معمول۔۔۔ اعجاز عبید

(ہارر سٹوری کا ایک تجربہ)

 

ساتویں منزل پر پہنچ کر اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے شارق نے گھڑی دیکھی، گیارہ بج کر چالیس منٹ ہو رہے تھے۔ یعنی وہ آج اپنے معمول سے دس منٹ تاخیر سے گھر پہنچا تھا۔ فکٹری سے بھی پانچ منٹ دیر سے نکل سکا تھا۔ ’’خیر، کیا فرق پڑتا ہے‘‘ اس نے سوچا۔

شارق کی اپنی پسند ہی یہ شفٹ تھی، صبح آٹھ بجے وہ ڈیوٹی پر نہیں جا سکتا تھا کہ عام طور پر بھی وہ نو دس بجے تک سو کر اٹھتا تھا۔ اور نہ اسے بارہ بجے رات تا صبح آٹھ بجے کی ڈیوٹی پسند تھی کہ ساری رات اسے جاگنا پسند نہ تھا، اور نہ دن میں سونا!

گھر آ کر کپڑے بدل کر وہ سیدھا کچن میں گیا۔ بغیر کوئی آواز کئے اپنے لئے کافی بنائی، اور کافی کا مگ لے کر معمول کے مطابق بالکنی میں آ کر بیٹھ گیا۔ بڈ روم میں ثمرین، اس کی بیوی بھی سو چکی ہو شاید اور اس کے بچے تو یقیناً سب سو چکے ہوں گے، اس نے سوچا۔

باہر سڑک پر ٹریفک کم ہو گیا تھا اور یوں بھی ساتویں منزل تک سڑک کی آوازیں نہیں پہنچتی تھیں۔ ہوا کی ٹھنڈک اور پرسکون ماحول میں بیٹھ کر سونے سے پہلے اسے کافی پینا اچھا لگتا تھا۔ اور اسے بنانے کے لئے اسے بیوی کو اٹھانا بھی قبول نہیں تھا، حالانکہ وہ اکثر جاگتی ہی ملتی تھی بڈ روم میں۔ باہر سڑک پر معمول کے مطابق ٹریفک جاری تھا جو دن کے مقابلے میں تو بہت کم تھا، لیکن اب سے چھ سات پہلے جب سے وہ اس فلیٹ میں آیا تھا، بہت بڑھ چکا تھا۔ پہلے تو یہاں اس وقت ہو کا عالم ہوتا تھا۔

شارق کی نظریں سڑک پر ایک پیدل چلنے والے آدمی پر پڑیں۔ اس وقت یہ کون ہے جو پیدل جا رہا ہے؟ اس نے سوچا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بیچ سڑک پر آ گیا، اور تبھی ایک سرخ رنگ کی کار تیزی سے آئی اور اس پیدل شخص کو ٹکر مار کر آگے بڑھ گئی۔ وہ آدمی گر پڑا، معلوم نہیں زندہ ہے یا مر گیا، اتنی اوپر سے کچھ خون تو نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس نے فوراً سڑک پر آنے کے لئے دوڑ لگائی، لیکن باہر لفٹ موجود نہیں تھی، اٹھارویں منزل سے نیچے آنے میں اسے وقت تو لگنا تھا۔ لیکن پیدل اترنے میں بھی اتنا وقت تو لگتا! اور جب وہ سڑک پر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں اس پیدل راہگیر کا نام و نشان نہ تھا۔ کیا اسے فوراً ہوش آ گیا تھا جو وہ اٹھ کر نکل بھی گیا! اس نے سوچا۔ اس امکان پر اسے اطمینان سا ہوا ۔ پھر وہ فلیٹ پر واپس ہوا اور کافی ختم کر کے بڈ روم میں داخل ہو گیا۔

’’دن اچھا گزرا آپ کا۔۔۔؟‘‘ ثمرین نے پوچھا۔

’’ہاں، سب ٹھیک رہا‘‘ اس نے کپڑے بدلنے کے لئے اپنے کپڑے اٹھاتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

 

اگلے دن بھی یہی معمول تھا، سڑک پر ٹریفک یوں ہی جاری تھا۔ اچانک گلی کے موڑ سے اسے پھر ایک پیدل راہگیر نظر آیا۔ شاکر نے حیرت سے دیکھا اور کافی کا مگ رکھ دیا۔ اور پھر اسے فوراً ہی کھڑا ہو جانا پڑا۔ بالکل کل کی طرح کا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ شاید راہگیر بھی وہی لگ رہا تھا اور کار بھی ویسی ہی سرخ تھی جس نے آج بھی اس آدمی کو ٹکر دی تھی۔

شاکر تیزی سے باہر نکلا، آج اتفاق سے لفٹ بھی ساتویں منزل پر وہیں رکی ہوئی تھی جہاں اس نے آتے وقت چھوڑی تھی۔ وہ تیزی سے سڑک پر پہنچا مگر آج بھی پیدل راہرو یا اس کی لاش غائب تھی!

وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب کر نکلا اور تھکے تھکے قدموں سے واپس اپنے فلیٹ میں آیا، ثمرین کو دروازے میں ہی کھڑے ہوئے پایا۔

‘’اتنی تیزی سے کہاں چلے گئے تھے، میں پریشان ہو گئی؟‘‘

’’سوری ثمرین، شاید جلدی میں دروازہ زور سے بند کر دیا جو تم اٹھ گئیں‘‘

’’نہیں میں جاگ تو رہی تھی، لیکن بات کیا تھی؟‘‘

اور پھر شاکر نے اسے ساری داستان سنائی۔

٭٭٭

آج سنیچر تھا۔ فکٹری سے واپس آ کر کافی پیتے وقت وہ اتوار کی چھٹی کا پلان بنا رہا تھا۔ اور پچھلے دو دنوں کی وارداتوں کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا ۔

اچانک وہی نظارہ پھر دکھائی دیا۔ شاید وہی یا اسی طرح کا آدمی پیدل چلتے ہوئے نظر آیا، اور پھر وہی یا ویسی ہی سرخ کار دکھائی دی۔ لیکن آج یہ فرق رہا کہ جیسے ہی کار اس آدمی کو ٹکر مار کر آگے بڑھی، مخالف سمت سے آنے والی سیاہ کار سے اس کی بھی ٹکر ہو گئی۔ زور دار آواز بھی ہوئی اور کئی لوگوں کو گھروں سے نکل کر سڑک پر آٹے ہوئے بھی دیکھا۔

شاکر بھی فوراً لفٹ سے نیچے آیا جو اسے آج بھی وہیں مل گئی تھی۔

سڑک پر پہنچا تو وہاں آج خون میں لت پت ایک آدمی پڑا تھا، اور قریب ہی دو کاریں تو وہی تھیں۔ سیاہ کار والا بھی زخمی حالت میں تھا۔ کچھ لوگ پیدل راہرو کے جسم کو پرکھ رہے تھے کہ جان کی کسی رمق کو محسوس کر سکیں۔ کسی نے ڈاکٹر کو بھی خبر کر دی تھی، اور پولس کو بھی۔ اور اگلے ہی لمحے پولس بھی سائرن بجاتی ہوئی پہنچ گئی۔ سرخ کار والے کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ سیاہ کار والا، جسے معمولی چوٹیں ہی آئی تھیں، بتا رہا تھا ’’سرخ کار جس طرح تباہ ہوئی، اسے دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا ڈرائیور کار چھوڑ کر بھاگ نکلا ہو!! مگر میں نے کسی کو اترتے بھی نہیں دیکھا!‘‘

اس عرصے میں ڈاکٹر نے حادثے کے شکار آدمی کو مردہ قرار دے دیا تھا۔

اسے پہچان بھی لیا گیا تھا کہ اس کا نام راجیش اوستھی تھا۔ وہ کسی بنک کا ملازم تھا، اس کے ایک پڑوسی نے ہی بتایا کہ ’’وہ تو دفتر سے گھر آ کر کہیں آتا جاتا بھی نہیں تھا، گھر میں ہی بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ اس وقت وہ سڑک پر کیسے؟ اور وہ بھی پیدل؟ اس کی تو اپنی موٹر سائکل تھی اور یہ عادت تھی کہ گلی کے موڑ پر پان سگریٹ کی دوکان بھی جاتا تو گاڑی سے جاتا تھا!‘‘

’’اس سلسلے میں میں بھی ایک بیان دینا چاہتا ہوں‘‘ شاکر نے ایک پولس والے سے کہا۔

’’ابھی تو ہماری کارروائی مکمل نہیں ہوئی لیکن آپ کا نام پتہ اور فون نمبر ضرور دیں، آپ کو بعد میں تکلیف دی جائے گی‘‘ اس نے جواب دیا۔

پولس کے بھیڑ ہٹانے کے بعد وہ اپنے فلیٹ پر آ گیا اور بیوی کو یہ باتیں بتا کر سو گیا۔

٭٭٭

 

اگلے دن ناشتے کے بعد وہ کہہ رہا تھا کہ آج چھٹی کا پروگرام تو شاید برباد ہو جائے گا، کہ اسی وقت اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسے پولس سٹیشن بیان دینے کے لئے گیارہ بجے بلایا گیا تھا۔

پولس سٹیشن پاس ہی تھا، اس نے پیدل ہی جانے کا سوچا۔ لیکن پولس سٹیشن والی سڑک کے موڑ پر مڑنے کی بجائے اس کے قدم دوسری طرف مڑ گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بے ہوشی یا نیند کی حالت میں چل رہا ہو۔

وہ کافی دیر تک پیدل چلنے کے بعد ایک مکان میں داخل ہوا۔ اور ایک کمرے میں داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ چونکا۔ دیکھا کہ ایک اور شخص اسی کمرے میں آ گیا ہے۔

’’مجھے جانتے ہو، میں سوربھ شرما ہوں۔‘‘

’’کون سوربھ شرما؟ ڈاکٹر سوربھ شرما کا ہی نام سنا ہے لیکن اس نے تو پچھلے ماہ خود کشی کر لی تھی‘‘

’’تب تو یہ بھی سنا ہو گا کہ میں سائنٹسٹ بھی ہوں اور ہپناٹزم کا ماہر بھی؟ یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی‘‘

’’یعنی آپ ان کی روح ہیں یا بھوت؟‘‘

’’جو بھی کہہ لو، مگر میرے تجربات جاری ہیں۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ تم ان حالات کے عجیب و غریب ہونے پر متعجب ہو۔ تو تمہارا تھوڑا تجسس ختم کر دوں۔‘‘

شاکر کی آنکھیں پھٹی تھیں۔ سوربھ شرمانے آگے کہنا شروع کیا۔

’’اوستھی اپنی بنک میں ایمان داری سے کام کرتے ہوئے میرے کئے گئے غبن کے بارے میں ثبوت تلاش کر رہا تھا۔ اور اس لئے مجھے اسے راستے سے ہٹانے کا پلان بنانا پڑا، مگر اس عمل میں کامیابی تب ملی جب میں غبن میں ناکام ہو کر خود کو گولی مار چکا تھا۔ در اصل اپنی فضول خرچی کی عادت کی وجہ سے بہت مقروض ہو چکا تھا۔ ‘‘

اس نے اپنا بیان جاری رکھا۔

’’پچھلی دو بار بھی میں نے کوشش کی تھی۔ لیکن ہپناٹزم کا اثر صرف اس کی روح پر پڑا، جسے تم نے پچھلی دو بار دیکھا تھا، وہ اس کی روح ہی تھی۔ آج میں کامیاب ہو گیا اور اس کو جسم سمیت یہاں لا سکا۔ اور اسی کامیاب تجربے کی بنا پر تم یہاں نظر آ رہے ہو۔ اب تم جاؤ گے، تو تم کو پتہ چلے گا کہ سارا گھر بند ہے۔ اب جاؤ اور جو چاہے، پولس میں بیان دے دو، چاہے میرے خلاف بیان دو، روح کو سزا تو کوئی کورٹ نہیں دے سکتی۔‘‘

سوربھ شرما نے ایک قہقہہ لگایا۔ اور شاکر کے قدم آپ ہی آپ اٹھ گئے اور وہ کمرے سے باہر نکلنے لگا۔

’’جاتے جاتے ایک چیز اور دیکھتے جاؤ‘‘ سوربھ شرما نے کہا۔ جو اس کے ساتھ باہر پورچ تک آ گیا تھا۔ شاکر نے دیکھا کہ ایک طرف بنے گیریج کا دروازہ کھلا اور اندر ایک سرخ گاڑی کھڑی تھی۔

’’کیا یہی گاڑی تھی جو سڑک پر حادثے کا شکار ہوئی، پھر یہ۔ ۔ ۔ ۔‘‘

’’یہ ٹویوٹا کمپنی کی گاڑی تھی، حادثے کا شکار ہوئی گاڑی میری پرنٹ کی ہوئی تھی۔ اور وہ رموٹ سے چلتی تھی، اس میں کوئی ڈرائیور تھا ہی نہیں جو مقام واردات سے بھاگ جاتا!”

شاکر نے منہ اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک مقفل کوٹھی کے باہر کھڑا تھا اور دوسری طرف گیریج بھی مقفل تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے