تصویرِ تختِ سلیمانی ۔۔۔ غضنفر

 

معمر شخص جس کا چہرہ، سر کے بال، جسم کی جلد، بھنویں، لباس سبھی سفید تھے اور جس کی آنکھیں رات ڈھلے تک بھی بند نہیں ہوتی تھیں اور صبح وقت سے پہلے کھل جاتی تھیں، کی نظریں حسبِ معمول تصویر تختِ سلیمانی پر مرکوز تھیں۔

وہ تصویر سامنے کی دیوار پر عین دروازے کے اوپر آویزاں تھی۔ اس تصویر میں ایک سفید ریش بزرگ ہیرے اور موتیوں سے جڑا تاج پہنے ایک مزین تخت پر جلوہ افروز تھے۔

تخت کے پائے سفید پوش جنات اپنے شانوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ بزرگ کے سر پر پرندوں کا ایک غول اپنے اجلے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھا۔ تخت کے آگے پیچھے چرند اور درند کھڑے تھے۔

اس کمرے میں ایک تصویر اور بھی تھی۔ وہ تخت والی تصویر کی عین سیدھ میں مخالف سمت کی دیوار پرٹنگی تھی، اس تصویر میں ایک کبوتر اپنے پورے پورے پر کھولے نیلگوں فضا میں بلندی کی جانب پرواز بھر رہا تھا۔

معمر شخص کی پلنگ ایسی جگہ بچھائی گئی تھی جس کے سرہانے سے صرف دروازے کے اوپر والی تصویر ہی دکھائی دیتی تھی، کبوتر والی تصویر دیکھنے کے لیے اسے اپنی گردن ٹیڑھی کرنی پڑتی تھی۔ مگر باہر سے آنے والوں کی نظریں زیادہ تر کبوتر کی تصویر پر ہی پڑا کرتی تھیں اور نظر پڑتے ہی ذہن میں کوئی نہ کوئی بات ضرور ابھرتی تھی جو کبوتر کی کسی خصوصیت یا اس سے جڑی کسی کہانی کے متعلق ہوتی تھی۔

پلنگ کی چادر، کمرے کے فرش، چھت، درودیوار اور دیواروں پر آویزاں پوٹریٹ کے رنگ بھی اس معمر شخص کے سراپے سے ہم آہنگ تھے۔

اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور معمر شخص کی نظریں تخت سے اتر کر پٹوں کی جانب مبذول ہو گئیں۔ بے وقت کی دستک سے اس کی پیشانی پر ویسی ہی سلوٹیں ابھر آئیں جیسی اس کے بستر کی سفید چادر پر ابھری پڑی تھیں۔

’’آ جاؤ!‘‘ آواز کے ابھرتے ہی دروازے کے پٹ کھل گئے۔

ایک مخصوص قسم کے لباس میں ایک چاق و چوبند آدمی آہستہ روی سے اندر داخل ہوا۔ آگے بڑھ کر معمر شخص کے سامنے کمان کی طرح جھکا اور پھر تیر کی مانند تن گیا۔

’’بولو‘‘۔

’’کچھ لوگ ملنا چاہتے ہیں حضور‘‘

’’اس وقت؟‘‘

’’کہتے ہیں کوئی اہم خبر ہے‘‘

’’کون لوگ ہیں؟‘‘

’’اپنے ہی لوگ لگتے ہیں‘‘

’’حلیہ کیسا ہے؟‘‘

’’بال لمبے ہیں، پیشانی پر لکیریں ابھری ہوئی ہیں، آنکھوں پر چشمے چڑھے ہوئے ہیں۔ دیکھنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ ان کا لب و لہجہ‘‘۔ ۔‘‘

’’انھیں بٹھاؤ اور کہو کہ میرا انتظار کریں‘‘۔

’’بہتر حضور!‘‘

معمر شخص کمرے سے ملحقہ ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوا اور تھوڑی دیر بعد لباس تبدیل کر کے واپس آ گیا۔ میز کے اوپر سے ایک خوبصورت سا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل کر مہمان خانے میں پہنچ گیا۔

اسے دیکھتے ہی وہاں موجود لمبے بالوں اور موٹی موٹی عینکوں والے لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کے لب کھلنے کے لیے بے تاب تھے مگر انھیں معمر شخص کے ہونٹوں کی جنبش کا انتظار تھا۔

’’بتائیے کیا بات ہے؟‘‘ معمر شخص نے ان سے تحکمانہ انداز میں پوچھا ’’سر! پہلے تو ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کو بے وقت زحمت دی اور آپ کے آرام میں خلل پہنچایا۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا بولنا شروع کیا۔ قدرے توقف کے بعد وہ پھر بولا مگر سر! ہم بھی مجبور تھے۔ خبر ہی ایسی ہے کہ آپ کو سنانا ضروری تھا۔‘‘

معمر شخص کے چہرے کا اضطراب اور بڑھ گیا۔

’’لیکن ہمیں یقین ہے سر کہ آپ خبر سننے کے بعد ہمیں ضرور معاف کر دیں گے‘‘۔

’’آپ بتائیں گے بھی یا —‘‘ معمر شخص کا اضطراب بے قابو ہونے لگا۔

’’سوری سر! خبر یہ ہے کہ ہم نے ققنس بنا لیا ہے‘‘—

’’کیا‘‘ معمر شخص کا مضطرب چہرہ اطمینان آمیز استعجاب سے بھر گیا۔

’’جی سر! بالکل ویسا ہی بنا ہے جیسا کہ آپ نے خواب میں دیکھا تھا۔

’’اچھا!‘‘ استعجاب میں انبساط کی لے شامل ہو گئی۔

’’جی ہاں سر‘‘

’’کیا اس کی منقار میں ۳۶۰ سوراخ بن گئے؟‘‘

’’جی بن گئے۔ بلکہ پانچ زیادہ بن گئے ہیں‘‘۔

’’سُر بھی سارے بھر گئے ہیں؟‘‘

’’جی‘‘

’’کوئی سُر چھوٹا تو نہیں؟‘‘

’’جی نہیں، کوئی بھی نہیں چھوٹا۔ بلکہ کچھ ایسے نئے سُر بھی ہم نے بھر دیے ہیں جنھیں کرۂ ارض پر ابھی تک سنا نہیں گیا‘‘۔

’’گُڈ۔ کیا وہ دیپک راگ بھی نکال سکتا ہے؟‘‘

’’جی ہاں، دیپک راگ بھی نکال سکتا ہے‘‘

’’شعلے بھی نکلیں گے نا؟‘‘

’’جی شعلے بھی نکلیں گے‘‘

’’اور جنون؟‘‘

’’جنون بھی‘‘

’’جنون بھی!‘‘

’’جنون تو ایسا نکلے گا سر! کہ مجنوں بھی اس کے آگے مات کھا جائے۔ اسے دیکھ کر فرہاد کا تیشہ بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے‘‘۔

’’خوب! بہت خوب!‘‘ معمر شخص کسی تصور میں کھو گیا۔

’’اس کی کچھ اور خوبیاں بھی ہیں سر‘‘

’’کیا کہا؟‘‘ تصور سے باہر نکلتے ہوئے معمر شخص نے پوچھا۔

’’سر یہی کہ اس میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں‘‘

’’مثلاً؟‘‘

’’مثلاً یہ کہ ہمارا ققنس اپنے سوراخوں سے محض سُر ہی نہیں نکالے گا، بلکہ وقت پڑنے پر ہمزاد بھی پیدا کر لے گا‘‘۔

’’تو کیا اسے اپنے اردگرد لکڑیاں جمع کرنے اور ان میں پھونک مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی؟‘‘

’’نہیں سر! ہمارا ققنس اپنے کو خاکستر کیے بغیر بھی اپنے اندر سے اپنے ہمزاد، وہ بھی ایک نہیں، بے شمار پیدا کر سکتا ہے‘‘

’’واقعی آپ لوگوں نے کمال کر دیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں، مانگیے جو انعام مانگنا ہے‘‘۔

’’وقت آنے پر مانگ لیں گے سر! فی الحال ہمیں یہ حکم دیا جائے کہ ہمیں آگے کیا کرنا ہے؟‘‘

’’آپ اسے کسی سر سبز خطے میں اتار دیجیے‘‘

’’سر سبز خطے میں؟‘‘

’’آپ سے جتنا کہا جائے اتنا ہی کیجیے‘‘ معمر شخص کی بھنویں تن گئیں۔

’’سوری سر!‘‘ خوشی سے انگارہ بنا چہرہ یکا یک راکھ ہو گیا۔

’’کوئی بات نہیں، آئندہ احتیاط ضروری ہے‘‘۔

’’جی سر! سر اب اجازت؟‘‘

’’جائیے اور جو کہا گیا ہے اس کی تعمیل کیجیے‘‘۔

’’جی سر!‘‘

حکم کی تعمیل میں ققنس کو ایک سر سبز و شاداب خطے میں اتار دیا گیا۔ زمین پر پاؤں رکھتے ہی اس کی منقار کھل گئی۔ منقار کے کچھ سوراخوں سے سُر نکلنے لگے۔

سُر سن کر اس خطے کے پرندے شاخوں اور آشیانوں کو چھوڑ کر اس کی جانب اڑان بھرنے لگے۔

پرندوں کے غول کے غول اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر ققنس فرطِ مسرت سے مست ہونے لگا۔ اس کی چونچ کے کچھ اور سوراخ بھی بولنے لگے۔

آہستہ آہستہ پرندوں کے آنے کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ اپنے ارد گرد خوش رنگ پرندوں کو دیکھ کر ققنس کا جنون بھی انگڑائی لینے لگا۔ دیپک راگ بھی شروع ہو گیا۔

سوراخوں سے شعلے نکلنے لگے۔ آگ کی لپٹیں پیڑ پودوں، شاخوں، پتوں، پھولوں اور پرندوں تک پہنچنے لگیں۔

رنگ اڑنے لگا۔ خوشبو بکھرنے لگی۔ زمزمے رکنے لگے۔ سناٹا طاری ہونے لگا۔ ویرانی چھانے لگی۔

فضا میں ہلچل مچ گئی۔ باغبان پریشان ہو اٹھے۔ باغ کی حفاظت کی فکر ہوئی۔

خطے کے شکاریوں کو جمع کیا گیا۔ شکاریوں نے اس نئے ققنس کے شکار کی تدبیر شروع کر دیں۔ ایک سے ایک ترکیب عمل میں لائی گئی، مگر ساری ترکیبیں بے سود ثابت ہوئیں۔ کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہو سکی۔ کسی بھی طرح ققنس کے سُر نہیں رُکے۔

کسی سن رسیدہ اور جہاں دیدہ شخص نے بتایا کہ اس کائنات میں صرف ایک شکاری ایسا ہے جو اس ققنس کو قابو میں کر سکتا ہے۔ اس شکاری کا اتا پتا معلوم کرنے پر اس جہاں دیدہ آدمی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے ہاؤ بھاؤ، رکھ رکھاؤ اور حلیے سے شکاری نہیں لگتا۔ اس لیے کہ وہ تمام شکاریوں سے مختلف ہے۔ وہ ایک خوبصورت ترین اور پر فضا علاقے میں شاندار طریقے سے رہتا ہے۔ اس تک رسائی آسان نہیں ہے مگر نا ممکن بھی نہیں ہے۔

اس شخص کے بتائے گئے پتے پر پہنچ کر اس منفرد قسم کے شکاری تک رسائی حاصل کی گئی۔ اس کے آگے گڑگڑا کر دُکھڑا بیان کیا گیا اور اس بلائے ناگہانی سے نجات دلانے کی درخواست کی گئی۔

اس منفرد شکاری نے رحم دل حاکم کی طرح پوری روداد سنی اور فلسفیوں کی مانند کافی دیر تک اس پر غور و خوض کیا اور پھر اپنی کچھ شرطوں پر درخواست قبول کر لی۔

شرطیں پوری ہو جانے پر وہ اپنے بہت ہی ہشیار، یکتائے روزگار، اپنے فن میں مشاق اور جاں باز معاون شکاریوں کے ہمراہ اس خطے میں پہنچ گیا۔

حکمتِ عملی تیار ہوئی۔ گھیرا بندی کی گئی۔ چاروں طرف سے نشانے سادھے گئے۔ جگہ جگہ مضبوط جال بچھائے گئے۔ طرح طرح کے دانے پھینکے گئے۔ اِدھر اُدھر سے بندوقیں تانی گئیں۔ ان سب کے باوجود وہ ققنس قبضے میں نہ آ سکا۔

جب شکار کسی بھی طرح گرفتار نہ ہو سکا تو اس پر ہلا بول دیا گیا۔

تلملا کر اس نے بھی اپنی پھونکیں تیز کر دیں۔ اس کا سینہ پھول کر دھونکنی ہو گیا۔ سوراخوں سے طرح طرح کے سُر نکلنے لگے۔

زیادہ ضرب پڑنے پر اس کا جنون بھی جوش میں آ گیا۔ سوراخوں سے دھڑ ادھڑ اس کے ہمزاد نکلنے لگے۔ ان کی منقاریں بھی کھل گئیں۔

سُروں کے ساتھ دیپک راگ بھی گونجنے لگا۔ شعلے لپکنے لگے۔ شعلے شکاریوں کے بارودی گولوں سے ٹکرانے لگے۔ فضا میں چنگاریاں اڑنے لگیں۔ آگ کی لپٹیں پانیوں تک پہنچنے لگیں۔ جھیلیں اور ندیاں بھی جلنے لگیں۔ پانی بھاپ اور دھوئیں میں تبدیل ہونے لگا۔ ماحول میں دھند بھرنے لگی۔

دیر تک آگ کا کھیل چلتا رہا۔ سر سبز خطہ شعلوں میں جھلستا رہا۔

پھر اچانک سُر بند ہو گئے۔ دیپک راگ خاموش ہو گیا۔ شعلے بیٹھ گئے۔

چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ ققنس مارا گیا۔ اس کے پر جھلس گئے۔ گوشت جل گیا، ہڈیاں راکھ ہو گئیں۔

ققنس کی موت کا پتہ چلتے ہی لبوں پر زمزمے سج گئے۔ فضائیں نقاروں کی آواز سے گونج اٹھیں۔ آسمان پر کبوتر اڑنے لگے۔

مگر زمین پر نظر گئی تو آنکھیں حیران ہو اٹھیں۔ باغ پوری طرح اجڑ چکا تھا۔ سبزہ زار سیاہ پڑ گئے تھے۔ جھیلوں، نہروں، ندیوں اور تالاب سے شعلے نکل رہے تھے۔

خطے کی آبادکاری کی فکر لاحق ہوئی۔ بے بس اور ویران آنکھیں دوسرے خطوں کی طرف حسرت اور رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگیں۔

دوسرے خطوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ دل درد سے تڑپ اٹھا۔ ان خطوں نے اپنے در کھول دیے۔

ان کے باغوں سے پیڑ پودے اکھاڑ کر اس ویران خطے میں پہنچائے جانے لگے۔ ان کے تالابوں، جھیلوں، ندیوں اور نہروں سے نکل کر پانی کا ایک حصہ اس خطہ میں جانے لگا۔ زمینیں سینچی جانے لگیں اور پودوں کے پنپنے، باغ کے ہرا بھرا ہونے اور پرندوں کے چہچہانے کا بے صبری سے انتظار کیا جانے لگا۔

اجڑا ہوا وہ خطہ ابھی پوری طرح آباد بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ایک اور خطے میں ققنس کا سُر گونج اٹھا۔

عقل حیرت میں پڑ گئی کہ ققنس تو اپنے تمام ہمزادوں کے ہمراہ جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ اب پھر سے وہ کیسے اور کس طرح پیدا ہو گیا؟

اس خطے میں بھی کھلبلی مچ گئی۔ وہاں بھی وہی سب کچھ ہوا جو پہلے خطے میں ہوا تھا۔ وہاں بھی اس منفرد شکاری سے رجوع کیا گیا۔ اس بار وہ پہلے سے زیادہ تام جھام اور تیاری کے ساتھ پہنچا۔

ققنس پر پہلے سے زیادہ شدید حملہ ہوا۔ اس حملے میں پہاڑ سرمہ بن گئے۔ زمین راکھ ہو گئی۔ ققنس کی راکھ تک نہیں بچی۔

ہر طرح سے اطمینان کر لینے اور مکمل یقین ہو جانے کے بعد وہاں بھی شادیانے بجے۔ آسمان پر کبوتر چھوڑے گئے۔

جلد ہی آبادکاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ کام ابھی چل ہی رہا تھا کہ ققنس کے سُر ایک اور خطہ سے جاگ اٹھے۔

عقل ایک بار پھر حیران ہو اٹھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے سر اٹھانے لگے۔ دور دور تک سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ تمام دنیا خوف و دہشت سے لرزنے لگی۔

ققنس کے جینے مرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ خطے اجڑتے گئے۔ کچھ خطے ان تاراج خطوں کو آباد کرنے میں اجڑنے لگے۔

مگر معمر شخص کے بستر کی سلوٹیں دور نہیں ہوئیں۔ اس کی نظریں تختِ سلیمانی سے نیچے نہیں اتریں۔

دروازے پر ایک دن پھر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا، مخصوص لباس والا آدمی اندر داخل ہوا۔ آگے بڑھ کر جھکا اور جھک کر پھر کھڑا ہو گیا۔

’’بولو‘‘۔

’’وہ لوگ آ گئے ہیں حضور جنھیں آپ نے طلب کیا تھا‘‘۔

’’انھیں بٹھاؤ میں ابھی آتا ہوں‘‘

’’بہتر حضور!‘‘

معمر شخص مہمان خانے میں پہنچا تو اسے دیکھتے ہی لوگ اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

’’کیا حکم ہے سر؟‘‘ ان میں سے ایک نے مؤدبانہ سوال کیا۔

’’آپ لوگ اپنی تخلیق کے کارنامے تو دیکھ رہے ہوں گے؟‘‘

’’جی سر! دیکھ رہے ہیں اور آپ سر؟‘‘ اس کے چہرے پر چمک اور لہجے میں کھنک تھی۔

’’ہم بھی دیکھ رہے ہیں‘‘۔

’’کیسا لگ رہا ہے سر؟‘‘

’’اچھا لگ رہا ہے پر‘‘

’’پر کیا سر؟‘‘

’’یہی کہ سفر طویل ہے اور رفتار سست‘‘

’’جی سر! یہ تو ہے‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر کے متعلق تو آپ ہی کو فرمانا ہے سر‘‘۔

’’کوئی ایسی تخلیق پیش کیجیے جس میں کن فیکون کی سی تاثیر ہو‘‘

’’مگر یہ تاثیر تو ….‘‘

’’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جتنا کہا جائے ….‘‘

’’سوری سر‘‘ وہاں کھڑے تمام لوگوں کے چہروں پر دہشت طاری ہو گئی۔

’’آپ لوگ جا سکتے ہیں‘‘۔ معمر شخص کے اضطراب کا پارہ کافی اوپر چڑھ گیا۔ اس کے چہرے کی سفید رنگت سرخ ہو گئی، جیسے برف کے تودے میں چنگاریاں بھر دی گئی ہوں۔

معمر شخص اپنے خواب گاہ میں آ کر بستر پر دراز ہو گیا۔ سفید چادر اور سکڑ گئی۔ آنکھیں تخت سلیمانی کی جانب مرکوز ہو گئیں۔

تخت کے پایوں کو پکڑے ہوئے جن، تخت پر سوار نورانی چہرے والا تاج دار۔ تاج میں دمکتے ہوئے ہیرے موتی تاجدار کے سر پر پروں کو پھیلائے ہوئے پرند، تخت کے آگے پیچھے کھڑے چرند اور پرند پتلیوں میں سمانے لگے۔

وہ جب بھی اس کمرے میں آتا اور بستر پر دراز ہوتا تو اس پورٹریٹ کی ایک ایک تصویر اس کے دیدوں میں اترنے لگتی۔ اسے ماضی اور مستقبل میں دوڑانے لگتی۔ اسے بے چین کرنے لگتی۔ اس کے بستر پر سلوٹیں اور پیشانی پر لکیریں ابھارنے لگتی، مگر وہ تصویر اسے کبھی بھی دکھائی نہ دے سکی جو تخت سے باہر نکلے ہاتھ کی ہتھیلی کی چھاؤں کے نیچے جھلملا رہی تھی اور جہاں بے شمار بے زبان مخلوقات نقطوں اور چھوٹے چھوٹے دائروں کی شکل میں سکون پانے کے لیے سمٹ آئی تھیں اور جو شاید اسے بھی اضطراب کی حدت سے نجات دلا سکتی تھیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے