غزل بیادِٕ علی یاسر ۔۔۔ جلیل عالیؔ

کس رات کوئی ہجر بِتایا نہیں اُس نے

کس روز نیا شعر سنایا نہیں اس نے

 

احباب کو دو روز نہ دی زحمتِ پُرسش

احسان کسی کا بھی اٹھایا نہیں اُس نے

 

طے جادۂ فن کرتا رہا اپنی ہی دھُن میں

پیچھے کسی ہم رَو کو ہٹایا نہیں اس نے

 

ہر دوست کی توقیر بڑھائی دل و جاں سے

دشمن کو بھی نظروں سے گرایا نہیں اس نے

 

جتنی بھی ملی عمر سلیقے سے بسر کی

پاؤں حدِ چادر سے بڑھایا نہیں اس نے

 

جو کام کیا روح کی لَو اُس میں سمو دی

سو نام بھی ایسے تو کمایا نہیں اس نے

 

کس کرب سے قرطاس و قلم پوچھ رہے ہیں

کیوں آج ہمیں ہاتھ لگایا نہیں اس نے

 

جانا تھا اُسے بھی مگر اِس رنج کا کیا ہو

کس بات کی جلدی تھی بتایا نہیں اُس نے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے