پروفیسر طارق چھتاری ایک افسانہ نگار کے ساتھ فکشن کے نقاد بھی ہیں۔ جدید افسانے پر ان کی تنقیدی کافی اہمیت کی حامل ہیں جو جدید فکشن تنقید میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جدید افسانے کی ساخت اور تکنیک کا انھوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا اور نہایت ہی باریک بینی سے اس پر تنقیدی نظر ڈالی۔ ان کی تصنیف جدید افسانہ (اردو۔ہندی) جدید افسانے کی تنقید کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں جدید افسانے پر بڑی گیرائی و گہرائی سے بحث کی گئی۔ گفتگو کے لیے مدلل طریقہ اختیار کیا گیا۔ بات کو سمجھانے کے لیے جہاں ضروری ہو وہاں مثالیں بھی پیش کی گئیں۔
آئیے کتاب کے مشمولات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس سے کتاب کی اہمیت و افادیت کا پتا چل جائے گا۔ پہلا باب: اردو افسانے کا ارتقا، دوسرا باب: ہندی افسانے کا ارتقا، تیسرا باب: جدید افسانے کا فن، چوتھا باب: اردو ہندی افسانے کے مختلف رجحانات (1960 کے بعد)، پانچواں باب: فنی نقطۂ نظر سے اردو ہندی افسانے کا تجزیاتی مطالعہ (1960 کے بعد)، چھٹا باب: اردو افسانے کے موضوعات (1960 کے بعد)، ساتواں باب: ہندی افسانے کے موضوعات (1960 کے بعد)
اس طرح اس کتاب میں 1960 کے بعد اردو۔ہندی افسانے کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا۔ جس میں اردو اور ہندی کہانی میں فنّی اور موضوعاتی سطح پر فرق، یکسانیت اور مختلف رجحانات کو بخوبی بیان کیا گیا۔ 1960 کے بعد اردو اور ہندی کہانی کے ارتقا پر بھرپور روشنی ڈالی گئی۔ اسی کے ساتھ اردو ہندی کے اہم افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا۔
پہلے باب ’اردو افسانے کا ارتقا‘ میں سریندر پرکاش کا افسانے ’رونے کی آواز‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر طارق چھتاری لکھتے ہیں: ’’ان نتائج کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سریندر پرکاش بیشتر افسانوں میں کرداروں کے نیم شعوری اور لاشعوری خیالات کے امتزاج سے معاشرے کی جھلکیاں دکھاتے ہیں اور ان کے افسانے کا مرکزی کردار اکثر دوسرے اشخاص سے خود کو Identify کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس طرح ان کا افسانہ فرد کی محدود ذات سے نکل کر سماج کا افسانہ بن جاتا ہے۔ ’رونے کی آواز‘ میں بھی مرکزی کردار کی شخصیت کے مختلف پہلو دراصل ہمارے سماج کے متعدد کرداروں کی زندگی کو پیش کر رہے ہیں اور اس طرح یہ افسانہ اپنے دور کے مکمل معاشرے کا افسانہ بن گیا ہے۔‘‘
تیسرے باب ’جدید افسانے کا فن‘ میں انھوں نے کہانی پن، کردار، جزئیات، حقیقت نگاری، لاشعوری خیالات، اسلوب اور وجہ کی تلاش کو مفصل طور پر سمجھایا ہے۔ لاشعوری خیالات کے متعلق وہ لکھتے ہیں: ’’خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں: شعوری خیالات اور لاشعوری خیالات۔ شعوری خیالات سے مراد وہ خیالات ہیں جو انسان کے شعور میں ہوتے ہیں اور وہ ان خیالات سے بخوبی واقف ہوتا ہے، نیز وقتاً فوقتاً ان کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ لاشعوری خیالات انسان کے ذہن کے کسی گوشے میں چھے وہ خیالات ہیں جن کا اس کو واضح علم نہیں ہوتا۔ ذہن کی کسی گہرائی میں ان کو محسوس تو کرتا ہے لیکن انہیں الفاظ کے پیرائے میں ڈھالنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ اگر کوئی افسانہ نگار اپنی تخلیق کے ذریعے قاری کے لاشعوری خیالات کو اس کے ذہن کی گہرائی سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ تخلیق اس قاری کی پسندیدہ تخلیق بن جاتی ہے۔‘‘
یہاں پروفیسر طارق چھتاری نے منو بھنڈاری کی کہانی ’تیسرا آدمی‘ سے ایک اقتباس پیش کیا ہے جو لاشعوری خیالات کی تصدیق کی بہترین مثال ہے۔
فکشن تنقید کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی ہر سطر قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ فکشن اور خاص کر افسانے کے کئی مسائل کا حل اس کتاب میں بیان ہوا ہے۔ براؤن پبلی کیشنز نئی دہلی کے ڈائریکٹر سجّاد اختر کتاب کے فلیپ پر فرماتے ہیں: ’’طارق چھتاری کی یہ کتاب نہ صرف اردو ہندی کہانی کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اس تاریخ کے اہم موڑ کے طور پر تخلیق ہوئے افسانوں کے بامعنی تجزیوں کے ذریعے اس کے ارتقا کی واضح نشاندہی بھی کرتی ہے۔ اردو ہندی افسانے کا ارتقا، جدید افسانے کا فن، اردو ہندی افسانے کے عہد بہ عہد مختلف رجحانات، فنی تجزیے اور موضوعات کو محیط یہ کتاب فکشن مطالعات میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں مصنف کی سنجیدگی ہر سطر میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کی اشاعت نو کو ممکن بنایا گیا ہے تاکہ فکشن کے قارئین کے مسائل حل کیے جاسکیں۔‘‘
مختلف قسم کے مضامین پڑھتے وقت میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ مضمون نگار اپنے موضوع سے بھٹک جاتا ہے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے اصل موضوع تشنہ ہی رہ جاتا ہے، لیکن پروفیسر طارق چھتاری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے اصل موضوع کے متعلق ہی بات کرتے ہیں۔ وہ بڑے منصوبہ بند طریقے سے اپنے موضوع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں اور ایک کے بعد ایک پہلوؤں کو روشن کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی زبان نہایت ہی صاف ستھری ہے۔ ہر ایک جملہ بالکل واضح ہے، جس میں ’مبہم‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔ بالکل آئینے کی طرح صاف و شفاف تحریر جس کا ہر لفظ اپنی جگہ درست اور مکمل کہ اب اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ نہیں لے سکتا۔
کتاب کا انتساب علی گڑھ شہر کے نام کیا گیا ہے۔ سنہ 2015 میں منظرِ عام پر آئی یہ کتاب 300 صفحات پر مشتمل ہے جسے براؤن پبلی کیشنز نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ کاغذ، طباعت، جلد بندی اور سرورق سب کچھ عمدہ ہیں۔
٭٭٭
تحقیق کیلئے ایک موضوع سلیکٹ کرنا ہے سمجھ نہیں آرہا کونسا موضوع سلیکٹ کرلوں ۔پلیز ایسا کوئی موضوع بتا دیجئے جس پر آج تک۔ تحقیق کسی نے نا کیا ہو ۔