فضا میں فیض (کہانی) ۔۔۔ پریم بھاردواج

(پریم بھاردواج کا ۹ مارچ کو برین ہیمریج کے باعث انتقال ہوا۔ وہ کہانی کار، شاعر اور ہندی کے ادبی رسالے ’پاکھی‘ کے مدیر تھے۔ ان کی یاد میں پیش ہیں ان کی یہ کہانی اور دو غزلیں)

آپ میں سے کسی نے سنی ہے پچھتر سال کے بوڑھے اور تیس سال کی جوان لڑکی کی کہانی۔ نہیں نا! تو سنیے .. عرض ہے ۔۔۔ کہانی سنانے سے پہلے یہ صاف کر دینا ضروری ہے کہ یہ ایک نہیں، دو ایسے لوگوں کا قصہ ہے جو آپس میں کبھی نہیں ملے ۔۔۔ دو عاشقانہ جوڑا ۔۔۔ دو زندگیاں ۔۔۔ دو پیڑھیاں ۔۔۔ دو سوچ ۔۔۔ ان کا اپنا رنج غم ۔۔۔ ایک ہی وقت میں دو زمانوں کا انداز محبت ۔۔۔ ریل کی دو پٹریاں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں ۔۔۔ انہیں جوڑتی ہیں ان پر سے گزر نے والی ریل گاڑیاں ۔۔۔ آپ اسے وقت بھی مان سکتے ہیں ۔۔۔ ہر بار ٹرین کے گزرنے پر پٹریاں تھرتھراتی ہیں ۔۔۔ کچھ دیر کے لیے دباؤ ۔۔۔ تناؤ ۔۔۔ ٹک ٹک دھڑ دھڑ ۔۔۔ پیچھے چھٹتے سمے کی ندی ۔۔۔ حقیقت کے جنگل ۔۔۔ جذباتیت کے سوکھتے پوکھر نالے ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور یادوں کے چھوٹے بڑے پل ۔۔۔

تاریخی شہر کا ایک پرانا محلہ۔ محلے کی وہ تنگ اور بدبو دار گلی ۔۔۔ بند گلی کا آخری مکان ۔۔۔ میرے دائیں بازو والے اس مخدوش، کبھی بھی گر سکنے والے مکان میں اکیلے رہتا ہے وہ بوڑھا۔

ستر پچہتر سال کی عمر۔ نہ وہ مسلمان ہے، نہ مارکس وادی، نہ کوئی بابا ۔۔۔ مگر لمبی داڑھی نہ جانے کیا سوچ کر رکھتا ہے۔ اس لمبی داڑھی کی وجہ شاید اس کا آلکس رہا ہو گا۔ وہ آلسی بہت ہے۔ شاید اسی کو دیکھ کر ‘سلو نیس’ ناول لکھا گیا ہو گا۔

مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے آلسی پن کو طرح طرح کی دلیلوں سے ضروری اور مفید ثابت کرتا ہے۔ وہ اپنے آلسی کو پونجی واد کا مخالف بھی ثانت کرتا ہے۔

اس کی تین دلچسپییاں ہیں زیادہ پڑھنا، ریڈیو سننا اور تیسری کے بارے میں اس نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ عجیب شخص ہے۔ مشغلے تین گناتا ہے، بتاتا دو ہے۔ کچھ لوگ اسے خبطی اور سنکی بھی کہتے ہیں جس کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ ہمیشہ اپنی ہی دھن میں رہتا ہے۔

ایک نوکر ہے جو اس آسیب زدہ جیسے مکان میں بوڑھے کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ کھانا بنانے سے لے کر اس کے لیے بینک سے پیسہ لانے کا کام اسی کے ذمے ہے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ اس ککی شادی بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ گونے کی شبھ تاریخ پنڈت جی نے نکالی تھی کہ بیچ میں ہی بیوی چل بسی۔ اس نے اپنی پتنی کو پہلی بار چتا پر لیٹے ہی دیکھا، اسے آگ دیتے وقت۔ وہ بے حد سندر تھی۔ کاش! وہ اوروں کی طرح گونے سے پہلے ہی اس سے مل پاتا ۔۔۔ جی بھر کر دیکھ پاتا۔ وہ بہت دیر تک ہاتھ میں آگ لیے مردہ پتنی کو دیکھتا رہا۔ کسی نے ٹوکا تو وہ آگ دینے کے لیے آگے بڑھا۔ پتنی کی چتا کو آگ دیتے ہوئے ہی اس نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ وہ زندگی میں دوسری شادی نہیں کرے گا، چاہے اکیلا پن کتنا ہی کانٹے دار کیوں نہ ثابت ہو؟ کنبے اور رشتے دار کے نام پر اس کے یہاں کسی کو بھی آتے جاتے کسی نے نہیں دیکھا۔ ایک ریڈیو ہے جو اکثر بجتا رہتا ہے۔ یہ ریڈیو ہی اس کے اکیلے پن کا ساتھی ہے۔ ریڈیو ہی اس کا خاندان، پیار اور سماج ہے۔ اس کے بغیر وہ زندگی کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ وہ صوبائی  پبلک رلیشنز کے شعبۂ رقص کا ڈائریکٹر تھا وہ۔ کتھک ناز کے ساتھ ساتھ ڈھولک بجانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ کبھی کبھی کوئی شاگرد اس سے ملنے آ جاتا۔ بطور خاص گرو پورنما کے موقع پر۔ اس دن اس کے یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔

کمرے میں ایک تصویر ٹنگی ہے جو اس کے جوانی کے دنوں کی ہے۔ وہ نو عمر ہے، گلے میں لٹکا ڈھولک ہے۔ ساتھی کلاکار بھی ساتھ کھڑے ہیں۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو بھی کھڑے ہیں، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے۔ تب وہ آج کی طرح بوڑھا نہیں تھا۔ پر کشش شخصیت تھی اس کا۔ 1960 کی کھنچی تصویر ہے یہ۔ ڈھولک نہرو نے تحغفے میں دیا تھا خوش ہو کر۔ وہ ڈھولک آج بھی بڑے احترام کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود ہے۔ جب کبھی وہ بہت اداس یا خوش ہو جاتا ہے تو وہ اسے گھٹنوں سے دبا کر بجانے لگتا ہے۔ تب صبح کے چار بج رہے ہوں یا رات کے دو، اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محلے کے لوگ اس کی خوشی اور اداسی میں فرق نہیں کر پاتے ہیں۔ وہ اداس ہونے پر گمبھیر رہتا ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن جب وہ اندر سے بہت خوش ہوا کرتا ہے تب بھی وہ  گمبھیر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اسلئے صعف وہی جان پاتا ہے کہ وہ کب خوش ہے اور کب اداس۔ شاید دلیپ کمار کی دیکھی ٹریجک فلموں کا گہرا اثر ہے اس پر۔

اس کے گھر آنے والوں میں ایک چاندی سے بالوں والی پتلی لمبی سی عورت ہے۔ اس بوڑھی عورت کے چہرے پر غضب کا نور ہے۔ وہ کب آتی ہے، اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔ لیکن دو موقعوں پر وہ ضرور یہاں دیکھی جاتی ہے۔ ایک تو تب جب یہ بوڑھا بیمار پڑ جاتا ہے، دوسرے 15 ستمبر کو۔ بوڑھے کا جنم دن۔ اس دن نوکر گھر پر نہیں رہتا۔ بوڑھا بوڑھی کہیں گھومنے نہیں جاتے۔ ساتھ ساتھ کھانا بناتے ہیں، کھاتے ہیں۔ کیک کاٹتے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ بوڑھا طبلے پر تھاپ دیتا ہے اور بوڑھی ناچتی ہے۔ کتھک ناچ۔ جنم دن کا جشن صرف وو دو لوگ ہی مناتے ہیں۔ ٹھیک نو بجے وہ عورت اپنے گھر لوٹ جاتی ہے۔ پچھلے چالیس سالوں سے کسی نے اس بوڑھی عورت کو بوڑھے کے گھر رات کو رکتے نہیں دیکھا، چالیس سال پہلے دونوں ادھیڑ مگر خوبصورت تھے۔

سچ مچ ہی چالیس سال پہلے وہ بیحد خوبصورت تھی۔ بوڑھے کے شعبے میں ہی رقاص تھی۔ اس کی ایک کلاکار ساتھی– پہلے اس نے بوڑھے کو گرو مانا ۔۔۔ لیکن گرو چیلے کا یہ رشتہ بہت جلد دوسرے رشتہ میں بدل گیا ۔۔۔ دونوں میں سے کسی نے ایک دوسرے کو آئی لو یو نہیں بولا ۔۔۔ کوئی خط نہیں لکھا ۔۔۔ چاند تارے توڑ لانے کے وعدے نہیں کئے — ایک نہر تھی جو ایک دل میں دوسرے دل تک بہنے لگی ۔۔۔ بہتی رہی ۔۔۔ وہ جنوبی ہندوستان کی تھی جس کے پتا پٹنہ میں بس گئے تھے ۔۔۔ ایک بار اس نے شادی کی بات اپنی ماں سے کی تو انہوں نے کہا ‘اگر تم سچ مچ ہی اس سے پیار کرتی ہو ۔۔۔ اور چاہتی ہو کہ یہ پیار بنا رہے تو اس سے کبھی شادی مت کرنا ۔۔۔ یہ میں اپنے تجربے سے کہہ رہی ہوں جب پریمی پتی بن جاتا ہے تو پیار بھی اپنی شکل بدل لیتا ہے، وہ کچھ اور بن جاتا ہے ۔۔۔ پریم نہیں ۔۔۔۔‘ ماں نے اس سے شادی نہیں کرنے کے لیے کہا، اس نے کسی سے بھی شادی کرنے کی  خواہش ہی ختم کر دی۔ بوڑھے نے بھی کبھی اس سے نہیں کہا ’تم سب کو چھوڑ کر میرے پاس چلی آؤ ۔۔۔۔‘ دونوں ایک دوسرے کا درد سمجھتے تھے۔ گھاؤ سہلاتے تھے۔ زبان کہیں نہیں تھی ۔۔۔ الفاظ بت شکل تھے، صرف جذبات ۔۔۔ جذبات ہی۔

بائیں طرف نیا مکان بنا ہے، پرانے مکان کو توڑ کر۔ مکان مالک نے اسے فلیٹ نما بنایا ہے، جدید سہولتوں سے آراستہ۔ اس کی پہلی منزل پر ایک لڑکی رہتی ہے۔ دبلی پتلی۔ لمبی۔ چھریری۔ اس کے ٹھیک بغل والے فلیٹ میں ایک لڑکا بھی رہتا ہے۔ دونوں ایک ہی کال سینٹر میں کام کرتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے وہ سمے کی سیماؤں سے پرے کی چیز ہیں۔ ان کے نہ سونے کا وقت ہے، نہ جاگنے کا۔ نہ گھر سے دفتر جانے اور نہ گھر لوٹنے کا۔ ان کی طرزِ زندگی  کسی ٹائم ٹیبل پر مبنی نہیں ہے۔

پڑوس کے لڑکے سے اس کی دوستی ہوئی۔ وہ فرینڈ بنا۔ پھر بوائے فرینڈ۔ معاملہ اور آگے بڑھا اور دونوں رلیشن شپ میں ایک ساتھ رہنے لگے۔ بنا شادی کے میاں بیوی کی طرح۔ زندگی کے ساتھ جنجال سے دور۔ کتنے پاس، کتنے دور۔ دونوں نے ایک فلیٹ خالی کر دیا۔ وے اب ایک ہی فلیٹ میں ساتھ رہنے لگے۔ ایک فلیٹ کا کرایہ بچایا۔ انہیں سکھ چاہیئے تھا، اولاد نہیں۔ شادی کا تام جھام بھی نہیں۔ وہ سوالوں، سرحدوں میں گھرنا اور بندھنا نہیں چاہتے تھے۔ اسلئے ساتھ ساتھ تھے۔

لڑکی کی تین دلچسپیاں بڑی ہی جھنگالالا ہیں۔ ایک ہے موبائل سے نئے گانے سننا۔ فیس بک پر راتوں کو چیٹنگ کرنا اور مال میں تفریح کرنا۔ اسی دوران کسی مرغے (لڑکے) کو پٹا کر مہنگے ریسٹورینٹ میں اچھا کھانا یا فلمیں دیکھنا۔ لڑکی کی ایک اور خوبی ہے جو اب اس کی عادت بن گئی ہے اور وہ ہے خوبصورت جھوٹ بولنا۔ وہ جہاں کوئی ضرورت نہیں ہوتی وہاں بھی اپنے جھوٹ بولنے کی مہارت کا مظاہرہ کئے بنا نہیں رہتی۔

اس لڑکی نے مان لیا تھا کہ ساتھ رہ رہے لڑکے کے ساتھ اس کو پیار ہو گیا ہے۔ وہ اس کے لئے ہے، بہت کییرنگ ہے۔ لیکن سال بھر کے اندر لڑکے کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ جس لڑکی کے ساتھ وہ رہ رہا ہے اس کے لئے کشش کے تمام عناصر ختم ہو گئے ہیں۔ اب اس کے ساتھ سے وہ اوبنے لگا ہے۔ جب کوئی کشش ہی نہیں تو پیار کیسا؟ اب لڑکی کی نزاکت اس کا ’اگو پرابلم’ لگنے لگا۔ اب وہ دونوں بات بات پر جھگڑ پڑتے۔ لڑکے نے طے کر لیا کہ اب لمبے وقت تک ساتھ نہیں رہا جا سکتا۔ اس نے کنارا کر لیا۔ وہ کسی دوسری لڑکی کے ساتھ رلیشن شپ میں رہنے لگا۔ لڑکی کو برا لگا۔ سپنے کو جھٹکا۔ حالانکہ لگنا نہیں چاہیئے تھا۔ جس رشتہ کی بنیاد ہی اس بنیاد پر ٹکی ہو کہ سکھ کے لیے ساتھ۔ جس دن کسی دوسرے سے سکھ زیادہ ملا، پرانا رشتہ ختم۔ لیکن لڑکی کو برا لگا۔ لڑکی تھی نا۔ کچھ دنوں تک اداس رہی۔ روئی دھوئی۔ کھانا چھوڑا۔ اس کے سبھی دوست جان گئے کہ اس کا بریک اپ ہو گیا ہے۔

اور ادھر دائیں والے مکان میں؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا بوڑھے کو ریڈیو سننے کی سنک ہے۔ وہ کسی گانے کو سنتے ہوئے ایک خاص دور میں پہنچ کر اسے جینے لگتا ہے۔

ریڈیو سننے کا اس کا خاص اسٹائل تھا۔ وہ چارپائی پر لیٹ جاتا ریڈیو اس کے پیٹ پر پڑا بجتا رہتا۔ کبھی وہ صرف ریڈیو ہی سنتا۔ کبھی وہ ریڈیو سنتے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہا ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ ریڈیو اس کے لیے لوری اور تھپکی کا کام کرتا اور وہ سو جاتا۔ گھنٹوں سوتا رہتا۔ ریڈیو کا سنگیت بیک گراؤنڈ میوزک کی طرح ماحول بناتا۔ سنگیت اسے سپنوں کی دنیا میں لے جاتا۔

وودھ بھارتی کے ’بھولے بسرے گیت’ پروگرام میں گیت بج رہا تھا ’جب تم ہی چلے پردیس، لگا کر ٹھیس ۔۔۔ او پریتم پیارے‘ بوڑھے کو اپنا زمانا یاد آیا۔ چالیس کا عشرہ ۔۔۔ ’رتن’ فلم کو دیکھنے کے لیے وہ اپنے گاؤں سے پٹنہ چلا گیا تھا۔ گاؤں کے کچھ دوستوں کے ساتھ۔ وہاں اس نے ایلپفنسٹن میں یہ فلم دیکھی تھی۔ زہرا بائی انبالے والی کی آواز نے تب کے نوجوانوں پر جیسے جادو کر دیا تھا ۔۔۔ اس آواز کا دیوانہ وہ بھی تھا۔ اس کے گانے اس نے ریڈیو میں بھی سنے۔ پچاس کے دہے میں ہی وودھ بھارتی شروع ہوا تھا ۔۔۔ آس پاس کے گاؤوں میں سب سے پہلے اس کے یہاں ہی ریڈیو آیا تھا ۔۔۔ سامنتی خاندان ۔۔۔ اس کو نہ جانے کیوں رقص سیکھنے کی سنک سوار ہو گئی ۔۔۔ سکھانے والا کوئی استاد نہیں ملا — استاد ڈھونڈھنے کے لیے وہ بھاگ کر مدراس پہنچ گیا ۔۔۔ چنا سوامی کے یہاں۔ چھ مہینے تک انہیں کے یہاں رہ کر ناچ سیکھا ۔۔۔ سیوک بن کر وہاں رہا ۔۔۔ سوامی نے ہی بتایا کہ ان کے ایک شاگرد ہیں پٹنہ میں مدن مشرا۔ آگے کی چیز ان سے سیکھو۔ سوامی نے بتایا کہ ریاض ضروری ہے ۔۔۔ وہ گھر لوٹ آیا ۔۔۔ ریاض کے لیے جگہ تھی نہیں۔ تب وہ گاؤں سے باہر آم کے گھنے باغیچے میں رات کو جب سارا گاؤں سو جاتا تھا، تب وہ وہاں ریاض کرتا تھا ۔۔۔ بارہ بجے سے چار بجے تک، کیونکہ چار بجے کے بعد گاؤں والے اٹھ جاتے۔ یہ سلسلہ سال بھر چلا۔ ایک دن باغیچے سے گزرتے ہوئے کسی نے رات کو ساڑھے بارہ بجے ’تا تھئی تاتاتھئی ۔۔۔‘ کی تھاپ سن لی ۔۔۔ اس نے پورے گاؤں والے کو بول دیا ’اس آم کے باغیچے میں بھوت آتا ہے، سالا نئے ڈیزائن کا بھوت ہے ۔۔۔ کتھک کرتا ہے ۔۔۔۔‘ کچھ سائنس داں قسم کے دیہاتی لوگوں کو یقین نہیں ہوا تو وہ سچائی کو جاننے کے لیے خود باغیچے پہنچے، مگر تا تھئی تاتا تھئی کی آواز سن کر ان کے ہوش فاختہ ہو گئے، لوٹ گئے الٹے پاؤں ۔۔۔ جان بچا کر ۔۔۔۔

سنگیت اور ناچ کی بہت کٹھن سادھنا کی اس نے۔ جس دن اس نے پٹنہ میں رقص کا پہلا مظاہرہ کیا تھا اسی دن سے اس کا سامنتی پریوار اس سے سدا کے لیے الگ ہو گیا۔ گھر نکالا ہو گیا۔ پتا نے کہا ’داغ لگا دیا خاندان کے دامن پر ۔۔۔ سالا نچنیا ہو گیا ۔۔۔۔ اگر معلوم ہوتا کہ جوان ہو کرتا تھیا کرے گا تو پیدا ہوتے ہی ٹینٹوا دبا دیتے ۔۔۔۔‘

پتا کا یہ آشیرواد تھا اس کے اس تاریخی مظاہرے پر جسے دیکھنے کے لیے ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ شری کرشن بابو اور دیش کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد دونوں موجود تھے۔

سنا تھا، سنگیت جوڑتا ہے۔ یہاں تو سنگیت نے سمبندھوں کا تار ہی توڑ دیا۔ دو میں سے ایک کا چناؤ کرنا تھا اسے، سنگیت اور رشتوں کے بیچ۔ اس نے سنگیت کو چنا۔ اور انقلابی ہونے کے الزام  سے بھی اچھوتا رہا۔ سنگیت کے چناؤ نے اس کی زندگی کو سونے پن اور اکیلے پن کی صلیب پر ٹانگ دیا۔ گھر سماج کی نظروں میں وہ باغی تھا۔ اس نے کہیں پڑھا تھا، عمر کے 35 سال تک ہر جوان کو باغی ہی ہونا چاہیئے۔ اپنے خاندان والوں کے لیے وہ مر چکا تھا۔ صرف ماں ہی تھی جو پٹنہ میں ڈاکٹر کو دکھانے کے بہانے ماما کے ساتھ ملنے آتیں۔ ماں اس کے لیے کھانے کو وہ تمام چیزیں بنا کر لاتیں جو اسے پسند تھیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے کھلاتیں اور بنا پلک جھپکائے اسےدیکھتے ہوئے روتی سسکتی رہتیں۔ بولیں کچھ بھی نہیں ۔۔۔ آشیر واد دینے کے علاوہ۔

زندگی میں آئے اس خالی پن کو تب ریڈیو نے ہی بھرا تھا ورنہ وہ پاگل ہو جاتا۔ پاگل وہ بھی تھی ۔۔۔ ساتھ رقص کرتے ہوئے۔ تب غضب کی سندر تھی وہ۔ بدن میں کمال کا لوچ تھا۔ وہ جہاں تھی، اس سے بھی آگے جا سکتی تھی۔ قومی یا بنن الاقوامی معیار کی رقاصہ بننے کا ٹیلنٹ تھا اس کے اندر ۔۔۔ لیکن وہ اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی — شہرت اکثر اپنوں سے دور کر دیتی ہے ۔۔۔ کئی بار خود سے بھی ۔۔۔ شہرت نہیں، پیار پر بھروسہ تھا اس کا۔ ریڈیو اور پیار کی جگل بندی نے ہی اسے ان مشکل دنوں میں بچایا۔ مگر وہ دو سال کا سمے بوڑھے پر بہت بھاری پڑا تھا، جب وہ سرکاری ٹور پر امریکہ چلی گئی تھی۔ وہ ایک پت جھڑ تھا جس کا عرصہ دو سال تیرہ دن کا تھا۔ ریڈیو اور پیار کی جگل بندی جیسے کچھ وقت کے لیے ٹھہر گئی ہو۔ سانسیں لیتا تھا، مگر جیسے زندہ ہونے کا گمان نہیں بچا ہو۔۔۔ آنکھوں میں نیند کی جگہ انتظار نے لے لی ۔۔۔ وہ بستر پر سونے کی کوشش کرتا تو بے چینی سے بھر جل بن مچھلی کی طرح تڑپنے لگتا ۔۔۔۔ تب وہ نوکری میں ہی تھا ۔۔۔ سٹیج پر پروگرام دیتے وقت ایک بار تو گر پڑا تھا ۔۔۔ کھانا نہیں کھانے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گیا تھا وہ ۔۔۔ اس دن کے بعد تو اس نے تین مہینے کی چھٹی ہی لے لی ۔۔۔۔ آس پڑوس کے بچہ اسے چڑھانے بھی لگے تھے۔ جب بھی وہ چھت پر اداس بیٹھا ہوتا، کوئی بچہ دوڑتا ہوا آتا اور آواز دیتا ’چاچا نیچے چلئے امریکہ سے کسی وجے لکشمی کا فون آیا ہے ۔۔۔ ہولڈ پر ہے ۔۔۔۔‘ تب موبائل کا زمانا نہیں تھا۔ اس کی اداسی لمحے بھر میں کافور ہو جاتی وہ دوڑا دوڑا پڑوسی کے گھر جاتا، تب پتہ چلتا ۔۔۔ بچہ تو مذاق کر رہے تھے، کسی کا فون نہیں آیا ۔۔۔ وجے لکشمی کا تو پچھلے دو مہینے سے نہیں ۔۔۔۔ بچوں کا مذاق بڑھتا گیا ۔۔۔ بچوں کی دیکھا دیکھی بڑے بھی اس طرح اس کے پیار اور پیار کے انتظار کا مذاق اڑانے لگے۔ تنگ آ کر اس نے خود اپنے ہی گھر میں فون لگوا لیا ۔۔۔ فون آئے یا نہ آئے ۔۔۔ وہ اس طرح اپنی توہین اور مذاق بننے سے تو بچے گا ۔۔۔۔ لیکن لوگ تو لوگ ہیں ۔۔۔ کچھ تو کہیں گے ہی ۔۔۔ شعبے کے لوگ آتے ۔۔۔ وہ بھی چسکی لیتے ۔۔۔ لگتا ہے اب تو وجے لکشمی امریکہ سے شادی کر کے ہی لوٹے گی ۔۔۔ اپنے ساتھ کسی امریکی گورے کو پتی کے روپ میں ساتھ لائے گی ۔۔۔ بہت ممکن ہے۔۔۔ وہ لوٹے ہی نہیں ۔۔۔ شادی کر کے وہیں سیٹل ہو جائے ۔۔۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان باتوں کو سن کر وہ بے چین ہو جاتا ۔۔۔ مگر اسے اپنے پیار پر بھروسہ تھا۔

وہ لوٹی۔ اور اکیلے لوٹی۔ بنا شادی کئے۔ اور سیدھے ایئر پورٹ سے اسی کے پاس پہنچی ۔۔۔ لگا کوما میں پڑے کسی آدمی کے بھیتر زندگی کی ہلچل لوٹ آئی ہو ۔۔۔۔ پہلی بار جانا کہ لوٹنے کا سکھ اصل میں ہوتا کیا ہے؟ اس دن وہ صبح کی چائے پی رہا تھا۔ وودھ بھارتی پر پروگرام ’سنگیت سرتا’ چل رہا تھا۔ گانا ۔۔۔ انکھیاں سنگ انکھین لاگے نا ۔۔۔۔

اچانک ریڈیو میں گانا آنا بند ہو گیا۔ اسے لگا نشر کرنے میں کچشھ رکاوٹ ہے۔ مگر نہیں ۔۔۔ دس منٹ تک ریڈیو خاموش رہا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھا، ریڈیو کے سوئچ کو گھمایا ۔۔۔ ٹیوننگ بھی کی ۔۔۔ صرف کھر کھر کی آواز ۔۔۔۔ ریڈیو میں کچھ خرابی آ گئی تھی۔ اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ ریڈیو کے بغیر اس کی زندگی جیسے ٹھہر گئی۔ اس دن اس نے ناشتا بھی نہیں کیا۔ نہایا بھی نہیں۔ دس بجتے ہی وہ ایک جھولے میں ریڈیو کو لے کر اسے بنوانے بازار نکل گیا۔ اس کے ذہن میں جو ریڈیو مرمت کی دکان تھی اس میں موبائل بک رہا تھا۔ نئے نئے ماڈل کے موبائل۔ اس نے بہت ڈھونڈھا۔ مگر ریڈیو ٹھیک کرنے والی دکان اسے نہیں ملی۔ پتہ کرنے پر ایک نے بتایا بغل کے محلے میں ایک بزرگ میاں جی ہیں، وہ اب بھی ریڈیو بناتے ہیں۔ اس کے پہلے لوگوں نے سمجھایا، اب چیزیں ٹھیک نہیں ہوتیں، بدل دی جاتی ہیں۔ نیا ریڈیو لے لیجئے۔ مگر بوڑھے کی ضد۔ اسے ریڈیو کو بدلنا نہیں، ٹھیک کرانا ہے۔ جو ہمارے پاس پہلے سے ہے اور جو خراب ہے، اسے ٹھیک کرنا ہے تاکہ وہ پہلے کی طرح کام کرنے لگے۔ اسے دکھ ہوا کہ خراب چیز کو ٹھیک کرنے والے کاریگر ہمارے سماج سے غائب ہوتے جا رہے ہیں، غائب ہو گئے ہیں۔

وہ مسلم بستی تھی، شہر کے بیچوں بیچ۔ بھیڑ بھڑاکا۔ بدن سے بدن ٹکراتا۔جیسے کوئی میلہ ہو۔ ایک تیز اٹھتی بو، برقعہ اوڑھے مسلم عورتیں۔ چھتوں پر پتنگ اڑاتے بچے۔ کبوتروں کا جھنڈ۔ دکانوں پر فین، بسکٹ اور بیکری خریدنے والوں کی بھیڑ۔

ایک زمانے بعد وہ اس محلے میں آیا تھا۔ بڑی مشکل سے پھوکن میاں والی گلی ملی، مسجد کے ٹھیک سامنے۔ دکان بند تھی۔ ٹوٹا پھوٹا سائن بورڈ اب بھی لٹک رہا تھا، کسی پرانی یاد کی طرح ۔۔۔ یہاں ریڈیو ٹرانزسٹر کی تسلی بخش مرمت کی جاتی ہے۔ پھوکن میاں ریڈیو ساز ۔۔۔۔

بوڑھے نے سوچا ۔۔۔ نماز کا وقت ہے؟ شاید دکان بند کر پھوکن میاں نماز پڑھنے گئے ہوں گے؟ آج ہے بھی تو جمعہ۔ انتظار کرتے ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا۔ تین بج گئے۔ دکان نہیں کھلی۔ نماز پڑھنے والے تمام لوگ مسجد سے باہر نکل آئے تھے۔

اس نے بغل کی بیکری کی دکان والے سے تفتیش کی تو جواب ملا ۔۔۔ ’ارے پھوکن میاں کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔ ان کی یہ دکان تو پچھلے چھ مہینے سے بند ہے۔’

’وہ ملیں گے کہاں؟‘

’قبرستان میں بیٹھے بیڑی سڑک رہے ہوں گے؟‘

’مطلب؟‘

’غلط مت سمجھئے ۔۔۔ وہ دن بھر وہیں قبرستان میں ہی اپنی بیگم کی قبر پر بیٹھے رہتے ہیں ۔۔۔ اگر ان سے کوئی کام ہے تو ایک بنڈل گنیش چھاپ بیڑی لیتے جائیے ۔۔۔ خوش ہو جائیں گے ۔۔‘

’قبرستان ہے کہاں؟‘

’اسی گلی کے اگلے موڑ سے دائیں مڑ جائیے ۔۔۔ سو قدم چلنے کے بعد بجلی ٹرانسفارمر سے بائیں مڑتے ہی سیدھے چلتے جانا ۔۔۔ وہ راستہ سیدھا قبرستان کو ہی جاتا ہے ۔۔۔ وہیں مل جائیں گے بیڑی پھونکتے پھوکن میاں۔۔۔۔‘

بڈھے نے سب سے پہلے سامنے کی گمٹی سے ایک بنڈل بیڑی کا خریدا ۔۔۔ پھر جھولا لیے بتائے راستے پر چل پڑا۔ شام ڈھلنے لگی تھی۔ سورج نے اپنی سمت بدل لی تھی۔ کمزور ہوتی دھوپ بوڑھے کو خود کے جیسی ہی لگی۔

جیسا کہ بیکری والے نے بتایا تھا، ایک صاحب قبرستان میں دکھائی دیے۔ سب سے کونے والی ایک قبر میں بیڑی پی رہے تھے۔

وہ پاس پہنچا ’اگر میں غلط نہیں ہوں۔ تو آپ پھوکن میاں ہی ہیں نا۔‘

’جی ہوں تو ۔۔۔ فرمائیے ۔۔۔۔‘ قبر پر بیٹھے پھوکن میاں ہی تھے۔

’آپ کی دکان گیا تھا ۔۔۔ پتہ چلا وہ تو مہینوں سے بند پڑی ہے۔‘

’پرانی چیزیں بند ہو جاتی ہیں ۔۔۔ انہیں بند کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔‘ آواز میں تلخی تھی، کیوں تھی، معلوم نہیں۔

’آپ یہاں قبرستان میں ۔۔۔‘ پرانے زمانے کا دستور ہے کہ کام سے پہلے سامنے والے کا حال چال ضرور پوچھتے ہیں۔

’سکون ملتا ہے یہاں ۔۔‘ پھوکن میاں نے زور دے کر کہا ’مردہ چیزیں سکھ دیتی ہیں ۔۔۔ کوئی سوال نہیں کرتیں ۔۔۔ شک نہیں — نہ محبت، نہ نفرت ۔۔۔ سیاست تو بالکل ہی نہیں ۔۔۔ اسی لئے سکون کی کھوج میں ہر صبح یہاں چلا آتا ہوں ۔۔۔ گھر میں چار بیٹے ہیں بہو ہے پوتے پوتیاں 15 لوگوں کا کنبہ ہے میرا ۔۔۔ مگر میں کسی کا نہیں۔ ہماری بیگم چھ مہینے پہلے ہمیں چھوڑ کر چلی گئی خدا کے پاس ۔۔۔ تب سے ہم زیادہ تنہا ہو گئے ہیں ۔۔۔ جس قبر پر بیٹھ کر ابھی ہم باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔ وہ ہماری رخسانہ بیگم کی ہے ۔۔۔ یہاں جب تنہائی زیادہ ہی ستانے لگتی ہے تو بیگم سے باتیں بھی کر لیتا ہوں ۔۔۔ ان کی آواز صرف مجھے ہی سنائی پڑتی ہیں ۔۔۔ 56 سال کا ساتھ اچانک ختم ہو جاتا ہے ۔۔۔ ہم اکیلے پڑ جاتے ہیں ۔۔۔ بے بس، اداس ۔۔۔ خیر میں تو اپنی ہی کہانی میں گم ہو گیا ۔۔۔ آپ بتاؤ مجھ سے ملنے کا مقصد۔ مجھے ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے قبرستان پہنچ گئے ۔۔۔۔‘

’میرا ایک بہت پرانا ریڈیو ہے ۔۔۔ وہ مجھے بہت پیارا ہے ۔۔۔ اس نے میری زندگی میں سنگیت بھرا تھا ۔۔۔ اچانک اس میں خرابی آ گئی ہے، وہ بجتا ہی نہیں ۔۔۔ کسی نے بیس سال پہلے تحفے میں دیا تھا مجھے۔ اس شہر میں ریڈیو ٹھیک کرنے والا کوئی بچا نہیں۔ لوگ نیا ریڈیو لینے کی صلاح دیتے ہیں، مگر میں ایسا نہیں کر سکتا ۔۔۔ کسی نے آپ کا نام بتایا تو آپ کے پاس حاضر ہوں ۔۔۔۔ُ

’میں نے تو کام چھوڑ دیا ہے ۔۔۔ دکان بھی بند ہو گئی، بیگم کے انتقال کے دوسرے دن ہی ۔۔۔۔‘

’دکان بند ہوئی ہے آپ تو ہیں ۔۔۔۔‘

’دکھائی کم پڑتا ہے ۔۔۔ مشکل ہے ۔۔۔ میں معافی چاہتا ہوں ۔۔۔ آپکی مدد نہیں کر سکتا ۔۔۔‘

’آپ نا امید مت کیجئے ۔۔۔ میری مجبوریوں اور اس ریڈیو کی خاطر میری دیوانگی کو سمجھئے ۔۔‘ یہ کہتے ہوئے سجّن میاں نے بیڑی کا بنڈل پھوکن میاں کی اور بڑھا دیا ’اگر آپ نے ریڈیو ٹھیک نہیں کیا تو میں جی نہیں پاؤں گا ۔۔۔۔‘

بیڑی کے بنڈل پر جھپٹا مارتے ہوئے پھوکن میاں کے چہرے پر مسکان کھل گئی۔ انہوں نے کرتے کی داہنی جیب سے ماچس نکال کر فوراً ایک بیڑی سلگائی۔ ایک سٹا مارتے ہوئے بولے ’ریڈیو کہاں ہے؟‘

بوڑھے نے جھولے سے ریڈیو نکال کر پھوکن میاں کو سونپ دیا۔

’آئیے، میرے ساتھ ۔۔۔‘ پھوکن میاں اٹھ کھڑے ہوئے۔

وہ اسے دکان لے گئے۔ گھر سے چابی منگوا کر دکان کا شٹر کھولا۔ دھول کی موٹی پرتیں جمی تھیں ہر چیز پر۔ صاف کرنے میں ہی آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں انہوں نے ریڈیو ٹھیک کر دیا۔ ریڈیو پر گیت بج رہا تھا ‘’رہا گردشوں میں ہر دم میرے عشق کا ستارا۔‘

’اس کا بینڈ خراب ہو گیا ہے ریڈیو مرچی وودھ بھارتی کو بجنے نہیں دیتا ۔۔۔ پرانا پارٹ ہے، نیا ملے گا نہیں ۔۔۔ اس کمپنی کا بننا ہی بند ہو گیا ۔۔۔ ٹھیک تو کر دیا ہے۔۔۔ مگر اسے گرنے سے بچائیے گا ۔۔۔ نہیں تو نئی گڑبڑی شروع ہو سکتی ہے ۔۔۔۔‘

بوڑھا خوشی خوشی ریڈیو گھر لے آیا ۔۔۔۔ ریڈیو پھر سے بجنے لگا تھا بوڑھے کے چہرے پر رونق لوٹ آئی۔ جیسے پت جھڑ کے بعد بہار آ گئی ہو۔ تپتے ریگستان میں جھم جھم بارش ہو گئی ہو۔

مگر تیسرے دن ہی آندھی آئی اور ریڈیو ٹیبل سے گر پڑا۔ پھوکن میاں نے سہی پیشین گوئی کی تھی، اس میں ایک نئی بیماری شروع ہو گئی ۔۔۔۔ ریڈیو بج تو رہا تھا، مگر اپنے آپ اس کا بینڈ بدل جاتا ۔۔۔ وودھ بھارتی بجتے بجتے ریڈیو مرچی لگ جاتا۔ بوڑھا پریشان۔ گانے خود بخود بدل جاتے۔ وودھ بھارتی پر بج رہا ہوتا ’جو وعدہ کیا، وہ نبھانا پڈے گا۔‘ اچانک بینڈ بدل جاتا ’منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیے ۔۔۔۔‘ کبھی بجتا ہوتا ’وقت نے کیا کیا حسیں ستم’ بینڈ بدلتا اور گانا بجتا ’آئی چکنی چمیلی چھپ کے اکیلی پوا چڑھا کے آئی ۔۔۔۔‘ بوڑھے کو سر درد ہونے لگا۔ وہ اگلے دن ہی جھولے میں ریڈیو کو ڈال کر پھوکن میاں کے پاس قبرستان پہنچا۔ وہ ان کے لیے بیڑی کا بنڈل لینے گمٹی گیا، گنیش چھاپ تھا نہیں ۔۔۔ نہ جانے کیا سوچ کر اس نے سگریٹ لے لی ۔۔۔۔۔ اسے لگا پھوکن میاں خوش ہو جائیں گے، بیڑی پینے والے کو سگریٹ مل جائے ۔۔۔ دیسی پینے والے کو وہسکی تو وہ زیادہ خوش ہو جاتا ہے، ایسی سوچ تھی اس کی۔

اس بار قبرستان میں پھوکن میاں تھے تو اپنی بیگم رخسانہ کی قبر پر ہی۔ لیکن حالت بدلی ہوئی تھی۔ وہ بیڑی نہیں پی رہے تھے ۔۔۔ کچھ بدبدا رہے تھے ۔۔۔ پاس جانے پر الفاظ بھی صاف ہوئے ۔۔۔’آپ تو آرام سے نیچے سو رہی ہیں ۔۔۔ ہماری فکر ہی نہیں ہے ۔۔۔ یہ مرنے کے بعد کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔۔۔ پہلے تو آپ ایسی نہیں تھیں ۔۔۔ سنگدل بے یروا ۔۔۔ معلوم ہے بہوئیں مجھے کھانا دینا بھول جاتی ہیں ۔۔۔ دو ہی ٹائم اور دو ہی روٹی کھاتا ہوں، وہ بھی ان سے نہیں دی جاتی ۔۔۔۔ آپ کی اولادیں ہمارے مرنے کا انتظار کر رہی ہیں ۔۔۔ ہم غیر ضروری چیز جو ہو گئے ہیں ۔۔۔ اپنا ہی خون گالیاں دے رہا ہے، اب آپ ہی بتائیے کیسے جئیں ہم ۔۔۔ ایک گذارش ہیں ۔۔۔ آپ اپنے پاس ہی ہمیں جگہ دے دیجیے ۔۔۔ بستر پر تو ہم سالوں ساتھ سوتے رہے ۔۔۔ یہاں قبر میں بھی سو لیں گے۔۔۔‘ کہتے ہوئے پھوکن میاں کی آنکھ بھر آئی ۔۔۔ کندھے پر رکھے چار خانہ انگوچھے سے آنسو پونچھے ۔۔۔ بائیں کرتے سے بیڑی کا بنڈل اور دائیں جیب سے ماچس نکالی ۔۔۔ ایک بیڑی سلگائی ۔۔۔ اس بات سے بے خبر کہ پاس پہنچے بوڑھے نے ان کی ساری باتیں سن لی ہیں ۔۔۔ اور وہ ان کے معمول کے مطابق ہونے کا انتظار بھی کر رہا ہے۔

بوڑھے نے جان بوجھ کر کھانسا تاکہ پھوکن میاں اس کی طرف مخاطب ہو سکیں ۔۔۔ پھوکن میاں کی بے خبری ٹوٹی ۔۔۔ ہڑبڑا کر بولے ۔۔۔‘آئیے صاحب، سب خیریت تو ہے۔۔؟’

’زندگی سے سانسوں کا تال میل گڑبڑانے کو اگر خیریت کہا جا سکتا ہے تو مان لیجئے کہ ہے ۔۔۔‘

’بڑی گہری باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔‘

’آپ سے زیادہ نہیں ۔۔۔ معافی چاہتا ہوں مگر ابھی میں نے آپ کی باتیں سنیں ۔۔۔ آپ کو روتے ہوئے بھی دیکھا ۔۔۔ آپ اپنی بیگم سے قبر میں پناہ مانگ رہے تھے ۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قبر زندوں کو پناہ نہیں دیتی ۔۔۔۔‘

’سارے راستے آخر میں یہیں آتے ہیں ۔۔۔ اور جب کوئی راستہ نہیں بچ جاتا تب بھی جو پگڈنڈی بچی رہ جاتی ہے وہ بھی یہیں آتی ہے، قبرستان میں ۔۔۔ قبر کی طرف۔۔۔۔‘

’ایک راستا ہے جو آپ کی اس دکان کی طرف جاتا ہے جو مہینوں سے بند ہے ۔۔۔‘ بوڑھے نے سگریٹ کا ڈبہ پھوکن میاں کی طرف بڑھا دیا۔

’آپ تو سگریٹ لے آئے ۔۔۔‘

’بیڑی ملی نہیں ۔۔۔‘

’سگریٹ بیڑی کا وکلپ نہیں ۔۔۔ بیڑی کو پچھلے پچاس سال سے پھونکتے رہنے کی ایک عادت سی پڑ گئی ۔۔۔ سگریٹ ہمارے وجود سے میل نہیں کھاتی ۔۔۔ ہم نے دو ہی چیزوں سے پیار کیا بیوی اور بیڑی ۔۔۔ بیوی تو چھوڑ گئی ۔۔۔ بیڑی کو کیسے چھوڑ دوں ۔۔۔ سگریٹ پینا بیڑی کے ساتھ بیوفائی ہے ہماری نظروں میں، جیسا بیوی کے رہتے کسی دوسرے عورت کو چاہنا چھونا اور چومنا تھا ۔۔۔ سونا تو بہت دور کی بات ۔۔۔ پیار تو پیار ہے میاں چاہے وہ بیوی سے ہو ۔۔۔ بیڑی سے ہو یا کچھ، ’تو نہیں تو اور سہی‘ کا فلسفہ پیار نہیں، کچھ اور ہی ہے۔۔۔‘

’آپ نے میری بات کو نظر انداز کر دیا۔‘

’کون سی بات؟’

’ایک راستہ دکان کی طرف بھی جاتا ہے ۔۔۔ قبر کے اندھیرے میں غرق ہونے کی بجائے ٹیبل لیمپ کی روشنی میں ریڈیو کو ٹھیک کرنا بہتر ہے ۔۔۔۔‘

’آپ کا ریڈیو تو ٹھیک بج رہا ہے نا ۔۔۔؟‘

’بج تو رہا ہے ۔۔۔ مگر میرے مطابق نہیں، وہ اپنے ڈھنگ سے بجنے لگا ہے ۔۔۔ اس کے اندر کچھ ایسا ہے جو آواز کو بدل دیتا ہے ۔۔۔ دو زمانے کے فرق پل بھر میں مٹ جاتے ہیں ثریا سے سُنِدھی چوہان ۔۔۔ سہگل سے کمال خان ۔۔۔ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا، ریڈیو ہے ۔۔۔ سوئچ ہے ۔۔۔ مگر اس کے اندر سے نکلنے والی آواز پر میرا قابو نہیں رہا ہے۔۔۔۔‘

’بینڈ خراب ہو گیا ہے۔۔۔ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پرانا ہے ۔۔۔۔‘

’پرانے تو ہم بھی ہیں ۔۔۔ لیکن اڑے ہیں ۔۔۔ کھڑے ہیں ۔۔۔ اپنی پسندوں ۔۔۔ چاہتوں کے ساتھ ۔۔۔۔‘

’انسان اور مشین میں فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔‘

’یہی بات تو میں بھی کہہ رہا ہوں ۔۔۔ آپ انسان ہیں۔ مشین کی یہ بیماری آپ کی قوت سے باہر تھوڑے ہی نہ ہے۔۔۔‘

’ہے ۔۔۔ ہو گئی ہے، مشین کے آگے ہم لاچار ہیں ۔۔۔ آپ کو ریڈیو میں آئے بدلاؤ کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑے گا’

’آپ ہمیں مایوس کر رہے ہیں ۔۔۔‘

’جب سارے راستے بند معلوم ہوتے ہیں تو مایوسی کا کہرا چھا ہی جاتا ہے میں معافی چاہتا ہوں، آپ کوئی نیا ریڈیو لے لیجئے ۔۔۔‘ آپ نے مایوس کر دیا، خیر ۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔۔ لیکن میری ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔ ایک راستہ دکان کی سمت بھی جاتا ہے ۔۔۔ قبر کے اندھیروں سے دور ٹیبل لیمپ کی روشنی کی طرف۔۔۔‘ گھر لوٹتے ہوئے اداس بوڑھا سوچ میں پڑ گیا۔ نیا ریڈیو، اپنی دل چسپیوں کو بدلنا۔۔۔ عمر کے اس موڑ پر زمانے کے ساتھ تال میل بٹھانے کے لیے خود کو بدلنا پڑے گا۔ یہ کیسی آندھی چلی ہے، جہاں چراغ کو روشنی سے دور رہنے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔۔۔ تاکہ اندھیرا بنا رہے۔

اچانک بیچ میں آ رہے اس رکاوٹ کے لیے معذرت۔ دو کہانیوں کے بیچ میں خود اپنی سالی کو لے کر آ رہا ہوں۔ ہوا یوں کہ ایک دن میری پتنی نے اپنی بہن کی بات مجھ سے کروانے یعنی اس کے جنم دن پر وش کرنے کے لیے مجھے موبائل پکڑا دیا۔

ارے یاد آیا میری سالی نے بھی پیار کیا تھا ۔۔۔ اپنی رشتے داری میں ہی ۔۔۔ سالی چنڈی گڑھ جیسے جدید شہر کی رہنے والی ۔۔۔ پنجابی تڑکا لیے۔ لڑکا بہار کے جنگل نرکٹیا گنج کا بیحد شریف ۔۔۔ روایتوں اور اقدار سے فیوی کول کے جوڑ کی طرح چپکا ۔۔۔ لڑکے نے پیار تو کیا مگر جب سالی نے شادی کی تجویز رکھی تو وہ ہمت نہیں جٹا پایا ۔۔۔ سالی نے اسے بہت للکارا۔ …مگر لڑکا جائنٹ فیملی اور پورے شہر میں اپنی عزت کو داؤ پر لگانے کی ہمت نہیں کر سکا ۔۔۔ پیار جب اپنے مقام تک نہیں پہنچ پاتا ہے تو کئی دفعہ بغاوت میں تبدیل ہو جاتا ہیں ۔۔۔ سالی نے پیار میں انتقام لیا۔۔۔ جس لڑکے سے پیار کرتی تھی اسی کے چھوٹے بھائی کو پیار میں پھانس کر اسے باغی بنا دیا سالی پر تب ٹی وی پر چل رہے ان سیریلس کا اثر تھا ۔۔۔ شاید ’کہانی قسمت کی’ سیریل۔ وہ محبوب کے چھوٹے بھائی سے شادی رچا کر اسی گھر میں پہنچ گئی۔ دولھا کے روپ میں اب اس کا محبوب اس کا جیٹھ تھا ۔۔۔ محبوب کو دکھ ہوا۔ ٹیس اٹھی ۔۔۔ مگر اس نے اف تک نہیں کی ۔۔۔۔

اب اس واردات کو سات آٹھ سال ہو گئے۔ سالی کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ شوہر خوبصورت ہے لیکن بیروزگار ہے۔ اسے چنڈی گڑھ چھوڑ کر نرکٹیا گنج جیسے چھوٹے اور اونگھتے شہر میں رہنا پڑ رہا ہے جہاں سہولتوں کا فقدان ہے۔ وہاں ایسی زندگی ہے جس کی وہ عادی نہیں تھی۔

’جنم دن کی بہت بہت شبھ کامنا سالی جی ۔۔۔۔‘

’کا ہے کا شبھ جیجا جی ۔۔۔ بس آپ نے یاد کر لیا وہی کافی ہے۔۔۔۔‘

’ایسے کیوں بول رہی ہو ۔۔۔‘

’افسوس تو یہی کہ میں بول بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔‘

’میں سمجھا نہیں ۔۔۔۔‘

’جانتے تو آپ سب ہیں ۔۔۔ اس میں سمجھنے جیسی کیا بات ہے ۔۔۔ جو میں نے چاہا وہ ملا نہیں ۔۔۔ جو ملا، وہ میری منزل نہیں تھی ۔۔۔‘

’مگر اسے تو آپ نے خود ہی چنا تھا ۔۔۔‘

’وہ چناؤ کہاں تھا جیجا جی ۔۔۔‘

’کیا تھا ۔۔۔ پھر’

‘انتقام ۔۔۔ پیار میں لیا گیا انتقام ۔۔۔ نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جو میں نے اپنے لیے ہی قبرستان کھود لیا تاکہ میں خود کو وہاں دفن کر سکوں ۔۔۔ اس آگ نے سب کچھ جلا دیا۔ اب تو راکھ ہی راکھ بچی ہے جو پھیل گئی ہے میری ہستی پر ۔۔۔‘

’کچھ تو بچا ضرور ہو گا اس راکھ کے بھیتر ۔۔۔‘

’شاید لہولہان، اپاہج اور گونگی چاہت ۔۔۔ جس کا اب کوئی مطلب نہیں رہ گیا ۔۔۔‘

’کبھی اکیلے میں سوچنا اس بے مطلب میں ہی کوئی مطلب چھپا ہو گا ۔۔۔۔‘

’جب زندگی بے معنی ہو جائے تو کسی بھی چیز کا مطلب کہاں بچا رہتا ہے جیجا جی، اب تو سب کچھ ختم ہے ۔۔۔‘

’ختم ہو کر تھا ۔۔۔ سب کچھ ختم نہیں ہو جاتا ۔۔۔ محفوظ رہتا ہے وہ۔ خیر۔۔۔ وہ وہاں آتا ہے یا نہیں ۔۔۔‘

’نہیں ۔۔۔ میری شادی کے بعد اس گھر تو کیا شہر میں بھی قدم نہیں رکھا ۔۔۔ پچھلے سال تو اس نے پٹنہ میں شادی کر لی ۔۔۔‘

’گئی تھیں تم ۔۔۔‘

’گئی تھی ۔۔۔‘

’کیسا لگا ۔۔۔،‘

’اس احساس سے گزری جو اس کے دل میں تب اٹھا ہو گا جب میں نے اس کے چھوٹے بھائی سے شادی کر رہی تھی۔ بیشک وہ شادی میں نہیں آیا مگر احساسات سے گزرنے کے لیے سامنے کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی۔ ۔۔۔ مجھ سے اس کی شادی دیکھی نہیں گئی ۔۔۔ میں رو پڑتی اس کے پہلے پیٹ میں درد کا بہانا بنا کر کمرے میں بند ہو گئی ۔۔۔ سب لوگ سمجھ تو گئے ہی۔ وہ بھی، میرا شوہر بھی۔ لیکن میں سب کچھ سمجھ کر بھی سچائی کا سامنا نہیں کر پانے کی نا اہل تھی‘ وہ رونے لگی–

’سوری ۔۔۔ میں نے تمہارے جنم دن پر بے وجہ ہی رلا دیا’

’ایک گذارش ہے جیجا جی ۔۔۔‘

’بولو ۔۔۔‘

’آپ جب چھٹھ میں یہاں آئیں گے تو اسے ساتھ ضرور لائیے گا ۔۔۔ اسے دیکھنے کی بڑی تمنا ہے ۔۔۔ دیکھوں گی شادی کے بعد کیسا لگتا ہے۔۔۔ ؟ لائیں گے نا۔۔۔!‘

’ہاں ضرور ۔۔۔‘ میں نے فون رکھ دیا۔ میں سوچ سکتا تھا کہ وہ اس کے بعد کیا سوچ رہی ہو گی ۔۔۔ اور یہ بھی کہ یقیناً رو رہی ہو گی ۔۔۔ پیار میں آنسوؤں کی بارش یا آنسوؤں کی بارش میں بھیگتا پیار۔

بائیں مکان والی لڑکی سوچ رہی تھی ۔۔۔ جو چلا گیا اس کے ساتھ سب کچھ تو نہیں چلا جاتا ۔۔۔ زندگی ختم تو نہیں ہو جاتی۔ اس نے خود کو ری ڈزائن کیا۔ پرسنالٹی امپروومینٹ کا کورس کیا۔ نوکری بدلی۔

لڑکی بدلنا چاہتی تھی۔ وہ بدل رہی تھی۔ جتنی بدلی تھی اب تک، اس کے آگے بھی بدلنے کی خواہش تھی۔ اس کا وجود بن اور بگڑ رہا تھا۔ پریشان لڑکی مندر گئی۔ منتیں مانگی۔ جیوتش کی دی ہوئی کرشماتی انگوٹھی پہنی۔ ایک اور کرشماتی گرو کی شرن میں بھی پہنچی۔ گرو دیو نے آشیر واد دیا ’سب منگل مے ہو گا۔‘ لیکن دن شنی کے منحوس شروع ہو گئے۔

لڑکی ہمت والی تھی۔ دکھوں سے لڑنے کا حوصلہ تھا اس میں۔ اس نے اس تھیوری کو سمجھ لیا تھا کہ کسی موڑ پر زندگی کا سفر ختم نہیں ہوتا صرف سفر کا رخ بدل جاتا ہے۔ اس نے اپنے موبائل میں سب گانے نئے سرے سے لوڈ کروائے ۔۔۔ جواں ہے محبت حسیں ہے زمانا، لٹایا ہے دل نے خوشی کا خزانہ ۔۔۔۔ تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے ۔۔۔ اپنے بہ بھروسہ ہے تو ایک داؤ لگا لے ۔۔۔ کیا زندگی جوا ہے، جہاں خوشیوں کو داؤ پر لگایا جا سکتا ہے۔ …جیت ہار تقدیر نہیں محض اتفاق ہے۔

لڑکی کے پڑوس میں ایک نیا لڑکا آ گیا۔ پڑھاکو قسم کا۔ صحافی۔ کہانیاں نظمیں بھی لکھتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہمیشہ کوئی کتاب یا ڈائری ہوتی۔ وہ یا تو کچھ پڑھتا یا کچھ نہ کچھ ڈائری میں لکھتا رہتا۔ لڑکے نے سب سے پہلے لڑکی کے مشغلوں کو بدلا۔ اسے اچھی کتابیں دیں ۔۔۔ کلاسک فلمیں دکھائیں ۔۔۔ سمجھایا کہ بارش میں ساتھ ساتھ بھیگنے اور تپتے ریگستان پر قدم ملاتے ہوئے چلنے کا نام ہی پیار ہے۔ اور ہم عاشق معشوق ہونا چاہتے ہیں؟ لڑکی لڑکے کا کہا ماننے لگی۔ لڑکے کو لگا لڑکی بدل رہی ہے۔ وہ خوش تھا۔ لڑکی کو بھی وہم ہو گیا کہ وہ بدل رہی ہے۔ بدلاؤ کے دور میں بنا بدلے گزارا بھی کہاں تھا؟ دونوں خوش۔ اس بات سے بے فکر کہ ہر چیز کی ایک عمر ہوتی ہے خوشی کی بھی۔

لڑکی نے لڑکے کو لائک کیا۔ پھر دوستی، پھر پرپوز کیا آئی لو یو بولا۔ اس میں موبائل ایس ایم ایس نے اہم رول نبھایا۔ بہت جلد سیکس تک پہنچ گئے۔ دونوں لِو ان رلیشن میں رہنے لگے۔۔ لائف میں انجوائے۔ انجوائے ہی لائف۔ سب کچھ مست مست ۔۔۔ وقت کی سانسوں میں جیسے نشہ گھل گیا ۔۔۔ نشہ چڑھتا ہے تو ایک عرصے کے بعد اترتا بھی ہے ۔۔۔ چھ مہینے میں ہی لائک کی ساسیں کمزور پڑنے لگی۔ لو کی سانسیں پھولنے لگی ۔۔۔ سیکس بھی جیسے مشینی ہونے لگا، میاں بیوی کی طرح۔ اس میں پہلے جیسا جوش ۔۔۔ مزہ نہیں رہا ۔۔۔ مزے کے چکر میں جسم برف کی مانند پگھلتے رہے، قطرہ قطرہ ۔۔۔۔

پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ باقی برف پوری طرح پگھل گئی۔ اب صرف پانی کی نمی بچی رہ گئی تھی۔ اور نمی کو سوکھنے اور گرد بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ بوڑھا بازار میں تھا۔ وہ دکان در دکان بھٹک رہا تھا۔ وہ ایک ایسا نیا ریڈیو چاہتا تھا جس میں وودھ بھارتی بجے — بازار میں ایف ایم والے ریڈیو ہی دستیاب تھے۔ کچھ ریڈیو ملے جس میں ایف ایم صاف بجتا تھا، مگر وودھ بھارتی کی آواز گھر گھر کے ساتھ سنائی دیتی ۔۔۔ دوکانداروں نے اسے سمجھایا چچا جان، آپ ایف ایم ریڈیو لے لو ۔۔۔ وہ نہیں لینے کی ضد پر اڑا رہا ۔۔۔ ایک بڑے دوکاندار نے بڑی نرمی کے ساتھ سمجھایا کہ اب وودھ بھارتی سنتا ہی کون ہیں ۔۔۔ آپ کو پرانے گیت سننے سے مطلب ہے نہ، آپ آئی پیڈ لے لو، ہزاروں گانے اس میں لوڈ رہیں گے ۔۔۔ انہیں سنتے رہو ۔۔۔ آواز صاف ستھری، جب کوئی دوسرا راستہ بچا نہ ہو، آدمی کو سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ بغیر ضرورت اور خریدار کی خواہش کو سمجھے سامان کو بیچ دینا ہی بازار کا نیا فنڈا ہے۔۔۔ دوکاندار بوڑھے کو سمجھانے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔ اسے ایک آئی پیڈ خریدنا پڑا۔ اس کے ساتھ لیڈ تھا ۔۔۔ دونوں کانوں میں لگا کر سننے کے لیے ۔۔۔ اس نے دونوں ہیڈ فون کان میں لگا لیے۔ وہ گیت سن رہا تھا۔ پتہ نہیں کون سا ۔۔۔ مگر دور سے دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ اس کے چہرے پر خوشی کے جذبات تھے ۔۔۔ اس کے جسم کی جنبش دھیرے دھیرے تیز ہونے لگی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ تھرکنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صرف وہ بوڑھا ہی جانتا تھا کہ وہ کون سا گیت سن رہا ہے ۔۔۔ ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔ گیت سن کر وہ خوش اور اداس پہلے بھی ہوتا تھا ۔۔۔ مگر پڑوس میں گیت کے بول سنائی دیتے تھے ۔۔۔ اب نہیں دے رہے تھے۔ معلوم پڑتا تھا کہ وہ کوئی پاگل ہے جو یوں ہی مختلف اعضا ہلا رہا ہے ۔۔۔ آئی پیڈ لے کر بوڑھا پھوکن میاں کے پاس پہنچا قبرستان میں۔ وہاں وہ نہیں ملے۔ وہ دکان پہنچا۔ ٹیبل لیمپ کی روشنی میں وہ کسی بیمار ریڈیو کا آپریشن کر رہے تھے ۔۔۔۔ بوڑھے نے گنیش چھاپ بیڑی کا بنڈل انہیں سونپتے ہوئے آئی پیڈ دکھایا تو بڑے گمبھیر ہو کر پھوکن میاں بولے تھے یہ نئے زمانے کا سنگیت ہے۔ نیا چلن نئی سوچ ۔۔۔ میرا ہے تو میں ہی سنوں۔ تم کو بھی سننا ہے وہ جاؤ بازار سے دوسرا خرید لاؤ ۔۔۔۔ ایک خاندان میں پہلے ایک ریڈیو ہوتا تھا ۔۔۔ اب ایک خاندان میں جتنے رکن اتنے آئی پیڈ یا گانوں والا موبائل۔

گانا سنتے سنتے بوڑھا اچانک اداس ہو گیا، جلد ہی اس کے چہرے پر ابھری خلش اور غصے کو دور سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ …نہ جانے کیا سوچ کر اس نے ہیڈ فون کو کانوں سے نکال دیا آئی پیڈ کو بھی زمین پر پٹ کر چکنا چور کر دیا۔ کوئی پاگل پن کا دور پڑا تھا اس پر۔ وہ ہنس رہا تھا، مگر اس کی آنکھیں نم تھی ۔۔۔ دل میں کیا جذبات تھے، یہ تو وہی جانتا تھا۔

ایک صبح لڑکی نے مکان خالی کر دیا۔ وہ کہیں اور چلی گئی ۔۔۔ اس کے صحافی دوست سے اس کا بریک اپ ہو گیا تھا — کیوں ہوا، اس کی صحیح وجہ دونوں میں سے کسی کو نہیں معلوم ہو سکی ۔۔۔ زندگی میں بہت سی وارداتوں کی اصلی وجہ ہم نہیں جان پاتے ۔۔۔ بس، اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کسی وجہ کو اس واقعے کے ساتھ کھڑا کر دیتے ہیں۔ – —

لڑکی نے وہ مکان خالی کرتے وقت کسی کو کچھ نہیں بتایا ۔۔۔ مگر جاتے وقت وہ رو رہی تھی ۔۔۔ جیسے پرانے زمانے میں مائکے سے سسرال جاتے وقت بیٹیاں بلکتی تھیں ۔۔۔ اس کی شادی طے ہو گئی تھی ۔۔۔

جس دن بوڑھے نے آئی پیڈ توڑا تھا ۔۔۔ اس رات وہ سو نہیں پایا ۔۔۔ کمرے کی بتیاں نہیں بجھائیں ۔۔۔ وہ پوری رات بچوں کی طرح پھپھک پھپھک کر روتا رہا تھا۔ اگلی صبح وہ بوڑھی عورت آئی۔ سردی کی دھوپ میں وہ اس بوڑھی کی گود میں سر رکھ کر روتا رہا، روتے روتے سو گیا۔ رات کو سویا بھی تو نہیں تھا، اس لئے گہری نیند آ گئی ۔۔۔ بوڑھی عورت نے اس کو جگایا نہیں۔ اس کے بالوں کو سہلاتی رہی، چار گھنٹے تک بوڑھا سوتا رہا۔ اس کے بھاری سر کے بوجھ کو وہ برداشت کرتی رہی ۔۔۔ بوڑھی کی جانگھ میں سوجن آ گئی ۔۔۔ درد بھی بے حساب ہو رہا تھا۔ اس رات دونوں نے کوئی قسم نہیں کھائی، کہیں کسی معاہدے پر دستخط نہیں کئے ۔۔۔ رسم و رواج کا کہیں دھواں نہیں اٹھا۔ لیکن خاص بات یہ ہوئی کہ اس رات وہ بوڑھی وہاں سے واپس نہیں گئی ۔۔۔ اور کبھی نہیں گئی ۔۔۔ بوڑھی نے گھر بدل لیا ۔۔۔ گھر بسا لیا، گھر بنا لیا ۔۔۔۔

لڑکی کے گھر چھوڑنے اور بوڑھی کے گھر بنانے کی واردات کو بھی کافی عرصہ گذر گیا۔ تقریباً دو سال۔ میں بھی ان واقعات کو بھولنے لگا تھا۔ ایک رات سپنے میں وہ لڑکی لوٹی اپنے شوہر کے ساتھ۔ یہ ان لڑکوں میں سے نہیں تھا جس سے وہ پیار کرتی تھی ۔۔۔ لڑکی خوش تھی ۔۔۔ کیا پتہ خوش ہونے کا ناٹک کر رہی ہو ۔۔۔ لڑکا خوش تھا کیونکہ مالک تھا۔ ایک بڑا بزنیس مین اس کی دولت میں ایک نئی پراپرٹی اس کی بیوی بھی درج ہو گئی تھی ۔۔۔ وہ لڑکی صحافی دوست کو اس کی کتاب لوٹانے آئی تھی ۔۔۔ کہانیوں کا مجموعہ ‘تیسری قسم عرف مارے گئے گلفام’۔ لڑکے نے ان کے سواگت میں سموسے منگوائے، کولڈ ڈرنک، جلیبی تینوں نے مل کر کھائے ۔۔۔

تینوں اس بوڑھے کے پاس پہنچے۔ بوڑھا اس وقت گملوں میں پانی ڈال رہا تھا، پانی دینے کے بعد وہ ان پودوں کو کچھ اس انداز میں سہلا رہا تھا، جیسے کوئی عاشق پورے پیار میں ڈوب کر محبوبہ کے ہونٹوں پر انگلی پھیر رہا ہو ۔۔۔۔

صحافی نے پہلے لڑکی کو دیکھا، پاس ہی کھڑی بوڑھی کی آنکھوں میں جھانکا، پر پھر پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا ‘بابا میں، آپ کو پچھلے سالوں سے دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ مجھے لگتا ہے آپ پیار کو جیتے ہیں میرا سوال اسی سے جڑا ہے کہ پیار ہے کیا ۔۔۔‘

‘پتہ نہیں بیٹے، اسے ہی تو ڈھونڈھ رہا ہوں ۔۔۔‘ بوڑھا بڑی معصومیت سے بولا اور بوڑھی کی آنکھوں میں ڈوب گیا ۔۔۔۔

ٹھیک اسی وقت چھت کی منڈیر پر نر مادہ کبوتروں نے چونچیں لڑائی ۔۔۔ اپنے گزرے زمانے میں چاند کی چاہت رکھنے والی محبوبہ اور اب طوائف بن چکی عورت نے اپنے بوڑھے خریدار کے سامنے ننگی ٹانگیں پھیلائیں ۔۔۔ بھوک سے تڑپ کر کسان نے خود کشی کی ۔۔۔ امریکی فوجی جمہوریت کی حفاظت کے لیے ایک سو ستائسویں دیش میں اترے ۔۔۔ آدی واسیوں کو نکسلی بتا کر پولس نے ڈھیر کیا ۔۔۔ اس ملک کا وزیر اعظم روبوٹ میں تبدیل ہو گیا اور 15 اگست کو جھنڈا لہرانے کے لیے لال قلعے کی فصیل سے ملک کو مخاطب کرتے وقت اس کے چہرے پر کوئی جذبات نہیں تھے ۔۔۔ پارلیامنٹ سب سے بڑی منڈی میں تبدیل ہو گئی ۔۔۔ وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیئے ۔۔۔ اور ان سب کے بیچ پیار کہیں دبکا تھا کسی خرگوش کی مانند۔ پاس ہی کہیں فیضؔ کی آواز فضا میں گونجی ‘اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سوا، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔۔۔‘

سپنا ٹوٹتا ہے  ۔۔۔ اپنی آنکھ بھینچتا ہوا میں کمرے سے باہر نکل کر چھت پر آ جاتا ہوں۔ دائیں والے مکان میں بوڑھا اب بھی پودوں کو پانی دے رہا ہے۔ بائیں والے فلیٹ میں صحافی لڑکا سگریٹ پی رہا ہے ۔۔۔ اور میں سوچنے لگتا ہوں پیار کے بارے میں۔ ایک گوریا ہے صدیوں سے دانہ چن رہی ہے ۔۔۔ ایک جوڑا کبوتر کھنڈر کی منڈیر پر چونچ لڑا رہا ہے ۔۔۔ ایک مانجھی اس پار جانے کے لیے پتوار چلا رہا ہے، ایک پرچھائی جو کبھی چھوٹی ہوتی ہے کبھی بڑی، ایک پیار جو حقیقت بھی اتنا ہی ہے جتنا فسانہ۔ بیگم اختر کی آواز ہے ‘اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا۔‘ گھنا نند کی پیر ’اتی سدھو سنیہہ کو مارگ ہے جہاں نیک سیانپ پر بانک نہیں ۔۔۔‘*

ان سب کے بیچ فیض کی گذارش ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔۔۔ !‘

*۔ رتی کال کے پرانے ہندی کوی گھنا نند (جو پریم کی پیر کے کوی کے طور پر مشہور ہیں) کے ان دو مصرعوں کا مطلب ہے ’پیار جا راستہ بالکل سیدھا ہے، یہاں سیانے پن اور چالاکی کی کوئی جگہ نہیں)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے