۔

’’بھلا وہ کون ہے کہ جب بیقرار اس کو پکارے تو دعا قبول کرتا ہے اور مصیبت کو دور کرتا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے