ابو الکلام قاسمی کا تنقیدی اختصاص ۔۔۔ ڈاکٹر امام اعظم

ادب انسانی جذبوں کو احساس کی قوت اور شعور کو بصیرت عطا کرتا ہے اور تنقید ادبی تخلیق و فن پارے کی قدر و قیمت متعین کر کے اسے ادب و تہذیب کا مظہر ثابت کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس لیے تنقید کا یہ بھی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنے دور کے لیے نظام خیال کی تشکیل نو کرے تاکہ صالح اقدار پر مبنی ادب فروغ پاتا رہے۔ بہ قول جمیل جالبی:

’’ہر دور میں مختلف تاریخی دھاروں کے بہاؤ کی وجہ سے کلچر بدلتا رہتا ہے اور پرانا نظام خیال کمزور ہوتا ہے اور ٹوٹتا پھوٹتا ہے۔ تنقید کا کام یہ ہے کہ وہ اس نظام خیال کو نئے سرے سے مرتب کرتی رہے تاکہ ایک طرف تغیر میں تسلسل باقی رہے اور دوسری طرف زندگی کے ہر شعبے میں تخلیق کا عمل جاری رہے۔‘‘ (دیباچہ: ارسطو سے ایلیٹ تک)

اس زاویۂ نظر کے تحت اردو میں باقاعدہ تنقید نگاری کی بنیاد سر سید تحریک کے زیر اثر پڑی۔ در کھلے تو مغربی ثقافتی دھاروں کی بنیاد میں ہمارے تنقیدی رویے میں نوع بہ نوع تغیر و تبدل کے سلسلے چل پڑے اور اردو تنقید، محض سو سوا سو سالہ تاریخ میں اپنے نظام خیال، رومانوی، ترقی پسندی اور جدیدیت کے تشکیلی عمل سے گزرتے ہوئے مابعد جدیدیت پر آ ٹکی ہے۔ اس میں بھی ساختیات اور پس ساختیات، تشکیل اور ردِ تشکیل وغیرہ سامنے آئے ہیں، تاہم انھیں کتنا ثبات ملتا ہے یہ تو مستقبل ہی طے کرے گا۔

ادب میں مواد کی تبدیلی بہ تقاضائے حالات تو فطری عمل ہے لیکن پہلے مواد کو تشکیل دینے والے اصول ہمیشہ قائم و دائم رہتے تھے۔ مغربی افکار کی بنیاد میں مواد کی تبدیلی اصولوں سے آزاد ہو گئی۔ نتیجتاً اصول و ہیئت کی شکست و ریخت کے بعد کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی جو ادب کو انارکی سے بچا سکے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ اب ہما شما بھی اپنی بات، اپنا تخلیقی عمل اور اپنا نظریہ منوانے پر مصر نظر آتا ہے اور اس کے لیے مغربی معلوم و نامعلوم حوالوں سے مزین مضامین اور کتابوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں۔ جب کہ مغرب کی صورت حال پر فرینک کرموڈ نے لکھا ہے کہ:

’’آج کل جیسی تنقیدی کتابیں تنقید کے نام پر مغرب میں خاص کر امریکہ میں لکھی جا رہی ہیں، ان کی اوسط زندگی دوچار برس سے زیادہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجہوں میں ایک وجہ فرینک کرموڈ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ تنقید کا کاروبار کرنے والے صاحبان ’نئی سے نئی‘ کتابوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کے خیال میں ہر ’نئی‘ کتاب میں ’نیا علم‘ بھی مہیا کیا جاتا ہے۔‘‘

(شمس الرحمن فاروقی۔ شرح کی تعبیر، ص: ۱۸۶)

اس المناکی کو اردو کا قاری بھی جھیل رہا ہے۔ دوسری طرف بعض اردو کے ناقدین کی لا طائل عبارت آرائی، غیر مانوس اصطلاحات کی ژولیدگی اور تنقیدی عمل میں اصول و نظریات کے اطلاق کی پراگندگی، قاری کو اپنے ادب کی افادیت سمجھنے سے عاجز کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں کچھ ایسی ہستیاں ہر دور میں رہی ہیں جن کی ناقدانہ بصیرت نے تنقید کا حق ادا کیا ہے، نظام خیال کی تشکیل نو کی ہے اور ان کی نگارشات نے دل کو طمانیت اور دماغ کو ترفع بخشا ہے۔ ایسی ہستیوں میں فی زمانہ پروفیسر ابو الکلام قاسمی بھی ہیں۔

علوم مشرقیہ، پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی ذہنی تربیت و تنظیم کی اساس بنے اور علمی شغف کے مواقع نے مغربی ادبیات تک ان کی رسائی بہم پہنچائی۔ اس لیے مشرقی و مغربی دونوں تنقیدی تصورات کی یہ گہری بصیرت رکھتے ہیں؛ صرف مطالعے کی حد تک نہیں بلکہ ان کی مرتبہ و مدونہ کتابیں ’مشرق کی بازیافت‘، ’انتخاب انعام اللہ خاں یقینؔ‘، ’رشید احمد صدیقی: ادبی قدر و قیمت‘، ’انتخاب فراق گورکھ پوری‘، ’اردو فکشن آزادی کے بعد ‘ اور ’نظریاتی تنقید‘ کے مقدمے باور کراتے ہیں کہ تنقید سے ان کا لگاؤ گہرا رہا ہے۔ ابو الکلام قاسمی کا اختصاص یہ ہے کہ ادب کی کسی مخصوص یا چند صنفوں تک ان کی تنقید کا دائرۂ کار محدود نہیں۔ سمیناروں اور رسائل و جرائد میں منتشر تنقیدی نگارشات کے علاوہ تنقیدی مضامین کے مجموعے ’مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت‘، ’شاعری کی تنقید‘، ’تخلیقی تجربہ‘ اور ’معاصر تنقیدی رویے‘، ’اردو شاعری‘ افسانوی و غیر افسانوی نگارشات، تنقید اور تحقیق سبھی کو محیط ہیں اور ان میں اصول و ضوابط کی پاسدار افادی تنقیدی رجحان پیدا کیے جانے پر زور کا پہلو غالب ہے۔ اس تخصص نے ان پر پینی نظر رکھنے والوں کو بھی قائل کیا ہوا ہے مثلاً پروفیسر صفدر امام قادری نے ’معاصر تنقیدی رویے‘ پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’ان تمام مضامین میں ایک ایسی شخصیت چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے جسے ادب کے نظریات اور اصول و ضوابط کے آئینے میں ادبی سرمایے کی طرف متوجہ ہونے کا شوق بے پایاں ہے۔ ابو الکلام قاسمی کا یہی اختصاص انھیں برتر مقام عطا کرتا ہے۔‘‘

(نئی پرانی کتابیں۔ ص: ۱۳۲)

میری سمجھ میں آج ادب کے فروغ کے لیے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے قاری اور ادب کے درمیان قربت کے بجائے دوری پیدا ہو رہی ہے اور اس دوری کو کم کرنے کے لیے اردو تنقید کو جو کام کرنا چاہیے، وہ نہیں کر پا رہی ہے۔ کیوں کہ ایک طرف اصولی سطح پر تنقیدی معیاروں اور اصولوں کے واضح تصور کے بغیر ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی عمومی تجزیے اور تنقید کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف تنقیدی تصورات اور نظریے کا مبحث و اطلاق افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ادب پارے کے معقول افہام و تفہیم کی سبیل تو تنقیدی اصول و نظریات ہی پیدا کرتے ہیں، یہ بات مسلّم ہے۔ مثلاً:

’’اگر ہم کسی فن پارے میں شعری تدبیروں اور شاعرانہ صنعتوں کی نشان دہی کرنا چاہیں تو ان کا پس منظر یہ ہو گا کہ شاعرانہ ذہن کیوں کر اشیا میں مماثلتیں تلاش کر لیتا ہے؟ وہ کیسے مختلف حقائق کے اسباب و علل میں تبدیلی یا حسن پیدا کر کے اپنے بیان میں لطف اور کشش پیدا کرتا ہے، یا یہ کہ رمز و کنایہ اور استعارے کا استعمال کیوں کر سامنے کے متعین معنوں کے ساتھ دوسرے معنوں کا امکان پیدا کر دیتا ہے؟ ان باتوں میں اول الذکر پس منظر میں تشبیہ یا استعارہ پیدا ہوتا ہے، ثانی الذکر کے باعث حسن تعلیل کی صنعت عمل میں آتی ہے اور موخر الذکر پس منظر، فن پارے کو زمان و مکان کی تبدیلی کے باوجود با معنی باقی رکھتا ہے۔ یہ تمام رویے شعری تنقید کے لیے نظری بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ یہی رویے جب اطلاقی سطح پر تنقیدی عمل سے مربوط ہو جاتے ہیں تو فکری یا نظریاتی سطح پر اس کے سرچشمے انسانی زندگی یا تہذیب و ثقافت سے پھوٹے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔‘‘ (معاصر تنقیدی رویے۔ ص: ۱۰۔ ۱۱)

لیکن اس ضمن میں میرا خیال ہے کہ کسی بھی نظریے کو یا کسی بھی طریقے کو عمومی سطح پر ایک قوت کی طرح بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس طرح متعارف کرایا جائے کہ وہ عام قارئین پر ایسا تاثر ڈالے کہ وہ اسے خوش دلی اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔ اس رویے کو ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی کی ناقدانہ بصیرت عام کرنے میں سرگرم نظر آتی ہے۔

گرچہ قاسمی صاحب کے یہاں متن کو متن کے حوالے سے جانچنے، پرکھنے اور تعین قدر کا نظریہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے جو مابعد جدیدیت کے رجحان پر مبنی ہے اور اس کے پیروکار اور بھی ناقدین ہیں مگر موصوف اپنے ہم عصروں میں اس معنی میں منفرد ہیں کہ متن کے تجزیاتی عمل میں معانی و مفاہیم کی نئی جہتوں اور نئی معنویت کے اثر انگیز ہونے کے امکانات کی جستجو میں دیگر اصولوں کو بھی بروئے کار لے آتے ہیں۔ یہ بہتوں کی طرح کسی مخصوص نظریہ کی پاسداری پر مصر نہیں ہوتے کیوں کہ فن پارے کی معنوی عظمت کے تعین کے لیے احساساتی نظام تک رسائی بھی ضروری ہوتی ہے جو محض فنی تدابیر پر قناعت سے ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً ’اقبال کے لفظیاتی نظام‘ کے تجزیے میں شمس الرحمن فاروقی مطالعۂ الفاظ کے دوران ذرّہ برابر بھی متنی اکائی سے باہر نہیں گئے، البتہ ’شعر شور انگیز‘ میں انھوں نے بعض لفظوں کو شعری متن سے الگ کر کے دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ عام طور پر ایسا نہیں کرتے جب کہ قاسمی صاحب مطالعۂ الفاظ کے دوران بندھے ٹکے اصول سے گریز کرتے ہیں اور متن کے تجزیاتی عمل میں لفظوں کے تہذیبی و تاریخی سیاق و سباق سے بھی کام لیتے ہیں اور لفظوں کو عصری تناظر میں رکھ کر بھی تشریح کرتے ہیں۔ مثلاً خسرو کی غزلیہ شاعری کی حرکیات کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ان کی غزل اپنے پیرایۂ اظہار کے اعتبار سے فعالیت، حرکت اور محرک قوتوں کی کش مکش کا ایسا تاثر قائم کرتی ہے جس کی تشکیل میں استعارہ سازی، پیکر تراشی اور قول محال کی موجودگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے — مثال کے طور پر یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ محبوب کی بلند قامتی کو سرو کے استعارے سے بیان کیا جاتا ہے — ظاہر ہے کہ سرو بلند قامتی کی نمائندگی ضرور کرتا ہے مگر یہ استعارہ حرکت یا نقل مکانی کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف خسرو سرو کے استعارے کو تو اپنی روایت سے قبول کر لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صفت کا اضافہ بھی کر دیتے ہیں اور یہ صفت ایسی ہوتی ہے جو حرکت کو بھی قبول کرتی ہے اور نقل مکانی کو بھی۔‘‘

یہاں پروفیسر قاسمی نے بتایا ہے کہ خسرو نے ’سرو‘ کے بجائے ’سرو رواں ‘ و ’سرو خرامیدہ‘ کو استعمال کر کے منجمد استعارہ کو کس طرح فعالیت بخشا ہے۔

شعری متن کی کثیر المعنویت کے انکشاف کے لیے لہجے و قرأت کی اہمیت کا تصور قدیم عربی و سنسکرت ادب میں بھی ملتا ہے اور مابعد جدید رجحان نے بھی اسے اپنایا ہے لیکن موصوف نے لہجہ و قرأت کے توسط سے جس حکمت سے غالب کی شاعری کا باقاعدہ تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس کی کوئی بڑی مثال غالب کے تمام ناقدین و شارحین کے یہاں نہیں ملتی جس سے غالب کی معنی آفرینی کی ندرت کو سمجھا جا سکے۔ قاسمی صاحب نے روایتی جائزوں سے یکسر مختلف انداز میں پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ بتایا ہے کہ لہجے کے وسیلے سے شعر کے عام یا مروجہ معنی کس طرح نئے معنی میں منقلب ہوتے ہیں اور کس طرح لسانی پیرایوں، صوتی آہنگوں اور نحویات کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو براہ راست شعری لہجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً غالب نے قول محال اور تعقید لفظی سے شعر میں معنوی وسعت و تنوع پیدا کی ہے۔ قاسمی صاحب نے قول محال اور تعقید لفظی پر مبنی اشعار کا تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کے معنوی تعینات لہجے کے تعین کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے، کیوں کہ ان سے جس شعر کی تشکیل ہوئی ہے وہ طنزیہ بھی ہو سکتا ہے، ڈرامائی بھی اور استفہامیہ بھی۔ ان تینوں لہجوں کی تعمیر و تشکیل میں قول محال اور تعقید لفظی نے کتنی غیر معمولی کار کردگی دکھائی ہے، ان کا حیرت انگیز انکشاف کر کے موصوف نے ’تنقید غالب‘ میں اضافہ کیا ہے۔

تنقیدی اصول و نظریات پر انھوں نے بہت گفتگو کی ہے مگر کہیں بھی الجھاؤ اور ابہام نہیں ملتا بلکہ موضوع و موقف پر ایسا ارتکاز ملتا ہے کہ بسا اوقات ان کے موقف سے اختلاف کے باوجود قاری ان کی سلیقہ مندی کا قائل ہو جاتا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ’مابعد جدیدیت، مضمرات و ممکنات‘ میں ان کے رویے کو خوب سراہا ہے اور لکھا ہے کہ:

’’مابعد جدید رویے میں حقیقت، واقعات، تجربات یا مشاہدات کی کیا صورت ہے؟ ان سب کا تعلق زبان سے کس طرح ہے؟ لسانی اظہار کی سطحیں کیا ہیں اس کی معنویت کیا کچھ ہے؟ ان امور پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور پھر آگے جا کر جوابات بھی مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (ص: ۴۱۹)

مگر صفدر امام قادری کہتے ہیں کہ:

’’قاسمی اس نئی ادبی تحریک یا رویے کے ایسے رہبر ہیں جسے ان نظریوں میں کوئی کوتاہی یا تحفظ اور حدود کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔‘‘

(نئی پرانی کتاب، ص: ۱۳۲)

یہ بات بار بار غور کرنے کے باوجود ناچیز کے سرسے گزر جاتی ہے کیوں کہ بہ قول ڈاکٹر منصور عمر:

’’مابعد جدیدیت کا سورج ابھی طلوع ہی ہوا تھا اور اس کی روشنی سے ابھی ادبی فضا منور بھی نہیں ہوئی تھی اور بیش تر ادیب و فن کار جدیدیت کی چادر تانے ابھی محو خواب ہی تھے کہ ابو الکلام قاسمی، مابعد جدیدیت کے سورج کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے اور اس کی کرنوں کو اپنے اندر جذب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘

(مابعد جدیدیت: مضمرات و ممکنات- ایک جائزہ، ص: ۸۴)

اسی طرح مضامین ’نوآبادیاتی فکر اور اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی‘، ’تانیثی ادب کی شناخت اور تعین قدر‘، ’قرۃالعین حیدر اور نسائی حسیت کا رجحان‘ وغیرہ کے مطالعے ثابت کرتے ہیں کہ ان موضوعات پر قاسمی صاحب نے اس وقت قلم اٹھایا اور نو آبادیاتی فکر کو اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی سے ہم آہنگ کرنے نیز تانیثی ادب کی اطلاقی صورتوں کو نمایاں کرنے کی سعی کی جب بہت کم ادیبوں نے ان کی طرف توجہ دینے کی زحمت گوارہ کی تھی۔

لہٰذا صفدر امام قادری کی متذکرہ رائے پر گفتگو کی جائے تو بات بہت دور تک جائے گی۔ اس لیے صفدر امام قادری کی ہی ایک دوسری مثبت رائے سے رجوع کر کے اپنے موضوع پر لوٹتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’قاسمی کے تجزیے کی معروضیت اور گہرائی کلیم الدین احمد پر لکھے مضمون میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس مضمون سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ قاسمی چاہیں تو کسی نقاد کا انصاف پسندانہ جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس مضمون میں کلیم الدین احمد کی تنقیدی خصوصیات سے وہ پورے طور پر واقف معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نپی تلی تنقیدی رائے دے سکتے ہیں اور تجزیہ کر کے اپنی باتوں کو ثابت کر سکتے ہیں۔ اس مرحلے میں اردو کے موجودہ نقادوں میں ان کی حیثیت نمایاں ہو جاتی ہے۔‘‘ (نئی پرانی کتابیں، ص: ۱۳۴)

عہد بہ عہد فن پارے میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ فن کار اپنے زمانے سے متاثر ہوتا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے نئی معنویت اور تبدیلی پر بڑی اچھی رائے دی ہے کہ:

’’فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئی فکر و آگہی سے آزادانہ تخلیقی معاملہ کرے اور کسی کے دباؤ میں نہیں بلکہ اپنے طور پر کھرے کھوٹے کو پرکھے۔ ادب میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ادب کی پہلی شرط اس کا ادب ہونا ہے اور ادب وہی ہے جو زندگی کی حکمت و حرارت سے جڑا ہوا ہو، اپنی تہذیبی پہچان رکھتا ہو اور اپنے عہد کے ذہن و شعور، سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو کی آواز ہو، نہ صرف آواز ہو بلکہ موثر آواز ہو۔‘‘

(’تنقید کا نیا منظر نامہ اور گوپی چند نارنگ‘ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، فلپ)

پروفیسر ابو الکلام قاسمی عصر حاضر کے ایسے نقاد ہیں جن کی تنقید نگاری میں توازن اور انفرادیت جھلکتی رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے جس میں کسی بھی تخلیق کے منفی اور مثبت پہلو کو دیکھنے کے لیے عام طور پر جو رویے اپنائے جاتے ہیں، ان میں اکثر توازن برقرار نہیں رہ پاتا، لیکن ابو الکلام قاسمی نے منفی پہلوؤں پر بھی مثبت رائے دینے کا ایک نیا وژن اختیار کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پروفیسر آل احمد سرور کا ایکسٹینشن نئے پیرایے میں اپنا کر انھوں نے اپنی تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اردو تنقید میں ایک نئی طرح ڈالی ہے۔

میرے خیال میں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید ادب، ان کی روایت اور ان کے تخلیقی رجحانات و میلانات سے پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی غیر معمولی آگاہی، اعلیٰ ادبی ذوق، جمالیاتی قدروں کا گہرا شعور اور ان کے تنقیدی عمل میں تنوع اور ہمہ گیریت موجب امتیازات ہیں تو سلجھا ہوا، واضح، استدلالی اسلوب اور معروضیت پر مبنی نپی تلی رائے سونے پر سہاگا۔ اس طور فی زمانہ اردو تنقید کی کئی جہتوں میں پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی اوّلیت تو کہیں امتیاز و اختصاص نمایاں ہیں۔

https://adbimiras.com/abul-kalam-qasmi-ka-tanqeedi-akhtsas-dr-imam-azam-2/

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے