میں ہوں پردیس میں
اور مجھ کو خبر بھی نہ ہوئی
علی یاسر تھا، کوئی شخص
وطن میں میرے
پھول صد رنگ
جو لفظوں کے کھلا دیتا تھا
جو تھا لبریز تمنا سے
محبت سے بھرا
وہی، لوگوں کو جو
گرویدہ بنا لیتا تھا
لوگ جتلاتے ہیں سب
اس سے تعلق اپنا
میں لکھوں بھی علی یاسر
تو بھلا کیا لکھوں
نہ کوئی ربط ، نہ رشتہ
نہ تعلق کوئی
نہ کبھی بات ہی کی
ناں کوئی تصویر کھنچی ۔ ۔ ۔
اپنی باری پہ سبھی کو ہے چلے جانا ، مگر
اس جوانی میں بھلا ایسے کوئی جاتا ہے؟
اے جواں مرگ قلم کار، یہ عجلت کیسی؟
تُو بتا اے مرے فنکار، یہ عجلت کیسی؟
دھوم کیا کیا نہ مچا کر۔ ہوئے رخصت ایسے
جیسے خوشبو سے بھرا، نرم ہوا کا جھونکا
ایسی فرقت، ایسی رخصت پہ
میں کیا پیش کروں؟
چند اشکوں کے سوا، چند دعاؤں کے سوا
تُو جسے پیارا ہوا ہے ، وہی ربِ دو جہاں
اپنی رحمت کی گھٹا ، تجھ پہ برابر رکھے
تجھ پہ ہو سایہ فگن اُس کا کرم
علی یاسر، وہ تری قبر منور رکھے
٭٭٭